Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

اسکینڈلز بھی 'فیس بک'کو آگے بڑھنے سے روکنے میں ناکام

$
0
0

فیس بک کو گزشتہ 2 برسوں میں کافی مشکلات کا سامنا رہا ہے اور 2018 کے دوران تو کیمبرج اینالیٹیکا ڈیٹا اسکینڈ اور ہیکنگ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ فیس بک اب زوال کی جانب گامزن ہے مگر ایسا تاثر درست نہیں، درحقیقت یہ کمپنی اب بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ آمدنی اور صارفین کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے۔ فیس بک کی جانب سے جاری تیسری سہ ماہی مالیاتی رپورٹ میں مارک زکربرگ نے انکشاف کیا کہ اس وقت فیس بک کی ایپس (فیس بک، مینسجر، واٹس ایپ اور انسٹاگرام) کو روزانہ 2 ارب سے زائد افراد استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح فیس بک کی ایپس کے ذریعے لوگ روزانہ 100 ارب میسجز ارسال کرتے ہیں جبکہ ایک ارب سے زائد اسٹوریز اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔

فیس بک کے اپنے ماہانہ صارفین کی تعداد 2 ارب 27 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ روزانہ ڈیڑھ ارب کے قریب افراد اس سماجی رابطے کی ویب سائٹ کو استعمال کرتے ہیں جوکہ گزشتہ سال کی اسی سہ ماہی کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے جبکہ کمپنی نے اس سہ ماہی کے دوران 13 ارب ڈالرز سے زائد کمائے۔
مارک زکربرگ کا کہنا تھا کہ کسی بھی سوشل نیٹ ورک کے مقابلے میں لوگ میسنجر اور واٹس ایپ پر تصاویر، ویڈیوز اور لنکس شیئر کرتے ہیں اور ہمیں بیشتر ممالک میں سبقت حاصل ہے۔ مارک زکربرگ کا کہنا تھا کہ ہمارا سب سے بڑی مخالف میسجنگ ایپ (جو اتنی قریب بھی نہیں)، آئی فون کی ڈیفالٹ ٹیکسٹ ایپ آئی میسج ہے۔ 

فیس بک نے اسنیپ چیٹ کو لگ بھگ کچل کر رکھ دیا ہے۔ فیس بک نے اسنیپ چیٹ کے فیچر اسٹوریز کو اپنی تمام ایپس کا حصہ بنایا اور اب ایک ارب سے زائد افراد اسے استعمال کر رہے ہیں جبکہ اسنیپ چیٹ کے روزانہ صارفین کی کل تعداد ہی 18 کروڑ ہے۔ مارک زکربرگ نے ویڈیو کے ذریعے یوٹیوب کو بھی پیچھے چھوڑنے کا عزم ظاہر کیا اور ان کا کہنا تھا کہ ہم نے وہ راز ڈھونڈ نکالا ہے جو کہ ویڈیو دیکھنے کے عمل کو مثبت تجربہ بنانے میں مدد دے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ فیس بک کے مارکیٹ پلیس فیچر کو اب 80 کروڑ افراد استعمال کر رہے ہیں جبکہ ملازمت تلاش میں مدد دینے والے فیچر کی بدولت 10 لاکھ افراد ملازمتیں تلاش کرنے میں کامیاب رہے۔ فیس بک کے بانی کے مطابق ترقی یافتہ ممالک (امریکا اور یورپ) میں ہو سکتا ہے کہ فیس بک اب مزید آگے نہ بڑھ سکے مگر ترقی پذیر ممالک میں اب بھی آگے بڑھنے کی گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے پرائیویٹ میسجنگ اور اسٹوریز کو کمپنی کا مستقبل قرار دیا۔
 


آئی ایم ایف کے بجائے چین پاکستان کی مدد کرنے جا رہا ہے؟

$
0
0

وزیرِاعظم عمران خان چین کا دورہ کر رہے ہیں، جو ہمارا نہایت اہم اسٹریٹجک ساتھی ہے۔ یہ دورہ ایک بہت ہی نازک دور میں ہونے جا رہا ہے کہ جب امریکا کی جانب سے چین اور روس کے خلاف ایک نئی سرد جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد وجود میں آنے والے عالمی نظام کو ٹرمپ انتظامیہ نے تار تار کر دیا ہے۔ اب امریکا اور دیگر بڑے ممالک عالمی قانون کو بالائے طاق رکھ کر چھوٹے ملکوں کے خلاف یک طرفہ طاقت کا استعمال، زور زبردستی اور مداخلت کرتے ہیں۔ عالمی تجارتی حکومت کو ریزہ ریزہ کیا جا رہا ہے اور یوں مالیاتی نظام دباؤ کا شکار ہے۔

ان مشکل حالات میں، پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات اسے اپنی سیکورٹی اور خارجہ پالیسی اور اپنی سماجی و معاشی ترقی کو ضروری سہارا فراہم کرتے ہیں۔ چین پاکستان کی دفاعی ضروریات کو پورا کرتا ہے، پاکستان کا انفرا اسٹریکچر تعمیر کر رہا ہے، اس کے علاوہ ہندوستانی جارحانہ رویے اور امریکی دھمکیوں کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ اگرچہ پاک چین تعلقات چٹانوں کی طرح مضبوط ہیں، لیکن چونکہ موجودہ زمینی و سیاسی حالات میں پاکستان اور چین اپنے دشموں کے ہاتھوں جن خدشات اور دباؤ کا مقابلہ کر رہے ہیں اس کے پیش نظر دونوں کو اپنے اسٹریٹجک شراکت داری کو بہت ہی مضبوط سطح پر لے جانے کی انتہائی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

وزیرِاعظم کے دورہ چین کی راہ چند ہفتے قبل پاکستان کے آرمی چیف نے ہموار کی تھی جنہوں نے اطلاعات کے مطابق بیجنگ میں دونوں ملکوں کے مابین دفائی اور سیکورٹی تعاون کو مزید بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ بلاشبہ اہم ترین سیکورٹی تعاون کے حوالے سے حتمی فیصلوں کا اعلان وزیرِاعظم اور چینی رہنماؤں کو ہی کرنا ہے۔ دونوں ملکوں کو اس وقت جن سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے اس کے لیے دونوں کو ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے۔ چین، بحیرہ جنوبی چین میں میری ٹائم تنازعات، ون چائنہ پالیسی اور تائیوان، اور ژن جیانگ میں اوئی غر (Uighur) انتہاپسندوں کی جانب سے علیحدگی کے اٹھتے خدشے پر پاکستان کی حمایت چاہے گا۔

پاکستان کے خلاف امریکی اور ہندوستانی دباؤ اور دھمکیوں کے خلاف پاکستان کو اپنے اہم سیکورٹی چیلنجز پر چین کی طرف سے مزید بڑھ کر زبانی حمایت درکار ہے۔ چین کو پاکستان پر طاقت اور اقتصادی دباؤ کی دھمکیوں پر مذمت کا اظہار کرنا چاہیے، بین الاقوامی قانون کے مطابق جموں کشمیر مسئلے پر ایک پُرامن حل کا مطالبہ کرنا چاہیے اور سی پیک منصوبے کو ختم کرنے کی دھمکیوں کی مخالفت کرنی چاہیے۔ افغانستان میں سیاسی حل کو فروغ دینے کے لیے چین کا کردار نہایت اہم ہے، جس کے لیے چین افغانستان کی ترقی میں مدد فراہم کرے اور سی پیک اور بیلٹ روڈ جال میں شامل کرے۔

عمران خان کے دورہ چین کے ایجنڈے کا محور ممکنہ طور پر اقتصادی مسائل ہوں گے۔ گزشتہ ہفتے وزیرِاعظم کی جانب سے حکمتِ عملی اور ہوشیاری کے ساتھ سعودی سرمایہ داری کانفرنس میں شرکت کے دوران بڑی ہی خوش آئند سعودی مالیاتی مدد حاصل ہونے کے باوجود بھی پاکستان کو چین سے ایک بڑی رقم درکار ہے۔ یہ چند صورتوں میں ممکن ہو سکتا ہے: ڈالر ڈیپازٹ، نرم قرضے، تجارتی (کمرشل) کریڈٹ اور سی پیک منصوبے پر پہلے سے سے زیادہ بڑے وعدوں کی صورت میں۔ پاکستان جن شرائط پر آئی ایم ایف پیکج کو حاصل کرنا اور منظور کروانا چاہتا ہے، چین اس معاملے پر کافی مثبت انداز میں اثرانداز بھی ہو سکتا ہے۔

وزیرِاعظم عمران خان کو شنگھائی میں ہونے والے چائنا ٹریڈ ایکسپو میں بطور ‘مہمانِ خصوصی‘ مدعو کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کی درآمداتی اور پیداواری صلاحیتوں کو پیش کرنے کے لیے جو کوششیں کی جائیں گی اس کی وزیراعظم سربراہی کریں گے۔ بدقسمتی سے یہ صلاحیتیں اس وقت محدود ہیں اور انہیں مناسب تجارتی اور صنعتی پالیسیوں کے ذریعے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ چین اس مرحلے میں کافی اہم کردار ادا کر سکتا ہے، مثلاً، اپنے چند غیر مسابقتی مینوفریکچرنگ صلاحیتوں اور وہ جو نئی مغربی تجارتی رکاوٹوں کا سامنا کر رہی ہیں انہیں ایک شعوری جدوجہد کے ذریعے پاکستان منتقل کر دیا جائے۔ پاکستان کے زرعی شعبے کی مشترکہ ترقی اور زرعی اجناس اور پراسس شدہ اشیا کی چین برآمدات سے بھی باہمی تجارت، تیزی کے ساتھ پیداوار اور پاکستان میں روزگار بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔

عمران خان کے لیے اب یہ ضروری ہے کہ وہ پاکستان کی سی پیک پر لگن اور خلوص کے حوالے سے کسی بھی قسم کے شکوک شبہات کو ختم کر دے۔ یہ منصوبہ صدر ژی جن پنگ کے بیلٹ روڈ منصوبے (بی آر آئی) کا ‘فلیگ شپ’ ہے۔ اگر امریکا اور اس کے دوست، بشمول بھارت، سی پیک کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ نقصان چین، اس کے رہنماؤں اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے ایک بڑی ناکام خارجہ پالیسی کے برابر ہو گا۔ بی آر آئی منصوبہ جس قدر چین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اتنا ہی ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی اہم ہے۔ ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو انفرا اسٹریکچر پر سالانہ 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت پڑتی ہے۔

 امریکا اور مغرب یا تو مالی ضرورت کو پورا کرنے کی حالت میں نہیں یا پھر کرنا نہیں چاہتے لیکن دوسری طرف چین یہ کام کر رہا ہے۔ مغرب کی جانب سے بی آر آئی کی مخالفت دراصل ’ڈاگ ان دی مینیجر‘ (dog-in-the-manger) کے مترادف ہے یعنی ایک ایسے شخص کی طرح جو بُخل سے کسی ایسی چیز پر اپنا قبضہ جمائے رکھتا ہے جو اس کے کسی فائدے کی نہ ہو۔ بی آر آئی کی ’قرضہ ڈپلومیسی‘ کے طور پر تنقید دراصل مغرب کی صد سالہ پرانی غریب تر ملکوں کے رہنماؤں کے ساتھ سمجھوتے اور وسائل پر ’قبضے‘ کی حکمت عملی دکھا کر ہوائی اندازوں کے سوائے کچھ نہیں۔ سرکاری منصوبوں کے لیے چین کی جانب سے قرضہ انتہائی نرم شرائط پر فراہم کیا جاتا ہے۔

سی پیک میں شامل تمام منصوبے پاکستان میں آنے والے مسلسل آنے والی حکومتوں کے منتخب کردہ ہیں۔ گوادر پورٹ، روڈ اور ریل کے لنکس، تیل اور گیس پائپ لائنز، ان سب کا تعین مشرف حکومت کے دوران ہوا جبکہ اس میں توانائی کے منصوبے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شامل کروائے۔ ان میں سے زیادہ تر منصوبے پاکستان میں صنعت کاری اور اقتصادی پھیلاؤ میں پاکستان کو آگے لے جانے میں مدد کریں گے۔ جیسا کہ پہلے سے یہ طے ہے کہ سی پیک کا اسکوپ مستقبل میں مزید وسیع کیا جائے گا۔ خصوصی اقتصادی زونز برق رفتار صنعت کاری اور برآمدات کے پھیلاؤ کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ سی پیک ’سماجی انفرا اسٹریکچر‘، جیسے تعلیمی ادارے، صحت مراکز، کوڑا کرکٹ اور گندے پانی کے ٹریٹمنٹ پلانٹس، عوامی سہولیات، ہاؤسنگ منصوبوں اور ماحولیاتی تحفظ کے منصوبوں کو بھی اپنے اندر شامل کر سکتا ہے۔

پاکستان اور چین دونوں نے سی پیک میں تیسرے ملک کی شراکت کے لیے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ گوادر میں سی پیک منصوبوں کے ساتھ سعودی سرمایہ کاری کی آمد بھی ہو گی۔ چند مغربی کمپنیاں تو پہلے ہی اس میں حصہ لے رہی ہیں اور سی پیک منصوبوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ جنرل الیکٹرانک پنجاب میں نصب گیس پر چلنے والے 3 پاور پلانٹ کو ٹربائنز فراہم کر چکی ہے (جس نے اپنے ’ابتدائی مرحلے میں آنے والے مسائل‘ کی وجہ سے اپنا کام شروع کرنے کے عمل کو تقریباً ایک سال تک مؤخر کر دیا ہے)۔ 4 تھرکول کے منصوبے میں بھی جی ای ٹربائنز کو استعمال کیا جائے گا، اور امید ہے جس سے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔
سی پیک پر عمل درآمد کو تیز تر بنانے مثلاً سی پیک منصوبوں کو ترجیح دینے، فنانسنگ کی شرائط پر متفق ہونے، منصوبے کے وقت پر ہونے والے کام کا جائزہ لینے اور عوام اور پارلیمنٹ کو آگاہ رکھنے کے لیے ٹرانسپورٹ اور جامع میکنیزم کو قائم کرنا پاکستان اور چین دونوں کے لیے مددگار ثابت ہو گا۔

اسٹریٹجک شراکت داری کی متوقع مضبوطی کسی تیسرے ملک کے خلاف اتحاد کے طور پر نہیں ہو گی (مثلاً امریکا اور ہندوستانی اتحاد، جس کا مقصد چین کا محاصرہ کرنا ہے) بلکہ پاکستان اور چین کی مضبوط شراکت داری دونوں ممالک کو بتدریج اتھل پتھل کی جانب جاتی دنیا میں لاحق گوناگوں چیلنجرز کا اعتماد سے سامنا کرنے میں مدد دے گی۔ چین کے نزدیک چیلنج کا مطلب بھی موقع ہے۔ اسی لیے تو چیئرمین ماؤ نے کہا تھا کہ 'فی الوقت حالات شدید ابتر ہیں اور یہ صورتحال بہترین ہے۔‘

