Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے

$
0
0

حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے جا رہی ہے یا فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن؟ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے ۔ کمانڈر گل بہادر، مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے بیانات آپریشن کی چغلی کھاتے ہیں اور دو قبائل ارکان قومی اسمبلی فوجی ایکشن میں ستر معصوم شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ کرتے ہیں جن میں بچے اور خواتین شامل ہیں مگر حکومت کے طوطی ہفت زبان چودھری نثار علی خاں خاموش ہیں، ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔

امریکہ شمالی وزیرستان میں فوری فوجی آپریشن کا خواہش مند ہے اور مذاکرات کا مخالف، اسے خدشہ یہ ہے کہ حکومت طالبان مذاکرات کامیاب رہے تو طالبان کے سارے گروپ افغانستان کا رخ کریں گے جبکہ بھارت خوفزدہ ہے کہ یہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظلوم کلمہ بھائیوں کی مدد کے لئے قدم بڑھا سکتے ہیں ۔1948ء کی طرح حکومت پاکستان گومگو کا شکار ہے کہ وہ امریکہ کو ناراض کرنا چاہتی ہے نہ بھارت کو پریشان اور پنجاب کو میدان جنگ بنانا بھی نہیں چاہتی اونٹ کی سواری کا شوق اور کوہان کا ڈر۔

ایک فوجی آپریشن آج سے بیالیس سال قبل ہمارے مشرقی بازو، مشرقی پاکستان میں بھی ہوا تھا جہاں فوج ، پولیس، پیرا ملٹری فورسز اور دیگر مسلح اداروں کے باغیوں، بھارت کی تربیت یافتہ مکتی باہنی ،علیحدگی پسندوں، غداروں اور غیر ملکی ایجنٹوں نے ڈھاکہ، چٹاگانگ، کھلنا، کوسیلا، جیسور اور دیگر شہر و دیہات میں پاکستان کے وفادار بنگالیوں اور غیر بنگالیوں، فوجیوں، پولیس و انتظامیہ کے افسروں و اہلکاروں اور ان کے اہلخانہ کو قتل وغارت گری، آبروریزی، آتش زنی اور تشدد کا نشانہ بنا کر نسل کشی کے نئے ریکارڈ قائم کئے تھے۔پاکستان کا پرچم سرعام جل رہا تھا علیحدگی کے نعرے معمول تھے اور جنسی تشدد محبوب مشغلہ خدا کا شکر ہے دس سالہ دہشت گردی میں پاکستان ایسی کارروائیوں کا نشانہ نہیں بنا۔

مشرقی پاکستان میں فوج نے کن حالات میں آپریشن کیا اس کی ایک جھلک ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کی ایک رپورٹ (مئی 1971ء) میں ملتی ہے ’’جن نامہ نگاروں نے ساحلی شہر چاٹگام کا دورہ کیا انہیں معلوم ہوا کہ یہاں باغیوں نے ہزاروں (جی ہاں ہزاروں) غیر بنگالیوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا ، ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ باغیوں نے چاٹگام پر قبضہ کے بعد غیر بنگالیوں کی نسل کشی کی۔11اپریل1971ء کو فوج نے بھرپور کارروائی کے بعد قبضہ چھڑایا ‘‘

امریکہ اخبار واشنگٹن ایوننگ سٹار نے 12مئی 1971ء کو اپنے نمائندے مارٹ روزن بام کی رپورٹ شائع کی ’’اصفہانی جوٹ مل کے کلب میں 180غیر بنگالی عورتوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ جنونی باغیوں نے قتل عام سے قبل لوٹ مار کی اور عورتوں کی آبروریزی جبکہ مقامی باشندوں نے بتایا کہ بستیوں اور بازاروں میں غیر بنگالیوں کا پیچھا کرکے مارا گیا 350غیر بنگالی نوجوانوں کو جلا کر مار دیا‘‘

دی سنڈے ٹائمز (لندن) کے مطابق چاٹگام میں ملٹری اکیڈیمی کے کمانڈنگ کرنل کو شہید کر دیا گیا اس کی حاملہ بیوی سے زیادتی کی گئی اور اس کا پیٹ چاک کرکے سڑک پر پھینک دیا۔ ایسٹ پاکستان رائفلز کے ایک اعلیٰ افسر کو زندہ جلا دیا گیا اس کے دو بیٹوں کے سر قلم کئے گئے افسر کی بیوی کا آبروریزی کے بعد پیٹ چیر دیا گیا اور برہنہ جسم پر بیٹے کا سر رکھ دیا گیا۔بہت سے غیر بنگالیوں کی لاشیں ملیں جن کے نازک اعضا میں بنگلہ دیشی پرچم کی ڈنڈیاں گڑی تھیں ‘‘ایسی ہی رپورٹیں 1971ء میں نیویارک ٹائمز اور ڈیلی ٹیلی گراف کے نمائندوں میلیکم برائون اور پیٹر گل کے حوالے سے شائع تھیں مگر آج تک حوالہ صرف ان پمفلٹوں، بیانات اور تشہیری مواد کا دیا جاتا ہے جو بھارت ، عوامی لیگ، مکتی باہنی نے پاکستان، فوج اور رضاکاروں کو بدنام کرنے کے لئے پھیلایا کہ معصوم، غیر مسلح اور سیاسی جدوجہد کرنے والے بنگالیوں کو لاکھوں کی تعداد میں تہہ تیغ کیا گیا، تین لاکھ خواتین سے زیادتی ہوئی اور دانشور و پروفیسر فوجی تشدد کا نشانہ بنے وغیرہ وغیرہ۔

جنرل یحییٰ خان، ٹکا خاں اور نیازی کی حماقتیں اپنی جگہ، غیر ملکی صحافیوں کو فائیو سٹار ہوٹل تک محدود کرنا بہت بڑی غلطی تھی جہاں سے من پسند رپورٹیں بھیجی جاتی رہیں اور یہی پروپیگنڈا، مواد ان دنوں انٹرنیٹ پر موجود ہے مگر بنگالی سکالرز نے جو کتابیں لکھیں، وہ نوجوان نسل بالخصوص ہمارے لکھاریوں کو ضرور پڑھنی چاہئیں بالخصوص وہ بنگال سکالرز جو عوامی لیگ کے حامی اور پاکستان کے مخالف تھے۔ ڈاکٹر عبدالمنعم چودھری انہی میں سے ایک ہیں جو اپنی کتاب BEHIND THE HYTH OF THREE MILLIONمیں بنگالیوں کے قتل، خواتین کی آبروریزی اور دیگر پروپیگنڈے کے واقعات وشواہد اور دلائل کے ساتھ نفی کرتے ہیں اور مکتی باہنی سے مظالم کی داستان تفصیل سے سناتے ہیں۔

سید سجاد حسین کی THE WASTE OF TIME اور ولیم شریف اسحاق کی کتاب BANGLADESH -A UNTOLD STORYمیں بھی شیخ مجیب الرحمن کے بھارت سے رابطوں عوامی لیگ کی غنڈہ گردی اور بہیمانہ مظالم کے علاوہ مکتی باہنی کی تخریب کاری کا ذکر موجود ہے جبکہ عبدالمنعم چودھری نے ڈھاکہ اور راجشاہی یونیورسٹی کے اساتذہ اور بنگالی دانشوروں کے خلاف پاک فوج کی کارروائی، اذیتیں دیکر مارنے اور اجتماعی قبروں میں دفن کرنے کی کہانیوں کا پردہ چاک کیا ہے ۔ اس ضمن میں عبدالمنعم چودھری نے عینی شاہدین کے بیانات واقعاتی شہادتوں سے جیوتی سین گپتا، عبدالحسنات اور جوہری کے دعوئوں اور غیر حقیقی اعدادوشمار کے بخئے ادھیڑے ہیں۔


عبدالمنعم چودھری نے اپنی کتاب میں ایک بنگالی دانشور شہید اللہ قیصر کے چھوٹے بھائی ظہیر ریحان کا حوالہ دیا ہے جو اپنے بھائی کے اصلی قاتلوں کی تلاش میں حقائق اکٹھے کرتا رہا اس کے پاس کچھ تصویریں تھیں اور کلکتہ میں مقیم ایک بڑے عوامی لیگی رہنما کے بارے میں معلومات مگر اسے دن دیہاڑے اغوا کرکے غائب کردیا گیا کیونکہ اغوا کار نہیں چاہتے تھے کہ دانشوروں کے قتل کا افسانہ طشت ازبام ہو اور عوامی لیگی پروپیگنڈے کی قلعی کھلے۔ ان دانشوروں میں منیر چودھری بھی تھے جو ہمیشہ پاکستان دشمنی میں پیش پیش رہے ۔

ڈر یہ ہے کہ جس طرح مشرقی پاکستان میں بغاوت کچلنے اور بے گناہ غیر مسلح پاکستانیوں کا تحفظ کرنے کے لئے پاک فوج میدان میں کودی اور آج تک مجرموں کے کٹہرے میں کھڑی ہے جبکہ اس کا ساتھ دینے اور پاکستان سے وفاداری نبھانے والے عبدالقادر ملا، صلاح الدین چودھری اور مولانا غلام اعظم پر سب وشتم جاری ہے صرف بنگلہ دیش نہیں بلکہ پاکستان میں بھی بالکل اسی طرح کہیں شمالی وزیر ستان کا آپریشن بھی کسی قومی پچھتاوے اور شرمندگی کا باعث نہ بن جائے ۔پاک فوج کیخلاف دشنام طرازی اور الزام تراشی تو قومی اور عالمی میڈیا، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا مرغوب موضوع ہے ۔کارگل، بلوچستان، لال مسجد اور مسنگ پرسنز کے حوالے سے مہم بھی سبق آموز ہے ۔

تنہا کھڑا ہوں میں بھی سر کربلائے عصر

اور سوچتا ہوں مرے طرفدار کیا ہوئے

مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن پر سارا مغربی پاکستان بشمول قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو فوج کے ساتھ تھا مگر یہاں تو حکومت بھی یکسو نہیں ۔اگر خدانخواستہ منفی نتائج سامنے آئے تو حکومت سب سے پہلے اظہار جرات کرے گی (کارگل کی طرح) اور سول بالادستی کے ہیضے میں مبتلا انٹیلی جنشیا بڑھ چڑھ کر فوج کو مورد الزام ٹھہرائے گی جبکہ فوج کے روایتی حلیف بھی خاموشی کو ترجیح دیں گئے کیونکہ مشرقی پاکستان، افغانستان اور کشمیر کے زخم ابھی تازہ ہیں آپریشن کی خواہش سے مغلوب فوجی بھائی بھولے نہیں مگر شائد کچھ بھول رہے ہیں ۔

دیتے بھی ہیں لوگ دہائی قاتل کی

اور خنجر بھی آپ فراہم کرتے ہیں

ارشاد احمد عارف

بشکریہ روزنامہ 

جنگ

  

Enhanced by Zemanta

مستقبل کا سفر

$
0
0

ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف جو اس وقت پاکستان کے آئین سے غداری اور ملک میں دو دفعہ ہنگامی حالت نافذ کرنے کے علاوہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے ججوں کو نظر بند کرنے کے الزامات کے تحت پاکستانی عدالتوں میں انصاف کیلئے سرگرداں ہیں نے موجودہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو ایک فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار سے ہٹا کر قیدو بند میں ڈال دیا تھالیکن بعض عالمی طاقتوں کے دباؤ پر رہا کرکے سعودی عرب جلاوطن کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ مزید برآں ملک میں گزشتہ عام انتخابات کے نتیجے میں جب پیپلزپارٹی برسراقتدارآئی تو انہیں صدارت سے استعفےٰ دے کرآصف علی زرداری کے لیے جگہ خالی کرنی پڑی اور وہ بذات خود ، خودساختہ جلاوطنی پر لندن روانہ ہوگئے۔اب یہ قدرت کا نظام ہے کہ وہی پرویز مشرف جنہوں نے نواز شریف کو قید میں ڈالا تھا خود اپنے ہی گھر میں نظر بند ہے اور نواز شریف گزشتہ عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کے تیسرے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں معیشت کا حال دگرگوں تھا، توانائی کا بحران شدت اختیار چکا تھا، نیزدہشت گردی اور خودکش بم دھماکوں نے پاکستانی عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔یہی وجوہ تھیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو پاکستانی عوام نے مسترد کردیا اور نواز شریف کو یہ مینڈیٹ دیا کہ وہ ملک کی معاشی حالت سدھارنے کے علاوہ توانائی کے بحران کو بھی حل کریں، نیز ملک سے دہشت گردی کا بھی خاتمہ کریں جیسا کہ انہوں نے اپنے منشور میں عوام سے وعدہ کیا تھا۔

