Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

شہدائے پولیس کی قربانیاں بھی کسی سے کم نہیں

$
0
0

جیسا کہ پاک افواج کے جوان سرحدوں کی حفاظت اور ملک دشمن عناصر سے جنگ کے دوران جام شہادت نوش کر کے تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں، اسی طرح وطن عزیز کے اندر عوام کے جان، مال اور عزت وآبرو کے تحفظ کے لیے قائم اداروں میں سرِفہرست محکمہ پولیس کا ادارہ ہے جو ملک بھر میں دہشت گردی، چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین نوعیت کے جرائم کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ پاک فوج کے جوان سرحدوں پر ملک کی حفاظت کرتے ہیں تو پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز ملک کے اندر موجود، دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ قانون کی بالادستی ہو یا امن و امان کا قیام، دہشت گردی کا خاتمہ ہو یا سماج دشمن عناصر سے مقابلہ، ہر محاذ پر پولیس فورس کے بہادر جوان اپنی ذمہ داریوں سے احسن طور پر عہدہ براء ہوتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے آئے ہیں۔

شہدائے پولیس کی ان عظیم قربانیوں کی یاد میں نیشنل پولیس بیورو پاکستان کی جانب سے ہر سال چار اگست کا دن یوم شہدائے پولیس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یوم شہدائے پولیس کے منانے کا مقصد قوم کے ان بہادر سپوتوں کی شجاعت کو سلام پیش کرنا اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ان کی یاد میں بڑی تقاریب کا انعقاد کرنا ہے جس میں شہداء کی ارواح کو ایصال ثواب کےلیے فاتحہ خوانی کی جاتی ہے، شہداء کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی ہیں اور محکمہ پولیس کے شہداء کو شاندار انداز میں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ چاروں صوبوں کی پولیس اور اسپیشل فورسز کی جانب سے صوبائی، ریجنل اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں سیمینارز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے جس میں پولیس افسران، اسپیشل برانچ، سی ٹی ڈی، ایف آر پی، ایلیٹ فورس، ٹرنینگ اسٹاف اور ٹریفک پولیس سمیت ہر یونٹ کے افسران اور جوان، شہدائے پولیس کے لواحقین کے علاوہ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے شہری کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔

یوم شہدائے پولیس پر اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ صرف پولیس فورس کے نہیں بلکہ پوری قوم کے شہداء ہیں اور ہم اپنے شہداء کی قربانیوں کو بھولے نہیں اور نہ ہی کبھی بھولیں گے، ہمیں ان کی عظیم قربانیوں پر فخر ہے۔ نیشنل پولیس بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں دہشت گردی، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث عناصر سے لڑتے ہوئے ڈی آئی جی سے کانسٹیبل تک مختلف رینک کے 2600 سے زائد پولیس افسران نے شہادت کے رتبے پر فائز ہو کر بہادری کی ایک نئی داستان رقم اور محکمہ پولیس کی توقیر میں اضافہ کیا ہے۔

بلاشبہ شہریوں کے ساتھ جب کوئی حادثہ یا نا خوشگوار واقعہ پیش آتا ہے، تو مشکل کی اس گھڑی میں وہ پولیس کو ہی اپنی مدد کے لیے پکارتے ہیں، کیونکہ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پولیس ان کی مدد کو ضرور پہنچے گی۔ پولیس اہلکار چوبیس گھنٹے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر ہر طرح کے حالات میں مدد کو پہنچتے ہیں، موسم کی شدت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خاص طور پر موسم گرما میں پچاس ڈگری درجہ حرارت میں بھی باوردی کانسٹیبل بلٹ پروف جیکٹ اور بھاری بھرکم گن اٹھائے فرائض کی ادائیگی کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن پولیس فورس کی بات کرتے وقت عوام کے ذہن میں فوراً منفی تاثر ابھرتا ہے، اور فوراً پولیس کے کرپٹ ہونے کے الفاظ رواں ہو جاتے ہیں۔ عوام ہو یا میڈیا، غرضیکہ ہر کوئی پولیس پر تنقید کرتا نظر آتا ہے، لیکن ان شکایات کے برعکس اگر پولیس کے اوقات کار کی طوالت اور ذمہ داریوں کو دیکھا جائے تو ہر ذی شعور کو اس بات کا اداراک ہے کہ پولیس جتنا سخت اور طویل ڈیوٹی کا کام کوئی اور محکمہ نہیں کرتا۔

