Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

شراب کی حمایتی ہماری پارلیمنٹ

$
0
0

پارلیمنٹ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی۔ شراب کی فروخت اور اس کے پینے پر پابندی لگانے کے لیے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے اقلیتی ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمار ایک آئینی ترمیم بل پیش کرتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ اسلام ہو یا کوئی دوسرا مذہب شراب پینے کی کوئی مذہب اجازت نہیں دیتا لیکن اس کے باوجود پاکستان میں شراب کو اقلیتوں کےنام پر فروخت کیا جاتا ہے جبکہ پینے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ ڈاکٹر رمیش کمار کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران وہ دوسرے مذاہب کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا بھی حوالہ دیتے رہے، اُنہوں نے پاکستان کی بنیادی اساس کا بھی حوالہ دیا، وہ یہ بھی کہتے رہے کہ کسی بھی مذہب کے نام پر اگر شراب کا کاروبار پاکستان میں ہوتا ہے تو یہ سراسر غلط اور زیادتی ہے۔ 

رمیش کمار نے یہ بھی کہا کہ پاک سرزمین میں شراب پورا سال بیچی جاتی ہے حتیٰ کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں بھی اس کی فروخت جاری رہتی ہے۔ اس اقلیتی ممبر قومی اسمبلی نے یہ بھی دہائی دی کہ وہ پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا وہاں اسلامی تعلیمات کے برعکس شراب کے دھندے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔ رمیش کمار نے یہ بھی کہا کہ اس پاک زمین کو پاک رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نہ صرف وہ پاکستان کی تاریخ سے واقف ہیں بلکہ قرآن پاک کو بھی پڑھ رکھا ہے۔ رمیش کمار نے ریاست مدینہ کی بھی بات کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ریاست مدینہ کے بات کی جائے تو پھر شراب کی فروخت اور پینے کا کوئی تصور نہیں ہو سکتا۔ لیکن جب رمیش کمار کی آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی کی رائے لی گئی تو وہاں موجود اکثریت نے اس بل کو پیش کرنے کی مخالفت کر دی۔ 

شراب پر پابندی کے خلاف رائے دینے والوں میں حکومت و اپوزیشن کی اکثریت نے باآواز بلند ـ’’NO‘‘ کہا۔ ایسا کرنے والوں میں حکومتی بنچوں پر بیٹھنے والی تحریک انصاف اور اپوزیشن میں موجود ن لیگ اور پی پی پی بھی شامل تھیں۔ ریاست مدینہ کی مثالیں دینے والی تحریک انصاف حکومت کے چند ایک وزرا تو ڈاکٹر رمیش کمار پر جیسے پھٹ پڑے اور اُنہیں یہ تک مشورہ دے دیا کہ وہ افغانستان چلے جائیں یا بھارت۔ قومی اسمبلی میں اسلام کا نام لینے والوں کی اکثریت نے ایک ہندو ایم این اے کی طرف سے شراب کی فروخت پر پابندی لگانے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ افسوس صد افسوس۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے۔ یہ پارلیمنٹ اور یہ اسمبلیا ں کسے دھوکہ دے رہی ہیں۔

اسلام کے نام پر بننے والے ملک اور یہاں کی عوام سے کتنا بڑا فراڈ ہو رہا ہے۔ جنہوں نے حلف اٹھایا اُس آئین کا جوپاکستان میں قرآن و سنت کے نفاذ کا وعدہ کرتا ہے وہی اسلامی نظام کے رستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آ چکے۔ ڈاکٹر رمیش کمار نے رد شدہ آئینی ترمیمی بل دوبارہ اسمبلی سیکریٹریٹ میں آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کےلیے جمع کرا دیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بل پر باقاعدہ ووٹنگ ہو تاکہ عوام کو کم از کم یہ پتا تو چل جائے کہ اسمبلی ممبران میں سے کون کون شراب کی فروخت اور پابندی کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر رمیش کمار کافی عرصہ سے شراب پر پابندی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ سپریم کورٹ تک بھی اپنی اس تحریک کی کامیابی کے لیے جاچکے ہیں لیکن وہاں سے بھی اُنہیں کوئی مثبت جواب نہ ملا۔ 

امید کی جا سکتی ہے میڈیا پر تشہیر سے اس مسئلہ سے اب وزیر اعظم عمران خان بھی واقف ہوںگے اس لیے اُن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ رمیش کمار کی اس آئینی ترمیم کی حمایت کےلیے حکومتی بنچوں کو فعال بنائیں تاکہ اس شراب کی فروخت کو روکا جا سکے۔ اپوزیشن خاص طور پر ن لیگ اور اس کے قائد میاں نواز شریف کو بھی چاہیے کہ وہ اس بل کی حمایت کریں۔ ویسے تو ہر ممبر اسمبلی کے لیے یہ ایک ایسے امتحان کا وقت ہے جس کا بدلہ اُسے یومِ حشر ہی ملے گا لیکن یہ بڑی شرم اور حیا کی بات ہے کہ شراب پر پابندی کےلیے اقلیتی ممبر کوشش کرے اور اکثریتی مسلمان پارلیمنٹیرین اس کی مخالفت کریں۔

انصار عباسی
 


کشمیری تو قابو میں نہیں آ رہے ؟

$
0
0

ستر برس میں پانچویں نسل ہے جسے نہیں معلوم کہ اپنی زندگی میں آزادی دیکھ پائے گی کہ چھٹی پیڑھی کو مایوسی کا پرامید چراغ سونپ کر چلی جائے گی۔ یہ بات جتنی فلسطینیوں کے لیے سچ ہے اتنی ہی کشمیریوں کے لیے بھی۔ فلسطینیوں نے بے گھری دیکھی، قتلِ عام دیکھا، ہتھیاراٹھائے،انھیں یقین دلایا گیا کہ ہتھیار رکھ دو، اسرائیل کا حقِ وجود تسلیم کر لو،بات چیت کا راستہ اختیار کرو،ہم تمہاری ایک آزاد و خود مختار علیحدہ ریاست بنوا دیں گے۔ فلسطینیوں نے یہ سب تسلیم کر لیا، تحریری سمجھوتوں پر بھی دستخط کر دیے لیکن آج ڈھائی عشرے گذر گئے ہتھیار رکھے، بدلے میں کیا ملا ؟ غزہ کی اوپن ائیر جیل کہ جس میں ایک ملین قیدی ہیں اور غربِ اردن میں فلسطینی اتھارٹی کے نام پر ایک لولی لنگڑی حکومت کہ جس کے پاس اپنا ائیرپورٹ تک نہیں ، کہ جس کے تمام راستے اسرائیل سے ہو کر گذرتے ہیں، کہ جس کی حدود میں یہودی آباد کار بستیاں جا بجا چیچک کے داغوں کی طرح پھیلی ہیں۔ اور اب کہا جا رہا ہے کہ یروشلم سے بھی دستبردار ہو جاؤ ورنہ جو ملا ہے شائد وہ بھی پلے نہ بچے۔ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔

پاکستان کا کشمیر کے بارے میں کیا موقف ہے اسے ایک منٹ کے لیے سائیڈ پر رکھ دیں اور مسئلہ کشمیر بھارت کے موقف کی روشنی میں دیکھیں۔ جب ستائیس اکتوبر انیس سو اڑتالیس کو مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے بھارتی نمایندے وی پی مینن کی تیار کردہ دستاویزِ الحاق پر دستخط کے نتیجے میں بھارتی دستے سری نگر ائیرپورٹ پر اترے تو گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن اور وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیریوں کو یقین دلایا کہ وادی سے پاکستانی قبائلی لشکر کو پسپا کرنے کے فوراً بعد حالات سازگار ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی تاکہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔ بھارت نے الحاقی دستاویز میں تحریراً یقین دلایا کہ دفاع اور امورِ خارجہ کو چھوڑ کے کشمیر اپنے معاملات میں خود مختار ہو گا۔ اس کا اپنا جھنڈا، وزیرِ اعظم اور مجلسِ قانون ساز ہو گی جو ریاستی سطح پر منطبق ہونے والی قانون سازی کر پائے گی۔

پاکستان نہیں بلکہ بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں لے کر گیا اور رضامندی ظاہر کی کہ جو بھی استصوابِ رائے ہو گا وہ اقوامِ متحدہ کے تحت ہو گا۔اس کے بعد دھوکا دہی کی وہ تاریخ شروع ہوتی ہے جو آج اس موقف پر منتج ہے کہ کشمیر بھی بھارت کی دیگر ریاستوں کی طرح ایک ریاست ہے اور یہ بھارت نہیں بلکہ پاکستان ہے جس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور یہ کہ مسئلہِ کشمیر کا بس ایک ہی حل ہے کہ پاکستان اپنے زیرِ قبضہ کشمیر، گلگت اور بلتستان بھارت کو واپس کرے۔ رائے شماری کے وعدے سے لے کر پاکستان سے علاقے کی واپسی کے مطالبے تک بھارت کا موقف ستر برس میں تین سو ساٹھ ڈگری پر گھوم چکا ہے۔

ستر برس کے عرصے میں فلسطینیوں کی طرح کشمیریوں نے بھی ہر بھارتی و بین الاقوامی فرمائش پوری کر کے دیکھ لی مگر آزادی کا پھل آج بھی اتنی ہی دور ہے جتنا پہلے کبھی تھا۔ شیخ عبداللہ نے مکمل آزادی کے نہیں داخلی خودمختاری کے سمجھوتے کے احترام کی بات کی تھی۔ اس کا صلہ بھی دو بار طویل جیل کی صورت میں ملا۔ شیخ عبداللہ نہرو خاندان کی طوطا چشمی کے سبب اس دنیا سے نہایت مایوسی سے رخصت ہوئے اور سری نگر کی ڈل جھیل کے کنارے دفن ہو گئے۔ بھارت کو ان کشمیری جماعتوں اور شخصیات پر بھی کبھی اعتماد نہیں رہا کہ جن کی زبان اٹوٹ انگ کا ورد کرتے کرتے خشک ہو گئی۔ قوم پرست فاروق عبداللہ تک کو برداشت نہیں کیا گیا اور انیس سو نواسی کے ریاستی انتخابات میں کمر توڑ دھاندلی کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ کر فاروق عبداللہ کی شکست کا سامان کیا گیا۔ یہ واقعہ اونٹ کی کمر پے آخری تنکہ ثابت ہوا اور کشمیر کی گردن سے بھارتی جوا اتار پھیکنے کے لیے وہ مسلح تحریک شروع ہوئی جس نے اگلے سات برس میں خونریزی کی نئی روایات رقم کیں۔ اس کے بعد یوں لگا کہ طوفان تھک گیا۔

پاکستان میں پرویز مشرف حکومت نے بھی اپنی کشمیر پالیسی کو بدلا اور آؤٹ آف باکس حل پیش کیا کہ جس کے تحت کشمیر کے دونوں حصوں کے شہریوں کو میل جول اور تجارت کی آزادی دی جائے اور ایک مرحلہ ایسا آئے کہ لائن آف کنٹرول محض ایک علامتی لکیر یا سافٹ بارڈر میں بدل جائے۔ مگر بھارت کو یوں لگا کہ کم ازکم ایک نسل کے لیے کشمیر میں سکون ہو گیا۔ لہذا پاکستان کی خاموش مدد کے ذریعے زخموں سے چور کشمیریوں کا اعتماد بحال کرنے کا جو سنہری موقع ملا وہ پھر ضایع کر دیا گیا۔ اس کا ثبوت دس برس کے وقفے کے بعد دو ہزار دس میں کشمیر میں ایک بار پھر اچانک پھٹ پڑنے والے جذبات سے ملا۔ ایک بار پھر طاقت کا بھرپور استعمال کیا گیا اور آزادی کی تڑپ دبانے کے لیے مزید بارہ سو سے زائد کشمیریوں کو قبر میں اتار دیا گیا۔ پھر چار برس کا وقفہ آیا۔ مگر بھارتی افواج اور نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں کشمیریوں کی عزتِ نفس روزانہ کچلی جاتی رہی۔

اور پھر آٹھ جولائی دو ہزار سولہ کو برہان وانی کی شہادت کے ساتھ ہی کشمیر میں آزادی کی مشعل پانچویں پیڑھی کے ہاتھوں میں آ گئی۔ یہ پیڑھی اپنے پیشرؤوں سے زیادہ پڑھی لکھی، نئی مواصلاتی ٹیکنالوجی کی عادی، سوشل میڈیا کے ہتھیار سے واقف اور پہلے سے زیادہ بے خوف ہے۔ اس پیڑھی کی لڑکیاں اور ان کی مائیں ہر مرحلے میں نوجوانوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ عورتوں کے جتنے بڑے بڑے جلوس اب نکلتے ہیں پہلے ان کا تصور بھی نہیں تھا۔ حریت پسندوں اور بھارتی فوج کے درمیان نوعمر کشمیری جس بے خوفی سے اپنے سینوں کی ڈھال بناتے ہیں پہلے ایسے کہاں تھا ؟ بالاخر کشمیری بچے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ زندہ رہنے کی ذلت سے موت بہتر ہے۔

