Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

امریکی پابندیاں ۔ ترکی معاشی جنگ کا شکار

$
0
0

ترکی اور امریکہ کے تعلقات آج کل سرد مہری کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں مزید کشیدگی اُس وقت پیدا ہوئی جب گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی سے اسٹیل اور المونیم کی امپورٹ پر محصول دگنا کرنے کا فیصلہ کیا اور اب یہ تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔ نئے امریکی ٹیرف کے مطابق ترکی سے امپورٹ کئے گئے المونیم پر 20 فیصد اور اسٹیل پر50 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے جس سے ترکی کی امریکہ کو ایکسپورٹ میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی۔ واضح ہو کہ ترکی نیٹو کا اہم ممبر ملک ہے اور دو نیٹو اتحادی ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی کی بڑی وجہ امریکی پادری اینڈریو برنسن ہیں جو ترک حکومت کے خلاف 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے دہشت گردی کے الزام میں ترکی میں قید ہے۔ امریکی پادری پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ کالعدم کردستان ورکرز پارٹی اور جلاوطن ترک مبلغ فتح اللہ گولن کو تعاون فراہم کر رہا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ ترک حکومت امریکی پادری کو فوراً رہا کرے جبکہ ترکی پر دبائو ڈالنے کیلئے ٹرمپ انتظامیہ ترک وزیر قانون عبدالحمید گل اور وزیر داخلہ سلیمان سولو کو امریکی پادری پر من گھڑت الزام لگانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کے امریکہ میں داخلے، اثاثے منجمد کرنے اور امریکی شہریوں کو ان افراد یا ان کے خاندان سے تجارت کرنے پر پابندی عائد کر چکی ہے جس کے ردعمل میں گزشتہ دنوں ترک صدر طیب اردوان بھی امریکی سیکرٹری قانون اور داخلہ جنہیں وفاقی وزیر کا درجہ حاصل ہے، کے ترکی میں داخلے پر پابندی اور اُن کے اثاثے منجمد کرنے کی ہدایت جاری کر چکے ہیں۔ طیب اردوان نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسٹیل اور المونیم کی امریکہ امپورٹ پر محصول دگنا کرنے کو افسوسناک عمل اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) قوانین کے خلاف قرار دیتے ہوئے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اپنے یکطرفہ اور غیر مہذب رجحانات کو ترک نہیں کیا تو ترکی نئے اتحادی اور دوست تلاش کر سکتا ہے۔ 

ایسی اطلاعات ہیں کہ صدر ٹرمپ کے حالیہ اقدام کے فوراً بعد ترک صدر اردوان نے روسی صدر پیوٹن سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات مضبوط بنانے کے حوالے سے بات کی۔ طیب اردوان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ، شام میں کرد فورسز کو مسلح کر رہا ہے اور وہ ترکی کے مذہبی مبلغ فتح اللہ گولن کو بھی ترک حکومت کے حوالے کرنے میں بھی ناکام رہا ہے جبکہ پادری کے معاملے پر امریکہ کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ کی جانب سے محصول دگنا کرنے کے اقدام کے باعث ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ گزشتہ سال لیرا کی قدر میں 40 فیصد کمی آئی تھی جس کے باعث لیرا کی قدر کم ہو کر ڈالر کے مقابلے میں 5 لیرا ہو گئی ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ مزید امریکی پابندیاں لگنے سے ترک حکومت کے مفادات پر شدید ضرب پڑے گی جس کا اثر ترک کرنسی لیرا پر بھی پڑے گا تاہم ترک صدر طیب اردوان نے لیرا کی قدر میں کمی کو عالمی طاقتوں کا گٹھ جوڑ قرار دیا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر امریکہ کے پاس ڈالر کی طاقت ہے تو ہمارے پاس اللہ اور عوام کی طاقت ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان حالیہ الیکشن میں واضح اکثریت سے کامیابی، نئے اختیارات حاصل ہونے اور ترکی میں وزیراعظم کا عہدہ ختم کئے جانے کے بعد ملک کے طاقتور ترین حکمران بن گئے ہیں جنہیں اب ترکی کا ’’نیا سلطان‘‘ بھی کہا جارہا ہے۔ وہ اسلامی ممالک میں بھی ایک لیڈر کے طور پر ابھر رہے ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف شعلہ بیانی کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ رواں سال اپریل میں ترک صدر اردوان نے اسرائیل کو زمین پر قبضہ کرنے والا دہشت گرد ملک قرار دیا تھا جبکہ وہ اس سے قبل کئی بار اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ ترک صدر نے امریکہ کی جانب سے یروشلم میں اپنا سفارتخانہ منتقل کئے جانے پر بھی امریکی صدر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جبکہ رواں سال مئی میں فلسطینی مظاہرین پر امریکی بمباری کے نتیجے میں کئی فلسطینیوں کی شہادت پر ترک صدر نے اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کرنے کا حکم دیا تھا۔ 

ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل، ترک صدر اردوان کی الیکشن میں کامیابی اور انہیں ملنے والی نئی طاقت سے خوش نہیں اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ اردوان ترکی اور اسلامی دنیا کا بڑا لیڈر بن کر ابھرے، اس لئے وہ ایران کی طرح ترکی پر پابندیاں عائد کر کے اس کی معیشت کو تباہی سے دوچار کرنا چاہتے ہیں تاکہ عوام میں ان کی مقبولیت کو کم کر کے انہیں اردوان حکومت کے خلاف اکسایا جائے مگر ترکی کے عوام امریکی اور اسرائیلی منصوبوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور وہ امریکی و اسرائیلی مذموم ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے تاہم بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق اس بات کا خدشہ ہے کہ ترکی پر مزید امریکی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں جس سے ترک معیشت شدید متاثر ہو گی۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ کشیدہ تعلقات کے باعث امریکی کانگریس بھی ترکی پر دبائو ڈالنے کیلئے S-35 فائٹر طیارے کے سودے منسوخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر ترک صدر طیب اردوان نے عوام سے اپیل کی کہ وہ آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہیں اور اپنے پاس موجود سونا اور ڈالر سمیت دیگر غیر ملکی کرنسیاں فروخت کر کے ترک کرنسی خریدیں کیونکہ ترکی اس وقت معاشی جنگ سے دوچار ہے۔

ترکی کے ساتھ امریکی رویہ اور پابندیاں پاکستان کیلئے بھی ایک سبق ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کچھ روز قبل پاکستان کے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بارے میں سخت بیان دے چکے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف امریکہ کے کہنے پر پاکستان کو قرضہ دینے کیلئے سخت شرائط عائد کرے گا جبکہ وہ پاکستان میں قید اپنے ایجنٹ شکیل آفریدی کی رہائی کیلئے بھی ترکی کی طرح پاکستان پر دبائو ڈال سکتا ہے۔ بہرحال ترکی کے صدر طیب اردوان اگر دوست ممالک کے کہنے پر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے پر امریکی پادری کو رہا کرنے کا فیصلہ بھی کرتے ہیں تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ امریکہ اور ترکی کے تعلقات پہلے کی سطح پر بحال نہیں ہو سکتے۔

مرزا اشتیاق بیگ
 


پاک امریکا زوال پزیر فوجی تعلقات

$
0
0

یہ خبر قطعی کسی حیرت کا باعث نہیں بنی ہو گی کہ امریکا نے پاکستان کو اپنے انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام دائرے سے خارج کر دیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت اس سال چھیاسٹھ پاکستانی فوجی افسروں کو تربیت کے لیے امریکا جانا تھا اس فیصلے کے بعد کوئی بھی پاکستانی امریکا نہیں جائے گا۔ اب پاکستان کی جگہ کسی دوسرے ملک کے فوجی افسر اس تربیت سے استفادہ کریں گے۔ اس منسوخ شدہ پروگرام کی مجموعی مالیت چوبیس لاکھ ڈالر ہے۔ اس پروگرام کے تحت مجموعی طور پر پاکستان کے تین ہزار سات سو چھیاسٹھ فوجی افسروں نے تربیت حاصل کرنا تھی۔

پاکستانی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی نے اس فیصلے کو ظالمانہ قرار دیا ہے جب کہ سابق امریکی نمائندے ڈین فیلڈ مین نے اسے تنگ نظری قرار دیا ہے۔ دونوں طرف کے فوجی حکام نے تاحال اس فیصلے پر تبصرہ نہیں کیا۔ امریکا کی طرف سے پاکستان فوج کو تربیت کی حاصل سہولت اچانک ختم نہیں ہوئی اس کے پیچھے دہائیوں کی کشمکش، کشیدگی، رنجش، دوری اور ڈومور اور نو مور کی تکرار ہے۔ پاکستان سے امریکا کا جی اسی وقت بھر گیا تھا جب سوویت یونین افغانستان میں اپنے فوجی مقاصد میں ناکام ہوکر واپس لوٹ گیا تھا اور یہ دیوہیکل ریاست کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی۔ اس سے امریکا کے لیے پاکستان کی فوری اور اہم ترین ضرورت ختم ہو گئی تھی۔

امریکا نے افغان جنگ کے اثرات بھگتنے کے لیے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ سرد جنگ کے بعد امریکا کی خطے میں نئی ضرورتیں اور نئے مقاصد تھے۔ اب سوویت یونین کا سرخ لاوے کے پھٹ پڑنے کا خطرہ ٹل گیا تھا اور اس کی جگہ امریکا کو ایک خاموش خطرے کی بو محسوس ہو رہی تھی۔ یہ خطرہ چین سے تھا اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کو جنوبی ایشیا میں ایک ایسے طاقتور اتحادی کی ضرورت تھی۔ پاکستان چین کا روایتی دوست تھا اس لیے شاید وہ یہ ضرورت پوری کرنے سے قاصر تھا اس لیے امریکا کی نظرِ انتخاب بھارت پر جا ٹھیری۔ امریکا نے جنوبی ایشیا میں اپنے انڈے اور ڈنڈے بھارت کی ٹوکری میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کو بھارت کے ساتھ نتھی کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ 