منیر اکرم
یہ مضمون ڈان اخبار میں 28 اکتوبر 2018 کو شایع ہوا۔
 

ایک جنازے کی گواہی

$
0
0

امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا تھا کہ ہمارے جنازے ہماری حقانیت کا فیصلہ کریں گے۔ جب اُن کا انتقال ہوا تو بغداد میں لاکھوں افراد اُن کے جنازے میں شریک ہوئے اور اس جنازے کی شان دیکھ کر ہزاروں غیرمسلموں نے اسلام قبول کر لیا۔ تین نومبر کو اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق صاحب کے جنازے میں شریک متعدد علماء نے مجھے امام احمد بن حنبلؒ کا قول یاد دلایا اور کہا کہ یہ جنازہ دیکھ لیں اور مولانا سمیع الحق کی حقانیت کا فیصلہ کر لیں۔ اس بہت بڑے جنازے میں شریک اکثر لوگوں کو مولانا سمیع الحق کی سیاست سے کوئی سروکار نہیں تھا وہ ایک عالم دین کو اس دُنیا سے رخصت کرنے آئے تھے جسے جمعہ کے دن عصر کے وقت شہید کیا گیا۔ 

شہید کرنے والوں نے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا جب پورے ملک میں توہین رسالتؐ کے مسئلے پر بے چینی پھیلی ہوئی تھی اور خود مولانا سمیع الحق بھی شہادت سے کچھ دیر پہلے اپنی زندگی کی آخری تقریر میں اس مسئلے پر بہت بے چین نظر آئے لیکن اُن کا جنازہ بے چینی میں اضافے کے بجائے بے چینی ختم کرنے کا ذریعہ بنا۔ مولانا صاحب کی شہادت پر طرح طرح کے تبصرے کئے گئے۔ کسی نے کہا ’’فادر آف طالبان‘‘ دنیا سے چلے گئے۔ کسی نے کہا کہ اُن کا دینی مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ’’نرسری آف جہاد‘‘ تھی اور کچھ خواتین و حضرات کو یہ بھی اچھا نہ لگا کہ مولانا صاحب کو شہید کیوں کہا جا رہا ہے اور یہی وہ انتہا پسندانہ رویہ ہے جو روز بروز ہمیں تقسیم کرتا جا رہا ہے۔ 

میں جس مولانا سمیع الحق کو جانتا ہوں وہ ہمیشہ مسکرا کر اختلاف رائے برداشت کرنے والے انسان تھے۔ میری اُن کے ساتھ پہلی ملاقات 1988ء میں روزنامہ جنگ لاہور کے ایک سینئر ساتھی جاوید جمال ڈسکوی مرحوم کے ذریعہ ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں مولانا سمیع الحق کو جنرل ضیاء الحق کا اتحادی سمجھا جاتا تھا اور میں اُس زمانے کی فوجی حکومت کا شدید مخالف تھا لیکن اس کے باوجود مولانا کے ساتھ ایک ایسا ذاتی تعلق قائم ہو گیا جو اُن کی زندگی کی آخری سانسوں تک قائم رہا اور مجھے یہ اعتراف ہے کہ اس تعلق کو نبھانے میں مولانا صاحب کا کردار زیادہ تھا۔

وہ ہر مشکل وقت میں میرے بلائے بغیر خود ہی میرے ساتھ آ کھڑے ہوتے اور پھر میری وجہ سے جس دبائو کا سامنا کرتے اُس کا کبھی ذکر تک نہ کرتے۔ کچھ سال پہلے سوات میں ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ ہوا تو کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ میں نے اس حملے کی مذمت کی تو اس کالعدم تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے میرے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا۔ پھر میری گاڑی کے نیچے بم نصب کیا گیا اور احسان اللہ احسان نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ وہ موقع تھا جب مولانا سمیع الحق خود چل کر اسلام آباد آئے اور مجھے کہا بتائو کس کے خلاف کیا کہنا ہے، میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں۔ 

جب مجھ پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا تو اُن پر دبائو ڈالا گیا کہ میری اور جیو ٹی وی کی مخالفت کریں۔ یہ وہ وقت تھا جب کچھ ’’مجاہدین اسلام‘‘ نے ہمارے خلاف غداری اور کفر کے فتوے لگائے اور ہمارے پتلے بھی جلائے لیکن مولانا صاحب نے کوئی فرمائشی فتویٰ دینے سے انکار کر دیا۔ 2016ء میں کچھ طاقتور لوگوں نے توہین رسالتؐ کے جھوٹے الزام کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ میں نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف ایک کالم لکھا تو اس میں سے توہین رسالتؐ کا پہلو تلاش کر کے مجھے ایک مقدمے میں الجھا دیا گیا۔

اس موقع پر ایک دفعہ پھر مولانا سمیع الحق میری مدد کو آئے اور انہوں نے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے میرے حق میں ایک تفصیلی فتویٰ جاری کرایا جس میں کہا گیا کہ بغیر تحقیق کے کسی کے خلاف فتویٰ دینا یا رائے قائم کرنا گناہ ہے۔ میرے حق میں جامعہ اشرفیہ لاہور اور جامعہ نعیمیہ لاہور سمیت کچھ دیگر مدارس سے بھی فتوے جاری ہوئے لیکن دارالعلوم حقانیہ سے مفتی مختار اللہ حقانی کا جاری کردہ فتویٰ بہت تفصیلی اور جامع تھا اور جب کچھ بااثر لوگوں نے مولانا سمیع الحق سے میری حمایت پر ناراضی کا اظہار کیا تو اُنہوں نے اس ناراضی کو اپنی مسکراہٹ میں اڑا دیا۔ خود مولانا سمیع الحق کو بھی اپنی زندگی میں متعدد بار جھوٹے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔

ایسا ہی ایک الزام اُن پر 1991ء میں لگایا گیا تھا جس کا ذکر جناب عطاء الحق قاسمی نے بھی اپنے کالم میں کیا ہے۔ مولانا پر سیاسی دبائو ڈالنے کے لئے ایک بدنام عورت اُن کے خلاف کھڑی کر دی گئی لیکن وہ کچھ بھی ثابت نہ کر سکی۔ مولانا صاحب سیاست کے میدان میں کمزور رہے۔ بڑی بڑی جماعتیں مولانا کو اسلام کا نام لے کر استعمال کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ کچھ سالوں سے مولانا سمیع الحق کی زیادہ توجہ تصنیف و تالیف اور تحقیق کی طرف تھی۔ 2015ء میں اُنہوں نے دس جلدوں میں ’’خطبات مشاہیر‘‘ کو شائع کیا جس میں منبر حقانیہ سے کئے گئے اہم شخصیات کے بیانات اور ’’الحق‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین کو موضوعات کی ترتیب سے اکٹھا کر دیا گیا۔

’’خطباتِ مشاہیر‘‘ کی جلد اوّل میں انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم قاری محمد طیب قاسمی کی ایک تقریر شامل کی ہے جس میں دین اور شعائر دین کا احترام بیان کیا گیا اور کہا گیا کہ علماء کو ایک دوسرے کی بے ادبی اور تذلیل نہیں کرنا چاہئے۔ کئی معاملات میں امام شافعیؒ نے امام ابوحنیفہؒ سے اختلاف کیا لیکن کہیں بھی بے ادبی کا شائبہ نہیں آنے دیا۔ ایک دفعہ مولانا قاسم نانوتوی نے دہلی کی لال کنویں والی مسجد کے امام کے پیچھے صبح کی نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی کیونکہ اُن کی قرأت بہت اچھی تھی۔ مولانا محمود الحسن صاحب نے نانوتوی صاحب کو بتایا کہ وہ امام تو آپ کی تکفیر کرتا ہے لیکن نانوتوی صاحب اگلی صبح اپنے شاگردوں کے ہمراہ نماز پڑھنے لال کنویں والی مسجد جا پہنچے۔

نماز ختم ہوئی اور مسجد کے امام کو پتہ چلا کہ اُن کے پیچھے نماز پڑھنے والوں میں مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا محمود الحسن بھی شامل تھے تو بڑا شرمندہ ہوا اور اُن سے مصافحہ کر کے شرمندگی کا اظہار کرنے لگا۔ نانوتوی صاحب نے اُس کی وہ غلط فہمی دور کی جس کی وجہ سے وہ ان کی تکفیر کرتا تھا اور کہا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی توہین پر تکفیر واجب ہے لیکن توہین کی درست تحقیق بھی واجب ہے۔ مولانا سمیع الحق صاحب نے 2016ء میں اپنی ڈائری شائع کی تھی۔ یہ ڈائری اُن صاحبان کو ضرور پڑھ لینی چاہئے جو مولانا کو ’’فادر آف طالبان‘‘ کہتے ہیں۔ مولانا کے والد محترم مولانا عبدالحق صاحب نے ایک درویش حاجی صاحب ترنگزئیؒ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔

خان عبدالغفار خان (باچا خان) بھی ترنگزئی ؒصاحب کے پیروکار تھے اور مولانا سمیع الحق نے اپنی ڈائری میں باچا خان کے ساتھ ہونے والی وہ گفتگو شامل کی ہے جو 1958ءمیں حاجی صاحب ترنگزئیؒ کی مسلح تحریک کے بارے میں ہوئی جس کا مقصد برصغیر سے انگریزوں کو بھگانا تھا۔ اس ڈائری میں کہیں ولی خان کی دارالعلوم حقانیہ میں آمد کا ذکر ہے کہیں اجمل خٹک کی باتیں ہیں، کہیں ہری پور جیل میں مولانا مفتی محمود کے ساتھ گزرے ایام اسیری کی یادیں ہیں کہیں لاہور میں داتا گنج بخشؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی اور مولانا بہاء الحق قاسمی سے ملاقاتوں کا ذکر ہے۔ اس ڈائری میں امام احمد بن حنبلؒ کی شان میں اشعار بھی نظر آتے ہیں اور میر پور (بنگلہ دیش) میں حضرت شاہ علی بغدادیؒ کے مزار کی زیارت کا بھی ذکر ہے۔

مولانا صاحب نے افغان طالبان کے بارے میں ایک کتاب انگریزی میں بھی شائع کی اور بتایا کہ بہت سے افغان طالبان اُن کے مدرسے کے سابق طلبہ ہیں لیکن وہ اپنے مدرسے کے پاکستانی طلبہ کو افغانستان لڑنے کے لئے نہیں بھیجتے۔ مولانا سمیع الحق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کے آئین کے اندر رہ کر جمہوری جدوجہد کی تلقین کی۔ وہ پاکستانی ریاست کے خلاف شورش اور مسلح جدوجہد کے قائل نہ تھے۔ جب صوبہ خیبر پختونخوا میں کچھ انتہا پسندوں نے پولیو ورکرز کے خلاف حملے شروع کئے تو مولانا سمیع الحق اور مولانا ڈاکٹر علی شیر علی شاہ نے پولیو ویکسین کے حق میں فتویٰ دیا۔ 

مولانا نے اپنے ایک شاگرد محمد اسرار مدنی کے ذریعہ انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی جدہ کی شائع کردہ کتاب کا اُردو ترجمہ ’’جدید فقہی فیصلے‘‘ کے نام سے شائع کرایا اور اس کا دیباچہ لکھا جس میں اس کتاب کو تمام دینی مدارس کے نصاب میں شامل کرنے پر زور دیا۔ اس کتاب میں جدید دور کے اہم مسائل کا حل قرآن و حدیث کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ مولانا کا دیباچہ اُن کے خلوص اور اسلام سے اُن کی گہری وابستگی کا آئینہ دار ہے اور اُن کا یہی خلوص تھا جو مجھ جیسے دنیا دار اور گناہ گار انسان کو اُن کے جنازے میں لے گیا، وہ جنازہ جس نے امام احمد بن حنبلؒ کے اس قول کو سچا ثابت کیا کہ ہمارے جنازے ہماری حقانیت کا فیصلہ کریں گے۔

حامد میر
 

وہ جو اس معاہدہ سے خوش نہیں

$
0
0

حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدہ کی صورت میں امن بحال ہوا اور پاکستان کے طول و عرض میں لوگوں نے سکھ کا سانس لیا لیکن لبرلز اور سیکولرز میں موجود ایک طبقہ اس صورتحال سے خوش نہیں۔ تحریکِ انصاف کی حکومت میں شامل کچھ افراد جن میں چند وزراء بھی شامل ہیں، بھی اس معاہدہ پر اپنے اپنے انداز میں نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ میڈیا میں موجود اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد بہت غصہ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جو جنرل پرویز مشرف پر لال مسجد پر آپریشن کے لیے دبائو بڑھاتا رہا اور رٹ آف دی گورنمنٹ کے نام پر ’’مارو مارو‘‘ کے نعرے لگاتا رہا۔ مشرف نے اس طبقہ کے دبائو میں بیوقوفی کی مگر جب آپریشن کر دیا گیا تو پھر اسی طبقہ نے عوامی پریشر کو دیکھتے ہوئے ’’مار دیا، مار دیا‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دئیے اور یوں لال مسجد آپریشن ایک طرف پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی بہت بڑی وجہ بن کر سامنے آیا تو دوسری طرف اس کارروائی نے جنرل مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کو بہت کمزور کر دیا۔

سپریم کورٹ کی طرف سے آسیہ مسیح کی سزائے موت کے فیصلہ کو ختم کرنے کے نتیجہ میں پاکستان بھر میں غم و غصہ کا ایک ردعمل سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے پاکستان کو مظاہرین نے جام کر دیا۔ اس دوران پُرتشدد واقعات بھی ہوئے، لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ کچھ افراد کی جانیں جانے کی بھی خبریں ملیں اور مظاہرین کے رہنمائوں نے کچھ قابل اعتراض باتیں بھی کیں جن کا میڈیا نے تو بلیک آئوٹ کیا لیکن وزیراعظم صاحب نے سب کچھ عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا جس پر کافی تنقید ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر قوم سے خطاب کیا اور ایک ایسی جوشیلی تقریر کی جو حکمت سے عاری تھی۔ اس میں مظاہرین سے سختی کے نمٹنے کے اشارے تھے۔

ایک مخصوص سیکولر اور لبرل طبقہ نے عمران خان کی تقریر کو خوب سراہا اور مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کی حمایت کی لیکن حکومت اور ریاستی اداروں میں ایسے افراد بھی تھے جن کو اس بات کی خوب سمجھ تھی کہ ناموسِ رسالتؐ کے لیے جمع مظاہرین کے خلاف فورس کے استعمال اور آپریشن سے حالات مزید خراب ہو جائیں گے اور ایک ایسی آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے جسے بجھانا کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر کہ فریقین کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا اور یوں پاکستان میں امن کی بحالی ممکن ہوئی۔ لیکن اب حکومت کے اندر اور حکومت سے باہر موجود لبرلز اور سیکولرز کا ایک مخصوص طبقہ حکومت پر خوب طعنہ زنی میں مصروف ہے۔ 