تحریک کچلنے کے لیے پیلٹ گنز کا جس اندھا دھند طریقے سے پچھلے آٹھ برس سے استعمال ہو رہا ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت بیس ماہ کی حبہ جان ہے۔ جسے یہی نہیں معلوم کہ اس کی آنکھیں کیوں ضایع ہو گئیں۔ پیلٹ گن میں جو کارتوس استعمال ہوتے ہیں ان سے بیک وقت چھ سو چھرے نکلتے ہیں۔ بھارت پیلٹ گن کو نان لیتھل ہتھیاروں میں شمار کرتا ہے۔ مگر اب تک چھ سو سے زائد کشمیری پیلٹ گن کے ذریعے ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ چھ ہزار سے زائد کے چہرے داغدار ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس ہی دنیا کا پہلا پیلٹ وائلنس وکٹم ٹرسٹ وجود میں آ گیا۔
اب تک اٹھارہ سو کے لگ بھگ کشمیری ٹرسٹ کے ممبر بن چکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی دونوں آنکھیں ضایع ہو چکی ہیں۔

یہ غیر متشدد ہتھیار کتنی شدت سے استعمال ہو رہا ہے اس کا انداز بھارت کی نیم فوجی سینٹرل ریزرو فورس کی جانب سے دو ہزار سولہ میں ایک عدالت میں جمع کرائے گئے بیان سے ہو سکتا ہے۔ اس میں اعتراف کیا گیا کہ صرف بتیس دن میں تیرہ لاکھ چھرے استعمال کیے گئے۔ مگر معاملہ پیلٹ گن سے بھی قابو میں نہیں آ رہا۔ اسی لیے اب فوج مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلا رہی ہے۔ پلواما میں اس طرح سے سات مظاہرین کو لٹا دیا گیا۔ جب تک آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے جانے اور کتنے کشمیری جاں بحق ہو چکے ہوں گے۔ بھارتی میڈیا کے ذریعے باور کرایا جا رہا ہے کہ یہ کشمیری نہیں بلکہ سرحد پار سے بھیجے گئے دہشت گرد ہیں جو پیسے دے کر مظاہرے کرا رہے ہیں اور عام کشمیریوں کو اکسا رہے ہیں۔ اگر یہ بات سچ ہے تو کشمیر کو چھوڑ کے کسی بھی بھارتی ریاست میں ہزار نہیں صرف ایک خاندان سامنے لے آئیں جو پیسے لے کر اپنے اور اپنے بچوں کے چہرے چھروں سے چھدوانے پر آمادہ ہو۔

 وسعت اللہ خان
 

مثبت رپورٹنگ بھی ہم ہی پہ بھاری

$
0
0

سوچا حکم بجا لاتے ہوئے مثبت رپوٹنگ ہی کی جائے ورنہ مسئلہ تو کافی سنجیدہ بھی تھا اور سنگین بھی۔ وزیراعظم جب عمران خان ہوں، مثالیں جب ریاستِ مدینہ کی دی جاتی ہوں، معیار جب صادق اور امین ہونے کا ہو تو پھر اگر ریاست کا سربراہ کوئی ایسی بات کرے جو غلط بیانی کے زمرے میں آتی ہو اور جسے مخالفین جھوٹ سے تشبیہ دیں تو پھر ایسے معاملہ کو ایک اخبار نویس کس طرح مثبت انداز میں پیش کرے کہ ’’کسی‘‘ کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ بہت سوچا، خبر مثبت بھی بنا دی لیکن جب اخبار میں شائع ہوئی تو حکومت کی طرف سے ردِّعمل نہ صرف منفی ملا بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ پریس کونسل میں جانے کے لیے تیار ہو جائو۔ اب کیا کریں، کچھ سمجھ نہیں آتی۔ قارئین کرام کی خدمت میں اپنا کیس پیش کرتا ہوں، ہو سکتا ہے کوئی پڑھنے والا ہی کوئی مفید مشورہ دیدے۔
حال ہی میں متعدد ٹی اینکرز کے ساتھ اپنے انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستانیوں کی بیرونِ ملک چھپی دولت کا پتا لگانے کیلئے 26 ممالک کے ساتھ معاہدے کئے ہیں۔ اس معاملے کا کریڈٹ لیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ پچھلی حکومت نے ایسا کوئی ایک معاہدہ بھی نہیں کیا۔ ایک اخبار نویس کے طور پر جب حقیقت معلوم کی تو پتا لگا کہ خان صاحب نے جو کہا وہ حقائق کے برعکس اور بالکل غلط تھا۔ اب سوچا کہ کیسے مثبت خبر دی جائے کہ وزیراعظم پاکستان پر کوئی حرف آئے نہ کوئی اُنہیں غلط بیانی اور جھوٹ بولنے کا طعنہ دے سکے اور حقیقت بھی سب کے سامنے آ جائے۔

مثبت رپورٹنگ کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے خبر اس طرح بنائی کہ وزیراعظم عمران خان پر کوئی انگلی نہ اُٹھے۔ میں نے لکھا کہ وزیراعظم صاحب کو غلط اطلاع دی گئی ہے کہ اُن کی حکومت نے 26 ممالک کے ساتھ معاہدے کئے ہیں۔ میری خبر کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستانیوں کی اربوں روپے کی دولت کا پتا لگانے کیلئے اب تک کوئی ایک معاہدہ بھی نہیں کیا، بلکہ جو انفارمیشن اس حوالے سے پاکستان کو ملنا شروع ہوئی ہے وہ ن لیگی حکومت کی جانب سے کیے گئے معاہدوں کا نتیجہ ہے۔ مثبت رپورٹنگ کرتے ہوئے میں نے وزیراعظم پر کوئی ذمہ داری ڈالنے کے بجائے لکھا کہ یہ واضح نہیں کہ کس نے وزیراعظم کو اس حوالے سے غلط معلومات فراہم کی جس کی وجہ سے انہیں شرمندگی اٹھانا پڑی، کیونکہ جس معاملے کا سہرا وہ اپنے سر لینے پر تلے تھے وہ دراصل ن لیگی حکومت کو جاتا ہے۔ 

میں نے یہ بھی لکھا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو غلط معلومات وزیراعظم کو فراہم کی گئی اُسے ان کے رفقا نے چیک بھی نہیں کیا، جس کی وجہ سے عمران خان کے مخالفین کو انہیں بدنام کرنے کا موقع ہاتھ لگ گیا۔ لیکن اس مثبت رپورٹنگ کے جواب میں وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے میڈیا افتخار درانی نے سخت ردعمل دیا۔ دی نیوز کے سینئر رپورٹر احمد نورانی سے بات کرتے ہوئے درانی صاحب نے میرے خلاف پریس کونسل آف پاکستان میں اس خبر پر شکایت درج کرانے کا فیصلہ سنایا۔ خبر کا عنوان تھا کہ کس نے وزیراعظم کو غلط معلومات فراہم کی افتخار درانی نے کہا کہ انصار عباسی کی خبر کی سرخی غلط تھی، جس سے دل آزاری ہوئی۔ 

درانی صاحب نے مزید کہا کہ یہ کہنا صریحاً غلط ہے کہ وزیراعظم کو غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافت کا معیار برے طریقے سے گر چکا ہے اور صحافیوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایشوز کو سمجھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صحافی حضرات کو ایشوز سمجھنے کا سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ درانی صاحب خصوصاً غلط معلومات کے لفظ سے بہت ناراض تھے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ خبر کی تردید کے لیے اُن کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا کیونکہ حقائق وہی ہیں جو خبر میں لکھے گئے۔ میں ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وزیراعظم کے مشیر برائے میڈیا کو Misfed کے لفظ میں ایسا کیا نظر آیا جس سے اُن کی دل آزاری ہوئی۔ میں نے مثبت رپوٹنگ کا تجربہ کیا، اپنے وزیراعظم کے بارے میں منفی بات کرنے کے بجائے جھوٹ اور غلط بیانی کو کسی تیسرے کے سر ڈال دیا لیکن اس کے جواب میں نہ صرف صحافت پر لیکچر سننا پڑا بلکہ یہ بھی دھمکی ملی کہ حکومت میرے خلاف پریس کونسل کوشکایت کرے گی۔ یہی نہیں‘ نجانے وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب جناب بیرسٹر شہزاد اکبر کو کیا ہوا کہ اُنہوں نے بھی اس خبر کی اشاعت کے بعد مجھ سے بات کرنا چھوڑ دی۔ ایسے ماحول میں مثبت رپورٹنگ بھی ہم ہی پہ بھاری پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔

انصار عباسی
 

آٹھ نوجوانوں کی شہادت پر پورا کشمیر سوگ میں ہے

$
0
0

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلواما میں ہفتے کو فوج کی فائرنگ سے آٹھ شہری شہید ہو گئے تھے.

ایک ہی دن میں آٹھ نوجوانوں کی شہادت پر پورا کشمیر سوگ میں ہے.

شہید ہونے والوں کے جنازوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور انڈیا کے مخالف نعرے لگائے.

شہید ہونے والوں سے میں بعض کو پاکستان کے قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا.    

فائرنگ کے اس واقعہ میں درجنوں نوجوان زخمی بھی ہوئے جنہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا.


گریٹ افغان گیم پارٹ ٹو

$
0
0

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کابل جا رہے ہیں تاکہ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے فعال کردار ادا کرنے کی جو فرمائش کی ہے اسے آگے بڑھایا جا سکے۔ پچھلے ایک ماہ کے دوران افغانستان میں ایک جانب تو طالبان اور امریکا نے ایک دوسرے کے خلاف فوجی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ دوسری جانب سفارتی سرگرمیوں میں بھی غیر معمولی تیزی آ گئی ہے۔ امریکی خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد دوہا میں طالبان سے بات چیت کے دور کے بعد افغان صدر اشرف غنی کو اعتماد میں لے کر اسلام آباد میں اعلیٰ پاکستانی قیادت سے ملے ہیں۔

دوسری جانب ماسکو میں طالبان نے ایک علاقائی کانفرنس میں پہلی بار کھلی شرکت کی جب کہ کابل حکومت نے اس کانفرنس میں کوئی باضابطہ سرکاری وفد بھیجنے کے بجائے اعلیٰ افغان امن کونسل کے نمایندوں کو غیر رسمی شرکت کے نام پر بھیجا۔ چین جسے روڈ اینڈ بیلٹ اور سی پیک سرمایہ کاری کی خاطر پاکستان کی مغربی سرحد اور وسطی ایشیا سے ملنے والی افغانستان کی شمالی سرحد پر امن درکار ہے۔ وہ بھی طالبان، کابل حکومت اور اسلام آباد سے رابطے میں ہے۔ بھارت بھی اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے پاؤں ٹکانے کے لیے امریکی رضامندی سے کابل حکومت کے ساتھ موثر رابطے استوار کیے ہوئے ہے اور اس بابت امریکا پاک بھارت افغان مفادات کے ترازو کو متوازن رکھنے کی اپنی سی کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔

اگر واشنگٹن میں بیٹھ کر افغان دلدل کو دیکھا جائے تو محکمہ خارجہ کا پلڑا افغان کمبل سے مرحلہ وار جان چھڑانے کے حق میں معلوم ہوتا ہے۔ مگر ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس سابق و حاضر امریکی فوجی جنرلوں کی رائے کو دفترِ خارجہ کے تجزیے سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ اسی لیے ٹرمپ انتظامیہ ایک جانب بظاہر افغانوں کے درمیان بات چیت اور دوسری جانب طالبان سے براہِ راست رابطوں میں مصروف تو ہے مگر وہ افغانستان میں امن بھی اپنی مرضی کا چاہتی ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ حالات کا جبر ٹرمپ انتظامیہ کو رفتہ رفتہ بادلِ نخواستہ قائل کر رہا ہے کہ پاکستان کو ساتھ لیے بغیر کوئی بھی افغان حل پائیدار نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا عسکری ڈو مور کی پالیسی رفتہ رفتہ پاکستان سے سفارتی ڈو مور کی فرمائش کی جانب شفٹ ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں واشنگٹن پوسٹ کو وزیرِ اعظم عمران خان کا انٹرویو اور سینیٹ کی مسلح افواج کمیٹی کے روبرو امریکی سینٹرل کمانڈ کے نامزد سربراہ لیفٹنٹ جنرل کینتھ میکنزی کے بیان کو جوڑنا چاہوں گا۔

عمران خان نے واشنگٹن پوسٹ کے انٹرویو میں سول و عسکری قیادت کے اس تازہ تکراری موقف کو دہرایا کہ پاکستان آیندہ کسی اور کی جنگ نہیں لڑے گا۔پاکستان امریکا سے ایسا تعلق نہیں رکھنا چاہتا گویا ایک کرائے کے جنگجو کو پیسے دے کر لڑا دیا جائے بلکہ وہ چین کی طرح امریکا سے بھی برابری کے تجارتی رشتے استوار کرنا چاہتا ہے ( یہ بات بھی قابلِ بحث ہے کہ وہ کون کون سی طاقتیں ہیں جن کے ساتھ پاکستان کے عملاً برابری کی سطح پر تعلقات ہیں )۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے نامزد سربراہ جنرل میکنزی نے سینیٹ کی مسلح افواج کمیٹی کے سامنے کہا کہ افغان طالبان کی تعداد ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے اور افغانستان میں امریکی ناٹو افواج کی تعداد سولہ ہزار ہے۔ افغان فوج کو لڑائی میں جس تناسب سے بھاری جانی نقصان ہو رہا ہے وہ طویل المعیاد سطح پر ناقابل ِ برداشت ہے۔ لہٰذا امن کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈنا ہی پڑے گا۔ بقول جنرل میکنزی پاکستان جانتا ہے کہ اس کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔مگر پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے امریکا کو کوئی پرکشش پیش کش کرنا پڑے گی۔