کیا کبھی معاشرے کے کسی فرد نے فرض کی ادائیگی کے دوران ان اہلکاروں کے چہرے، اور ان کی آنکھوں میں چھپی حسرتوں کو پڑھنے کی کوشش کی ہے کہ عید جیسے تہوار پر ان کے بچے کتنی شدت سے ان کا انتظار کر رہے ہوں گے؟ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ تفریحی مقامات پر جب بچے اپنے والدین کے ہمراہ سیرو تفریح میں مشغول ہوتے ہیں تو کچھ فاصلے پر ان کی سیکیورٹی کے فرائض ادا کرنے والا کانسٹیبل گھر جا کر اپنے بچوں کو کس طرح بہلاتا ہو گا ؟
تمام تر معاشرتی بے حسی، نفرت، تنقید، تمسخر اورشدید ترین نکتہ چینی کے باوجود پولیس فرائض کی ادائیگی میں دن رات مصروف عمل ہے۔ جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں پاکستان پولیس کا نظام انحطاط کا شکار رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ پولیس میں سیاسی مداخلت تھی۔ برسراقتدار افراد اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے جس سے پولیس عوام کو انصاف اور ریلیف فراہم کر نے کے اپنے اصل مقصد سے دور ہوتی چلی گئی۔

لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے پولیس سسٹم میں خاصی بہتری آئی ہے، محکمہ پولیس سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہوا ہے اور اعلیٰ پولیس افسران نے اپنی ساری توجہ عوام کے پولیس پر اعتماد کو بحال کرنے پر مرکوز کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں سنگین وارداتوں کا گراف نیچے آیا ہے۔ پولیس سسٹم میں مزید بہتری کےلیے برسراقتدار طبقے، محنتی دیانت دار اور عوام دوست افسران کو ترقی دے کر اپنا موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں بڑی جنگوں اور معاملات میں نہ تو پولیس کو ملوث کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان سے نپٹنے کی ذمہ داری پولیس کی ہوتی ہے، لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک ایسی جنگ میں ملوث ہو گئے جو ہماری تھی ہی نہیں۔ غلط فیصلوں اور غلط لالچ سے یہ پرائی جنگ ہمارے آنگن کی جنگ بن گئی اور اس میں سول آبادی بھی زد پر آگئی۔ اس گھمبیر صورتحال میں پولیس کو بھی اس میں شامل ہونا پڑا، کیونکہ اپنے شہریوں کی حفاظت کی ذمے داری تو ان کو نبھانا ہی تھی۔ 

ان حالات میں جب وطن عزیز میں دہشت گردی سے کوئی محفوظ نہ تھا، پولیس نے مسلح افواج اور دیگر فورسز کے ساتھ مل کر امن و امان کے قیام میں مثالی کردار ادا کیا، اس حوالے سے سب سے زیادہ قربانیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے دیں جنہوں نے شہادت کا جھومر ماتھے پر سجا کر ملک و ملت اور عوام دشمنوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا ہے۔ یوم شہدائے پولیس درحقیقت پولیس اور عوام کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے اور اشتراک عمل کو بڑھانے کا ایک سنہری موقع ہے جس سے بھر پور استفادہ وقت کی ضرورت ہے۔ حکومت کو آئندہ نسلوں کو پولیس کے شہداء کے کارناموں سے با خبر رکھنے کے لئے ٹیکسٹ بک بورڈز کے تحت چھپنے والی درسی کتابوں میں اسباق شامل کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ جس طرح افواج پاکستان کے شہدا کے تذکرے سے ان کی یادیں روشن کی جا رہی ہیں، اسی طرح پولیس کے شہداء کی یاد بھی نئی نسل کے سامنے اجاگر کر کے یہ بات ان کے ذہنوں میں بٹھائی جا سکتی ہے کہ پولیس اہلکار بھی ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہر لمحہ برسر پیکار رہتے ہیں۔ یوم شہدائے پولیس پر ہمیں شہدا ء کے اہل خانہ سے اظہار یکجہتی کرنا چاہیے اور ان کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کا عہد کرنا چاہیے، کیونکہ ان کے پیاروں کی لازوال قربانیوں کی بدولت تمام شہری امن و سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