یہ طبقہ اعتراض کر رہا ہے کہ مظاہرین سے معاہدہ کیوں کیا گیا۔ میں ذاتی طور پر کسی بھی پُرتشدد مظاہرے کے حق میں نہیں، وہ چاہے کل ہو رہے تھے (جن کا تحریک انصاف حصہ تھی) یا آج ہو رہے ہیں۔ ہمارا دین بھی دوسروں کے جان و مال کی حفاظت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ میری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ خصوصاً دینی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں اور اُن کے پیروکاروں سے درخواست ہے کہ اختلاف اور احتجاج کرتے وقت اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے بلکہ حکومت و ریاست اور سیاسی و دینی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ افراد کی اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت اور کردار سازی کریں تاکہ ہم اچھے مسلمان اور اچھے انسان پیدا کر سکیں۔ 

اس قسم کے تشدد کو کسی مذہبی جماعت سے جوڑنا بھی انصاف نہیں ہو گا۔ جب بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو پورے ملک میں جلائو، گھیرائو ہوا، کھربوں روپے کی پراپرٹیز کا نقصان ہوا گویا ہمیں اصولوں کی بنیاد پر غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا چاہئے۔ تحریکِ لبیک کے رہنمائوں کی طرف سے وزیر اعظم، آرمی چیف اور سپریم کورٹ کے تین ججوں کو جو دھمکیاں دی گئیں، اُن کی کسی صورت بھی حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن ہمارے لبرل اور سیکولر بھائیوں کو کون سمجھائے کہ اگر تحریکِ لبیک کے رہنمائوں کا ایسا کہنا غلط ہے تو پھر پشتون تحریک موومنٹ کے اسٹیج سے فوج اور ریاست کے خلاف لگنے والے نعرے بھی تو غلط ہیں۔ لیکن پی ٹی ایم کا تو یہ طبقہ پاکستان میں سب سے بڑا حمایتی ہے۔

 اسی طرح بلوچ علیحدگی پسندوں کی ریاست، فوج اور اداروں کے خلاف ہر بات کو یہ طبقہ نظر انداز (Ignore) کر دیتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سپریم کورٹ کے پھانسی کے فیصلہ کو یہی طبقہ نہ صرف رد کرتا ہے بلکہ اسے جوڈیشل قتل گردانتا ہے لیکن آسیہ مسیح کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اعتراض کرنے اور اسے رد کرنے والوں کو یہ طبقہ ہدفِ تنقید بناتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ طبقہ #IStandWithSupremeCourtاور #ReleaseAsia کی کمپین چلا رہا ہے لیکن جب پاکستان کی عدالتوں (پہلے ایڈیشنل سیشن جج اور پھر لاہور ہائی کورٹ) نے آسیہ بی بی کو سزائے موت کی سزا سنائی تو اُس وقت اس طبقہ کی مہم آسیہ مسیح کے حق اور عدلیہ کے خلاف تھی۔

بہرحال اب معاہدہ ہو گیا ہے، میری فریقین سے درخواست ہو گی کہ اس معاہدہ پر دونوں ایمانداری کے ساتھ عمل کریں اور کسی طبقہ کی طرف سے، کسی بھی قسم کے دبائو اور پروپیگنڈہ کا شکار نہ ہوں۔ جہاں تک آسیہ مسیح کا نام ECL میں ڈالنے اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ری ویو پٹیشن دائر کرنے کے معاملات ہیں تو ان پر تو حکومت پیچھے ہٹنے کا رسک نہیں لے سکتی اور نہ اُسے ایسا کرنا چاہئے کیونکہ یہ معاملہ بہت نازک ہے۔ جہاں تک اُن افراد کے خلاف کارروائی کا معاملہ ہے جنہوں نے توڑ پھوڑ کی تو اُنہیں حکومت کو ضرور پکڑنا چاہئے، اگر معاہدہ میں اس کے برعکس کوئی اتفاق نہیں ہوا۔ اصولاً لوگوں کی جان و مال کو نقصان پہنچانے والوں کو ایسے معاہدوں کے ذریعے رعایت نہیں دینی چاہیے لیکن جیسا کہ میں اوپر ذکر کر چکا کہ اس مسئلے کا اصل حل افراد اور معاشرہ کی اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت اور کردار سازی ہے، جس پر کسی کی کوئی توجہ نہیں۔

انصار عباسی
 

پاکستانی کوہ پیما : ’پہاڑوں کے بادشاہ‘ مگر اعتراف سے محروم

$
0
0

دنیا بھر میں کوہ پیماؤں کے لیے مال برداری مقامی کوہستانی لوگ کرتے ہیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ ہو یا کے ٹو، ہر جگہ مقامی لوگ ہی غیر ملکی کوہ پیماؤں کی مدد کرتے ہیں لیکن ان کی کوہ پیمائی کی صلاحیتوں کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔ نیپال کے شرپا کہلانے والے لوگ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والے غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ہمراہ ان کا سامان لے کر چلتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے پہاڑی سلسلوں کی بلند چوٹیوں کو سر کرنے کے شوقین ملکی اور غیرملکی کوہ پیماؤں کو مقامی پہاڑی یا کوہستانی افراد کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ شرپا ہوں یا پاکستان کے کوہستانی، یہ حضرات اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مہم جوئی کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں۔

اس خطرناک سفر میں کئی افراد نے شدید برفانی موسموں میں اپنی جانیں بھی ضائع کی ہیں اور کئی ایک کو تو عمر بھر کی معذوری کا بھی سامنا رہا ہے۔ ایسے جری مہم جو افراد میں سے ایک فضل علی بھی ہیں، اور یہ دنیا کے واحد شخص ہیں، جنہوں نے تین مرتبہ کے ٹو کی چوٹی سر کی ہے۔ کے ٹو نامی چوٹی کو ’ہلاکت خیز پہاڑ‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے کیونکہ اس کی بلندی تک پہنچنے والا کوئی بھی راستہ آسان نہیں ہے۔ اس وقت چالیس برس کی عمر کے فضل علی کو کوہ پیمائی کرتے ہوئے بیس برس ہو گئے ہیں۔ کوہ پیماؤں کے ہمراہ پہاڑی راستوں پر سامان برداری اور رہنمائی کرنا اُن کا پیشہ ہے۔ انہوں نے کے ٹو کو سن 2014، 2017 اور 2018 میں سر کیا ہے۔ وہ کے ٹو کی انتہائی خطرناک ڈھلانوں پر مختصر سی جگہ پر غیر ملکی کوہ پیماؤں کے لیے کھانا پکانے کے علاوہ کسی تنگ درے یا راستے کے برفباری کے باعث بند ہو جانے کے بعد کسی دوسرے راستے سے متعلق معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔

گِنیس ورلڈ ریکارڈ کے ایبرہارڈ ژُور گالسکی کا کہنا ہے کہ کوہ پیمائی کے شعبے میں فضل علی واحد مہم جو ہیں، جنہیں ’سفاک پہاڑ‘ کے ٹو کو تین مرتبہ سر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ دنیا کے پیشہ ور مہم جو افراد میں فضل علی کو ایک معتبر حوالے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح پاکستانی کوہ پیماؤں کی مدد کرنے والی کمیونٹی میں بھی ان کو بہت تکریم حاصل ہے۔ گِنیس بُک آف ورلڈ ریکارڈز میں اپنا نام شامل کیے جانے پر فضل علی نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے تاسف کے ساتھ کہا کہ ملک کے اندر اُن کے اس اعزاز کو کبھی بھی کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ 

انہوں نے یہ بھی کہا کہ غیر ملکی کوہ پیما بھی ابتدا میں بہت وعدے کرتے ہیں، لیکن کام نکل جانے کے بعد وہ بھی اُن جیسے افراد کو بھول جاتے ہیں۔ علی کے مطابق غیر ملکی کوہ پیما اُن کی رہنمائی میں چوٹیاں سر کرتے ہیں اور بلندی پر پہنچ کر اپنی تصویریں اکیلے بنواتے ہیں، جو حقیقت سے انکار کے برابر ہے۔ پاکستان کا شمالی پہاڑی علاقہ تین پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے ملاپ کی جگہ بھی ہے۔ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے تین اسی علاقے میں واقع ہیں۔ کے ٹو ان میں سے ایک ہے، جس کی بلندی 8611 میٹر( 28251 فٹ) ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

عمران خان کا دورہ چین، کیا کچھ ملے گا ؟

$
0
0

پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کا دورہء چین ملک کے کئی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ حکومت کے ناقدین اس دورے کو بے سود قرار دے رہے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کی رائے میں یہ ملک کے لیے بہت اہم تھا۔ یہ دورہ وزیرِ اعظم نے ایک ایسے وقت میں کیا جب ملک میں نہ صرف معاشی بحران ہے بلکہ ان کی رخصتی کے وقت ملک ایک سیاسی بحران سے بھی گزر رہا تھا اور اسلامی ریاست کے طول و عرض پر سخت گیر مذہبی تنظیم نے دھرنے دیے ہوئے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک ایسے وقت میں خان صاحب کو چین کا دورہ نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن پی ٹی آئی کے حامی اس تنقید کو بلاجواز قرار دیتے ہیں۔  

معروف تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کے خیال میں یہ دورہ پاکستان کے لیے بہت اہم تھا اور وزیرِ اعظم کو ہر صورت میں یہ دورہ کرنا چاہیے تھا، ’’میرے خیال میں یہ دورہ ملک کے لیے بہت سود مند ثابت ہوا ہے۔ عمران خان کی کوشش ہے کہ چین ملک میں سرمایہ کاری کرے اور و ہ یہ نہیں چاہتے کہ بیجنگ ریاض کی طرح ہمیں صرف پیسے دے۔ اس کے علاوہ چین سے مقامی کرنسی میں تجارت سے ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم ہو گا۔ جب کہ میرے خیال میں چین کوئی مالی امداد بھی کرے گا، جس سے پاکستان کا بیلنس آف پیمنٹ بہتر ہو گا۔ تو میرے خیال میں یہ دورہ ہر لحاظ سے بہتر ہے۔‘‘

پاکستان اور چین کے درمیان حالیہ ہفتوں میں سی پیک کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں تھیں۔ کچھ ماہرین کے خیال میں بیجنگ میں یہ تاثر ہے کہ نئی حکومت سی پیک کے حوالے سے تحفظات رکھتی ہے اور شاید اس کو رول بیک کرنا بھی چاہتی ہے۔ اس حوالے سے یہ دورہ اور بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکڑ طلعت اے وزارت کے خیال میں خطے کی صورت حال بھی اس دورے کا ایک اہم نقطہء ہے، ’’اس حکومت کے آنے کے بعد ایسے بیانات وزراء کی طرف سے آئے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ پی ٹی آئی کی حکومت چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے تحفظات رکھتی ہے۔ ایسے بیانات سے بہت سے غلطی فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں۔ 

میرے خیال میں اس دورے سے وہ غلط فہمیاں دور ہو گئیں اور دونوں ممالک میں تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان اس مسئلے پر یقیناً بیجنگ سے مشورہ کرے گا کیونکہ دونوں ممالک بین الاقوامی معاملات میں ایک دوسرے کے نقطہء نظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
طلعت اے وزارت کا کہنا تھا کہ یہ بات بالکل غیر منطقی ہے کہ عمران خان کو حالات کی نزاکت کے پیشِ نظر اس دورے کو ملتوی کر دینا چاہیے تھا، ’’اگر عمران خان یہ دورہ ملتوی کر دیتے تو پیغام یہ جاتا کہ ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ ایسی صورت میں وہ ملک میں سرمایہ کاری کیسے لا سکتے تھے۔ کوئی بھی خراب حالات میں سرمایہ کاری کرنا نہیں چاہتا، تو میرے خیال میں دورہ ملتوی نہ کرنے کا فیصلہ دانشمندانہ تھا۔‘‘

لیکن مخالفین کے خیال میں خان صاحب کو اس دورے سے کچھ نہیں ملے گا کیونکہ ایک طرف وہ امریکا کے قریبی اتحادی سعودی عرب سے مختلف معاہدے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ چین کو دانہ ڈال رہے ہیں، جو آسان نہیں ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکڑ سرفراز خان کے خیال میں خان صاحب خالی ہاتھ گئے تھے اور خالی ہاتھ آئیں گے، ’’دنیا میں کئی ممالک سعودی عرب اورامریکا کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھتے ہیں لیکن آپ ایک طرف ریاض کو خطے میں لانا چاہتے ہیں، جس پر چین اور ایران کے تحفظات ہیں اوردوسری طرف آپ چین سے پیسے بھی مانگتے ہیں۔ اسلام آباد کے ریاض کے ساتھ معاہدے اور سرمایہ کاری کی باتوں کو بیجنگ اور تہران میں تشویش کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ،’’ چین کے سعودی سرمایہ کاری پر تحفظات ہیں، جو عمران خان دور نہیں کر سکے، اسی لیے مشترکہ اعلامیے میں چین نے کوئی پیسے یا سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ چین کی طرف سے سرمایہ کاری اور مالی امداد کی باتیں صرف پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ہیں، چینی میڈیا میں ایسی کوئی باتیں نہیں کیں۔ تو میرے خیال میں عمران خان کا یہ دورہ سود مند نہیں رہا۔‘‘ پاکستان مسلم لیگ نون اس دورے کو اشتہاری مہم قرار دے چکی ہے، جس کا مقصد عمران خان کی طرف سے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ صاف ستھرے اور بقیہ سب بد عنوان ہیں۔

بشکریہ DW اردو
 

پاکستان کے زیادہ تر بینکوں کا ڈیٹا ہیک کر لیا گیا ہے

$
0
0

ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کیپٹن ریٹائرڈ محمد شعیب کہتے ہیں کہ پاکستان کے زیادہ تر بینکوں کا ڈیٹا ہیک کر لیا گیا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ ہمیں بینکوں نے اس بارے میں رپورٹ نہیں کیا، ہم خود تجزیہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کرائم ڈیٹا دیکھا ہے، جس سے پتہ چلا کہ پاکستان کے بڑے بینکوں کا ڈیٹا ہیک کر لیا گیا ہے، اب تک ہمارے پاس 100 سے زائد مقدمات درج ہوئے ہیں جبکہ کئی گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے مزید بتایا کہ بھیس بدل کر عوام کو بے وقوف بنانے والے ایک گروہ کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ ہفتے ایک بینک کی ویب سائیٹ ہیک ہوئی تھی، جس کا ڈیٹا بیرون ملک سے ہیک کیا گیا۔
 

اکاؤنٹس کی ہیکنگ میں بڑا مافیا ملوث ہے، سٹیٹ بینک

$
0
0

سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمیں اپنے بینکنگ نظام کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، کوئی بھی بینک ڈیٹا کی ہیکنگ کا پتہ نہیں چلا سکتا۔ ترجمان سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بینک اکاؤنٹس کی ہیکنگ میں بڑا مافیا ملوث ہے، بینک اکاؤنٹس سے رقم چوری کر کے بیرون ملک نکلوا لی گئی۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے بینکنگ نظام کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، ابھی تک صرف ایک بینک کا ڈیٹا چوری ہوا، کسی اور بینک کا ڈیٹا چوری ہونے کی معلومات نہیں ہیں۔ سٹیٹ بینک ترجمان کے مطابق سوشل میڈیا پر افواہوں کے باعث غلط فہمی پیدا ہوئی، کوئی بھی بینک ڈیٹا کی ہیکنگ کا پتہ نہیں چلا سکتا، بینکوں کو ہدایات دی ہیں کہ وہ اپنا آئی ٹی نظام بہتر کریں۔
 


