Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

موہن جودڑو اور ہڑپہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تباہ ہوئے ؟

$
0
0

امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں قدیم تہذیب سندھ کے زوال کی اہم وجہ ہیں اور ان ہی کے باعث موہن جودڑو اور ہڑپہ تہذیب دھیرے دھیرے تباہی سے دوچار ہو کر فنا ہو گئیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سندھ کی قدیم تہذیب کے دو بڑے مراکز ہڑپہ اور موہن جودڑو ہیں اور اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت میں بھی اس کے مختلف آثار ملے ہیں۔ امریکا میں واقع وُوڈز ہولز اوشیانو گرافک انسٹی ٹیوشن کے ایک نئے تجزیے کے مطابق عمدہ شہر، گودام، نکاسی کے نظام اور بہترین شہری سہولیات ہونے کے باوجود چار ہزار سال پرانی یہ تہذیب آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کی وجہ سے روبہ زوال ہو کر فنا ہو گئی تھی۔ 1800 قبل مسیح میں قدیم تہذیب کے باشندوں نے اس شہر کو خیرباد کہنا شروع کیا اور ہمالیہ کے دامن میں جا کر چھوٹے چھوٹے گاؤں میں رہنا شروع کر دیا۔ 

ووڈ ہولز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے یہ خطہ ناقابلِ رہائش ہونے لگا تھا۔ 2500 قبل مسیح میں ہڑپہ تہذیب کا موسم بدلنا شروع ہوا اور موسمِ گرما کا مون سون نظام دھیرے دھیرے کمزور پڑا۔ زراعت مشکل ہو گئی اور غلہ بانی بھی کم ہوتی گئی اور یوں یہ عظیم تہذیب اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔ اس ضمن میں وُوڈز ہولز اوشیانو گرافک انسٹی ٹیوشن کے ارضیات داں ڈاکٹر لائی ویو گایوسِن اور ان کے ساتھیوں نے اس پر تحقیق کر کے مقالہ شائع کیا ہے جو 13 نومبر 2018ء کے ’کلائمٹ آف دی پاسٹ‘ نامی جرنل میں شائع ہوا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مون سون کے بگاڑ نے پوری وادی میں کھیتی باڑی کو ناممکن بنا دیا تھا۔

لیکن اس دوران بحیرہ روم کے طوفان ہمالیائی سلسلے سے ٹکراتے تھے اور پاکستانی علاقوں میں تھوڑی بہت بارش کی وجہ ضرور بنتے تھے لیکن مون سون نہ ہونے کی وجہ سے دریاؤں کا بہاؤ شدید متاثر ہوا۔ اسی لیے وادی سندھ کے لوگوں نے دیگر علاقوں میں سکونت اختیار کی اور یوں دھیرے دھیرے پوری بستی ہی خالی ہو گئی۔ اگرچہ اس کے آثار آج کی مٹی میں نہیں ملتے لیکن ماہرین نے پاکستانی ساحلوں اور سمندر کے کئی مقامات پر مٹی کے نمونے جمع کیے اور ان کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے ان نمونوں میں یک خلوی (سنگل سیل) پلانکٹن کا جائزہ لیا جنہیں ’فورا مینی فیرا‘ یا مختصراً فورمز کہا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کونسا پلانکٹن سرد موسم اور کونسا موسمِ گرما میں پروان چڑھا۔

اس طرح انہوں نے خطے کے قدیم جینیاتی مادے کا بغور مطالعہ کیا ۔ اس دوران دریا اور سمندر کے کنارے کے علاقے میں موجود قدیم مٹی اور خود اس میں موجود قدیم پلانکٹن سے ہزاروں سال قدیم موسم کا ایک نقشہ مرتب کیا جس سے معلوم ہوا کہ کس طرح گرمیوں کا مون سون کمزور اور سردیوں کا مون سون توانا ہوا اور اس سے زراعت ناممکن ہو گئی۔ اگلے مرحلے میں لوگوں نے ماضی کے ان عظیم شہروں کو چھوڑنا شروع کیا اور یوں وہ کئی صدیوں میں تتربتر ہو کر علاقے کے دیگر مقامات پر منتقل ہو گئے اور یوں یہ موئن جودڑو اور ہڑپہ ویران ہوتے چلے گئے۔
 


پاکستان میں ٹیکس چوری کیسے روکی جا سکتی ہے؟

$
0
0

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں سب سے کم شہری ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کی نئی حکومت بھی یہ پرانا مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے۔ جانیے کہ عمران خان حکومت کی منصوبہ بندی کیا ہے اور وہ کیا کوششیں کر رہی ہے؟ محمد حماد اظہر کا شمار نئی پاکستانی حکومت کے کم عمر ترین وزیروں میں ہوتا ہے۔ اس وزیر مملکت برائے محصولات کو بھی اسی مسئلے کا سامنا ہے، جو ان سے پہلے عہدیداروں کو تھا کہ آخر کس طرح پاکستانی شہریوں کو ٹیکس دینے کی طرف مائل کیا جائے؟ توقع کے مطابق رواں ماہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات میں بھی یہی معاملہ سرفہرست ہو گا کہ کس طرح پاکستان میں ٹیکس چوری کو روکا اور ملک سے مالی بدعنوانی کو ختم کیا جائے۔ سینتیس سالہ محمد حماد اظہر کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے طویل المدتی اصلاحات متعارف کروانا چاہتے ہیں۔ لیکن سب سے پہلے وہ ایسی جدید ٹیکنالوجی اور ڈیٹا حاصل کر رہے ہیں، جس سے ٹیکس چوری کرنے والوں کی نشاندہی ہو سکے۔ پاکستان کی کل آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ اپنی آمدنی کے گوشوارے جمع کرواتا ہے اور حماد اظہر کے مطابق اس میدان میں بہت کچھ کیا جانا ضروری ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ٹیکس کی کم ادائیگی کی وجہ سے ہی اس ملک میں اسکولوں سے لے کر ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی کمی ہے۔ اگست میں اقتدار سنبھالنے والے وزیراعظم عمران خان نے فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) میں اصلاحات متعارف کروانے کا اعلان کیا تھا تاکہ ٹیکس کولیکشن کو دوگنا کیا جا سکے۔ انہوں نے پہلے قدم کے طور پر ’کرپشن کے حوالے سے مشہور‘ اس ادارے کے سربراہ کو تبدیل کر دیا تھا۔ حالیہ چند مہینوں میں ایف بی آر نے ملک کے 350 امیر ترین افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس مہم کے دوران ان لوگوں کو جوابدہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو جاگیردار ہیں، قیمتی برانڈ کی کاروں کے مالک ہیں، بڑے کاروباری معاہدے کرتے ہیں، کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشنز کرتے ہیں لیکن انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرواتے۔

پاکستان میں ماضی کی حکومتیں بھی ایسے ہی اعلانات کر چکی ہیں لیکن اس ملک کے طاقتور اور امیر طبقے سے ٹیکس وصولی کے منصوبے دھرے کے دھرے ہی رہ جاتے ہیں۔ پاکستان پولیٹیکل اکانومی نامی کتاب کے مصنف اور لندن میں سٹی گروپ کے شعبہ سرمایہ کاری سے وابستہ یوسف نذر اس حوالے سے کہتے ہیں، ’’ہمارے جیسے ملک میں ٹیکس نظام میں اصلاحات کرنا ایک بہت ہی بڑا مسئلہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ میں طاقتور افراد کے اپنے مفادات ہیں، بڑے بزنس مین اور بڑے بڑے جاگیردار ایسی اصلاحات کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہیں۔‘‘ محمد حماد اظہر کے مطابق اب حکومت نے ’گاجر اور چھڑی‘ کی پالیسی اپنائی ہے۔ ٹیکس نادہندگان کے خلاف کارروائیاں تیز تر کر دی گئی ہیں اور ساتھ ہی ’سنگل ونڈو آپریشن‘ کے تحت ٹیکس ادائیگی کا عمل بھی آسان بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ہر ایسے شخص کے حوالے سے معلومات ایک جگہ جمع کی جا رہی ہیں۔ حماد اظہر کے مطابق ٹیکس چوری کرنے والوں کی نشاندہی کاروں کی خریداری، بینک ٹرانزیکشنز اور بیرون ملک سفروں کی معلومات کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تمام ڈیٹا ایک جگہ لانے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔

سیلز ٹیکس
پاکستان کی سابق حکومت نے جی ڈی پی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ٹیکس کو دس عشاریہ ایک فیصد سے بڑھا کر تیرہ فیصد کر دیا تھا لیکن یہ ابھی بھی اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے رکن ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔ عام طور پر ایسا ٹیکس چونتیس فیصد تک عائد کیا جاتا ہے۔ ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ کے مطابق نئی حکومت اصلاحات لانے کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہے لیکن ان کی جماعت میں سبھی اس کی حمایت نہیں کرتے۔ ان کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سخت اقدامات اٹھانے کے نتیجے میں عمران خان کی اپنی ہی جماعت میں ان کی حمایت کم ہو سکتی ہے۔ ذیشان کا کہنا تھا کہ اس وقت صرف باتوں کی ہی نہیں بلکہ ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔

ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے بنیادی فیصلہ گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا، جب خان کابینہ نے ٹیکس پالیسی کو ریونیو کولیکشن سے الگ کر دیا تھا۔ اس طرح ایف بی آر سے پالیسی سازی کی طاقت چھین لی گئی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق سب سے اہم کام پاکستان کی ’بلیک اکانومی‘ پر کنٹرول کرنا ہے۔ بڑی تعداد میں جائیدادیں، اشیاء اور سروسز کیش کے بدلے فروخت کی جاتی ہیں۔ اندازوں کے مطابق اس طرح گمنامی میں 310 بلین ڈالر کا کاروبار کیا جا رہا ہے۔ حماد اظہر کہتے ہیں کہ پاکستان میں ’کیش اکانومی کی حوصلہ شکنی‘ ضروری ہے، ’’ یہ تمام پیشہ کیش کی صورت میں ٹیبل کے نیچے سے آ جا رہا ہے اور اس عمل کو مشکل بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘

 بشکریہ DW اردو
 

سیاست میں یو ٹرن اور اس کے فوائد و نقصانات

$
0
0

کولنز ڈکشنری کے مطابق سیاست میں یو ٹرن کی اصطلاح کا مطلب سیاسی پالیسی میں مکمل تبدیلی ہے، یعنی یو ٹرن لینے کا محرک یہ ادارک ہے کہ قبل ازیں سیاسی پالیسی کمزور یا غلط تھی۔ عمران خان کی اس تشریح کو دیکھتے ہوئے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ شکر ہے کہ بالخصوص اڈولف ہٹلر نے ’یو ٹرن‘ نہیں لیا ورنہ نجانے دنیا میں مزید اور کتنی تباہی و بربادی پھیلتی۔ آمر اڈولف ہٹلر کے نازی خیالات کی حامل سیاسی پالیسیوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں سے شائد ہی کوئی باشعور شخص واقف نہ ہو۔

وزیر اعظم عمران خان کے اس متنازعہ بیان پر سوشل میڈیا پر حسب توقع ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔ زیادہ تر صارفین عمران خان کے اس بیان پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری طرف ان کے حامی تشریح میں مصروف ہیں کہ دراصل عمران خان کے کہنے کا مقصد کیا تھا۔ ہفتے کے دن سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بالخصوص ٹوئٹر پر پاکستان میں ٹرینڈ کرتا ایک اہم ٹاپک ’یو ٹرن‘ ہے۔ اس تناظر میں متعدد پیغامات میں ناقدین نے اصرار کیا ہے کہ کم از کم عمران خان کو اپنے ’یو ٹرن‘ کے فلسفے پر یو ٹرن نہیں لینا چاہیے۔

بشکریہ DW اردو
 

حکومتوں کی ناکامی کا سبب کیا ہے ؟

$
0
0

قوموں کی زندگی عروج و زوال کی داستانوں سے بھری پڑی ہیں اجتماعی اور انفرادی حثیت سے بھی عروج و زوال کی داستانیں چشم کُشا اور عبرت آموز موجود ہیں، مگر انسان خطا و نسیاں، نادانی کا پُتلا ماضی کی داستاںِ حقائق سے کچھ حاصل نہیں کرتا، حتٰی کہ دورِ قدیم اور دورِ جدید میں بے شمار اور ان گنت حالات و واقعات انسان کی اصلاح اور درُستگی کے لیے تاریخ کے اوراق پرمثال عبرت کے طور موجود ہیں، مگر انسان کی فطرت ثانیہ یہ ہے کہ وہ گزرے ہوے یا حال کے واقعات سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا یاد رکھیں قومیں یا انفردی صورت میں جو ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتے وہ قومیں کبھی بھی ترقی کی منزلیں طے نہیں کر سکتیں ، نہ کہ اپنی ہر کوتاہی اور غلط فیصلے پر ڈھٹائی سے ڈٹا رہنا اور یہی بات اسکی ناکامی کا پہلا سبب بنتی ہے۔

سب سے بڑی نادانی یا فطری کمزوری یہ سمجھ لیجیے جب انسان کُرسی اقتدار پر بُراجمان ہوتا ہے تو پھر وہ اپنےآپ کو عقلِِ کُل یا مکمل با اختیار ہو نے کے ناطے یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ مجھے بھی کسی مقتدر ہستی کے سامنے جوابدہ ہونا ہے، اس لیے اسلامی نظام حیات میں اقتدارکا سر چشمہ اللہ تعاٰلی کی ذات کو ہی مختص کیا گیا ہے، تاکہ ہر ذی شعور اور ذی ہوش یہ سمجھے اور اپنے ذہن و فکر میں یہ بات ہر وقت جاں گزیں اور پیش نظر رکھے کہ مجھ سے ایک بڑی طاقت، طاقت قاہرہ بھی موجود ہے جو میرے ظاہر و باطن کی ہر لمحے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سوتے جاگتے کی نگرانی کر رہا ہے اور مجھے ایک نہ ایک دن اس کی عدالت میں جوابدہ بھی ہونا ہے۔

نشہ اختیار اور کُرسی اقتدار، انسان سے ایسے کارنامے خیر و شر زد کراتا ہے جو اُسے سب خوشنُما اور احسن ہی نظر آتے ہیں، جیسا کہ آج کل ، خواہ وہ کارنامے خیر ہوں یا شر، کیونکہ اقتدار کی حالت میں اس کے پاس ان کے مشیر بھی ان کے اچھے و برے کارناموں میں شب و روز سب ٹھیک ہے کہ راگ الاپتے ہو ے اقتدار میں موجود رہ کر اپنے مقاصد پورا کرنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں اور یہی وہ مشیر ہوتے ہیں جو اعلی سے اعلی قیادت کو تختہ دار تک پہچانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، اور اپنا دامن جھٹک کر کسی اور کی پوجا میں مصروف ہو جاتے ہیں جس کی بہترین مثال ذولفقار علی بھٹو کی ہے ،جو حکمرانوں کے لیے عبرت کا نشاں ہے گر کوئی سمجھے۔

اس لیے نظام اسلام میں فرمانروائوں اور مقتدر ہستیوں کے لیے سب سے اول اور اہم خوف ِ خُدا کا ادراک ہے ، اور یہ ادراک روز اول سے ہی ذہن نشین کرایا جاتا ہے، تاکہ انسان لغزشوں کوتاہیوں اور مداح سرائی کے نتیجے میں بے لگام یا بے راہ روی کا شکار نہ ہو جاے۔ مگر جب یہ انسان حکمرانی کے منصب پر بُراجمان ہوتا ہے اپنے آپ کو مقتدر ہی سمجھنے لگتا ہے تو پھر اس سے خیر اور بھلائی کی توقع کم اور شر و فساد، بدعنوانیوں، بد اعمالیوں اور طرح طرح کے گھنائونے اعمال و افعال سر زد ہونے کی توقع جنم لینے لگتی ہیں۔ اقتدار اور اختیار حکومت کا نشہ انسان کو فہم و فراست ،عقل و شعور ،ادراک عدل و انصاف و حق اور تمام معروضات سے بے بہرہ کر دیتا ہے اور پھر و ہ اپنے نشہ اقتدار میں اپنے اور اپنے ہم خیال و ہم نوائوں کو ہی عقل کُل اور عقل و شعور کا مجسمہ سمجھنے لگتے ہیں۔ جمہوریت یا کوئی بھی نظام سلطنت ہو اپنے عمل اور کردار سے عوام الناس کو عدل و انصاف اور حقوق انسانی، کی کما حقہ ادائیگی کا تصور رکھ کر ان کے ساتھ معاملہ کرے تو پھر ممکن ہے وہ افراتفری، تعصبات، تنگ نظری، حق تلفی، مساوات، عدل و انصاف سے محرومی کا شکار نہ ہو۔

مگر ہماری 70 سالہ تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ جب ہم اقتدار اعٰلی حاصل کر کے دُنیا کی چمکتی دمکتی اور دلفریب رعنائیاں میں یوں گم ہو جاتے ہیں کہ ہمیں یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ ہم اس منصب کو حاصل کرنے کی جستجو میں قوم سے کیا عہد و پیما وعدو و وفا کر کے آے تھے، مگر دُنیا کی لبھانے والی رعونیت و تکبُر اسے قہاروں اور جباروں کی طرف مائل کر دیتی ہے تو پھر حکمرانوں کی آنکھوں پر فرعونیت کا چشمہ انکو انصاف کے تقاضوں سے کوسوں دور کر دیتا ہے۔
حکمرانی کا رعب و دبدبہ خشوع و خضوع احساس و خیال تک اس کے دل میں باقی نہیں رہنے دیتا ، بلکہ اقتدار اور حکمرانی کا نشہ اس سے ایسے کام سر انجام دلاتا ہے کہ جب وہ اقتدار سے اُٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا ہے تب اسکو یہ احساس ہوتا ہے کہ فلاں کام فلاں حکم جو میں نے نافذ اور جاری کیے تھے مجھے نہیں کرنے چاہیے تھے.

مگر اقتدار کے زعم ِ باطل میں اسے خیال تک نہیں آتا کہ یہ اقتدار کسی کے ساتھ دائمی وفا نہیں کرتا ، اللہ تعالی کا مقرر وقت ہی اس کو ملتا ہے، مکافات عمل کے تحت ایک دن اسکو اقتدار سے سبکدوش ہونا ہی پڑتا ہے ۔ اللہ تعالی سے دعاگوں ہوں کے پاک پروردگا ر ہم پر رحم فرما ہم جو کچھ کاٹ رہے ہیں اپنا بویا ہوا کاٹ رہے ہیں اور اللہ تعالی اس مملکت پاکستان میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے نظام کو اس ملک میں نافذ و عمل کروانے میں اُن لوگو ں کی مدد فرما جس کو تو پسند کرتا ہے اور حکمرانی اُن لوگوں کے ہاتھ میں دے جو دل میں اللہ کا خوف اور روز محشر اپنے رب کوجوابدہ ہونے کاخوف بھی رکھتے ہوں ۔

بابر فاروقی
 

Haji Abdul Wahab : A profile of Tableeghi Jamaat Ameer

$
0
0

Born on January 1, 1923 in Delhi he went on to become Islamic preacher after joining the  movement during the life of Tableeghi Jamaat founder Muhammad Ilyas Kandhlawi. According to reports, the cleric originally hailed from Karnal district in India and belonged to Rajput tribe. He is said to have attended Islamia College, Lahore, and also worked as Tehsildar in pre-partition India. Haji Abdul Wahab was also affiliated with Majlis-e-Ahrar-e-Islam in his youth. He joined the Tableeghi Jamaat in 1944 and later left his job to work for the movement. Haji Abdul Wahab, also known as the direct  companion of Maulana Muhammad Ilyas, is considered one of the first five people in Pakistan who offered their entire life for Tabligeehi Jamaat. Maulana succeeded Haji Muhammad Bashir as Ameer of the Jamaat in 1992. Based in Jamaat's headquarters in Raiwind Markaz near Lahore, he was head of Shura (council) as well as a member of the movement's (Aalmi Shura) World Council based in Nizamuddin, Delhi India.

