Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

Message from Life and Teachings of The Holy Prophet Muhammad (PBUH) By Anwar Ghazi

$
0
0


Message from Life and Teachings of The Holy Prophet Muhammad (PBUH)

Enhanced by Zemanta

کلاشنکوف کا درد

$
0
0

کلاشنکوف رائفل بنانے والے میخائل کلاشنکوف نے اپنی وفات سے قبل بظاہر روس کے دقیانوسی چرچ کے سربراہ کو لکھا تھا کہ وہ اپنی ایجاد کے نتیجے میں ہونے والی ہر موت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر محسوس کرتے ہیں۔

میخائل کلاشنکوف جو 94 سال کی عمر میں گذشتہ سال انتقال کر گئے تھے۔ چرچ کے حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے مئی 2012 میں چرچ کے سربراہ کِریل کو ایک جذباتی خط لکھا تھا۔ چرچ حکام نے کہا کہ میخائل ان تمام ہلاکتوں کی وجہ سے ’روحانی کرب‘ میں مبتلا تھے۔

اس سے قبل کلاشنکوف نے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

مگر روسی حکومت کے حامی اخبار اِزویسٹیا میں شائع شدہ ایک خط میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’میرا روحانی کرب ناقابلِ برداشت ہے۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’میں اسی ناممکن سوال کا سامنا کرتا رہتا ہوں۔ اگر میری رائفل لوگوں کی زندگیاں ختم کرتی ہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں ایک عیسائی اور دقیانوسی مسلک کا ماننے والا ان کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ہوں؟‘

یہ خط کلاشنکوف کے ذاتی صفحات پر لکھا گیا ہے اور اس پر ان کے لرزتے ہاتھوں سے دستخط ہیں جو اپنے آپ کو ’خدا کا غلام ڈیزائنر میخائل کلاشنکوف‘ کہتا ہے۔

"میرے لیے یہ دیکھنا تکلیف دہ ہے جب ہر قسم کے جرائم پیشہ افراد میری ایجاد کردہ بندوق استعمال کرتے ہیں۔"

کلاشنکوف یا اے کے 47 دنیا کے معروف ترین ہتھیاروں میں سے ایک ہے اور بہت عام استعمال کیا جانے والے ہتھیار ہے۔

اس کی سادگی نے اسے ایک سستا، قابلِ اعتماد اور آسانی سے استعمال کیا جانے والا ہتھیار بنا دیا تھا۔

میخائل کلاشنکوف نے اپنی ایجاد کردہ رائفل سے ہلاک ہونے والے بے شمار لوگوں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرنے سے ہمیشہ انکار کیا اور اس کا الزام دوسرے ممالک کی پالیسیوں پر دھرا۔

روسی چرچ کے سربراہ کِریل کے پریس سیکرٹری نے کہا: ’انھوں نے اس بندوق کو اپنے ملک کی حفاظت کے لیے ایجاد کیا تھا اس لیے نہیں کہ دہشت گرد اسے سعودی عرب میں استعمال کریں۔‘

ماسکو میں موجود بی بی سی کے سٹیو روزنبرگ کا کہنا ہے کہ یہ واضع نہیں ہے اس میں سے کتنا انھوں نے خود لکھا ہے کیونکہ اِزویسٹیااخبار نے ان کی بیٹی الینا کے حوالے سے لکھا ہے وہ سمجھتی ہیں کہ ایک پادری نے انھیں یہ خط لکھنے میں مدد دی ہے۔

روسی چرچ کے سربراہ کے پریس سیکرٹری سرِل الیگزینڈر وولکوف نے اخبار کو بتایا کہ پادری کو خط موصول ہوا اور انھوں نے اس کا جواب لکھا تھا۔

میخائل کلاشنکوف کو ان کی زندگی میں کئی اعزازات سے نوازا گیا

انھوں نے مزید کہا کہ ’چرچ کا اس پر ایک واضح موقف ہے کہ ایسے ہتھیار جو ملک کی حفاظت کے لیے ہیں چرچ ان کے بنانے والوں اور استعمال کرنے والے فوجیوں کی حمایت کرتا ہے۔‘

روسی فوج نے اس رائفل کو سنہ 1949 میں اپنی فوج میں شامل کیا اور سینیئر سارجنٹ میخائل کلاشنکوف کو سٹالن فرسٹ کلاس ایوارڈ سے نوازا۔

یہ ایوارڈ ان اعزازت کی لمبی فہرست میں سے ایک ہے جن سے ان کو نوازا گیا۔ دیگر ایوارڈز میں آرڈرز آف لینن ہے جو ان کو تین بار دیا گیا۔