یہ حکمت عملی بیک فائر کر گئی اور یہی پاک امریکا تعلقات کو لاحق بیماری کی بنیاد بنی۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کے سنجیدہ اور گہرے اختلافات تھے جن کی جڑیں تاریخ میں بہت دور تک پیوست تھیں۔ ان اختلافات کو باوقار انداز میں ختم کیے بغیر دونوں ملکوں کا قریب آنا ممکن تھا۔ نائن الیون نے ایک نئی صورت حال کو جنم دیا۔ امریکا نے پاکستان کے لیے ’’ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں‘‘ کی لکیر کھینچ دی اور یوں ایک کھینچا تانی کا آغاز ہو گیا۔ افغانستان میں بھارت کا اثر رسوخ پاک امریکا تعلقات کو گھن کی طرح اندر ہی اندر چاٹتا چلا گیا۔ یہاں تک دونوں ملکوں کے فوجی اور سیاسی تعلقات میں تضاد پیدا ہو گیا۔ دہشت گردی اور دہشت گرد، ہیرو اور ولن کی تصورات بدل گئے۔ اس سے یہ تصور بھی بدل گیا کہ امریکا پاکستان میں فوج کا اتحادی ہے اور جرنیل امریکا کے اشارے پر مارشل لا لگاتے رہے ہیں۔

امریکا نے فوج سے اپنا ناتا توڑ کر سویلین حکمرانوں اور بڑی سیاسی جماعتوں کو شیشے میں اُتارنے کی حکمت عملی اختیار کی اور یوں پاکستان میں سویلین ملٹری کشمکش تیز ہو گئی۔ امریکا نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر ناگواریت کا مسلسل اظہار جاری رکھا اور دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان سلالہ کا ایسا واقعہ ہوا جس نے اشتراک اور اتحادی کا رہا سہا بھرم ختم کر دیا۔ یہ پاک افغان سرحد پر امریکی فوج کا فضائی حملہ تھا جس میں دو درجن سے زیادہ فوجی جاں بحق ہوئے تھے۔ اب فوجی افسروں کی تربیت کا خاتمہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا دائرہ سکڑنے کی انتہا ہے۔ امریکا اب کرۂ ارض کی واحد طاقت نہیں رہا۔ یونی پولر نظام کا عارضی سورج اب ڈھلنے کی طرف رواں ہے اس کے باجود امریکا کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ہمارے لیے یہ کسی طور بھی اچھا نہیں کہ ایک عالمی طاقت ہم سے اور ہم اس سے قطع تعلق کرتے جا رہے ہیں۔ 

ماضی میں بھی ہم سوویت یونین سے کلی طور پر کٹ کر امریکا کے پلڑے میں جھولتے رہے اور اس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی عدم توازن کا شکار رہی۔ سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدات میں ہماری شمولیت سے سوویت یونین درپے آزار رہا اور حسبِ ضرورت امریکا بھی مدد کو نہ آیا۔ امریکا کا ساتواں بحری بیڑہ اس کی توتا چشمی کا محاورہ بن کر رہ گیا۔ کئی دہائیاں گزر چکی ہیں اور آج بھی مشکل وقت میں وعدہ فردا پر ٹرخانے کی بات ہو تو امریکا کے ساتویں بحری بیڑے کی مثال دی جاتی ہے۔ ایک بڑی عالمی طاقت کے ساتھ پاکستان کے فوجی تعلقات میں روکھا پن ایک المیہ ہے مگر امریکا نے یہ ناگزیر بنا دیا ہے۔ 

بات عسکری تربیت کی نہیں۔ افغانستان میں امریکی فوج کا حال دیکھیں تو ان سے تربیت لینے کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہتی مگر کچھ چیزیں علامتی ہوتی ہیں۔ جو جرنیل امریکا سے تربیت حاصل کر کے آتے تھے وہ بلاشبہ ذہنی طور پر امریکا سے متاثر اور مغلوب ہو تے تھے۔ یہی لوگ پاکستان اور امریکا کی فوجی پارٹنر شپ کو اچھے طریقے سے چلاتے تھے۔ اب شاید امریکی بھارت کی قیمت پر پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کے قائل ہی نہیں رہے بالخصوص امریکا میں جس پاکستان مخالف لابی کے مشورے سے پاکستان پالیسی بن رہی ہے اس کی سوچ وفکر یہی ہے کہ پاکستان کی کلائی مروڑ دی جائے اور اگر اس سے کام نہیں چلتا تو پاکستان سے قطع تعلق کر دیا جائے۔ پاکستان کے پاس چین اور روس جیسے علاقائی اتحادیوں کی شکل میں متبادل موجود ہے اور امریکا بھی اس حقیقت سے غافل نہیں۔

عارف بہار
 

آزادی کے 71 سال اور پاکستانیوں کا جذبہ حب الوطنی

$
0
0

پاکستانی قوم نے 72ویں یوم آزادی کو روایتی جوش و خروش اور قومی جذبے سے منایا، شہر شہر قریہ قریہ بچے، جوان، بوڑھے اور خواتین جذبہ حب الوطنی سے سرشار نظر آئے۔ آزادی کا جشن موٹر سائیکلوں اور کاروں میں سوار پرجوش نوجوانوں نے گزشتہ رات سے ہی منانا شروع کر دیا تھا، اس دوران نوجوان ہاتھوں میں پرچم اٹھائے سڑکوں پر نعرے بلند کرتے اور ملی نغمے گاتے نظر آئے۔ آزادی کا سورج وفاقی دارالحکومت میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21 توپوں کی سلامی کے ساتھ ہوا جس کے بعد تقریباً تمام نجی و سرکاری اداروں میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ 

ملک بھر کی تقریباً تمام درس گاہوں میں بھی جشن آزادی منانے کے لیے تقریبات کا انعقاد کیا گیا جس میں نوجوانوں، بچوں سمیت اساتذہ نے بھی حصہ لیا اور حب الوطنی کا اظہار کیا۔ پاکستان کی بھارت اور افغانستان سے ملنے والی سرحد ظور خم اور واہگہ بارڈر پر بھی جذبہ خیر سگالی کے طور پر بھارت اور افغانستان کی سرحدی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مٹھائیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ صدر مملکت ممنون حسین اور نگراں وزیر اعلیٰ ناصر الملک نے بھی 14 اگست کو قوم سے علیحدہ علیحدہ خطاب کیا۔









سوشل میڈیا کنٹرول ایکٹ بن گیا

$
0
0

چیئرمین پی ٹی اے نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ کو بتایا ہے کہ سوشل میڈیا کنٹرول ایکٹ بن گیا ہے جس کے تحت تین سال کی سزا اور ایک کروڑ روپے جرمانہ ہو گا۔ کمیٹی کوبتایا گیا کہ بلاک کی گئی سائٹس میں ریاست مخالف 4 ہزار 799، عدلیہ مخالف 3 ہزار 719، مذہب مخالف مواد کی 31 ہزار 963 اور عریانی و فحاشی کی 7 لاکھ 68 ہزار سائٹس شامل ہیں۔ پی ٹی اے حکام نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ فیس بک، واٹس ایپ، ڈیلی موشن، یو ٹیوب اور دیگر ویب سائٹس کے فوکل پرسن نامزد کر دیئے گئے ہیں جو پی ٹی اے سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
 

انڈین ریاست کیرالہ میں صدی کا بدترین سیلاب

$
0
0

انڈیا کی ریاست کیرالہ میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 324 تک پہنچ گئی ہے۔

اس وقت ہزاروں کی تعداد میں افراد سیلابی پانی میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں جن کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر امدادای کارروائیاں جاری ہیں۔ 

کیرالہ میں کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی شدید بارشوں کے نتیجے میں مٹی کے تودے گرنے اور بارشوں کے نتیجے میں آنے سیلاب نے تباہی مچا دی۔





نوجوت سنگھ سدھو کے خلاف بھارتی میڈیا کا منفی پروپیگنڈا

$
0
0

پاکستان کے نو منتخب وزیرِ اعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے اسلام آباد آنا نوجوت سنگھ سدھو کے لیے مصیبت بن گیا۔ عمران خان کی جانب سے سنیل گواسکر، کپل دیو اور نوجوت سنگھ سدھو کو پاکستان مدعو کرنے پر بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین میں پہلے ہی غصہ پایا جارہا تھا، تاہم حلف برداری کی تقریب میں سدھو کی شرکت کے بعد بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین نے سدھو پر تنقید کے تیر برسانے شروع کر دیے۔ بھارتی نیوز ایجنسی اے این آئی نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک خبر شائع کی جس میں بتایا گیا کہ نوجوت سنگھ سدھو عمران خان کی حلف برداری کی تقریب کے دوران آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ یہ بات منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے اپنی تمام توپوں کا رخ سدھو کی جانب کر دیا۔ اے این آئی کی ایڈیٹر نیوز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ’سدھو صاحب آپ پر لعنت ہو، آپ جان بوجھ کر آزاد کشمیر کے صدر کے ساتھ بیٹھے ہیں، کس منہ سے اپنے ملک کے لوگوں کو جواب دو گے‘۔ انہوں نے اپنے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ کسی نے یہ چیک لسٹ تیار کی ہے جس میں یہ پتہ لگ سکے کہ سدھو کو اسلام آباد بھیجنے میں کتنی بے عزتی ہوئی۔

ایک صارف نے اپنے پیغام میں کہا کہ نوجوت سدھو نے پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو گلے لگایا ہے، تاہم ان کے لیے جو عزت تھی اب وہ ختم ہو گئی ہے۔ صارف نے یہ بھی کہا کہ ایک غدار نے پاکستان آرمی کے سربراہ کو گلے لگایا۔ ایک صارف نے اپنے پیغام میں کہا کہ کبھی سدھو اٹل بہاری واجپائی کو اپنا سیاسی استاد مانتے تھے، لیکن انہوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی، آج جب پورا بھارت واجپائی کی موت کا غم منا رہا ہے تو سدھو پاکستانی وزیرِ اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے واہگہ بارڈر سے بولی وڈ اسٹائل میں گئے۔ صارف کا مزید کہنا تھا کہ سدھو نے پاکستان میں پنجابی شاعری پڑھی، گرے اور پھر گرتے چلے گئے۔ ایک بھارتی صارف نے اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان میں عمران خان کی حلف برداری کی تقریب ایک کامیڈی شو تھا، اور انہوں نے سدھو کو ایک جج کے طور پر مدعو کیا تھا۔



 