یعنی پاکستان امریکا سے مستقبل کے تعلقات کے تناظر میں چینی کیمپ میں جانے کے نتیجے میں زیادہ پراعتماد ہونے کے سبب امریکا سے ماضی کے اناڑی پن کے برعکس بہتر سودے بازی کا خواہاں ہے۔ گویا اب محض سابقہ ادوار کی طرح ’’ مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے ’’ سے کام نہیں چلے گا بلکہ افغان حل کی قیمت میں پاک بھارت تعلقات میں پاکستانی علاقائی مفادات کا بھی کسی حد تک ازالہ کرنا ہو گا۔ لیکن کیا واقعی امریکا افغانستان سے جان چھڑانا چاہتا ہے ؟ اس ناچیز کی رائے میں ایسا مستقبلِ قریب میں نظر نہیں آ رہا۔ اس وقت وسطی و جنوبی ایشیا میں افغانستان واحد ملک ہے جہاں واضح امریکی فوجی موجودگی ہے۔ اگر امریکا اس فوجی موجودگی کو ختم کر دیتا ہے تو پھر سوائے خلیج کے اس پورے خطے میں کوئی موثر امریکی اڈہ نظر نہیں آ رہا۔

افغانستان کی جغرافیائی لوکیشن کچھ ایسی ہے کہ اگر اس ملک کو ایک امریکی طیارہ بردار جہاز تصور کر لیا جائے تو اس کے ریڈار پر بیک وقت روس ، چین ، پاکستان اور ایران کو دیکھا جا سکتا ہے۔ چین اور روس کی سافٹ بیلی ( پیٹ کا نرم حصہ ) ہے اور ایران جیسے ملک کو مغرب میں خلیج اور مشرق میں افغانستان کے ذریعے امریکی دباؤ میں رکھنے کے لیے افغانستان ایک مثالی لوکیشن ہے۔ چنانچہ افغان فوج آگے چل کے بھی امریکا کے علاقائی مفادات کا چارہ بننے پر آمادہ رہے اور امریکا اور طالبان کے درمیان بطور عسکری بفر استعمال ہوتی رہے تو امریکا اپنے قابلِ برداشت جانی نقصان کی قیمت پر مستقبلِ قریب میں کبھی بھی افغانستان سے مکمل ہاتھ دھو کر روس، چین اور ان کے علاقائی اتحادیوں کو یکطرفہ واک اوور دینے کی حماقت نہیں کرے گا۔ اس بابت حال ہی میں امریکی مسلح افواج کے سب سے سینئر جنرل اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفرڈ نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کو جو انٹرویو دیا اس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔

جنرل ڈنفرڈ فرماتے ہیں کہ امریکا کو افغانستان سے مکمل انخلا کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔ اس کا مطلب افغانستان میں ایک بار پھر دہشت گردوں کو پاؤں جمانے کا بھرپور موقع دینا اور امریکا کے خلاف ایک اور نائن الیون کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کی راہ ہموار کرنے جیسا ہو گا۔ افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی دہشت گردوں کو تتر بتر رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس وقت بھی افغانستان کے جنوبی صوبوں میں لگ بھگ بیس خطرناک گروپ فعال ہیں۔
بقول جنرل ڈنفرڈ افغانستان میں متحرک گروہوں بالخصوص طالبان کو امن کی ضرورت کا قائل کرنے کے لیے مسلسل فوجی، سماجی و سفارتی دباؤ برقرار رکھنا ضروری ہے۔ تاکہ جنوبی ایشیا میں امریکا کے مستقل اسٹرٹیجک ، اقتصادی و سفارتی مفادات کو محفوظ کیا جا سکے۔ ویسے بھی بقول جنرل ڈنفرڈ ناٹو اور امریکا کم از کم دو ہزار چوبیس تک افغان سیکیورٹی فورسز کو ایک فعال قوت بنانے کے لیے ضروری حمایت اور وسائل مہیا کرنے کے وعدے پر کاربند ہیں۔

جنرل ڈنفرڈ کا اندازہ ہے کہ جبوتی اور پاکستان میں چینی بحری موجودگی علاقے میں امریکا کی عسکری بالا دستی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ چینی صدر ژی پنگ گزشتہ برس واضح کر چکے ہیں کہ وہ ایک ایسی عالمی قوت بننا چاہتے ہیں جس کی دنیا کے کسی بھی کونے بالخصوص چینی دلچسپی کے علاقوں تک بروقت اسٹرٹیجک رسائی ہو سکے۔ جنرل ڈنفورڈ کے بھاشن کو اگر میں ایک سطر میں سمونا چاہوں تو وہ یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں ایسا امن چاہتا ہے جس سے آنے والے وقت میں اس کی علاقائی اسٹرٹیجک موجودگی متاثر نہ ہو۔ اس کا مختصر اور آسان مطلب ہے ’’گریٹ گیم پارٹ ٹو۔

وسعت اللہ خان
 

کیا ہمارے تعلیمی ادارے نئی نسل کو تباہ کرنے کے ٹھکانے بن رہے ہیں ؟

$
0
0

تعلیمی ادارے جو کبھی ہمارے بچوں کی تعلیم و تربیت کے وجہ سے جانے جاتے تھے، آج ان میں پڑھنے والے قوم کے بچوں کو نشہ کی صورت میں موت بیچی جا رہی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان تعلیمی اداروں میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اگر کوئی نشہ سے بچ جائے تو اُسے اخلاقی طور پر تباہ کر دیا جاتا ہے۔ آج (بروز بدھ 19دسمبر 2018) دو خبریں شائع ہوئیں جو تعلیمی اداروں کے متعلق تھیں اور جنہیں پڑھ کے ایک بار پھر محسوس ہوا کہ ہمارے بچوں کو کس قدر سنگین خطرات کا سامنا، اُس ماحول اور اُن اداروں سے ہے جہاں ہم اُن کے روشن مستقبل کے لیے اُنہیں پڑھنے اور کردار سازی کے لیے بھیجتے ہیں۔ 

ایک خبر وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کے حوالے سے پڑھنے کو ملی۔ اسلام آباد میں منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہریار آفریدی نے انکشاف کیا کہ ایک سروے کے مطابق اسلام آباد کے بڑے تعلیمی اداروں میں 75 فیصد لڑکیاں اور 45 فیصد لڑکے ایک خطرناک نشہ‘ آئس کرسٹل ہیروئن استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ان بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی ہر چار میں سے تین طالبات اور تقریباً نصف نوجوان لڑکے ایسا نشہ کرتے ہیں جو کسی بھی فرد کی زندگی تباہ کرنے کے لیے کافی ہے اور جس کے سبب اب تک لاکھوں افراد اپنی جان کھو بیٹھے ہیں۔ شہریار آفریدی نے یہ بھی بتایا کہ بڑے بڑے اسکولوں میں آئس ہیروئن بک رہی ہے، منشیات کینڈی کے ریپر میں لپیٹ کر دی جاتی ہیں۔

اگرچہ وزیر مملکت نے اس بات کا تہیہ ظاہر کیا کہ وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق حکومت ڈرگ مافیا کو کچل دے گی لیکن یہ صورتحال پورے معاشرہ کے لیے ایک ایسی وارننگ ہے جسے اگر Ignore کیا گیا تو کسی کا بیٹا، بیٹی یا بھائی، بہن نشہ سے نہ بچ پائے گا کیونکہ یہ وہ نشہ ہے جو نہ صرف زندگی تباہ کرتا ہے بلکہ موت تک پیچھا نہیں چھوڑتا۔ دوسری خبر کے مطابق سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں تعلیمی اداروں کے متعلق اس تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں کو اخلاقیات سکھانے اور اُن کی کردار سازی کرنے کے برعکس اُنہیں ڈانس، فیشن اور مغربی ثقافت سکھائی جا رہی ہے جس کہ وجہ سے طرح طرح کی معاشرتی خرابیاں پیدا جنم لیتی ہیں اور ہمارے بچوں کے اخلاق اور اُن کے کردار تباہ ہو رہے ہیں۔

سینیٹ کمیٹی نے زور دیا کہ تعلیمی اداروں میں اخلاقیات اور کردار سازی کو تعلیم کے ساتھ لازم جز کے طور پر شامل کیا جائے اور ایسا ماحول پیدا نہ جائے کہ ہمارے بچے اپنی معاشرتی اور دینی اقدار کو بھلا کے مغربی کلچر، ڈانس اور فیشن ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیں۔ اگرچہ ہمارے درمیان موجود ایک طبقہ مغربی کلچر، فیشن اور ڈانس کو بُرا نہیں سمجھتا لیکن کسے نہیں معلوم کہ یہی وہ طور طریقے ہیں جو نہ صرف اخلاقی طور پر ہماری نئی نسل کو تباہ و برباد کر رہے ہیں بلکہ کئی بچوں کو منشیات کی طرف بھی دھکیل رہے ہیں۔ میں نے ان موضوعات پر پہلے بھی کئی بار لکھا اور اس بات پر زور دیا کہ تعلیمی اداروں میں فیشن، ڈانس، نوجوان لڑکے لڑکیوں کا آپس میں ملاپ وغیرہ وہ چیزیں ہیں جو بچوں کو اصل مقصد یعنی پڑھائی لکھائی سے دور کرتی ہیں۔ 

لیکن افسوس کہ جب یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ مخلوط تعلیمی نظام کو ختم کیا جائے، جب کسی تعلیمی ادارہ کی انتظامیہ پڑھائی پر زور دیتی ہے اور فیشن، ڈانس اور لڑکے لڑکیوں کے بلاوجہ ملاپ کو روکتی ہے، جب طلباء و طالبات کو مہذب لباس پہننے کی تاکید کی جاتی ہے، جب کوئی حکومت طالبات کو سر ڈھانپنے کے ترغیب دیتی ہے تو ایک مخصوص مغرب زدہ طبقہ شور مچاتا اور ایسے اقدامات کو ترقی کے خلاف گردانتا ہے۔ ہمارا میڈیا اس طبقہ کی ہاں میں ہاں ملا کر تربیت اور کردار سازی کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیتا ہے۔ اس طبقہ اور میڈیا کے ڈر سے حکومت اور پارلیمنٹ بھی کچھ نہیں کرتے جبکہ عام لوگ بھی میڈیا کے پروپیگنڈے سے مرعوب ہو کر فیشن، ڈانس اور مرد و عورت کے ملاپ کو ہی ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ نتیجتاً ہم ایک ایسا معاشرہ بنا رہے ہیں جس میں ہماری نوجوان نسل کو تعلیم کے نام پر تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ جہالت کے زمانے میں لوگ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیتے تھے لیکن آج جو کچھ ہمارے تعلیمی اداروں میں ہو رہا ہے، وہ پورے معاشرہ کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔

انصار عباسی
 

فیس بک کو لاکھوں صارفین کے ڈیٹا چوری پر ایک ارب ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے

$
0
0

فیس بک کو اپنے صارفین کی پرائیویسی کے تحفظ میں ناکامی کی وجہ سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کے اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ امریکی دارالحکومت نے فیس بک کمپنی کے خلاف اپنے صارفین کو مبینہ طور پر ڈیٹا کے تحفظ کے متعلق غلط معلومات فراہم کرنے پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ فیس بک کو صارفین کے تحفظ سے متعلق قانون کی ہر خلاف ورزی پر 5000 ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اگر عدالت تمام متاثرہ صارفین کو ادائیگی کا حکم دیتی ہے تو یہ رقم ایک ارب 70 کروڑ ڈالر تک پہنچ سکتی ہے ۔  مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ ڈیٹا کوئز کے ایک سافٹ ویر کے ذریعے چوری کیا گیا۔ یہ سافٹ ویر واشنگٹن ڈی سی کے 3 لاکھ 40 ہزار صارفین کے پاس تھا، لیکن اس سے صرف 852 مقامی صارف متاثر ہوئے۔

ادھر یورپی حکام نے بھی حال ہی میں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اس بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں کہ کمپنی اپنے صارفین کی پرائیویسی کا تحفظ کرنے میں کیوں ناکام ہوئی۔ میڈیا چینل سی این این نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ آئرش ڈیٹا پروٹیکشن کمیشن نے تصدیق کی ہے کہ اس نے ڈیٹا کی چوری سے متعلق کئی شکائتیں ملنے کے بعد یورپی قوانین کے تحت فیس بک کمپنی کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ تفتیش سے متعلق خبریں فیس بک کی جانب سے اس اعلان کے بعد آئی ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ اس کے لگ بھگ 68 لاکھ صارفین کی تصویریں تک ہیکرز نے رسائی حاصل کر لی تھی۔

ڈیٹا چوری کا انکشاف اس وقت ہوا جب ستمبر میں کمپنی نے یہ اعلان کیا کہ یہ فیس بک کی تاریخ میں سیکیورٹی سسٹم کو توڑ کر اس کے اندر گھسنے کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ فیس بک کے خلاف تحقیقات آئرش ڈیٹا ریگولیٹر کو جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (جی ڈی پی آر) کے نئے اختیارات ملنے کے بعد شروع ہوئیں ہیں جن کا اطلاق یورپی یونین نے مئی میں کیا تھا۔ آئرلینڈ کی جانب سے تحقیقات شروع کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ فیس بک کا یورپی ہیڈ کوارٹرز ڈبلن میں ہے، چنانچہ جی ڈی پی آر کے تحت ڈیٹا چوری کا علم ہونے کے بعد اس کی اطلاع 72 گھنٹوں کے اندر آئرش ڈیٹا ریگولیڑ کو دینا ضروری تھا۔