رانا اعجاز حسین چوہان
 


چیف جسٹس پاکستان سے سوال

$
0
0

شاید 1981 میں مجھے پہلی دفعہ ایک سرکاری وفد کی حیثیت سے تاشقند جانے کا موقع ملا۔ اب تو ازبکستان آزاد ملک ہے لیکن اس دور میں یہ USSR یعنی روس کا حصہ تھا۔ روس پر کمیونزم مسلط تھا اور دنیا روس کے حلقہ اثر اور امریکہ کے حلقہ اثر میں تقسیم ہو چکی تھی۔ کمیونزم اور سرمایہ دارانہ جمہوریت میں سخت لگتی تھی اور دونوں میں نفرت عروج پر تھی۔ کمیونسٹ روس میں آزادی اظہار بلکہ آزادی افکار پر کڑی پابندیاں تھیں، اختلاف رائے کی اجازت نہیں تھی، ذاتی ملکیت کا تصور ہی موجود نہیں تھا اور زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری تھی۔ اسی لئے جمہوری ممالک کے مفکرین کہتے تھے کہ روس ایسا ملک ہے جس میں لوگوں کو پنجروں میں بند رکھا جاتا ہے اور خوراک مہیا کر دی جاتی ہے۔ 

ملک پر فقط ایک پارٹی کی حکومت تھی اور ایک ہی اخبار چھپتا تھا جسے آپ سرکاری گزٹ کہہ سکتے ہیں۔ میں تاشقند میں ہفتہ بھر رہا ہر طرف روسی صدر کے قد آدم پورٹریٹ اور بڑی بڑی تصویریں نظر آتی تھیں اور لوگوں کے چہروں پر خوف وہراس دیکھا جا سکتا تھا۔ روسی حکومت بیرون ملک سے آنے والے وفود کے ساتھ ایک اپنا بندہ وابستہ کر دیتی تھی تاکہ گفتگو میں سہولت رہے کیونکہ وہاں صرف روسی اور مقامی زبانیں بولی جاتی تھیں جبکہ باہر سے آنے والے عام طور پر انگریزی بولتے تھے۔ میرے ساتھ تاشقند یونیورسٹی کی ایک ایم اے انگریزی کی طالبہ کی ڈیوٹی لگی تاکہ اس کی انگریزی بول چال بہتر ہو اور مجھے سرکاری تقریبات میں گفتگو کی سہولت رہے۔
 یہ ساری رام کہانی آپ کو محض ایک واقعہ سنانے کے لئے بیان کی ہے۔ ہوا یوں کہ ایک روز ہم ازبکستان کے سیکرٹریٹ کے باہر ٹہل رہے تھے تو میں نے شرارتاً اس لڑکی سے پوچھا ’’تانیہ تم لٹریچر کی ا سٹوڈنٹ ہو، اخبار رسالے پڑھتی ہو، کبھی تمہیں خیال آیا کہ تمہاری حکومت یا حکمران غلط پالیسی پر کاربند ہیں‘‘۔ اس نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا’’نہیں سر ایسا کبھی نہیں ہوا‘‘۔ میں نے پوچھا کیوں؟ جواب ملا ہمارے حکمران غلطی کر ہی نہیں سکتے اس لئے اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں مسکرا کر خاموش ہو گیا اور سوچنے لگا کہ نسل در نسل آزادی افکار، آزادی اظہار اور برین واشنگ کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔

 روس کے اردگرد آئرن کرٹن یعنی آہن (لوہے) کی دیواریں کھڑی کر دی گئی تھیں حتیٰ کہ باہر سے انفارمیشن بھی روس میں داخل نہیں ہو سکتی تھی۔ گویا کمیونسٹ روس دنیا کے سمندر میں ایک جزیرہ تھا جسے ہر طرف سے آہنی حصار کے اندر بند کر دیا گیا تھا کیونکہ حکمران عوام کو وفادار رعایا بنانا چاہتے تھے۔ وفادار بنانے کے لئے آزادی فکر اور آزادی اظہار کو پابند کرنا ناگزیر تھا۔ آزاد میڈیا اور آزاد پریس ذہن میں آزادی افکار کے جراثیم پیدا کرتے ہیں اور تنقیدی فکر سے اندھی وفاداری پر ضرب لگتی ہے، چنانچہ ایسے حکمران جو اندھی وفاداری کی تمنا کرتے ہیں ان کی حکمت عملی کی خشت اول آزاد پریس کا گلا گھونٹنا ہوتی ہے۔

