Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

Iam Very Sad by Irfan Siddiqui


An Islamic or secular Pakistan? By Dr. Safdar Mahmood

Pakistan My Heart by Hamid Mir

$
0
0

 Pakistan My Heart by Hamid Mir

Enhanced by Zemanta

Shah Doula's Rats By Ataul Haq Qasmi

$
0
0

Shah Doula's Rats By Ataul Haq Qasmi
Enhanced by Zemanta

پاکستانی قوم کی سوچ

بدلتی ہوئی دنیا میں طاقت کا تصور

$
0
0

والٹن پارک میں گزشتہ ہفتے طاقت کے مستقبل، طویل مدتی عالمی رجحانات اور چیلنجوں اور مواقع کا جائزہ لینے کیلئے ہونے والی کانفرنس میں پالیسی سازوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے مابین پرجوش تبادلہ خیال ہوا۔ کانفرنس نے طاقت کی فطرت کی بصیرت فراہم کی، جس کے عنوان میں 2040ء کے حوالے سے مستقبل کے سفر کی بابت خیالات پیش کئے گئے، جو اس بات کی انتظام کاری کے فرائض انجام دے گی کہ کس طرح مختلف طرز پر عالمی طاقتیں آئندہ برسوں میں تبادلہ خیال کریں گی۔کانفرنس میں زیر بحث آنے والے کچھ کلیدی نکات قابل خلاصہ ہیں کیونکہ اس میں عالمی رجحانات اور عالمی سطح کی انتظام کاروں کی نشاندہی موجود ہے جوکہ طاقت کی فطرت اور مستقبل قریب میں ممالک کے درمیان عالمی سطح پر طاقت کے تعلقات پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ یہ نکات مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ ایسے وقت میں جب دنیا میں غیرمعمولی تبدیلی رونما ہورہی ہے طاقت کا تصور مستقل تبدیلی سے ہمکنار ہے۔ 2۔ عالمی منظر نامے پر کئی نئے کرداروں کے ابھر کر سامنے آںے کے باوجود بین الاقوامی نظام میں ریاست ہی بنیادی کردار رہے گا۔ 3۔ ہوسکتا ہے کہ طاقت کے ذرائع مستحکم ہوں لیکن جس ماحول میں طاقت کا استعمال کیا جارہاہے بنیادی طور پروہ تبدیل ہورہا ہے۔ 4۔ طاقت کے آلات کو صورتحال کے مطابق ڈھالا جانا ہے۔ 5۔ ممالک کو موثر ہونے کیلئے عسکری طاقت اور معاشی طاقت کا جامع امتزاج وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ 6۔ معاشی طاقت ایک اہم آلۂ کار بن چکی ہے جس کے ذریعے ممالک بین الاقوامی نظام میں من مانی ترامیم کرتے اور اپنی رائے مسلط کرتے ہیں۔7۔ عالمی سطح پر امتیازی حیثیت کے حصول کیلئے عسکری و معاشی طاقتیں کافی نہیں بلکہ ریاستوں کو اس کارہائے عظیم کیلئے اہلیت کی بنیاد پر خاطر خواہاں کارکردگی بھی کر دکھانی ہوگی۔ 8۔ تخلیقی میدان میں کام نہ کرنے والے کا مستقبل میں زیادہ حصہ نہیں ہے۔9۔ اپنی رائے غالب کرنے یا منوانے کی اہلیت طاقت کا ایک اہم جزو ہے۔ 10۔ منفی طاقت بھی حالات و واقعات پر اثرانداز ہوتی ہے، اس سے مراد طاقت کا خلا اور پرتشدد کارروائیاں کرنے والے غیرریاستی جرائم پیشہ گروپوں کی جانب سے طاقت پر غلبہ ہے۔ 11۔ ریاستوں کی جانب سے شعوری بے اعتناعی یا طاقت کا استعمال نہ کرنا، بذات خود طاقت کی تحقیر ہے، جس سے ریاستیں اور حکومتیں اپنی قانونی حیثیت کھو بیٹھتی ہیں۔12۔ ایک فرضیت جوکہ ابھی تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچی وہ یہ ہے کہ ریاستوں کی بین الانحصاری بین الاقوامی معاملات میں قومی خودمختاری کی اہمیت کو کم کردے گی۔ طاقت قومی خودمختاری پر مصر رہنے میں مخفی ہے۔13۔ عالمی طاقت نظام کی تبدیلی کے باعث تغیر کی منازل طے کررہی ہے تاہم عالمی ادارے اب بھی پرانی دنیا کی عکاسی کررہے ہیں۔ان آراء کے دعوے سے یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ کس طرح طاقت تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں تغیر سے ہمکنار ہورہی ہے، ہمارے دور میں عالمگیریت مواقع کے دروازے کھول رہی ہے اور غیر یقینی صورتحال کمزوریوں کو جنم دے رہی ہیں۔ مختصراً دور حاضر کو وضع کرنے میں تین اہم رجحانات کی نشاندہی ہوئی ہے۔ ترقی پر مبنی ٹیکنالوجی کا ارتقاء اور طاقت کی ریاست سے فرد کو منتقلی۔ عالمی سطح پر طاقت کی بڑھتی ہوئی تقسیم کے علاوہ نظام کے جن رجحانات پر زور دیا گیا، ان میں آبادیاتی تبدیلی، آبی مسائل کا دباؤ، وسائل کے حصول کیلئے مسابقت اور عوامی توقعات اور حکومتوں کی اہلیت میں بڑھتا ہوا خلا شامل تھے۔ آج کے مسابقتی ماحول میں وہ ادارے جو چست نہیں تھے انہیں ڈائنوسار قرار دےکر ان کی مذمت کی گئی۔ اس کا اطلاق جتنا اداروں پر ہوتا ہے اتنا ہی ریاستوں پر بھی ہوتا ہے۔کانفرنس میں زیادہ تر بحث اس بات کے گرد گھومتی رہی کہ آیا دنیا کثیرالقطبی یا بے قطبی کی جانب گامزن ہے۔ کچھ شرکاء نے دلیل پیش کی مستقبل میں معاشی امتیازی کے تین مراکز ہوں گے، جن میں امریکہ، چین اور یورپی یونین شامل ہیں دیگر شرکاء نے چین اور امریکہ کے مابین طاقت کے توازن کو اہم رجحان گردانہ۔ اپنی باری پر میں نے یہ دلیل پیش کی کہ مغرب سے چین کی جانب طاقت کے انتقال کی رفتار میں تیزی آرہی ہے، اس عالمی سطح کی تبدیلی کی انتظام کاری کس طرح کی جاتی ہے یہ بین الاقوامی استحکام کا کلیدی جزو ہے، خاص طور پر جبکہ طاقت کی لامرکزیت کے زمرے میں ممالک کا اس بابت اندازہ لگایا جانا مزید مشکل ہوگا اور جہاں طاقت کے استعمال کرنے کے طریقے بھی زیادہ پیچیدہ ہوں گے دیگر شرکاء نے سوال اٹھایا کہ چین کے عروج سے کیا مطلب ہے۔ ایک مقرر نے کئی سخت مشاہدات پیش کئے کہ کس وجہ سے اکثر اس بابت ہونے والی گفت و شنید بے نتیجہ رہتی ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ چین اس حوالے سے کس طرح برتاؤ کرے گا؟ کیا یہ مغرب کی کوئی لاشعوری خواہش ہے کہ مغرب ایک غیرجمہوری ملک کو اپنے سے آگے نکلتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جبکہ مغرب خود پر شک کی آلودگی کا شکار ہے؟