سنہ 1987 میں ان کوازوسک نامی شہر کا اعزازی شہری بنایا گیا۔

میخائل کلاشنکوف کا 23 دسمبر کو انتقال ہو گیا تھا۔

گرم پانیوں کی تلاش

$
0
0

سوویت یونین کی تند خُو فوجیں افغانستان کے کوہ و دمن میں برسوں سر پٹکنے کے باوجود پاکستان کو عبور کر کے گرم پانیوں تک نہ جا سکیں اور افغانستان میں رُسوا ہوکر دریائے آمو کے پار اس وصیت کے ساتھ واپس چلی گئیں کہ آئندہ کوئی افغانستان کا رخ نہ کرے۔ اس کے لوگ بہت بے رحم ہیں۔ لیکن سوویت یونین کے نرم مزاج پرندے گرم پانیوں تک ہر سال پہنچتے ہیں، اس سال بھی…

چنانچہ ہزاروں میل دور کی یخ بستہ ہواؤں میں دن رات بسر کرنے والے پرندے جب سردی کی بے پناہ شدت میں سُن ہونے لگتے ہیں تو انھیں فطرت بتاتی ہے یا کون بتاتا ہے کہ ان کے سائبیریا سے بہت دور مشرق کی گرم سر زمینوں میں ان کے لیے نیم سرد پانی والی جھیلیں ان کا انتظار کر رہی ہیں جہاں وہ کسی حد تک سردی کے موسم میں بھی گرمی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور ان کی پرواز میں سرد موسم دخل نہیں دیتا۔ بس اتنا کہ وہ چونکہ گرمی کے عادی نہیں ہیں تب بھی انھیں کسی حد تک وہ سردی بھی مل ہی جاتی ہے جو انھیں گرمی سے بچا لیتی ہے۔ جب میں وادیٔ سُون کی چھوٹی چھوٹی جھیلوں پر روسی سائبیریا سے آنے والے پرندوں کی اجتماعی پروازوں کو دیکھتا ہوں تو تعجب کرتا ہوں کہ ان کے وہ دوست کون ہیں جو انھیں ان گمنام پر امن جھیلوں کا پتہ دیتے ہیں اور ان کی غیر معمولی روسی سرد زندگی کو قابل برداشت بنا دیتے ہیں۔ میں نے مدتیں ہوئیں بزرگوں سے پوچھا کہ یہ رنگ رنگ کے پرندے کہاں سے آ جاتے ہیں تو ان تک جو غیر سائنسی روایتیں پہنچی تھیں وہ ان پرندوں کے سرد ترین زمینی علاقوں کا پتہ دیتی ہیں جہاں نہ جانے کون ان پرندوں کو ان ہزاروں میل دور کی جھیلوں کا پتہ دیتا ہے اور وہ سردی سے بھاگ کر ان کی طرف پرواز شروع کر دیتے ہیں۔

ان طویل اڑانوں میں راستے کی نہ جانے کتنی ہی جھیلوں کے کناروں پر سستاتے ہوئے اور کتنی ہی جھیلوں کو راستے میں چھوڑ کر ان کے اوپر سے گزرتے ہوئے وہ اپنی پسند کے آبی ٹھکانوں پر اتر آتے ہیں۔ شاید اس سے پہلے بھی وہ یہاں آئے ہوں اور انھیں یہ جھیلیں اچھی لگی ہوں اور یہاں شکاریوں سے امن بھی ملا ہو۔ وادیٔ سُون کی جھیلوں کے کناروں پر آباد لوگ ان پردیسی پرندوں کو خوبصورت مہمان سمجھتے ہیں۔ ایسے مہمان جو خوش منظر ہیں اور اپنے کھانے پینے کا بندوبست بھی خود ہی کرتے ہیں۔ اللہ کی یہ وہ آزاد مخلوق ہے جو سوائے موسم کے کسی کی محتاج نہیں۔ تیرنے کے لیے پانی چاہیے اور پرواز کے لیے صاف ستھری کھلی ہوا چاہیے، اس کے علاوہ قدرت نے اسے زندگی کے تمام سامان دے دیے ہیں۔ اس سال انھیں سردی تو ملی مگر بارشیں نہیں ملیں جو ان کی جھیلوں کو تروتازہ کرتی اور ان کے پانی کو صاف کرتی ہیں۔ یوں ان کا یہ سفر زیادہ پر لطف نہیں رہا۔ چنانچہ اطلاع ملی ہے کہ وہ اس سال وقت سے پہلے ہی واپسی کا سفر شروع کر رہے ہیں۔ ایک خط میں لکھا گیا ’’مگر ہم کہاں جائیں ان زمینوں کو چھوڑ کر، مٹی کی محبت میں۔‘‘