ہمارے ملک میں آزاد پریس پر پہلی دفعہ قدغن ایوبی مارشل لاء کے دوران لگی جب تنقید یا اختلاف کرنے والے اخبارات کا ناطقہ بند کرنے کے لئے سرکاری اشتہارات بند کئے گئے۔ خبروں پر سنسر لگایا گیا اور باغی صحافیوں کو قلعے کی سیر کروائی گئی۔ قلعے کی سیر کے دوران اتنا ٹارچر کیا جاتا تھا کہ بعض اوقات بڑے بڑے ذہین لوگ اپنی تخلیقی صلاحیتیں کھو بیٹھتے تھے اور ذہنی مریض بن جاتے تھے۔ مغربی پاکستان کے گورنر نواب امیر محمد خان خوف کی علامت تھے۔ ان کی مونچھ کا تائو خوف کی کپکپی طاری کرنے کے لئے کافی ہوتا تھا، ان کے دور میں کئی اخبار بند ہوئے، کئی اخبارات پر پابندیاں لگیں، کئی مدیران کو ڈرایا دھمکایا گیا اور ضمیر قریشی جیسے صحافی جان سے گئے۔ 

مقصد کمیونسٹ نظام حکومت کی مانند صرف اور صرف حکومت کی تعریف اور پبلسٹی کا حصول تھا اور اختلافی سوچ کا قلع قمع تھا۔ جنرل ضیاء الحق کا دور اس حوالے سے بدترین تھا جس میں اخبارات پر سنسر کا شکنجہ اس قدر سخت تھا کہ کتابت شدہ کالم اور خبریں اخبارات کے صفحات سے’’اکھاڑ‘‘ لی جاتی تھیں کہ ان سے اختلاف کی بو آتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق اور ان سے قبل جنرل ایوب خان کی حکومتیں سمجھتی تھیں کہ آزادی افکار پرپابندی لگا کر لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کیا جا سکتا ہے اور ان کی زبان پر تالے لگائے جا سکتے ہیں۔ دونوں جابر حکمران یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ پاکستان کوئی کمیونسٹ ملک نہیں بلکہ جمہوری اقدار کا وارث ہے اور یہاں کے عوام نے انگریزوں کی غلامی کی زنجیریں توڑی ہیں اس لئے اب وہ کبھی بھی ذہنی غلامی کی زنجیریں برداشت نہیں کریں گے۔ آزادی افکار پاکستان کے عوام کی سرشت میں شامل ہے چنانچہ وہ پابندیوں کے باوجود اپنا راستہ بنا لیں گے۔ ان پابندیوں سے محض حکمرانوں کے خلاف نفرت کا ایسا لاوا پکے گا جو ایک دن ان کو بہا کر لے جائے گا۔

اس حوالے سے جنرل مشرف نے ذہنی بلوغت کا ثبوت دیا اور آزادی اظہار کے راستے میں دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے بااثر مدیروں اور صحافیوں سے گفتگو اور سمجھوتے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ٹی وی چینلز مشرف دور کا کارنامہ ہے، مختصر یہ کہ اب ہم آزادی افکار اور آزادی اظہار کی شاہراہ پر سفر کر کے اتنا آگے آچکے ہیں کہ اگر کوئی ہمیں روکنے کی کوشش کرے یا ہماری راہ میں روڑے اٹکائے یا ہماری مرضی پر قدغن لگائے تو سمجھ لے کہ ناکامی، بدنامی اور نفرت اس کا مقدر ہے، موجودہ آزاد، جمہوری اور سائنسی دور میں وہ اپنے ارادوں میں تو کامیاب نہیں ہو سکے گا البتہ اپنے لئے محبت کو نفرت میں بدلنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا۔ میرے نزدیک اس طرح کی طفلانہ حرکت محض ناسمجھی اور بےعقلی ہے اور قومی اداروں کے تقدس و احترام پر ضرب لگانے کی سازش ہے۔

آپ پوچھیں گے کہ میں عام روش سے ہٹ کر آج کس راہ پر چل نکلا ہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ آج میں رنجیدہ اور ڈپیرس Depress ہوں کیونکہ زندگی میں پہلی بار مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ میں ایک آزاد جمہوری ملک کا شہری نہیں بلکہ کسی کی رعایا ہوں۔ میں ڈی ایچ اے لاہور کا رہائشی ہوں، یہ آبادی لاکھوں شہریوں پر مشتمل ہے جنہوں نے کروڑوں اربوں سے یہاں گھر بنائے یا خریدے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ڈی ایچ اے نہ چھائونی ہے نہ کوئی فوجی آبادی۔ میری زندگی میں پہلی بار پرسوں مجھے اخبارات نہیں ملے کیونکہ ہاکروں کو ڈی ایچ اے میں اخبارات تقسیم کرنے نہیں دئیے گئے۔ کل سے جو اخبارات ملنا شروع ہوئے ہیں ان میں میرے پسندیدہ اخبارات کا داخلہ بند کر دیا گیا ہے۔ پسندیدہ چینل کو ٹی وی کیبل سے ہٹا دیا گیا ہے۔ مجھے میرے بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا ہے جس کا نوٹس سپریم کورٹ کو لینا چاہئے۔ زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا ہے کہ میں ملک کا آزاد شہری نہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ ایسی حرکات سے فوج کے مقدس نام پر حرف آئے گا۔