انہوں نے پوچھا کہ آیا چین کے خوف اور مغرب کے جمہوری نمونے کی کمزوری کے مابین کوئی ربط ہے، جس کی نشاندہی سیاست میں شرکت کی دلچسپی کم ہونے سے ہوتی ہے۔ ایسے سوالات سے مغرب کی جانب سے چین کی طویل مدتی سوچ، منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کرنے کی اہلیت کیلئے بالواسطہ طور پر پسندیدگی کا اظہار ہے،جبکہ مغربی جمہورتیں جمود کا شکار اور زیادہ تر مخصوص مفادات کے رحم و کرم پر رہیں۔ کیا چین کا خوف اس کے رویّے یا مغرب میں امور کی انجام دہی پر تنقید ہے؟

کانفرنس کے ایک اور دور میں ایک مقرر کی جانب سے عالمی مستقبل کو وضع کرنے والی قوتوں کی نشاندہی کی گئی، جو تین نکات پر مشتمل تھی، 1۔ سرمایہ کارانہ نظام کے نقائص اور یہ حقیقت کے عالمگیریت ہمیشہ سب کیلئے سود مند ثابت نہیں ہوتی، 2۔ روایتی طاقت کے حامل رہنما تیزی سے اپنی اثرپذیری کھورہے ہیں کیونکہ نئے غیر ریاستی عناصر میں طاقت کے منقسم ہونے کے ماحول وضع ہوا ہے۔ جس کی عکاسی عوامی رائے عامہ کے جائزوں میں سیاسی رہنماؤں کی درجہ بندی میں ہونے والی کمی سے ہوتی ہے۔ 3۔ چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے موجودہ نظام کے نقائص اور کل کی دنیا کی انتظام کاری۔ کانفرنسوں کے زیادہ تر اجلاسوں میں افراد کے طاقتور ہونے، ریاست کی استعداد میں کمی اور توقعات اور طرزحکمرانی کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کے حوالے سے شرکاء نے لب کشائی کی۔ یونان سے ترکی اور برازیل تک دنیا بھر میں ہونے والے عوامی مظاہرے کا ذکر ہوا، تمام شرکاء نے حکومتوں کو اپنے شہریوں سے تعلقات دوبارہ استوار کرنے اور زیادہ موثر طور پر ان کے مطالبات ماننے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس نکتے پر اتفاق رائے ہوا کہ کثیرالقطبی دنیا میں کثیرالاقومی اداروں کو مستحکم کرنے اور ان کی ساخت کو بھی دوبارہ وضع کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس بابت بین الاقوامی اتفاق رائے کی کمی کے حوالے سے خدشات پر بھی تبصرہ کیا گیا۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کثیرالاقومی نظام کی موجودہ خامیوں کا تسلسل جاری رہے گا۔

جب میں نے یہ نشاندہی کی کہ بڑی طاقتیں اور ایک مرتبہ اہمیت اختیار کرنے والی اقوام عالمی اداروں کو قوت دینے کی مزاحمت کررہی ہیں تو اس پر مختلف ردعمل دیکھنے میں آئے جس میں کچھ مقررین کا اصرار تھاکہ عمومی عدم اتفاق رائے کو مورد الزام ٹھہرایا جانے چاہئے لیکن کسی نے بھی اس تخیل سے اختلاف نہیں کیا کہ دنیا ابھی بھی گزشتہ صدی کے ذہنی نقشوں پر کاربند ہوتے ہوئے چلائی جارہی جب عالمی انتظام کاری کیلئے مختلف طرزفکر اور زیادہ طاقتور ادارے درکار تھے۔ کچھ مقررین نے سوال اٹھائے کہ آیا علاقائیت کثیرالاقومی اتحاد کی خامیوں کو دور کرسکتا ہے لیکن پھر فوراً ہی اس بات پر اتفاق رائے ہو گیا علاقائیت کے کثیرالاقومی اتحاد کا متبادل بننے کا کوئی امکان نہیں۔ میں نے علاقائیت کے محدود ہونے کی نشاندہی کی کیونکہ مختلف خطوں کی مختلف استعداد ہوتی ہیں، مختلف خطوں میں علاقائی رقابتیں کارفرما ہورہی ہوتی ہیں، کسی بھی حال میں کئی مسائل کا حل علاقائیت میں نہیں ہے اور ان کے حل کیلئے عالمی سطح پر ہمہ گیر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عالمی سطح کے مسائل کیلئے عالمی سطح کے حل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بات پر اتفاق ہوا کہ عالمی سطح پر کوئی بھی طاقت تن تنہا مستقبل میں بین الاقوامی نظام کیلئے ضابطے وضع کرنے یا اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں خود کفیل نہیں ہے۔

یہاں تک کہ آج کی دنیا میں طاقتور ریاستیں کسی معاملے پر نہ تو کرسکتی ہیں لیکن ان کے پاس اپنی مرضی کے مطابق مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔ میں نے ریاست کی توجہ طاقت کے جائز استعمال کی جانب مبذول کرائی اور یہ کہ کس طرح یہ اس کی قابلیت پر اثر انداز ہوکر رائے عامہ کو دھوکہ دیتے ہیں یا اپنی خواہش کے مطابق اس کا نتیجہ حاصل کرتے ہیں۔ عراق میں فوجی مداخلت کی طرح جب طاقت کا استعمال قانون کے مطابق نہیں ہوتا تو اس کے نہ صرف سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں بلکہ اس کے باعث اختیار کا بحران بھی پیدا ہوجاتا ہے اور اپنے اس اقدام کی وجہ سے اس ملک کی حقیقت دنیا پر عیاں ہوجاتی ہے اور اس ملک کے طاقت کے دوبارہ استعمال کا اختیار بھی محدود ہوجاتا ہے۔ برطانوی دفتر خارجہ اور امریکی نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے اشتراک سے مختلف موضوعات پر ہونے والے تبادلہ خیال میں یہ بات توجہ کا باعث بنی کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا تبدیلی کی جانب گامزن ہے ہم اب طاقت کے استعمال پر زیادہ دیر تک انحصار نہیں کرسکتے۔ اگرچہ مستقبل کا یہ سفر تمام شراکت داروں کو ایک ہی منزل پر نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی ایسی توقع ہے تاہم یہ عمل اس لئے اہم ہے کیوں کہ ممکنات کے بارے میں سوچنا ہمیں انتخاب سازی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ بہرحال منزل تو موقع سے نہیں بلکہ انتخاب سے ملتی ہے۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ"

کاشغر۔گوادر کاریڈور کا خواب

$
0
0


ہمارے ایک شاعر نے کہا تھا

اک خواب سن لو کہ ہے عنوان خوشی کا

یہ قصہ تمہارا ہے نہ میرا نہ کسی کا

اور یہ خواب بھی نہیں ہے ایک تاریخی اور جغرافیائی حقیقت اور صداقت ہے کہ قدرتی طور پر پاکستان اپنے خطے اور ایشیا میں ایک ایسا وجود رکھتا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی کے ملکوں عوامی چین اور ہندوستان کے درمیان، افغانستان اور وسط ایشیا کی ریاستوں کا برآمدہ اور درآمدہ بن جاتا ہے جو ’’کاشغر گوادر کاریڈور‘‘ کہلاتا ہے اور یہ کاشغر گوادر کا ریڈور درخشاں اور بہتر مستقبل کا خواب اور نوید ہے اور خوشی کا عنوان بن سکتا ہے۔