پاکستان میں آن لائن بینکنگ فراڈ

$
0
0

آن لائن بینکنگ فراڈ کا دائرہ کار پھیلنا اور متاثرین کو اے ٹی ایم کے استعمال میں بھی مشکلات کا درپیش ہونا بلاشبہ متعلقہ اداروں کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ محض چند شہروں سے ہیکرز نے کروڑوں روپے نکلوا لئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آن لائن فراڈ کرنے والے اس قدر ماہر ہیں کہ انہیں کسی بھی طرح اس فعل شنیع سے روکا نہیں جا سکتا ؟ دوسری اہم بات یہ کہ صارفین کےبارے میں ان کو ڈیٹا کہاں سے میسر آتا ہے کہ وہ اسے استعمال میں لا کر صارفین کے اکائونٹ سے رقوم نکلوا لیتے ہیں۔ جہاں تک ڈیٹا کی بات ہے تو ہر سیل فون استعمال کرنے والے کو اکثر ایسی کالیں موصول ہوتی رہتی ہیں کہ کمپنی کی طرف سے آپ کا اتنا انعام نکلا ہے، آپ فلاں فلاں نمبر پر اتنے ہزار کا بیلنس لوڈ کروا دیں اور انعام وصول کر لیں، جگہ آپ کو بتا دی جائے گی۔ 

پچھلے دنوں ملک بھر میں ایک عجیب سلسلہ شروع ہوا کسی شخص کو فون آتا کہ ہم فلاں محکمے سے بول رہے ہیں، آپ کی سم اور اکائونٹ کی ویری فکیشن درکار ہے لہٰذا آپ کے متعلقہ بینک کے نمبر سے آپ کو کال موصول ہو گی، اپنی تفصیلات بتا دیں۔ متعلقہ بینک سے کال آتی اور سادہ لوح صارف تفصیلات من و عن بیان کر دیتا۔ اس سے قبل کہ صارف کو واقعے کا علم ہوتا اس کا اکائونٹ خالی ہو چکا ہوتا۔ خیبرپختونخوا میں 200 شہریوں کے لٹنے کی بھی شاید یہی واردات ہو کیونکہ ان عناصر کو اے ٹی ایم کارڈ کا محض پن کوڈ درکار ہوتا ہے جسے شنید ہے کہ اس رسید سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے جو رقم نکلوانے کے بعد ملتی ہے۔ جہاں تک ٹیکنالوجی کی بات ہے بلاشبہ اس میں غلطی کا احتمال نہ ہونے کے برابر ہے تاہم یہ ایجاد بھی تو انسان ہی کی ہے اور آئی ٹی ایکسپرٹ ہیکرز ملکوں کی آفیشل ویب سائٹس ہیک کر لیتے ہیں، اے ٹی ایم سے رقوم نکلوانا ان کیلئے کیا مشکل ہو گا۔ متعلقہ وزارت کو اس سلسلے میں موثر اقدامات کرنا ہوںگے تاکہ صارفین لٹنے سے بچ سکیں، احتیاط برتیں۔

اداریہ روزنامہ جنگ



 

پاکستان میں شرانگیزی پھیلانے والے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کی تیاریاں

$
0
0

ملک میں شرانگیزی پھیلانے والے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کر دیے جائیں گے اس سلسلے میں تمام متعلقہ ادارے 24 گھنٹے تفصیلات اکٹھی کرنے میں مصروف ہیں سرکاری زرائع کے مطابق وزارت داخلہ نے پی ٹی اے سمیت متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کئے ہیں کہ ملک میں شرانگیزی پھیلانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کرنے کے احکامات جاری کیئے ہیں جس کے بعد ایسے عناصر کے اکاؤنٹس کی فہرست مرتب کی گئی ہے جن کے اعلانات و بیانات واضع ہیں جبکہ دوسرے درجے میں ایسے اکاؤنٹ ہیں جو جعلی ہیں اور انہیں نامعلوم جگہوں سے آپریٹ کیا جا رہا ہے انہیں آپریٹ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کچھ سوشل میڈیا اکاؤنٹ بیرون ممالک سے بھی آپریٹ کیے جا رہے ہیں جن کا مقصد ملک میں انتشار، بدامنی اور خوف وہراس پھیلانا ہے، زرائع کے مطابق سرکاری اداروں کے پاس ایسے اختیارات موجود ہیں جس سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے علاوہ قابل اعتراض ویب سائٹس بھی بند کی جارہی ہیں۔ سرکاری زرائع کے مطابق اس ضمن میں حکومت نے آئی ٹی کے شعبے کو طاقتور بنانے کے احکامات جاری کئے ہیں کیونکہ دوسری طرف بنکوں اور ملک میں شہریوں کے بنک اکاؤنٹس کی سیکیورٹی ریاست کا فرض ہے، زرائع کے مطابق ماضی میں اس شعبے کو نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں زرائع کے مطابق سائبر کرائم، سوشل میڈیا اور ریاست کے خلاف ویب سائٹس ایک جنگی ہتھیار ہے جسے ہمیشہ اولین ترجیح دی جاتی ہے مگر ماضی میں اس شعبے پر قطعئی توجہ نہیں دی گئی ۔

اعظم علی

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

بیجنگ میں بیگنگ ؟ پی ٹی وی کے سربراہ عہدے سے برطرف

$
0
0

پاکستان نے سرکاری ٹیلی وژن کے قائم مقام سربراہ کو، ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں وزیر اعظم عمران خان کے چین کے دورے کے موقع پر فوٹیج میں بیجنگ کی بجائے ’ بیگنگ‘ لکھے جانے پر اپنے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ عمران خان اپنی ٹیم کے ہمراہ چین سے اقتصادی امداد لینے گئے تھے تاکہ ملک کو معاشی اور مالیاتی مشکلات سے نکالنے میں مدد مل سکے۔ اس سے قبل عمران خان نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جہاں ان سے ادھار تیل اور ڈالر ڈپازٹ میں 6 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ پاکستان کو اپنا توازن ادائیگی درست کرنے کے لیے زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے اور اب پاکستانی عہدے دار آئی ایم ایف سے بھی مالیاتی پیکیج پر مذاكرات کر رہے ہیں۔

وزارت اطلاعات کے ایک عہدے دار نے خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ ان کی وزارت نے پاکستان ٹیلی وژن کے ایکٹنگ منیجنگ ڈائریکٹر حسن عماد محمدی سے چارج واپس لے لیا ہے جنہیں محض چند ہفتے قبل تعینات کیا گیا تھا۔ پی ٹی وی نے سکرین پر بیجنگ کی بجائے بیگنگ (Begging) کا لفظ دکھائی دینے پر معذرت کر لی تھی۔ یہ لفظ محض 20 سے 25 سکینڈ تک اس وقت سکرین پر نظر آئی جب عمران خان تقریر کر رہے تھے۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر یہ بحث شروع ہو گئی کہ آیا یہ اسپیلنگ کی غلطی تھی یا دیدہ دانستہ ایسا کیا گیا تھا۔

عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل حکمرانوں پر مسلسل یہ تنقید کرتے رہے ہیں کہ وہ دنیا بھر بھکاریوں کی طرح کاسہ اٹھائے گھوم رہے ہیں۔ وزارت اطلاعات کے ایک ترجمان نے کہا ہے ایکٹنگ منیجنگ ڈائریکٹر کے تبادلے کا اسپیلنگ کی غلطی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ ایک معمول کا تبادلہ ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک کو ادائیگیوں کے بحران سے نکلنے کے لیے فوری طور پر 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کی امداد اور چین کے وعدے کے بعد اس بحران سے باہر نکل آیا ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

’ناقابل قبول شرائط‘ کی بنا پر طلعت حسین کا جیو نیوز چھوڑنے کا فیصلہ

$
0
0

پاکستان کے معروف صحافی طلعت حسین نے نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز'کو چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم، انھوں نے چینل چھوڑنے کی وجوہات بیان نہیں کی ہیں۔ اس بات کا اعلان معروف صحافی اور اینکر سید طلعت حسین نے ٹوئٹر پر کیا۔
اپنی ٹویٹ میں طلعت حسین نے لکھا کہ ''میں جیو چھوڑ رہا ہوں اور نومبر کے آخر تک میرا شو ختم ہو جائے گا۔'' انھوں نے چار سال تک جیو نیوز پر اپنا پروگرام ’نیا پاکستان‘ دیکھنے پر ناظرین کا شکریہ ادا کیا۔ طلعت حسین جیو نیوز پر ہفتے میں چار دن ’نیا پاکستان‘ کے نام سے پروگرام کرتے ہیں۔ طلعت حسین کی جانب سے چینل چھوڑنے کا اعلان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا جب پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا سے منسلک کئی صحافیوں کی ملازمتیں ختم کر دی گئی ہیں۔

میں جیو چھوڑ رہا ہوں۔ نومبر کے آخر تک پروگرام نیا پاکستان جاری رہے گا۔ آپ سب کا پروگرام دیکھنے کا شکریہ۔ چینل چھوڑا ہے، صحافت نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طلعت حسین اور اُن کے پروگرام کی ٹیم کے سامنے چینل انتظامیہ کی جانب سے ایسی شرائط رکھی گئی تھیں جو اُن کے لیے ناقابلِ قبول تھیں اور اسی لیے انھیں جیو نیوز ''مجبوراً''چھوڑنا پڑا۔ گو کہ ان شرائط کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں، لیکن ماضی میں ٹی وی چینل کی انتظامیہ ایسے فیصلوں کی وجہ 'مشکل مالیاتی صورتحال'کو قرار دیتی رہی ہے۔ جیو نیوز نے اپنے ٹوئٹر پر جاری مختصر بیان میں کہا ہے کہ سینیر صحافی طلعت حسین نے چینل چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جیو نیوز نے طلعت حسین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُن کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور کہا کہ پروگرام ’نیا پاکستان‘ کے نئے میزبان کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب، صحافی حلقوں کا کہنا ہے کہ نیوز چینلز کی جانب سے جن صحافیوں کی ملازمتیں ختم ہوئی ہیں ان میں سے اکثریت اُن کی ہے جو کہ حکومت اور پاکستان کے مقتدر اداروں کی پالیسیوں کا کھل کر تذکرہ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل وقت نیوز کے صحافی مطیع اللہ جان اور کیپٹل ٹی وی کے اینکر مرتضیٰ سولنگی کے ٹی وی پروگرام بھی چینلز نے بند کر دیے تھے، جن کے بند کیے جانے کا سبب 'اقتصادی وجوہات'بیان کیا گیا تھا۔

طلعت حسین کا شمار اُن صحافیوں میں ہوتا ہے جو میڈیا میں سیلف سینسرشپ سمیت دیگر ریاستی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے طلعت حسین نے اپنے ادارے کے خلاف پروگرام کے کچھ حصے سینسر کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر متعدد ٹوئٹس میں طلعت حسین نے کہا تھا کہ ہفتے کے روز ان کے چینل نے ان کے پروگرام کے پہلے حصے کو نشر نہیں کیا، جس میں، ان کے بقول، 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بار ے میں پروگرام کے شرکا نے گفتگو کی تھی۔ حال ہی میں، پاکستان میں ذرائع ابلاغ کو مبینہ طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ٹی وی چینلز کے ذریعے صحافیوں کو مبینہ طور پر مختلف خبریں نشر نہ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے، جبکہ اینکرز کو بھی مبینہ طور پر حساس موضوعات پر پرواگرام کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔

سارہ حسن

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

ایک نقطے نے ہمیں بیجنگ میں بیگنگ کر دیا

$
0
0

راقم کے خیال میں زندگی اتفاقات سے عبارت ہے اور اتفاقات سے زیادہ بے ڈھنگی کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ زندگی کے جگسا پزل میں سب ٹکڑے اتفاقات کی دیوی آ کر جوڑتی ہے اور جب اس کا جی چاہتا ہے ساری بساط بکھیر کے چلی جاتی ہے۔ راقم کا یہ بھی خیال ہے کہ انسان جس چیز سے بھاگتا ہے وہ اس کی جان کو پیر تسمہ پاء بن کی چمٹ جاتی ہے۔ لاکھ کندھے جھٹکے ، لاکھ جان چھڑائے ، جان نہیں چھوٹتی۔ راقم کا یہ بھی خیال ہے کہ زبانِ خلق نہ صرف یہ کہ نقارۂ خدا ہوتی ہے بلکہ خلق کا حلق پکڑنے سے پکڑنے والا ہلکا لگتا ہے۔ خلق تو وہ خلقِ خدا ہے جس کے لیے فیض صاحب کہہ گئے ہیں کہ میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔ راقم یہ بھی سوچتا ہے کہ انسان ہر شے سے بھاگ سکتا ہے ، اپنے آپ اور اپنے کہے ہوئے الفاظ سے نہیں بھاگ سکتا۔

راقم کو اس قدر سوچنے کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب معلوم ہوا کہ، وزیرِ اعظم صاحب کی بیجنگ کے دورے کی رپورٹنگ کے دوران، سرکاری ٹی وی کی سکرین پہ، بیجنگ کی بجائے لفظ بیگنگ، ایک نہ دو پورے بیس سیکنڈ جگمگاتا رہا۔ گو اس لفظ کو فوری طور پہ پکڑ دھکڑ کے شاہی قلعے کی کوٹھڑی نمبر تیرہ میں بند کر دیا گیا لیکن برا ہو خلقِ خدا کا، لے اڑی۔ راقم نے اس نئی حکومت کی ابتدا ہی میں ایک بات پکڑ لی تھی اور وہ یہ کہ اس دورِ حکومت کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے لیے فرائیڈ کا مطالعہ لازمی قرار دے دینا چاہیے۔ یوں نفسیات دانوں کو کھلی چھٹی ہے وہ یونگ، شوپنہار یا نطشے کے نظریات سے بھی مدد لے سکتے ہیں لیکن راقم کو فرائیڈ کی تھیوریاں چلتی پھرتی نظر آ رہی ہیں۔

یہ بات کس کو معلوم نہیں کہ موجودہ حکومت کے انتخابی نعروں میں سب سے بڑا نعرہ، قرض کی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرنا تھا۔ ہمارے محترم وزیرِ اعظم نے تو جوشِ خطابت میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر ان کو کبھی قرض مانگنا پڑا تو وہ خود کشی کر لیں گے مگر قرض نہیں مانگیں گے۔ نفسیات دان ایسے کٹنی فطرت کے ہیں کہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ اگر آپ کے سامنے آپ کا کوئی جاننے والا مذاق میں بھی خود کشی کا ذکر کرے تو اس سے ہو شیار ہو جائیں اور اس کے شب و روز پہ نظر رکھیں ، خود کشی نہیں کرے گا تو آ پ کو نقصان ضرور پہنچائے گا۔
اب ایسا ہے کہ، ملک میں سنسر شپ کی سب سے گندی شکل، سیلف سینسر شپ، کی باد سموم چل رہی ہے۔ ایسے میں اجتماعی لاشعور ہوشیار ہو جاتا ہے، سچ کہنے کو بے تاب ہو جاتا ہے۔ ملک میں لا قانونیت کا بازار گرم تھا، خلقِ خدا گھروں میں دبکی بیٹھی تھی اور سڑکوں پہ احتجاج جاری تھا۔ ایسے میں اور اس سے پہلے جو جو صحافی بول رہے تھے، انہیں اسی سیلف سنسر شپ کے ذریعے خاموش کرا دیا گیا۔