حکومت میں آتے ہی نواز شریف اور ان کی کابینہ نے متذکرہ بالا اہداف کے حصول کے لیے کوششیں شروع کردی اور مختلف قسم کی حکمت عملیاں اپنائی جن کے نتیجے میں حالات میں پہلے سے کہیں بہتری نظر آرہی ہے۔ سال روا ں میں پاکستان کے اعلیٰ عہدوں پر فائز بعض عہدے داران کی مدت ملازمت بھی ختم ہوئی اور ان کے جانشینوں کا مسئلہ بھی بخوبی حل کر لیا گیا۔

جسٹس تصدیق حسین جیلانی کے پاکستان کے چیف جسٹس بنتے ہی ملک نے سال رواں کا تیسرا سفر مکمل کر لیا ہے۔ ایک تاریخی سیاسی سفر کے دوران ایک منتخب حکومت نے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کیا اور اس کے نتیجے میں محمدنواز شریف نے پاکستان کا تیسری دفعہ وزیراعظم منتخب ہو کر ریکارڈ قائم کیا۔اگلا سفر بھی نہایت ہی پُرسکون انداز میں طے پایا یعنی پاکستان کے نئے سپہ سالارنے کمان سنبھالی۔ لیکن اب ملک کا چوتھا سفر، ملک کے مستقبل کے لیے نہایت ہی فیصلہ کن اور نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔ یہ ملک کا معاشی سفر ہے ۔۔۔ جس کے آغاز میں دگرگوں معیشت موجود ہے لیکن اس سفر کا اختتام لازمی طور پر ترقی اور سرمایہ کاری کی معیشت کے حصول پر ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر ملک کو غیرمستحکم اور غیریقینی داخلی اور غیرملکی قرضوں یا امداد پر انحصار کے بجائے قومی وسائل وذرائع کی مناسب تقسیم اور نقل وحرکت پر انحصار کرنا چاہیے۔

اب جبکہ نواز شریف نے ملک کے معاشی احیا کو اپنی پہلی ترجیح بنا لیا ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اپنی جماعت کے منشور پر نظر رکھتے ہوئے اس مشکل سفر کے لیے سمت مقرر کریں۔ ان کے جماعتی منشورکے مطابق،ٹیکسوں کے ذریعے آمدنی میں اضافہ اور غیرملکی قرضوں پر انحصار کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ منشور میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ادائیگیوں کے توازن میں خسارہ کم کیا جائے، توانائی کے بحران کو حل کیا جائے اور سرمایہ کاری کے لیے ماحول سازگار بنایا جائے۔

ان ترجیحات کی نشاندہی کے بعد حکومت نے اپنے پہلے چند ماہ میں کہیں زیادہ تیزرفتاری سے کام کیا تاکہ معاشی استحکام اور ترقی کے لیے سازگارماحول تشکیل دینے کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔ اس ضمن میں مطلوب طریقوں میں مالی استحکام، وسیع پیمانے تشکیل دی گئی توانائی حکمت عملی کے مطابق الیکٹریسٹی کے ٹیرف میں اضافہ اور نج کاری کے عمل کو تیز کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو مشکلات کا احساس ہے اور یہ بھی بخوبی علم ہے کہ ان مشکلات سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔ حکومت کو یہ بھی علم ہے کہ ادائیگیوں کے تواز ن کے خسارے کو کس طرح دور کیا جا سکتا ہے، معاشی اصلاحات کیسے انجام دی جا سکتی ہیں، نیز کاروباری اعتماد کیسے تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ان تمام اہداف کے حصول کے لیے بیک وقت اور بلا تاخیر اقدامات اٹھائے جائیں۔

مزیدیہ کہ حکومت کے ابتدائی اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں مالی ماحول کی تشکیل اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی، ملک میں معاشی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس حکمت عملی کی تشکیل کے بعد حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ضمن میں کی گئی کارروائیوں کا تسلسل جاری رکھے۔ اس سے یہ بھی مراد ہے کہ وعدے کے مطابق،حکومت کو جامع ٹیکس اصلاحات کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ بلاشبہ، یہ کام ،سیاسی طور پر آسان نہیں اور مشکل حالات میں مشکل فیصلے درکار ہیں۔ یہ حکمت عملی،رعایتوں اور مراعات کے خاتمے پر مشتمل ہے جو کافی عرصہ سے سماجی اداروں اور افراد کو دی گئی ہیں۔ ایس آر او کلچر کے باعث ملک کو کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑا جس کے باعث ملک میں کاروباری ماحول تشکیل نہیں پا سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ 2007ء اور2012ء کے درمیان نجی سرمایہ کاری کی شرح13سے کم ہو کر 9 فیصد ہو چکی تھی۔ 2012ء میں بنک کریڈٹ کا بہت کم حصہ نجی شعبے کو ملا۔ 2013ء میں نجی شعبے کو کل کریڈٹ کا بھی بہت کم حصہ ملا۔ سرمایہ کاری کے لیے مستحکم ماحول کی تشکیل کے لیے حکومت کی طرف سے قرضے حاصل کرنے کی شرح کم ہونی چاہیے۔ ان کے علاوہ ملکی معیشت کی ترقی کے لیے توانائی کے بحران کے خاتمے کے علاوہ نج کاری کا عمل تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیراعظم نے حزب مخالف کو با رہا کہا ہے کہ ملک کی معیشت کی ترقی کے لیے سیاست کے کھیل سے باہر رہا جائے۔ مزیدبرآں وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ ملک کی معاشی ترقی کے لیے مطلوب اقدامات کے ضمن میں قومی اتفاق رائے پیدا کریں تاکہ معاشی طور پر مستحکم پاکستان کے خواب کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔

ڈاکٹر ملیحہ لودھی

بشکریہ روزنامہ "نئی بات"

Enhanced by Zemanta

Reality of Pakistan Media by Talat Hussain

$
0
0


Reality of Pakistan Media by Talat Hussain
Enhanced by Zemanta

Pakistan Government and Taliban Talks by Abdullah Tariq Sohail

$
0
0

Pakistan Government and Taliban Talks by Abdullah Tariq Sohail
Enhanced by Zemanta

Real causes of Turkey corruption scandal

$
0
0

یہ امریکہ کی ریاست پنسلوانیا (Pennsylvania) کے شہر سیلرس برگ کے سرسبز و شاداب ماحول میں گھری ہوئی ایک خوبصورت عمارت ہے۔ گہرے بادامی رنگ کی ڈھلوان چھتوں والی V(وی) کی شکل میں بنی اس عمارت کی عقبی سڑک کے دائیں بائیں سے پکی پگڈنڈیاں آگے محرابی شکل کے صدر دروازے تک آتی ہے۔سامنے کی پگڈنڈی کے آگے گھنے درختوں کے جھنڈ ہیں۔ یہیں پر معروف امریکی رسالے Foreign Policy کے سروے کے مطابق عالمِ اسلام کی پانچ سو سب سے با اثر مُسلم شخصیات میں سے ایک فتح اللہ گولن بظاہر گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن حقیقت میں یہیں سے وہ اس تحریک کی ڈوریوں کو حسبِ ضرورت حرکت دیتے ہیں جسے ’ گولن تحریک ‘ کہا جاتا ہے اور یہ ’خدمت تحریک ‘(Hizmet Movement) کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ یہ تحریک رفاہِ عامہ اور فروغِ تعلیم کے ظاہری مقاصد کے تحت چل رہی ہے ۔ سائنسی مضامین کی تعلیم کو وہ عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔اس تعلیمی تحریک کی وجہ سے وہ اسی طرح مغرب کی گُڈ بکس میں ہیں جس طرح ہمارے ہاں خورشید محمود قصوری اور ان کا خاندان ہے جنہوں نے ملک میں ’بیکن ہاؤس ‘ اور ’سِٹی سکولز‘ کا جال بچھا رکھا ہے۔گولن تحریک کا نیٹ ورک ترکی، وسطِ ایشیا اوردنیا کے تقریباً ڈیڑھ سو دیگرممالک میں پھیلا ہوا ہے ۔ خودامریکہ کی پچیس ریاستوں میں اس وقت ان کے ایک سو بیس سکول ہیں۔ قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے ان کے مرید ذاتی سطح پر ہمہ نوع ادارے قائم کرتے ہیں اور پھر ان کو طے شدہ پالیسی کے تحت اصل نیٹ ورک کے ساتھ منسلک کر دیا جاتا ہے۔ اشرافیہ کے لیے بھاری فیسوں والے بڑے مہنگے سکولوں اور یونیورسٹیوں کے علاوہ اس کے زیرِ اہتمام متعددخیراتی ادارے ، تعمیراتی کمپنییاں، طِبی مراکز، اقتصادی ادارے اورطاقتورمیڈیا مراکز قائم ہیں، جن میں ریڈیو اور ٹی وی سٹیشن، اخبارات اور رسائل شامل ہیں۔ترکی کا ایک کثیر الاشاعت اخبار ’زمان ‘ اور اس کا انگریزی ورژن Today\’sZaman\’ اسی تحریک کا ایک بڑا ابلاغی ہتھیار ہے۔یہ تحریک ترکی کی طلبہ اور دیگر پیشہ ورانہ تنظیموں میں بھی گہرا اثر رکھتی ہے۔ترکی کی عدلیہ اور محکمہ پولیس میں اس تحریک کے سرگرم حامی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس وقت ترکی میں گولن کے حامیوں کی تعداد ایک کروڑ کے قریب بتائی جاتی ہے۔