پاکستان میں چین کے سفیر نے فرمایا ہے کہ چین کے کاشغر سے پاکستان کے گوادر تک پھیلے ہوئے کاشغر گوادر تجارتی برآمدے سے پورے خطے میں تجارتی سرگرمیاں بڑھنے سے ترقی، خوشحالی اور امن پھیلے گا۔ چینی سفیر نے یہ بیان پاکستان کے ایوان صنعت و تجارت کی فیڈریشن سے خطاب میں دیا اور یہ بھی کہا کہ تجارت اور معاشی تعلقات عوامی چین اور پاکستان کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور عوامی چین کی اہم ترین ترجیحات میں شامل ہیں۔جیسا کہ پاکستان میں چین کے سفیر نے کہا ہے گزشتہ سال چین کے وزیراعظم نے پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات میں اس موضوع پراہم مذاکرات کئے ہیں اور باہمی تجارت کے فروغ کی کوششوں پر خصوصی توجہ دی ہے۔ یہ کاریڈور پورے علاقے اور خطے میں ترقی، خوشحالی کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کرے گا جس سے تمام ایشیائی ممالک فیض یاب ہوں گے۔اس موقعہ پر ایوان ہائے تجارت و صنعت کی فیڈریشن کے صدر زبیر احمد ملکانے فرمایا کہ یورپی یونین کی جانب سے GSP ملنے کے باوصف کاشغر گوادر کاریڈور کی تجارتی اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی بے پناہ گنجائش ہے اور یہ گنجائش وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی رہے گی۔ اس وقت چین اور پاکستان کے درمیان باہمی تجارت میں اضافہ ہورہا ہے اور مزید اضافے کی توقع ہے۔

یہ باہمی تجارت اگلے سال 2015ء تک 15 ارب ڈالروں سے کہیں زیادہ تجاوز کر جائے گی۔کاشغر گوادر کاریڈور کی سرگرمیوں میں اضافہ کرنے کے لئے ریلوے کے نظام کی فراہمی کی تجویز بھی ہے یہ توقع بھی ظاہر کی جاتی ہے کہ پاکستان کی موٹر وے پر تجارتی سرگرمیاں بمپر ٹو بمپر ٹریفک کے تجربے سے گزرے گی اور تجربہ اس سارے علاقے میں خوشحالی، امن، بہتات اور فراوانی کے حالات کو جنم دے گا۔جن لوگوں کو ٹیلی ویژن پلے ’’دشت‘‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے وہ جانتے ہوں گے کہ ہم نے برسوں پہلے اس کھیل میں اس متوقع خوشحالی، بہتات، فراوانی اور امن کا ذکر کیا تھا اور ایک ہلکی سی جھلک بھی دکھائی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ برصغیر ہندو پاکستان دو براعظموں کے ٹکرانے سے وجود میں آیا تھا ہندوستان صدیوں پہلے سمندر میں تیرتا ہوا سلسلہ ہائے کوہ ہمالیہ کی دیوار سے آن ٹکرایا تھا۔ آغا خان رورل سپورٹس پروگرام کے ادارے نے دو براعظموں کے وصال کے مقام پر ایک بورڈ بھی آویزاں کر رکھا ہے۔ اس وصال کی وجہ سے گوادر کا علاقہ سمندر سے باہر نکل آیا تھا اور وہاں کی جغرافیائی ساخت اس کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔یقینی بات ہے کہ کاشغر گوادر کاریڈور کی تجارتی سرگرمیاں محض تجارت تک ہی محدود نہیں رہ سکیں گی۔ تجارتی تعلقات علم و فضل کے تعلقات، پیار محبت کے رشتوں اور ایک دوسرے کے تجربات سے آگہی کو بھی فروغ دیں گے اور تجربات سے آگہی کے فروغ سے بڑی ترقی اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ ہمارے مرحوم دوست جاوید شاہین نے کہا تھا؎

روک لیتا ہوں اگر گرنے لگے دیوار خواب

خواب کے اندر کہیں پر جاگتا رہتا ہوں میں

خواب دیکھنے سے زیادہ اہم خواب کے اندر جاگتے رہنے ہوتا ہے جو خوابوں کے ساتھ ان کی تعبیروں کے عمل کو بھی زندہ رکھتا ہے۔ خواب اور ان کی تعبیروں کا عمل زندگی کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔


بشکریہ روزنامہ 'جنگ

Gwadar Port 

Enhanced by Zemanta

فیصلہ کن مرحلہ

$
0
0

ہم بھی کتنے سادہ بلکہ احمق ہیں کہ جوچیزیں اظہر من الشمس ہیں ، ہم ان کے بارے میں بھی مغالطے کا شکار ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ان بزنس مینوں کو سیاست دان کہنا ایسے ہی ہے جیسے مٹی کو سونا یا پتھر کو گہر یا پھر ڈگمگاتے ہوئے کمزور قدموں کو مارشل آرٹس چیمپئن کے پینترے اور دائو قرار دے دیا جائے۔

اب فوج اور اخبار کے قارئین اور حالات پر نظر رکھنے والے افراد کے دل میں مذہبی انتہاپسندی کے اُس خطرے کا احساس جاگزیں ہوچکا جو پہلے افغان جہاد کا شاخسانہ ہے تاہم خاطر جمع رکھیں، اگر ہمارے حکمرانوں کا دماغ ان معاملات کا جائزہ لینے کے بنا ہی نہیں تو پھر گلہ کس سے۔ میں یہاں اُن چیزوں کی فہرست نہیں بنارہا ہوں جن پر وزیرِ اعظم کی فوری بلکہ ہنگامی، توجہ مرکوز ہے کیونکہ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟ ظاہر ہے کہ جب فسادی طاقتیں آتش و آہن کی بارش سے فوج کے جوانوں اور نہتے شہریوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہیں اور خون آشام درندے معاشرے کی رگ ِ جاں کاٹ دینے کے درپے ہیں تو راولپنڈی سے اسلام آباد اور پھر اس سے آگے مظفر آباد تک ریلوے لائن بچھانا، کراچی سے لاہور اور گوادر سے خدا جانے کہاں تک موٹروے مع جنگلہ بنانا، استنبول تک ریلوے ٹریک بچھانا، راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان میٹرو بس سروس شروع کرنا اور راوی کے دونوں طرف لاہور میں ان گنت ترقیاتی منصوبے ہی ان حکمرانوں کی اولین ترجیح ہو سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے مارگلہ پہاڑیوں میں سے سرنگ گزارنے کا ذہنی منصوبہ پائپ لائن میں تھا۔