جو کمپنیاں جی ڈی پی آر کے ضابطوں پر عمل کرنے میں ناکام رہتی ہیں انہیں زیادہ سے زیادہ دو کروڑ 30 لاکھ ڈالر یا دنیا بھر میں کمپنی کے سالانہ محصولات کی آمدنی کے 4 فی صد تک، ان دونوں میں جو بھی زیادہ ہو، جرمانہ ہو سکتا ہے۔
جہاں تک فیس بک کا معاملہ ہے تو اسے 2017 میں لگ بھگ 40 ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر 2018 میں بھی اس کی آمدنی یہی رہتی ہے تو اسے ایک ارب 60 کروڑ ڈالر تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ستمبر میں ہیکرز کو لاکھوں صارفین کی تصویروں تک 12 دن کے لیے رسائی حاصل رہی۔

فیس بک کو سیکیورٹی سسٹم میں شگاف کا علم ستمبر میں ہی ہو گیا تھا لیکن اس نے دو مہینوں کے بعد یورپی ریگولیٹر کو اس کی اطلاع دی۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ اطلاع کرنے میں تاخیر کا سبب یہ تھا کہ کمپنی یہ تعین کر رہی تھی کہ آیا یہ ڈیٹا چوری کا یہ واقعہ اس دائرے میں آتا ہے جس کی اطلاع دینا ضروری ہے ۔  کمیونیکشن سے متعلق ریگولیٹر اتھارٹی کے سربراہ گراہم ڈئیل نے کہا ہے کہ آئرش ڈیٹا کمیشن نے فیس بک کی جانب سے سیکیورٹی سسٹم میں شگاف کی کئی نوٹیفیکشن ملنے کے بعد تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ ہم آئرش ڈیٹا پروٹیکشن کمشن کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں اور کسی بھی سوال کا بخوشی جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ڈان اردو

 

صارف کب ازخود نوٹس لے گا ؟

$
0
0

بی بی سی کے مطابق برطانیہ کی ایڈورٹائزنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی نے تازہ ترین پابندی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی ٹوتھ پیسٹ کے ایک اشتہار پر لگائی ہے جس کے استعمال سے خراب دانتوں کی فوری مرمت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اتھارٹی نے اس دعویٰ کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ کمپنی پابند ہے کہ ایسے کسی بھی دعویٰ کا ٹھوس سائنسی ثبوت فراہم کرے۔ ایک اور اشتہار پر اس لیے پابندی لگائی گئی کیونکہ جو ماڈل گرل اشتہار میں بطور نرس ٹوتھ پیسٹ کی خوبیاں بیان کر رہی ہے وہ نرس نہیں اداکارہ ہے۔ اتھارٹی نے گذشتہ سات برس میں مختلف وجوہات کی بنا پر اس ملٹی نیشنل کمپنی کے نو اشتہارات پر صارفین کی توجہ دلاؤ شکایات کے سبب پابندی عائد کی ہے۔ اگلے برس جون کے بعد سے برطانیہ میں کوئی ایسا اشتہار شایع یا نشر نہیں ہو گا جس سے کسی جنس کو روایتی انداز میں کمتر دکھایا جائے جیسے کہ عورت مرد کی نسبت زیادہ بہتر طریقے سے کار پارک نہیں کر سکتی یا کسی اشتہار میں مرد کھانا تیار کرنے سے انکار کر دے اور صرف عورت کو ہی کچن میں دکھایا جائے وغیرہ وغیرہ۔

حال ہی میں امریکی ریاست میسوری کی ایک عدالتی جیوری نے جانسن اینڈ جانسن کے بے بی ٹالکم پاؤڈر میں ازبسٹاس کی موجودگی سے ممکنہ طور پر بیضہ دانی کے سرطان سے متاثر بائیس خواتین کے دعوے پر فیصلہ سناتے ہوئے کمپنی کو چار اعشاریہ چھ ارب ڈالر سے زائد ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس فیصلے کے سبب اسٹاک مارکیٹ میں جانسن اینڈ جانسن کے شئیرز کی قیمت میں دس فیصد کی فوری کمی دیکھنے میں آئی۔ بھارت میں دو ہزار پندرہ میں نیسلے انڈیا کے انسٹنٹ میگی نوڈلز کو فوری طور پر شیلف سے ہٹانا پڑا جب کمپنی کے دعوؤں کے برعکس نوڈلز میں سیسے کی منظور شدہ مقدار سے کئی گنا زائد سیسے کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ اپنے پرکشش اشتہارات کے سبب جن میں بالی وڈ کے چوٹی کے اداکار لیے جاتے تھے۔ ان کے سبب بچوں میں مقبول میگی نوڈل کی فروخت منفی خبر آتے ہی اسی فیصد تک کم ہو گئی۔ دو برس کی تگ و دو کے بعد میگی نوڈلز نے رفتہ رفتہ صارفین کا کھویا ہوا اعتماد حاصل تو کر لیا ہے البتہ اس اسکینڈل کے بعد بھارت میں مرکزی و ریاستی فوڈ اینڈ پروڈکٹس اسٹینڈرڈ اتھارٹیز اور انڈین ایڈورٹائزنگ کونسل نے جانچ پڑتال کے نظام اور قواعد و ضوابط کو مزید بہتر بنانے کے لیے کنٹرولز متعارف کروائے ہیں۔

ہم صارفین نوے فیصد اشیا خریدنے کا فیصلہ قیمت کے علاوہ اشتہار، برانڈ اور کمپنی کا نام دیکھ کر کرتے ہیں۔ مگر ان مصنوعات کے معیارات کے بارے میں طبع شدہ اور زبانی دعوؤں کو جانچنا چونکہ ایک عام صارف کے بس سے باہر ہے لہذا توقع کی جاتی ہے کہ یہ ذمے داری ریاستی و مقامی قوانین اور متعلقہ ادارے پوری کریں۔ امریکا، یورپی ممالک، خلیجی ریاستوں میں روزمرہ مصنوعات کا معیار اور اشتہاری دعوؤں کو جانچنے والے ادارے خاصے بااختیار و باوسیلہ ہیں۔ کیا پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے ؟ پیمرا نے اگست دو ہزار پندرہ میں جو نشریاتی ضابطہِ اخلاق نافذ کیا۔ اس کے سیکشن چودہ کے تحت اشتہاری ضابطہِ اخلاق سے یہ تو پتہ چل جاتا ہے کہ فحاشی ، تشدد ، غیرقانونی و ممنوعہ اشیا، جوئے ، لاٹری ، نشہ آور مشروبات ، سگریٹ ، جادو ٹونے ، توہمات اور مذہبی و قومی منافرت پھیلانے والے اشتہارات نشر کرنا منع ہے نیز بچوں کی مصنوعات کے اشتہارات میں بچوں کو براہ راست مخاطب کر کے انھیں یہ مصنوعات خریدنے کی ترغیب نہیں دی جا سکتی۔

مگر جن مصنوعاتی خوبیوں کے دعوے اخباری و نشریاتی اشتہارات میں کیے جاتے ہیں ان کی سائنسی صداقت اور معیار جانچنے کا کام کون سا ادارہ کرتا ہے ؟ اس بابت الگ سے کوئی بااختیار و خود مختار ایڈورٹائزنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی موجود ہے تو اس فقیر کے علم میں بھی اضافہ کیا جائے۔ مثلاً کالے کو گورا کرنے والی کریم یا لوشن کے بارے میں اگر کوئی اشتہار شایع یا نشر ہوتا ہے تو اس کی اجازت کون سا ادارہ کس چھان پھٹک کے بعد دیتا ہے ؟ میں اکثر ایک مشہور بین الاقوامی کمپنی کی جانب سے بالوں کو لمبا کرنے کا دعوی کرنے والے شیمپو کا اشتہار دیکھتا ہوں جس میں سفید گاؤن پہنے ایک خاتون (اللہ جانے یہ ڈاکٹر ہیں یا ماڈل یا بیوٹیشن ) فرما رہی ہے کہ مڈل ایسٹ میں ہونے والی ایک کانفرنس کے ننانوے فیصد شرکا نے تصدیق کی ہے کہ مذکورہ شیمپو میں فلاں فلاں خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ کانفرنس کب اور مڈل ایسٹ میں کہاں ہوئی اور اس میں کن کن سرکردہ یا غیر سرکردہ ماہرین نے شرکت کی ؟ کوئی پوچھنے والا نہ بتانے والا۔

اسی طرح ٹوتھ پیسٹ کے اشتہار میں سفید گاؤن پہنے جو ڈاکٹر صاحب یا لیڈی ڈاکٹر صاحبہ مسوڑھے مضبوط کرنے کے لیے صرف اور صرف راکٹ لمیٹڈ کا پگڈنڈی ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنیکا مشورہ دے رہے ہیں۔ کیا کسی متعلقہ مجاز ادارے نے پوچھا کہ یہ ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کہاں کام کرتے ہیں اور ان کی اہلیت کیا ہے؟ بہت سے صابن یہ کہہ کے فروخت کیے جا رہے ہیں کہ ان سے ننانوے فیصد جراثیم ختم ہو جاتے ہیں؟ کیا کوئی بتائے گا کہ وہ ہڈ حرام ایک فیصد جراثیم کون سے ہیں جو کسی صابن سے بھی ختم نہیں ہوتے۔ اور یہ ننانوے فیصد جراثیم ختم کرنے کا فتوی کس سائنسی و طبی ادارے سے لیا گیا ہے ؟ کیا مجھ جیسے خبطی یہ فتوی دیکھ سکتے ہیں ؟ اور یہ دعوی کہاں سے آیا کہ کھلا دودھ لازماً مضرِ صحت ہے اور ڈبہ پیک دودھ لازماً صحت مند اور خالص ہے ؟ یا چمتکاری ڈیٹر جنٹ پاؤڈر کس طرح وہ سارے ناممکن داغ دھو دیتا ہے جو اس کے علاوہ کوئی ڈیٹرجنٹ پاؤڈر نہیں دھو سکتا ؟ کپڑے دھونے کا جو مقابلہ اشتہار میں دکھایا جاتا ہے یہ مقابلہ کہاں منعقد ہوا ؟ کیا اس میں صرف اشتہاری ماڈل ہی شریک تھے یا عام شہری اور ناظر بھی اس تماشے میں شامل تھے ؟ اگلا مقابلہ کب ہے ؟

مانا کہ ہمارے ہاں کھلم کھلا مضرِ صحت اشیائے خور و نوش فروخت ہو رہی ہیں، مارکیٹ میں جعلی ادویات کی بھرمار ہے ، کون سی سبزی ، پھل یا گوشت کی کوالٹی کیا ہے اس بابت کچھ کہنا مشکل ہے۔ مگر بڑی بڑی اور معروف کمپنیاں اپنی مصنوعات کے بارے میں جو اشتہاری دعوے کر رہی ہیں ؟ کیا وہ سب درست ہیں ؟ ہاں وہ سب درست ہیں؟ اگر ایک بھی دعوی غلط ہوتا تو کبھی تو پکڑ ہوتی۔جب کروڑوں روپے کے اشتہارات کا معاملہ ہو تو ایسے الٹے سیدھے سوالات نہیں اٹھانے چاہئیں ؟ سب اچھا ہے سب خالص ہے۔ یہ تصویر بدل سکتی ہے اگر صارف اپنے حقوق سے آگاہ ہو اور جو دعوی عقل سے ماورا لگے اسے چیلنج کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو۔ کوئی جج یا عدالت آخر کتنے ازخود نوٹس لے سکتے ہیں؟ کچھ ازخود نوٹس صارف کو بھی تو لینے چاہئیں۔

وسعت اللہ خان  


امارات سے 3 ارب ڈالر کا پیکیج

$
0
0

معیشت کے دگرگوں حالات، بیرونی و گردشی قرضوں کی عدم ادائیگی خصوصاً زرمبادلہ کے بتدریج گرتے ہوئے ذخائر اور اس کے نتیجے میں درپیش معاشی نفسانفسی کے عالم میں سعودی عرب، چین اور ملائشیا کے کامیاب دوروں کے بعد وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان کے اعلیٰ سطحی وفد نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کر کے وہاں کی قیادت کے ساتھ جامع مذاکرات کئے اگرچہ اس میں کسی مالیاتی پیکج کا ذکر نہ تھا لیکن اس کے پانچ روز بعد امارات کی حکومت کی جانب سے تین ارب ڈالر دینے کا فراخ دلانہ اعلان دونوں ملکوں کے برادرانہ تعلقات کا مظہر ہے۔ متحدہ عرب امارات نے یہ اعلان اس وقت کیا جب حکومت پاکستان آئی ایم ایف کے قرضے کے لئے اس کی انتہائی کڑی شرائط کے سامنے مخمصے کا شکار ہے۔ 

ابو ظہبی ڈویلپمنٹ فنڈ نے اعلان کیا ہے کہ متذکرہ تین ارب ڈالر کی رقم جلد اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں منتقل کر دی جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے امارات کا بجا طور پر مشکل وقت میں امداد دینے پر شکریہ ادا کیا ہے۔ ملک کی تیزی سے گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لئے اقتدار میں آنے کے بعد گزشتہ ساڑھے تین ماہ سے بار بار توانائی کے نرخ بڑھانا، روپے کے مقابلے میں ڈالرکی قیمت میں تین بار اضافہ، گردشی قرضوں کا حجم بڑھ کر چھ سو ارب تک پہنچ جانا، زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کا 13 ارب ڈالر پر آجانا اور ان سب کے نتیجے میں مہنگائی کا مسلسل بڑھنا ایسے عناصر ہیں جوملکی معیشت کے حوالے سے پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ 