پاکستان کی قومی اسمبلی کے 8 ارکان ارب پتی، اکثریت کروڑ پتی

$
0
0

قومی اسمبلی کے نومنتخب ارکان کی اکثریت کروڑ پتی ہے، ان میں 8 ارکان تو اربوں کی جائیداد کے مالک ہیں، پی ٹی آئی کے نور عالم خان امیر ترین رکن اسمبلی ہیں۔ بلاول بھٹو تیسرے سب سے زیادہ امیر ایم این اے تو انہی کی جماعت کی خاتون رکن نصیبہ چنا غریب ترین رکن اسمبلی ہیں، زیادہ تر کا پیشہ زراعت ہے تو درجن سے زائد گھریلو خواتین تاہم ایک تہائی اراکین ایسے بھی ہیں جو پہلی بار ایوان کا حصہ بنے ہیں۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک ’فافن ‘ نے قومی اسمبلی ارکان سے متعلق تفصیلی رپورٹ مرتب کر لی ہے، جس کے مطابق قومی اسمبلی کے 8 ارکان ایسے ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت اربوں میں ہے، ان میں 4 کا تعلق پی ٹی آئی اور2 ن لیگی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کےامیر ترین رکن قومی اسمبلی نور عالم خان ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت سوا 3 ارب ، ن لیگ کے احسان باجوہ سوا 2 ارب سے زائد کے اثاثوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے اثاثوں کی مالیت 1 ارب 54 کروڑ بتائی گئی ہے تاہم 5 ارکان ایسے ہیں، جن کے اثاثوں کی مالیت 10 لاکھ سے بھی کم ہےاور پیپلز پارٹی کی مخصوص نشست پر منتخب رکن نصیبہ چنا کے اثاثوں کی مالیت محض 3 لاکھ 40 ہزار ہے۔
اسمبلی کے 132 ارکان ایسے ہیں جو پہلی بار رکن منتخب ہوئے، ان میں پی ٹی آئی کے 77 اور ن لیگ کے 54 ارکان شامل ہیں، اسمبلی میں 116 گریجویٹ 79 ماسٹرز اور 21 میٹرک پاس ہیں۔

پیشے کے اعتبار سے اسمبلی کے سب سےزیادہ اراکین زرعی شعبے سے وابستہ ہیں، جن کی تعداد 79 ہے، 32 فل ٹائم پارلیمنٹینرز یا سیاستدان ہیں،11 درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، 15 خواتین اراکین ہائوس وائف ہیں۔ اسمبلی کے 35 ارکان ایسے ہیں، جن کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں ،ان میں 18 پی ٹی آئی اراکین ہیں جبکہ 9 کا تعلق ن لیگ اور 5 کا پیپلز پارٹی سے ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ کراچی
 

مغل فن تعمیر

$
0
0

مغل خاندان نے برصغیر پاک و ہند کو فن تعمیر کے جو نوادرات دیے ہیں اس کی مثال شاید دنیا میں کہیں اور نہ ملے۔ انہوں نے برصغیر، ترک، ایرانی اور مختلف علاقوں کے فن تعمیر کے امتزاج سے انتہائی حسین عمارتیں تعمیر کیں۔ ہمایوں کا مقبرہ سولہویں صدی میں تعمیر ہوا۔ اسی سے مغل فن تعمیر کی باقاعدہ ابتدا ہوتی ہے۔ یہ سرخ پتھر اور سنگ مرمر سے بنا ہے لیکن اس پر ایرانی فن تعمیر غالب ہے۔ آگرہ کا لال قلعہ اور فتح پور سیکری شہنشاہ اکبر کے ذوق تعمیر کے نمونے ہیں۔ لال قلعہ کے اندر محلات کا سلسلہ ہے۔ ایک نہایت حسین مسجد بھی ہے اور ان سب کے اطراف سرخ پتھر کی بنی ایک بہت اونچی فصیل ہے جس کے اطراف میں خندق ہے۔ قلعے کے اندر جانے کے لیے بہت بڑے بڑے پھاٹک بنے ہیں۔ اس کے اندر کی عمارتوں میں جہانگیر اور پھر شاہجہان نے اضافے کیے۔ 

شہنشاہ اکبر کے ذوق تعمیر کا مکمل نمونہ فتح پور سیکری ہے جسے وہ اپنا پایۂ تخت بنانا چاہتا تھا لیکن پانی نہ ہونے کی وجہ سے اسے بن بسائے چھوڑنا پڑا۔ اس میں ایک عظیم جامع مسجد ہے جس کے داخلے پر بلند دروازہ ہے جو اپنی بلندی اور شوکت میں جواب نہیں رکھتا۔ یہ عمارت مغل دور کی اعلیٰ ترین عمارتوں میں سے ہے۔ اس کے اندر سب سے خوبصورت محل جودھا بائی کا ہے جس پر برصغیر کے روایتی فن تعمیر کی گہری چھاپ ہے۔ ویسے پنچ محل، دیوان عام، دیوان خاص سب ہی برصغیر، ترک و ایرانی فن تعمیر کے امتزاج کے اعلیٰ نمونے ہیں۔ ان سب عمارتوں میں کمانیں بہت کم استعمال ہوئیں۔ جہانگیر نے اکبر کا مقبرہ 1613ء میں سکندرہ میں تعمیر کروایا۔ یہ نہایت عالی شان اور نئے ڈیزائن کا ہے۔ جہانگیر کے زمانے میں عمارتیں زیادہ نہیں بنیں۔ کچھ لاہور میں ہیں۔ ایک نادر عمارت اس کے خسر اعتماد الدولہ کا آگرہ میں مقبرہ ہے۔ یہ چھوٹا سا مقبرہ اپنے حسن اور نزاکت میں جواب نہیں رکھتا۔ 

مغل شہنشاہوں میں تعمیری ذوق میں شاہجہاں کو کوئی اور نہ پہنچ سکا۔ دلی کا لال قلعہ اسی کا بنوایا ہوا ہے، جس میں شاندار دیوان عام بھی ہے۔ اس کی چھت سپاٹ ہے اور نوکدار کمانوں پر کھڑی ہے۔ اس کے علاوہ دیوان خاص اور دوسری عمارتوں میں منبت کاری کا خوبصورت کام ہے۔ دلی کی جامع مسجد بھی اسی کی بنوائی ہوئی ہے جس کا شمار برصغیر کی خوبصورت ترین مساجد میں ہوتا ہے۔ دیگر عمارتوں میں سب سے خوبصورت تاج محل خیال کیا جاتا ہے جو اس نے اپنی ملکہ ممتاز محل کے لیے بنوایا تھا۔ یہ عمارت دنیا کی حسین ترین عمارتوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ عمارت اتنی عظیم ہونے کے باوجود نہایت متناسب اور خوبصورت ہے۔ پورا مقبرہ ایک اونچے چبوترے پر سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے اور اوپر بہت بڑا گنبد ہے۔ چاروں کونوں پر چار مینار ہیں۔

مقبرے کے اندر ممتاز محل کے برابر شاہجہان بھی دفن ہیں اور قبروں کی چاروں طرف انتہائی نازک سنگ مر مر کی جالی ہے۔ مقبرے پر جگہ جگہ قرآن مجید کی آیتیں بڑی خوبصورتی سے پتھروں پر لکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ رنگ برنگ کے پتھروں اور سنگ مرمر کے نہایت خوبصورت گل بوٹے اور شکلیں بنائی گئی ہیں۔ خوبصورت باغ اور فوارے ہیں۔ پوری عمارت بنیادی طور پر ایرانی رنگ کی ہے لیکن اس کے اندر برصغیر کے فن تعمیر کو نہایت خوبصورتی سے سمویا گیا ہے۔ خاص طور پر چھجوں اور برجوں کے ڈیزائن اور منبت کاری وغیرہ۔ اس کے علاوہ شاہجہان کے دور حکومت میں دو اور خوبصورت مسجدیں موتی مسجد اور جامع مسجد آگرہ بھی تعمیر ہوئیں۔ شاہجہاں کا دور حکمرانی فن تعمیر کے لحاظ سے مغلیہ دور کا عہد زریں تھا۔ اورنگ زیب کے دور میں اورنگ آباد میں مقبرہ رابعہ الدورانی، لاہور کی بادشاہی مسجد اور لال قلعہ دلی کی موتی مسجد تعمیر ہوئی۔ مغلیہ دور کی آخری اہم عمارت دلی میں صفدر جنگ کا مقبرہ ہے۔

وردہ بلوچ


 


Pakistan's colorful sacrificial animal market

$
0
0
As the Muslim holiday Eid al-Adha, or the Feast of Sacrifice, approaches, Pakistan's sacrificial animal market gave way to a rainbow of colors with animals being adorned and bedazzled with various beads and bling 











کیا پاکستان میں قوم پرست سیاست ناکام ہو گئی ؟

$
0
0

قومی جماعتوں یا نظریاتی سیاست کی ناکامی سے قوم پرست جماعتوں کو موقع مل سکتا تھا مگر جب بھی عام یا بلدیاتی انتخابات آئے وہ بار بار ناکام ہوئیں۔ ان کا اکثر استعمال کیا جاتا رہا یا ان پر یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ وہ ذاتی مفادات کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں۔ ان کی انتخابی کارکردگی تو مذہبی جماعتوں سے بھی بدترین ہے اور 2018 کے انتخابات میں انہوں نے اپنی شکست کے ریکارڈ کو برقرار رکھا۔ ان کی انتخابات میں مستقل ناکامی کی کیا وجہ بنی؟ جہاں تک قوم پرستی کے احساسات کا تعلق ہے تو وہ خصوصاً بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ہمیشہ ہی شدید رہتے ہیں بلکہ جنوبی پنجاب میں بھی ’جنوبی پنجاب صوبہ‘ کے نعرہ پر بھی جنوبی پنجاب کے ’الیکٹیبلز‘ نے قبضہ جما لیا اور مرکز میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لیں۔ 