ڈاکٹر صفدر محمود
 

پاکستانیوں کے خفیہ غیرملکی اثاثوں کی مالیت کتنی ہے ؟

$
0
0

پاکستانیوں کے خفیہ غیرملکی اثاثوں کی مالیت 350 ارب ڈالرز (43 کھرب روپے) ہے۔ ہزاروں پاکستانیوں کے بیرون ممالک غیرقانونی کھاتوں اور اثاثوں کی تحقیقات کرنے والے حکام نے حیران کن انکشافات کئے ہیں۔ ان کے مطابق ایمنسٹی اسکیم 2018ء کے تحت تین ماہ میں 5363 افراد نے 1003 ارب روپے (8.1 ارب ڈالرز) مالیت کے اکائونٹس ظاہر کر دیئے ہیں۔ یہ اسکیم 31 جولائی 2018ء کو بند ہوئی جبکہ برطانیہ نے پاکستان کو منی لانڈرنگ کا ذریعہ بننے والے تین صف اوّل کے ممالک میں شامل کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں جمع خفیہ تفصیلات کے مطابق ظاہر کردہ زیادہ تر اثاثے متحدہ عرب امارات میں ہیں۔ ظاہر کردہ 8.1 ارب ڈالرز مجموعی 350 ارب ڈالرز کا 2.3 فیصد ہے۔ دبئی میں اثاثوں کا مجموعی حجم 4240 ارب روپے ہے جس میں سالانہ سرمایہ کاری اور شرح نمو 200 ارب روپے ہے۔

ٹیکس ہیونز کے بارے میں متعلقہ اداروں کا دعویٰ ہے کہ پاکستانیوں کے 100 ارب ڈالرز برطانیہ اور امریکا جبکہ 200 ارب ڈالرز سوئٹزرلینڈ میں زیر گردش ہیں۔ بیرون ممالک پاکستانیوں کے چوری شدہ اثاثوں کی بازیابی میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تمام اداروں کو میوچوئل لیگل اسسٹنس (ایم ایل اے) پر عملدرآمد کے حوالے سے چیلنجز، مشکلات اور قانونی موشگافیوں کا سامنا ہے۔ پاکستانیوں کے بیرون ممالک غیرقانونی اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی خصوصی کمیٹی کے خزانہ، خارجہ امور، داخلہ وزارتوں کے نمائندوں، ایف بی آر، نیب، ایف آئی اے، آئی بی اور ایس ای سی پی کے حکام کے ساتھ 7 اجلاس ہوئے۔ جن میں غیرملکی زرمبادلہ کے اخراج کو روکنے اور غیراعلانیہ اثاثے واپس لانے کے لئے اقدامات پر غور کیا گیا۔

زاہد گشکوری
 

چیف الیکشن کمشنر کو کہیں سلایا تو نہیں گیا ؟

$
0
0

تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کو دیکھتے ہوئے ہمارے کچھ صحافی دوست آزادی صحافت کے cause کے لیے سرکاری ٹی وی کو حکومتی اثر سے آزاد کرنے کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ وزارت اطلاعات کو ختم کر دیا جائے۔ میری ان دوستوں سے درخواست ہو گی کہ سرکاری ٹی وی اور وزارت اطلاعات کو چھوڑیں پہلے اپنے نجی ٹی وی چینلز اور اخبارات کو تو اُس غلامی سے آزاد کر لیں جس کا وہ شکار ہیں۔ مجھے کئی مرتبہ سرکاری ٹی وی کے ٹاک شوز میں جانے کا موقع ملا اور جو دل میں آیا کہا کبھی کسی نے نہیں رُوکا۔ لیکن ایسا نام نہاد آزاد نجی ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ممکن نہیں۔ نجی ٹی وی چینلز اور اخبارات کو جس دبائو کا گزشتہ چند ماہ سے سامنا رہا اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ 