امیر تبلیغی جماعت حاجی عبدالوہاب، جنھوں نے پوری زندگی تبلیغ کے لئے وقف کی

$
0
0

امیرتبلیغی جماعت حاجی عبدالوہاب 1922 کو انڈیا کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے ہجرت کے بعد پاکستان آئے، ان کا تعلق راجپوت راؤ برادری سے تھا، اسلامیہ کالج لاہور سے گریجو یشن کیا، گریجویشن کے بعد تحصیلدار کی نو کری شروع کر دی، انہوں نے تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حاجی عبدالوہاب مسلم دنیا کے 500 سو بااثر شخصیات میں 10 ویں نمبر پر شامل تھے، ان کا شمار پاکستان کے ان پانچ لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی تبلیغ کے لئے وقف کی۔ محمد شفیع قریشی تبلیغی جماعت کے پہلے امیر تھے ان کی وفات کے بعد حاجی محمد بشیر دوسرے امیر مقرر ہوئے جبکہ حاجی عبدالوہاب تیسرے امیر مقرر ہوئے.
 

اور اگر تاریخ بھی یو ٹرن لے لے؟

$
0
0

پرانے پاکستان میں وعدے قرآن و حدیث نہیں تھے کہ جن پر مکمل عمل کیا جائے اور نئے پاکستان میں جو سیاستداں یو ٹرن نہ لے سکے وہ کامیاب سیاستداں نہیں کہلا سکتا۔ اس کے علاوہ نئے اور پرانے پاکستان میں کوئی اور فرق محسوس ہو تو اس فقیر کو بھی مطلع کیجیے گا۔ نپولین اور ہٹلر کو اگر نیٹو کی پاکستان کے راستے افغانستان جانے والی رسد روکنے یا 126 دن کے دھرنے کے بعد کنٹینر سے اترنے یا عاطف میاں کی بطور معاشی مشیر تقرری پر اٹھنے والا وبال یا کسی علامہ خادم حسین رضوی کا دھرنا درپیش ہوتا تو وہ بھی یو ٹرن لے لیتے۔ مگر ڈھائی ہزار کلومیٹر پرے ماسکو کے دروازوں پر پہنچ کے یوٹرن لینے کا نتیجہ بھی وہی نکلتا جو نہ لینے کا نکلا۔

مجھے اتنا تو معلوم ہے کہ عمران خان نے آکسفورڈ میں داخلہ لیا تھا مگر وہاں پڑھا کیا، یہ نہیں معلوم، چنانچہ میں یہ کہنے کا رسک بھی نہیں لے سکتا کہ خان صاحب نے وہاں کچھ اور پڑھا ہو کہ نہ پڑھا مگر تاریخ ضرور پڑھی ہو گی۔ شاید عمران خان بنیادی اصولوں پر یو ٹرن لینے کی نہیں بلکہ مقصد کے حصول کے لیے حکمتِ عملی کو حالات کے مطابق بدلتے رہنے کی بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر خان صاحب کو اپنے یوٹرن والے بیان سے وضاحتی یو ٹرن لے لینا چاہیے۔ لیکن اگر خان صاحب اپنے اوریجنل بیان پر ڈٹے رہتے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔

جیسے شروع شروع میں عمران خان سمجھتے تھے کہ وہ روایتی سیاسی الیکٹ ایبلز کے بغیر بھی برسرِاقتدار آ سکتے ہیں لیکن 22 برس بعد ان پر کھلا کہ یہ سیاست ہے کرکٹ نہیں کہ نئے لڑکے چل جائیں گے۔ اور پھر آپ نے دیکھا کہ اس یو ٹرن نے کیا چمتکار دکھایا۔ خان صاحب کا اوائلِ عمری میں یہ بھی خیال تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اس ملک کی تقدیر بدلنے کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہے اور اسے کٹھ پتلی سیاستداں درکار ہیں۔ لیکن آج خان صاحب سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاستداں ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں لہٰذا ہم آہنگی کے بغیر گاڑی نہیں چل سکتی۔ پر کیا کیا جائے کہ تاریخ خان صاحب کی سوچ سے کہیں بڑی گیم ہے۔ جوں جوں شخصی قد اور احساسِ ذمہ داری بڑھتا جاتا ہے توں توں یو ٹرن لینا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔

ذرا سوچیے اگر سقراط زہر کا پیالہ واپس کر دیتا، ابراہیم آتشِ نمرود میں نہ کودتے، حسین حالات ناموافق دیکھ کر یزید کی بیعت کر لیتے، گلیلیو چرچ کو لکھ کر دے دیتا کہ زمین چپٹی ہے، بابر پانی پت میں رانا سانگا کا ایک لاکھ کا لشکر دیکھ کر پتلی گلی سے یوٹرن لے لیتا، جدید تعلیم کا تنہا وکیل سر سید احمد خان درجنوں مولویوں کی بات مان لیتا کہ انگریزی پڑھنا کفر ہے، اتاترک گیلی پولی میں برطانوی و فرانسیسی بیڑے کو دیکھ کر یو ٹرن ڈھونڈھ لیتا، جناح صاحب متحدہ ہندوستان کا وزیرِ اعظم بننے کی پیش کش قبول کر لیتے، بھٹو رحم کی درخواست لکھ دیتا تو ہو سکتا ہے جان بچ جاتی۔ مگر۔۔۔۔

ابھی نو دن پہلے ہی تو خان صاحب یومِ اقبال پر نشریاتی شاہین بنے کہہ رہے تھے کہ اقبال کا پیغام یہی ہے کہ عقل کی غلامی سے نکل۔ ناممکن کو ممکن کرنا ہے تو عشق و جنون کا دامن تھام۔ مگر وہ کون سا عشق اور جنوں ہے جو یو ٹرن بھی سکھاتا ہے؟

عقل عیار ہے یو ٹرن بھی لے لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملا ہے، نہ زاہد، نہ حکیم

وسعت اللہ خان
تجزیہ کار
 

پاکستان میں جعلی ادویات : اربوں کا منافع، ہزارہا جانوں کا ضیاع

$
0
0

ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی جعلی ادویات سے ہر سال اربوں روپے کمائے جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ جرم ہزار ہا انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بھی بنتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں جعلی اور غیر معیاری ادویات کے کاروبار کا سالانہ حجم دو سو ارب ڈالر کے قریب ہے۔ کئی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں جتنے بھی کاروباری شعبوں میں قانونی اور معیاری مصنوعات کی غیر قانونی اور غیر معیاری نقل تیار کر کے جتنا بھی منافع کمایا جاتا ہے، ان میں جعلی ادویات سے ہونے والا منافع سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

لیکن بین الاقوامی سطح پر مجرمانہ منافع کی یہی ہوس لاکھوں انسانوں کی موت کی وجہ بھی بنتی ہے اور ایسی ہلاکتیں پاکستان میں بھی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں معیاری ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے اور جعلی اور غیر معیاری ادویات کی روک تھام کا کام ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان یا ڈریپ نامی ادارہ کرتا ہے۔ لیکن بے تحاشا منافع کی خاطر مریضوں کی جانوں سے کھیلنے والے غیر قانونی دوا ساز اور دوا فروش آج بھی اتنے پاکستانیوں کی ناحق موت کی وجہ بنتے ہیں کہ یہ سالانہ تعداد درجنوں یا سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں بنتی ہے۔

حقیقت سے انکار
ڈرگ کنٹرول کے شعبے کے کئی اعلیٰ پاکستانی اہلکار تو سرے سے اس بات سے انکار بھی کر دیتے ہیں کہ پاکستان میں جعلی ادویات کا کاروبار بہت پھیلا ہوا ہے، ان کی وجہ سے مریض ہلاک بھی ہو جاتے ہیں اور کئی شہروں میں جعلی ادویات بنانے کی فیکٹریاں بھی قائم ہیں۔ ایسے اہلکاروں کے ان دعووں کی تردید کے لیے محض چند بڑے حقائق کی طرف اشارہ کرنا ہی کافی ہو گا.

سن 2012ء میں پاکستان کے دو شہروں میں نشے کے لیے کھانسی کا شربت پینے کے نتیجے میں ساٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ شربت تو کھانسی کے علاج کے لیے تھا مگر پینے والوں نے اسے نشے کے لیے بہت زیادہ مقدار میں پیا تھا اور کھانسی کے اس شربت میں ایک ایسا زہریلا مادہ بھی تھا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا اور جو مارفین سے بھی پانچ گنا زیادہ خطرناک تھا۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ پہلے ہی پاکستان کی ایک ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے اعلیٰ حکام نے صوبہ پنجاب کے چیف ڈرگ کنٹرولر کو لکھا کہ 50 کے قریب دوا ساز اداروں کی بنائی ہوئی 91 اینٹی بائیوٹک ادویات غیر معیاری نکلی تھیں۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق اس خط میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ صوبائی محکمہ صحت نے تب تک اس بارے میں کوئی ایسے اقدامات نہیں کیے تھے جو اسے فوری طور پر کرنا چاہییں تھے۔ اسی طرح صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں کوالٹی کنٹرول بورڈ نے چند روز قبل سترہ ایسے میڈیکل سٹوروں کے کیس ڈرگ کورٹس میں بھیج دینے کا فیصلہ کیا، جو غیر معیاری اور غیر رجسٹرڈ ادویات کی فروخت میں ملوث تھے۔

ڈرگ کنٹرول کی صورت حال
پاکستان میں دوا سازی کی صنعت کے غیر جانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے رکن ممالک کی تعداد 191 ہے۔ ان میں سے صرف 20 فیصد ریاستوں کے پاس فارما انڈسٹری سے متعلق کوالٹی کنٹرول کا بہترین نظام موجود ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے، ’آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے‘۔ چند حلقے تو یہ دعوے بھی کرتے ہیں کہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں کچھ ’رجسٹرڈ دوا ساز ادارے‘ ایسے بھی ہیں، جو فارماسیوٹیکل فیکٹریوں کے طور پر ’دو دو کمروں کے گھروں‘ میں کام کر رہے ہیں۔

اسلام آباد کے رہائشی اور ایک دوا ساز کمپنی کے مالک ت حسین نے، جو احتیاطاً اپنے ادارے کا نام اور اپنی مکمل شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''کچھ پرائیویٹ کمپنیاں بھی اور مقامی پروڈیوسرز بھی جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت میں ملوث ہیں۔ ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے آئے دن کے چھاپوں کے باوجود بڑی مقدار میں ایسی ادویات کھلے عام دستیاب ہیں۔ لیبارٹریوں کی قلت کے باعث جعلی ادویات کی بروقت جانچ پڑتال کا بھی فقدان ہے۔ ایسی ادویات بنانے والے کئی افراد ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر کروڑوں کا منافع کما رہے ہیں۔ جو ڈاکٹر ایسا کرتے ہیں یا محض کسی خاص کمپنی کی تیار کردہ ادویات ہی مریضوں کے لیے نسخے میں لکھتے ہیں، انہیں بیش قیمت تحائف ملتے ہیں یا بیرون ملک دورے کرائے جاتے ہیں۔‘‘