ان منصوبوں کے بارے میں سن کر گمان یہ گزرتا ہے کہ شاید یہ مہاتیر محمد کا ملائیشیا یا کیمونسٹ پارٹی کا چین ہے جہاں اگلے پچاس سال کے دوران طے پانے والے منصوبوں کی پیش بندی کی جارہی ہے۔ زیادہ لفاظی کی ضرورت نہیں، ہمیں جن اہم ترین مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ طالبان، امن و امان کی صورتِ حال، صحت کی سہولتیں اور تعلیم کا گرتا ہوا معیار۔ اگر ہم پہلے ان مسائل سے نمٹ سکیں تو پھر مطمئن ضمیر اور کشادہ دلی کے ساتھ اپنے تخیلات کی سنہری سرزمین پرنیا رومانوی سمرقند بسا سکتے ہیں۔ اس وقت جو مسئلہ پاکستان کے لئے دردِ سر بنا ہوا ہے وہ طالبان ہیں۔ اگر شریف برادران کے ذہن پر برق رفتار ٹرینوں اور اوور ہیڈ پلوں کے خاکےگردش نہ کررہے ہوں ... یہ منصوبے بھی اہم ہیں اور یقیناً وقت آنے پر ان کو پایہ ٔ تکمیل تک پہنچایا جائے (لیکن جب پائوں میں کانٹا چبھا ہو تو ہم اسے نکالے بغیر نئے جوتے خریدنے نہیں چلے جاتے)... تو وزیراعظم کا دفتر اور جی ایچ کیو دیگر تمام معاملات کو پس ِ پشت ڈالتے ہوئے طالبان کی طرف سے آنے والی تازہ ترین پیشکش پر توجہ دیں اور دیکھیں کہ ہمارا واسطہ کتنے زیرک اور یکسو دشمن سے ہے۔ طالبان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد نے کہا کہ ان کی طرف سے کی جانے والی امن کی پیشکش حقیقی ہے اور اب حکومت نے سنجیدگی دکھاتے ہوئے مذاکرات کے لئے ماحول پیدا کرنا ہے۔ اس سے پہلے ہمارے وزیر ِداخلہ، جن کی باتوں کو اب کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا، مناسب ماحول پیدا کرنے کے لئے بہت سی کوششیں کر چکے ہیں۔ ہم نے امن کی منتیں کرنے کے لئے بہت سے نامعلوم قاصدوں کو نامے دے کر بھیجنے کے دعوے کئے ہیں... دعووں میں تو کسر نہیں چھوڑی ہمارے وزیر ِداخلہ نے لیکن جہاں عملی اقدامات کا خانہ خالی ہے۔

معاملہ یہ ہے کہ ہم ہوا میں تیر کیوں چلا رہے ہیں جبکہ ہمارا دشمن ہمارے سامنے آتشیں ہتھیاروں سے لیس ہو کر ہم پر حملہ آور ہو رہا ہے ؟ اس دوٹوک صورتِ حال میں کسی نام نہاد ’’اسٹیک ہولڈر‘‘ سے بات کرنے یا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کی نہیں بلکہ جان لینے پر آمادہ دشمن کی کمر توڑنے کے لئے اس پر کاری ضرب لگانے کی ضرورت ہے۔ اے پی سے، پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا، ان کیمرہ بریفنگ وغیرہ وقت ٹالتے ہوئے کچھ نہ کرنے کے بہانے ہوتے ہیں۔ یہ بات بہت سوں کو معلوم ہے کہ موجودہ وزیرِاعظم کو توجہ مرتکز کرنے کا مسئلہ درپیش رہتا ہے اور وہ معاملات، جن سے ان کا مفاد وابستہ نہیں ہوتا، وہ ان کی توجہ کے دائرے سے باہر رہتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ جب وہ پارٹی میٹنگز میں ہوتے ہیں تو وہ گھنٹوں نوٹس لیتے رہتے ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ جہاں ان کو اپنا مفاد ہوتا ہے وہ توجہ دے سکتے ہیں۔ اس وقت طالبان کا معاملہ ان کی توجہ کا متقاضی ہے۔ اب معاملہ نہایت آسان ہے۔ فوج کو فائر بند کرنے کا حکم دیا جائے، حکومت روایتی مولانا حضرات کو بیچ میں شامل کئے بغیر بااختیار ٹیم تیار کرے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں۔ جنگ بندی کرنے کے عمل کو اعتماد سازی، جیسا کہ طالبان کا تقاضا ہے، کے لئے کافی سمجھا جائے تاہم اگر طالبان اس کے علاوہ کچھ اور تقاضا کریں اور حکومت اور فوج کے ساتھ کھیل کھیلنے کی کوشش کریں تو حکومت ان کوخوش کرنے کی مزید کوشش نہ کرے۔ فی الحال مذاکرات کی تمام باتیں بے معنی باتیں ہی ہیں۔ اب طالبان نے خود پیشکش کرتے ہوئے حکومت کو موقع فراہم کیا ہے چنانچہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ کسی قطعی نکتے پر پہنچا جا سکے۔ اس سے طالبان کی آزمائش بھی ہو جائے گی کہ کیا وہ مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہیں یا نہیں تاہم ان باتوں کے کھیل میں وقت ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ اس پیشکش کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے تین شرائط پوری کرنا ضروری ہے۔


پہلی یہ ہے کہ وزیر داخلہ کو اس معاملے سے جتنا دور رکھا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جس معاملے میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں اُس کی ناکامی میں کسی شبے کی گنجائش نہیں رہتی۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وزیر اطلاعات سے کہا جائے کہ وہ اپنے بیان بازی کے شوق کو قدرے لگام دے کر رکھیں۔ تیسری شرط یہ ہے کہ وزیراعظم کے دفتر کے تمام لاہوری ایڈیشنل سیکرٹریوں کو اس معاملے میں مداخلت کرنے سے روکا جائے۔ ان ایڈیشنل سیکرٹریوں میں سے ایک کا خطاب مجھے بھی سننے کا موقع ملا جب میں اسٹاف کالج میں لیکچر دینے گیا۔ اس نے شاید آئزن ہاور یا ریگن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر نے انسداد ِ دہشت گردی کی پالیسی تو بنائی لیکن اُنہیں یہ علم نہ تھا کہ ان کا دشمن کون ہے پھر اس نے کہا کہ ہم بھی اسی الجھن میں گرفتار ہیں کہ ہمارا دشمن کون ہے۔


ایسے دانائوں کو جتنا دور رکھا جائے اتناہی بہتر ہے۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمٰن، مولانا سمیع الحق اور عمران خان کو بھی اس معاملے میں زحمت نہ ہی دی جائے تو بہتر ہے۔ صرف نوازشریف، آرمی چیف، شہباز شریف(جن کے بارے میں امید کرنی چاہئے کہ وہ ڈرون حملوں کو دہشت گردی کی وجہ قرار دینے سے باز رہیں گے اور اگر وہ اسی دوران بلٹ ٹرین چلانے سے بھی کچھ دیر کے احتراز کر سکیں تو بہتر ہوگا)ہوں اور وہ نہایت آسان زبان میں طالبان سے کہیں ہم نہایت خلوص ِ نیت سے بات چیت کرنے آئے ہیں اور طالبان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے تمام فوجی آپریشن روک دیا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کا جواب سنیں۔ اگر ان کی طرف سے کسی مثبت ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے تو بہتر اور اگر اب بھی وہ سدھرنے کے لئے تیار نہیں تو پھر اُنہیں نتائج بھگتنا ہوں گے۔ ایسا کرنے میں کم از کم حکومت اتمام ِ حجت کرچکی ہوگی۔ اس کے بعد طالبان کی طرف سے دکھائی جانے والی جارحیت سے ’’پرامن مذاکرت ‘‘ کی مالا جپنے والے گروہ کو بھی عقل آچکی ہوگی (اگر آنی ہوئی)۔ اُس وقت تک عوامی رائے بھی واضح ہوچکی ہوگی۔ چنانچہ طالبان نے پیشکش کرتے ہوئے حکومت کی مشکل آسان کردی ہے۔ اس معاملے کو اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نمٹ جانا چاہئے۔

ایاز امیر


بشکریہ روزنامہ "جنگ"