فتح اللہ گولن1999 علاج کی غرض سے امریکہ منتقل ہوئے تھے۔ وہ اپنے آپ کو مولانا روم کی روحانی روایت اور بیسویں صدی کے معروف مُصلح اور داعی بدیع الزّماں سعید نورسی ؒ کی اصلاحی فکر کے وارث کی حیثیت سے متعارف کراتے ہیں۔ مغربی دنیا میں ایک اعتدال پسند مسلم سکالر اور روحانی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔وہ بین المذاہب مکالمے اور تفاہم و تقرب کے اس وقت سب سے بڑے داعی ہیں۔ترکی کی اسلامی تحریک ، خاص طور پر، بدیع الزّمان سعید نورسی ؒ کی نوری تحریک میرے مطالعہ کا اہم موضوع رہا ہے۔میں گولن یا خدمت تحریک کو شاید اتنی جلدی اپنا موضوع بنانے کی فرصت نہ نکالتا لیکن یہ جو وزیرِ اعظم طیب اردگان کی جماعت AKP اور گولن تحریک کے درمیان ایک ’کھلی جنگ ‘ کی کیفیت سامنے آئی ہے ضروری سمجھا کہ اپنی معلومات قارئین سے شیئر کروں۔بات چلی تھی کہ گولن تحریک کے تحت چلنے والے پریپ سکولوں کو حکومت بند کرنا چاہتی ہے۔معاملہ انتظامی نوعیت کا ہے۔لیکن یہ سکول چونکہ اس تحریک کے لیے اس کی بے پناہ آمدنی اور بالائی سماجی طبقے سے قریبی رابطے کے حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے ان کا بند ہونا اس کے لیے بڑے نقصان کا باعث ہو گا۔اسی بات پر حکومت اور اس تحریک کے مابین کشیدگی بقول میڈیا ’کھلی جنگ‘ کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ابھی حکومتی وزرا کے بیٹوں کے خلاف کرپشن کے جو کیس سامنے لا کر ایک ہلچل مچائی گئی ہے یہ اسی کشمکش کا شاخسانہ ہے۔ نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹوں میں وزیرِ اعظم طیّب اردگان کو پیش آنے والے تازہ بحران میں فتح اللہ گولن کا ہاتھ بتایاہے۔ یکطرفہ طور پر یہ تلخی پہلے بھی موجود تھی۔فتح اللہ گولن کا بین المذاہب دوستی اور ڈائیلاگ کا ایک خاص فلسفہ ہے ۔ مئی2010کے آخر میں فلسطین میں محصورینِ غزّہ کے لیے امدادی سامان لے کر چھ بحری جہازوں پر مشتمل فلوٹیلا ترکی کی بندرگاہ سے گیا تھا۔ اسرائیلی کمانڈوز نے اپنی سمندری حدود سے باہر کمانڈو ایکشن کیا اور آٹھ نو ترک باشندے اور ایک امریکی ترک کو ہلاک کر دیا تھا۔اس پر ترکی کی حکومت نے اس قدر سخت ردِ عمل کا اظہار کیا تھا کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کو معذرت کرنی پڑی تھی۔ انسانی ہمدردی کی یہ امدادی مہم فتح اللہ گولن کے نزدیک قابلِ اعتراض اوران کے بین المذاہب دوستی اور ڈائیلاگ کے فلسفے کے خلاف تھی۔ انہوں نے اس پر ترک وزیرِ اعظم کو تو تنقید کا نشانہ بنایالیکن اسرائیل کے وحشیانہ اقدام کی مذمت نہیں کی۔مصر میں گزشتہ جولائی میں منتخب صدر محمد مرسی کو فوجی طاقت سے معزول کر دیا گیا۔ اس غیر جمہوری کارروائی کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر بہیمانہ تشدد ہوا۔سینکڑوں اخوانی کارکن بڑی بے دردی سے شہید کر دیے گئے۔ان مظلوموں اور مقتولوں سے تو جناب گولن نے کوئی ہمدردی ضروری نہ سمجھی لیکن مرسی کی حمایت اور اخوانوں کے بے دردانہ قتل پرطیّب اردگان کے دکھ اور صدمے کے اظہار کو انہوں نے دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کیا۔ ان کا ہر موقف اسرائیل اور مغربی قوتوں کے تو قریب نظر آتا ہے لیکن مِلی سوچ سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔

فتح اللہ گولن بظاہر صوفی مسلک کے آدمی ہیں لیکن ان کی تحریک کے مزاج کا تجزیہ کریں تو یہ دنیا داری اور مادہ پرستی کی ایک جدید مثال ہے۔ یہ دنیوی اثر و رسوخ اور ترکی کے حلقہِ خواص اور قومی اداروں میں اپنے اثرات کو گہرا کر رہے ہیں۔ بزرگانِ دین کے ہاں مقبولیت ہمیشہ بڑا نازک معاملہ رہا ہے۔ وہ اسے ایک فتنہ ہی سمجھتے رہے اور اس سے دور بھاگنے ہی میں اپنے دین و ایمان کی سلامتی خیال کرتے تھے۔ یہ مقبولیت اس لیے بھی بڑا امتحان ہے کہ کچھ قوتیں مقبول تنظیموں اور شخصیات کو اپنے پھندے میں پھنسا لیتی اور اپنے مکروہ ایجنڈے کے تابع کر لیتی ہیں۔ طیب اردگان کی قیادت میں ترکی کو کچھ امتیازات حاصل ہو رہے ہیں۔یہ ملک عالمِ اسلام کی قیادت کی صلاحیت پیدا کر رہا ہے۔ یہ بڑی تیزی سے دینی روح، اقتصادی ترقی اورسیاسی استحکام کی طرف لوٹ رہا ہے۔یہی چیز اسلام دشمن قوتوں کو گوارا نہیں ہے۔اس لیے ترکی کو اس منزل سے ہٹانے کی سازشوں کا شروع ہو جانا ہر گز باعثِ تعجب نہیں ہو گی۔ اردگان نے پاکستان کے دورے سے واپسی پر اپنے بیان میں ملک کے اندر اور باہر بیٹھی ہوئی جن سازشی قوتوں کا نام لیے بغیر ذکر کیا یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ان کا اشارہ کس طرف ہے۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے اس سے واضح طور پر گولن تحریک مراد لی ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ ترکی کی پولیس فورس اور عدلیہ اور بیوروکریسی میں کلیدی پوزیشنوں پر گولن کے مرید بیٹھے ہوئے ہیں جو جب چاہیں حکومت کو ہلا کر رکھ سکتے ہیں۔یہ تحریک اب اتنی طاقتور ہو چکی ہے کہ کوئی اور تحریک اپنے اثرات میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ترکی کے مردِ بیمار نے ابھی ایک عشرہ ہی ہوا ہے سنبھلنا شروع کیا تھا، پھر اس کے روگ تازہ کرنے کی سازشیں ہونے لگی ہیں۔ گولن ہوں یا طاہر القادری یا الطاف حسین ، سیاست کرنے کا صاف اور سیدھا راستہ یہ ہے کہ ملک کے اندر آئیں، اپنے منشور اور پروگرام کے ساتھ حصہ لیں۔اپنی مقبولیت کو امتحان میں ڈالیں۔ عوام کے ووٹوں سے اقتدار تک پہنچیں۔ اپنی حریف سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں قوم کو فلاح و ترقی کی منزل سے ہمکنار کرنے کا اہل ثابت کریں۔ رضاکارانہ جلاوطنی ہمیشہ بیرونی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے شکوک کو جنم دیتی ہے اور یہ شکوک ان تینوں شخصیات کے بارے میں موجود ہیں۔

منیر احمد خلیلی

                                                                                                                                                               

بشکریہ روزنامہ نئی بات

Real causes of Turkey corruption Scandal

Enhanced by Zemanta

Pakistan Political Corruption

$
0
0

میرے سامنے دی نیوز اخبار میں شائع ہونے والی ایک خصوصی رپورٹ ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ارکان اسمبلی کے ٹیکس گوشواروں میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہونے والے 47 فی صد سیاستدانوں نے انکم ٹیکس ادا ہی نہیں کیا۔ 12 فیصد ایسے ہیں جن کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر تک نہیں۔ بتایا گیا ہے کہ(ن) لیگ کے 54 رکن قومی اسمبلی، تحریک انصاف کے 19، پیپلز پارٹی 13، جے یو آئی ایف 7، ایم کیو ایم کے 5ارکان ٹیکس نادہندہ ہیں۔ پندرہ ارکان ایسے بھی ہیں جو آزاد منتخب ہوئے۔اسی طرح اس رپورٹ میں تمام صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے حوالے سے انکشافات کئے گئے ہیں جن میں اہم سیاسی رہنما بھی شامل ہیں۔ 23 دسمبر کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کو میں کئی مرتبہ پڑھ چکا ہوں جس نے کئی ایک سوالات کو جنم دیا ہے۔میں ان سوالوں کے جواب خود سے تلاش کرنے کی کوشش میں ابھی مصروف تھا کہ 26دسمبر کو اخبارات میں الیکشن کمیشن کی جانب سے تمام عوامی نمائندوں کے 2012-13ء کے دوران جمع کرائے گئے گوشوارے بھی اپنی ویب سائٹ پر جاری کر دیئے ہیں جن کے مطابق اس ملک کے غریب عوام جن میں سے 60 فیصد تو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور31 فی صد تو ایسے ہیں جو روزانہ بمشکل سوا ڈالر کماسکتے ہیں۔ وزیر اعظم ملک کے امیر ترین شخص ہیں، انہوں نے اپنے اثاثے جو ظاہر کئے ہیں ان کی مالیت ایک ارب 82کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ گوشواروں کے مطابق وسیع جائیدادیں اور مہنگی گاڑیاں رکھنے والے اکثر ارکان نے کاروبار کے خانے میں یہ تک درج نہیں کیا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ 

بعض ارکان تو امیر ہونے کے باوجود گاڑی نہیں رکھتے۔ بعض نے سو سو تولے طلائی زیورات کی مالیت چند لاکھ روپے ظاہر کی ہے۔ بعض کروڑوں روپے مالیت کے بنگلے رکھتے ہیں مگر ان کی مالیت چند لاکھ لکھی گئی ہے اور بعض کے پاس مہنگی گاڑیاں ہیں مگر مالیت چند لاکھ ہے ۔ چونکہ یہ سب ارکان ہر سیاسی پارٹی میں بلاتفریق موجود ہیں اس لئے کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔ ہاں البتہ پرویز رشید، جمشید دستی جیسے بھی چند ارکان ہیں جن کے اثاثے نہیں لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ جو کچھ ظاہر کیا گیا ہے اس میں سچ کیا ہے اور جھوٹ کی آمیزش کتنی ہے۔ چونکہ حقیقت تو یہی ہے کہ ایف بی آر میں جمع کرائے گئے گوشوارے اور الیکشن کمیشن کو فراہم کی گئیں معلومات میں تضاد پایا جاتا ہے، اسی وجہ سے جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ جب جھوٹ اور سچ خلط ملط ہو جائیں تو پھر ہر کوئی یہ حق رکھتا ہے کہ وہ ان معلومات کو بالکل رد کردے یا مکمل طور پر سچ سمجھ لے لیکن الیکشن رولز کے مطابق الیکشن میں حصہ لینے والا امیدوار ایسے عہد نامے پر دستخط کرتا ہے جس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ میری دی گئی تفصیلات اورمیری فراہم کردہ معلومات کسی بھی وقت غلط قرار پائیں تومیرا انتخاب کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ ماہرین قانون کے مطابق اگر کسی رکن کے گوشوارے غلط ثابت ہوجاتے ہیں تو اسے 5 سال قید اور پانچ ہزار روپے تک جرمانے کے ساتھ نااہلی کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے ۔ 

اب اگر ایف بی آر اور الیکشن کمیشن کو فراہم کردہ معلومات کا جائزہ لیا جائے تو ان قواعد وضوابط کی روشنی میں 95فیصد سے زیادہ ارکان تو نا اہل قرار پاتے ہیں اور ان کی رکنیت کالعدم ہوجاتی ہے لیکن دیکھئے کہ الیکشن کمیشن وہ ادارہ ہے جو صاف شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کے انعقاد کا نہ صرف ذمہ دار ہے بلکہ اس کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ امیدواروں کی اہلیت کو آئین کی دفعہ 62, 63کی کسوٹی پر بھی پرکھے۔ مگر افسوس کہ یہ ازخود گوشواروں کی تحقیقات ہی نہیں کر سکتا جب تک کسی امیدوار کے خلاف کوئی شکایت موصول نہ ہو۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر کوئی غلط گوشوارے جمع کراتا ہے اس کی چھان بین الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں، دوسرے لفظوں میں الیکشن کمیشن جھوٹ اور دھاندلی کی بنیاد خود ہی فراہم کرتا ہے۔