ت حسین نے، جو قریب تین عشروں سے دوا سازی کی صنعت میں فعال ہیں، ڈوئچے ویلے کو مزید بتایا، ’’پاکستان میں ڈرگ ریگولیشن کی صورت حال کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے افراد اور سرکاری اور نجی ادارے اپنے فرائض اور پیشہ ورانہ ذمے داریاں پوری کرتے تو ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ کئی جعلی ادویات تو ایسی ہوتی ہیں، جو مریضوں کی بیماری میں طوالت حتیٰ کہ ان کی موت تک کی وجہ بن جاتی ہیں۔ میں نے قریب تین دہائیوں میں یہی دیکھا ہے کہ اس ناجائز کاروبار میں دوا ساز، ڈاکٹر، ڈرگ کنٹرولر اور دوا فروش، ہر فرد واحد تو نہیں لیکن ہر شعبے کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔‘‘

صحت کے بجائے بیماری شدید تر
اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال کی گائناکالوجی کے شعبے کی سینیئر ڈاکٹر فرحت ارشد نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جعلی ادویات کے باعث کئی بار مریض صحت یاب ہونے کے بجائے مزید بیمار ہو جاتے ہیں۔ جعلی اینٹی بائیوٹکس کے استعمال سے مریض کے جسم میں انفیکشن پھیل جائے تو اس کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ میں اگر صرف گائناکالوجی کی بات کروں، تو غیر معیاری ادویات زچہ اور بچہ دونوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔ جعلی یا غیر معیاری ادویات کی فروخت پر تو کڑی سزا ہونی چاہیے تاکہ یہ جان لیوا رجحان کسی طرح ختم تو ہو۔‘‘

ڈاکٹر فرحت ارشد نے مزید بتایا، ''یہ صرف ہمارے ہی معاشرے کا المیہ نہیں، پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ ابھی حال ہی میں لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن اور ہارورڈ گلوبل ہیلتھ انسٹیٹیوٹ نے ایک مشترکہ اپیل بھی جاری کی تھی کہ غیرمعیاری ادویات کی روک تھام کے لیے فوری لیکن بہت سخت اقدامات کیے جائیں۔ دوسری صورت میں یہ مسئلہ مزید ہلاکت خیز ہو جائے گا۔ امریکا جیسے ملک میں ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی نے بتایا کہ سن دو ہزار سولہ میں وہاں روزانہ اوسطاً 174 افراد اس لیے موت کے منہ میں چلے گئے تھے کہ انہوں نے جعلی، غیر معیاری یا نشہ آور ادویات استعمال کی تھیں۔ یہ تعداد ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والوں یا خود کشی کر لینے والے امریکی شہریوں کی اوسط روزانہ تعداد سے کہیں زیادہ تھی۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں نشے کے ٹیکے بھی کیمسٹ ہی غیر قانونی طور پر بیچتے ہیں، اصل صورت حال کتنی پریشان کن ہو گی۔‘‘

دو دو کمروں کی ڈرگ ’فیکٹریاں‘
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز یا پمز کے ہارٹ سرجن عدنان طاہر نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’ہمارے ہاں جعلی اور غیر معیاری ادویات کی تیاری اور فروخت کی صورتحال ڈرا دینے والی ہے۔ لاہور اور پشاور جیسے شہروں میں بھی جعلی ادویات بنانے والے خاصے فعال ہیں۔ جو نقلی دوا بیس روپے کی لاگت سے بنتی ہے، وہ ڈھائی تین سو روپے میں بیچی جاتی ہے، جس میں ہر کسی کا حصہ ہوتا ہے۔ دو دو کمروں کے گھروں کو فیکٹری بنا کر رجسٹرڈ کیا جاتا ہے۔ وہاں جو کچھ بنتا ہے، اس میں موت تو ہو سکتی ہے، زندگی نہیں۔ ایسی کئی ادویات اپنی خراب پیکنگ سے بھی پہچانی جا سکتی ہیں۔‘‘

کارڈیالوجی سرجن ڈاکٹرعدنان طاہر کے مطابق پاکستان کے کئی چھوٹے شہر ایسے بھی ہیں جہاں کیمسٹ کی کسی دکان پر ایک چوتھائی سے لے کر نصف تک ادویات جعلی یا غیر معیاری ہی ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا، ’’پاکستان میں کئی دیگر شعبوں کی طرح اس بارے میں بھی کوئی مصدقہ قومی ڈیٹا موجود ہی نہیں۔ عرف عام میں ایسی دوائیوں کو ’ٹھیکے کی دوائیاں‘ کہا جاتا ہے۔ مریض کو ٹیکا لگائیں، تو اس میں یا تو پانی ہو گا یا گلوکوز۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر مریض کو جو دوائی تجویز کرتا ہے، کبھی کبھی کیمسٹ کوئی دوسری دوائی بیچنے کے لیے مجوزہ دوائی اپنی مرضی سے تبدیل بھی کر دیتا ہے۔‘‘ انہوں نے مطالبہ کیا کہ غیر معیاری ادویات بنانے والوں کو صرف جرمانے نہیں کیے جانا چاہییں بلکہ ان کے لائسنس منسوخ کر کے انہیں سخت سزائیں بھی سنا جانا چاہییں۔

اکلوتی بیٹی کی موت
اسلام آباد کی رہائشی سائرہ کیانی ایک نجی اسکول کی پرنسپل ہیں۔ ان کی تیرہ سالہ بیٹی ساتویں جماعت کی طالبہ تھی، جب اسے نمونیا ہو گیا تھا۔ سائرہ کیانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم نے بڑا علاج کروایا تھا لیکن ہماری بیٹی کی طبیعت ٹھیک ہونے کی بجائے مسلسل خراب ہی ہوتی چلی گئی تھی۔ پھر ایک دن وہ زندگی کی بازی بھی ہار گئی۔ پتہ چلا ادویات جعلی یا غیر معیاری تھیں۔ بعد میں ہم عدالتوں تک بھی گئے۔ لیکن ہمیں انصاف نہ ملا۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’جنہوں نے معمولی سے منافع کے لیے میری بیٹی کی جان لے لی، کیا میرے منہ سے کبھی ان کے لیے کوئی دعا نکلے گی؟‘‘

نیشنل ٹاسک فورس
پاکستان کے ایک فیڈرل ڈرگ انسپکٹر، ڈاکٹر حسن افضال نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ڈرگ ریگولیشن کیسے کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’پاکستان میں ریگو لیشن آف میڈیسن بنیادی طور پر دو سطحوں پر کام کرتی ہے۔ درآمد، برآمد، تیاری اور کوالٹی کنٹرول، یہ تمام شعبے وفاق کی عمل داری میں آتے ہیں۔ یہ کام ڈریپ نامی وفاقی ادارہ کرتا ہے۔ اس کے بعد ادویات کی سٹوریج، ہینڈلنگ اور ڈسٹری بیوشن سے متعلق معاملات صوبوں کی عمل داری میں آتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر حسن افضال کے مطابق مارچ 2018 کے بعد سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں نیشنل ٹاسک فورس بنائی تھی، وہ اب تک بہت اچھا کام کر رہی ہے: ''اس فورس نے گزشتہ آٹھ ماہ میں دو ہزار دورے کیے، مختلف علاقوں میں چھاپے مارے تاکہ جعلی اور غیر معیاری ادویات کی تیاری اور فروخت کو روکا جا سکے۔‘‘

'یہ مفروضے ہیں‘: سرکاری موقف
پاکستان میں فیڈرل ڈرگ کنٹرول کے ڈپٹی ڈائریکٹر غضنفر علی خان سے جب ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا، تو انہوں نے بہت سے حقائق اور دعووں کی تردید کی۔ ان کا کہنا تھا، ''پاکستان میں ایسا مسئلہ نہیں ہے، نہ ہی ہمارے پاس کوئی ڈیٹا ہے، جس کی مدد سے یہ کہا جا سکے کہ ملک میں جعلی ادویات کا کاروبار زوروں پر ہے۔ یہ صرف مفروضے ہیں۔ حقیقت کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی یہاں کوئی دو دو کمروں کی فیکٹریاں ہیں، جن کو لائسنس جاری کیے گئے ہوں، اور نہ ہی ان سے مریضوں کی اموات واقع ہو رہی ہیں۔‘‘ غضنفر علی خان کے مطابق پاکستان میں ڈیٹا جمع کرنے کا کوئی رواج نہیں اور نہ ہی سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے وسائل دستیاب ہیں۔ اس وقت ملک میں قریب 37 ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں، جن کے ''استعمال سے انسانی اموات کا تو کسی کو کوئی علم نہیں لیکن ان کے جو ضمنی اثرات ہوتے ہیں، جو فیڈ بیک مریض دیتے ہیں، وہ ہمیں متعلقہ دوا ساز ادارے بتا دیتے ہیں۔‘‘

عصمت جبیں، اسلام آباد

بشکریہ DW اردو
 


آئی ایم ایف اور اس کی شرائط

$
0
0

ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے دوست ملکوں سے تعاون کے حصول کی‘ حکومت کے مطابق، انتہائی کامیاب کوششوں کے باوجود آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے گزشتہ روز ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا ہے کہ ان کی حکومت کے ابتدائی تین مہینوں میں معاشی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ وزیراعظم کے سعودی عرب اور چین کے دورے بہت کامیاب رہے ہیں اور ان سے قومی معیشت کو مستحکم کرنے میں بڑی مدد ملی ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ دوست ملکوں کے اس تعاون کے باوجود ملک کو درپیش معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینا بھی ناگزیر ہے.