سرکاری ٹی وی کو آزاد ی دلوانے کے لیے تو ہم آواز اٹھا رہے ہیں لیکن ’’آزاد نجی ٹی وی چینلز‘‘ اور اخبارات کی آزادی کی کون بات کرے گا۔ جہاں تک وزارت اطلاعات کا تعلق ہےاُس کو کون پوچھتا ہے۔ اگر واقعی صحافت کو آزاد کرنا ہے تو پھر اس بارے میں سوچیں کہ کیوں اور کیسے ایک فون کال سے ٹی وی چینلز تک کو بند کر دیا جاتا ہے اور متاثرہ چینل کی بات تک عدالت سمیت کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔ پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستان کی صحافت کا وہ حال ہے کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ حال ہی میں ایک میڈیا ہائوس کے اہم عہدے پر فائز صحافی نے کہا ہر صحافی کو پتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے، اس سب کا مقصد کیا ہے لیکن ٹی ٹاک شوز میں شامل سب کچھ جاننے والے اینکرز اور تجزیہ کار آج تک یہی تاثر دے رہے ہیں جیسے انہیں کسی بات کا علم ہی نہیں۔

دوسروں سے کہتے ہیں ثبوت ہے تو سامنے لائو۔ ایک حالیہ ٹاک شو میں مجھ سے کہا گیا کہ اگر واقعی کوئی دبائو ہے تو آپ سچ کیوں نہیں بولتے۔ میں نے جواب دیا کہ اگر کوئی دبائو نہیں تھا تو پھر نواز شریف اور مریم نواز کی لندن سے واپسی پر ن لیگ کی لاہور میں ریلی کو کیوں کسی چینل نے نہیں دکھایا، کیوں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز کے اُس عدالتی فیصلے کو ٹی وی چینلز نے سنسر کر دیا جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ کس طرح ایک ایجنسی کے کہنے پر عدالتی بنچ بنتے ہیں ؟ جب ٹی ٹاک شوز کا کیمرہ آف ہوتا ہے پھر سب بول پڑتے ہیں اورمانتے ہیں کہ کس طرح انتخابات کو manage کیا گیا اور مطلوبہ نتائج حاصل کیے گئے۔ 

انتخابات کے نتائج کو سرکاری ٹی وی کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کیا۔ جو سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اُن میں اکثر کا فوکس پولنگ کی شام ہونے والے واقعات سے ہے۔ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے ابھی تک سامنے آنے والے مطالبات کا تعلق بھی پولنگ ، ووٹوں کی گنتی، RTS کی ناکامی ، پولنگ ایجنٹوں کو گنتی کے وقت پولنگ اسٹیشن سے باہر نکالنا، فارم 45 کا نہ ملنا، اور پریذائڈنگ افسروں کا اپنے پولنگ اسٹیشن کے نتائج کے ساتھ کئی گھنٹوں کی تاخیر سے ریٹرننگ افسروں کے دفاتر میں پہنچنا سے ہے۔

ابھی تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس بات کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ انتخابات سے قبل کیا کیا ہوتا ہے۔ اگر کوئی یہ جانچنا چاہتا ہے کہ کیا مبینہ طور پر الیکشن کسی ایک سیاسی جماعت کو جتوانے اور کسی دوسری سیاسی پارٹی کو ہرانے کے لیے manage کیے گئے تو اس کے لیے الیکشن سے قبل کے واقعات اور حالات کے متعلق تحقیقات بہت ضروری ہیں ۔ اب تو چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی الیکشن کے متعلق سوال اٹھا دیئے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کے روز تین بار اُنہوں چیف الیکشن کمشنر کو فون کیا لیکن اُنہوں نے جواب نہیں دیا شاید وہ سو رہے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن اچھا خاصا چل رہا تھا RTS سسٹم بیٹھ گیا، کمیشن نے مہربانی کر دی۔ 

چیف جسٹس نے درست کہا کہ چیف الیکشن کمشنر سو رہے تھے لیکن وہ صرف الیکشن والے دن ہی نہیں بلکہ الیکشن سے پہلے بھی سوتے رہے، الیکشن کی شام اور رات کو جب دھاندلی دھاندلی کا شور مچا وہ پھر بھی سوتے رہے ۔ وہ سوتے رہے اوراپوزیشن کے بقول مبینہ طور پر کوئی انتخابات چوری ہی کر گیا۔ تحقیقات ہونی چاہے کہ الیکشن کمشنر خود سو گئے یا انہیں سلا دیا گیا تھا۔ اس کا جواب تحقیقات سے ہی بھی ممکن ہے اس بارے میں ابھی کسی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ بحرحال انتخابات ہو چکے۔ دھاندلی کے الزامات پہلے بھی لگتے رہے اور اب بھی لگ رہے ہیں۔ لیکن مبینہ طور پر جس طرح پاکستان کی صحافت کو اس بار استعمال کیا گیا اس سے پہلے کبھی ایسا نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ اس تناظر میں پاکستان کی صحافت کا کیا مستقبل ہو گا اس بارے میں میں کوئی زیادہ پرامید نہیں۔