اس کا سہرا قوم پرست سیاست کو جاتا ہے کہ صوبائی خود مختاری کا معاملہ اب آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے حل کیا جا چکا ہے اور اب یہ صوبوں پر منحصر ہے کہ وہ ڈلیور کریں۔ اگر یہ معاملہ آزادی کے فوری بعد حل ہو چکا ہوتا تو ہمیں مشرقی پاکستان کا سانحہ نہ دیکھنا پڑتا۔ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے سے بلدیاتی حکومتوں کو اختیار دے کر عوام تک زرعی اصلاحات اور اختیارات کی منتقلی سے ہم سیاسی نرسریوں کی تعمیر نو کر سکتے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کی
طرح قوم پرست جماعتوں کا کردار کم و بیش مضبوط پریشر گروہ کا سا ہے جو انتخابی محاذ پر ناکام ہو گیا۔ حالیہ ہونے والے انتخابات میں ’جنوبی پنجاب‘ کا قوم پرست نعرے کا الیکٹیبلز کے ایک گروہ نے ’جنوبی پنجاب صوبہ محاز‘ کے نام سے واضح طور پر فائدہ اٹھایا اور اب وہ حکمران اتحاد کا حصہ ہیں۔ 

کسی کو بھی ’تاج لانگا‘ تک یاد نہیں جن کی سرائیکی جماعت ایک سیٹ تک نہیں جیت سکی اور بہت سے انتخابات میں ضمانتیں تک ہار گئی۔ لیکن اگر لانگا کی جدوجہد سرائیکی صوبے کیلئے تھی تو انہیں کامیاب ہو جانا چاہئے تھا کیونکہ اب یہ حکمران جماعت تحریک انصاف کیلئے ذمہ داری والا معاملہ بن گیا ہے جس کا اس نے وعدہ کیا تھا اور اگر وہ واقعی مخلص ہیں تو اس تحریک کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی جانب سے اختلاف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ انہوں نے بھی یہی وعدہ کیا تھا۔ اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو پچھلی پنجاب اسمبلی دو تہائی اکثریت سے قرار داد بھی پاس کر چکی ہے۔ اب یہ تحریک انصاف حکومت کی ذمہ داری ہے اور انہیں آئینی ترمیم کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

قوم پرست سیاست کی مضبوط بنیادیں ہمیشہ ہی سے تب کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں رہی ہیں جس کا نام پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے اصرار پر بدل کر خیبر پختونخوا رکھا۔ اے این پی کو 2013 میں فائدہ پہنچ سکتا تھا کیونکہ انہوں نے اس صوبہ کو شناخت دینے کا ٹھیک دعویٰ کیا تھا مگر وہ انتخابات میں ناکام ہو گئے۔ دو عناصر ہیں جنہوں نے 2013 میں اے این پی کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ پہلا یہ کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے دھمکیاں ملنا اور اس کے کارکنوں اور رہنماؤں کا قتل جس کے باعث اے این پی حکومت بنانے کیلئے زیادہ سیٹیں نہیں لے سکی اور دوسرا اے این پی کی اتحادی حکومت کی حکمرانی یا نظم و ضبط میں ناکامی۔ 

وہ اب 2013 اور 2018 کے دو سیدھے سیدھے انتخابات ہار چکے ہیں۔ یہ تجربہ کار سیاستدان اسفند یار ولی خان کی متواتر دوسری شکست ہے ورنہ ان کا یہ اعلیٰ مرتبہ ان کا اپنا حاصل کردہ ہے۔ مگر یہی وقت ہے کہ اے این پی کو سنجیدگی سے اپنی سیاست پر غور کرنا چاہئے اور یہی وقت ہے کہ انہیں اپنے بنیادی اصولوں پر دوبارہ چلنا چاہئے جو اس وقت کی مدفون نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) کے پروگرام میں طے کئے گئے تھے بجائے اس کے کہ وہ خود کو پشتون قوم پرستی تک محدود رکھیں۔ بلوچستان کے محرکات بالکل مختلف ہیں کیونکہ یہ کم و بیش طاقتور سرداروں اور قبیلوں کے گرد گھومتے ہیں۔ پچھلے 15 سے 20 سالوں میں بلوچ نوجوان شاہی خاندان کی سیاست اور سرداروں کے استحصال دونوں سے مایوس دکھائی دئیے۔ مرکزی دھارے کی قومی جماعتوں کی غیر موجودگی میں انہوں نے یا تو علیحدگی پسند گروہوں میں شمولیت اختیار کی یا مایوس ہو گئے۔

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو اس بات کا سہرا دینا چاہئے کہ انہوں نے اپنی ہی جماعت کے نامزد کردہ سردار ثناء اللہ زہری کو مطمئن کرنے کی کوشش میں نصف مدت ہی کیلئے سہی پر ڈاکٹر عبد المالک جیسے قوم پرست کو وزیر اعلیٰ نامزد کر کے ایک نڈر فیصلہ کیا۔ اگر چہ اس سے زیادہ مدد نہیں ملی مگر یہ ایک مثبت اقدام تھا اور وہ بھی کسی ایسے شخص کی جانب سے جس کا تعلق پنجاب سے ہے۔ جولائی کی 25 تاریخ کو ہونے والے انتخابات میں بی این پی (مینگل) نے عملی طور پر نیشنل پارٹی کی جگہ لے لی اور محض دو معروف قوم پرست رہنماؤں سردار اختر مینگل اور شاہ زین مری کا انتخاب کر لیا گیا۔ حالانکہ بی این پی خود کو اکثریتی جماعت کے طور پر خود کو رجسٹرڈ کروانے کیلئے زیادہ سیٹیں نہیں جیت پائی اور ان کے پاس کوئی اور چارا نہیں بچا تھا سوائے اس کے کہ مبینہ شہنشاہ جماعت یعنی بلوچستان عوامی پارٹی سے ہاتھ ملا لیں جس نے مسلم لیگ نون کی جگہ لے لی۔

بی اے پی کی اچانک کامیابی نے بلوچستان کی سیاست کی ناقص کارکردگی کے حوالے سے سنجیدہ سوال کو جنم دیا ۔ یہ ایک دوہری مشکل ہے کہ صوبے میں ایم پی ایز کرپشن اور سودے بازی سے بہت زیادہ غیر محفوظ ہو گئے۔ سیاسی طور پر بلوچستان قوم پرست سرداروں، پشتون قوم پرستوں اور مذہبی انتہا پسندوں میں بٹا ہوا ہے۔ یوں اس کی سیاست بہت زیادہ پیچیدہ ہے اور اکثر محض نعروں کے ذریعے ہی فائدہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ قومی جماعتوں کی جانب سے خاص طور پر ایک سنجیدہ غور کی ضرورت ہے۔ سندھ میں قوم پرست جماعتوں نے ہمیشہ ہی ذلت آمیز شکست کا سامنا کیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ پیپلز پارٹی کا دوہرا کردار ہے کیونکہ وہ جب سے سندھ میں آئی ہے ملک کی معروف قومی اور قوم پرست جماعت بن گئی ہے۔ 

یوں جب بھی کسی قوم پرست جماعت یا رہنما نے کوئی مہم شروع کرنا چاہی جیسے کہ کالا باغ یا ایم کیو ایم مخالف مہم تو انہوں نے پیپلز پارٹی کو سب سے آگے پایا۔ یوں سندھ میں قوم پرستوں نے اکثر دیگر جماعتوں جیسے کہ مسلم لیگ فنکشنل، پاکستان مسلم لیگ اور اب کسی حد تک پی ٹی آئی میں پناہ حاصل کی۔ ان کے لئے مشترکہ وجہ پی پی کی مخالفت رہ گئی ہے۔ مہاجر یا اردو بولنے والوں نے مختلف حالات میں کوٹہ سسٹم دیکھا مگر ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) نے کوٹہ سسٹم قوم پرستی کے احساس، جسے جی ایم سید (مرحوم) نےاستعمال کیا، کو کم کرنے کیلئے استعمال کیا اور سندھی نوجوانوں کو مرکزی دھارے میں لائے اور سندھی متوسط طبقے کو اٹھایا۔ اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ جی ایم سید ذوالفقار علی بھٹو سے کیوں ناراض تھے کہ انہوں نے 1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران ضیاء الحق سے ہاتھ ملا لیا۔

جئے سندھ کی تقسیم در تقسیم کے بعد دوسری واحد قوم پرست جماعت جو پیپلز پارٹی کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی وہ رسول بخش پلیجو (مرحوم) کی جماعت عوامی تحریک ہے۔ وہ ایم آر ڈی تحریک کے دوران ایک بہت بڑے نام کے ساتھ ابھر کر سامنے آئے اور ان کی جماعت میں بہت زیادہ منظم بازو تھے جن میں عورتیں اور دیہاتی شامل تھے۔ بدقسمتی سے پلیجو اور ان کی جماعت عوامی تحریک بھی ناکام ہو گئے کیونکہ وہ کچھ علاقوں میں اپنا کردار نہیں پھیلا پائے اور جئے سندھ کے طور پر انتخابات میں ناکام ہو گئے۔ ان کے متحرک بیٹے ایاز لطیف پلیجو، جن کے بعد میں اپنے والد سے اختلافات پیدا ہو گئے تھے، نے بھی پیر پگارا کے زیر اثر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ بن کر خود کو نقصان پہنچایا۔ میں نے اپنے چند صحافی دوستوں کے ہمراہ رسول بخش پلیجو (مرحوم) سے ان کے انتقال سے ایک ماہ قبل ملاقات کی تھی اور انہوں نے ایاز کی جانب سے چنی گئی لائن پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ 

ڈاکٹر قادر مگسی بھی ایاز پلیجو کی طرح انتخابات اور موجودہ سندھ اسمبلی میں شکست کھا گئے۔ آپ بمشکل ہی کسی سچے قوم پرست کو ڈھونڈ پائیں گے مگر پیپلز پارٹی کو اب بھی قوم پرستوں کے معاملات کا مضبوطی سے دفاع کرنے والا سمجھا جا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کو چاہئے کہ وہ خود کو اس بات کا الزام دیں کہ وہ لوگوں کا اعتماد جیتنے میں کامیاب کیوں نہ ہو سکے۔ یہی وقت ہے کہ انہیں اپنی سیاست پر غور کرنا چاہئے جس طرح سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے اپنی سیاست پر غور کیا۔ غالباً مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) ہی وہ واحد جماعت ہے جسے 1988 میں اس وقت کے قوم پرست نعرہ پر بہت بڑا انتخابی جواب ملا تھا۔