جبکہ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم اور وفاقی حکومت کے درمیان جاری مذاکرات میں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرض فراہم کرنے کے لیے خاصی سخت شرائط پیش کی گئی ہیں اور عالمی مالیاتی ادارے نے اپنے مطالبات کی فوری منظوری تک قرض کی فراہمی سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام پر یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ تمام مطالبات فوری ماننا ہوں گے، بصورت دیگر قرضے کی فراہمی کا وعدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم نے چار شرائط پیش کی ہیں۔ مالیاتی ادارے کی پہلی شرط یہ ہے کہ ایف بی آر ٹیکس وصولیوں کی کمی پر قابو پائے اور مستقبل میں 4100 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف پورا کرنے کا طریقہ کار واضح کرے۔ 

آئی ایم ایف کا دوسرا مطالبہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کا کنٹرول نہ کیا جانا اور اس کا تعین مارکیٹ پر چھوڑ دینا ہے جبکہ تیسری شرط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنا مالی خسارہ کم کرنے کے اقدامات واضح کرے اور پہلے چار ماہ میں 150 ارب روپے سے زیادہ کا خسارہ پورا کرنے کا طریقہ کار بتائے۔ وفد کی چوتھی شرط توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے کا خاتمہ اور مستقبل میں اس سے بچاؤ کا یقینی بنایا جانا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق ہفتے کو ہونے والے مذاکرات میں آئی ایم ایف کی ٹیم نے پاکستانی حکام کی اس یقین دہانی کو مسترد کر دیا کہ بہتر گورننس اور مالی نظم و ضبط کے ذریعے مالی خسارہ اور ریونیو وصولی کا ہدف پورا کر لیا جائے گا، تاہم مذاکرات اتوار کو بھی جاری رہیں گے۔

اس تفصیل سے واضح ہے کہ دوست ملکوں سے تعاون کے حصول میں کامیابی کے بعد وفاقی حکومت کے ذمہ داروں کی جانب سے ظاہر کی گئی یہ توقعات کہ اب آئی ایم ایف کا قرضہ نرم شرائط پر ملنا ممکن ہو گا، پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ ان سطور کی اشاعت تک اتوار کو مزید بات چیت کے نتائج بھی سامنے آ چکے ہوں گے اور وزیراعظم کے دورے کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات سے متوقع تعاون کا بھی کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا لیکن بظاہر آئی ایم ایف کی شرائط میں کسی قابلِ لحاظ نرمی کا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے جبکہ ان شرائط کی تکمیل کی صورت میں ٹیکسوں کی مدات اور شرحوں نیز ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان یقینی دکھائی دیتا ہے جس سے نچلے اور متوسط طبقوں کے لیے زندگی مزید دشوار ہو جائے گی۔ 

اس صورتِ حال میں ضروری ہے کہ ہمارے معاشی حکمت کار نہ خود کسی طرح کی خوش فہمی کا شکار ہوں اور نہ قوم کو ایسی تسلیاں دیں جو حقیقت نہ بن سکتی ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قوم کے بہترین معاشی دماغ یکجا ہو کر غور و خوض کریں اور ایسے اقدامات تجویز کریں جو کم سے کم وقت میں معاشی استحکام اور عام آدمی کے شب و روز کو مزید تلخ ہونے سے بچانے کا ذریعہ بن سکیں۔ وفاقی حکومت کی تشکیل کردہ اقتصادی مشاورتی کونسل اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے اور وزیر خزانہ کے زیرِ صدارت گزشتہ روز کونسل کے ایک ذیلی گروپ کا اجلاس ہوا بھی ہے، تاہم مشاورت کے دائرے کو وسیع کر کے درپیش معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ممکنہ طور پر بہتر راستے تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

گوگل نے پاکستان کو ڈیجیٹل دنیا میں تیزی سے ابھرتا ہوا ملک قرار دیدیا

$
0
0

دنیا کی معروف ترین ٹیکنالوجی کمپنی 'گوگل'کا کہنا ہے کہ پاکستان تیزی سے ڈیجیٹل ملک بن کر ابھر رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ متعدد برانڈز کے لیے یہاں لاتعداد مواقع ہیں جہاں وہ اپنے صارفین سے براہ راست ’رابطہ‘ قائم کر سکتے ہیں۔ گوگل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چھوٹے اور محدود پیمانے پر لاتعداد کاروبار انٹرنیٹ کی بدولت پروان چڑھ رہے ہیں اور اسے بتدریج مزید تقویت مل رہی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں اضافہ اور بڑا سرمایہ رکھنے والی غیر ملکی کمپنیوں کی دلچسپی ہے۔ گوگل نے پاکستان میں ڈیجیٹل اشتہارات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پانچ اہم نکات کا ذکر کیا۔

پاکستان کی آبادی تقریباً 20 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جس کا مطالبہ ہے کہ ہر روز انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں شہری علاقوں کا پھیلاؤ تیزی سے ہو رہا ہے، لوگ دیہی علاقوں سے نکل کر شہر کی زندگی اپنا رہے ہیں، پاکستان میں شہری آباد کاری کا رجحان بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو چکا ہے اور تقریباً 40 فیصد آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہے۔

دنیا کی چوتھی بڑی ابھرتی ہوئی معاشی ریاست
پاکستان کا موجودہ فی کس جی ڈی پی تقریباً ایک ہزار 641 ڈالر ہے، اگر جی ڈی پی کی یہی رفتار برقرار رہی تو 2030 میں پاکستان چوتھی بڑی ابھرتی ہوئی معاشی ریاست بن جائے گا۔ پاکستان میں تقریباً 90 فیصد چھوٹی اور محدود پیمانے کی کمپنیاں (ایس ایم ایز) ہیں اور یہ چھوٹی کمپنیاں ملکی ضروریات کا 40 فیصد پورا کرتی ہیں جو ملکی جی ڈی پی کا 305 ارب ڈالر بنتا ہے۔

اسمارٹ فون میں اضافہ، بزنس میں بہتری
پاکستان میں تقریباً 5 کروڑ 90 لاکھ اسمارٹ فون کے صارفین ہیں جس میں اندازاً 83 فیصد 'اینڈرائڈ موبائل'استعمال کرتے ہیں، گزشتہ چند برس میں اینڈرائڈ موبائل کی قیمتوں میں کمی کے باعث اسے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جتنے اسمارٹ موبائل صارفین بڑھیں گے اس طرح آن لائن صارفین کی تعداد بھی بڑھے گی۔

انٹرنیٹ کے پھیلاؤ میں مسلسل اضافہ
پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 4 کروڑ 46 لاکھ (آبادی کا 22 فیصد) ہے، اس حقیقت کے تناظر میں آئندہ برسوں میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو گا، گزشتہ تین برس میں یوٹیوب کو دیکھنے والوں کی تعداد میں تقریباً 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری
پاکستان میں پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کے تحت چین 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اسی منصوبے میں ملک کے اندر انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے 820 کلومیٹر لمبی فائبر اپٹک کیبل بھی ڈالی جارہی ہے، جس کے نتیجے میں چین موبائل نامی کمپنی ملک میں 3 جی اور 4 جی میں سرمایہ کاری کر سکے گی۔ واضح رہے کہ اسی کمپنی نے 3 اور 4 جی میں مزید وسعت پیدا کرنے کے لیے مجموعی طور پر پاکستان میں 2.4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔
 

سدپارہ جھیل : گلگت بلتستان میں واقع ایک قدرتی جھیل

$
0
0

سدپارہ جھیل گلگت بلتستان میں واقع ایک قدرتی جھیل ہے۔ یہ سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر ہے۔ یہ شہر سکردو سے تھوڑی سی مسافت پر ہے اور شہر کو پانی کی فراہمی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ جھیل بہت خوبصورت ہے اور اس کا پانی میٹھا ہے۔ اس کے اطراف میں سنگلاخ چٹانیں ہیں۔ موسم سرما میں ان پہاڑوں پر برف پڑتی ہے۔ گرمیاں شروع ہونے پر یہ برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو اس کا پانی جھیل میں جمع ہونے لگتا ہے۔ دیوسائی نیشنل پارک سے نکلنے والے قدرتی ندی نالوں کا پانی بھی بہتا ہوا اس جھیل میں آتا ہے۔ سدپارہ بلتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں سات دروازے۔ اس نام کی وجہ ایک دیومالائی کہانی بتلائی جاتی ہے۔

محمد ریاض

 

نگر : گلگت بلتستان کا ایک ضلع

$
0
0

نگر گلگت بلتستان کا ایک ضلع ہے۔ پاکستان اور چین کو ملانے والی شاہراہ قراقرم نگر سے گزر کر جاتی ہے۔ وادی نگر کو کسی دور میں بروشال کہا جاتا تھا۔ یہ وادی سطح سمندر سے 7999 فٹ بلند ہے۔ یہاں ملک بھر سے سیاح آتے ہیں۔ یہاں غیر ملکی سیاحوں کی بھی اچھی خاصی تعداد آتی ہے۔ گلگت سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر نگر کی پہلی آبادی چھلت ہے۔ یہ شمال کی طرف نگر کی واحد آبادی ہے۔ یہاں کے باشندوں کو بروشو اور ان کی بولی کو بروشسکی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بروشو شمال کے قدیم ترین باشند ے اور اولین آبادکار ہیں۔ نگر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جب یہ علاقہ بروشال کے نام سے مشہور تھا تب اس کا دارالحکومت کیپل ڈونگس تھا، جہاں کا بادشاہ تھم کہلاتا تھا۔

انگریز یہاں سے روس تک تجارت کرنا چاہتے تھے لیکن یہاں کی ریاستیں ایسا کرنے سے روک رہی تھیں، اس لیے 1891ء میں کرنل ڈیورنڈ کی سربراہی میں نگر پر حملے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ انگریزوں نے چھ مہینوں تک نلت قلعہ کا محاصرہ کیا۔ آخر کار ایک غدار کی مدد سے انگریز فوج قلعے کی اوپر والی چوٹی پر پہنچ گئی۔ نگر کی آب و ہوا سردیوں میں شدید سرد اور گرمیوں میں خوشگوار ہوتی ہے۔ نگر کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔ یہاں کے لوگ امن پسند ہیں اور اپنے مہمانوں یعنی سیاحوں کا خیال رکھتے ہیں۔ نگر میں بہت سے چھوٹے بڑے پہاڑ ہیں جن میں راکاپوشی ،گولڈن پیک، دیران شامل ہیں۔

معروف آزاد


 