اگر غیر جانبداری سے ایف بی آر اور الیکشن کمیشن کو فراہم کردہ ارکان اسمبلی کی معلومات کا جائزہ لیا جائے تو انہیں کلّی طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ بے شک وہ جھوٹے ہیں، کرپٹ ہیں ،انہوں نے معلومات فراہم کرنے میں غلط بیانی سے کام لیا لیکن کیا حکومت اور اداروں نے بھی کبھی غور کیا کہ جو فارم یا گوشوارے ان سے مکمل کرائے جاتے ہیں ان میں کتنے تضادات ہیں۔ یہ تو ارکان اسمبلی ہیں جن کے گوشوارے کچھ نہ کچھ حد تک ظاہر ہو گئے ہیں مگر لاکھو ں ایسے افراد ہیں جو اپنے گوشواروں میں غلط معلومات فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے قومی خزانے میں ٹیکس جمع نہیں ہوتے اس کی وجہ صرف گوشواروں میں پائے جانے والے تضادات ہیں ۔ مثال کے طور پر ایک شخص کے پاس اگر ایک سو تولے سونا ہے ، اس نے یہ ایک ہزار روپے تولہ کے حساب سے خریدا ہوا ہے تو وہ اس کی کل مالیت ایک لاکھ ہی ظاہر کرے گا۔ ایک شخص نے کوئی بنگلہ 20 سال پہلے دس لاکھ کا لیا ہے تو آج اس کی مالیت دس کروڑ ہوگئی لیکن وہ رجسٹری کے مطابق ہی اس کی مالیت ظاہر کرے گا۔اب فرض کریں کہ صرف وزیراعظم نے جو اثاثے ظاہر کئے ہیں ان کا موجودہ مارکیٹ کے حساب سے دیکھا جائے تو ہوسکتا ہے یہ 20 ارب روپے سے بھی زائد ہوں ۔اس لئے ہمیں ان وجوہات کو تلاش کرنا چاہئے جو جھوٹ بولنے کی بنیاد فراہم کرتی ہیں اور اس کے تدارک کے لئے کوئی بہتر نظام وضع کرنا چاہئے تاکہ سچائی اور حقیقت سامنے آسکے۔ اس حوالے سے درج ذیل چند اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔

  ۔ شناختی کارڈ بننے کے بعد اگر اس شخص نے نوکری حاصل کر لی ہے یا کوئی کاروبار شروع کرلیا ہے تو فوری طور پر نادرا میں یہ اندراج کرائے اور نادرا ایف بی آر سے کو آرڈینیٹ کرکے اسے این ٹی این جاری کرے جو اس کے شناختی کارڈ پہ بھی درج ہو۔

  ۔ نوکری حاصل کرنے اور کاروبار شروع کرنے سے پہلے این ٹی این نمبر کا حصول قانونی طور پر لازمی قرار دیا جائے بے شک یہ چھوٹا سا کاروبار ہی کیوں نہ ہو۔

  ۔ کوئی شخص اگر الیکشن لڑنا چاہتا ہے، اس کے پاس کوئی اثاثہ نہیں مگر پھر بھی اسے گوشوارے جمع کرانے چاہئیں اور اس وقت تک الیکشن کے لئے اہل نہیں ہونا چاہئے جب تک اس کے پاس این ٹی این نمبر نہ ہو۔

  ۔ ایف بی آر اور الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں ہم آہنگی پیدا کرنی چاہئے   عام طور پر ان دونوں اداروں میں دی گئی معلومات میں تضاد کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگ اپنا بزنس بڑی مالیت کا رکھتے ہیں مگر ایف بی آر میں اپنے اثاثے کم ظاہر کرتے ہیں تاکہ ٹیکس سے بچا جاسکے مگر الیکشن کمیشن میں اثاثے زیادہ بتائے جاتے ہیں تاکہ کل اگر کرپشن کی جاتی ہے تو اسے تحفظ مل سکے۔

  ۔ گوشواروں میں عام طور پر پراپرٹی وغیرہ کی مالیت وہ بتائی جاتی ہے جس کے مطابق رجسٹری ہوتی ہے یا جائیداد خریدی جاتی ہے ۔ یہ کئی سال پرانی بھی ہوسکتی ہے اس لئے گوشواروں میں ڈی سی ریٹ اور موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق جو ویلیو ہو وہ درج ہونی چاہئے ۔اس سے ایک تو کالے دھن میں کمی آئے گی ، وائٹ منی میں اضافہ ہوگا اور ایف بی آر صحیح assessment کرسکے گا۔ ایسی صحیح معلومات فراہم کرنے والوں کو ٹیکس میں زیادہ چھوٹ دینی چاہئے ۔

  ۔ جو لوگ الیکشن میں حصہ لینا چاہیں انہیں اپنے تمام اثاثے اور ذرائع آمدنی مشتہر کرنے چاہئیں اور عوام کو اجازت ہونی چاہئے کہ وہ ان پر اعتراضات اٹھاسکیں۔ صرف ایسے افراد کو الیکشن کے لئے اہل قرار دینا چاہئے جنہیں عوام نے کلیئر کردیا ہو۔

 ۔ ایسے ممبران جو اپنے اثاثے گوشواروں میں غلط ظاہر کریں ان کی جائیدادیں نیلام کرکے ظاہر کئے گئے اثاثوں سے زیادہ قومی تحویل میں لے لینا چاہئے ...جب تک ہم سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرتے رہیں گے کبھی بھی سدھار نہیں آئے گا، سدھار لانا چاہتے ہیں تو سچ اور جھوٹ کی تمیز کو پہچاننا ہوگا!

عابد تہامی

بشکریہ روزنامہ جنگ

Pakistan Political Corruption

Enhanced by Zemanta

Mental Health by Dr. Abdul Qadeer Khan

$
0
0


Mental Health by Dr. Abdul Qadeer Khan
Enhanced by Zemanta

Bad Bilawal Zardari by Hamid Mir

$
0
0


Bad Bilawal Zardari by Hamid Mir

کیا ہمارے مذہبی رہنما ایسا کر سکتے ہیں؟

$
0
0


دوستوں کی محفل میں عالم اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں سے متعلق گرما گرم بحث جاری تھی،امریکہ کو بُرا بھلا کہنے اور یہودیوں کو کوسنے کا سلسلہ عروج پر تھا۔ایک مذہبی جماعت کے ترجمان نے گرم چائے کا کپ ہونٹوں سے ہٹاتے ہوئے جیو نیوز کو بھی لپیٹ دیا۔ میں نے بصد احترام پوچھا،اگر جیو پر تعلیم کے فروغ کیلئے مہم چلائی جا رہی ہے تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ پڑھنے لکھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا،اس سلوگن میں کیا برائی ہے؟ انہوں نے بھنّا کر کہا،پاکستان کا مطلب کیا،لاالہ الا اللہ جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے آپ اسے ہی گرا رہے ہیں اور پوچھتے ہیں ،آپ کو کیا اعتراض ہے۔

سامنے تشریف فرما ایک اور مذہبی جماعت کے انقلابی رہنما اور مرکزی ترجمان نے نہ صرف گرہ لگائی بلکہ بات کچھ یوں آگے بڑھائی،یہ جو آپ کا نعرہ ہے نا، اگر آگے بڑھنا ہے تو الف ب پہ یقین رکھنا ہے، یہ الف،ب مخفف ہے امریکہ بہادر کا۔ یعنی اگر آگے بڑھنا ہے تو امریکہ بہادر پہ یقین رکھنا ہے۔ یہ ہیں اس قوم کے رجالان دین جسے ’’گھٹّی‘‘ ہی اقراء کی دی گئی،جسے کہا گیا کہ ماں کی گود سے قبر تک حصول علم سے دستکش نہ ہونا،یہ سوچ ہےاس شریعت کے علمبرداروں کی جو حصول علم کیلئے نکلنے والے کی موت کو شہادت کا درجہ دیتی ہے۔ جب امریکہ کی عظمت و سطوت کا ناقوس بجتا ہے تو ہمارے ہاں نوحوں اور مرثیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

میں حیران ہوں کہ اس میں جلنے کڑھنے اور کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب تک علم و تحقیق کا عَلم ہمارے ہاتھ میں تھا،دنیا کی قیادت بھی ہمارے پاس تھی۔جب تک ہم کوتاہ دستی کے سبب بیمار نہیں ہوئے اور عقل و خرد کے گھوڑے پر سوار رہے، دشت و دریا ہماری ہیبت سے لرزاں تھے،زمانہ ہماری جنبش لب کامنتظر رہتا اور مورخ ہماری ہی شان میں قصیدہ کہتا۔مگر آج امریکہ علمی و فکری میدان میں سرفہرست ہے تو سب اس کی چاکری کرتے اور قصیدے پڑھتے ہیں۔چند روز قبل سائنسی جرنلز کی درجہ بندی اور تحقیق کا معیار جانچنے والے ایک ادارے SJR نے رپورٹ جاری کی۔امریکہ میں گزشتہ 16برس کے دوران 70لاکھ تحقیقی مقالے شائع ہوئے اور سائنسی جرائد کی تعداد کے لحاظ سے بھی امریکہ سب سے آگے ہے اس لئے اس کے رینکنگ پوائنٹس 1380ہیں۔ دوسرے نمبر پر چین، تیسرے نمبر پر برطانیہ جبکہ چوتھے اور پانچویں نمبر پر جرمنی اور جاپان ہیں۔ اگر امریکہ کے بعد سرفہرست چاروں ممالک کے تحقیقی مقالوں کی تعداد جمع کر لی جائے تو بھی امریکہ کے مقابلے میں کم ہے۔ 1996ء سے 2012ء تک کے دوران 20لاکھ تحقیقی مقالے کی اشاعت کے ساتھ چین دوسرے نمبر پر ہے جبکہ جرنلز کی تعداد کے لحاظ سے چین کی کریڈٹ رینکنگ 385 ہے۔ چین میں بھی چند عشرے قبل تحقیق کا فقدان تھا۔ چینی حکمرانوں نے یہ بات محسوس کی کہ ان کے ہاں نقل کرنے اور کاپی کرنے کا کام تو نہایت مہارت کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن ایجادات و اختراعات کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے لہٰذا چینی حکومت نے اکیڈمی آف سائنسز کی بنیاد رکھی اور یہ اعلان کر دیا کہ جس محقق کا مقالہ کسی سائنٹیفک جرنل میں شائع ہو گا،اسے 30 ہزار ڈالر انعام دیا جائے گا۔

ہمارا ہمسایہ ملک ایران جہاں ہم سے کہیں زیادہ مرگ بر امریکہ کے نعرے گونجتے ہیں اور امریکہ کو شیطان عظیم کہا جاتا ہے ،وہاں بھی تمام تر اقتصادی پابندیوں کے باوجود تحقیق کا معیار ہمارے مقابلے میں بلند ہے۔ اس عرصے کے دوران ایران میں 202807 تحقیقی مقالے شائع ہوئے جبکہ سائنسی جریدوں کی تعداد اور معیار کے لحاظ سے ایران کی ریٹنگ135ہے۔ایران کے موجودہ صدر حسن روحانی اسکاٹ لینڈ کی گلاسگو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں۔ ان کی کابینہ امریکہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، روس اور اسپین کے مقابلے میں زیادہ کوالیفائیڈ ہے۔ ایرانی صدر کے چیف آف اسٹاف محمد نہاوندیان نے امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔وزیر خارجہ اور ایٹمی قضیے پر مرکزی مذاکرات کار جواد ظریف بھی اسی شیطان عظیم امریکہ سے پی ایچ ڈی کر کے لوٹے۔ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ علی اکبر صالحی نے بھی امریکہ سے نیوکلیئر انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی۔ محمود وائزی جو کمیونی کیشن کے وزیر ہیں انہوں نے بھی امریکہ کی لوزیانا یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی جبکہ وزیر ٹرانسپورٹ عباس احمد اخوندی برطانیہ سے پی ایچ ڈی کر کے اپنے ملک کی خدمت کر رہے ہیں ۔میں اس روش کی حوصلہ شکنی نہیں کر رہا،آپ اپنی جبلت سے مجبور ہو کر امریکہ کو گالیاں دیتے ہیں تو دیں،اس کے جھنڈے جلائیں یا ہتھیلی پہ سرسوں اگائیں،کم از کم ان کافروں کے ملک پڑھنے ضرور جائیں۔