مظہر عباس
 

سلیم صافی نے ایسا کیا جرم کر دیا ؟

$
0
0

برادرم سلیم صافی نے اپنی معلومات کی بنا پرجیو ٹی وی میں اپنے ایک تبصرہ کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حوالے سے کہا کہ وزیر اعظم ہائوس میں اپنے قیام کے دوران وہ کچن کے اپنے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ نجانے صافی صاحب کے اس انکشاف میں ایسا کیا تھا کہ جس کی وجہ سے سوشل میڈیا میں تحریک انصاف کے حمایتیوں کو جیسے آگ لگ گئی ہو۔ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ کچھ ٹی وی اینکرزاور میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی بھی جیسے سٹ پٹا اُٹھے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سلیم صافی کی معلومات درست نہیں تھیں تو درست معلومات شئیر کر لیتے لیکن جیوکے مقبول پروگرام جرگہ کے میزبان کے ساتھ ایک ایسا طوفان بدتمیزی شروع کر دیا گیا جس میں گالیوں، الزامات اور ہر قسم کی لعن طعن کا بہتات تھا۔ 

تحریک انصاف اور ان کی حکومت کے کسی ذمہ دار کی طرف سے اس معاملے پر کوئی روک ٹوک نہیں کی گئی۔ جو لوگ سلیم صافی کی تحریر کو پڑھتے رہے اور اُن کے پروگرام کو دیکھتے رہے وہ یہ سب یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ اُنہوں نے نواز شریف حکومت کو بہت ٹف ٹائم دیا اور سخت ترین تنقید کی۔ لیکن آج اگر اپنی معلومات کی بنا پر وہ یہ خبر اپنے قارئین سے شئیر کر رہے ہیں کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے وزیر اعظم ہائوس میں اپنے اخراجات خود برداشت کئے تو یہ اتنا بڑا جرم بن گیا کہ سلیم صافی برداشت کے قابل نہیں رہا۔ ایک سیاسی جماعت اور اس کےرہنمائوں نے پاکستانی سیاست میں عدم برداشت اور گالم گلوچ کے جس رواج کو پروان چڑھایا اور جسے اب دوسروں نے بھی نقل کرنا شروع کر دیا ہے، اُسے روکنے اور درست کرنے کی ضرورت ہے۔ 

اختلاف رائے کی بنیاد پر دوسروں پر ہر قسم کی الزام تراشی اور گالم گلوچ کا ایک ایسا سلسلہ چل نکلا ہے جس سے اب کوئی نہیں بچ سکتا ۔ اس کام کے لئے سوشل میڈیا کو بطور خاص ہتھیار کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ اچھے خاصے (نام نہاد) پڑھے لکھے افراد بھی اس بہتان تراشی اور گالم گلوچ کے گندے کھیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں ’’پڑھے لکھوں‘‘ کی باتیں سن کر افسوس ہوتا ہے کہ بحیثیت معاشرہ ہماری اخلاقی قدریں کس قدر تنزلی کا شکار ہیں۔ میری حکومت، میڈیا اور سیاسی جماعتوں سے گزارش ہے کہ اس تنزلی کو روکنے کے لئے ایک طرف تعلیم کے ساتھ تربیت کو تعلیمی اداروں میں لازم کیا جائے تو دوسری طرف میڈیا اور سیاسی جماعتیں معاشرہ کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تربیت کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ ہم اچھے مسلمان اور اچھے انسان پیدا کر سکیں۔ 

جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے، تمام سیاسی جماعتوں اور اہم رہنمائوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے کارکنوں کو گندی زبان، گالم گلوچ اور جھوٹا پروپیگنڈہ پھیلانے سے روکیں تاکہ سوشل میڈیا کے استعمال کو بامقصد بنایا جائے نہ کہ اس کو ایسی گندگی سے بھر دیا جائے کہ لوگ اس کو استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ سوشل میڈٖیا کی اس مخصوص گندگی کا تو اب ٹی وی چینلز اور اخبارات میں بھی اثر نظر آتا ہے جس کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہے۔ تحریک انصاف کل تک اپوزیشن میں تھی لیکن اب اُس کی وفاق کے علاوہ پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں حکومتیں ہیں۔ اب تمام حکومتی ادارے اور ایجنسیاں بھی تحریک انصاف کو ہی جواب دہ ہیں۔ صحافیوں پر الزام تراشی اور انہیں گالم گلوچ کا نشانہ بنانے کی بجائے، تحریک انصاف کے کارکنوں کو چاہئے کہ وہ اپنی حکومت سے مطالبہ کریں کہ سلیم صافی کو غلط ثابت کرنے کے لئےتمام حقائق عوام کے سامنے رکھ دیں اور سب کو دکھا دیں کہ سابق وزیر اعظم نے وہ کچھ نہیں کیا جس کی اطلاع سلیم صافی نے عوام کو دی۔ 

بلکہ بہتر ہو گا کہ نواز شریف کے اُن تین سو ارب روپے کے ثبوت بھی عوام کے سامنے پیش کر دیں جو تحریک انصاف کے الزامات کے مطابق نواز شریف نے کرپشن سے کما کر ملک سے باہر بھیجے۔ عمران خان حکومت نے اچھا کیا کہ لاہور، اسلام آباد اور ملتان میٹرو کے ساتھ ساتھ لاہور اورنج لائن کے فارنسک آڈٹ کا حکم دے دیا جس سے کم از کم تحریک انصاف کے اُس الزام کی حقیقت کا بھی پتہ چل جائیگا کہ ان تمام پروجیکٹس کے ذریعے نواز شریف اور شہباز شریف نے اربوں روپیے کمیشن کے طور پر کمائے۔ تحریک انصاف کے پاس اب سنہری موقع ہے کہ ماضی میں لگائے گئے اپنے ایک ایک الزام کے ثبوت کو ساری دنیا کے سامنے پیش کر دے۔

جہاں تک عوام کے پیسہ کو ضائع ہونے اور حکمرانوں اور افسر شاہی کی عیاشیوں پر خرچ ہونے سے بچانے کے متعلق حکومتی فیصلہ کا تعلق ہے اس کی میں مکمل تائید کرتا ہوں۔ وزیر اعظم نے اگرچہ اپنے آپ سے سادگی کے ذریعے قوم کے پیسے کو ضائع ہونے سے بچانے کا آغاز کر دیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ پاکستان کی سول بیوروکریسی، دفاعی اداروں کے افسران اور جج حضرات کس طرح عمران خان کے اس فیصلہ کو کامیاب بنانے کے لئےاپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ٹیکس کے پیسوں سے بنائے گئے محلات کو سرکاری رہاشگاہوں کے طور پر استعمال کرنے کا ہمارے حکمرانوں اور افسر شاہی میں ہمیشہ سے رواج رہا۔ سرکاری پیسہ سے قیمتی گاڑیوں کا استعمال بھی یہاں عام ہے۔ عوام کے پیسہ سے بیرون ملک دورے کرنا اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں رہنا بھی یہاں معمول کی بات ہے۔ 

تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی گزشتہ کابینہ میٹنگ میں اس نوعیت کے حکومتی اخراجات کو کم سے کم کرنے کے لئےکچھ اہم فیصلے بھی کئے جن پر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ اس نوعیت کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لئےوزیر اعظم کو اہم قومی اداروں کی طرف سے مکمل سپورٹ کی ضرورت ہو گی۔ میری چیف جسٹس ثاقب نثار، تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور سول بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران سے درخواست ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کے اس بہترین کام میں عملی طور پر ساتھ دیں تاکہ سادگی اور کفایت شعاری کو عام کیا جا سکے اور اس طرح بچائے جانےوالے پیسے کو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جا سکے۔

انصار عباسی
 

پاکستان میں وی آئی پی پروٹوکول ختم ؟

$
0
0

تحریک انصاف اپنی سیاسی جدوجہد اور انتخابی مہم کے دوران ملک میں سادگی کے فروغ اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے جو وعدے کرتی رہی ہے، یہ امر خوش آئند ہے کہ برسراقتدار آنے کے فوراً بعد ان وعدوں کی تکمیل کے لئے عملی اقدامات شروع کر دیے گئے ہیں۔ ایوان وزیر اعظم اور گورنر ہاؤسوں کو تعلیم و تدریس اور عوامی مفاد کے دیگر مقاصد کیلئے استعمال کرنے اور وزیر اعظم سمیت تمام اعلیٰ ریاستی و حکومتی شخصیات کے لیے فضائی سفر فرسٹ کے بجائے کلب کلاس میں کرنے جیسے فیصلوں کے بعد اب اس سمت میں ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے ملک کے ہوائی اڈوں پر بااثر شخصیات کو ایف آئی اے کی جانب سے وی آئی پی پروٹوکول فراہم کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ وزارت داخلہ نے متعلقہ تحقیقاتی اداروں کواس پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ حکومتوں نے بھی ایئرپورٹوں پر پروٹوکول کی فراہمی پر پابندی عائد کی تھی تاہم یہ اعلانات محض دعوے ثابت ہوئے۔ تاہم موجودہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ’ ’ہم فیصلے پر بھرپور عملدرآمد یقینی بنائیں گے اور تمام مسافروں کو بلاامیتاز یکساں سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔‘‘ اس ضمن میں انہوں نے بتایا کہ ’ایئرپورٹ پر بااثر افراد کو وی آئی پی پروٹوکول کے باعث دیگر مسافروں کی طرح قطارمیں کھڑا نہیں ہونا پڑتا اور وہ ایف آئی اے افسران کی مدد سے تمام امور ترجیحی طور پر نمٹا لیتے ہیں‘ لیکن اب ایف آئی اے کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ پورے ملک میں کسی سیاستدان یا سرکاری افسر کو پروٹوکول فراہم نہیں کیا جائے گا ۔ ایئرپورٹ پر امیگریشن کاؤنٹر کی نگرانی کی جائے گی اور اگر کسی بااثر شخصیت کو خصوصی پروٹوکول فراہم کیا گیا تو شفٹ پر موجود امیگریشن اسٹاف اور افسران کو فوری طور پر معطل کر دیا جائے گا۔ بلاشبہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے تاہم اس پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کی طرح ملک کے تمام ہوائی اڈوں سے وی آئی پی لاؤنج ختم کر دیے جائیں.