پاکستان چین بس سروس : چلتے ہو تو چین کو چلیے

$
0
0

چلتے ہو تو چین کو چلیے!
پاکستان سے اس سفر کے خواہاں افراد کے لیے کچھ عرصہ قبل تک ہوائی سفر ہی واحد ذریعہ تھا تاہم اب زمینی راستہ بھی ایک آپشن بن گیا ہے جب چین پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت پہلی مسافر بس کا آغاز کیا گیا ہے۔ نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ نیٹ ورک نامی کمپنی کے تحت چلنے والی بس پاکستان کے شہر لاہور کو چین کے تاریخی شہر کاشغر سے ملائے گی۔ اس سلسلے کی ابتدائی بسیں اپنے آزمائشی سفر مکمل کر چکی ہیں۔ لاہور، اسلام آباد اور گلگت بلتستان کے دلفریب علاقوں سے گزرتی یہ بس سوست کے مقام پر سرحد عبور کرتی چین میں داخل ہوتی ہے۔ ایک طرف کا یہ سفر لگ بھگ 36 گھنٹے جبکہ مجموعی طور پر دو طرفہ سفر تقریباٌ 72 گھنٹے پر محیط ہے۔ بس پر سوار ہونے سے قبل ضروری سفری دستاویزات یعنی ویزہ وغیرہ ہونا ضروری ہے۔

گو کہ سی پیک روٹ پر چلائے جانے والی یہ بس جدید طرز کی ہے، پھر بھی کیا بس کی سیٹ پر اس قدر طویل سفر کیا آسان ہو گا؟ جہاز پر لاہور سے چین کے دارالخلافہ بیجنگ کا سفر تقریباً آٹھ گھنٹے میں کیا جا سکتا ہے۔ سیاحت کی غرض سے جانے والوں کے لیے شاید یہ سفر طویل اور کٹھن نہ ہو، مگر بس کمپنی کے مطابق یہ سروس کاروباری افراد کو سامنے رکھ کر چلائی گئی ہے۔ ایک کاروباری شخص کے پاس اتنا وقت ہو گا ؟ وہ اس قدر طویل سفر کیوں اختیار کرے گا جبکہ وہ کچھ پیسے زیادہ خرچ کر کے ہوائی جہاز کی سہولت میسر ہے؟ اگر کاروباری افراد اس کا استعمال نہیں کرتے تو کیا یہ بس سروس کاروباری طور پر قابلِ عمل ہو گی؟ کیا ایک لمبے عرصے تک اس بس کو چلانا ممکن ہو گا ؟ ایسے تمام خدشات یا ان کی نفی چند بنیادی سوالوں کے جوابات اور ابتدائی مراحل کے نتائج کے گرد گھومتی ہے؟

بس پر کون سفر کر رہا ہے؟
این ایس ٹی این کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر محمد انور نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مسافر بس سروس کی پاکستان کی تاجر برادری میں کافی مانگ تھی۔‘ ان کا دعوٰی ہے کہ ’ابتدائی دو بسوں میں چین جانے والے زیادہ تر افراد کا تعلق تاجر طبقے سے تھا۔‘ محمد انور کا کہنا تھا کہ چین میں پاکستانی طلبا کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اس بس سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔ ’سیاح بھی ہمارے پاس کافی آ رہے ہیں تاہم سب سے پہلے نمبر پر کاروباری افراد ہیں جو پاکستان اور چین کے درمیان سفر کرنا چاہتے ہیں۔‘ لاہور سے حال ہی میں روانہ ہونے والی دوسری بس میں مقامی تاجر کاظم سوانی پہلا سفر کر رہے تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’بس انتہائی سستی پڑے گی۔‘

کیا بس ہوائی جہاز کو پیچھے چھوڑتی ہے؟
کاظم سوانی کپڑے کی صنعت میں استعمال ہونے والے رنگ اور کیمیائی اجزا وغیرہ کی درآمد کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا چین آنا جانا لگا رہتا ہے۔ بس کے ذریعے وہ اپنا سفری خرچ کم کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ وہ آزمائشی طور پر پہلا سفر کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر بس معیاری ہو اور یہ سفر آرام دہ ہو تو میں کافی پیسے بچا سکتا ہوں۔‘ این ایس ٹی این کے چیف ایگزیکیوٹو آفیسر محمد انور نے بی بی سی کو بتایا کہ سی پیک بس کا یکطرفہ کرایہ 13 ہزار جبکہ ریٹرن ٹکٹ 23 ہزار رکھا گیا ہے۔ کاظم سوانی کا کہنا تھا کہ اس طرح وہ ہر دورے پر 50 سے 60 ہزار روپے بچا سکتے ہیں۔ ’ویسے چین تک ہوائی جہاز کا ٹکٹ آپ کو 80 ہزار سے ایک لاکھ روپے میں پڑتا ہے۔‘ مگر اس کے لیے انھیں 72 گھنٹے بھی تو بس میں گزارنا ہوں گے؟

یہ بس کتنی آرام دہ ہے؟
سی پیک کے اس روٹ پر چلائے جانے والی یہ بس چین کی ہی ایک کمپنی کی تیار کردہ ہے۔ ایک وقت میں اس میں 36 مسافر سوار ہو سکتے ہیں۔ بس میں دونوں جانب دو، دو نشستیں لگائی گئی ہیں جو زیادہ کشادہ نہیں ہیں۔ تاہم سیٹ کو چند سینٹی میٹر باہر کی طرف کھولا اور اسے پیچھے جھکا کر لمبا بھی کیا جا سکتا ہے۔ بس کے عقبی حصے میں دو بیڈ بھی نصب کیے گئے ہیں جن پر بیک وقت دو افراد کے لیٹنے کی گنجائش ہے مگر سوال یہ ہے کہ 36 گھنٹے کے سفر میں 36 مسافروں میں سے کتنوں کو کمر سیدھی کرنے کا کتنا موقع مل پائے گا؟

بس میں کیا نہیں ہے؟
ایک لمبے زمینی سفر کے لیے درکار ضروریات میں سب سے بنیادی سہولت جو بس پر میسر نہیں وہ بیت الخلا یا غسل خانے کی ہے تاہم محمد انور کے مطابق ’سفر کے دوران بس مقررہ مقامات پر رکے کرے گی جس دوران مسافروں کو کھانے پینے، نماز اور رفع حاجت وغیرہ کا موقع ملے گا۔‘ بس کے اندر مسافروں کی تفریح کا بھی کوئی خاطر خواہ بندوبست نظر نہیں آیا۔ جدید طرز کی بسوں میں سیٹوں کے عقب میں سکرینین نصب ہوتی ہیں جن پر مسافر تفریح کا سامان کر سکتے ہیں۔ تاہم کمپنی کے آپریشنز مینیجر قمر اعجاز کے مطابق ہر بس پر وائی فائی کے علاوہ موبائل فون کو چارج کرنے کی سہولت موجود ہے۔

کیا بس محفوظ ہے؟
ہر بس کے اندر چار سیکیورٹی کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ قمر اعجاز نے بی بی سی کو بتایا کے ان کیمروں کی مدد سے ہمہ وقت کمپنی کے کنٹرول روم سے بس کے اندر اور باہر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ ’سیٹلائٹ کی مدد سے بس کی تقل و حرکت کو بھی سفر کے آغاز سے اختتام تک دیکھا جاتا ہے۔‘ ان سہولیات کے علاوہ بس پر ایک مسلح سیکیورٹی گارڈ بھی تعینات کیا گیا ہے۔ بی بی سی کو ملنے والی معلومات کے مطابق سی پیک کی وجہ سے بس کو مختلف علاقوں میں پولیس کی جانب سے خصوصی سیکیورٹی بھی فراہم کی جائے گی۔ بس میں ایک اضافی ڈرائیور بھی موجود ہو گا۔ این ایس ٹی این کے چیف ایگزیکیوٹو آفیسر محمد انور کے مطابق بس پر دوران سفر کسی شخص کو بس میں سوار ہونے یا اسے چھوڑنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ’صرف وہی شخص اس پر سفر کر پائے گا جس کے پاس چائنہ کا ویزہ اور دیگر ضروری سفری دستاویزات مکمل ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا پاکستان اور چین دونوں حکومتوں نے انہیں مکمل سیکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

کاشغر ہی کیوں؟
لاہور سے چلنے والی بس پر راولپنڈی سے بھی مسافر سوار ہو سکیں گے۔ اس کے بعد وہ کاشغر پر ہی رکتی ہے۔ راستے میں آنے والے دلکش مناظر سے بس کے اندر سے یا پھر مختصر وقفے کے مقامات ہی سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ محمد انور کا کہنا تھا کہ چین میں کاشغر کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ وہ ایک کاروباری مرکز ہے۔ ’کاشغر میں ریل اور ہوائی سفر سمیت مواصلاتی نظام موجود ہے۔ تجارتی اعتبار سے وہ اہمیت کا حامل ہے جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی تاجر جاتے ہیں۔‘ ان کے مطابق پاکستان سے کاشغر کوئی جہاز نہیں جاتا۔ تاہم وہاں سے چین کے دیگر شہروں تک رسائی انتہائی آسان بھی ہے اور سستی بھی۔ ’ہم نے اس کے تجارتی طور پر قابلِ عمل ہونے کا مکمل حساب کر رکھا ہے جو منافع بخش ہے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگوں کی طرف سے ملنے والا ابتدائی ردِ عمل ’مثبت اور تسلی بخش ہے۔‘

عمردراز ننگیانہ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
 

پاکستان میں گھوسٹ اسکول ہزاروں میں ہیں

$
0
0

پاکستان میں جہاں ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں میں نہیں جاتے، وہاں ہزاروں گھوسٹ اسکول معاملات کو مزید بدتر بنا رہے ہیں۔ یہ وہ اسکول ہیں جو صرف کاغذات پر اپنا وجود رکھتے ہیں۔ جن کی ایک عمارت ہوتی ہے جسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے یا جسے خستہ حالی کے لیے چھوڑا گیا ہوتا ہے۔ ایک ایسے ہی سکول میں بلیک بورڈ پر ابھی تک کئی سال پرانی لکھی گئی کچھ تحریروں کے نشانات موجود ہیں، لیکن کمرہ اب کلاس روم کی طرح دکھائی نہیں دیتا۔ بچے اور ان کے والدین پریشان ہیں کہ آیا اس عمارت کو کبھی بھی اس کے بنیادی مقصد، یعنی اسکول کے طور پر استعمال کیا جائے گا یا نہیں۔