Enhanced by Zemanta

امریکی امداد شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط

$
0
0


پاکستان میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی سی آئی اے کے لئے جاسوسی کرنے اور ایبٹ آباد آپریشن میں اہم کردار ادا کرنے کی بنا پر ایک ’’غدار‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے جس کا نام ذہن میں آتے ہی 2 مئی 2011ء کے اُس سیاہ دن کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جب امریکی افواج نے ملکی سرحدوں کی پامالی کرتے ہوئے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں آپریشن کیا تھا۔ امریکہ آج کل ایک بار پھر اپنے ’’محسن‘‘ کی رہائی کے لئے سرگرم ہے، اس سلسلے میں پاکستان پر دبائو بڑھانے کیلئے امریکی کانگریس نے 2014ء میں مختص کئے گئے بجٹ میں پاکستان کو دی جانے والی امداد میں سے 3 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی رقم شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کرکے بل کی کثرت رائے سے منظوری دے دی ہے جس کی امریکی صدر اوباما نے بھی توثیق کردی ہے۔ بل کے مسودے کے مطابق پاکستان کو یہ امداد اُس وقت تک جاری نہیں کی جائے گی جب تک وہ شکیل آفریدی پر امریکہ کی مدد کرنے سے متعلق لگائے گئے الزامات واپس لے کر اُسے رہا نہ کردے۔ یہ پہلا موقع نہیں بلکہ اس سے قبل بھی امریکہ شکیل آفریدی کی رہائی کا معاملہ امریکی کانگریس اور عالمی میڈیا میں وقتاً فوقتاً اٹھاتا رہا ہے جبکہ امریکی انتظامیہ، پاکستانی حکام سے ملاقاتوں میں بھی شکیل آفریدی کو رہا کرنے کے لئے دبائو ڈالتی رہی ہے۔ واضح ہو کہ اکتوبر 2013ء میں وزیراعظم میاں نواز شریف کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر اوبامہ اور ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ نے وزیراعظم پر زور دیا تھا کہ وہ شکیل آفریدی کو رہا کردیں جبکہ اس سے قبل کچھ امریکی سینیٹرز شکیل آفریدی کو امریکی شہریت دینے کی بھی سفارش کر چکے ہیں۔

یاد رہے کہ شکیل آفریدی کو 2 مئی 2011ء کو اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں ہونے والے امریکی آپریشن کے 20 دن بعد پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے پشاور کے علاقے حیات آباد سے گرفتار کیا تھا۔ شکیل آفریدی پر الزام ہے کہ اُس نے اسامہ کی تلاش کے لئے سی آئی اے کی ایماء پر ایبٹ آباد میں ویکسین کی ایک جعلی مہم شروع کی کیونکہ امریکہ آپریشن سے قبل اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں واقع کمپائونڈ میں موجودگی کی تصدیق چاہتا تھا جس کیلئے اسے کمپائونڈ میں رہائش پذیر افراد کا ڈی این اے درکار تھا۔ اس مقصد کیلئے امریکی سی آئی اے نے خیبر ایجنسی میں شعبہ صحت کے انچارج ڈاکٹر شکیل آفریدی کی خدمات حاصل کیں جس نے ڈی این اے کے حصول کے لئے علاقے میں جعلی ویکسی نیشن مہم چلائی اور اس کی آڑ میں کچھ لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کو اسامہ کے کمپائونڈ میں بھیجا جو وہاں موجود افراد کے ڈی این اے لینے میں کامیاب ہو گئیں۔ امریکی سی آئی اے نے اس مشن کیلئے شکیل آفریدی کو بھاری رقم ادا کی اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا کہ جلد ہی اسے فیملی سمیت امریکہ بلالیا جائے گا۔ شاید اس راز پر پردہ ہی پڑا رہتا اگر ایبٹ آباد آپریشن کے بعد لیڈی ہیلتھ وزیٹرز جنہیں شکیل آفریدی نے جعلی ویکسی نیشن مہم کیلئے اسامہ کے کمپائونڈ میں بھیجا تھا، کو اصل حقیقت کا علم ہوا تو انہوں نے شکیل آفریدی سے انہیں اس مہم میں استعمال کرنے اور اصل حقیقت چھپانے پر ناراضی کا اظہار کیا جس کے بعد یہ حقیقت ایجنسیوں پر آشکار ہوئی اور شکیل آفریدی کی گرفتاری عمل میں آئی جس نے اپنے جرم کا اقرار کیا۔ واضح ہو کہ سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر لیون پنٹا بھی اس بات کا اقرار کرچکے ہیں کہ شکیل آفریدی نے سی آئی اے کو ایسی معلومات دیں جو ایبٹ آباد آپریشن کے لئے مددگار ثابت ہوئی۔ بعد ازاں شکیل آفریدی پر شدت پسندوں کے ساتھ روابط اور غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں سے تعلقات رکھنے اور انہیں اطلاعات فراہم کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا اور خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ نے اسے 33 سال قید اور 3 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی لیکن حکومت اس مقدمے کی سماعت دوبارہ کررہی ہے کیونکہ شکیل آفریدی کے وکلاء کا کہنا تھا کہ عدالت کے سابق جج نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ حکومت پاکستان کا شروع دن سے یہ موقف رہا ہے کہ شکیل آفریدی پر انصاف حاصل کرنے کے لئے عدالت کے راستے کھلے ہوئے ہیں۔

شکیل آفریدی آج کل پشاور جیل میں سزا بھگت رہا ہے۔ سخت سیکورٹی کے باوجود کچھ عرصے قبل پاکستانی ایجنسیوں کو بدنام کرنے اور شکیل آفریدی کو دنیا میں ہیرو کے طور پر پیش کرنے کے لئے اسی جیل سے شکیل آفریدی کا ایک انٹرویو غیر ملکی میڈیا میں منظر عام پر آیا اور انٹرویو نشر کرنے والے امریکی فاکس نیوز کے نمائندے ڈومینک ڈی نٹیلی نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے یہ انٹرویو شکیل آفریدی سے پشاور جیل میں کیا تاہم بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ شکیل آفریدی سے یہ مبینہ انٹرویو موبائل فون کے ذریعے لیا گیا تھا جس میں شکیل آفریدی نے آئی ایس آئی پر بے بنیاد الزامات لگاکر اسے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ انٹرویو میں شکیل آفریدی نے بتایا کہ اسامہ کی ہلاکت کے بعد امریکہ نے اُسے فیملی سمیت افغانستان فرار ہونے کا مشورہ دیا تھا تاہم اِس نے اُس وقت اِس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے بعد اسے گرفتار کرکے اسلام آباد کے علاقے آبپارہ میں واقع خفیہ ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر میں رکھا گیا، دوران تفتیش اس پر تشدد کیا گیا اور کہا گیا کہ اس نے آئی ایس آئی کے سب سے بڑے دشمن امریکہ کی مدد کی ہے کیونکہ آئی ایس آئی امریکہ کو اپنا بدترین دشمن مانتی ہے۔ مذکورہ انٹرویو میں شکیل آفریدی نے مزید کہا کہ جہادیوں کے خلاف جنگ کا نعرہ ایجنسیوں کی امریکہ سے پیسے بٹورنے کی ایک چال ہے۔ شکیل آفریدی نے مزید کہا کہ اسے سی آئی اے کیلئے کام کرنے پر فخر ہے۔ جیل سے لئے گئے شکیل آفریدی کے اس انٹرویو کے باعث حکومت اور ایجنسیوں کو خفت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ حکومت ہمیشہ یہ دعوے کرتی رہی ہیں کہ شکیل آفریدی کو انتہائی سخت سیکورٹی میں رکھا گیا ہے۔