پرندے گرم علاقوں کے ہوں یا سرد علاقوں کے وہ دنیا کی انتہائی خوبصورت اور خوشگوار مخلوق ہیں جو کسی کو تنگ نہیں کرتیں بلکہ نظروں کو خوشیاں دیتی ہیں اور اگر کوئی بے رحم صیاد ان کے لیے جال لگا دے تو وہ اس میں پھنس کر اور ذرا سا پھڑپھڑا کر چپ ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں غیب سے رزق کے ساتھ صبر بھی دیتا ہے۔ سیدنا حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ جب پرندے صبح مجھ سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں تو میں شرمندہ ہو جاتا ہوں۔ سچ ہے کہ انسان کوئی بھی ہو وہ پرندوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ گرمیوں کے موسم میں جب میں کبھی گاؤں میں ہوتا ہوں تو درختوں پر رات بسر کرنے والے پرندے منہ اندھیرے جاگ جاتے ہیں اور زور زور سے چہچہاتے ہیں۔ ان کا شور اتنا بڑھ جاتا ہے کہ آپ اس میں سو نہیں سکتے۔ یہ شور و غل سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ گم ہو جاتا ہے۔ اور پرندے ناشتے کے لیے پرواز کر جاتے ہیں۔ مصر کا نابینا ادیب ڈاکٹر طہٰ حسین کہتا ہے کہ مجھے صبح ہو جانے کا احساس ہمیشہ ان پرندوں نے دلایا اور رات ہو جانے کا پتہ بھی درختوں کے یہی پرندے دلاتے ہیں جو ہوا کے کسی جھونکے پر اپنے گھونسلوں میں بہت ہلکی سی آواز نکالتے ہیں لیکن ہوا تیز ہو تو یہ بہت بے چین ہو جاتے ہیں۔ ان کی نیند میں یہ آوازیں بدل جاتی ہیں۔

میں ان آوازوں کو خوب جانتا پہچانتا ہوں لیکن میں اپنی نیند بے چین کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا۔ شہروں میں رہنے والے کیا جانیں کہ ان پرندوں، ہواؤں، درختوں کی شاخوں اور ان پر بنائے گئے آشیانوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔ اس رشتے میں اتنی نفاست، راحت اور مسرت ہے کہ کوئی پرندہ ہی جانتا ہے یا درختوں کے پاس رات بسر کرنے والا کوئی حساس انسان۔ سردیوں کے موسم میں ہماری جھیلوں پر اتنی رونق ہوتی ہے جیسے یہاں کوئی خاندان پکنک منانے آیا ہو اور معصوم خوبصورت بچے تتلیوں اور پرندوں کی طرح اڑتے پھرتے ہوں۔ انتہائی پر لطف وہ صبح ہوتی ہے جب آپ اٹھتے ہیں تو کل رات تک کی خاموش جھیل کی سطح اس وقت پھڑک رہی ہوتی ہے کیونکہ اس کے پردیسی مہمان اس کے پانی سے کھیل رہے ہوتے ہیں، اس پر الٹی سیدھی پروازیں کر رہے ہوتے ہیں، اڑنے والے کیڑوں کو پکڑ رہے ہوتے ہیں اور ان سے ناشتہ کر رہے ہوتے ہیں۔ صبح کرنے کے بعد یہ پرندے اپنے اس نئے ٹھکانے پر پرواز جاری رکھتے ہیں جیسے اس نئے ماحول کو اپنا رہے ہوں، سیر کر رہے ہوں، اسی طرح موسم کے ساتھ ساتھ ان کی پروازیں جاری رہتی ہیں تا آنکہ وہ دن آ جاتے ہیں جب وہ یہاں سے رخصت ہونے لگتے ہیں لیکن ان کی آمد کے برعکس ان کی واپسی اچانک نہیں ہوتی۔ وہ ٹولیوں میں واپسی کا سفر اختیار کرتے ہیں جیسے اس الوداعی ملاقات میں وہ آئندہ سال کی اپنی آمد کی خبر دے رہے ہوں۔

سندھ کا ایک ماضی کا گمشدہ شہر ہے بھنبھور جسے میں نے بلوچستان کا لکھ دیا تھا۔ ماضی کے اس شہر کے پڑوسی کا پیغام ملا ہے کہ بھنبھور سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کی تحصیل میر پور چاکر کا ماضی کا ایک شہر تھا جو ماضی کے پردوں میں گم ہو چکا ہے۔ میں نے یہاں پنجاب میں اس شہر کا تذکرہ اپنے لوک گیتوں میں سنا۔ نہ جانے اتنی دور کا یہ شہر سسی پنوں کی عاشقانہ داستان والا یہ شہر ہم تک بھی کیسے پہنچ گیا کہ

’’تیرا لُٹیا شہر بھنبھور نی سسیے بے خبرے‘‘

عبدالقادر حسن


بشکریہ روزنامہ 'ایکسپریس

 

 

 