یوں تو صحافی کی ویسے بھی اربابِ اقتدار کے سامنے کیا اوقات ؟ پھر سرکاری ٹی وی کے ملازم کی کیا مجال کہ آقا سے اس قسم کا لطیف مذاق کرے؟ ایسی ظرافت تو اسے ہی سوجھ سکتی ہے جس نے پطرس اور پی جی وڈ ہاؤس کو پڑھا ہو اور لہری کے شستہ مذاقوں پہ ہنسا ہو۔ ایسے لوگ ایک تو ویسے بھی کمیاب ہیں اور اگر معدودے چند کہیں پائے بھی جاتے ہیں تو وہ جگہ ہرگز ہرگز پی ٹی وی کے خبر نامے کا سیکشن نہیں ہے۔ پرانے شہروں کے نام جانے کہاں سے چلے تھے اور بدلتے بدلتے کیا سے کیا ہو گئے؟ ابھی پڑوسی ملک ہی میں دیکھ لیجے۔ الہ آباد کا کیا ہوا اورہمارے ملک میں کرشن نگر کا کیا بنا۔ یہ بیجنگ بے چارہ بھی کبھی پیکنگ ہوتا تھا اور اس سے پہلے ینجنگ، جیجنگ، نینجنگ ، دادو، بائی پنگ اور جانے کیا کیا نام ہوں گے؟ بڑے شہروں کی تاریخ بڑی عبرت ناک ہوتی ہے ۔ بہت ممکن ہے کسی زمانے میں اس شہر کا نام بیگنگ بھی رہا ہو۔

سنا ہے کہ اس معاملے نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ سرکاری ٹی وی کے کسی بڑے عہدے دار کا سر لے کے ٹلا۔ گو ہر بات کی طرح اس کی بھی تردید کر دی گئی اور ہر معاملے کی طرح اس تردید کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ بات یہ ہے کہ اگر یہ لفظ اتنا گندہ ہے کہ اس کا وجود ٹیلی ویژن کی سکرین پہ برداشت نہیں کیا جارہا تو جب یہ لفظ عمل میں ڈھل جاتا ہے تو کس قدر گندی گالی بن جاتا ہے۔ جب سیلف سنسر شپ کی پٹی باندھ کر، مرتضیٰ سولنگی، مطیع اللہ جان، طلعت حسین، نصرت جاوید اور جانے کتنوں کو خاموش کرا دیا گیا تو 'فرائیڈین سلپ'کے تحت سچ، ٹائپوز کی شکل اختیار کر کے آ پ کی ناانصافی کا بھوت بن کے آ پ کے اپنے سرکاری ٹی وی پہ آدھمکا۔ بخدا قصور وار پی ٹی وی کے اہلکار نہیں ، سچ ہے۔ اسے پکڑیے اور الٹا لٹکا کر مرچوں کی دھونی دیجیے لیکن کیا آپ سچ کو گرفتار کر سکتے ہیں؟

آمنہ مفتی
مصنفہ و کالم نگار

بشکریہ بی بی سی اردو
 

کیا حکومت ڈاکٹر عافیہ کو رہائی دلوا سکتی ہے؟

$
0
0

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکا سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے حوالے سے کسی بھی قسم کی سودے بازی کے امکان کو مسترد کیا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ 2010 سے امریکا میں قید ہیں اور انہیں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ تاہم شاہ محمود قریشی نے یقین دلایا ہے کہ انکی حکومت سفارتی چینلز کے ذریعے انہیں واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ کیا وہ کسی قسم کی سودے بازی یا تحویل مجرم معاہدے کے بغیر ایسا کر سکتے ہیں؟ پاکستان کی طرف سے اس حوالے سے کی جانیوالی باقاعدہ درخواست پر امریکی ردعمل کا تاحال انتظار ہے۔ جو لوگ اس کیس پر طویل عرصے سے نظر رکھے ہوئے ہیں انہیں یقین ہے کہ امریکا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ڈاکٹر عافیہ کو رہا کر کے خیرسگالی کے بہترین جذبات حاصل کر سکتا ہے۔ 

پاکستان میں ڈاکٹر عافیہ، ڈاکٹر شکیل آفریدی اور ان کے حوالے سے سودے بازی پر رائے منقسم ہے تاہم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان نے سودے بازی کی قیاس آرائی کو یکسرمسترد کر دیا ہے۔ امریکا نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ایبٹ آباد میں اس آپریشن کے بعد متعدد بار حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس میں مبینہ طور پر القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن ہلاک ہو گئے تھے۔ تاہم امریکا سے کئے جانیوالے ایسے کسی مطالبے پر حکومت فوج کی رضامندی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرے گی۔ نجی ٹی وی سے ایک انٹرویو میں ریٹائرڈ جنرل مسٹر لودھی نے حکومت کو مشورہ دیا کہ شکیل آفریدی کے معاملے پر کوئی سودے بازی نہ کی جائے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان موجودہ تناو والی صورتحال میں حکومت کے پاس کیا آپشنز یا چینل باقی رہ جاتے ہیں جس کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کی حکومت ڈاکٹر عافیہ کی رہائی حاصل کر سکتی ہے؟ 

شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے ایک ہفتے امریکا میں مقیم رہے اور کم ازکم میڈیا میں ایسی کوئی اطلاعات نہیں کے اس دوران ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ کسی بھی سطح پر اٹھایا گیا ہو۔ یہ کیس اچانک سے گذشتہ کچھ ہفتوں سے منظر عام پرآیا جبکہ ڈاکٹر عافیہ کی فیملی کئی سالوں سے محض امید کے بل بوتے پر جی رہی تھی۔ ماضی میں انکی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی، جو 2003 میں کراچی سے پراسرار گمشدگی کے بعد سے ان کی رہائی کیلئے مسلسل کوشاں رہیں اور ہر سطح پر حکومت سے رابطہ کیا، کو اب پیش رفت کی امید ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ کچھ اچھا ہونے کی امید ہے۔ پاکستان کے دفترخارجہ نے اب تصدیق کر دی ہے کہ امریکی حکام سے ڈاکٹر عافیہ کے حوالے سے باضابطہ درخواست کر دی گئی ہے اور موجودہ صورتحال میں یہ آسان نہ ہو گا جب تک وزیراعظم عمران خان یا صدر عارف علوی امریکی صدر ٹرمپ سے براہ راست اپیل نہ کریں۔ 

چونکہ ڈاکٹر عافیہ کو امریکی عدالت نے سزا سنائی ہے، امریکی صدر اس سزا کو معاف کر سکتے ہیں۔ ان کا کیس شاید سفارتی سطح سے بالا تر اعلیٰ ترین سطح پر حل ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی حکومت ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان واپس لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو نہ صرف وہ اس نقصان کا ازالہ کر سکے گی جو حالیہ احتجاج میں اسے پہنچا بلکہ طویل عرصے سے حل طلب اس مسئلے کو بھی انجام تک پہنچائے گی۔ شاہ محمود قریشی جو پی پی کے دور حکومت میں بھی وزیرخارجہ تھے اور جب ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانیوں کو قتل کر دیا تھا، اپنی پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ کے دعوے کی تردید کی کہ امریکا نے ریمنڈ ڈیوس کے بدلے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی پیش کش کی تھی۔

ڈاکٹر عافیہ نے امریکا میں پاکستانی سفارتخانے کے توسط سے وزیراعظم کو ایک خط بھیجا ہے جس میں اپیل کی گئی ہے کہ وہ انکی رہائی کیلئے اپنا اثر رسوخ استعمال کریں۔ ماضی میں پی پی اور ن لیگ کی حکومتوں نے بھی اس حوالے سے کوششیں کی، اگرچہ وہ کوششیں اعلیٰ ترین سطح پر نہ تھیں۔ ایک دفعہ میں نے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے دورہ پاکستان کے موقع پر ان سے سوال کیا تھا کہ پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ کی قید پر امریکی موقف کیا ہے، جس پر ہلیری کلنٹن کا کہنا تھا کہ ہم عدالتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ اس وقت ڈاکٹر عافیہ پر مقدمہ چلایا جارہا تھا لیکن اب امریکی صدر سزا معاف کر سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ پاکستانی قیادت امریکی حکام سے کیسے رابطہ کرتی ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عافیہ نے 2003 سے لے کر اب تک امریکا میں اپنی عمر قید تقریباً مکمل کر لی ہے۔ 

مظہر عباس
 

پاکستان کی 80 فیصد دیہی آبادی غربت کا شکار ہے

$
0
0

کسی دور میں یہ کہاوت عام تھی کہ پاکستان دیہات میں بستا ہے مگر اب یہاں غربت بستی ہے۔ عالمی بینک کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 80 فیصد غریب آبادی دیہات میں بستی ہے۔ اس دوران وقت کے تقاضے بدلے، لوگوں کو علاج معالجے سمیت تمام قسم کی جدید سہولیات کے حصول کے لئے شہروں کا رخ کرنا پڑا جس سے شہری علاقوں پر آبادی کا دباؤ بڑھا لیکن اس کے باوجود دیہات آج بھی حقیقی خوشحالی کے منتظر ہیں۔ آج بھی دیہی علاقوں کے رہنے والے غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں جبکہ شہروں میں بھی عوامی اور بنیادی سہولیات کم سے کمتر ہوتی جا رہی ہیں ۔ سہولیات کی کمیابی اور بڑھتی غربت نے شہری اور دیہی علاقوں کا فرق جیسے مٹا کر رکھ دیا ہے۔

عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں باقی ملک کے مقابلے میں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہاں کی 62 فیصد دیہی آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ البتہ صوبہ سندھ میں شہری اور دیہی علاقوں میں غربت کی شرح کا فرق باقی صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے یعنی 30 فیصد۔ اس کے برخلاف صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں دیہی اور شہری علاقوں کے فرق کی شرح بالترتیب 13 اور 15 فیصد ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہات میں غربت کی شرح دوگنی ہے جو 18 کے مقابلے میں 36 فیصد بنتی ہے۔ یہ فرق سن 2001 اور 2002 سے برقرار ہے یعنی اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔

شہروں میں آباد لوگوں کے صرف 13 فیصد بچے مڈل اسکول تک پڑھ پاتے ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح بھی دو فیصد کم ہے۔ دیہات کے 11 فیصد بچے ہی پرائمری اسکول تک تعلیم حاصل کر پاتے ہیں۔ لڑکیوں میں یہ شرح بالترتیب 17 اور 14 فیصد ہے۔ دیہی خواتین میں تعلیم کی شرح 28 فیصد ہے جو شہری علاقوں کے مقابلے میں آدھی سے بھی بنتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں کے تین سال تک کی عمر کے صرف ساڑھے آٹھ فیصد بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کی سہولت میسر ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ شرح 10 فیصد ہے۔ شہروں کی 28 فیصد مائیں بچوں کو اسپتالوں میں جنم دیتی ہیں جبکہ دیہی خواتین کی صرف 12 فیصد خواتین کو ہی یہ سہولت حاصل ہے ۔ یعنی بہت بڑی تعداد میں مائیں گھروں میں بغیر کسی سہولت کے بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہیں ۔

دیہی خواتین کے لئے اسپتالوں تک رسائی بھی باآسانی ممکن نہیں۔ زیادہ تر اسپتال دور دراز علاقوں میں واقع ہیں اس وجہ سے دیہی خواتین کو علاج معالجہ کی بنیادی سہولیات کے حصول کے لئے ایک لمبی جدوجہد، محنت اور تک و دو کرنا پڑی ہے۔ صرف 15 فیصد دیہی علاقوں کو بجلی میسر ہے جبکہ قدرتی گیس بھی سو فیصد لوگوں کو دستیاب نہیں بلکہ 63 فیصد آبادی ہی قدرتی گیس کی سہولت سے فائدہ اٹھا پاتی ہے۔ بلوچستان کا ضلع ایبٹ آباد سہولیات کے اعتبار سے نسبتاً بہتر ہے جہاں کی پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد آبادی خوشحال ہے جبکہ وارسک بلوچستان کا ایسا ضلع ہے جہاں کی 72 اعشاریہ 5 فیصد عوام غربت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے ۔

صوبے کے 40 فیصد اضلاح کی اکثریت غربت کا شکار ہے جبکہ اس حوالے سے سندھ کا نمبر دوسرا ہے ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے صرف تین اضلاع غربت سے قدرے بچے ہوئے ہیں جبکہ سندھ کے دو اضلاع کراچی اور حیدرآباد خوشحال اضلاح میں شامل ہیں۔ لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، گوجرانوالہ ، سیالکوٹ ، ملتان اور بہاولپور جیسے بڑے شہروں میں دوسرے علاقوں کے مقابلے میں سہولیات نسبتاً زیادہ ہیں۔ کراچی سن 2014 اور 2015 میں پاکستان کا تیسرا امیر ضلع شمار ہوتا تھا تاہم اس کے باوجود یہاں غربت کی شرح آٹھ اعشاریہ نو فیصد ہے۔ یہاں ملک کے ڈھائی فیصد غریب عوام رہتے ہیں جبکہ لاہور چھٹا امیر شہر ہونے کے باوجود دو اعشاریہ دو فیصد غریب عوام کا مسکن ہے۔ 

بشکریہ وائس آف امریکہ

 


ادارے کیوں تباہ ہوتے ہیں ؟

$
0
0

چلیں ہم نوکیا سے شروع کرتے ہیں۔ 1865 میں فن لینڈ میں قائم ہونے والی اس عظیم الشان موبائل بنانے والی کمپنی نے کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑے کہ دنیا حیران رہ گئ ۔ ایک عرصے تک بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایک صدی تک نوکیا اس دنیا پر حکمرانی کرنے والی شاید پہلی اور آخری کمپنی تھی تو غلط نہ ہو گا ۔ 2003 سے لے کر 2005 تک پورے پاکستان کے 70 فیصد موبائل فونز نوکیا کے ہی بنے ہوئے تھے ۔ صرف 2008 میں نوکیا کے اندازے سے بھی کہیں زیادہ 4500 ملین موبائل سیٹس دنیا بھر میں بک گئے ۔ 2008 میں ہی صرف امریکا میں 300 ملین نوکیا استعمال کرنے والے لوگ تھے جبکہ امریکا کی 60 فیصد موبائل مارکیٹ بھی نوکیا ہی کے قبضے میں تھی ۔ 2009 اور 2010 ایپل ، گوگل اور اینڈرائڈ کا دور شروع ہو چکا تھا لیکن نوکیا ابھی تک اپنے ہارڈوئیر کو سینے سے لگائے بیٹھا تھا۔ 