اداریہ روزنامہ جنگ
 

پاکستانیوں کے آف شور بینک اکاؤنٹس

$
0
0

وطن عزیز سے منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور دیگر ناجائز ذرائع سے اکٹھی کی گئی اربوں ڈالر کی بھاری رقوم جو بعض دوسرے ملکوں کے بینکوں میں چھپا کر رکھی گئی ہیں ان کا کھوج لگانا اور انہیں اپنے ملک لانا گزشتہ کئی عشروں سے ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ کچھ تو دانستہ طور پر ماضی میں یہ مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی نہیں لی گئی یا اگر متعلقہ ملکوں سے رابطہ ممکن ہو سکا تو وہاں بھی بہت سی رکاوٹیں آڑے آئیں جس سے منی لانڈرنگ کے رحجان کی بتدریج حوصلہ افزائی ہوتی چلی گئی اور ملک و قوم کا کثیر سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوتا رہا دوسری طرف معیشت پر بیرونی قرضوں کا حجم بڑھتے بڑھتے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ کر 28 ہزار ارب روپے ہو گیا۔

ان حالات میں وزیراعظم عمران خان نے قوم کے سامنے اپنی پہلی نشری تقریرمیں دو ٹوک الفاظ میں لوٹی گئی رقم پاکستان لانے کا جو اعلان کیا ہے وہ اس تناظر میں انتہائی حوصلہ افزا ہے کہ ایف بی آر نے او ای سی ڈی (آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ) کے توسط سے بیرون ملک پاکستانیوں کے آف شور بینک اکائونٹس اور دیگر مالیاتی معلومات کے تبادلے کے لئے خود کارنظام اپنایا ہے وہ ستمبر میں فعال ہو جائے گا۔ او ای سی ڈی کے 102 رکن ممالک ہیں تاہم فی الوقت 56 کے ساتھ معلومات کا تبادلہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان پہلے مرحلے میں 35 ممالک کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کر سکے گا اور دوسرے مرحلے میں مزید 20 ممالک شامل کئے جائیں گے یہ اقدام حکومت پاکستان کی اچھی پیشرفت ہے اس کے موثر ہونے سے بیرونی ملکوں میں پڑے ہوئے پاکستانی سرمایہ کا اصل حجم معلوم ہو سکے گا اور اصل افراد تک پہنچنے اور ان سے یہ رقوم برآمد کرنے میں خاطر خواہ مدد مل سکے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکس چوری اور بدعنوانی کی طرف جانے والے ہر راستے کو بند کیا جائے۔ ضرورت ہو تو اس ضمن میں مزید قانون سازی بھی کی جانی چاہیے۔

اداریہ روزنامہ جنگ

Turkish aid agency provides Eid meat to 20,000 Pakistani families

$
0
0

The Turkish Red Crescent (Kızılay) distributed meat to 20,000 Pakistani families for the Islamic Eid al-Adha holiday, also known as the Feast of Sacrifice.









تربیلا ڈیم: پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں 40 فیصد کمی

$
0
0

وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے سینیٹ کو بتایا کہ ہائیڈرو گرافک سروے سنہ 2017 کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں 40.58 فیصد کمی ہو گئی ہے۔ سینیٹر ثمینہ سعید کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ہائیڈرو گرافک سروے سنہ 2017 کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے صلاحیت میں 37.42 فیصد سے لے کر 40.58 تک کمی ہوئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تربیلا ڈیم میں ریت اور مٹی کے بہاؤ کو روکنے کا بہتریں طریقہ ہے کہ دریا پر تربیلا سے اوپر دریا سندھ پر مزید ڈیم تعمیر کیے جائیں۔

بابر اعوان کے مطابق ڈیموں میں ریت اور مٹی بہہ کر آنا ایک قدرتی عمل ہے اور اسے روکا نہیں جا سکتا ہے۔ ڈیموں میں جو مٹی اور ریت دریا کے پانی کے ساتھ بہہ کر آتی ہے وہ ڈیم کی تہہ میں بیٹھ جاتی ہے جس سے ڈیموں میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہو جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تربیلا ڈیم کی اونچائی میں مزید اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ ریت اور مٹی کو ڈیم میں بہہ کر آنا ایک قدرتی عمل جس کو روکا نہیں جا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت پاکستان دیامیر بھاشہ ڈیم تعمیر کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے جس سے تربیلا میں پانی کے ساتھ ریت اور مٹی بہہ کر آنے کے عمل کو کم کیا جا سکتا ہے۔ 

مشیر برائے پارلیمانی امور کے مطابق واپڈا نے تربیلا ڈیم کے ممکنہ ذخائر کا جائزہ لینے کے لیے سنہ 1991، 1997، 1998، 1999، 2007، 2013 اور 2014 میں تحقیق کی تھی جس میں ڈیم سے مٹی اور ریت کو نکالنے کے بارے میں بھی غور کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈی سلٹنگ یا مٹی اور ریت کو نکلنا تکینکی طور پر خطرناک اور مہنگا عمل ہے جس کا نہ صرف ڈیم کے اوپر منفی اثر پڑ سکتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے تربیلا سے نیچے دریا پر واقع بیراجوں اور نہری نظام پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ بابر ایوان نے بتایا کہ ڈی سلٹنگ کرنے سے تربیلا اور غازی بروتھا کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

 


مائیکرو ڈیمز : پاکستان میں پانی کے بحران کا ایک آسان حل

$
0
0

پاکستان کی نئی حکومت بیرون ملک آباد پاکستانیوں سے یہ توقع کر رہی ہے کہ
وہ اپنی سرمایہ کاری اور مہارتوں سے پاکستان کو اس کے موجودہ مسائل سے نکالنے میں مدد کر ے گی اور بیرون ملک آباد پاکستانی بھی اپنے آبائی ملک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہر قسم کی مدد کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی حکومت کو جو بڑے بڑے چیلنج درپیش ہیں ان میں پانی کا دن بدن بڑھتا ہوا بحران بھی شامل ہے۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے بیرون ملک آباد پاکستانی یقینی طور پر ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

امریکی ریاست میری لینڈ میں واٹر ریسورسز اینڈ واٹر منیجمنٹ کی ایک کمپنی کے مالک اور پاکستان کی نیشنل انجنیئرنگ سروسز یعنی نیس-پاک کے سابق سینیر انجنیئر رضوان صدیقی نے، جو کالا باغ ڈیم کی پلاننگ اور ڈیزائنگ کا حصہ رہ چکے ہیں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پانی کے بحران سے نمٹنے کا واحد طریقہ ہائیڈو پاور ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہی وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے پاکستان میں بجلی بھی پیدا ہو سکتی ہے اور سیلابی پانی کو بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے اور پاکستان جیسے زرعی ملک میں آبپاشی کی ضروريات بھی پوری کی جا سکتی ہیں۔

رضوان صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں بڑے ڈیم بنانا تو ضروری ہیں لیکن فوری طور پر اس مسئلے کا ایک حل مائیکرو ڈیمز ہیں۔ مائیکرو ڈیمز یا چھوٹے چھوٹے ڈیم ہر اس علاقے میں بنائے جا سکتے ہیں جہاں تھوڑی سی ڈھلوان دستیاب ہو۔
انہوں نے کہا کہ بھارت بے شمار چھوٹے ڈیم بنا چکا ہے جو پانی کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی بجلی کی ضروريات بھی پوری کرتے ہیں اور علاقائی زراعت کے بھی کام آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جو ایک زرعی ملک ہے اسے اپنے پانی کی منیجمنٹ پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس کا سب سے اہم طریقہ یہ ہی ہے کہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر پانی کو محفوظ کریں تاکہ بارشوں کے دنوں میں اور سیلابی دنوں میں پانی کو محفوظ کیا جا سکے اور گرمیوں میں یا خشک سالی کے دنوں میں اس محفوظ پانی کو استعمال کیا جا سکے۔

انہوں نے پاکستان کی نئی حکومت کو تجویز دی کہ وہ بڑے ڈیمز پر تو کام کرے ہی کیوں کہ اس کے علاوہ ا س کے پاس پانی کے بحران سے نمٹنے کا کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ لیکن چھوٹے ڈیم بنانے پر بھی خصوصي توجہ دے جس پر سرمایہ بھی کم لگتا ہے اور جس کی پلاننگ بھی جلدی ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں بہت سے ایسے پاکستانی آباد ہیں جو واٹر ریسورسز اور واٹر منیجمنٹ کی پلاننگ میں شامل ہیں اور وہ یقینی طور پر پاکستان کو اپنی مہارتوں سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن ضرورت لیڈر شپ اور قیادت کی ہے جو انہیں متحرک کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک، انٹر نیشنل بینک جیسے ادارے ایسے پراجیکٹس کی فنڈنگ کے لیے ہمیشہ تیار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں پانی کے بحران پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینٹر فار انوائرمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ کراچی کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر ناصر پنہوار نے کہا کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی، گلوبل وارمنگ، بارشوں کی کمی، دریاؤں میں اور زیر زمین پانی میں کمی اس بحران کی بڑی بڑی وجوہات ہیں۔ تاہم انہوں نے بھی پانی کے استعمال کی منیجمنٹ کے فقدان کو اس بحران کی ایک وجہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بارشوں کی کمی کی وجہ سے زیر زمین پانی کم ہو رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا بے دریغ استعمال مسئلے کو اور بھی سنگین بنا رہا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کیوں کہ زیر زمین پانی کے استعمال کے لیے کوئی ضابطے اور قوانین موجود نہیں ہیں اس لیے دیہی علاقوں میں کاشت کار گراؤنڈ واٹر کو ٹیوب ویلز کے ذریعے بڑے پیمانے پر بے دریغ استعمال کر رہے ہیں جو زیر زمین پانی میں کمی کی ایک بڑی وجہ بن رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پانی کے استعمال کی منیجمنٹ پر توجہ دی جائے اور اس بارے میں مناسب ضابطے اور قوانین بنائے جائیں اور ان پر عمل درآمد کرایا جائے۔ جب کہ عام لوگوں میں پانی کے مناسب استعمال اور اس کے ضیاع کو روکنے کے بارے میں آگاہی پھیلائی جائے۔