Allegations against Mohammed Ali Jinnah

$
0
0



Allegations against Mohammed Ali Jinnah
Enhanced by Zemanta

Pakistan Needs You

Remember Pervez Musharraf By Irfan Siddiqui

$
0
0


 Remember Pervez Musharraf By Irfan Siddiqui
Enhanced by Zemanta

Dialogue with Taliban - Another way by Saleem Safi

$
0
0


Dialogue with Taliban - Another way by Saleem Safi

Religion and Society in Pakistan By Ghazi Salah Uddin

$
0
0

 Religion and Society in Pakistan By Ghazi Salah Uddin

Enhanced by Zemanta

Real Love by Bilal Ghuri

Pakistan Real Problems

Future of Pervez Musharraf

Safe Pakistan Railways by Sikandar Hameed Lodhi

$
0
0

 Safe Pakistan Railways by Sikandar Hameed Lodhi

Enhanced by Zemanta

Judiciary and Media New Challenges in Pakistan

$
0
0


Judiciary and Media New Challenges in Pakistan
Enhanced by Zemanta

Terrorism and Dialogue in Pakistan by Sarwat Jamal

$
0
0

 Terrorism and Dialogue in Pakistan by Sarwat Jamal

Enhanced by Zemanta

From Zulfiqar Ali Bhutto to Asif Ali Zardari

$
0
0


From Zulfiqar Ali Bhutto to Asif Ali Zardari

مشکل فیصلوں کی گھڑی........طلعت حسین

$
0
0

  ہمارے سیاستدانوں نے تو بڑی کوشش کی کہ اہم فیصلے نہ کرنے پڑیں۔ مگر کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اسے مجبور کر دیا کہ کم از کم کچھ کرنے کی سوچ پیدا کریں۔ اگر آر اے بازار کا حملہ نہ ہوتا، بنوں کا دھماکا نہ ہوتا اور اکا دکا قتل جو اب ہر گھنٹے ہماری زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں نہ ہوتے تو وفاقی حکومت اتنے ہی آرام سے بیٹھی ہوتی جیسے اتنے ماہ سے بیٹھی ہوئی تھی۔ عمران خان کا کام بھی چلتا رہتا وہ حکومت کی خاموشی پر تلملاتے رہتے مگر سیاسی فائدہ بٹورتے رہتے۔ کراچی کی حد تک سخت کارروائیوں کی تاکید بھی کرتے رہے اور خیبر پختونخوا میں بات چیت پر زور بھی دیتے رہتے۔ پاکستان کی فوج بھی نہ جنگ نہ امن کی حالت میں رہتی۔ تمام تر وسائل مہیا ہونے کے باوجود، تعیناتیاں کرنے کے باوجود کوئی خاص فیصلہ نہ کرنا پڑتا۔ وہی صورت حال رہتی جو رہی ہے۔ ڈیڑھ سال سے شمالی وزیرستان پر جتنی پریزنٹیشنز دی جا چکی ہیں، اگر ان کو کاغذ پر منتقل کر کے اکٹھا کیا جائے تو ایک نیا انسائیکلو پیڈیا بن سکتا ہے۔ جتنے فوجی اس وقت اس ایجنسی میں موجود ہیں، ان سے ایک چھوٹے ملک کو فتح کیا جا سکتا ہے۔

جتنی شہادتیں ہم دیکھ چکے ہیں، اس کے برابر کی قربانی تو کوئی جنگ بھی نہیں مانگتی۔ مگر پھر بھی نہ کوئی امن لانا چاہتا ہے نہ جنگ لڑنا چاہتا ہے۔ عسکری لائحہ عمل کا یہ حیرت کدہ ایسے ہی چلتا رہتا ، اگر دوسرا گروپ پکار پکار کر یہ نہ کہہ رہا ہوتا کہ ’’خود میں کچھ تحریک پیدا کیجیے‘‘ ۔ ’’آئیے ہم سے نپٹیے ‘‘ یا ’’ جنگ جیتیے‘‘ یا ’’ہار مانیے‘‘ ’’کچھ تو کیجیے‘‘ ’’ایسے نہ بیٹھے رہیے‘‘۔ مگر اب شاید ایسے بیٹھے رہنا ریاستی اداروں اور حکومت وقت کے لیے ممکن نہ ہو۔ جس قسم کے حملے کیے جا رہے ہیں اور جس تواتر سے ان حملوں کی ذمے داری قبول کی جا رہی ہے۔ اس کے بعد خمار کی اس کیفیت جس میں ہماری فیصلہ ساز قوتیں اس وقت موجود ہیں کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔ اگر طالبان اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کا ر لاتے ہوئے ان تمام اہداف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو انھوں نے اپنے نقشوں میں بنائے ہوئے ہیں تو اس کے بعد پالیسی سازی کی گنجائش محدود ہو کر صرف دو آپشنز میں تبدیل ہو گئی ہے۔ پہلی آپشن وفاقی حکومت کی طرف سے ایک اور مشترکہ کل جماعتی کانفرنس کی طلبی ہے جس میں سے علماء کو طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کی ذمے داری سونپنے کے بجائے سیاستدانوں پر یہ ذمے داری ڈالنے کا راستہ نکالنا ہو گا۔

چونکہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ قومی پالیسی کے لیے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنا ہے تو بہت ضروری ہے کہ اب عمران خان اور منور حسن کو تمام سیاسی جماعتیں یہ ذمے داری سونپیں کہ وہ اپنے وفد بنا کر ان گروپوں میں سے ایک، چند یا سب سے بات چیت کا آغاز کریں۔ عسکری قیادت کو بھی واضح انداز سے عمران خان اور منور حسن کے گروپ کی حمایت کرنی ہو گی تا کہ بعد میں کوئی یہ اعتراض نہ اٹھا پائے کہ ان کے بات چیت کا مینڈیٹ یا اختیار آدھا، نا مکمل یا بے اثر تھاکیونکہ یہ دونوں جماعتیں اپنے افکار اور سیاسی نظریات میں تحریک طالبان کے قریب ترین ہیں۔ لہذا کل جماعتی کانفرنس کے مینڈیٹ سے لیس ہو کر یہ کوئی نہ کوئی راہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ محترم منور حسن فصیح و بلیغ ہیں۔ شریعہ کے تمام پہلووں پر گرفت رکھتے ہیں۔ عمران خان قد آور سیاسی شخصیت ہیں۔ لوگوں کو اپنی بات منوانے کا فن جانتے ہیں۔ مقبول بھی ہیں۔ ان دونوں کی سر براہی میں بننے والی بات چیت کی کمیٹی یقیناً رنگ لا سکتی ہے۔ وفاقی حکومت بات چیت کے عمل کو بڑھانے میں نا کام رہی ہے۔ چوہدری نثار علی خان جن کے گلے میں وزارت داخلہ کا طوق روز بروز بھاری ہوتا جا رہا ہے، اپنی تمام تر شہرت کے باوجود کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں لاسکے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ کو کھلے دل سے اپنی ناکامی تسلیم کرنی چاہیے۔

قوم کو واضح انداز سے بتانا چاہیے کہ اتنے عرصے سے چلنے والی ہر گاڑی گول گول کیوں گھومتی رہی اور اپنی منزل کے قریب بھی نہ پہنچ پائی۔ اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اخلاقی اور سیاسی طور پر لازم ہے۔ اگر حکومت ظاہراً خود کو بات چیت کے زاویے سے پر امید ثابت کرتی رہی اور حقیقت اس کے بالکل الٹ رہی تو دو ہفتوں کے بعد ناکامی تسلیم کرنے پر تعریف نہیں ہوگی بلکہ شدید شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔ یقیناً مولانا فضل الرحمان نہیں چاہیں گے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو تحریک طالبان سے بات چیت کرنے میں مرکزیت حاصل ہو۔ مگر یہ معاملہ عمران خان اور فضل الرحمان کو خوش کرنے کا نہیں ہے۔ یہ ملک کسی شخص کے جذبات یا احساسات کے ماتحت نہیں چلا یا جا سکتا۔ حکومت کی ناکامی میں جمعیت علمائے اسلام کا حصہ بھی موجود ہے۔ انھوں نے بھی پریس ریلیز جاری کرنے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ عمران خان کمپین کے دوران ایک نعرہ لگایا کرتے تھے ’’میاں صاحب جان دیو ساڈی واری آن دیو‘‘ کم از کم بات چیت کی حد تک میاں نواز شریف کو اب یہ باری عمران خان کے حوالے کر دینی چاہیے۔ وکٹ کے دوسری جانب جماعت اسلامی کھڑی ہو گی۔ دیکھتے ہیں یہ ڈبل وکٹ ٹورنامنٹ کیا رخ اختیار کرتا ہے ۔

دوسرا راستہ بھی واضح ہے۔ ریاست کے اختیار کو کچوکے تو کب سے لگ رہے تھے۔ اب ان حملوں کے نتیجے میں اس کی چیر پھاڑ ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ زمانہ قدیم ہو یا جدید، ریاست جمہوری ہو یا غیر جمہوری، باد شاہت ہو یا یک جماعتی آمریت۔ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ ایک سر زمین پر ایک ہی ادارے کا اختیار چلتا ہے۔ ایک ملک میں ایک وقت میں ایک ہی فوج موجود ہوتی ہے۔ ایک طرح کے ادارے کو ہی یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ کس وقت کتنی طاقت کس کے خلاف استعمال کریں۔ تحریک طالبان کا کہنا ہے کہ یہ طاقت ان کے پاس ہے۔ پاکستان کی ریاست کو ثابت کرنا ہے کہ یہ اختیار ان کا ہے۔ دیکھتے ہیں پہلا راستہ اخیار کیا جاتا ہے یا دوسرے سمت کی جانب رخ ہوتا ہے۔ نیم بے ہوشی اور نیم پالیسی کی صورت حال اب نہیں چل سکتی۔ اس کا وقت گزر گیا ہے۔کاش ایسا نہ ہوتا۔ کاش!ہماری حکومتوں،سیاستدانوں اور مقتدر حلقوں کو یہ زحمت نہ دی جاتی کہ وہ کچھ کریں، کچھ تحریک پیدا کریں، ایسے ہی نہ بیٹھے رہیں۔

طلعت حسین

بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

Law and order situation deteriorating in Punjab

$
0
0

 Law and order situation deteriorating in Punjab

Pakistan Protection Ordinance

Who is Real Chief Minister of Punjab? By Huzaifa Rehman

$
0
0

 Who is Real Chief Minister of Punjab? By Huzaifa Rehman

Enhanced by Zemanta

وزیر اعظم کے حوالے سے ایک چونکا دینے والی خبر!