سعودی عرب کی طرف سے گزشتہ ہفتے کے دوران ملنے والی امداد میں سے ایک ارب ڈالر کی دوسری قسط مل جانے اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے تین ارب ڈالر موصول ہو جانے سے زرمبادلہ کے ذخائر کی سطح 17 ارب تک آجائے گی۔ 2016 میں یہ سطح تقریباً 24 ارب ڈالر کی حد تک پہنچ چکی تھی جو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے بغیر مسلسل گرتی چلی گئی فی الوقت اگر زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب سے بڑھ کر 17 ارب پر آجاتے ہیں تو اس سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم ہونا شروع ہو سکتی ہے جس سے روز بروز تشویشناک حد تک بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

ملکی معیشت کو سردست جن مشکلات سے نکلنا ہے ان میں پہلے مرحلے میں مہنگائی کے مسلسل بڑھتے ہوئے گراف کو روکنا، زرمبادلہ کے ذخائر کو سنبھالا دینا، تیرہ سو ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی اور دوسرے مرحلے میں نادہندگان سے ٹیکس وصولیاں، بجلی اور گیس کے لائن لاسز اور چوری کے باعث ہونے والے مالی نقصان کی ریکوری ایسے گنے چنے مسائل ہیں جن سے فوری نمٹنا ناگزیر ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے سعودی عرب، چین، ملائشیا اور متحدہ عرب امارات کے دوروں اور وہاں کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں سرمایہ کاری کے منصوبوں پر عملدرآمد سے ملک کو درپیش سنگین اقتصادی مسائل سے نجات دلائی جا سکتی ہے یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ اس ماہ کی 27 اور 28 تاریخ کو اسلام آباد میں معاشی سفارت کاری مہم چلانے کے لئے جو سفیروں کی کانفرنس ہونے جا رہی ہے اس کے توسط سے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے۔

ان حالات میں آئی ایم ایف پر زیادہ انحصار معاشی بحالی کے لئے فائدے کے بجائے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان پہلے بھی آئی ایم ایف سے قرضوں کا ناتا توڑ چکا ہے۔ اب بھی اس کی کڑی شرائط رد کی جا سکتی ہیں۔ اس لحاظ سے وزیراعظم دوست ملکوں سے اعانت کے لئے جو کوششیں کر رہے ہیں وہی مسئلے کا صحیح حل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے مالیاتی نظام میں بہتری لائی جائے۔ منی بجٹ مسئلے کا حل نہیں اس سے بڑھتی ہوئی مہنگائی رک نہیں پائے گی البتہ نیب جیسے اداروں کے ذریعے دوسرے ملکوں میں چھپائی گئی رقوم کی برآمدگی کے لئے ٹھوس اقدامات قومی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، نیز نچلی سطح پر سرکاری اداروں میں کرپشن روکنے کے لئے اینٹی کرپشن سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو فعال کیا جائے۔

اداریہ روزنامہ جنگ

ہتھکڑیوں میں جکڑے معلم کی لاش اور زنجیروں میں جکڑا سماج

$
0
0

یہ وہ بدنصیب سماج ہے جسے اپنے قاتل اور مسییحا کے درمیان فرق بھی معلوم نہیں۔ یہاں جہل ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے اور علم و شعور کوچہ کوچہ آبلہ پا پھرتا ہے۔ نیب کی حراست میں سرگودھا یونیورسٹی کے پروفیسر میاں جاوید کی ہتھکڑی لگی لاش اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ہمارا سماج آج بھی ایک چار بائی چار کی کوٹھڑی میں ہتھکڑیوں سمیت قید، اپنے ہی تعفن کی بدبو سے متلی کر رہا ہے۔
شاید خبروں میں کچھ دیر ایک معلم کی ہتھکڑی لگی لاش دکھائی دے گی، اس پر تبصرے ہوں گے اور پھر کسی نئے سانحے یا نئی خبر کی تلاش اور اس پر تبصرے شروع ہو جائیں گے۔ البتہ اس معلم کی ہتھکڑیوں میں لپٹی لاش ایک اور بدنما خراش بن کر سماج کے اس مصنوعی چہرے کے میک اپ تلے موجود رہے گی جسے ناخداؤں نے انتہائی محنت سے اس زخم خوردہ چہرے کو چھپانے کےلیے سماج پر تھوپا ہے۔ 

امید ہے کہ پروفیسر میاں جاوید کی لاش تک کو نہ بخش کے راؤ انوار جیسے اجرتی قاتل اور پرویز مشرف جیسے غاصب کی ’’بے حرمتی‘‘ کا بدلہ سماج سے لے کر ناخداؤں کے دل میں ٹھنڈک پڑ گئی ہو گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سماج میں اس قدر بے حسی کیوں کر سرایت کر چکی ہے کہ یہاں ایک معلم کے اس قدر بھیانک انجام پر بھی قبرستان جیسا سناٹا جاری ہے؟ کہتے ہیں کہ زندگی بعض اوقات صدائیں دیتی رہتی ہے، اپنی نغمگی اور حلاوتوں کی جانب بلاتی ہے، لیکن سماعتوں سے محروم افراد اور سماج اس کی صداؤں کو سننے سے محروم رہتے ہیں۔ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ بطور سماج ہم بھی بصارت اور سماعتوں سے محروم، بس ناک کی سیدھ میں چلنے کو زندگی تصور کیے بیٹھے ہیں۔ اپنی اپنی اناؤں کی قید میں مقید اور اپنے اپنے خداؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی لگن میں اس سماج کو شاید ہم سب نے مل کر جہنم میں تبدیل کر ڈالا ہے۔ 

ایسا جہنم جہاں نفرت کے الاؤ پر ہاتھ سینکے جاتے ہیں اور برف سے سرد جذبات میں منجمد احساس کو تیاگ کر دوسروں کو کچل کر آگے نکلنے کے مواقع نکالے جاتے ہیں۔ ایسے مفاد پرست سماج کو بھیڑ بکریوں کی مانند ایک مخصوص سمت میں جھونک کر اپنے مفادات حاصل کرنا ہمیشہ سے ہی ناخداؤں کے بائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے۔ کبھی وردی میں ملبوس آمر اس بٹے ہوئے سماج کو ڈنڈے کے زور پر اپنی مرضی کی سمت میں دھکیلتا ہے تو کبھی جمہوریت کے نام پر کوئی کٹھ پتلی آکر سماج میں بسنے والے افراد کو ایک سراب کے تعاقب میں مصروف کروا دیتی ہے۔ گزشتہ اکہتر برسوں سے سماج کو شب کی تاریکی سے ڈرا کر اس پر ایک طویل اور ظلمت پر مبنی شب مسلط کر دی گئی ہے اور اس کے اندھیروں کو روشنی کا نام دے دیا گیا ہے۔

اب اس تاریکی شب کو بحکم سرکار سحر کہنے والوں کےلیے تو سماج میں پنپنے کی گنجائش موجود ہے لیکن اس شب کی ظلمت اور سیاہیوں کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے سحر کو کھوجنے والے افراد اس سماج کو قبول نہیں۔ سماج کے ناخداؤں نے ذات پات، مذہب، فرقہ بندی، قوم پرستی، اسلاف پرستی، کفر اور غداری کی اسناد بانٹنے کے چھوٹے چھوٹے ایسے بت بنا رکھے ہیں جن کے پجاریوں کو ان بتوں آگے سجدہ کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا۔ ایسے نابیناؤں کے شہر میں آئینے بیچنے والے گو اپنے ہی وقت اور توانائیوں کا زیاں کرتے ہیں، لیکن سماج کے ناخداؤں کو یہ بھی منظور نہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ سماج میں صرف ان ہی کے تخلیق کردہ بتوں کو پوجنے والے پجاری پیدا ہوں اور سرتسلیم خم نہ کرنے والوں کو ہمیشہ کےلیے سماج بدر کر دیا جائیے۔ یہی وجہ ہے کہ خاموشی اور عیاری کے ساتھ بتوں کو تبدیل کر کے سماج کو انقلاب کی نوید سنائی جاتی ہے۔ اس تاریکی کو سماج پر مسلط کرنے میں ہمارے دانشوروں اور صحافیوں نے ہمیشہ ہی ناخداؤں کا ساتھ دیا ہے۔

کیا دائیں بازو اور کیا بائیں بازو کے دانشور اور صحافی، سبھی اپنے اپنے ناخداؤں کی تعظیم و تکریم کرتے سماج کی بنیادوں کو اندھی تقلید کی روش کے گارے سے پروان چڑھوانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے رہے ہیں۔ نتیجتاً ناخداؤں کو سماج کے فکری استحصال کرنے میں کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بالخصوص گزشتہ دو دہائیوں سے علم و ادب اور صحافت کے میدانوں میں چھائے جمود نے اس استحصال کو مزید آسان بنانے میں معاونت فراہم کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کی پامالیوں، بنیادی حقوق کا سلب ہو جانا، انصاف، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کے میسر نہ آ پانے میں ہمارا شمار سرفہرست قوموں میں ہونے کے باوجود ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بلکہ، اس کے برعکس، اپنی ان کوتاہیوں اور کمیوں پر پردہ پوشی کا درس دیتے ہوئے ڈھٹائی اور خود فریبی کا استعمال کرتے ہوئے سماج کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ دنیا کی جدید تہذیب دراصل ہمارے کھوکھلے سماج سے نالاں ہے اور ہمارے خود فریبی کے شکار سماج کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اس مفروضے پر من و عن ایمان لانے والوں کے لیے ناخداؤں کی جانب سے انعام و اکرام اور نوازشوں کی بارشیں برسائی جاتی ہیں جبکہ اس خود ساختہ اور من گھڑت بیانیے کو سماج کےلیے زہر قاتل قرار دینے والوں کےلیے حیات وبال جاں بنا دی جاتی ہے۔ ایسے میں کم ہمت اور آسائشوں کے طلبگار ادیب، دانشور، مفکر اور صحافی، ان ناخداؤں کے در پر بیعت کرنے میں ہی عافیت جانتے ہیں اور اس شعبے کی اصل روح یعنی ایک پل صراط کی مانند پرخار راستے پر کلمہ حق کہنے کے بجائے اپنے فرائض سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ سماج کے دیگر پیشہ جات سے وابستہ افراد بھی بقول جون ایلیا ’’عمر گزار دیجیے، عمر گزار دی گئی‘‘ کے مصداق سر جھکا کر حبس کے موسم میں عمریں بِتا دیتے ہیں۔

زندگی کی خوشیوں، مسرتوں اور قہقہوں کو گناہ ثواب اور حلال و حرام کے پلڑے میں تولنے کا درس دینے والے ناخداؤں کی اپنی ساری عمر اِن سے مستفید ہونے میں گزر جاتی ہے لیکن سماج کو گناہ و ثواب کے چکر میں ڈال کر انہیں آفاقی معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر ان مسرتوں اور نغمگیوں سے میلوں دور مویشیوں کے ریوڑ کی مانند کبھی مذہب اور کبھی اخلاقیات کی لاٹھی سے ہانک کر دنیا کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اگر یہ لاٹھی اور ڈنڈا نہ ہو تو یہ جانور بے قابو ہو کر کسی کو بھی نگل جائیں گے۔ الفاظ اور افکار کے سوداگروں کی خیانت کی بدولت سماج کی اکثریت زندگی سے کوسوں دور ایک دوسرے سے ذات پات عقیدے، مذہب، مسلک، سیاسی اختلاف اور اختلاف رائے کو لے کر دست گریباں ہے۔ ناخداؤں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں کہ انہیں فکری طور پر بانجھ سماج کو قید رکھنے میں کسی بھی قسم کی مشکل درپیش نہیں۔ سمے کا دھارا ہولے ہولے چلتا جا رہا ہے، زندگی صدائیں دے رہی ہے کہ آؤ! مرنے سے پہلے بار بار نہ مرو اور مجھے تھام کر میرے ساتھ محبت، امن اور انسان دوستی کے نغموں کی دھن پر رقص کرو۔

لیکن سماج میں زندگی کی صدائیں سننے والا کوئی بھی نہیں کہ پہرہ داروں نے تعصب، نرگسیت اور گناہ و ثواب کی اس قدر بلند فصیلیں کھڑی کر ڈالی ہیں کہ جن کی موجودگی میں زندگی کی یہ صدائیں سماج میں بسنے والوں کی سماعتوں اور بصیرتوں تک پہنچنے ہی نہیں پا رہی ہیں۔ ایسے میں پروفیسر میاں جاوید کی چیخیں مارتی لاش کی دُہائیاں کون سنے اور کیوں سنے؟ بھلا ایک معلم کی لاش پر بین کرنے سے کسی کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ اب تو نوحے اور دکھ بھی سود و زیاں دیکھ کر پڑھے اور بانٹے جاتے ہیں۔ پروفیسر میاں جاوید! تمہارا جرم یہ تھا کہ تم اس سماج میں پیدا ہوئے جو علم و آگہی کے اجالوں سے نفرت کرتا ہے اور جہاں افکار کی خوشبو سے زیادہ بندوقوں اور بارود کی بدبو سے پیار کیا جاتا ہے۔

عماد ظفر  

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو


 