پاکستان پر شکیل آفریدی کی رہائی کے لئے امریکی دبائو میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ امریکہ کا موقف ہے کہ شکیل آفریدی نے ایک عالمی دہشت گرد اسامہ بن لادن جسے پاکستان بھی دہشت گرد تسلیم کرتا تھا، کو گرفتار کرانے میں اس کی مدد کی، اس لئے شکیل آفریدی کا یہ اقدام قابل ستائش ہے جو کسی جرم کے زمرے میں نہیں آتا لیکن حکومت پاکستان کا یہ موقف ہے کہ اگر شکیل آفریدی کو اسامہ بن لادن کے بارے میں کچھ معلومات تھیں تو وہ ان سے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کو آگاہ کرتا نہ کہ غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ سودے بازی کرتا، اس طرح شکیل آفریدی کا یہ اقدام ملکی آئین و قانون کے خلاف ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شکیل آفریدی کی چلائی گئی جعلی ویکسی نیشن مہم کے نتیجے میں پولیو مہم شدید متاثر ہوئی اور لوگوں کا پولیو مہم پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔

جس کے نتیجے میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح سے شکیل آفریدی کو پاکستان سے رہائی دلا کر دنیا کو یہ پیغام دے کہ وہ اپنے ایجنٹوں اور وفاداروں کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ امریکہ کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے دشمن اور مخبر کو ہیرو بناکر پیش نہ کرے کیونکہ اس کے اس رویّے سے اس کے خلاف مخالفانہ جذبات میں اضافہ ہورہا ہے اور امریکی امداد کو شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کرنے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات جو پہلے ہی کشیدگی کا شکار ہیں، اس میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ قوم اس طرح کی شرائط اور دبائو کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت تصور کرے گی۔ ہمیں ان خدشات کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ طالبان جنگجوئوں کے بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جیلوں پر حملے اور سیکڑوں ساتھیوں کو چھڑا لے جانے کے بعد اس بات کا بھی امکان ہے کہ القاعدہ اور طالبان کے جنگجو پشاور جیل پر حملہ آور ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ شکیل آفریدی کو ایک غدار اور امریکی سی آئی اے کا جاسوس ایجنٹ تصور کرتے ہیں جبکہ اسی جیل میں کالعدم تنظیم کے سربراہ صوفی محمد بھی قید ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ صورتحال پاکستان کیلئے مزید ہزیمت اور پریشان کن ہو گی۔ شاید انہی خدشات کے مدنظر کچھ روز قبل سینٹرل جیل میں شکیل آفریدی کی سیکورٹی پر مامور ایلیٹ فورس کے 20 اہلکاروں پر مشتمل عملے کو اچانک تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہاں اس بات کو بھی بعید از اخراج قرار نہیں دیا جاسکتا کہ امریکہ اپنے ’’ہیرو‘‘ کو پشاور جیل سے نکالنے کیلئے ایبٹ آباد جیسی دوسری مہم جوئی کی حماقت کر بیٹھے، اس لئے شکیل آفریدی جیسے قوم کے غدار کو جلد از جلد عبرت ناک انجام تک پہنچانا ہی قوم کے مفاد میں بہتر ہو گا۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ"

Enhanced by Zemanta

Justice and only Justice

Mass Graves in Balochistan and Pakistan Media

$
0
0

 Mass Grave in Balochistan and Pakistan Media

کیا بسنت مسلمانوں کا تہوار ہے؟

$
0
0


  پنجاب کے وزیر کھیل رانا مشہود احمد نے میڈیا پر آکر کہا ہے کہ اس برس تو بسنت چھانگا مانگا میں ہوگی اور اگلے برس لاہور میں منائی جائے گی۔ بسنت منانے کا یہ فیصلہ بظاہر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے راہنما اور صوبائی وزیر کا ہے، لیکن یہ رانا مشہود کا نہیں بلکہ پنجاب حکومت کا فیصلہ ہے جس کے وزیراعلیٰ شہباز شریف ہیں جو خود کو خادم اعلیٰ پنجاب کہلواتے ہیں اور جو جناح کیپ پہن کر اسلام اور پاکستان کے لیے ملّی و قومی جذبات کا پُرجوش اظہار کرتے ہیں اور خود کو تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کا ادنیٰ کارکن سمجھتے ہیں۔

وزیر موصوف بتائیں کہ بسنت مسلمانوں کا تہوار ہے یا ہندوئوں کا؟ پتنگ بازی مسلمانوں کی کون سی تہذیب و ثقافت پر مبنی کھیل ہے؟ ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویزمشرف کے دورِ حکومت میں نیا نعرہ سامنے آیا تھا ’’روشن خیال پاکستان‘‘۔ اس کی آڑ میں پاکستان کی اسلامی، معاشرتی، اخلاقی اور سماجی اقدار کی دھجیاں اڑائی گئیں، بسنت نائٹ کے نام پر بے ہود گی کے کلچر کو فروغ دیا گیا، رقاصائوں سے ڈانس کرواکر ماں، بہن، بیٹی کی عزتوں کا جنازہ نکالا گیا۔ اُس وقت پاکستان مسلم لیگ(ن) بھی سراپا احتجاج تھی کہ یہ بے غیرتی ہے، بسنت کا ہماری اسلامی اقدار اور ثقافت سے کوئی تعلق نہیں۔ آج پاکستان مسلم لیگ (ن) مرکز اور پنجاب میں مکمل حکومت میں ہے، آج اس کی غیرت کہاں کھو گئی ہے! رانا مشہود صاحب بسنت اور پتنگ بازی سے سینکڑوں افراد،معصوم بچے،بچیاں ،بوڑھے،جوان،اپنی جانوں سے گئے، سینکڑوں زخمی ہو کر عمر بھر کے لیے معذور ہوگئے۔ہمیں یاد ہے کہ آپ کی پارٹی کے راہنما اور آپ خود بھی دھاتی ڈور سے گلا کٹ جانے والے افراد کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوتے تھے اور احتجاج بھی کرتے تھے۔راج گڑھ کا شایان جس کی عمر 5 برس تھی، اس کی گردن کٹ کر اس کے والد کی گود میں آگری تھی۔ یہ آپ کا حلقہ انتخاب بھی ہے، آپ کو خوب یاد ہوگا۔ اُس وقت تو اس معصوم بچے کی موت پر آپ کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ کچھ عرصہ قبل پہلے یوتھ فیسٹول کے انعقاد کے سلسلے میں آپ نے شاہی قلعہ کے سامنے حضوری باغ میں تقریب منعقد کی تھی،  ۔ رانا مشہود صاحب حضوری باغ کے سامنے بادشاہی مسجد اور مسجد کے بائیں جانب حکیم الامت علامہ اقبالؒ کا مزار ہے،  ۔ مسلم لیگ نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ وطن پاکستان حاصل کیا تھا اور آج آپ مسلم لیگ اور دو قومی نظریے کو اپنے غلط اقدامات کے ذریعے پائوں تلے روند رہے ہیں! آپ برملا اظہار کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کو قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کا ملک بنائیں گے، اور آج بسنت کا اعلان کرکے دو قومی نظریے اور بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبالؒ کی روحوں کو تڑپا رہے ہیں!