ایک دیہاتی کا، جس کا نام عظیم ہے، کہنا ہے کہ ہم مقامی عہدے داروں کے پاس چکر لگانے پر پیسہ خرچ کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ یہ اسکول 2016 میں صرف دو روز کے لیے کھلا تھا اور اس کے بعد سے یہ مسلسل بند پڑا ہے۔ ہم 2006 سے اسکول کھلوانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہماری کوئی نہیں سنتا۔ یہ اس چیز کی ایک نمایاں مثال ہے جو اس پورے علاقے میں گھوسٹ اسکول کے طور پر معروف ہے۔ کسی عمارت کو ایک اسکول کے لیے وقف کیا جاتا ہے۔ ہر ماہ اس کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں۔ اساتذہ کو اسکول آنے اور تمام قریبی دیہاتوں سے آنے والے بچوں کو پڑھانےکے لیے تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ کاغذوں میں ایسے اسکول بڑی کامیابی سے چل رہے ہوتے ہیں لیکن عملی طور پر وہاں نہ تو کوئی پڑھانے کے لیے جاتا ہے، نہ ہی وہاں طالب علم آتے ہیں اور نہ ہی عمارت کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔

ان اسکولوں کو سرکاری طور پر غیر فعال اسکول کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر یا تو بے توجہی یا بد عنوانی کے نتیجے میں اس حالت تک پہنچتے ہیں۔ سرگرم کارکنوں اور این جی اوز کا کہنا ہے کہ ایسے اسکولوں کے لیے مختص کیے گئے فنڈز اکثر اوقات بیوروکریٹس، سیاستدانوں یا مقامی اسکول کے عملے کی جیبوں میں جاتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ سال کے تعلیمی اعداد و شمار سے ظاہر ہوا کہ مختلف صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس مسئلے کی درستگی کی کوشش کے بعد بھی ابھی تک کئی ہزار گھوسٹ اسکول اپنا وجود رکھتے ہیں۔ ان غیر فعال اسکولوں میں سے اکثریت سندھ اور بلوچستان میں ہے جہاں لوگ شديد غربت کی حالت میں رہ رہے ہیں اور والدین اپنے بچوں کو ایک بہتر زندگی دینے کے لیے بے تاب ہیں۔

ایک دیہاتی پتنگ خان کا کہنا ہے کہ میں اس گاؤں میں اپنی زمین اور جانوروں کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔ ہم اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا چاہتے ہیں۔ ہم بے روزگار ہیں۔ اگر بچے تعلیم حاصل کر لیں تو وہ شہر میں جا سکتے ہیں اور ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں بچے اسکول نہیں جاتے۔ سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ جو بچے اسکول جاتے ہیں انہیں اکثر وہاں بہت ہی کم تر معیار کی تعلیم ملتی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں اس مسئلے کو حل کیے جانے پر بڑے پیمانے پر اتفاق رائے موجود ہے، لیکن اس کے حل کے لیے درکار اقدامات کی رفتار سست دکھائی دیتی ہے۔

عائشہ تنظیم

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

سندھ کا ایک معروف ادیب، غربت کے ہاتھوں بھیک مانگنے پر مجبور

$
0
0

سر چھپانے کے لئے چھپر نہیں، بھوک مٹانے کا آسرا نہیں، تنگدستی، غربت، کسمپرسی کے شب و روز اور بے خودی کا عالم، یہ آج کے دور کے انگریزی زبان کے ایک ماہر لسانیات اور ڈرامہ نگار مشتاق کاملانی کا دردناک احوال ہے۔
مشتاق کاملانی سندھ کے شہر سجاول میں ایسی ستم ظریفی کا شکار رہے کہ یقین بھی نہ آئے مگر تلخ حقیقت یہی ہے کہ وہ دو وقت کی روزی روٹی کے لئے بھیک مانگ کر گزارا کرتے ہیں۔ ان کے مکان ،پلاٹ، سب کچھ چھین لئے گئے۔ کبھی ان کا شمار ضلع سجاول سے تعلق رکھنے والے نامور ادیب، دانشور اور کہانی نویس کی حیثیت سے ہوتا تھا۔ لیکن وقت اور حالات کے تھپیڑوں نے انہیں دماغی طور پر مفلوج کر دیا جس کے سبب وہ اس حالت کو پہنچے۔

وہ جس حالت میں لوگوں کو نظر آئے، اس کی ایک جھلک سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی ایک رپورٹ سے ظاہر ہوتی ہے۔ ان کی تصویر کو دیکھ کر جہاں عام انسان پریشانی اور سوچ میں مبتلا ہوا وہیں سندھ کی صوبائی حکومت بھی حرکت میں آئے بغیر نہ رہ سکی۔ میڈیا نمائندے بھی بالآخر مشتاق کاملانی تک پہنچے تو ان کے بھائی احمد کاملانی اور ایک قریبی رشتے دار کے توسط سے مشتاق کاملانی کے متعلق معلومات حاصل ہوئیں، جن کے مطابق مشتاق کاملانی نے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے 1979ء میں گریجویٹ کیا اور اس کے بعد سندھی زبان کے مشہور ادیب اور کہانی نویس علی بابا کے ساتھ سندھ یونیورسٹی میں پڑھانے لگے۔

مشتاق کاملانی کو زبانیں سیکھنے اور لسانیات کا اس قدر شوق تھا کہ نہ صرف سندھی بلکہ پنجابی اور انگریزی پر بھی عبور حاصل کر لیا۔ اس دوران انہوں نے بہت سی کہانیاں بھی لکھیں جو حیدرآباد ریڈیو کے ساتھ ساتھ بھارت کی ریڈیو سروس ’آکاش وانی‘ سے بھی پیش کی جانے لگیں لیکن پھر اچانک انہیں ذہنی بیماری لاحق ہو گئی اور اس کے بعد مفلسی اور بے حالی نے آن گھیرا۔ مشتاق کاملانی ایک عرصے سےگمنامی میں تھے اور اب کہیں جا کر سوشل میڈیا کے توسط سے لوگوں اور ارباب اختیار کو پتا لگا ہے کہ وہ کس حال میں جی رہے ہیں۔ 

وسیم صدیقی

بشکریہ وائس آف امریکہ
 


شہید اہلکاروں کے اہلِ خانہ کے لیے چینیوں نے چندہ جمع کرنا شروع کر دیا

$
0
0

کراچی میں قائم چینی قونصل خانے میں اپنی جان کا نذرانہ دینے والے پولیس اہلکاروں کے اہلِ خانہ کے لیے چینی عوام نے فنڈز جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔
پاکستان میں چین کے ڈپٹی چیف آف مشن لی جین ژؤ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کیا اور چین میں پاکستان کے شہید اہلکاروں کے لیے فنڈنگ سے متعلق آگاہ کیا۔ اپنے ٹوئٹ میں چینی سفارتکار کا کہنا تھا کہ پاکستان کی چینیوں کے ساتھ دوستی بہت گہری ہے، اور انہوں نے ہماری حفاظت کے لیے اپنی جان بھی گنوا دی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ چین میں بڑی جوش و خروش کے ساتھ شہید پاکستانی اہلکاروں کے لیے فنڈز جمع کیے جارہے ہیں جو دل کو چھونے والا عمل ہے۔

اپنے ایک پیغام میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چینیوں کی پاکستانی اہلکاروں کے لیے فنڈنگ یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاک چین دوستی پربت سے اونچی اور ساغر سے گہری ہے۔ لی جین ژؤ نے اپنے ایک اور ٹوئٹ میں سیکیورٹی گارڈ کی جان بچ جانے پر خوش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قونصل خانے میں دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کے دوران سیکیورٹی گارڈ شدید زخمی ہو گیا تھا، دعا ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہو جائیں۔ کراچی کے علاقے کلفٹن میں دہشت گردوں نے چینی قونصل خانے پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی، جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔ اس حملے میں 2 پولیس اہلکار شہید، جبکہ چینی قونصل خانے میں ویزا کی غرض سے آنے والے باپ اور بیٹے نے بھی جان گنوا دی تھی۔ سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے بروقت کارروائی کی گئی اور حملہ کرنے والے تینوں دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
 

سہیل وڑائچ کچھ لکھنے ہی نہیں دیتے

$
0
0

تحریکِ لبیک کے ساتھ ریاست کے کچھ اہم اداروں نے 2017ء میں کیسا معاملہ کیا تھا اور وہی ادارے 2018ء میں تحریکِ لبیک کے ساتھ کیسے نمٹ رہے ہیں، کل کے Tweets کیسے تھے اور آج کے ٹویٹس کیا کہہ رہے ہیں، گزشتہ سال عمران خان کے تحریک لبیک کے دھرنوں پر کیا خیالات تھے اور آج اُن کی اپنی حکومت میں‘ جب ماضی اپنے آپ کو دہرا رہا ہے تو خان صاحب کیا کہتے ہیں؟؟ دل چاہ رہا تھا کہ ان معاملات پر لکھوں لیکن ڈر تھا کہ لکھا تو شائع ہی نہیں ہو گا۔ وزیراعظم کے متعلق لکھنا تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن اداروں کے معاملہ میں نجانے کیوں ہمارے دوست سہیل وڑائچ صاحب کچھ زیادہ ہی حساس ہو گئے ہیں۔ 

وڑائچ صاحب جنگ اخبار کے ادارتی صفحہ اور اخبار میں شائع ہونے والے کالمز کے ذمہ دار ہیں لیکن نجانے اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ اب کچھ لکھنے ہی نہیں دیتے۔ حکومت سے پوچھیں یا اداروں کے نمائندوں کی بات سنیں تو وہ کہتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں، میڈیا آزاد ہے، کوئی بندش نہیں لیکن سہیل وڑائچ کو نجانے کیا مسئلہ ہے کہ کالم روکتے ہیں، بلاوجہ کی کانٹ چھانٹ کرتے ہیں۔ بات کریں تو ڈرے ڈرے، سہمے سہمے ہوں ہاں کرتے رہتے ہیں۔ زیادہ کریدیں تو کہتے ہیں بس سمجھیں نا۔ بھئی کیا سمجھیں، اب تو کالم لکھنے کا دل ہی نہیں چاہتا!!! 