$
0
0


روزنامہ جنگ میں پرویز بشیر کی بائی لائن خبر جنگ ایسے کثیر الاشاعت اخبار میں چھپنے کے ناتےاتنی دور تک جائے گی اس کا کچھ اندازہ تو تھا لیکن اس حد تک اندازہ نہیں تھا کہ اندرون ملک اور بیرون ملک تک اس کی اتنی گونج سنائی دے گی۔ دراصل خبر تھی بھی بہت چونکا دینے اور حیران کرنے والی کہ ملک کے وزیر اعظم کا بغیر کسی سکیورٹی اور بغیر کسی کروّفر کے خاموشی کے ساتھ ایک معمولی سے شخص سے ملنے اس کے دفتر میں چلے آنا اور خود مین ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھ کر اس شخص کو مین چیئر پر بیٹھے رہنے پر اصرار کرنا، یہ باتیں حیران کرنے والی تو ہیں۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم رستے میں ہر ٹریفک سنگل پر رکتے بھی رہے اور جب وہ مذکورہ دفتر پہنچ کر کار سے اترے تو وہاں کھڑے لوگ حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ پاکستان کا وزیر اعظم ان کے سامنے کھڑا ہے۔

اس خبر کی اشاعت کے بعد جہاں لوگ وزیر اعظم کے اس اقدام کو سخت حیرت کے عالم میں سراہا رہے تھے وہاں ان کی اکثریت کا یہ بھی خیال تھا کہ وزیر اعظم کو دہشت گردی کے موجودہ ماحول میں اتنا بڑا رسک لینا نہیں چاہئے تھا۔ میں ان سے متفق ہوں لیکن میں جو تھوڑا بہت میاں نواز شریف کو جانتا ہوں اس کے پس منظر میں میری حیرت دوسروں سے کم ہے۔ میاں صاحب سے اختلاف رکھنے والے ممکن ہے اس حقیقت سے بھی انکار کریں کہ میاں صاحب کا آئیڈیل پاکستان مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں کی مثبت روایات والا پاکستان ہے، ان ملکوں میں وزیر اعظم اور تھوڑے بہت حفاظتی اقدامات کے ساتھ گھر سے نکلتے ہیں، میاں صاحب کے دل میں بھی یہ خواہش بہت شدت سے موجود ہے چنانچہ پاکستان کی موجودہ دہشت گرد فضا میں بھی انہیں جب موقع ملتا ہے، وہ اپنی یہ خواہش پوری کرتے ہیں۔ اس طرح کے دو تین واقعات کا میں عینی شاہد ہوں، ایک بار انہوں نے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا تھا اور اس دوسری جگہ کا صرف ایک شخص کو پتہ تھا تاہم اس نے مناسب سمجھا کہ حاجی شکیل کو یہ بتادیا جائے ،حاجی صاحب یہ سن کر پریشان ہوگئے اور ان سے زیادہ پریشانی سکیورٹی آفیسر کو تھی۔ اس نے کہا کہ وزیر اعظم سے پوچھا جائے کہ ان کے رستے میں’’روٹ‘‘لگادیا جائے۔ واضح رہے یہ ’’روٹ‘‘ وہ بلا ہے جس کے لگتے ہی سارے رستے بند کردئیے جاتے ہیں، جس پر عوام روٹ کھلنے کے بعد بھی کئی کئی گھنٹے ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں اور حکمرانوں کو بددعائیں دیتے ہیں۔ اس شخص نے میاں صاحب کو ان کا پیغام پہنچایا۔میاں صاحب نے پہلے تو روٹ نہ لگانے اور پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا’’انہیں کہیں کہ وہ صرف دو منٹ پہلے روٹ لگائیں تاکہ عوام کو تکلیف نہ ہو‘‘چنانچہ ایسا ہی ہوا صرف دو منٹ کے لئے ٹریفک رکا اور اس کے بعد میاں صاحب اپنے اس دوست کے ساتھ جب مطلوبہ مقام پر پہنچے تو وہ لوگ بھی حیران رہ گئے کیونکہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا بڑا لیڈر ایک عوامی جگہ پر اتنی سادگی سے ان کے درمیان موجود ہو سکتا ہے۔