 
Enhanced by Zemanta

Well Done Mian Nawaz Sharif by Javed Chaudhry

Peace Talks, Last Chance for Peace by Tariq Butt

$
0
0

 Peace Talks, Last Chance for Peace by Tariq Butt

Enhanced by Zemanta

امن مذاکرات اور بہتر کے لئے امید


We all are responsible for corruption in Pakistan

$
0
0


















 We all are responsible for corruption in Pakistan

Enhanced by Zemanta

The Destination of Peace by Abid Tihami

$
0
0
 


 The Destination of Peace by Abid Tihami

ہماری ریاست ناکام نہیں بیمار ہے

$
0
0

ہمارے ایک سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ، سینیٹر،دانشور اور مبصر جاوید جبار آغاز خان یونیورسٹی کے سیمینار سے خطاب میں بتاتے ہیں کہ پاکستان ناکام Failingریاست نہیں بیمارAilingریاست ہے۔ ان کے مطابق سعودی عرب ،ویٹی کن سٹی، اسرائیل، نیپال اور مالدیپ بھی مذہبی ریاستیں ہیں مگر پاکستان ان سب سے بہت مختلف ہے۔ ہمارے ہاں کو ئی پوپ جیسی مذہبی قیادت نہیں ہے،پاکستان میں مسلمانوں کا نیپال کے ہندوئوں جیسا کوئی یک جہتی والا وجود بھی نہیں ہے اور مالدیپ جیسی سنی مسلمانوںکی کوئی وحدت بھی نہیں ہے۔ ہم ایک مخصوص اور منفرد قسم کا انوکھا وجود رکھتے ہیں جو ایک خطے کے مختلف علاقوں کو ملانے سے ’’پاکبازوں کی سرزمین‘‘ کے نام پر وجود میں لایا گیا۔ پاکستان ایک اچھوتے، منفرد، شاندار مگر انوکھے تصور کے تحت وجود میں آیا جو دو ایسے حصوں پر مشتمل تھا جس کے درمیان اور اطراف میں مخالف نظریات رکھنے والا ملک موجود تھا۔ نظریے اور فلاسفی کی ہم آہنگی اس ناقص تصور پر قابو پاسکتی تھی مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔

جاوید جبار نے کہا کہ قیام پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ ملک دس ہفتوں کے نوٹس پر وجود میں لایا گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی حکومت یہاں سے نکل جانا چاہتی تھی چنانچہ اس نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو یہاں بھیجا اور انہیں اٹھارہ مہینوں کا مینڈیٹ دیا گیا جبکہ وہ خود اس سے بھی زیادہ جلدی میں تھے اور جاپان کی شکست کی دوسری سالگرہ میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور ان کی یہ عجلت برصغیر میں انسانی تاریخ کی خوفناک ترین خون ریزی کی ایک بڑی وجہ بنی۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کو ڈاکٹروں نے زندگی کا صرف ایک سال کا وقفہ دیا تھا۔ قائد اعظم جو یہ سمجھتے تھے کہ کلکتہ کے بغیر پاکستان، دل کے بغیر انسان کے موافق ہوگا جو کہ ممکن نہیں ہوسکتا مگر انہیں چودہ یا پندرہ اگست1947ء تک کلکتہ کے بغیر پاکستان کو قبول کرنا پڑا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن کی انا کو سکون دینے والی یہی تاریخیں تھیں جو جاپان کے ہتھیار ڈالنے کی دوسری سالگرہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ جاوید جبار کے مطابق ہم پاکستانی مذہبی اور لسانی وحدت رکھنے والی قوم نہیں ہیں، ہماری قومی نوعیت روحانی ہے اور روحانی قومیں سینکڑوں سالوں کے روحانی عمل سے وجود میں آتی ہیں جبکہ ہم کل اور پرسوں کے خواب دیکھنے والے لوگ ہیں۔ جاوید جبار کا کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ انڈیا کی ایک تاریخ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تاریخ علاقے کی ہوتی ہے چنانچہ انڈیا بھی1947ء کے بعد ایک نئے ملک کے طور پر پاکستان کی طرح وجود میں آیا بطور ایک نئے ملک کے لیکن انڈیا نے بہت سی جہتوں میں وسعت پائی جن میں جمہوریت بھی شامل تھی۔ انڈیا نے1948ء میں حیدرآباد کی ریاست پر قبضہ کیا اور اس کے علاوہ548 ریاستوں اور راجواڑوں کو اپنی ریاستی تحویل میں لینے اور قبضہ کر لینے میں واضع فرق ہے۔ تحویل میں لینے والے جسموں کے علاوہ دلوں اور دماغوں تک بھی رسائی حاصل کرتے ہیں اور انڈیا نے یہ فریضہ ادا کیا

پاکستان نے 1972 ء میں پنجاب، سندھ، سرحدی صوبے اور بلوچستان کو ایک یونٹ کی شکل دینے کی کوشش کی چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی ریاست کو وجود میں1972ء میں لانے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی۔ جاوید جبار کے مطابق ریاست کو وجود میں لانے میں ہماری ناکامی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کے چار کروڑ ستر لاکھ گھرانے ہیں۔ ان میں سے اگر ہم تین کروڑ گھرانوں کو غریب اور نادار فرض کرلیں تو قومی خزانے میں انکم ٹیکس جمع کرانے والے صرف دس لاکھ ہی کیوں ہیں؟ ہمارا آبادی پر بھی قابو ہونا چاہئے تھا مگر پاکستان کے صرف تین ہزار بیاہتا جوڑے اس معاملہ میں احتیاط سے کام لیتے ہیں دیگر سب بے لگام ہیں۔ بلاشبہ پاکستان میں اٹامک انرجی کمیشن، نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی، سپریم کورٹ، کارپوریٹ اور فنانشل سیکڑ اور ڈائیو بس جیسے ادارے بھی ہیں جو وقت کی پابندی کا خیال اور احترام رکھتے ہیں مگر جب ہم کہتے ہیں کہ ہم بلوچ اور سندھی ہیں تو اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہم اعلیٰ اور مشترکہ شناخت کا احترام بھی کرتے ہیں۔جاوید جبار کے الفاظ میں پاکستان کی بے شمار عورتیں اور مرد اس ملک کے مسائل پر قابو پانے کے لئے سیاست میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر پاکستان کو کسی ایک ’’اتاترک‘‘ کی ضرورت نہیں ایک ہزار اتاترک چاہئیں جو پاکستان کو واپس قومی ترقی کی راہوں پر ڈال سکیں یہ صرف ’’میں‘‘ اور’’آپ‘‘ ہی نہیں’’ہم سب‘‘ پاکستان کو محفوظ اور مضبوط پاکستان میں بدل سکتے ہیں اور اپنی بیماری کو مرض الموت بننے سے پہلے دور کرکے صحت مند ہوسکتے ہیں۔


بشکریہ روزنامہ 'جنگ'