دنیا ” اسمارٹ” ہوتی جارہی تھی ۔ لوگ سوفٹ وئیر اور پلے اسٹور کی دنیا میں آچکے تھے ۔ ساری دنیا کے ڈیولپرز اور انجینئرز خود کو اینڈرائڈ پر لے آئے تھے لیکن نوکیا اپنی ” علیحدہ ” پہچان بنانے کے چکر میں اب اپنی پہچان کھونا شروع ہو چکا تھا ۔ ہندوستان اور چین جیسے ممالک میں بھی اب ” ہر مال چائنا” کی آوازیں لگ رہیں تھیں لیکن اوپر کرسیوں پر بیٹھے نوکیا کے ” دماغ ” خود کو عوام کی نظروں سے دیکھنے سے قاصر تھے ۔ نوکیا نے تنگ آکر بالآخر ستمبر 2010 میں اپنے پرانے سی ای او اولی پیکا کو ہٹا کر اسٹیفن ایلوپ کو اپنا نیا سی ای او مقرر کر دیا ۔ ایلوپ نے بھی اپنی ” پہچان” برقرار رکھنے کی فکر میں خود کو مزید ایک تجربے سے گذارا اور مائیکرو سوفٹ کے پاس چلے گئے ۔ جو ونڈوز آج تک کی تاریخ میں کبھی ” موبائل فرینڈلی ” نہیں تھیں ۔ اس کو اپنے ہینڈ سیٹس کی زینت بنا ڈالا اور اس طرح 1865 میں پوری آب و تاب سے طلوع ہونے والا نوکیا کا سورج 2010 میں غروب ہو گیا ۔

ایلکوا ایلومینیم بنانے والی اس وقت دنیا کی چھٹی بڑی کمپنی ہے ۔ 1987 میں کمپنی کی معاشی حالت بری طرح خراب ہونے لگی ۔ جگہ جگہ پلانٹس بند ہونے لگے ۔ عوام اور ملازمین کا اعتماد آہستہ آہستہ کمپنی پر سے ختم ہوتا جارہا تھا ۔ کیونکہ ایلومینیم کا کام بے انتہا حساس نوعیت کا ہوتا ہے اسلئیے کسی نہ کسی پلانٹ پر کوئی نہ کوئی مزدور معذور ہو جاتا یا مر جاتا اور پھر زندگی بھر وہ یا اس کے ورثاء بے یار و مددگار پڑے رہتے ۔ پال او نیل افتتاحی تقریب سے خطاب کرنے آئے ۔ کمپنی کی پالیسی ، مشن اسٹیٹمنٹ اور اپنے پچھلے کارنامے گنوانے کے بجائے انھوں نے اپنے مختصر سے خطاب میں کہا کہ میرے تین مقاصد ہیں.

1) میں اس بات کو یقینی بناؤنگا کہ کمپنی میں ہر شخص کو ہر کسی سے عزت اور محبت ملے۔
2) میں ہمیشہ اپنے ملازمین کی حفاظت کو مقدم رکھونگا ، کسی بھی حالت میں کسی قسم کو کوئی سمجھوتا سیفٹی پر نہیں ہو گا ۔
اور تیسرے یہ کہ ،
3) ہماری کمپنی میں موجود ہر ملازم کو لازماً یہ معلوم ہو گا کہ وہ یہاں ” کیوں ” یہ کام کر رہا ہے ۔

اور پھر پال – او نیل کے یہ الفاظ عمل میں ڈھل گئے ۔ کمپنی کے ہر ملازم کے پاس پال کا نمبر ہوتا تھا ۔ کہیں کوئی چھوٹی سی بھی شکایت پال کو موصول ہوتی تو پلانٹ پہلے بند ہوتا اور تفتیش بعد میں شروع ہوتی ۔ شروع کے چھ مہینے سخت اذیت میں گذرے لیکن پال نے طے کر لیا تھا کہ کمپنی میں حادثہ کوئی نہیں ہو گا اور پھر صرف چھ مہینے بعد ایلکوا دنیا کی سب سے بڑی ایلومینیم کمپنی بن گئی ۔سن 2000 میں جب پال اونیل کپمنی سے رخصت ہوا تو اسکا شما ر دنیا کے کامیاب ترین سی ای اوز میں ہوتا تھا اور آپ کمال ملاحظہ کریں وہ ادھر کمپنی سے فارغ ہوا اور ادھر جارج بش نے اس کو اپنا وزیر خزانہ بنا لیا ۔

یہ دو کمپنیوں کے دو آدمیوں کی دو کہانیاں نہیں ہیں ۔ یہ ہمارے اداروں کا نوحہ اور المیہ ہے ۔ قطع نظر اس سے کہ وہ نجی ہوں یا سرکاری ۔ کسی بھی کمپنی میں گاہک بعد میں آتا ہے لیکن ملازم پہلے آتا ہے ۔ بیوقوف ہیں وہ ادارے جو صرف یہ لکھ کر لگاتے ہیں کہ ” کسٹمرز آلویز رائٹ ” ۔ صبح سے شام تک ان کسٹمزر کو ڈیل کرنے والے ملازمین کو بھی یہ حق دیجئیے کہ وہ بھی کچھ ” رائٹ ” کہہ سکیں ۔ اداروں کی تباہی کے لئیے یہ کافی ہے کہ آپ صرف ایک جی ہاں صرف ایک نااہل شخص کو باقی سارے لوگوں پر مسلط کر دیں اور پھر اس کے بعد اپنے دیوالیہ ہونے کا تماشہ دیکھیں ۔ محض شاخ نازک پر مضبوط آشیانے کی تمنا رکھنا دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے حقیقت نہیں ۔ اپنی ہاں میں ہاں ملانے والوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ آپ خود پر تنقید کرنے والوں کو اپنے ساتھ رکھیں ۔

علی بابا کے سربراہ جیک ما کے الفاظ ہیں کہ میں نے چالیس سال تک خود سے زیادہ ذہین لوگوں کو تلاش کیا اور پھر ان کو ساتھ بٹھا کر کام شروع کروایا ۔ ہمارے اداروں کے ” عقلمند ” سربراہان ہمیشہ خود سے ” کم عقل ” لوگوں کو تلاش کرتے ہیں اور کبھی ان سے کوئی عقل میں ” زیادہ ” آگیا تو وہ جاب رسک پر آجائیگا ۔ اسٹیو جابز کے بقول کہ ” میں حیران ہوتا ہوں کہ اداروں کے مالکان اتنے ذہین اور باصلاحیت لوگوں کو ملازمت پر رکھتے ہیں اور ان سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ بتاؤ ہمیں کیا کرنا چاہئیے ؟ صبح سے شام تک ان کو لگے بندھے کاموں کی فہرست پکڑا دیتے ہیں “۔ ہم اتنے عقلمند ہیں کہ جس کے ” دماغ ” سے کام لینا ہے اس کے بھی ہاتھ پاؤں سے ہی کام لیتے رہتے ہیں ۔ 

اگر آپ کو ہر ملازم پر شک رہتا ہے تو آپ کبھی ترقی نہیں کر سکتے ہیں ۔ یاد رکھیں جو بھروسہ نہیں کر سکتا وہ ترقی نہیں کر سکتا. دنیا میں کامیاب اور ناکام لوگوں ، اداروں اور تنظیموں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہوتا ہے کہ ناکام لوگ بس ” ہارڈ ورک ” پر توجہ دیتے ہیں اور کامیاب لوگ ” نیٹ ورک ” پر۔ وہ کام سے زیادہ افراد کو تیار کرنے پر کام کرتے ہیں ۔ جب تک کمپنیوں میں ” لیڈرز ” کے بجائے ” باس” رہینگے نہ تو ہمارے ادارے پروفیشنل ہو سکتے ہیں نہ ہی دنیا میں کوئی بڑی جگہ بنا سکتے ہیں ۔

اگر آپ اپنے ادارے کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو لوگوں کے ساتھ ان کے خوشی ، غمی میں ” شریک ” ہونا سیکھیں ۔ ” حکم ” کے بجائے ” تعلق ” کے ذریعے کام کروائیں ۔ چاپلوسوں کے بجائے ” اہل ” لوگوں کو جگہ دیں ۔ ہاتھوں پاؤوں والے انسانوں سے زیادہ ” دماغوں ” والے لوگوں کو جمع کریں اور باس کلچر کے بجائے ” لیڈرشپ ” کلچر کا پروان چڑھانا ہو گا ۔ آپ کے ملازم کو اپنا ادارہ ایک فیملی اور گھر کی طرح معلوم ہو اور جس دن اس نے کمپنی کے درد کو اپنا درد سمجھنا شروع کر دیا وہی آپ کی کامیابی کا دن ہو گا ۔

جہانزیب راضی
 

آزاد کشمیر کی ’’وادئ نیلم‘‘ ہر ہر نظارہ اپنی مثال آپ

$
0
0

آزاد کشمیر کی ’’وادئ نیلم‘‘ کو قدرت نے نہایت فیّاضی سے حُسن و دل کشی اور رعنائی عطا فرمائی ہے۔ جابجا بہتے جھرنوں، آبشاروں، جھیلوں نے وادی کے حُسن کو ایسے چار چاند لگائے ہیں کہ اِسے بجا طور پر ’’خُوب صورتی سے تراشا ایک ہیرا‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں کے حسین و دل کش مناظر میں سرِفہرست بلند و بالا سرسبز پہاڑ، بہتے آب شار، سبک رفتاری سے بہتا دریائے نیلم اور اس کے اطراف خوب صورت باغات ہیں۔ سیرو سیّاحت سے دل چسپی رکھنے والوں کو ہمارا مفت مشورہ ہے کہ زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور وادئ نیلم کا سفر کریں اور انتہائی کم خرچ میں دنیا کے بہترین قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوں۔ 

وادئ نیلم کی سیّاحت کے لیے مئی سے ستمبر تک کے مہینے موزوں ہیں، لہٰذا ہم نے بھی جولائی کے وسط میں وادی کی سیّاحت کا پروگرام بنایا اور طے شدہ پروگرام کے مطابق اپنے دوستوں عمران اور بابر کے ساتھ راول پنڈی، فیض آباد سے مظفر آباد (آزاد کشمیر) کے لیے روانہ ہو گئے اور تقریباً چار گھنٹے کے پُرلطف سفر کے بعد بالاخر مظفرآباد پہنچ گئے۔ یہاں سب سے پہلے ہم نے ASCOM کی سِم خریدی، کیوں کہ آزاد کشمیر کے بالائی علاقوں میں پاکستان کے موبائل نیٹ ورکس بند ہو جاتے ہیں، لہٰذا سیّاحوں کے لیے مظفرآباد میں خصوصی طور پر ASCOM کی سِم جگہ جگہ دستیاب ہے۔ سِم بدلوانے کے بعد قریبی کھوکھا نما ہوٹل میں گرم گرم سموسوں کے ساتھ چائے پینے کا لطف دوبالا ہو گیا۔ یہاں سے ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا اور ایک گھنٹے کی مسافت پر’’ نیلم جہلم پاور پروجیکٹ‘‘ پہنچ گئے۔ اگرچہ اس وقت رات کے 8 بج رہے تھے، لیکن پروجیکٹ کے مقام پر دن کا سا سماں تھا۔ ’’نیلم جہلم پروجیکٹ‘‘ کا 85 فی صد سے زیادہ کام ہو چکا ہے اور امید ہے کہ مذکورہ پروجیکٹ دسمبر 2018ء تک تکمیل کے مراحل طے کرنے کے بعد پاکستان اور آزاد کشمیر کے متعدد علاقوں سے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ کافی حد تک کم کر دے گا۔ 

یہاں سے آگے ہماری منزل تھی اٹھمقام، جو مظفرآباد سے کوئی ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اٹھمقام، وادئ نیلم کا صدر مقام اور بیس کیمپ بھی ہے۔ اس چھوٹے سے خوب صورت شہر میں ضرورت کی تمام اشیاء بہ آسانی دستیاب ہیں۔ یہاں گیسٹ ہائوسز کے علاوہ بازار، پوسٹ آفس، بینکس، اسپتال، ٹیلیفون ایکسچینج وغیرہ سب ہی کچھ ہے۔ اٹھمقام پہنچتے پہنچتے کافی رات بیت چکی تھی، لیکن اس وقت بھی چند دکانیں کھلی تھیں اور اِکا دُکا سیّاح مٹر گشت کر رہے تھے۔ دریائے نیلم کی دُور دُور تک سنائی دینے والی چنگھاڑ سے پورے ماحول پر ایک ہیبت سی طاری ہو جاتی ہے۔ ساحل پر نصب چِکنے پتھر اس قدر پھسلن زدہ ہیں کہ ان پر پائوں رکھتے ہی انسان اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے، نتیجتاً گہرے دریا کا نوالہ بھی بن سکتا ہے۔ بہرحال، نیلم کی دہشت سے ہم پر بھی کپکپی طاری ہو چکی تھی۔

رات گزارنے کے لیے قریبی ہوٹل کا رُخ کیا۔ ہم میدانی علاقوں کے رہنے والوں کے لیے یہاں کی معمولی سردی بھی برداشت سے باہر ہو رہی تھی، لہٰذا رات کا کھانا کھاتے ہی بستروں میں دبک گئے۔ علی الصباح بیدار ہوئے اور کھڑکی سے باہر کے دل کش و دل فریب منظر پر نظر پڑی، تو مبہوت سے رہ گئے۔ دریائے نیلم، اس سے ملحق پہاڑ اور ان سرسبز پہاڑوں پر لکڑی سے بنے گھر انتہائی حسین نظر آرہے تھے، اس پر مستزاد یہاں چار سُو ہریالی، دُور دُور تک سفیدے کے گھنے جنگلات، دیودار، فر اور اخروٹ کے درختوں کی بھرمار اور مختلف پرندوں کی چہچہاہٹ ایک حسین سماں باندھ رہی تھی۔ دریائے نیلم کے کنارے بنے دو منزلہ لکڑی کے ریسٹورنٹ میں گرما گرم پراٹھوں، انڈوں کا ناشتا کیا اور تازہ دَم ہوکر یہیں سے اگلی منزل ’’کیل‘‘ کی جانب گام زن ہو گئے۔ 

اٹھمقام اور کیل کے درمیان متعدد حسین و دل کش مقامات آتے ہیں۔ اسی رستے پر LOC (لائن آف کنٹرول) بھی ہے، یہاں دریائے نیلم قدرتی حدبندی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ تاہم، دونوں ممالک کے عوام کو الگ کرنے والی یہ سرحد بھی دونوں طرف کے عوام کو جدا نہیں کر پاتی، یعنی دریا کے اِس پار بھی کشمیر ہے اور اُس پار بھی۔ اِدھر بھی مسلمان ہیں اور اُدھر بھی۔ جو بادل تھوڑی دیر پہلے تک بھارت میں آوارہ پھرتے تھے، تھوڑی دیر بعد پاکستان میں برستے ہیں۔ تہذیب اور رہن سہن بھی دریا کے دونوں جانب یکساں ہے۔ ہم ان ہی سوچوں میں گم تھے کہ ڈرائیور نے اچانک گاڑی روک دی۔ وجہ پوچھی، تو بتایا کہ ’’کیرن گائوں‘‘ آگیا ہے۔ سڑک کے دائیں جانب نشیب کی طرف ایک سرسبز میدان ہے، قریب ہی لکڑی کے خوب صورت گیسٹ ہائوسز بنے ہوئے ہیں۔