فیس بک جانتا ہے آپ کہاں ہیں، چاہے لوکیشن بند ہی کیوں نہ ہو

$
0
0

سوشل میڈیا صارفین پرائیویسی کے حوالے سے ہمیشہ ہی محتاط رہتے ہیں اور اب انکشاف ہوا ہے کہ فیس بک اپنے صارفین کی ہر حرکت پر نظر رکھتا ہے چاہے وہ اپنی لوکیشن بند ہی کیوں نہ کر دیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی پر نظر رکھنے والے ادارے گزموڈو نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ فیس بک صارف اپنے موبائل میں لوکیشن بند کرنے کے باوجود فیس بک کی نظر سے نہیں بچ سکتا، فیس بک آئی پی ایڈریس کی مدد سے صارف کی لوکیشن کے بارے میں معلومات رکھتا ہے۔ یہ معلومات پھر مختلف کمپنیاں صارف کی لوکیشن ، عمر، دلچسپی اور صنف کو دیکھتے ہوئے اشتہارات کے لیے استعمال کرتی ہیں اور فیس بک بھی ایسا ہی کر رہا ہے۔ دوسری جانب فیس بک نے اس پر مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ یہ کامن پریکٹس ہے اور انٹرنیٹ صارفین اس حوالے سے پہلے ہی آگاہ ہیں۔

سوشل میڈیا پر گمراہ کن خبریں کون پھیلاتا ہے ؟

$
0
0

سوشل میڈیا نے خبروں کے حصول کے طریق کو بدل دیا ہے۔ گزشتہ برس پیو (Pew) تحقیقی مرکز کے جائزے کے مطابق دو تہائی امریکیوں نے کہا کہ وہ خبریں سوشل میڈیا سے حاصل کرتے ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ شاید جانتے ہیں کہ یہ دو دھاری تلوار ہے۔ بلاشبہ خبر کے مختلف ذرائع کا ہونا اچھی بات ہے، اور سوشل میڈیا سے خبریں و معلومات ٹیلی ویژن اور اخبار جیسے روایتی میڈیا کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر خبروں اور معلومات کا جائزہ نہیں لیا جاتا، تحقیق یا تصدیق نہیں کی جاتی۔ اسی لیے یہ بے بنیاد اور گمراہ کن افواہوں کا سبب بنتی ہیں جو جنگل کی آگ کی طرح آن لائن پھیل جاتی ہیں۔ 

گزشتہ چند برسوں میں آن لائن جھوٹی خبروں کا ایک نظام قائم ہو چکا ہے۔ یہ اطلاعات کہیں سے نقل کرتا ہے، من مرضی کے نتائج اخذ کرتا ہے اور معلومات میں جعل سازی کرتا ہے۔ اس نظام میں مختلف افراد اور تنظیمیں شامل ہیں جنہیں سوشل میڈیا پر بہت بڑی تعداد فالو کرتی ہے۔ شیئرنگ اور ایک کے بعد دوسرے کے آگے بڑھانے سے خبر کا اثر بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ خبر ان کے مخصوص تصورات سے مطابقت رکھتی ہے، اور اس کی سچائی جاننے کی کوشش نہیں کی گئی ہوتی۔ وہ عناصر جو اس قسم کی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں وہ گمراہ کن خبروں کا ایک غیر مرکزی اور وسیع جال بناتے ہیں۔ انہیں دبانا روایتی میڈیا کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ 

ایک حالیہ مقالے میں میں نے ٹویٹر پر زِکا وائرس کے بارے میں سازشی نظریات کی جانچ پڑتال کی۔ جھوٹی خبروں کی بنیاد پر یہ سازشی نظریات لاطینی امریکا میں 2015-16ء میں مقبول ہوئے جب یہ بیماری پھیلی۔ ان میں زیادہ تر الزام لگایا گیا کہ زِکا وائرس کی وجہ سے چھوٹے سر کے بچوں کی پیدائش کی اصل وجہ کچھ اور ہے۔ حکومت، غیرسرکاری ادارے اور ادویات کی صنعت اصل سبب چھپانے میں مصروف ہیں۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ ان نظریات میں ویکسین، کیڑے مار زہر اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بانجھ مچھروں وغیرہ کو وجہ بتایا گیا تھا۔ جبکہ یہی مچھر سے پھیلنے والے زِکا وائرس کے خلاف اہم ہتھیار ہیں۔ یہ صرف افواہیں نہیں بلکہ نقصان دہ اورگمراہ کن معلومات ہیں۔

 (ترجمہ: رضوان عطا)
 

پیپلز پارٹی کے لیے عدالتی رعایت ممکن نہیں : تجزیہ کار

$
0
0

تجزیہ کاروں کے مطابق جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ سے متعلق عدالت میں زیر سماعت کیسوں کے حوالے سے آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے لئے سال دو ہزار انیس اچھا نہیں ہو گا۔ شاید اِس بات کا اندازہ خود پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی ہو گیا ہے۔ اس لئے چند دن پہلے انہوں نے صوبہ سندھ کے شہروں حیدر آباد اور ٹنڈو الہ یار میں دو جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جن کی نوکری تین سال کے لیے ہوتی ہے اُن کو قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے کا کیا حق ہے۔ تجزیہ کار سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور پیپلزپارٹی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ وفاق کی زنجیر بھی ہے۔

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ جعلی اکاؤنٹس کیس کا جو بھی فیصلہ آئے گا اس سے پاکستان کی سیاست میں جو آج پولرائزیشن دیکھی جا رہی ہے وہ بڑھے گی۔ ایسے لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں سیاسی منظر نامہ اور بھی تکلیف دہ ہو جائے گا۔“ اگر زرداری صاحب کسی بھی ایسے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں جیل جائینگے تو اُنکے بعد متبادل قیادت کیا ہو گی کیونکہ بلاول کو بھی اسی کیس میں عدالت میں طلب کیا جا چکا ہے۔ سنا یہ جا رہا ہے کہ شاید صنم بھٹو کو پاکستانی سیاست میں دوبارہ لایا جائے گا کیونکہ پیپلز پارٹی کو انٹیکٹ رکھنے کے لیے اور اُس کا مثبت چہرہ سامنے لانے کے لیے کسی بھی اصلی بھٹو کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے۔ جیسے جیسے کیس آگے بڑھے کا پیپلز پارٹی اور پاکستان کی سیاست پر گھمبیر اثرات پڑینگے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی ترجمان مصطفی نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی ڈر کر میدان نہیں چھوڑے گی بلکہ حالات کا مقابلہ کرے گی۔ ہماری جماعت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اگر ایسا کیا گیا تو کارکن اور عوام سڑکوں پر ہوں گے۔ کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصطفی نواز کھوکھر نے الزام عائد کیا کہ ان کی جماعت اور اپوزیشن کے خلاف سلیکٹڈ احتساب کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ان کی قیادت پر بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں۔ مصطفی نواز کھوکھر نے الزام عائد کیا کہ پاکستان تحریک انصاف ملک میں ون پارٹی سسٹم چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈ حکومت کو مضبوط کیا جا رہا ہے جبکہ اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کیسا احتساب کا نظام ہے جس میں محض اپوزیشن ہی نشانے پر ہے، وزیراعظم کے مشیر زلفی بخاری، وزیر دفاع پرویزخٹک اور وزیراعظم کی بہن علیمہ خان کا احتساب کیوں نہیں کیا جا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق وزرائے اعظم کے خلاف تو مقدمات تیزی سے چلائے جارہے ہیں مگر سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کیس عرصے سے زیر التوا ہے اور اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ پاکستان تحریک انصاف کی رکن پنجاب اسمبلی عائشہ نواز چوہدری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے پاکستان میں منی لانڈرنگ کے مسئلے کو بار بار اٹھایا۔ جب تک منی لانڈرنگ کو نہیں روکا جائے گا خصوصی طور پر سیاستدانوں کے پیسوں کو اسٹریم لائن نہیں کرینگے تب تک پاکستانی سیاست میں صحیح احتساب نہیں شروع ہو سکتا۔

حیران کن بات ہے کہ ن لیگ کی سیاست میں انکا لیڈر جیل چلا جاتا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، پیپلز پارٹی کی منی لانڈرنگ بھی ثابت ہو جاتی ہے تو اُن کی سیاست کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن عوام کو پتا چلنے کی ضرورت ہے کہ اصل میں جو لوگ حکمران بن کر انکے اوپر بیٹھے رہے ہیں وہ عوام کا خون چوس کر عوام کی خدمت نہیں کر رہے تھے وہ اصل میں اپنی خدمت کر رہے تھے، اپنے اکاؤنٹس بھر رہے تھے۔ اپنے خاندانوں کی خدمت کر رہے تھے”۔ پیپلز پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سابق گورنر پنجاب اور پیپلزپارٹی کے رہنما لطیف خان کھوسہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کا پیپلزپارٹی کی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اُنکی قیادت کا اِس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ 

عدالتی فیصلہ اُن کی قیادت کے حق میں آئے گا اور پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر عوام میں سرخرو ہو گی۔ اس میں ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے کہ جو ٹریل آج دکھا رہے تھے کہ کنٹریکٹرز کے پیسے اس طرف گئے، بحریہ کے یہاں گئے اور فلاں کے وہاں گئے۔ اُس سے زرداری گروپ کا کیا تعلق ہے۔ زرداری صاحب کا اُس میں کوئی کنکشن نہیں ہے”۔ جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بڑے خانچے ہیں اور وہ معاف نہیں کرینگے۔

کنور رحمان خان
محمد ثاقب

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

کرپشن نہیں کشکول کے چھید بند کریں

$
0
0

سب سے پہلے ایوب خان نے چور بازاری اور پرمٹ باز سیاستدانوں کے احتساب کا فیصلہ کیا، پھر یحیی خان نے 313 نوکر شاہوں کو بدعنوانی و گھپلے کے الزام میں برطرف کر دیا۔ پھر اگلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے 1400 بیورو کریٹس کو نااہلی و نامعلوم کرپشن کے سبب چلتا کیا۔ پھر اگلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیا الحق نے 'پہلے احتساب پھر انتخاب'کی تلوار سونت لی اور بھٹو حکومت کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال اور سیاسی مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کے الزامات ثابت کرنے کے لیے سینکڑوں صفحات کے وائٹ پیپرز شائع کیے۔ ان کے بعد آنے والے صدر غلام اسحاق خان نے پہلے بے نظیر اور پھر نواز شریف حکومت کو کرپشن کے الزامات میں باہر کیا۔ پھر بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو اگلے صدر فاروق لغاری نے ان ہی الزامات کے تحت برطرف کیا۔ پھر نواز شریف کی دوسری حکومت نے بے نظیر اور آصف زرداری کے خلاف احتساب بیورو میں کرپشن ریفرنس فائل کیے۔

پھر اگلے فوجی چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے سابق احتساب بیورو کی جگہ نیب کا ادارہ قائم کیا۔ نیب پچھلے 18 برس سے متحرک ہے مگر جتنی کرپشن ایوب خان سے پہلے تھی اس سے کہیں زیادہ آج بتائی جاتی ہے۔ گویا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ آج تک فوجی حکومتوں نے سویلین یا سویلین حکومتوں نے سویلینز کا احتساب کیا۔ آج تک کوئی سویلین حکومت کسی فوجی حکومت کا احتساب نہیں کر سکی (حالانکہ پاکستان کے 73 برس میں سے 34 برس براہِ راست فوجی حکومتوں کے سائے میں گزرے)۔ صاف ستھرے پاکستان کا نعرہ لگانے والی عمران حکومت کا اینٹی کرپشن کیلنڈر بھی بعد از مشرف سنہ 2008 سے شروع ہوتا ہے۔ نیب کے دائرۂ اختیار میں تمام ادارے آتے ہیں مگر عدلیہ اور فوج کو استثنی حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں اداروں کا اپنا اپنا اندرونی احتسابی ڈھانچہ ہے لہذا دونوں کو اس احتسابی چھتری کی ضرورت نہیں کہ جس کی باقی پاکستان کو سخت ضرورت ہے۔

حالانکہ ہر وہ شعبہ، ادارہ، حاضر و ریٹائرڈ اہلکار، ٹیکس دہندہ اور عام شہری کہ جس کی تنخواہ، پنشن، مراعات اور سبسیڈی کا دارو مدار براہِ راست یا بلاواسطہ پاکستان کے خزانے پر ہے مگر کسی بھی جواز کے تحت عمومی احتسابی قوانین کی زد سے باہر ہے تب تک آپ قومی کنوئیں سے کرپشن کے چالیس چھوڑ چالیس ہزار ڈول نکال لیں پھر بھی کنواں پاک نہ ہو گا۔ اگر فرشتوں کی حکومت بھی آجائے مگر کشکول کے پیندے کے بڑے بڑے چھید بند کیے بغیر ہی اس میں سرمایہ کاری، قرضے اور امداد ڈالتی رہی تو اگلے 73 برس بھی یہی سوچ سوچ کر سر کھجاتے گزر جائیں گے کہ چین نے 40 برس میں 70 کروڑ افراد کو غربت سے آخر کیسے نکال لیا ؟ ملائشیا کی آبادی تین کروڑ اور زرِ مبادلہ کے ذخائر 104 ارب ڈالر کیوں ہیں اور ہماری آبادی 22 کروڑ ہونے کے باوجود زرِ مبادلہ کے ذخائر آٹھ ارب ڈالر کیوں ہیں؟ اچھا بس ایک کام کر لیں۔ صرف اپنی خارجہ پالیسی پر نظرِ ثانی کر لیں۔ اگلے 20 برس میں آپ بھی ملائشیا ہو جائیں گے۔