امریکہ صاحب! آخر ہم کیا کریں؟

$
0
0

اخبار کی شہ سرخی جس میں امریکہ کے پاکستان میں سفیر نے کہا کہ ’’کوئلے سے بجلی پیدا کرنا عالمی پالیسی کے منافی ہے‘‘۔ نے مجھے حیران ہی نہیں پریشان بھی کر دیا۔ اس شہ سرخی سے مجھے ہی نہیں بلکہ ہر پاکستانی کو شدید جھٹکا محسوس ہوا ہو گا کیونکہ یہ بیان عین اس موع پر آیا جب پاکستان کے وزیراعظم نے تھرکول پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے کام کا سنگ بنیاد رکھا۔ یقیناًحکومت کا یہ بہترین اقدام ہے کہ کوئلے کے ذخائر جنہیں ہم پچھلی چھ دہائیوں سے زائد عرصے سے استعمال نہیں کر پائے تھے اب انہیں استعمال میں لایا جائے گا اور اس سے پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی کمی کو پورا کیا جا سکے گا۔ پاکستان اس وقت مختلف ذرائع سے تقریباً 18000میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر یہ پیداوار 14000میگاواٹ سے بڑھ نہیں پاتی۔ اس وقت بھی پاکستان کو تقریباً 4000 سے 8000 میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق 2020ء میں پاکستان میں بجلی کی طلب 26000 میگاواٹ تک بڑھ جائے گی اور اگر پاکستان نے بجلی کی پیداوارکو ہنگامی بنیادوں پر آگے نہ بڑھایا تو یہ قلت مزید بڑھے گی۔ اس سے صنعتی اور زرعی پیداوار پر نہایت ہی بڑے اثرات مرتب ہوں گے اور پاکستان کی معیشت خدانخواستہ انحطاط کا شکار ہو سکتی ہے۔ جہاں تک پاکستان میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار کا تعلق ہے۔ تو یہ ایک بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں کوئلہ کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق یہ ذخائر 175 ارب ٹن سے زائد ہیں۔ توانائی کے ذرائع کا اگر تقابل کیا جائے تو یہ ذخائر ایران اور سعودی عرب میں موجود تیل کے ذخائر کے برابر ہیں۔ اگر پاکستان کوئلے کے ان ذخائر سے مسلسل 100,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنی شروع کر دے تو یہ ذخائر پھر بھی 200 سال تک کافی ہوں گے۔ قدرت کے اتنے بڑے ذخائر کو استعمال نہ کرنا بدقسمتی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ جہاں مرکزی حکومت سندھ کے تھرکول پر بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کا آغاز کر چکی ہے۔ وہاں حکومت پنجاب نے بھی صوبے میں اپنے وسائل سے 6000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام شروع کیا ہوا ہے۔ توقع ہے کہ ان منصوبوں سے اگلے تین سال میں بجلی کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔

شہ سرخی پڑھنے کے بعد تجسس ہوا کہ دیکھنا چاہیے کہ باقی دنیا میں کیا روایات ہیں۔ میری حیرانی کی اس وقت انتہا نہ رہی کہ پوری دنیا کی بجلی کی کل پیداوار کا 41 فیصد کوئلہ سے پیدا کی جا رہی ہے۔ یہ کوئی پرانی بات نہیں بلکہ ’’عالمی کوئلہ تنظیم‘‘ کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار ہیں۔ یعنی کوئلہ سے سب سے زیادہ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اس کے بعد 21 فیصد گیس سے، 16 فیصد پن بجلی، 13 فیصد جوہری توانائی،5 فیصد تیل سے اور باقی 3 فیصد دیگر ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کس قدر انحصار کوئلہ سے حاصل ہونے والی بجلی پر ہے اور اگر مختلف ملکوں میں پیدا ہونے والی بجلی کے تناسب کو دیکھا جائے تو وہ تمام ممالک جہاں بجلی وافر مقدار میں میسر ہے وہاں سب سے زیادہ بجلی بھی کوئلے سے پیدا کی جا تی ہے۔ جنوبی افریقہ میں 93 فیصد بجلی کوئلہ سے پیدا کی جاتی ہے۔ آسٹریلیا 78 فیصد، پولینڈ 87 فیصد، چین 79 فیصد، قزاکستان 75 فیصد، مراکش 51فیصد، جرمنی 41فیصد، یونان 54 فیصد، اسرائیل 58 فیصد، بھارت 68 فیصد اور یہاں تو پریشانی کی انتہا ہو جاتی ہے کہ خود امریکہ جیسے ملک میں 45فیصد بجلی کا حصول بھی کوئلہ کے وسائل سے ہے۔ پاکستان میں ابھی تک کوئلہ سے حاصل ہونے والی بجلی کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کے پاس بجلی وافر مقدار میں ہے اور سستی بھی ہے۔ پاکستان چونکہ مہنگے وسائل استعمال کر رہا ہے اس لیے اس میں بجلی کی پیداوار کم اور قیمت بھی کافی زیادہ ہے۔ کوشش کے باوجود نہ تو بجلی کی مقدار بڑھ سکی ہے اور نہ ہی قیمت کم ہو سکی ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کوئلہ سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت عام طور پر دوسرے ذرائع کے مقابلے میں 50 فیصد ہوتی ہے۔ پاکستان میں چونکہ کوئلہ کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں اس لیے اگر بڑے پیمانے پر کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو یہ قیمت وقت کے ساتھ مزید بھی کم ہو سکتی ہے۔

امریکی سفیر کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں بجلی کسی طور پر بھی پیدا ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ اس سلسلے میں بنائے جانے والے منصوبوں پر وہ کسی نہ کسی طریقے سے اپنے اعتراضات پیش کرتے رہتے ہیں ۔ پاکستان جب بھی نیو کلیئر ذرائع سے بجلی بنانے کا کوئی منصوبہ بناتا ہے تو اسے بین الاقوامی پالیسیوں کے منافی کہا جاتا ہے حالانکہ پوری دنیا میں ایٹمی ذرائع سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ امریکہ نے بھارت کو تو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے اجازت دے دی ہے لیکن یہ سہولت پاکستان کو حاصل نہیں ہے۔ حالانکہ دونوں ایٹمی قوتیں ہیں اور دونوں نے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدوں کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ پاکستان جب بڑے ڈیم بنا کر پن بجلی کا حصول چاہتا ہے تو ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک کو قرضے فراہم کرنے سے اس لیے روک دیا جاتا ہے کہ بڑے ڈیم ماحولیات کے لیے مناسب نہیں اور بادی النظر میں پاکستان کو توانائی اور بجلی کے اس سستے ذریعے سے بھی دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان نے ایران سے گیس درآمد کرنے کی منصوبہ بندی کی تو امریکہ نے اس منصوبے کو بھی مختلف طریقوں سے بند کرا دیا حالانکہ اس منصوبے میں ابتدائی طور پر بھارت اور چین تک کے ممالک شامل تھے۔ ایران نے اس منصوبے پر عمل درآمد کر کے اپنی سرحد تک گیس پائپ لائن بچھا دی ہے۔ اس سے آگے مختلف عرصے میں لائن بچھا کر پاکستان گیس حاصل کر سکتا ہے لیکن عالمی قوت اس سلسلے میں حائل ہے۔

اب پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع ہوتے ہی امریکی سفیر ایک بار پھر بول پڑے ہیں کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنا عالمی پالیسی کے منافی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالمی پالیسیاں پاکستان کے لیے الگ اور باقی دنیا کے لیے جدا ہیں۔ اگر پوری دنیا میں آدھی مقدار میں بجلی کوئلے سے پیدا ہو سکتی ہے اور عالمی پالیسی اس کی مخالفت نہیں کرتی تو پاکستان جو پہلے سے ایک فیصد سے بھی کم بجلی کوئلے سے پیدا کر رہا ہے۔ اس پالیسی کے کیسے منافی ہو سکتا ہے۔ اگر اسے ہم پاکستان کی توانائی کے حصول کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ امریکہ کا ایسا رویہ نہ صرف پاکستانیوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے بلکہ طویل رفاقت کے باوجود منفی رویوں کا عملی مظاہرہ ہے۔


بشکریہ روزنامہ 'نئی بات'

Cancer patients in Pakistan, need your support

$
0
0

 Cancer patients in Pakistan, need your support

Enhanced by Zemanta
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live