انصار عباسی
 

کیا عمران خان کی کمزور حکومت مقتدر قوتوں کے مفاد میں ہو گی ؟

$
0
0

امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے چھوٹی پارٹیوں اور آزاد جو اتحاد بنایا ہے وہ ایک کمزور حکومت ثابت ہو گا اور سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی اقلیت فیصلہ سازی کی راہ میں رکاوٹ بنی رہے گی۔ تاہم ایک کمزور حکومت مقتدر قوتوں کے مفاد میں ہے اور پاکستان کے طاقتور حلقے 2013 جیسے مضبوط وزیر اعظم کے حق میں نہیں ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ عمران خان کے آنے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان جس سیاسی نظام کے خلاف نوجوانوں کو متحرک کر کے باہر نکالا، وہ خود بھی اسی نظام کا حصہ بن گئے ہیں، جس سے نوجوان ان سے دور ہو جائیں گے۔

ان خيالات کا اظہار پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک مجلس مذاکرہ میں کیا جس کا عنوان تھا ’ پاکستان : انتخابات کے بعد‘۔ اس مذاکرے کا اہتمام ایک تھینک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ نے کیا تھا جب کہ مقررین میں فلوریڈا یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد تقی اور امریکہ کے لئے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی بھی شامل تھے۔ ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں پاکستان کے انتخابات پر مذاکرات سننے کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ایسوسی ایٹ پروفیسر کرسٹین فیئر نے پاکستان کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے کردار کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ادائیگیوں کے توازن کے حالیہ بحران میں امریکہ آئی ایم ایف پر قرضہ نہ دینے کے لیے دباؤ ڈال تو سکتا ہے مگر پاکستان میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کے باعث امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کا ناکام ریاست بننا بہت خطرناک ہے اس لئے، اس بار بھی ہم امریکہ کی طرف سے اس معاملے میں بہت زیادہ دباؤ نہیں دیکھیں گے۔ پروفیسر کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے نوجوانوں میں سیاسی نظام پر اعتماد میں کمی آ رہی ہے وہاں پاکستانی نوجوانوں کا یہ پہلو بہت خوش آئند ہے کہ پچھلی ایک دہائی سے تحریک انصاف کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے سیاسی عمل میں شریک ہوئی ہے۔

فیئر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پالیسی سازی کی سیاست کو قومی مکالمے کا حصہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں میں جو یہ غصہ پایا جاتا تھا کہ سیاست دان پالیسیاں نہیں بناتے، مسائل کے حل کی بجائے سرپرستی کی سیاست کرتے ہیں۔ عمران خان نے اسے کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ مگر انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ جس طریقے سے عمران خان نے مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کیا ہے اس سے انہوں نے خود کو بھی نظام کا حصہ بنا لیا ہے جس کے خلاف نوجوان طبقے نے ان کا ساتھ دیا ہے۔ فیئر کا کہنا تھا اب اسی وجہ سے بہت سے نوجوان عمران خان سے دور ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

گفتگو میں شریک محمد تقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 1970 میں عوامی مینڈیٹ انتخابات کے بعد چرایا گیا تھا جب کہ اس بار مینڈیٹ انتخابات سے پہلے ہی چرا لیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اس طرح کی سیاسی انجنیرنگ ایوب خان کے زمانے سے کرتی آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن سے پہلے نوازشریف کی نااہلی اور پھر جیل، الیکٹیبلز کو ایک پارٹی میں شامل ہونے کے لیے مبینہ دباؤ، میڈیا پر پابندیاں اور شدت پسند گروہوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی چھوٹ جیسے عوامل انتخابات سے پہلے دھاندلی کا حصہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ میڈیا اور احتساب کے ادارے اس مقصد کے لئے پہلی دفعہ استعمال ہوئے ہیں۔ ایوب نے ایبڈو کیا اور پروگریسو پیپرز پر پابندی لگا دی۔ یہی کچھ یحیی، ضیا الحق اور مشرف نے کیا اور وہی کھیل اب کھیلا جا رہا ہے۔