ہم بھارت سے مسابقت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی قطار شمار میں نہیں۔ یقین نہیں آتا تو اسی رپورٹ میں موازنہ کر کے دیکھ لیں۔بھارت میں گزشتہ 16سال کے دوران 750777 مقالے شائع ہوئے جبکہ پاکستان میں صرف 58133۔سائنسی جرائد کی اشاعت کے حساب سے بھارت کی ریٹنگ چین سے قریب تر ہے یعنی چین کی 385 اور انڈیا کی 301 مگر پاکستان کی ریٹنگ111 ہے۔دنیا بھر میں عالمی سائنسی جریدوں کی تعداد 202807ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ امریکہ سے شائع ہوتے ہیں جن کی تعداد 5605ہے۔

معیار کے لحاظ سے امریکی جریدہ ’’سائنس‘‘ 739انڈیکس کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت سے 369سائنسی جریدے نکلتے ہیں جبکہ سب سے معیاری جرنل کرنٹ سائنس کاانڈیکس ریٹ 63ہے ۔پاکستانی جرنلز کی تعداد صرف 85 ہے اور سب سے بہترین جرنل ’’جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن JPMA) (‘‘ کا انڈیکس ریٹ 23ہے۔دنیا بھر میں نالج بیسڈ اکانومی کا تصور پختہ تر ہوتا جا رہا ہے یعنی آپ نے خوشحالی کی دہلیز پر قدم رکھنا ہے تو الف ب پہ یقین رکھنا ہے اور تعلیم کے شعبہ میں سرمایہ کاری کو پہلی ترجیح سمجھنا ہے۔ ورلڈاکنامک فورم کی درجہ بندی کے مطابق انڈونیشیا میں اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی شرح 27 فیصد ہے جبکہ نالج بیسڈ اکانومی کی دوڑ میں یہ ملک69ویں نمبر پر ہے۔ چنانچہ اس کی سالانہ ویلیوایڈڈ سروسز برآمدات 120ارب ڈالر تک جا پہنچی ہیں ۔ملائیشیا دوسرا رول ماڈل ہے جہاں اعلیٰ تعلیم تک رسائی کے مواقع 30فیصد ہیں جبکہ نالج بیسڈ اکانومی کے لحاظ سے 38ویں نمبر پر ہے۔ملائیشیا میں تو ایک شہر تعلیم بسایا گیا ہے جس کا رقبہ سنگا پور سے تین گنا زائد ہے۔اس شہر تعلیم میں عالمی معیار کی 7یونیورسٹیاں موجود ہیں۔تُرکی اس ضمن میں امت مسلمہ کے قائد کا کردار ادا کر رہا ہے جہاں اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی شرح 38فیصد ہے۔ترک یونیورسٹیوں سے منسلک43 ٹیکنالوجی پارکوں میں سرگرم عمل 700کمپنیاں سالانہ 750ملین ڈالر کا زرمبادلہ کما رہی ہیں ۔ہمارا پیارا پاکستان اس درجہ بندی میں 160ممالک میں 122ویں نمبر پر ہے اور یہاں اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی شرح 7.8فیصد ہے۔ ایسے میں کوئی ادارہ الف ب پ پر یقین رکھنے کی بات کرے تو اس پر الزامات کی برسات ہو جاتی ہے۔

ہم جن یہودیوں کو مطعون کرتے رہتے ہیں انہوں نے 1969ء میں چندہ مہم شروع کی اور ایک بلین ڈالر جمع کر کے اسرائیل کے چیف ربی کے پاس بھجوائے تاکہ اس سے ایک عظیم الشان سنگاگ تعمیر کرایا جائے۔چیف پروہت نے کہا،خدا کو کسی محل کی حاجت نہیں ،اس کی عبادت تو کسی جگہ بھی ہو سکتی ہے،اس خدا کو پانے کیلئے علم ضروری ہے لہٰذا جائو اور اس سے ایک ایجوکیشن ٹرسٹ بنائو چنانچہ 1970ء میں دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی ٹرسٹ اسرائیل میں قائم ہوا۔ کیا ہمارے مذہبی رہنما ایسا کر سکتے ہیں؟

محمد بلال غوری

بشکریہ روزنامہ "جنگ"

تو کیوں نہ سب کو اکھاڑ دیں

$
0
0

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نا پایا تو کدھر جائیں گے

حالانکہ بھورو بھیل کو بھی اسی خدا نے پیدا کیا اور مارا جس نے سندھ کے ضلع بدین کے قصبے پنگریو کے حاجی فقیر قبرستان میں پہلے سے دفن سیکڑوں مسلمان اور دس ہندو بھیلوں کو پیدا کرکے مارا۔ ضلع بدین کے ایک اور قصبے ٹنڈو باگو کے بچل شاہ قبرستان میں دفن ہونے والے اللہ ڈینو بھیل کی بھی پیدائش و موت کی یہی کہانی ہے جو باقی انسانوں کی ہے۔

بھورو بھیل اور اللہ ڈینو بھیل نے بھی اپنی زندگی وہی زبان بولتے ، وہی لباس بدلتے ، وہی کھانا پینا کرتے ، وہی استحصال سہتے ، وہی خوشیاں غمیاں بھوگتے گذاری جو ساتھ کے مفلوک الحال مسلمان گذار رہے ہیں۔کسی ہندو یا مسلمان زمیندار نے ان بھیلوں سے زندگی میں یہ کہہ کر فصل کٹوانے ، مویشی چروانے یا اپنی زمین پر جھونپڑا ایستادہ کرنے سے منع نہیں کیا کہ تم ایک غلیظ نسل ہو۔خبردار میری زمین پر اپنے ناپاک قدم نا رکھنا۔لیکن جب بھورو بھیل اور اللہ ڈینو بھیل مرے تو خدا کی زمین خدا کے بندوں کے لیے خدا کے بندوں نے تنگ کردی اور ان کی لاشوںکو قبرستان سے نکال پھینکا۔اور جنھوں نے یہ کام کیا انھیں شائد احساس تک نا ہوکہ جس زمین کو وہ اپنا سمجھ رہے ہیں یہ تو صرف ہزار سال سے ان کی ہے۔جب کہ اس زمین کا چپہ چپہ بھیلوں کے ناپاک قدموں سے سات ہزار سال سے آلودہ چلا آ رہا ہے۔

مگر کم ازکم یہ تو ہوا کہ جن قبرستانوں میں کبھی دیوار نہیں کھچی اب کھچ رہی ہے۔ہو سکتا ہے اس بہانے ایک طرف والے قبر کے عذاب سے زیادہ محفوظ رہیں۔اور اگر واقعی الارضُ اللہ و الحکمُ اللہ کا یہی مطلب ہے کہ خدا کی زمین کو زندوں کے ساتھ ساتھ مردوں میں بھی تقسیم کردیا جائے تو پھر اسی سندھ میں چند اور مقامات کی نشاندہی بھی مناسب رہے گی تاکہ خدائی فوج داروں کو خدا کی زمین پاک کرنے میں اور آسانی ہو جائے۔

تو سب سے پہلے بھٹ شاہ چلیے اور لطیف سائیں کے مریدِ خاص مدن لال کی قبر اکھاڑ پھینکیے جو بالکل لطیف سائیں کی بغل میں موجود ہے۔تعجب ہے کہ اللہ ڈینو بھیل کی لاش قبر سے نکلوانے والے مولانا اللہ ڈینو خاصخیلی کی سمجھ میں جو نکتہ آگیا وہ لطیف سائیں جیسے صاحبِ کشف و جذب کے روحانی وارثوں کو سمجھ میں نہیں آیا کہ مرشد کی قبر کے برابر کسی غیر مسلم کی قبر کا عذاب کتنا بڑا ہے ؟ معلوم نہیں اس وقت لطیف سائیں آسمانوں میں کیسی آگ میں جل رہے ہوں گے۔

اور جب آپ بھٹ شاہ دربار کو ناپاک مدن لال سے پاک کردیں تو پھر ٹھٹھہ کے علاقے جھوک شریف میں مساواتِ انسانیت کے علم بردار صوفی شاہ عنایت کے مزار کا رخ کر لیں۔آپ کو دور سے ہی دربارِ عنایت سے متصل میدان میں سیکڑوں قبریں دکھائی دے جائیں گی جن پر گیروی چادریں پھڑپھڑا رہی ہیں اور گیروے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ہو سکتا ہے ان میں سے کوئی قبر شاہ عنایت کے مرید ایسر داس کی ہو جنھوں نے ساڑھے تین سو اشعار کا جنگ نامہ لکھ کر دنیاوی و روحانی جاگیرداری کے خلاف صوفی شاہ عنائت کی جدوجہد کو محفوظ کر دیا اور پھر تلاش کیجیے گا کہ ایسر داس کے مرید دلپت رام اور پھر فقیر مسکین داس بھی کہیں آس پاس دفن نا ہوں۔ آپ کو شناخت میں ذرا محنت کرنی پڑے گی کیونکہ یہ فقیر لوگ شائد دو ڈھائی سو برس پہلے ہی بھانپ گئے تھے کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گاجب دارلسلام میں دفن مردوں کو بھی ہجرت کرنی پڑ سکتی ہے لہذا ان چالاک درویشوں نے قبر پر کتبہ لگانا مناسب نہ سمجھا ہو۔

ارے ہاں ! میر پور خاص سے عمر کوٹ جاتے ہوئے راستے میں پیر پتھورو کے مزار کو نا بھولیے گا۔میگھواڑ مدن اور سونالی بائی کے اس بچے نے جانے حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے دل پر کیا جادو کیا کہ انھوں نے اس بچے سے دودھ منگوا لیا اور یہ بچہ مرشد کی فرمائش پوری کرنے کی عجلت میں اپنے ہی ناپاک برتن میں دودھ بھر کے اڑتا ہوا ملتان پہنچ گیا۔تب ہی تو دربارِ بہاؤ الدین سے پروانہِ خلافت جاری ہوا کہ میگھواڑوں کو اب پاپیادہ ملتان آنے کی ضرورت نہیں۔پتھورو جہاں گھوڑے سمیت زمین میں غائب ہوگیا وہیں پر حاضری دو اور سمجھو کہ دربارِ بہاؤ الدین میں حاضری دے دی۔آج بھی پیر پتھورو کے عرس پر سیکڑوں ہندو مسلمان گوالے ہزاروں ہندوؤں اور گمراہ مسلمانوں کو دودھ میں نہلا دیتے ہیں۔

اور حیدرآباد سے تیس کلو میٹر دور اوڈیرو لال کو بھی کفر سے پاک کرنا نہ بھولیے گا جہاں آج تک یہی طے نہیں ہو پایا کہ جس اوڈیرو لال کے لیے ہندو اور مسلمان ایک ساتھ ’’ جھولے لال بیڑا پار’’ کا نعرہ لگاتے ہیں وہ دراصل شیخ طاہر بھرکو ہے کہ اوڈیرو لال۔بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ ایک طرف سمادھی ہے اور دوسری طرف قبر اور ہندو اور مسلمان سمادھی اور قبر دونوں پر پھول چڑھاتے ہیں اور پھر مسلمان مندر کی دیوار سے ملی مسجد میں نمازِ فجر کی صف باندھ لیتے ہیں اور ہندو گھنٹی دار بھجن گانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