میں نے میاں صاحب کے ذہن میں موجود آئیڈیل پاکستان کی بات کی تھی جس کا تعلق پاکستان کے عوام کو بھی ترقی یافتہ ملکوں کے عوام ایسی سہولتیں دینے سے ہے تو اسی وژن کے تحت انہوں نے موٹر وے بنائی، جسے اب پورے پاکستان تک پھیلائے جانے کا منصوبہ ہے۔ بیرون ملک سے پاکستان آنے والے پاکستانیوں اور غیر پاکستانیوں کے ساتھ ائیر پورٹ پر مہذب رویہ اپنائے جانے کے لئے گرین چینل کا آغاز کیا۔ ملک کی معاشی ترقی کے لئے ماڈرن ائیر پورٹس بنائے، گواردر کی بندر گاہ تعمیر کی ،جس کا پاکستانی عوام کی معاشی فلاح و بہبود کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ کراچی سے پاکستان تک بائی روڈ سفر کرنے والے عوام کو قدم قدم پر محصول چنگی کے نام پر بھتہ مافیا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ میاں نواز شریف نے عوام کو ریلیف دینے کے لئے محصول چنگی کا سلسلہ ختم کردیا۔ سرائیکی علاقوں میں ایک عرصے سے سائیکل رکشہ چلتا تھا جن کے ڈرائیور بالآخر ٹی بی ایسے موذی مرض کا شکار ہوجاتے تھے۔ یہ بات شرف انسانیت کے منافی تھی کہ دو چار لوگ پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوں اور ایک نحیف و نزار انسان شہر بھر میں انہیں جانوروں کی طرح کھینچتا پھرے۔ میاں نوازشریف نے اپنی گزشتہ وزارت عظمیٰ کے دوران یہ لعنت بھی ختم کردی اور سائیکل رکشے کے جگہ انہیں موٹر سائیکل رکشہ دے دئیے۔ اسی طرح انہوں نے عوام کو مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں کے عوام کی طرح ان ٹیکسیوں میں سفر کی سہولت دینے کا نظام بنایا جو ائیر کنڈیشنڈ تھیں اور جن میں میٹر لگے ہوئے تھے، مگر یہ منصوبہ خود ان لوگوں نے ناکام بنادیا جن کے لئے سہولت مہیا کی گئی تھی، کچھ تو ٹیکسی ڈرائیوروں نے جو خود بھی عوام ہی میں شمار ہوتے ہیں ان کے میٹر اتاردئیے، پیلا رنگ ختم کرکے دوسرا پینٹ کروالیا، اور اس کے علاوہ کچھ بدنیت اور بے ایمان لوگوں نے خود کو ٹیکسی ڈرائیور ظاہر کرکے یہ گاڑیاں حاصل کرلیں اور انہیں ذاتی استعمال میں لے آئے۔ سارا قصور حکمرانوں کا نہیں ہوتا، ہمارا بھی ہوتا ہے۔ بہرحال نواز شریف نے سندھ کے ہاریوں میں زمینیں تقسیم کیں، پاکستان کے کئی شہروں میں بے گھر لوگوں کے لئے بہترین فلیٹ بنائے، جو ان کی حکومت ختم ہوتے ہی مشرف حکومت نے ایک کمپنی کو بیچ دئیے۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسے کام ان کے کریڈٹ پر ہیں جو پاکستانیوں کو عزت و وقار سے زندہ رہنے کے حوالے سے ان کی خواہش کا مظہر ہیں۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ میاں شہباز شریف ایسی انقلابی سوچ کا حامل اور انتہائی متحرک شخصیت ان کا دست و بازو ہے، چنانچہ پنجاب میں تاریخی نوعیت کے منصوبوں پر عمل ہوچکا ہے اور ابھی بہت سے پائپ لائن میں ہیں۔ دوسری طرف جیسا کہ میں ابھی عرض کررہا تھا، وفاقی حکومت میاں نواز شریف کی قیادت میں توانائی کے مسئلے کے حل کے لئے شب و روز کوشاں ہے اور یہاں بھی شہباز شریف اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، میں نے موجودہ حکومت کے برسراقتدار آتے ہی جو بات کی تھی وہ میں ایک بار پھر پورے یقین سے دہراتا ہوں کہ اگر دہشت گردی پر قابو پالیا گیا تو پانچ سال کی مدت پوری ہونے تک موجودہ حکومت پاکستانی عوام کے لئے وہ کچھ کر گزرے گی جس کی توفیق ان سے پہلے کے حکمرانوں کو حاصل نہیں ہوئی تھی۔