 یہاں سے مقبوضہ کشمیر کے باسی، ان کے گھر، اسکول، مساجد، میدان اور ان میں کھیلتے بچّے، بھارتی فوج اور ان کی کمین گاہیں سب کچھ صاف نظر آتا ہے۔ دریا کے دونوں جانب امن و امان ہے، چھوٹے چھوٹے، ننّھے منّے بچّے بچیّاں دنیا و مافیہا سے بے نیاز کھیلتے کودتے نظر آتے ہیں۔ تاہم، یہیں ہم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ دریا کے ا ُس پار کھڑی ایک خاتون چلّا چلّا کر ہاتھوں کے اشاروں سے اس پار کھڑے اپنے بھائی سے باتیں کر رہی تھی۔ اس خوب صورت مقام پر جابجا لگے خیموں میں ملکی و غیرملکی سیّاحوں کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں سے آئے طلباء و طالبات کے مختلف گروپس بھی موجود تھے۔ یہاں دریائے نیلم کا بہائو نسبتاً کم ہونے کے باعث اس کے صاف و شفّاف اور نیلگوں پانی میں قدم رکھا جا سکتا ہے۔

قریب ہی واقع کیرن سیکٹر، چاروں طرف سے سرسبز پہاڑوں میں گِھرا، خوب صورت پھولوں، خوشبوئوں اور چائنیز طرز کے خوب صورت گیسٹ ہائوسز سے بھرا پڑا ہے۔ اگرچہ اس شاندار مقام پر سیّاحت کے لیے کئی گھنٹے تو کیا، کئی دن بھی کم ہیں، لیکن وقت کی قلّت کی وجہ سے ہم یہاں صرف دو گھنٹے قیام کے بعد ہی تشنگیِ دل کے ساتھ اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہماری گاڑی ایک بار پھر ہموار سڑک پر بلندی کی جانب دوڑ رہی تھی۔ لائن آف کنٹرول، جو اٹھمقام سے ہمارے ساتھ شروع ہوئی تھی، مزید کوئی ایک گھنٹے تک شریکِ سفر رہی اور پھر لوت کے مقام پر ہم سے جدا ہو گئی۔ آگے دریا کے دونوں طرف ہمارا کشمیر تھا۔ یہاں سے وادی کا حُسن اور بھی دل فریب ہو جاتا ہے، خصوصاً جب دریا پہ بنے لوہے، لکڑی کے پُل پر گاڑی گزرتی ہے، تو چَرچَر کی خوف ناک آوازوں سے گاڑی میں بیٹھے سیّاحوں کا خون خشک ہونے لگتا ہے۔ 

بہرحال، ان مسحور کن مناظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرتے ہم تین گھنٹے بعد شادرہ پہنچنے میں کام یاب ہو گئے۔ شادرہ، انتہائی اونچائی پر واقع ایک تاریخی گائوں ہے۔ برسوں پہلے یہاں ایک مندر ہوا کرتا تھا، جو ایک ہندو ملکہ، شادرہ کی وجہ سے ’’شادرہ مندر‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں بھی تمام تعمیرات لکڑی سے کی گئی ہیں، حتیٰ کہ دو اور تین منزلہ عمارتیں بھی لکڑی کی ہیں۔ یہ علاقہ سردیوں میں انتہائی سرد ہوتا ہے۔ شدید موسم میں دریا کا پانی تک جم جاتا ہے۔ شادرہ سے کچھ ہی فاصلے پر آگے بڑھیں تو ’’کیل‘‘ کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ کیل، دراصل ایک بیس کیمپ ہے، جہاں کوہ پیما اور سیّاح مختصر قیام کرتے اور تازہ دَم ہو کر آگے روانہ ہو جاتے ہیں۔

یہاں سیّاحوں کے لیے تمام بنیادی سہولتیں میسّر ہیں۔ ہمارے یہاں پہنچتے پہنچتے شام ڈھلنے لگی تھی، لہٰذا گرم گرم چائے، چپس اور پکوڑوں کے مزے لینے کے بعد پیدل ہی ارنگ کیل کے لیے روانہ ہو گئے۔ جس طرح کیل گائوں ایک وسیع و عریض پہاڑی پر پھیلا ہوا ہے، اسی طرح ’’ارنگ کیل‘‘ بھی ایک دوسری اونچی پہاڑی کی چوٹی پر آباد ہے۔ کیل سے ارنگ کیل جانے کے لیے ایک دیسی ساختہ کیبل کار نصب کی گئی ہے، جو چھے سے آٹھ افراد کو 10 منٹ میں کیل سے ارنگ کیل پہنچا دیتی ہے۔ یہاں اُتر کر ہم پیدل ہی چڑھائی چڑھتے ہوئے کوئی 30 منٹ میں ارنگ کیل کی آبادی تک پہنچے، تو ہماری سانسیں بُری طرح پھول چکی تھیں، لیکن یہاں کا دل فریب منظر دیکھ کر ساری تھکن یک دَم کافور ہو گئی۔ ’’کشمیر جنّتِ نظیر‘‘ کا جملہ یہاں سو فی صد صادق آتا ہے۔ 

چاروں طرف خوش نُما اور دیدہ زیب رنگوں کے پھول جہاں نظروں کو طراوت بخشتے ہیں، وہیں ان کی مدھر خوش بو سے فضا بھی ہر دم معطر رہتی ہے۔ انتہائی خوب صورت لکڑیوں کے بنے ’’کون نما‘‘ گھر، مساجد، ہوٹلز اور ان پر دیدہ زیب رنگ و روغن آنکھوں کے لیے ایک انتہائی خوش نما منظر تھا۔ یہیں سے پاکستان کی دوسری اور دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی، ’’نانگا پربت‘‘ کا بہ آسانی نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’نانگا پربت کا حُسن ایسا ہے، جیسے کسی بہت ہی حسین دوشیزہ کو چاندی کے بیش بہا زیورات سے آراستہ کیا گیا ہو۔‘‘ ارنگ کیل کو دفاعی نقطہ نظر سے بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔یہاں فوجی چوکیوں پر توپیں نصب ہیں، جو وقت پڑنے پر دشمن کی کمیں گاہیں تباہ کر سکتی ہیں۔ پاکستان کے فوجی جوان ان اونچی اونچی پہاڑیوں پر سال کے بارہ مہینے مورچہ زن رہتے ہیں۔ سرد ترین مہینوں میں جب سردی منفی 25 تک پہنچ جاتی ہے اور بھارتی فوج بھی نیچے جانے پر مجبور ہو جاتی ہے، اس وقت بھی ہمارے جوان سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر مورچوں میں ہر دَم مستعد اور چوکنّا رہتے ہیں۔ ارنگ کیل میں رات کا پہر سحر انگیز تھا، تو صبح بھی اپنی مثال آپ تھی۔

جب صبح ہم اپنے کمروں سے باہر نکلے، تو بارش ہو رہی تھی، بادل اس قدر نیچے تھے کہ بہ آسانی چھوئے جا سکتے تھے۔ ناشتے کے فوراً بعد ہم ایک بار پھر بذریعہ دیسی ریل کار، کیل واپس پہنچ گئے۔ یہاں سے ہمیں تائوبٹ جانا تھا، لہٰذا سیدھے جیپوں کے اڈے پہنچے۔ تائوبٹ تک ذاتی سواری کے ذریعے پہنچنا مشکل ہے، کیوں کہ یہاں باقاعدہ کوئی سڑک نہیں ہے اور پورا راستہ پتھریلا ہے اور پتھر بھی ایسے، جن پر عام گاڑی سے سفر ناممکن ہے۔ ان رستوں پر صرف جیپیں ہی جاتی ہیں، جو مقامی ڈرائیور احتیاط اورمہارت سے چلاتے ہیں۔ کیل سے تائوبٹ کی مسافت تقریباً 10 گھنٹوں پر محیط ہے۔ جس کے لیے کم از کم ایک پورا دن چاہیے۔ کیل سے تائوبٹ کا سفر بھی اپنی نوعیت کا انوکھا اور دل چسپ سفر تھا۔ ہماری جیپ کبھی سرسبز پہاڑوں کے دامن سے گزرتی، تو کبھی انتہائی پتلی راہ داری سے، کبھی اونچے نیچے پتھروں پر ڈولتی، تو کبھی ٹھنڈے ٹھنڈے آبشاروں پر، ان ہی نشیب و فراز کے ساتھ ہم منزلِ مقصود کی جانب گامزن تھے۔ 

دریائے نیلم کی چنگھاڑ اس وقت زیادہ ہیبت ناک ہو جاتی، جب اس کی لہریں چٹانوں سے ٹکراتیں یا سیکڑوں فٹ بلندی سے گرتیں۔ رستے میں جگہ جگہ قائم چوکیوں پر پاک فوج کے جوان حفاظتی نقطہ نگاہ سے شناختی کارڈ چیک کرتے اور رجسٹر پر اینٹری کرتے جاتے۔ اسی راستے پر ہلمت، جناوائی، سرداری اور کریم آباد سمیت متعدد تفریحی مقامات بھی آتے ہیں۔ کہیں پگھلتے گلیشیئرز، کہیں کسی خوب صورت گائوں کی چمنی سے نکلتا دھواں، تو کہیں کشمیر کے روایتی سرخ پیرہنوں سے مرصّع خواتین آتی جاتی نظر آتی رہیں۔ اسی رستے میں ایک انتہائی خوب صورت گائوں ’’کریم آباد‘‘ بھی واقع ہے۔ اس وقت وہاں گنّے اور مکئی کی فصل لگی ہوئی تھی اور کھیتوں کے اطراف ترتیب سے کون نما لکڑی کے مختلف رنگوں سے مزیّن مکانات دل فریب منظر پیش کر رہے تھے، ان رنگ برنگے گھروں کی خوب صورتی بارشوں میں اور بھی نکھر جاتی ہے۔ دوپہر تک ہم تائو بٹ پہنچے۔ دریائے نیلم کی شروعات بھی یہیں سے ہوتی ہے، یعنی یہی وہ مقام ہے، جہاں بھارت سے آنے والے دریا ’’گنگا کشن‘‘ کا نام تبدیل ہو کر ’’دریائے نیلم‘‘ ہو جاتا ہے۔ یعنی وہ دریا، جو بھارت میں گنگا کشن کہلاتا ہے آزاد کشمیر، پاکستان میں داخل ہوتے ہی دریائے نیلم کہلانے لگتا ہے۔


کیل واپس پہنچے، تو اندھیرا چھا چکا تھا اور موسلا دھاربارش ہو رہی تھی، لہٰذا سیدھے ہوٹل پہنچنے ہی میں عافیت جانی۔ ہوٹل پہنچ کر تازہ دَم ہوئے تو گرم گرم بریانی اور چکن تکّے ہمارے منتظر تھے۔ چوں کہ صبح شونٹر ویلی کا سفر تھا، لہٰذا فوراً بستروں میں دبک گئے اور لحاف اوڑھ کر خوابِ خرگوش کے مزلے لینے لگے۔ صبح پھر ہم نے پورے دن کے لیے جیپ بُک کی اور شونٹر ویلی کی جانب گام زن ہوئے۔ شونٹر ویلی کا رستہ بھی تائوبٹ کی طرح پتھریلا اور کافی پیچیدہ ہے۔ یہاں بھی صرف جیپ ہی سے سفر کیا جا سکتا ہے، جو اونچے نیچے پتھریلے اور دشوارگزار راستوں پر چلتے ہوئے تقریباً تین گھنٹوں میں شونٹر ویلی پہنچا دیتی ہے۔ یہاں ایک چھوٹی سی انتہائی خوب صورت جھیل بھی موجود ہے۔ جھیل سے آگے خاصا دشوار گزار راستہ شروع ہو جاتا ہے، جس پر جیپ کا سفر بھی ممکن نہیں رہتا، لہٰذا مزید آگے جانے کے لیے ہائیکنگ، یعنی پیدل سفر اختیار کیا جاتا ہے۔

یہاں کچھ وقت گزار کر ہم بھی ہائیکنگ کرتے ہوئے چھے گھنٹے طویل سفر کے بعد ہانپتے کانپتے’’چٹاکٹا جھیل‘‘ پہنچے، تو اس کی سحر انگیزی دیکھ کر ساری تھکان بُھلا بیٹھے۔ سطحِ سمندر سے 3800 میٹر کی بلندی پر واقع یہ جھیل اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کی یخ بستہ ہوائیں اپنے اندر ایک عجیب سی مہک لیے ہوئے تھیں، جو سیّاحوں کو اپنے سحر سے نکلنے ہی نہیں دیتیں۔ اس جھیل سے پَریوں اور جِنوں کی کئی داستانیں بھی منسوب ہیں، لیکن باوجود لاکھ کوششوں کے ہمیں کوئی پَری نہیں ٹکرائی۔ بلاشبہ، چٹاکٹا جھیل کو بھی قدرت نے بے پناہ دل کشی و رعنائی سے نوازا ہے۔


دوپہر ڈھلے ہم نے اس عہد کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کیا کہ دوبارہ جلد ہی خوابوں کے اس دیس میں آئیں گے اور اپنی پَری کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ آج ہماری کیل میں آخری رات تھی، کل ہمیں وادئ نیلم کی سب سے خوب صورت جھیل ’’رتی گلی‘‘ دیکھنا تھی۔ علی الصباح ناشتے سے فارغ ہو کر اپنی گاڑی سے روانہ ہوئے اور دواریاں کے مقام، بذریعہ جیپ 4300 میٹر کی بلندی پر موجود، رتی گلی جھیل کا سفر شروع کیا تو ہمیں پتا چلا، پورا ٹریک نہ صرف پتھریلا، ناہموار ہے، بلکہ خون خشک کر دینے کی حد تک خطرناک بھی ہے۔ کئی جگہوں پر عمودی چڑھائی پر ڈرائیور باوجود اپنے فن میں یکتا ہونے کے ایکسیلیریٹر دبائے رکھتا ہے، لیکن جیپ اوپر نہیں چڑھتی اور دوسری طرف گہری کھائی میں دریائے نیلم چنگھاڑتے ہوئے اپنے طرف بلاتا ہوا اور بھی وحشت ناک لگتا ہے۔ بہرحال، آٹھ کلو میٹر کا یہ پُرخطر سفر تین گھنٹوں میں طے ہوا۔ آگے ٹریک پر ایک بڑے سے گلیشیئر کی وجہ سے ٹریک، جیپ کے لیے بند تھا۔ 