اور یہ شاعرِ ہفت زباں سچل سرمست۔جس کو یہی نہیں پتہ کہ ایک ہی کلام میں نعوذ باللہ گیتا ، قرآن ، کرشن اور اللہ کا ذکر ساتھ ساتھ نہیں کرتے۔اگر یہ پتہ ہوتا تو کبھی بھی اپنے مزار کے پائنتی مسلمان اور ہندو قبریں ساتھ ساتھ بننے نا دیتا۔پس اب یہ خوش عقیدہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ سچل کے دربار کو بھی اس علت سے پاک کر دیں۔

مگر یہ مسئلہ سندھ تک تھوڑا ہی محدود ہے۔ بائیس دسمبر کو یہ ایمان افروز خبر موصول ہوئی کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قصبے کھٹو والی کے چک تین سو بارہ جے بی میں کچھ صاحبِ عقیدہ جوانوں نے ایک احمدی دہاڑی دار مزدور وحید احمد کی نمونیے سے مرنے والی ڈیڑھ سالہ بیٹی کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیا۔احمدیوں نے احتجاجاً تین دن تک بچی کو بلا تدفین رکھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ قبرستان پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مسلمانوں کا۔ کیونکہ آدھی زمین احمدیوں نے عطیہ کی تھی۔ بالاخر ایک مسلمان زمیندار نے قبرستان سے تین سو میٹر دور اپنی زمین کا ایک ٹکڑا عطیہ کردیا اور یوں بچی کو قبر کی مٹی نصیب ہوگئی۔ ڈیڑھ سال کے بچے کو کم ازکم یہ شعور تو ہونا ہی چاہیے کہ اس کا مذہب کیا ہے۔۔۔۔۔

لیکن پرانے کیسوں کا بھی تو کچھ ہونا چاہیے۔مثلاً لاہور کے باغبان پورہ میں پنجابی کافی کی ادبی صنف کے بانی اور میلہ چراغاں کے مہمانِ خصوصی شاہ حسین کے روضے میں ان کے ہندو محبوب مادھو لال کی قبر اب تک زرد چادر اوڑھے مرشد کی سرخ چادر والی قبر کو تک رہی ہے۔ اگرچہ یہ کوئی اچھی بات تو نہیں لیکن اس کا کیا علاج کہ مادھو کے بغیر شاہ حسین مادھو لال حسین کیسے کہلائے۔

( جیسے ابھے چند کے بغیر سرمد کی کیا حیثیت ؟ تبھی تو اورنگ زیب کے علماء نے سرمد کا سر اڑوا کے دین بچا لیا۔مگر کس کا دین ؟ اپنا یا سرمد کا ؟ یہ آج تک بحث طلب ہے )۔

اور اسی لاہور کے دھرم پورہ میں سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو سنگھ کے دوست اور گولڈن ٹمپل امرتسر میں سکھوں کی سب سے اہم مذہبی عمارت ہرمندر صاحب کا سنگِ بنیاد رکھنے والے حضرت میاں میر کا بھی مزار ہے ؟ تو پھر کیا حکم ہے، اس سکھ دوست کمزور عقیدہ میاں میر کے بارے میں؟

اور بابا گرونانک کے عقیدے اور ننکانہ صاحب کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ اب ہو ہی جانا چاہیے۔کیونکہ جب سن پندرہ سو انتالیس میں نارووال کے گاؤں کرتار پورہ میں بابا جی کا انتقال ہوا تو دو گروہوں میں ان کے عقیدے کے بارے میں ٹھن گئی۔ایک کہتا تھا بابا جی مسلمان نہیں۔ دوسرا کہتا تھامسلمان ہیں۔اگلے روز جب گرونانک کے جنازے پر سے چادر ہٹائی گئی تو بس پھول پڑے تھے۔ آدھے ہندو لے گئے اور آدھے مسلمان۔ہندوؤں نے سمادھی بنالی مسلمانوں نے پھول دفن کردیے۔

اور یہ کیا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان شہر کے محلے چاہ سئید منور کے قبرستان میں آج بھی ہندوؤں، سکھوں، گورے اور کالے عیسائیوں اور عام مسلمانوں اور اب تو طالبان کی بھی قبریں ساتھ ساتھ ہیں ؟

لیکن بات صرف یہیں ختم نہیں ہونی چاہیے کہ ایک عقیدے والوں کے قبرستانوں میں دوسرے عقیدے والے کیوں جگہ پائیں؟ بات تو تب ہے جب پاک سرزمین کو سب کمزور ایمان مشرکین سے قبروں سمیت پاک کردیا جائے۔بھلے وہ بونیر کے پیربابا ، پشاور کے رحمان بابا یا داتا گنج بخش لاہوری کے مزار پر خودکش حملہ ہو کہ لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں احمدیوں کے نجی قبرستان میں ایک سو بیس قبروں کے کتبوں کو اکھاڑ پھینکنے کی کارروائی یا کراچی کے گورا قبرستان میں قبر پر لگی صلیبوں اور سنگِ مرمر کو رات اندھیرے میں غائب کرنے کی کوششیں یا پھر میوہ شاہ میں گڑے چند یہودیوں کی قبروں کی توڑ پھوڑ۔کام تو شروع ہوچکا ہے۔دیکھیں کب تک پایہ تکمیل کو پہنچے ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ اس کارِ خیر میں ہر مذہب کے راسخ العقیدہ ’’جہاں جس کا بس چل جائے ’’ کی بنیاد پر شامل ہوچکے ہیں۔جیسے 1992ء میں ایودھیا میں بابری مسجد شہید کردی گئی تو اس کے جواب میں بنگلہ دیش میں تین سو ستاون اور پاکستان میں دو سو بیالیس مندر اور کچھ چرچ ہلاک و زخمی ہوگئے۔2002ء میں گجرات میں ہندو سرفروشوں نے دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اردو کے بنیادی شاعر ولی گجراتی کے تین سو برس پرانے مزار اور چار سو برس قدیم دو مساجد سمیت مسلم دور کی دو سو تیس یادگاروں کو بھی ناپاک قرار دے کے صاف کردیا۔اسی گجرات میں پچھلے برس جنوری میں صابر متی کرسچن قبرستان پر مقامی انتظامیہ نے بلڈوزر چڑھا دیے مگر صفائی کے بعد کرسچن کمیونٹی سے معذرت بھی کی۔جب کہ مہاراشٹر کے شہر پانویل میں مسلمان بستی کے مکینوں نے بستی پاک کرنے کے لیے ایک یہودی قبرستان کی ایسی تیسی کردی۔فروری 2012ء میں مشرقی یروشلم میں کچھ یہودی ’’مومن‘‘ مسلمانوں کے تاریخی قبرستان مامیلہ میں گھس گئے اور بارہ سے زائد قبروں کے کتبے اکھاڑ پھینکے اور بہت سوں پر اسپرے سے ستارہِ داؤدی بنا دیا۔

4 مارچ 2012ء کو لیبیا کے شہر بن غازی میں دوسری عالمی جنگ کے فوجی قبرستان میںکچھ جوشیلے مسلمانوں نے برطانوی عیسائی فوجیوں کی قبریں اکھاڑ دیں۔جون 2013ء میں برطانوی قصبے نیو پورٹ کے قبرستان میں شدت پسند نیونازیوں نے مسلمان قبروں پر سواستیکا کا نشان بنا دیا اور بہت سے کتبے توڑ دیے۔ اپریل 2013ء میں پیرس کے قریب شدت پسند قوم پرستوں نے بیس سے زائد مسلمان قبروں کے کتبے توڑ ڈالے اور نوٹرے ڈیم میں پہلی عالمی جنگ کے قبرستان میں ایک سو اڑتالیس مسلمان قبروں کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا۔

یہود و نصاریٰ و ہنود تو خیر ہیں ہی شرپسند۔مگر میں نے قرآنِ کریم میں کوئی ایسی آیت تلاش کرنے کی کوشش کی جس سے یہ اشارہ مل جائے کہ ارضِ خدا پر ہر مذہب والوں کا الگ قبرستان ہونا چاہیے۔منافقوں کے سردار عبداللہ ابن ِ ابی کی لاش کے لیے اپنا مبارک کرتا مرحمت فرمانے والے رحمت العالمینؐ کی احادیثِ مبارکہ کے مجموعوں کی بھی کچھ ورق گردانی کی تاکہ یہ عندیہ مل جائے کہ اگر کسی ایک مذہب کے قبرستان میں کسی دوسرے عقیدے والے کو دفن کردیا جائے تو اس کی لاش نکال پھینکی جائے۔لیکن کوئی ایسی مستحکم حدیث بھی نا مل پائی۔ لگتا ہے اس بارے میں جو بھی طے ہوا وہ بعد کے علماء نے اجتہادی طور پر اپنے اپنے معروضی حالات دیکھ کر طے کیا مگر اب بلا امتیازِ مذہب و ملت دنیا بھر کے شدت پسندوں میں یہی سکہِ رائج الوقت ہے۔

بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

 

Sharmila Farooqi

$
0
0

Sharmila Farooqi is a Pakistani politician who served as an advisor to the Chief Minister of Sindh from September 2008 till January 31, 2011.[1][2] She is the granddaughter of N M Uqaili and daughter of Usman Farooqi, who was a bureaucrat and a former Chairman of Pakistan Steel Mill. Farooqi is the niece of Salman Farooqi, a well-known confidante of President Asif Ali Zardari.[3] Farooqi earnt a master's degree in business administration from the Adamson Institute of Business Administration and Technology, Karachi and a master's degree in law.[3] She is engaged to Hashaam Riaz Sheikh.[4]
Enhanced by Zemanta

Bilawal Bhutto Zardari and Christian Party Leader

$
0
0

Bilawal Bhutto Zardari and Christian Party Leader
Enhanced by Zemanta

.......گندھارا تہذیب کے نوادرات..........Gandhara Civilization - Pakistan

$
0
0






پاکستان میں نوادارت کو ملک سے باہر سمگل کرنے کی خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔

حالیہ دنوں میں مقامی میڈیا پر آنے والی خبروں کے مطابق ماہرین آثار قدیمہ نے رواں سال فروری میں بیرون ملک سمگل کیے جانے والے 1155 میں سے 1050 نوادارات کو اصل قرار دیا ہے۔

ان میں گندھار تہذیب کے ہزاروں سال قدیم نوادارت بھی شامل ہیں۔

اسلام آباد کے قریب واقع ٹیکسلا گندھارا تہذہب کا اہم مرکز تصور کیا جاتا ہے اور یہاں اس تہذیب کے کھنڈرات بھی واقع ہیں۔ ان کھنڈرات کی سیر کو آنے والے سیاحوں کو اکثر اوقات ایسے افراد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو انھیں نوادات فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔



گندھار تہذیب کے ہزاروں سال پرانے شہر سرکپ کے کھنڈرات میں ایک شخص نے کہا: ’جناب یہ سکے دیکھیں، یہ چھوٹا مجسمہ بھی ہے، سکے کی قیمت دو ہزار روپے سے 12 ہزار روپے تک ہے۔‘

بارشوں کے نتیجے میں سکے سطح زمین پر آ جاتے ہیں اور قریبی کھیتوں میں ہل چلانے کے دوران بھی مورتیاں اور سکے نکلتے ہیں

گائیڈ سے جب پوچھا کہ آیا یہ نوادرات اصلی ہیں تو اس کا کہنا تھا کہ وہ چند ایک لوگوں کو جانتے ہیں جن کے پاس اصل نوادرات ہوتے ہیں اور یہ لوگ بارشوں کے بعد ان کو تلاش کرتے ہیں اور بعض اوقات قریبی کھیتوں میں فصل لگانے سے پہلے ہل چلانے سے سکے اور دیگر نوادرات نکل آتے ہیں۔



اسی طرح سے سکے فروحت کرنے والے ایک شخص حنیف نے بتایا کہ ان کے پاس ’قبل مسیح یونانی دور کے سکے موجود ہیں، اس کے علاوہ مہماتما بدھ کی مورتیاں اور مختلف ادوار کے سکے موجود ہیں جن میں چاندی اور سونے، اشوکا دور کے سکے بھی موجود ہیں۔‘