ایک بات اور میاں نواز شریف ذاتی طور پر شاہانہ زندگی گزارتے ہیں جو میری بھی خواہش ہے مگر افسوس میرے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں تاہم میاں صاحب سرکاری سطح پر چادر کے مطابق پائوں پھیلانے لگے ہیں، مگر ان کے سامنے چار آنسو بہا کر کوئی بھی ان کی ذاتی جیب خالی کرسکتا ہے۔ وہ عجز و انکسار کا پیکر ہیں، جنرل ضیاء الحق مرحوم بھی عجز و انکساری کا مظاہرہ کرتے تھے مگر وہ ظالم انسان تھے۔

میاں نواز شریف ایک درد دل رکھنے والے شخص ہیں اور ان کا عجز و انکسار ظاہری نہیں ان کے اندر سے پھوٹتا ہے، اپنی سابقہ وزارت عظمیٰ کے دوران ایک بار انہوں نے چند دوستوں کو اپنے محل نما گھر (ایسے گھر اور بھی بہت سے صنعتکاروں کے ہیں) میں ناشتے پر مدعو کیا اور بے شمار ملازموں کی موجودگی کے باوجود مسلسل کھڑے ہو کر انہیں خود’’سرو‘‘ کرتے رہے۔

میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بہت سے کاموں کا مداح ہونے کے باوجود ہر دور میں انہیں ٹوکتا بھی رہا ہوں، اس بار یہ ’’ٹوکا ٹاکی‘‘ پہلے سے زیادہ ہوگی کیونکہ میں اپنے طور پر ان کا’’ضمانتی‘‘ بن چکا ہوں ،اگر وہ خدانخواستہ عوام کی توقعات پر پورے نہیں اترتے تو ان کے علاوہ میرا گلا بھی پکڑا جائے گا اور یوں اب میرا بھی بہت کچھ’’اسٹیک‘‘ پر ہے اس حوالے سے آخر میں تین مشورے بہت ضروری ہیں،ایک یہ کہ آپ اگر ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بھی بہا دیں لیکن اگر آپ کا جینوئن کارکن خوش نہیں ہے(دہاڑی دار کارکن بہت خوش ہیں، انہیں کام نکلوانے کا ہنر آتا ہے) تو آپ آئندہ انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔

حالیہ انتخابات کے نتائج بھی بھنگڑے ڈالنے والے نہیں بلکہ ایک لمحہ فکریہ ہیں، دوسرے میڈیا میں جو لوگ پلانٹڈ نہیں ہیں بلکہ وہ خلوص دل سے بعض معاملات پر آپ سے اختلاف رکھتے ہیں، ان کی قدر کریں اور ان سے رابطے میں رہیں، تیسرے تمام وزارتیں اپنی کارکردگی کی سہ ماہی رپورٹ جاری کریں ،چوتھے بیوروکریسی میں آپ کے پاس کبھی انور زاہد، مہر جیون خان، اے کے زیڈ شیر دل، ناصر کھوسہ،جاوید محمود اور پرویز مسعود ایسے لوگ ہوتے تھے، اب آپ کے پاس اس سطح کے لوگ نہیں ہیں لیکن وہ آپ کو مل سکتے ہیں آپ آٹھ دس افراد کے علاوہ بھی ادھر ادھر نظر دوڑائیں تو آپ مایوس نہیں ہوں گے اور بیوروکریسی میں موجود بے چینی بھی ختم ہوجائے گی، چوتھے یہ کہ آپ جو آرڈرز جاری کریں تو ان کی تعمیل کو یقینی بنائیں اور اگر تعمیل نہیں ہوتی تو رکاوٹ ڈالنے والوں کا سراغ ضرور لگائیں اور ا ٓخری بات یہ کہ چغل خوروں سے بچیں، ان کی ہر بات پر یقین نہ کریں، یہ آپ کو اپنے اصل دوستوں سے محروم کردیں گے۔موجودہ حکومت کو یہ مشورے دینے کی ضرورت نہیں تھی، اگر آج مرحوم و مغفور میاں محمد شریف اور مرحوم و مغفور حسن پیرزادہ زندہ ہوتے ......۔

کالم کے اختتام سے پہلے ایک بار پھر برادرم پرویز بشیر کی خبر کی طرف اور اس سلسلے میں صرف ایک بات اور وہ یہ کہ میاں صاحب آپ کی جان بہت قیمتی ہے آپ اس وقت تک پورے حفاظتی انتظامات کے ساتھ گھر سے باہر نہ نکلیں جب تک دہشت گردی کی موجودہ فضا ختم نہیں ہوجاتی۔ آپ اپنے کاموں سے لوگوں کے دل جیتیں ،عوام کی اکثریت آپ سے محبت کرتی ہے، بس اس محبت ہی کو اپنا قیمتی سرمایہ سمجھیں۔ موجودہ دہشت گردی کی فضا میں آپ انہیں اپنے گھر پر گروپس کی صورت میں مدعو کریں تاکہ آپ تک صحیح صورتحال پہنچ سکے، یہی بات مجھے شہباز شریف صاحب سے بھی کہنی ہے۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ

Prime Minister Nawaz Sharif "

Enhanced by Zemanta
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live