ڈرائیور نے جیپ یہیں کھڑی کر دی اور ہم نے آگے کا سفر پیدل شروع کر دیا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی واک کے بعد رتّی گلی بیس کیمپ پہنچے، تو یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ یہاں لاتعداد سیّاحتی ٹینٹ، کوہ پیمائوں سے بَھرے پڑے تھے۔ جن میں زیادہ تعداد گورے سیّاحوں کی تھی۔ اس بیس کیمپ سے گرد و پیش کا نظارہ قابلِ دید تھا۔ جولائی کا مہینہ ہونے کے باوجود جگہ جگہ برف جمی تھی اور گلیشیئرز پگھل کر چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں تبدیل ہو رہے تھے۔ ماحولیاتی آلودگی نہ ہونے کی وجہ سے حدِنگاہ بہت بڑھ گئی تھی اور دُور دُور تک سرسبز پہاڑ اور میدان واضح نظر آرہے تھے۔ مختلف ممالک سے آنے والے کوہ پیما یہاں کئی کئی دنوں تک پڑائو ڈالتے ہیں۔ہم نے بھی یہاں بچھی بینچوں پرکوئی ایک گھنٹے آرام کے بعد اگلے سفر کے لیے خود کو تازہ دم کیا۔

رتّی گلی جھیل، اس بیس کیمپ سے مزید اوپر ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے، جس کا فاصلہ اگرچہ صرف دو کلومیٹر ہے، لیکن عمودی چڑھائی کے باعث عموماً سیّاح یہ فاصلہ گھوڑے پر یا پیدل طے کرتے ہیں۔ ہم بھی دوسرے سیّاحوں کی تقلید کرتے ہوئے گھوڑے پر رتّی گلی جھیل کی جاب گام زن ہو گئے۔ اس خطرناک عمودی چڑھائی پر سفر کے دوران سردی میں بھی پسینہ آگیا تھا۔ ہمارا گھوڑا اس خطرناک ٹریک پر اس طرح چل رہا تھا، جیسے کوئی حسینہ، اونچی ہیل کی سینڈل پہن کر ریمپ پر بہت احتیاط سے کیٹ واک کر رہی ہو۔ اس وقت ہمارا جو حال تھا، وہی دیگر ساتھیوں کا بھی تھا، لیکن الحمدللہ! باہمت گھوڑے بانوں نے ہمیں باحفاظت 3700 میٹر بلندی پر واقع رتّی گلی جھیل محض آدھے گھنٹے میں پہنچا دیا۔


جیسے ہی گھوڑے نے آخری چڑھائی عبور کی اورہماری نظر رتّی گلی جھیل پر پڑی، تو بے ساختہ زبان سے سبحان اللہ کی صدا بلند ہوئی، ہم کافی دیر تک آس پاس سے بے نیاز رتّی گلی جھیل کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے۔ زبان پر صرف ماشاء اللہ اور سبحان اللہ کا ورد جاری تھا۔ رتی گلی جھیل کا حسن ناقابلِ بیان ہے،اس کا نیلگوں پانی دور ہی سے ایک سحر ساطاری کر دیتا ہے۔ پہاڑ کی کپ نما چوٹی پر شفّاف، سبز جھیل اور جھیل کے اندر اوراس کے اطراف چھوٹے چھوٹے گلیشیئرز اپنے حُسن میں یکتا ہیں۔ اسی طرح اس پہاڑ کی چوٹی پر قدرتی نارنگی رنگ کے پھول، سورج کی زرد کرنیں، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اور فضا میں پھیلی مسحور کن خوشبوئوں کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔ رتّی گلی جھیل ہمارے یادگار سفر کی آخری منزل تھی، قدرت کی اس صنّاعی سے جی بھر کر لطف اندوز ہونے کے باوجود کسی طور یہاں سے واپس جانے کو دل نہیں کر رہا تھا، لیکن جانا تو بہرحال تھا، لہٰذا بوجھل قدموں کے ساتھ یہ سوچ کر واپسی کی راہ لی کہ زندگی رہی، تو دوبارہ پھر یہاں ضرور آئیں گے۔

محمد عبدالرحمٰن ایڈوکیٹ، کراچی

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو
 

کیا اسٹیبلشمنٹ آزادیء اظہار رائے کو محدود کر رہی ہے؟

$
0
0

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے ناقد صحافیوں کی مختلف میڈیا کے اداروں سے برطرفی سے ایک بار پھر یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ ملک کے ’طاقتور حلقے‘ آزادی اظہارِ رائے کو محدود بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں میں وقت ٹی وی کے اینکر اور نوائے وقت کے کالم نگار مطیع اللہ جان کو نوائے وقت گروپ کی طرف سے نوکری سے فارغ کیا گیا۔ صحافی نصرت جاوید کو ڈان نیوز چھوڑنا پڑا جب کہ اینکر و تجزیہ نگار مرتضیٰ سولنگی کو بھی کپیٹل ٹی وی کو خیر باد کہنا پڑا۔ اب خبریں یہ ہیں کہ جیو نیوز کے معروف اینکر پرسن طلعت حسین بھی اپنے چینل کو چھوڑ رہے ہیں۔ ان صحافیوں کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر اپنے ادارے چھوڑنے پڑے لیکن ناقدین کے خیال میں ان چاروں کے درمیان قدرِ مشترک جمہوری نظام کی حمایت اور ملک کی طاقتور ترین اسٹیبلشمنٹ پر تنقید تھی، جس کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔

معروف صحافی مطیع اللہ جان کے خیال میں پاکستان میں آزادی ء اظہارِ رائے کے مواقع سکڑتے جارہے ہیں، ’’میرے خیال میں طاقتور حلقے ملک میں کوئی اسٹرکچرل تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں، جس کے تحت یا تو سیاست دانوں کو بالکل فرمانبردار بنا لیا جائے گا یا پھر وہ غیر ضروری ہو جائیں گے۔ یہ بات واضح ہے کہ آزاد میڈیا کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے تنقید کرنے والی آوازوں کو دبایا جارہا ہے۔‘‘ مارشل لاء کے دور میں پاکستان کے صحافیوں نے بڑی قربانیاں دی اور جبر کا مقابلہ بھی کیا لیکن مطیع اللہ جان کے خیال میں اب پاکستانی صحافت میں طاقتور حلقوں کی طرف سے کئی افراد کو نوکریاں دلوائی گئیں ہیں، ’’ان میں ایک بڑی تعداد اینکرز کی ہے، جن کا کام صرف سیاست دانوں کو گندہ کرنا ہے اور صحافیوں کی ساکھ کو خراب کرنا ہے۔ صحافیوں میں کئی غیر صحافی افراد آ گئے ہیں، جو مختلف اداروں کے لئے کام کرتے ہیں۔ صحافی تنظیموں میں یکجہتی کے فقدان نے بھی صحافی برادری کو نقصان پہنچایا ہے۔ صحافتی تنظیمیں علامتی طور پر احتجاج کرتی ہیں اور وہ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتیں ۔‘‘

مطیع اللہ جان میڈیا مالکان سے بھی نالاں ہیں۔ ان کے خیال میں ان کی ترجیح صحافت نہیں کاروبار ہے،’’میڈیا ہاوسز کے مالکان موجودہ صورتِ حال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور مالی بحران کا بہانہ کر کے کارکنان کو نکال رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک میڈیا گروپ کے مالک نے ایک طرف ایک سو پچاس کارکنان کو نکالا اور دوسری طرف ایک ایئر لائن کا لائسنس بھی لے لیا۔ اگر ادارہ نقصان میں ہے تو ایئر لائن کیسے چل سکتی ہے؟ تو ملک میں ایک عجیب صورتِ حال ہے کہ ایک طرف تو مختلف بزنس گروپ میڈیا کی طرف آرہے ہیں جب کہ دوسری طرف میڈیا مالکان دوسرے کاروباروں کی طرف جا رہے ہیں۔ اس لئے کچھ قوتوں کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ اپنے ناقدین کو فارغ کرائیں۔ اس ساری صورتِحال کے پیشِ نظر میں دیکھ رہا ہوں کہ آنے والا وقت پاکستان میں آزادیء اظہار رائے کے لئے مزید سخت ہو گا۔‘

لیکن کچھ ناقدین کے خیال میں پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر پابندی لگ نہیں رہی بلکہ لگ چکی ہے اور سلیف سینسرشپ اپنے عروج ہے۔ معروف صحافی اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ضیاء الدین کے خیال میں اس سینسر شپ کے پیچھے پی ٹی آئی نہیں ہے،’’میر ے خیال میں پی ٹی آئی اس کے پیچھے نہیں ہے کیونکہ ان کی پارلیمنٹ میں طاقت کم ہے اور وہ کمزور بھی ہے۔ یہ صورتِ حال دراصل مطلق العنان سوچ کی عکاس ہے، جو ہماری اسٹیبلشمنٹ کی ہے۔ پہلے جیو اور ڈان کو سبق سکھایا گیا اور اب رہی سہی آزادی بھی ختم کی جا رہی ہے۔‘‘ 

ماضی میں پاکستانی پارلیمنٹ سے کچھ آوازیں صحافیوں کے لئے آجاتی تھیں لیکن صحافی تنظیموں کا شکوہ ہے کہ پارلیمنٹ بھی اس مسئلے پر خاموش ہے۔ تاہم ایوان بالا سینیٹ کے رکن اور معروف سیاست دان سینیٹر حاصل بزنجو کے خیال میں ایسا تاثر صحیح نہیں ہے،’’میں نے پارلیمنٹ میں دو مرتبہ اس مسئلے پر بات کی لیکن خود میڈیا اس کو کوریج نہیں دیتا۔ جب کراچی پریس کلب پر نامعلوم افراد نے آ کر صحافیوں کو ہراساں کیا، تو میں نے ان سے اظہارِ یکجہتی کی۔ تو پارلیمنٹ ان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار ہے لیکن وہ کوئی پریس کانفرنس تو کریں، کوئی احتجاج یا جلسہ تو کریں۔ ہم بالکل ان کے ساتھ ہوں گے۔‘‘

بشکریہ DW اردو
 

پاکستان میں 2 کروڑ 25 لاکھ بچے اسکولوں سے محروم، رپورٹ

$
0
0

ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 25 لاکھ بچے اسکولوں سے محروم ہیں۔ ڈٓان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایچ آر ڈبلیو کی ’ میں اپنی بیٹی کو کھانا کھلاؤں یا تعلیم دوں، پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹوں‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ میں یہ اخذ کیا گیا ہے کہ بہت سی لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی ہی نہیں جس کی ایک وجہ لڑکیوں کے لیے سرکاری اسکولوں کی کمی ہے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ لڑکوں کے 21 فیصد کے مقابلے میں ملک میں 32 فیصد پرائمری اسکول کی عمر کی لڑکیاں اسکولوں سے محروم ہیں جبکہ نویں جماعت تک کی صرف 13 فیصد لڑکیاں اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2017 کے مقابلے میں پاکستان تعلیم پر تجویز کردہ 4 سے 6 فیصد کے مقابلے میں ملکی مجموعی پیداوار کا 2.8 فیصد سے کم خرچ کرتا ہے۔
اس حوالے سے ایچ آر ڈبلیو وومن رائٹس ڈائریکٹر لیسل گرنتھولٹز نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ ’ حکومت پاکستان کی جانب سے بچوں کو تعلیم دینے میں ناکامی سے لاکھوں لڑکیوں پر تباہ کن اثر پڑ رہا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم نے تعلیم کی خواہشمند بہت سی لڑکیوں کا انٹرویو کیا جو بغیر تعلیم کے ہی بڑی ہوئیں ورنہ ان کے پاس بھی اپنے مستقبل کو بہتر کرنے کے بہت سے مواقع ہوتے‘ ایچ آر ڈبلیو نے اس رپورٹ کے لیے چاروں صوبوں سے انٹرویو کیے، جس میں زیادہ تر لڑکیاں ایسی تھی جو کبھی اسکول نہیں گئی تھیں یا اپنی تعلیم مکمل کرنے سے قاصر رہی تھیں۔

دوسری جانب پاکستان میں ایچ آر ڈبلیو کے وکیل ساروپ اعجاز کا کہنا تھا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت مفت اور لازمی تعلیم دینے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کرے گی، تاہم حکومت کو آئے ہوئے ابھی صرف 90 دن ہوئے ہیں اور یہ امید ہے کہ وہ ٹھوس اقدامات کے ساتھ کام کرے گی‘۔ انہوں نے پی ٹی آئی کی مہم کے دوران تعلیم ایک بڑا پوائنٹ تھا اور اہمیں امید ہے کہ وہ اس پر جلد از جلد کام کرے گی کیونکہ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے‘ ایچ آر ڈبلیو کے ساتھ بچوں کے حقوق کی محقق الین مارٹینز کا کہنا تھا کہ ’ حکومت کی جانب سے مفت اور لازمی تعلیم کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں کمی ہے، جس کی وجہ سے وہ والدین جو اپنی لڑکیوں کو اسکول بھیجنا چاہتے ہیں لیکن وہ ناکام ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ بھاری فیسوں کو بوجھ برداشت نہیں کرپاتے‘۔ رپورٹ میں لڑکیوں کو اسکول سے باہر رکھنے کی جو اہم وجوہات پر نظر ڈالی گئی ان میں حکومت کی جانب سے اسکولوں میں کم سرمایہ کاری، اسکولوں کی کمی، فیسوں اور دیگر اخراجات کا معاملہ، جسمانی سزا اور لازمی تعلیم کے نفاذ میں ناکامی شامل ہیں۔ 

بشکریہ ڈان نیوز اردو

 

افغانستان میں شہید ہونیوالے ایس پی پشاور طاہر داوڑ کون تھے؟

$
0
0

دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ایس پی رورل پشاور طاہر داوڑ نے 23 سال تک پولیس میں خدمات انجام دیں، اے ایس آئی بھرتی ہونے کے بعد اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے وہ ترقی کر کے ایس پی کے عہدے تک پہنچے۔ طاہر داوڑ 4 دسمبر 1968ء کو شمالی وزیرستان کے گاؤں خدی میں پیدا ہوئے، 1982 ءمیں میٹرک، 1984 ء میں بی اے اور 1989 ء میں پشتو ادب میں ایم اے پاس کیا۔
پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیابی کے بعد اے ایس آئی کی حیثیت سے پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی، 1998ء میں ایس ایچ او ٹاؤن بنوں، 2002 ء میں سب انسپکٹر اور 2007 ء میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پائی۔

انہیں قائد اعظم پولیس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، 2009 ء سے 2012 ء تک ایف آئی اے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا، 2014ء میں ڈی ایس پی کرائمز پشاور سرکل اور ڈی ایس پی فقیر آباد رہے۔ طاہر داوڑ 2003ء میں اقوام متحدہ کے امن مشن پر مراکش اور 2005 ء میں سوڈان میں تعینات رہے، 2005 ء میں دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے میں ان کی بائیں ٹانگ اور بازو میں گولیاں لگی تھیں۔ دو ماہ قبل انہیں ایس پی کے عہدے پر ترقی دے کر رورل پشاور میں تعینات کیا گیا۔ ان کے ساتھی پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ ایس پی طاہر داوڑ ایک فرض شناس افسر کے علاوہ بااخلاق اور بہادر انسان بھی تھے۔ قریبی حلقوں کے مطابق طاہر داوڑ ادبی سرگرمیوں میں بھی دلچسپی لیتے تھے اور پشتو زبان میں شاعری بھی کرتے تھے۔ 

 

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live