میرا سہیل وڑائچ سے اچھا تعلق ہے جس کی ابتدا 2003ء میں ہوئی۔ ہم ایک ساتھ ایک ماہ کے لیے امریکا میں بھی رہے جس کی وجہ سے ہمارے درمیان ایک بے تکلفی بھی پائی جاتی ہے لیکن اب سہیل وڑائچ بدلے بدلے لگ رہے ہیں، اب نہ وہ کسی تعلق کا خیال رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی دلیل مانتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ سہیل وڑائچ کا یہ سلوک میرے ساتھ ہی ہے، کئی دوسرے بھی وڑائچ صاحب کے بارے کچھ ایسی ہی شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔ جنگ اخبار سے منسلک کچھ کالم نگار تو اکثر اپنے وہ کالم‘ جو وڑائچ صاحب سنسر کر دیتے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچا دیتے ہیں۔ اپنے تعلق کے لحاظ کی وجہ سے میں تو ایسا بھی نہیں کرتا لیکن برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!!! آخر اصول بھی تو کوئی چیز ہوتے ہیں!!! 

اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ سہیل وڑائچ تو آزاد صحافت کے دشمن بن چکے ہیں۔ اداروں پر تو بلاوجہ الزام لگایا جاتا ہے، حکومت تو ہے ہی معصوم۔ سارا قصور سہیل وڑائچ کا ہے۔ اس لیے اب میں نے سوچا کیوں نہ اصل مرض کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ یقیناً تمام میڈیا کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، صحافیوں کو جو نکالا جا رہا ہے، میڈیا انڈسٹری کوجو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ کمزور کیا جا رہا ہے، اُس کے پیچھے بھی میرے دوست سہیل وڑائچ ہی ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کالم کو پڑھنے والے اس سب کو ایک مذاق قرار دیں گے یا پھر سمجھیں گے کہ میں بلاوجہ اپنا غصہ ایک ایسے صحافی پر نکال رہا ہوں جو خود مجبور ہے، جو بیچارا اپنی مرضی سے اپنا کالم بھی نہیں لکھ سکتا.

لیکن مجھے بتائیں جب صحافت اتنی کنٹرولڈ ہو گی کہ یہ نہ لکھو، وہ نہ لکھو، یہ نہ بولو، وہ نہ بولو تو پھر غصہ کسی نہ کسی پر تو نکلے گا۔ جو سچ ہے‘ وہ چاہے میں ہوں یا سہیل وڑائچ، بول نہیں سکتے۔ جہاں تک سچ کی بات اور آزادیٔ صحافت کا تعلق ہے تو میں ذاتی طور پر ذمہ دارانہ صحافت اور مثبت تنقید کا قائل ہوں لیکن اب تو اس کی بھی اجازت نہیں۔ کون کیا کر رہا ہے، کس نے ہماری سیاست اور صحافت کو ایسے قابو کر لیا کہ جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ،اس بارے میں سب جانتے ہیں لیکن کیا کریں! سہیل وڑائچ بات ہی نہیں کرنے دیتے اس لیے میں نے تو غصہ سہیل وڑائچ پر ہی نکالنا ہے۔

انصار عباسی
 

شوگراں : قدرتی نظاروں سے بھر پور تفریحی مقام

$
0
0

خیبر پختونخوا میں واقع شوگراں قدرتی نظاروں سے بھر پور تفریحی مقام ہے۔ یہ سطح سمندر سے تقریباً 7749 فٹ بلند ہے۔ یہاں کے جادوئی مناظر قدرت کی فیاضیوں اور اس کے اصل روپ کی نمائش کرتے ہوئے ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ وادی شوگراں میں بلندو بالا چیڑ اور دیودار کے درخت، ٹوبوں کا پانی، نیلگوں برساتی جھیلیں، گھنے جنگلات میں پھولوں سے بھرے میدان شاندار نظارہ پیش کرتے ہیں۔ یہاں جانے والے سیاح راستے میں قدرت کے حسین مناظر سے محظوظ ہوتے جاتے ہیں۔ عام طور پر سیاح اس صحت افزا مقام پر موسم گرما میں جانا پسند کرتے ہیں تاہم کچھ مہم جُو سرما میں بھی وہاں جانے کے خواب دیکھتے ہیں ۔ کم درجہ حرارت کی وجہ سے یہاں جانے والوں کو گرم کپڑوں کو ساتھ لینا نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ یہاں گرمیوں میں بھی رات خاصی سرد ہوتی ہے۔  

محمد اقبال


 

ایسٹ انڈیا کمپنی کی حقیقت

$
0
0

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی ایک نجی کارپوریشن تھی جسے دسمبر 1600ء میں تشکیل دیا گیا تاکہ مصالحہ جات کی منافع بخش تجارت میں برطانوی موجودگی یقینی بنائی جا سکے۔ اس وقت تک اس تجارت پر ہسپانویوں اور پرتگالیوں کی اجارہ داری تھی۔ وقت کے ساتھ یہ کمپنی جنوبی ایشیا میں برطانوی سامراج کے انتہائی طاقت ور کارندے کی حیثیت اختیار کر گئی اور ہندوستان کے بڑے علاقے کی حقیقی حکمران بن گئی تھی۔ وسیع بدعنوانی اور دیگر وجوہ کی بنا پر تجارت پر کمپنی کی اجارہ داری اور سیاسی کنٹرول کو ختم کر دیا گیا، اور 1858ء میں ہندوستان میں اس کی جائیدادوں کو تاج برطانیہ نے قومیا لیا۔ 1874ء میں ایک ایکٹ کے تحت رسمی طور پر اسے تحلیل کر دیا گیا۔ 

۱۔ غلاموں کی تجارت 

سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے غلاموں کی تجارت پر انحصار کیا۔ حجم میں یہ بحر اوقیانوس کے آر پار غلاموں کی تجارت کرنے والی رائل افریقن کمپنی جیسی انٹرپرائزز کی نسبت چھوٹی تھی، تاہم ایسٹ انڈیا کمپنی کو غلاموں کو دور دراز علاقوں تک پہنچانے میں مہارت حاصل تھی۔ 

۲۔ اپنی فوج 

کمپنی کی اپنی فوج تھی۔ 1800ء میں اس کے پاس دو لاکھ سپاہ تھی۔ اس وقت کی برطانوی فوج کے مقابلے میں یہ تعداد دگنی تھی۔ ان ہندوستانی ریاستوں کو زیرنگیں کرنے کے لیے کمپنی نے اپنی فوج استعمال کی جن کے ساتھ پہلے اس نے تجارتی معاہدے کر رکھے تھے۔ اس کا مقصد من مرضی کے ظالمانہ ٹیکس اور پابندیاں لاگو کرنا اور معاشی فائدے کے لیے مقامی ہنر مند اور غیر ہنرمند محنت کشوں کا استحصال کرنا تھا۔ 1857-58ء کی ناکام جنگ آزادی میں کمپنی کی فوج نے گھناؤنا کردار ادا کیا۔ اس جنگ کے خاتمے پر کمپنی کا بھی خاتمہ کر دیا گیا۔ 

۳۔ افیون کی فروخت

انیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان سے چائے اور دیگر سامان خریدنے کے لیے مالی وسائل پیدا کرنے کی خاطر کمپنی نے چین میں غیرقانونی طور پر افیون فروخت کرنا شروع کی۔ چین میں اس تجارت کی مزاحمت نے پہلی اور دوسری جنگِ افیون (1839-42; 1856-60ئ) کو جنم دیا۔ دونوں جنگوں میں برطانویوں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ 

۴۔ کم خرچ 

کمپنی کا انتظام و انصرام انتہائی مؤثر اور کم خرچ تھا۔ شروعاتی 20 برسوں میں یہ اپنے گورنر سر تھامس سمیتھ کے گھر سے چلائی جاتی رہی جس میں کام کرنے والا عملہ صرف چھ افراد پر مشتمل تھا۔ 1700ء میں اسے لندن کے ایک چھوٹے سے دفتر سے چلایا جاتا تھا جس میں 35 مستقل ملازمین کام کرتے تھے۔ 1785ء میں، جب یہ لاکھوں کی آبادی کے علاقوں کو کنٹرول کرتی تھی، لندن میں اس کا مستقل عملہ 159 افراد پر مشتمل تھا۔ 

۵۔ اختیارات کا غلط استعمال

اختیارات کے غلط استعمال اور 1770ء میں بنگال میں آنے والے بڑے قحط کے بعد کمپنی کے مالیہ اراضی میں بہت کمی آئی۔ اس کمی کے بعد اس نے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے 1772ء میں 10 لاکھ پاؤنڈ کے فوری قرضے کی درخواست دی۔ اگرچہ برطانوی حکومت نے کمپنی کی مدد کی لیکن اس پر سخت تنقید ہوئی اور پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے بعد حکومت نے اس کے انتظام و انصرام کی نگرانی شروع کر دی۔ بعد ازاں انڈین ایکٹ 1784ء کے ذریعے ہندوستان میں اس کی سیاسی پالیسی کو بھی حکومتی کنٹرول میں لایا گیا۔  

 یسرا خان


 

متحدہ عرب امارت کے سخت قوانین جن کا احترام ضروری ہے

$
0
0

متحدہ عرب امارت میں نو ایسے قوانین ہیں جن کی حادثاتی خلاف ورزی مشکلات میں ڈال دیتی ہے، بے خبری قانون کی خلاف ورزی کی معذرت کا نعم البدل نہیں لہٰذا بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ 

بغیر زیبرا کراسنگ، میٹرو پل اور اسٹیشن کے گلی پار کرنے پر چار سو درہم جرمانہ ہے.

بغیر کسی کی اجازت تصاویر لینے پر ڈیڑھ سے دو لاکھ درہم جرمانہ اور جیل کی سزا ہے۔

اسی طرح کسی کو گالی یا بے ہودہ ایس ایم ایس بھیجنا جیل اور ملک بدری کی سزا ہے.

کسی کومعنی خیز ہاتھ کا اشارہ قانونی مشکلات پیدا کر سکتا ہے.

عوامی مقام یا کسی کی عمارت کے سامنے کار دھونا جرم ہے.

نیز گندگی پھیلانا یا سگریٹ کے ٹوٹے پھینکنا بھی جرم ہے.

چیک کا باؤنس ہو جانا، آن لائن خیراتی فنڈز اکٹھا کرنا اورکسی کے رازوں کا اشتراک کرنا بھی جرم ہے۔

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live