وسعت اللہ خان
تجزیہ کار

بشکریہ بی بی سی اردو
 

نیب کی تعریف تو بنتی ہے

$
0
0

نیب کے خلاف منفی پروپیگنڈہ پر چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کافی پریشان ہیں۔ کہتے ہیں کہ ادارے کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جسٹس صاحب ٹھیک ہی کہتے ہوں۔ نیب کی پرفارمنس دیکھنا ہو تو پہلے اس بات کا فیصلہ کر لیں کہ اس پرفارمنس کو کس کی نظر سے دیکھنا ہے۔ اگر نیب کو جنرل مشرف اور دوسرے طاقتور حلقوں کی نظر سے دیکھنا ہے تو پھر تو نیب اور اس کے چیئرمینوں کی نہ صرف تعریف بنتی ہے بلکہ اُنہیں انعام و اکرام بھی دیا جانا چاہئے۔ جس طرح بار بار نیب نے کرپشن کے کیسوں کو حکومتوں کو بنانے، گرانے اور سیاسی پارٹیوں کو توڑ کر کنگز پارٹیاں بنانے میں کردار ادا کیا، اس پر واقعی نیب کی تعریف تو بنتی ہے۔ 

کس طرح چوہدری شجاعت، چوہدری پرویزالٰہی اور دیگر کئی سیاستدانوں کے خلاف کیسز بنائے گئے، اُن کو کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جب ان سیاستدانوں نے مشرف کی ق لیگ کو بنانے اور اس میں شامل ہونے کی ہامی بھر لی تو نیب نے ایسے تمام سیاستدانوں کی فائلوں کو داخلِ دفتر کر دیا۔ اتنی بڑی خدمت پر نیب کی تعریف تو بنتی ہے۔ جب مشرف سب کچھ کر کے بھی اس قابل نہ ہو سکے کہ اُن کی کنگز پارٹی حکومت بنا پائے تو پھر نیب ہی کی خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے والے ایک درجن کے قریب اراکین پر دبائو ڈال کر پاکستان پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی گئی اور اُسے کنگز پارٹی کے ساتھ ملا کر مشرف کی مرضی کی حکومت بنوائی گئی۔

اس کھیل کے پیچھے بھی نیب کا کلیدی کردار تھا، اس پر کیسے کوئی اس ادارے کی خدمات سے انکار کر سکتا ہے؟ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو کنٹرول کرنے کے لیے کرپشن کیسز بنائے گئے، جن میں جھوٹے کیس بھی شامل تھے اور بدعنوانی کے مضبوط مقدمات بھی، لیکن جب مشرف کو اپنا سیاسی مستقبل بچانے کے لیے پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملانا پڑا تو ایک بار پھر اس مقصد کے لیے نیب ہی کے مقدمات کو استعمال کرنا پڑا۔ مشرف نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر این آر او سائن کیا اور نیب کے تمام بڑے مقدمات کو ختم کر دیا۔ این آر او کو عدلیہ نے ردّ کر دیا تو یہ تمام کیس ایک بار پھر کھل گئے۔ اب مشرف مستعفی ہوئے اور زرداری صاحب نے حکمرانی سنبھال لی۔ 

این آر او کے تحت مقدمات کو سپریم کورٹ کے حکم پر نیب نے دوبارہ کھول تو دیا لیکن ایک ایک کر کے ان مقدمات کو اس کمال مہارت کے ساتھ کمزور اور احتساب عدالت میں ہارنا شروع کیا کہ اب شاید ہی زرداری صاحب کے خلاف کوئی مقدمہ احتساب عدالت میں باقی بچا ہو۔ بہت بڑے بڑے نام جن کو نیب کرپٹ کہہ کہہ کر نہیں تھکتا تھا، سب کو ایک ایک کر کے مقدمات سے بری کروا دیا گیا۔ ملزمان کے حق میں نیب نے دوستانہ استغاثہ کی ایسی مثالیں قائم کی کہ تاریخ میں ایسی کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔ ایک مقدمہ میں بااثر ملزم کو فائدہ دینے کے لیے نیب نے ایک ایسا گواہ پیش کیا جو نیب کے ایک دوسرے مقدمہ میں مفرور ملزم تھا۔ اس دیدہ دلیری پر نیب کی تعریف تو بنتی ہے۔

کم از کم نیب کے تین اہم ترین این آر او مقدمات میں دو مختلف احتساب عدالتوں نے جو تین فیصلے دئیے‘ وہ حیران کن انداز میں ایک ہی جیسے تھے۔ ان فیصلوں میں بھی نیب کی ملی بھگت صاف ظاہر ہوتی تھی۔ جب ’’دی نیوز‘‘ نے اس اسکینڈل کے بارے میں لکھا تو متعلقہ ہائیکورٹ نے انکوائری کا حکم دیدیا اور متعلقہ ججوں کے خلاف تادیبی کارروائی بھی شروع کر دی جو بدقسمتی سے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے ختم ہو گئی۔ نیب نے اس معاملہ پر نہ تو اُن متنازع فیصلوں کے خلاف اپیل کی، نہ سپریم کورٹ کو باقاعدہ اس اسکینڈل کے بارے میں آگاہ کیا اور نہ ہی اپنے کسی افسر کے خلاف تادیبی کارروائی کی۔ اس پر کون نیب کی تعریف کرنے سے اپنے آپ کو روک سکتا ہے؟ 

سابق چیئرمین نیب جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں تفصیل سے لکھا ہے کہ نیب کو کس طرح بار بار استعمال کیا گیا اور کیسے بڑے بڑے مافیاز کے خلاف نیب کو اقدمات کرنے سے روکا گیا۔ اس سعادت مندی پر بھی نیب کی تعریف تو بنتی ہے۔ ویسے جاوید اقبال صاحب جس ’’انصاف‘‘ کے ساتھ کسی کو انکوائری اور انویسٹی گیشن کے مرحلہ میں پکڑ کر اندر کر دیتے اور کسی کو ریفرنس فائل ہونے پر بھی نہیں پکڑتے‘ اس پر بھی اُن کی اور ان کے ادارے کی تعریف تو بنتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جن کو پکڑا جا رہا ہے اُن کا تعلق اپوزیشن سے ہے اور جنہیں رعایت دی جا رہی ہے اُن کا تعلق حکومت سے ہے۔ اس ’’انصاف‘‘ پر بھی نیب کی تعریف تو بنتی ہے۔ 

چلیں! سیاستدان چاہے کسی ایک پارٹی سے ہوں یا دوسری جماعت سے، نیب اُن کو پکڑتا ضرور ہے لیکن کس کی باری کب آتی ہے، اُس پر نیب ضرورت اور حکم کے مطابق عمل کرتا ہے۔ ہاں! نیب اُن ریٹائرڈ جنرلز (جو اسے مختلف کرپشن کے مقدمات میں مطلوب ہیں) کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کرتا، نہ اُنہیں سیاستدانوں کی طرح ہتھکڑیاں لگا کر جیلوں میں ڈالتا ہے۔ یہ نیب کا کوئی امتیازی سلوک نہیں بلکہ نیب ایسا وسیع تر قومی مفاد میں کرتا ہے، جس پر نیب کی تعریف تو بنتی ہے!!!!

انصار عباسی
 


ریاستیں کیوں ناکام ہوتی ہیں ؟

$
0
0

وزیر اعظم عمران خان جب پانامہ پیپرز اور جعلی اکائونٹس کے حوالے سے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹوں کو اس جائزے و تجزیے کے لئے ’’کیس اسٹڈیز‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں کہ ریاستیں کیوں کر ناکام ہوتی ہیں تو اس کا ایک مفہوم تو یہ نکلتا ہے کہ یہ رپورٹیں ہماری قومی تاریخ میں غیرمعمولی اہمیت کی حامل دستاویز ہیں۔ ان کی اس رائے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اہم رپورٹوں کا گہرائی میں جاکر تجزیہ کیا جانا چاہئے اور اگر رپورٹوں سے ابھرنے والے تاثرات درست نظر آرہے ہوں تو سنجیدگی سے ایسی تدابیر بروئے کار لائی جانی چاہئیں جن سے قومی زندگی میں سنگینی کی ان علامات کو دور کیا جا سکے جو جلد یا بدیر ریاستی ناکامی کا ذریعہ بننے کے امکانات رکھتی ہیں۔ 

دنیا بھر میں یہ طریقے عام ہیں کہ مختلف شعبوں کی کارکردگی کا تعلیمی اداروں کے مطالعاتی تجزیوں سے لے کر ماہرین کی سطح تک جائزہ لیا جاتا رہتا ہے اور ان کے نتیجے میں جو سفارشات سامنے آتی ہیں انہیں مقامی، صوبائی، مرکزی سطح پر پالیسی سازی میں معاونت اور اداروں کی کارکردگی موثر بنانے کا قابلِ اعتماد ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ زراعت، صنعت، بجلی، پانی، ٹرانسپورٹ، تعلیم، امن و امان، صحت، صفائی، سماجی بہبود کے شعبوں میں اصلاحات کا یہ عمل کئی ملکوں میں مسلسل جاری رہتا ہے جبکہ خاص معاملات، اچانک سامنے آنے والے انکشافات اور حوادث کے حوالے سے بھی واقعات تجزیے کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔ یوں نقصانات کا سبب بننے والی چیزوں کے سدباب اور قومی مفادات کو آگے بڑھانے والے امور کی حوصلہ افزائی کے نکات مختلف چھلنیوں سے گزر کر پالیسیوں اور عملی اقدامات میں ڈھلتے رہتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خاں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے جس پیغام میں پانامہ اور جعلی اکائونٹس کی جے آئی ٹی رپورٹوں کو اس تجزیے کے لئے کیس اسٹڈی قرار دیا کہ ریاستیں کس طرح غربت اور قرض میں ڈوبتی ہیں، وہ العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا یابی کے فیصلے اور سابق صدر آصف زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں جے آئی ٹی کے اخذ کردہ نتائج سامنے آنے کے بعد جاری کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کا موقف یہ ہے کہ قانونی جنگ کے مرحلے ابھی باقی ہیں اور مذکورہ اخذ کردہ نتائج قانون کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے جبکہ پی پی پی کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں بہت سی باتیں مضحکہ خیز ہیں جنہیں عدالت میں غلط ثابت کیا جائے گا۔

ن لیگ کی جانب سے ’’اِن ہائوس تبدیلی کی جدوجہد‘‘ کی بات بھی کی گئی ہے جو جمہوری طریق کار کا حصہ ہے۔ ایک جانب پاکستان تحریک انصاف دعویٰ کرتی ہے کہ اسے انتخابات میں عوام نے احتساب کے نام پر مینڈیٹ دیا مگر اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت جو کیسز چل رہے ہیں ان کا اختیار قومی احتساب بیورو (نیب) کے پاس ہے، دوسری جانب مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا یہ تو کہنا ہے کہ انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے مگر میاں نواز شریف اور جناب آصف زرداری بعض جائیدادوں اور اکائونٹس کے حوالے سے عدالتوں میں پیش کرنے کے لئے جو نکات رکھتے ہیں ان کا قانونی جنگ کے اگلے مرحلوں میں جو بھی نتیجہ آئے، تاحال عام فہم انداز میں الزامات، خامیوں، کوتاہیوں کے بارے میں ایسی وضاحت نہ دے سکے جسے عوام کے لئے تشفی بخش کہا جا سکے۔

دوسری طرف عمران خان کو اپنے عام فہم موقف کا فائدہ تو پہنچا لیکن انتقامی سیاست کے بارے میں ان کی پارٹی کا انداز دفاعی ہے۔ کئی شواہد اور داستانوں کی یکسر نفی کرنا پی ٹی آئی کے لئے دشوار محسوس ہوتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ قومی سیاست کے آئینے میں سبھی دھندلائے نظر آرہے ہیں۔ قوم منتظر ہے اس وقت کی جب سب کچھ روشن روشن نظر آنے لگے۔ سب سے اہم بات یہ کہ حکومت کی مشکلات جتنی بھی کٹھن ہوں، گورننس چیلنجوں میں سے مواقع نکالنے کا فن ہے۔ عوام منتظر ہیں کہ انہوں نے موجودہ حکومت سے جو توقعات وابستہ کی تھیں، وہ کب پوری ہوتی ہیں۔

اداریہ روزنامہ جنگ

 

پاکستان میں غیر تصدیق شدہ موبائل کب تک چلے گا ؟

$
0
0

موبائل فون صارفین نئے یا استعمال شدہ موبائل فون خریدنے سے پہلے اپنے سیٹ کے آئی ایم ای آئی نمبر کی تصدیق کر لیں۔ 15 جنوری کے بعد جعلی، غیر رجسٹرڈ اور اسمگل شدہ موبائل فون استعمال کے قابل نہیں رہیں گے۔ صارفین نئی یا استعمال شدہ موبائل ڈیوائس خریدنے سے پہلے آئی ایم ای آئی نمبر کی تصدیق ضرور کر لیں، 15 ہندسوں پر مشتمل آئی ایم ای آئی نمبر کسی بھی موبائل ڈیوائس کی شناخت ہوتا ہے، یہ نمبر ڈیوائس باکس پر بھی لکھا ہوتا ہے۔ آئی ایم ای آئی نمبر معلوم کرنے کے لیے موبائل ڈیوائس سے ’’اسٹار ہیش زیرو سکس ہیش‘‘ (*#06#) ڈائل پیڈ کے ذریعے ڈائل کریں اور 15 ہندسوں کے آئی ایم ای آئی نمبر کو میسیج آپشن میں جا کر ’’ایٹ فور ایٹ فور‘‘ (8484) پر ایس ایم ایس کریں۔