کھنڈرات سے ملنے والے سکوں اور دیگر نوادرات کو سرکار کو دینے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنی محنت سے یہ سب حاصل کرتے ہیں۔‘

نوادر فروخت کرنے والے ایک دوسرے شخص نے بتایا کہ ’یہ کھنڈرات صرف ایک حصہ ہیں اور قریب میں حد نگاہ تک نظر آنے والے کھیتوں کے نیچے بھی کھنڈرات مدفن ہیں اور ہم لوگ یہاں سے نہیں بلکہ وہاں سے یہ تلاش کرتے ہیں اور اسی لیے یہ ہماری ملکیت ہوتے ہیں۔‘

مہماتما بدھ کی مورتیاں اور مختلف ادوار کے سکے موجود ہیں جن میں چاندی اور سونے، اشوکا دور کے سکے بھی موجود ہیں: سکے فروخت کرنے والا ایک شخص


تاہم وہاں سکے فروخت کرنے والے افراد اپنے کاروباری کی مندی سے بھی پریشان تھے کیونکہ بقول ان کے مقامی لوگ مہنگے نوادرات کم ہی خریدتے ہیں لیکن ملک میں شدت پسندی کے واقعات سے پہلے غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں یہاں آتے تھے جن میں اکثریت جاپانی سیاحوں کی ہوتی تھی اور یہ لوگ بڑے شوق سے یہ نوادرات خرید لیتے تھے۔


ان میں سے ایک شخص نے کہا ’اب غیر ملکی تو آتے نہیں، مقامی سیاح بھی بہت کم آتے ہیں اور اسی وجہ سے کبھی کبھار ہی کوئی چیز فروخت ہو پاتی ہے۔‘

قدیم گندھارا تہذیب پاکستان میں دریائے سندھ کے مغرب اور دریائے کابل کے شمال میں پشاور سے لے کر سوات اور دیر جبکہ افغانستان میں بامیان تک پھیلی ہوئی تھی۔اس علاقے سے دو ہزار سال قبل مسیح کے نوادرات ملتے ہیں اور ان کی حفاظت اور غیر قانونی فروخت کو روکنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ اس خطے کی ہزاروں سال پرانی تاریخ کو بچایا جا سکے۔

Gandhara Civilization - Pakistan

Enhanced by Zemanta

آواران کی گلیوں میں

$
0
0

 کراچی سے آواران روانگی کے لیے شہر کے مختلف راستوں سے جب گذر ہوا تو جگہ جگہ نئے کپڑے پہنے ہوئے بچے اور بڑے نظر آئے۔ ان گلیوں میں جگہ جانوروں کی قربانی اور ان کی کھالوں کے عطیے کے لیے بینر نظر آئے۔ یہ منظر دیکھ کر ہم آگے بڑھتے رہے۔ بلوچستان کے پہلے شہر حب میں تو مٹھائی کی دکانوں اور بیکری پر لوگوں کا ہجوم نظر آیا لیکن اس کے آگے جیسے خوشیوں اور رنگ مدہم ہو تےگئے۔ آر سی ڈی شاہراہ سے آواران کی طرف مڑتے ہی زمین کی ناہمواری اور پہاڑی سلسلہ دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ درد کا دیس ہے۔ پندرہ روز قبل بیلہ چوک پر ہمیں ایف سی کے کئی اہلکار نظر آئے تھے جو آگے جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے لیکن عید کے روز چوکی میں صرف ایک اہلکار نظر آیا جس نے جھک کر گاڑی کے اندر جھانکا مگر روکا نہیں۔ درد کے دیس میں "جب پچھلی مرتبہ ہم یہاں سے گزرے تھے تو آزاد بلوچستان کے جھنڈے نظر آتے تھے وہ اب موجود نہیں تھے۔

 مقامی لوگوں نے بتایا کہ ان جھنڈوں کو ہٹایا گیا ہے۔"یہ ایف سی پر تنقید کا اثر تھا یا اہلکار عید کی چھٹیوں پرگئے ہوئے تھے؟ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ راستے میں وہی چرواے، کچے گھر اور ویران سڑک ہمارا استقبال کرتی رہی۔ اسی طرح ہم جھاؤ کیمپ پہنچے یہاں بھی ایف سی کا قلعہ نما کیمپ ہے لیکن وہاں بھی کوئی نظر نہیں آیا۔ جب ہمیں پچھلی مرتبہ ہم یہاں سے گزرے تھے تو آزاد بلوچستان کے جھنڈے نظر آتے تھے وہ اب موجود نہیں تھے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ ان جھنڈوں کو ہٹایا گیا ہے۔ آواران سے باہر ایف سی کی چیک پوسٹ پر ایک اہلکار نے روکا اور پوچھا کہ ’سر کہاں سے آ رہے ہیں، کہاں جائیں گے‘۔ ہم نے بتایا کہ کراچی سے آئے ہیں آواران جا رہے ہیں۔ یہ نوجوان بالوں اور شکل وہ صورت سے حکیم اللہ محسود سے کافی مشہابت رکھتا تھا۔ واپسی پر مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے اس سے پوچھ ہی لیا ’کیا تم محسود ہو۔‘ اس نے بتایا کہ وہ بروہی ہے اور بڑے بال رکھنے کی خاص اجازت لے رکھی ہے۔ آواران شہر میں ہمارا پہلا سٹاپ ہپستال تھا، جہاں پاکستان فوج کے بڑے بینر کے علاوہ الخدمت کے بھی بینر واضح طور پر لگائے گئے تھے۔ یہاں ایک شخص اپنی بیٹی کو منگولی سے لایا تھا۔ مشکے گجر کے قریب اس شہر کے پاس ایف سی کا کیمپ بھی موجود ہے لیکن کہیں بھی طبی سہولتیں دستیاب نہیں۔ 

عالمی ادارے غائب، مذہبی تنظمیں جگہ جگہ "ماضی میں زلزلہ متاثرین کی مدد کے اقوام متحدہ، آکسفیم، برطانیہ اور امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے اداروں اور دیگر غیر ملکی اداروں کے کیمپ اور بینر نظر آتے تھے لیکن انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں مل سکی اور ان کی جگہ مذہبی اداروں نے لے لی ہے"اس نے بتایا کہ اس کی بیٹی کو پیٹ میں درد کی شکایت ہے۔ زیادہ تکلیف ہوئی تو ہزار روپیہ ادھار لے کر موٹر سائیکل پر یہاں پہنچا ہے۔ ہپستال میں ڈاکٹر امیر بخش سے ملاقات ہوئی ۔ یہ وہی ڈاکٹر تھا جس نے زلزلے کے روز اکیلے چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کی تھی اور عید کے روز بھی وہ ہی اکیلا ڈاکٹر تھا۔ اگلے کتنے روز یوں ہی ڈیوٹی کرنی تھی یہ اس کو معلوم نہ تھا۔ ہپستال سے باہر سڑک پر چند بچے تھیلیوں میں گوشت لےکر جاتے ہوئے نظر آئے۔ان سفید رنگ کے شاپنگ بیگوں پر الخدمت تحریر تھا۔ جماعت اسلامی کے اس فلاحی ادارے کی نارنجی کوٹی پہنے ہوئے نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جو مٹیاری، کشمور، کندھ کوٹ اور سندھ کے دیگر شہروں سے آئے تھے۔ الخدمت کے رضاکاروں نے ہمیں بتایا کہ وہ متاثرین میں گوشت تقسیم کر رہے ہیں اور فی فرد پانچ سے چھ کلو گوشت دے رہے ہیں۔ جماعت الدعویٰ کے فلاحی ادارے فلاح انسانیت کے بھی کئی رضاکاروں نے عید آواران میں ہی گذاری تھی۔ انہوں نے یہی جانور قربان کیے اور گوشت تقسیم کیا۔ آوران شہر میں الخدمت اور فلاح انسانیت کے علاوہ الرحمت ٹرسٹ اور الخیر ٹرسٹ کے بھی بینر نظر آئے۔

 الرحمت ٹرسٹ پر جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا نام تحریر تھا۔ ان دونوں اداروں نے متاثرین کی کیا مدد کی ہے یہ معلوم نہیں ہوسکا۔ عام طور پر آفات سے متاثرہ علاقوں میں اقوام متحدہ، آکسفیم، برطانیہ اور امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے اداروں اور دیگر غیر ملکی اداروں کے کیمپ اور بینر نظر آتے تھے لیکن انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں مل سکی اور ان کی جگہ مذہبی اداروں نے لے لی ہے۔

ریاض سہیل بی بی سی اردو ڈاٹ کام

 

Enhanced by Zemanta

مشرف کے پیچھے فوج یا فوج کے آگے مشرف؟

$
0
0

پاکستان کے سابق فوجی سربراہ ، چیف ایگزیکٹو کے طور پر میاں نواز شریف کے بھاری مینڈیٹ والے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے صدر مملکت جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی فوج ان کے خلاف درج ہونے والے غداری کے مقدمے سے پریشان ہے اور ساری فوج ان کی حمایت میں ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ اگر مقدمہ یہ ہوتا کہ ساری فوج سابق جرنیل پرویز مشرف کے پیچھے کھڑی ہے یا نہیں تو دلائل او کوائف سے ثابت کیا جا سکتا کہ ساری فوج ان کے پیچھے کھڑی ہے یا وہ ساری فوج کے آگے کھڑے ہو گئے ہیں؟

فوج کے ترجمان ادارے ’’آئی ایس پی آر‘‘ کی جانب سے خلاف معمول اس دعوے کے بارے میں کچھ کہنے، تصدیق یا تردید کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کی گئی ہے جس کے بارے میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پریشان ہیں۔ مشرف کے دعویٰ کے بارے میں فوجی مؤقف اور پوزیشن واضح نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے خاموشی کو نیم رضا بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔ مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ’’آئی ایس پی آر‘‘ والے اس دعوے کو کوئی اہمیت ہی نہ دے رہے ہوں۔ حکومت کے ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کا کہنا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف عوام کو گمراہ کرنے کے علاوہ پاکستانی فوج کو بھی خواہ مخواہ خجالت میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

فوج کے سابق سربراہ جنرل اسلم بیگ ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل اور دیگر بہت سے سابق سینئر فوجی افسران نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے مذکورہ بالا دعوے کو گمراہ کن قرار دیا ہے جو بہت حد تک قرین قیاس لگتا ہے۔

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی بھی پوری کوشش لگتی ہے کہ فوج کے نئے سربراہ کو اس معاملے میں دخل انداز ہونے پر مجبور کیا جائے۔ پرویز مشرف کا فرمان ہے کہ ’’مصیبت میں ہوں دیکھتے ہیں کہ نئے آرمی چیف پرانے آرمی چیف کو مصیبت سے باہر نکالنے کے لئے کیا کرتے ہیں۔ کہاں تک جاتے ہیں۔ یقینی بات ہے کہ نئے آرمی چیف وہاں تک تو ہرگز نہیں جائیں گے جہاں تک سابق آرمی چیف چلے گئے تھے مگر شاید وہ اپنے طور پر کسی ’’مک مکا‘‘ کی کوشش کریں۔ عین ممکن ہے کہ پاکستان کے کچھ لوگوں نے یہ سوچنا یا فکر مند ہونا شروع کر دیا ہو کہ فوج کے موجودہ سربراہ فوج کے سابق سربراہ کو ملکی آئین، دستور سے غداری اور اپنے عہدہ کے حلف کی خلاف ورزی کی سزا سے بچانے کے لئے کیا کرتے ہیں۔ کیا کر سکتے ہیں اور کہاں تک جا سکتے ہیں۔ اعتدال سے کام لیں گے یا سابق فوجی سربراہ کی طرح ’’انتہا پسندی‘‘ کا مظاہرہ کریں گے؟