یاسمین جمیل

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

$
0
0

وزیراعظم عمران خان کا قوم سے پہلا خطاب جو عام آدمی کا نقطۂ نظر ہے، انتہائی متّاثرکن اور امید افزا تھا۔ اس تقریر سے عوام خصوصاً نوجوانوں کی توقعات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ ان بلندو بانگ عزائم کے اہم مقاصد میں حزب اختلاف کی ممکنہ احتجاجی تحریک کو غیر مؤثر بنانا اور بلدیاتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ معیشت کی بحالی عام آدمی کی فلاح و بہبود اور پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے عظیم مقاصد کے حصول کیلئے ہم 6 تجاویز پیش کر رہے ہیں جن پر اگلے 45 دنوں میں لازماً عملدرآمد کرنا ہو گا۔

(1) لوٹی ہوئی اور ناجائز دولت سے ملک کے اندر بنائے ہوئے اثاثوں پر مروّجہ قوانین کے تحت ٹیکس اور حکومتی واجبات وصول کرنے ہوں گے۔ ان اثاثوں کی مکمل تفصیلات ریکارڈ میں موجود ہیں۔ اگر وزیراعظم سیکریٹریٹ کی نگرانی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ان ناجائز اثاثوں کی نشاندہی کر کے جو ٹیکس حکام سے خفیہ رکھے گئے ہیں، حکومتی واجبات کی وصولی شروع کر دی جائے تو اگلے چند ماہ میں کم از کم 1500ارب روپے کی اضافی آمدنی ہو سکتی ہے۔ اس رقم سے کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ قدم نہ اٹھایا گیا تو یہ ایک قومی المیہ ہو گا۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند روز میں اس ضمن میں منفی اشارے ملے ہیں کیونکہ اس سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ یہ نئی حکومت کا ٹیسٹ کیس ہو گا۔

(2) معیشت کی بحالی کیلئے بنیادی نوعیت کی کچھ اصلاحات کرنا انتہائی ضروری ہیں۔ ان میں وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور سے ٹیکس عائد اور وصول کرنا، جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 7.5 فیصد سے زیادہ نہ رکھنا، معیشت کو دستاویزی بنانا، سرمائے کے فرار اور کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا، انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111 (4) کو منسوخ کرنا، غیر منقولہ جائیدادوں کی رجسٹریشن مارکیٹ کے نرخوں سے کم پر نہ کرنا اور باہر سے آنے والی ترسیلات کو تجارتی خسارے کو کم کرنے کے بجائے ممکنہ طور پر سرمایہ کاری کیلئے استعمال کرنا شامل ہیں۔ گزشتہ 25 برسوں سے مختلف حکومتیں ان میں سے بیشتر اصلاحات کرنے کے وعدے کرتی رہی ہیں۔ آئی ایم ایف بھی اس ضمن میں حکومتوں پر رسماً دبائو ڈالتا رہا ہے۔ 

ان اصلاحات سے معیشت لازماً بہتر ہو جاتی چنانچہ فنڈ نے ان شرائط پر کبھی اصرار نہیں کیا۔ یہ امر بھی مسلّمہ ہے کہ ان اصلاحات سے طاقتور طبقوں اور اشرافیہ کے مفادات متّاثر ہوتے ہیں چنانچہ مختلف حکومتوں نے بھی ان سے اجتناب ہی کیا ہے۔ گزشتہ 5 برسوں میں تحریک انصاف کی حکومت نے بھی ان اصلاحات سے اجتناب کیا ہے جو آئین میں اٹھارہویں ترمیم اور ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے بعد سے صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں اور وہ تحریک انصاف کے 2013 کے منشور کا حصّہ بھی تھیں۔

(3) اگلے چند ہفتوں میں وفاق اور تینوں صوبوں کے نظرثانی شدہ بجٹ پیش کئے جانے چاہئیں۔ ان میں نکتہ نمبر 2 میں پیش کی گئی تجاویز شامل کی جائیں۔ تحریک انصاف کے 2013 کے منشور میں تعلیم و صحت کی مد میں جی ڈی پی کا 7.6 فیصد اور پیپلز پارٹی نے 11 فیصد مختص کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر ان کو پورا کرنے کی کوشش گزشتہ برسوں میں کی ہی نہیں گئی۔ اب کم از کم اس مد میں جی ڈی پی کا 7.6 فیصد لازماً مختص کیا جائے۔

(4) وزیراعظم عمران خان کی تقریر میں ناجائز دولت بیرونی ملکوں سے واپس لانے کے عزم کا اظہار متعدد بار کیا گیا ہے۔ نئی حکومت اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ان رقوم کی واپسی پر بہت زیادہ انحصار کر رہی ہے حالانکہ اگلے چند برسوں میں اس ضمن میں کسی بڑی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ قانون سازی کر کے ملک سے سرمائے کے فرار کو روکا جائے۔ ہم برس ہا برس سے یہ تجویز دیتے رہے ہیں کہ کھلی منڈی سے خریدی ہوئی بیرونی کرنسی کو بینکوں کے کھاتوں کے ذریعے تعلیم و علاج معالجے کے علاوہ کسی اور مقصد کیلئے ملک سے باہر بھیجنے پر پابندی لگا دی جائے۔ اب یہ قدم فوری طور پر اٹھانا ہو گا۔

(5) نیب کو مضبوط بنانے کا وزیراعظم کا عزم خوش آئند ہے مگر اس سے پہلے نیب کے ایگزیکٹو بورڈ اور انتظامیہ کا احتساب ضروری ہے۔ نیب کے موجودہ چیئرمین نے دعویٰ کیا ہے کہ اپنے قیام سے اب تک نیب نے قومی خزانے میں 269 ارب روپے جمع کرائے ہیں۔ حالانکہ قومی خزانے میں جمع کرائی جانے والی مجموعی رقوم کا حجم 12 ارب روپے سے بھی کم ہے۔ گزشتہ برسوں میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے نیب سے متعلق جو ریمارکس دیئے ہیں ان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔

(6) لوٹی ہوئی دولت کو قومی خزانے میں واپس لانے کے نام پر جاری کردہ ایمنسٹی اسکیم میں حیرت انگیز تیز رفتاری کے ساتھ نگراں حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے توسیع کرا دی تھی حالانکہ اوّل ملکی اثاثوں پر جن کی تفصیلات ریکارڈ میں موجود ہیں ایمنسٹی دینے کا کوئی جواز تھا ہی نہیں، ملکی اثاثوں پر غیر ضروری ایمنسٹی دینے سے قومی خزانے کو 500 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے اور دوم یہ شق برقرار رکھی گئی کہ ایمنسٹی حاصل کرنے کے باوجود ناجائز رقوم باہر ہی رکھی جا سکتی ہیں۔ 

یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ایک طرف پاکستانی شہریوں کی بیرونی ملکوں میں رکھی ہوئی ناجائز دولت کی معلومات حاصل کرنے اور واپس لانے کی بہ ظاہر کوششیں کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف ایمنسٹی اسکیم کے تحت ان ناجائز رقوم کو باہر ہی رکھنے کی بھی اجازت دے کر قومی مفادات کا سودا کر لیا گیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ صدارتی آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے لوٹی ہوئی دولت کو پاکستان واپس لانے کیلئے ازخود نوٹس آئین کی شق 184 (3) کے تحت لیا تھا یعنی ان ناجائز رقوم کو باہر رکھنے سے عوام کے بنیادی حقوق متّاثر ہو رہے ہیں۔  نئی حکومت کو یہ تمام حقائق سپریم کورٹ کے سامنے بھی رکھنے چاہئیں۔ وزیراعظم عمران خان کے پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے وعدے سے ملک کے طول و ارض میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے مگر مندرجہ ذیل حقائق سے صرف نظر بھی نہیں کیا جا سکتا۔

(1) قرآن کے احکامات کے تحت حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاحب نصاب مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کرے اور ان رقوم کو مسلمان مستحقین تک پہنچانے کا نظام وضع کرے (9:103) ہم نے اپنے 24؍ مئی 2018 کے کالم میں اس ضمن میں قابل عمل تجاویز پیش کی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نظام زکوٰۃ کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کیلئے حکومت کیا اقدامات اٹھاتی ہے۔

(2) یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ملک میں کئی سو قوانین قرآن و سنت کے خلاف ہیں۔ وطن عزیز میں سودی نظام معیشت و سودی نظام بینکاری پوری آب و تاب سے پروان چڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ آئین کی شق (F 30) میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ ربوٰ کا جلدازجلد خاتمہ کر دیا جائے۔ وزیراعظم کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وفاقی کابینہ اور ان کے مشیروں میں وہ صاحبان تو شامل نہیں ہیں (الف) جو غیر اسلامی متوازی نظام بینکاری کے اجراکے ذمہ دار ہیں (ب) جن کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی مقدمہ زیر سماعت ہے اور (ج) جنہوں نے انتہائی مالدار ہونے کے باوجود بینکوں سے قرضے معاف کرائے ہیں۔

(3) پاکستان میں سب سے پہلے ہم نے کہا تھا کہ یہ متوازی نظام بینکاری غیر اسلامی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کے چیئرمین اور ممبران اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ متوازی نظام غیر اسلامی ہے مگر برس ہا برس سے وہ اس غیر اسلامی نظام کی پشت پر موجود ہیں۔ سود کا مقدمہ وفاقی شرعی عدالت میں گزشتہ 16 برس سے التوا کا شکار ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ نئی حکومت سود کو حرام قرار دینے اور اسلامی بینکاری کو شریعت کے تابع بنانے کیلئے مشاورت کر کے پارلیمنٹ میں قرارداد منظور کرائے اور شرعی عدالت سے یہ مقدمہ واپس لے لیا جائے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
 

پی ٹی آئی کا سو د ن کا ایجنڈا ۔ اہم فیصلے

$
0
0

وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حکومت کے ابتدائی سو دنوں کے ایجنڈے پر اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے مزید اہم فیصلے کئے گئے۔ مبصرین کے خیال میں یہ فیصلے اچھے نتائج دے سکتے ہیں بشرطیکہ ان پر پوری تندہی سے عمل کیا جائے اور برسوں سے زنگ آلود محسوس ہونے والی سرکاری مشینری فعال نظر آئے۔ مذکورہ فیصلوں کا مقصد تحریک انصاف کے اس منشور پر عمل کے لئے متعین راستوں پر پیش قدمی کرنا بتایا جاتا ہے جو تبدیلی کے نعرے اور دعوے کے ساتھ پیش کیا گیا۔ مرکزی کابینہ نے مختلف شعبوں میں اصلاحات کرنے، جنوبی پنجاب صوبہ قائم کرنے اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چھ کمیٹیاں تشکیل دیں۔

اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جو بریفنگ دی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کابینہ نے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل اور انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کے سربراہ کے تقرر کا فیصلہ بھی کیا۔ اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کو اگرچہ عمومی طور پر سراہا جا رہا ہے مگر بعض حلقے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے سو ابتدائی دنوں کے پیکیج کے اعلان کے وقت سے اس کی کامیابی پر شکوک کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ یہ بات بہرطور محسوس کی جارہی
ہے کہ 25؍ جولائی کے انتخابات کے فوراً بعد سے پاکستان تحریک انصاف اپنے انتخابی منشور کا اعادہ بھی کر رہی ہے، اسے روبہ عمل لانے کے وعدے پر قائم بھی ہے اور عمران خاں اپنی ٹیم سمیت خاصے متحرک بھی ہیں۔ 

منشور پر عملدرآمد سے متعلق فیصلوں کا کابینہ سے منظور کرایا جانا قانونی ضرورت تھا مگر بعض حلقوں کا خیال ہے کہ کئی دیگر ممالک میں جس طرح سیاسی پارٹیوں کی ٹاسک فورسز مسلسل کام کرتی رہتی ہیں، اسی طرح وطن عزیز میں بھی خود کو متبادل حکومت تصور کرتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں کی ٹاسک فورسز مطالعے، تحقیق اور درست اعداد و شمار کے ساتھ اپنی رپورٹیں تیار کرنے اور انہیں اپ ڈیٹ کرتے رہنے کا طریقہ اختیار کریں۔ اس طرح ان پارٹیوں کے لئے حکومت میں آنے کے فوراً بعد کام کا آغاز کرنا آسان ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے منشور پر عمل درآمد کے لئے پہلے سے تیاریاں کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اپنے فیصلوں کو روبہ عمل لانے کے لئے احتیاط کے پہلو کو ملحوظ رکھنا اور تیزی سے حرکت میں آنا ہو گا تاکہ جس عام آدمی نے اس حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ کر لی ہیں، اسے مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ 

وفاقی کابینہ نے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام پر بھی غور کیا اور اپوزیشن کی بڑی پارٹیوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے بات چیت کے لئے ایک ٹاسک فورس قائم کی۔ نئے صوبے کا قیام ایسا معاملہ ہے جس میں بہت سی انتظامی تبدیلیوں کی ضرورت تو ہو گی ہی، لیکن سب سے پہلے آئین کے مطابق بنیادی قانونی ضرورتیں پوری کرنا ہوں گی۔ تحریک انصاف کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت کو قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے لئے دو تہائی اکثریت کی حمایت درکار ہو گی جو دوسری پارٹیوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ جنوبی پنجاب کا قیام تحریک انصاف کے منشور کا اہم نکتہ ہے اور صوبہ پنجاب کے وزیر اعلٰی کے منصب کے لئے عثمان بزدار کے تقرر کے فیصلے کی ایک بڑی وجہ بھی یہی سمجھی جاتی ہے کہ اس ریجن کے لوگوں میں یہ اعتماد پیدا ہو کہ ان کے حالات میں بہتری لانے کے لئے پوری سنجیدگی سے کام کیا جا رہا ہے۔

ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادتوں کی طرف سے جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ مگر وفاقی و صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے قانون سازی کرنا ایسا مرحلہ ہے جسے سر کرنے کیلئے موجودہ حکومت کو خاصی محنت کرنا ہو گی۔ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لئے پارلیمانی حمایت حاصل کرنے کی ذمہ داری وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار کو سونپی گئی ہے جو مطلوب قانون کیلئے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے رابطے قائم کریں گے جبکہ ٹاسک فورس ایسی سفارشات بھی تیار کرے گی جن کے ذریعے ابتدائی سو دنوں میں واضح طور پر نتائج سامنے آتے نظر آئیں۔ وزیر اطلاعات کی بریفنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم کی سربراہی میں قائم کی گئی ٹاسک فورس نیب قوانین کو مزید موثر بنانے کے لئے اپنی سفارشات دے گی۔ اس باب میں ملکی قوانین کے بعض نقائص دور کرنے، خاص طور پر پلی پارگیننگ کا طریق کار ختم کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ 

دیگر ملکوں سے معاہدے کرنے کی ضرورت کی بھی عرصے سے نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دینے اور 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے اعلان پر عملدرآمد کے لئے قائم کی گئی ٹاسک فورس 90 دن میں اپنی منصوبہ بندی اور دیگر امور پر رپورٹ دے گی۔ اس ضمن میں بتایا گیا ہے کہ ایک کروڑ لوگوں کو سرکاری نوکریوں میں نہیں کھپایا جائے گا بلکہ روزگار کے دیگر مواقع پیدا کئے جائیں گے۔ سی پیک منصوبے کے جائزے کے دوران مفصل بریفنگ کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس منصوبے میں توانائی کے لئے 22؍ ارب ڈالر اور دیگر اسکیموں کے لئے 46؍ ارب ڈالر شامل کئے گئے ہیں۔ انسداد دہشت گردی سے متعلق ٹاسک فورس بھی 90 دن میں اپنی تجاویز پیش کر دے گی۔ ایک کمیٹی اس لئے قائم کی گئی کہ فاٹا انضمام کا عمل تیز کیا جا سکے۔ کابینہ کے اس فیصلے پر ملازمت پیشہ افراد نے یقیناً سکون کا سانس لیا ہو گا کہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے کسی افسر کو فارغ نہیں کیا جائے گا۔ 

موسمیاتی حالات بہتر بنانے کے لئے 192 مقامات پر شجرکاری کی اسکیم کی جزئیات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ وزیر اعظم عمران خاں ہر 15 دن بعد ٹاسک فورسز کے امور کا جائزہ لیا کریں گے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے منشور میں کئے گئے وعدوں کی تکمیل کی سمت میں تیزی سے گامزن ہے جبکہ افسروں کے تقرر کے حوالے سے بھی یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ عمران خاں بہترین بیورو کریٹس کی ٹیم تشکیل دے رہے ہیں۔ یہ سب باتیں ایک کسان کو، مزدور کو، چھوٹے تاجر کو اس وقت زیادہ اچھی لگیں گی جب وہ اپنی روزمرہ زندگی میں آسانی محسوس کرے گا۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

بزرگ شہریوں کے لیے ریلوے کا سفر مُفت

$
0
0

وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے کہ ریلوے 20 کروڑعوام کی سواری ہے، 75 سال سے زائدعمر کے افراد ریلوے میں مفت سفر کر سکیں گے۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پورا ریلوے سرمایا کاروں کے لیے حاضر ہے، افسران کو فریٹ میں سو فیصد اضافے کا ہدف دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ گرین لائن کی طرح ایک اور اچھی سپر ٹرین کراچی اسلام آباد کے لیے چلانا چاہتا ہوں، مسافر موبائل فون پراپنی ٹرین کی پوزيشن دیکھ سکیں گے، قوم تین چار ماہ کی مہلت دے ، گندی ٹرین کی حالت ٹھیک کروں گا ،
وزیر ریلوے نے کہا کہ آدھے افسر نیب کی زد میں آئیں گے تو ریل کیسے چلے گی۔ وزیراعظم فیصلہ کر لیں، ریلوے کی ساری زمین پورے ملک کا قرضہ اتار سکتی ہے، ریلوے کے جو مسائل 12 سال پہلے تھے وہی اب بھی ہیں، جو انکوائری نیب مانگ رہا ہے وہ اسے دے رہے ہیں.
 

آبی تنازعات پر پاک بھارت مذاکرات بلا نتيجہ ختم

$
0
0

پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے مذاکرات کے دو روز پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہوئے، جس میں دونوں ملکوں کے سندھ طاس کمشنر اور آبی ماہرین شریک ہوئے۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ پاک بھارت انڈس واٹر کمشنروں کے اجلاس میں اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔ ذرائع کے مطابق، دو روز میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے چار دور ہوئے، جن میں دونوں ممالک اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ پاکستان کی درخواست پر بلائے گئے اجلاس میں پاکستان نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ’پکل ڈل ڈیم‘ اور ’لوئیر کلنائی‘ منصوبوں کے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھائے تھے۔

پاکستاني انڈس واٹر کمشنر، سید مہر علی شاہ کا کہنا تھا کہ دونوں منصوبے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ’پکل ڈل ڈیم‘ اور ’لوئر کلنئی ہائیڈرو پاور پراجیکٹس‘ سے پاکستان کو پانی کی کمی ہو گی۔ پاکستان نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ ’پکل ڈل پروجیکٹ‘ کی اونچائی میں کمی جبکہ ’لوئر کلنئی‘ منصوبے کے ڈیزائن میں بھی تبدیلی کرے۔ اطلاعات کے مطابق، پاکستان کے جواب میں بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔ بھارتي وفد کا مؤقف تھا کہ انہیں بھی پانی کی کمی کا سامنا ہے، آبی ذخائر نہ ہونے سے پانی کی بڑی مقدار سمندر میں چلی جاتی ہے۔ موسمی تبدیلیوں کے باعث دریاؤں میں پانی کي کمی ہے۔ بھارتی انڈس واٹر کمشنر پی کے سیکسینا کا مؤقف تھا کہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بنانا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

انڈس واٹر کمشنرز مذاکرات میں بھارت نے پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات مسترد کر دئیے، جبکہ ’پکل ڈل ڈیم‘ اور ’لوئر کلنئی‘ پر کام جاری رکھنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔ بھارتی وفد نے پاکستان کے تحفظات پر اپنی حکومت کو آگاہ کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے اور مزید بات چیت آئندہ اجلاس میں کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ انڈس واٹر کمشنرز کے آئندہ اجلاس کا شیڈول بعد میں طے ہو گا۔ پاکستان نے اس سے قبل بھی دریائے چناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے کشن گنگا ڈیم پر اعتراض اٹھایا تھا اور معاملہ عالمی عدالت تک پہنچا تھا جہاں پاکستان یہ معاملہ ہار گیا تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے مسائل حل کرنے کے لیے یہ ایک سو پندرہوں اجلاس تھا۔ اس سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات رواں برس بھارت کے دارلخلافہ نیو دہلی میں ہوئے تھے۔

کنور رحمان خان

وائس آف امریکہ
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live