تصدیق ہو جانے کا پیغام موصول ہونے کی صورت میں آپ ڈیوائس استعمال کر سکتے ہیں۔ غیر تصدیق شدہ ہونے کا پیغام موصول ہو تو یہ موبائل ڈیوائس پاکستان کے کسی بھی نیٹ ورک پر استعمال نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان کے موبائل نیٹ ورک پر پہلے سے زیر استعمال غیر تصدیق شدہ موبائل ڈیوائس کی سروس جاری رہے گی، انہیں موبائل نمبر کے ساتھ منسلک کر دیا جائے گا۔ تمام بین الاقوامی مسافر جو اپنا موبائل انٹرنیشنل سم پر استعمال کرنا چاہتے ہیں ان کے پاس پاکستان میں ایک رومر ہوتا ہے، وہ مسافر آئی ایم ای آئی رجسٹریشن سے مبرا ہیں اور وہ رومنگ ڈیوائس استعمال کر سکتے ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے پہلے 20 اکتوبر تک غیر رجسٹرڈ موبائل ڈیوائس بند کرنے کی ڈیڈلائن دی تھی، بعد میں یہ ڈیڈلائن 31 دسمبر تک بڑھا دی گئی تھی، تاہم اب تاریخ 15 جنوری تک بڑھا دی گئی ہے۔
 

پاکستان میں توانائی بحران پر کنٹرول کیسے؟

$
0
0

سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں گیس کی قلّت، مہنگائی، نایابی اور
پریشر میں کمی سے ہر سال کی طرح اس برس بھی جو صورتحال پیدا ہوئی، اس کے تناظر میں پرائم منسٹر آفس اسلام آباد میں منعقدہ وفاقی کابینہ کی توانائی کمیٹی کے اجلاس کے فیصلوں کو دوررس نتائج کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے۔کمیٹی کے جو فیصلے وزیراعظم کی ہدایات کی صورت میں سامنے آئے ان سے ملک میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی کے امکانات نہ صرف نمایاں ہوئے ہیں بلکہ قلیل وقت میں بھی ان فیصلوں کے مثبت اثرات سامنے آنے کی توقعات ہیں۔ اجلاس میں بجلی کے پیداواری منصوبوں، ایل این جی اور پیٹرولیم سے متعلق امور پر غور کیا گیا، اوگرا آرڈیننس میں ترمیم کی منظوری دی گئی، ایل این جی کی قیمت پر نظرثانی کا فیصلہ کیا گیا.

غیرملکی کمپنیوں سے پاکستانی اداروں کے ایل این جی معاہدوں کی تجدید کرنے کے علاوہ کئی ایسے فیصلے کئے گئے جن سے گھریلو صارفین کیلئے گیس کی کم سے کم وقت میں فراہمی یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ اس صورتحال کو قابل فخر کہنا مشکل نظر آتا ہے کہ سال 2018ء اگرچہ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے بہت اچھا قرار دیا گیا اور دعوے کی حد تک 25 ہزار سے زائد صنعتوں کیلئے لوڈشیڈنگ صفر کر دی گئی لیکن دیہی علاقوں کو ہائی لاسز ایریاز کہتے ہوئے 3 سے 6 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری رہی۔ سال کے ابتدائی مہینوں سے محسوس کی جانے والی اس کیفیت کا تسلسل بعد میں بھی پوری طرح ختم نہیں ہو سکا اور شہروں میں رہنے والےصارفین بھی ایسی مشکلات کے شکار رہے جن کی ہمیشہ کی طرح وقتاً فوقتاً ناقابلِ فہم توجیہات سامنے آتی رہیں۔

اجلاس میں وزیراعظم نے جہاں گیس بحران پر بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ مسترد کر کے دوبارہ تحقیقات کرنے اور نقصانات کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ہدایات کے ساتھ سیکرٹری پیٹرولیم سے 48 گھنٹوں میں سفارشات مانگیں وہاں پاور ڈویژن کے اعلیٰ حکام کو ہدایت کی گئی کہ وہ ایل این جی کی چار سے چھ ماہ کی ضروریات کا درست تخمینہ پیش کریں تاکہ اس کی بروقت فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ وزیراعظم کا ایک اسٹرٹیجک فیصلہ متعلقہ حکام کو دی گئی اس ہدایت کی صورت میں سامنے آیا کہ وہ فرنس آئل کی درآمد پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری کریں، اس پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں اور مستقبل میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کوئلے اور ایل این جی پر کی جائے۔ 

یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فرنس آئل کی درآمد پر پابندی تو لگائی تھی مگر نہ صرف اس کا نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا بلکہ پاور ڈویژن نے موسم گرما میں اسے بجلی پیدا کرنے کی ضروریات سے منسلک کر دیا تھا جس کے باعث مہنگے فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کا سلسلہ بڑے پیمانے پر جاری رہا۔ اب فرنس آئل امپورٹ پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری ہونے کے بعد درآمدی آئل موسم گرما میں بھی استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ تاہم فرنس آئل کی طلب 2400 میگاواٹ سے تجاوز کرنے کی صورت میں مقامی ریفائنریز کا فرنس آئل بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکے گا۔ بجلی کی پیداوار کیلئے ایل این جی اور کوئلے پر انحصار بڑھایا جائے گا اور اگلی گرمیوں تک 1200 میگاواٹ کا آرایل این جی سے چلنے والا ایک اور بجلی گھر تریموں کے مقام پر کام شروع کر دے گا۔

فرنس آئل سے بجلی کی پیداواری قیمت 16 روپے فی یونٹ جبکہ اس کے متبادل کے طور پر ایل این جی کے استعمال سے بجلی کی فی یونٹ پیداواری قیمت 10 روپے بنتی ہے۔ مگر ایک آئینی دشواری کے باعث پنجاب میں مہنگی ایل این جی استعمال ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت ایل این جی کو گیس نظام میں مکس کر کے اس کے اوسط نرخ مقرر کرنا چاہتی ہے جس کے نتیجے میں گیس کی قیمتیں کم ہوں گی اور ملکی معاشی سرگرمیوں میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔ بظاہر توانائی بحران کنٹرول کرنے کے حوالے سے حکومت درست سمت میں بڑھ رہی ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ ان اقدامات اور فیصلوں کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

حکومت سمجھ گئی‘ اصغر خان کیس ایک پنگا ہے

$
0
0

نجانے اصغر خان کیس کا پیچھا ہم کیوں نہیں چھوڑتے۔ اُس وقت ایسا کیا انوکھا کام ہوا کہ جس کی ہماری تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ سچ پوچھیں تو جو الزام اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ پر لگا وہ مبینہ طور پر پاکستان میں بار بار دہرایا گیا اور شاید ہی ہماری تاریخ میں کوئی انتخابات ایسے گزرے ہوں جن پر اثر انداز ہونے یا من پسند نتائج حاصل کرنے کے الزامات نہ لگے ہوں۔ یہ تو جنرل (ر) اسلم بیگ اور جنرل (ر) اسد درانی کی مہربانی ہے کہ انہوں نے تسلیم کیا کہ اُس وقت کے انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے اور پی پی پی کو ہرانے کے لیے (ان کے موقف کے مطابق) مختلف سیاسی رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کو پیسہ دیا گیا۔ اصغر خان کیس کا تعلق 1990ء کے الیکشن سے تھا۔ 

اس کے بعد ہونے والے الیکشنز کے حوالے سے جو عام فہم تاثر پایا جاتا ہے وہ اُس سے کافی سنگین اور کہیں زیادہ ہے، جس کا ہم اصغر خان کیس میں رونا روتے ہیں۔ 1990ء کے انتخابات میں اگر یہ کام ہوا تو کچھ چھپ چھپا کے ہوتا رہا مگر بعد میں جس طرح کی خبریں ملتی رہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہماری تاریخ میں بس ایک اصغر خان کیس ہی ایسا تھا جس میں ایک مخصوص پارٹی کو ہرانے کے لیے من پسند سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر کے مبینہ طور پر اُن پر پیسہ خرچ کیا گیا۔ ہاں! اس کیس کی اہمیت اس لحاظ سے ضرور ہے کہ سیاستدانوں کو تو قصور، بے قصور پھانسی بھی دی گئی، اُنہیں جلا وطن بھی کیا گیا، جیلوں میں بھی ڈالا گیا.

لیکن ایک ایسے کیس میں جہاں دو سابق جرنیلوں نے اپنا جرم تسلیم کیا، وہاں سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود اُن کے خلاف‘ کسی حکومت کو جرات نہ ہوئی کہ ایکشن لیا جائے۔ 2012-13ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اصغر خان کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکومت کو دونوں سابق جنرلز کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جبکہ ایف آئی اے کو ہدایت دی گئی کہ انکوائری کرے کہ کیا واقعی اصغر خان کیس میں شامل سیاستدانوں نے پیسہ وصو ل کیا یا نہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے فوری بعد پی پی پی کی حکومت نے تو ہاتھ اٹھا لیے اور کہا کہ وہ اس معاملہ میں کچھ کارروائی نہیں کریں گے بلکہ یہ واضح کیا کہ دونوں ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا۔

پی پی پی کے ایک وزیر صاحب نے تو پاکستان کی زمینی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ہم سکت نہیں رکھتے کہ ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کوئی کارروائی کریں۔ بعد میں اقتدار حاصل کرنے والی (ن) لیگ نے شروع شروع میں تو کہا کہ اصغر خان کیس کو حتمی نتیجے تک پہنچایا جائے گا لیکن بعد میں مسلم لیگ (ن) کو بھی سمجھ آ گئی کہ اُس کی اصل حیثیت کیا ہے۔ موجودہ تحریک انصاف کی حکومت نے سمجھداری کا کام کیا اور یہ فیصلہ اپنے اقتدار کے شروع کے چند مہینوں میں کر لیا کہ اس کیس سے ہی جان چھڑائی جائے۔ کوئی پنگا لیا تو حکومت کو پتا ہے کہ اس کا کیا حال ہو گا۔ 

ریٹائرڈ جنرلز چاہے وہ جنرل پرویز مشرف ہوں، جنرل اسلم بیگ، جنرل درانی ہوں یا کوئی دوسرا سابق جنرل، جس کو نیب کی کسی انکوائری کا سامنا ہو، وہ سب احتساب سے بالاتر ہیں۔ اُن کے متعلق سیاسی بیان کی حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اُنہیں عدالتوں میں گھسیٹنا، ہتھکڑیاں پہنانا یا جیل میں ڈالنے کا محض خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ حقیقت میں نہ ایسا ممکن ہے اور نہ ہی اسے ممکن بنانے کے لیے کوئی کوشش کی جانی چاہئے کیونکہ اس کا سیدھا سیدھا مطلب ہو گا سیاسی خودکشی اور اپنی حکومت کا خاتمہ۔ یہ سبق عمران خان کی حکومت اور نیب کے چیئرمین نے پاکستان کی تاریخ سے حاصل کیا ہے اور اسی لیے اس پر من و عن عمل کر کے کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

ویسے جو لوگ اصغر خان کیس کو چند افراد کی جزا و سزا کے تناظر میں دیکھتے ہیں، اُن سے میری درخواست ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ضرور پڑھیں کیونکہ اگر فیصلے پر عملد درآمد ہو جائے تو پھر ہمیں وہ سب کچھ بار بار نہ دیکھنا پڑے جس کا ہم اصغر کیس میں رونا روتے رہتے ہیں۔ اس کیس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سیاسی سیل کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ کوئی فرد یا افراد، اپنے ذاتی و سیاسی مقاصد یا پسند و ناپسندیدگی کی بنیاد پر قومی یا انٹیلی جنس اداروں کو اپنی مرضی کے انتخابی نتائج کے حصول، حکومتوں کو بنانے، گرانے اور سیاسی جماعتوں کو جوڑنے توڑنے کے لیے کبھی نہ استعمال کر سکیں کیونکہ یہ ادارے ملک و قوم کے تحفظ اور سلامتی کے لیے بنائے گئے ہیں۔ 

انصار عباسی

 

Pakistan's Kund Malir featured among top 50 Asian beaches

$
0
0
An untouched beach in southwestern Pakistan has made it to the list of Top 50 Asian Beaches. According to Flight Network’s ‘The World’s Best Beaches For 2018’ list, the Kund Malir Beach is one of the most exotic beaches and definitely one of the top tourist attractions in the country. Located at the bottom edge of Hingol National Park, this untouched shoreline rests between the desert, mountain and sea, making for some breathtaking views.


Offering unparalleled serenity, and so much more, this golden beach is a must-see destination on your trip to Pakistan. Venture off the coastal highway to relax on the smooth sands by the Arabian Sea. Gaze at the mesmerising waves as you escape from civilisation on this remote stretch of paradise. The Flight Network’s most in-depth list of Asian beaches provides a complete look into the stunning shores of Asia – a continent with countless countries rimmed by aquatic wonders so extraordinary travelers must see to believe.

The Asia’s Top 50 Beaches list was prepared by collecting the insider knowledge of over 600 journalists, editors, bloggers, and agencies, who have made travel their life. The resulting expert guidance ensured the list of Asian beaches offers those that have a taste for adventure, balanced by ultimate relaxation, all the needed insight to plan an unforgettable beach-side journey.
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live