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ آرمی چیف سے ملاقات کے لئے نہیں کہیں گے وہ خود ملنا چاہیں تو اعتراض نہیں ہو گا۔ سعودی عرب اور دیگر ممالک میرے لئے اچھا سوچ رہے ہیں طالبان اور القاعدہ سے خطرہ ہے۔ اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ سابق جرنیل پرویز مشرف صرف پاکستان کے فوجی سربراہ کی مدد ہی نہیں امریکہ بہادر کی توجہ بھی چاہتے ہیں اور شاید اسی لئے فرمایا ہے کہ فوج ان کی آخری امید نہیں ہے۔ کچھ لوگ ڈاکٹر علامہ پروفیسر طاہر القادری کے نئے ڈرامے کے ڈانڈے بھی جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے سے ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں

نتھا سنگھ اینڈ پریم سنگھ

ون اینڈ دی سیم تھنگ

والا معاملہ بھی ہو سکتا ہے شاید! ہو سکتا ہے جیسے ہر پپو یار کو تنگ کرنے کے لئے ایک اور پپو یار ہوتا ہے ویسے ہی ہر ڈرامے کو کامیاب بنانے کے لئے ایک اور ڈرامہ ہوتا ہے۔

منو بھائی

بشکریہ روزنامہ 'جنگ'

Enhanced by Zemanta

’’چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا موقع‘‘

$
0
0



برطانوی اخبار گارڈین میں امریکی فضائیہ کی اہلکار ہیدر لی لائن بو کا مضمون پڑھ کر ان سیاست دانوں اور ان کے ابلاغی مشیروں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہئے جو گزشتہ کئی سال سے ڈرون طیاروں کی سو فیصد درست اور بے خطا نشانہ بازی کے حق میں رطب اللسان ہیں۔

ڈرون آپریٹر نے لکھا کہ ’’میں جب بھی سیاست دانوں کو پریڈیٹر جیسے ڈرون پروگرام کا دفاع کرتے سنتی ہوں تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان سے چند سوالات پوچھوں، پہلا سوال یہ کہ آپ نے ایک ہیلی فائر میزائل سے کبھی عورتوں اور بچوں کو زندہ جلتے دیکھا ہے؟پھر پوچھوں گی آپ نے کتنے مردوں کو ٹانگیں کٹنے کے بعد لہولہان، کھیت میں گھسٹے دیکھا ہے ؟ان سیاست دانوں میں سے کسی کو اندازہ بھی ہے کہ یہ ڈرون آخر ہے کیا ؟‘‘ ہیدر مزید لکھتی ہے ’’بہترین روشنی والے دن بھی ڈرون سے ملنے والی ویڈیو اتنی صاف نہیں ہوتی کہ آپ یہ معلوم کر سکیں کہ نظر آنے والے شخص نے ہتھیار اٹھا رکھا ہے یا بیلچہ‘‘

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کا شکار ہونے والے بے گناہ سویلین مردوں، عورتوں اور بچوں کی مستند تعداد وہی ہے جو پشاور ہائیکورٹ کے سامنے پولیٹکل حکام نے بیان کی چودہ سو سے اوپر، زخمی، اپاہج اور نفسیاتی مریض بننے والے اس سے کہیں زیادہ ہیں جبکہ عسکریت پسند حکیم اللہ محسود اور قاری ولی الرحمان کوملا کر ٹوٹل تیس (30) ان ساڑھے چودہ سو میں سے کوئی القاعدہ کا رکن تھا نہ طالبان کا ساتھی، البتہ اس کی شکل وصورت دیگر قبائلیوں کی طرح طالبان سے ملتی جلتی تھی وہی لباس، باریش چہرہ، ہاتھ میں تسبیح اور سر پر پگڑی، ہاں کسی مدرسے یا مسجد میں بوقت نماز موجودگی بھی، روز قیامت جب بارک اوبامہ اور بش کے ساتھ ہمارے فوجی اور سول حکمران و حکام ان مقتولوں بالخصوص بچوں کے سوالات کا جواب دینے کیلئے خدا کے حضور پیش ہوں گے تو ہمنوا دانشوروں کی گواہی قبول ہو گی یا نہیں کوئی نہیں جانتا۔

لاہور، اسلام آباد اور کراچی کے آرام دہ دفاتر اور سہولتوں سے آراستہ ڈرائنگ روموں ،چائے خانوں میں ان بے گناہ قبائلیوں کو عسکریت پسندوں کا ساتھی، پناہ دینے کا مرتکب قرار دینے اور گہیوں کے ساتھ گھن پسنے کے محاورے سنانے والے بزعم خویش انسانی حقوق کے علمبرداروں کو یہ معلوم کرنے کی فرصت کہاں کہ غریب اور بے آسرا قبائلی کس حال میں ہیں اور ڈرون نے علاقے پر کیا اثرات مرتب کئے ہیں، خوف کا یہ عالم کہ لوگ گھروں سے نکلتے ڈرتے، کھلے آسمان کو دیکھنے کے لئے ترستے اور معذور، نفسیاتی مریض عزیز رشتہ دار کو ہسپتال لے جاتے گھبراتے ہیں مبادہ اس جہنمی کھلونے کا نشانہ بن جائیں جسے ہمارے سیاست دان اور دانشور دہشت گردوں کے خلاف موثر ہتھیار سمجھ کر صبح و شام مدح وثنا میں مصروف رہتے ہیں قبائلی علاقوں میں خواب آور گولیاں سب سے زیادہ بکنے والا آئٹم ہیں۔

ہیدر سے قبل ایک ڈرون آپریٹر برنیڈن برنیٹ نے اس بے رحمی، شقاوت قلبی اور انسان دشمنی سے اکتا کر ایئرفورس چھوڑی اور اس وحشیانہ کھیل کا پردہ چاک کیا برنیڈن نے ایک معصوم تین چار سالہ بچے کو نشانہ بنانے کے بعد جب ساتھی سے پوچھا کہ کہیں ہم معصوم انسانی جان تو ختم نہیں کربیٹھے تو ساتھی کا جواب تھا نہیں ! یہ کتے کا پلا تھا ’’دو ٹانگوں والا جانور ‘‘ نیویارک ٹائم نے ڈرون پروگرام سے وابستہ اہلکاروں سے انٹرویوز کے بعد رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’’ان اہلکاروں کو انسانی جذبات و احساسات سے مکمل لا تعلقی پر مجبور کیا جاتا ہے اور یہ سوچنے کا عادی کہ دشمن رحم کے قابل نہیں ہوتا خواہ وہ غیر مسلح شہری، عورت اور بچہ ہی کیوں نہ ہو اور اسے کسی حملے کے وقت صرف یہ سوچنا چاہئے ۔I have a duty and I execute the duty

ایلزبتھ بلیر کی رپورٹ (نیو یارک ٹائمز 29جولائی 2012ء) کے مطابق ڈرون پروگرام سے وابستہ افراد ذہنی دبائو، اعصاب شکنی، بے خوابی اور افسردگی کا شکار ہوتے ہیں جبکہ ہیدر کے مطابق بہت زیادہ خواب آور اور دیگر ادویات استعمال کرنے والے اہلکار دوران ملازمت یا علیحدگی کے ایک سال بعد بالعموم خودکشی کر لیتے ہیں کیونکہ بے گناہوں پر نشانہ بازی کے اثرات سے وہ چھٹکارا نہیں پاسکتے۔ دماغی و نفسیاتی امراض کے ہسپتالوں میں داخل ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔

امریکی ڈرون اہلکاروں کے برعکس ہمارے سیاست دان اور دانشور بے شرمی اور ڈھٹائی سے ڈرون حملوں کے فوائد وبرکات بیان کرتے اور ان کی درست نشانہ بازی کے حق میں ایسے ایسے دلائل و شواہد پیش کرتے ہیں کہ برنیڈن، ہیدر، کرنل برنٹین جیسے تجربہ کار، ڈرون ٹیکنالوجی سے مکمل طور پر آگاہ اور اس کے منفی اثرات کے واقف امریکی سنیں تو حیران رہ جائیں حیران کیا ان کی جہالت اور ہٹ دھرمی پر سرپیٹ لیں کہ دنیا میں ایسے احمق بھی بستے ہیں۔

سیاست دانوں کا معاملہ تو قابل فہم ہے انہوں نے اپنے اقتدار کے تحفظ، قرضوں اور امداد کے حصول اور مستقبل میں اقتدار تک رسائی کے نقطہ نظر سے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانی ہوتی ہے انہیں پڑھنے، سوچنے، سمجھنے کی فرصت نہیں اور ڈرون کا شکار ہونے والوں سے کسی قسم کی ہمدردی بھی نہیں جنہیں بندوبستی علاقوں میں بھوک، بیماریوں اور ٹارگٹ کلنگ سے مرنے والے معصوم عوام کی فکر نہیں انہیں دور دراز بسنے والے قبائلی عوام کی فکر کیوں ہو مگر جن کا اوڑھنا، بچھونا ہی امریکہ و برطانہ کا میڈیا اور اس میں شائع ہونے والی رپورٹیں ہیں وہ آخر یہ رپورٹیں پڑھتے اور پاکستان کے اقتدار اعلیٰ ،قبائلی عوام کے انسانی حقوق کی پامالی اور بے گناہ بچوں اور عورتوں کی جانوں کے اتلاف پر ضمیر کی خلش کا شکار کیوں نہیں ہوتے؟

کیا طالبان سے نفرت، امریکہ کی محبت اور ہر حال میں ڈرون حملوں کی حمایت نے انہیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری کر دیا ہے اس بنا پر یہ نیٹو سپلائی روکنے پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو ہدف تنقید بناتے، عمران خاں کا مذاق اڑاتے اور یہ بے پرکی ہانکتے ہیں کہ بھلا امریکہ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے اس کے پاس متبادل راستے بہت ، حالانکہ امریکہ تلملا رہا ہے اس کی کانگریس شور مچا رہی ہے کہ سپلائی کا خرچہ کئی گناہ بڑھ گیا ہے اور پاکستان کو امداد بند کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔

ہیدر لائن بو کا مضمون چشم کشا ہے اور ڈرون حملوں کے مخالفین کی اخلاقی برتری کا ثبوت، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس بنا پر قرارداد منظور کی اور دنیا میں آواز بلند ہو رہی ہے مگر جن کو معصوم بچوں اور بے گنا عورتوں کے جسم کے چیتھڑے اڑتے اور خون کے فوارے چھوٹتے دیکھ کر کبھی رحم نہیں آیا وہ ایک مضون سے متاثر ہونے والے کہاں ؟وہ تو بنگلہ دیش میں پاکستان کے وفاداروں کو تختہ دار پر لٹکانے کی کارروائی کو حق بجانب قرار دیتے ہیں۔

ضمیر زندہ، انسانی حس بیدار،جذبہ ہمدردی برقرار اور غیرت وحمیت کی رمق باقی ہو تو انسان خلش، اضطراب، افسردگی اور بے خوابی کا شکار ہوتا ہے خواہ وہ امریکی ہو، برطانوی یا کوئی عراقی و افغان مگر جہاں’’غیرت ‘‘ کے لفظ کا تمسخر اڑایا جاتا ہو اور انسانی جذبات و ایمانوں رشتوں کی تذلیل و تحقیر کا رواج وہاں ہیدر، برنیٹ جیسے ضمیر کی خلش کا شکار ہو کر پرکشش ملازمتیں چھوڑنے والے جذباتی لوگوںکی بات کون سنے اور کیوں؟

ارشاد احمد عارف

بشکریہ روزنامہ "جنگ"

Famous Deaths in 2013

PTA Advise for Sale of New Sims

Pakistan Foreign Debts

غداری کی خوفناک سزا

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live