حسین حقانی کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی کرپشن کے الزامات کو استعمال کر کے مرضی کا سیاسی نظام لایا گیا۔ آصف زرداری کو 11 برس جیل میں ڈالا گیا مگر ان پر کبھی الزامات ثابت نہ ہوئے۔ میڈیا کو حریف سیاست دانوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو نااہل پہلے کیا گیا اور ان کا ٹرائل بعد میں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مذہبی انتہا پسند جماعتیں پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن سکی ہیں مگر اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ پہلے کی طرح سڑکوں کی سیاست کرتی رہیں گی۔ عمران خان کی حکومت کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے محمد تقی کا کہنا تھا کہ کمزور سیاسی اتحاد پر مشتمل حکومت کے ہوتے ہوئے عمران خان کے لئے آگے چل کر بہت مسائل ہوں گے۔ 

متنازع الیکشن نتائج عمران خان کے لئے مسلسل درد سر بنے رہیں گے جب کہ اپوزیشن کا اتحاد بھی بہت مضبوط ہے اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی حلیف بن چکے ہیں۔ سینیٹ میں عمران خان کی پارٹی اقلیت میں ہے۔ یہ اتحاد آگے جا کر ان کے لئے بہت مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔ پروفیسر کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کمزور حکومت اور سینیٹ میں اس کی اقلیت مقتدر قوتوں کے مفاد میں ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو 2013 کی طرح کا مضبوط وزیراعظم منظور نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے پاس عمران خان کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ وہ مستقبل میں بھی پاکستانی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی کا اختیار صرف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے اور عمران خان اس میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں لا پائیں گے۔

ملک عمید

بشکریہ وائس آف امریکہ

 

پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی معاہدہ

$
0
0

پاکستان اور روس کے درمیان ایک اہم دفاعی معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں جس کے تحت پاکستان فوج کے افسروں کیلئے روسی فوجی تربیت کا دروازہ کھل گیا ہے۔ روس کے ساتھ پاکستان کا دفاعی معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مسلسل کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور پاکستان کیلئے تمام تر امریکی فوجی امداد بند ہو چکی ہے۔ ان حالات میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کیلئے روس خصوصی دلچسپی لے رہا ہے۔ پاکستانی وزارت دفاع کے ایک بیان کے مطابق یہ معاہدہ روس پاکستان مشترکہ فوجی مشاورتی کمیٹی JMCC کے دو روزہ ابتدائی اجلاس کے بعد طے پایا۔ وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریقین نے مستقبل میں دو طرفہ تعاون کے بارے میں بھی تفصیلی بات چیت کی۔

اجلاس کے اختتام پر دستخط ہونے والے معاہدے کے مطابق پاکستانی فوج کے افسر روس کی فوجی تربیت کے ادارے میں تربیت حاصل کر سکیں گے۔ اس سے قبل روس پاکستان کو چار جدید Mi-35M لڑاکا ہیلی کاپٹر فروخت کر چکا ہے جس کے بعد دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی سرزمین پر دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کے حوالے سے دو مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لیا ہے۔ دونوں ممالک کی بحریہ نے بھی حال ہی میں بحیرہ عرب میں منشیات کے خلاف مشترکہ مشقوں میں حصہ لیا۔ پاکستان کے بحری جنگی جہازوں نے گزشتہ ہفتے سینٹ پیٹرزبرگ میں منعقدہ روسی بحریہ کی پریڈ میں بھی حصہ لیا ۔ پاکستان میں روسی سفیر الیکسی دیدوو نے بتایا کہ روسی بحریہ کی پریڈ میں پاکستانی بحری جہازوں کی شرکت اسلئے بھی اہم ہے کہ اس پریڈ کا معائنہ روس کے صدر اور ملک کے کمانڈر ان چیف صدر پوٹن نے خود کیا تھا۔

 

اسلامی ترقیاتی بینک پاکستان کو 5 کھرب روپے قرض دینے پر رضامند

$
0
0

اسلامی ترقیاتی بینک پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکلنے میں مدد کیلئے 4 ارب ڈالرز تقریباً 5 کھرب روپے قرض دے گا۔ برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اسلامی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو 4 ارب ڈالرز قرض دینے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے، اسلامی بینک پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کا منتظر ہے جس کے بعد رقم کی ادائیگی کا طریقہ کار طے کیا جائے گا۔ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاک سعودی عرب تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں، سعودی عرب پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنا چاہتا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو آتے ہی شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، غیر ملکی قرضوں کی فوری ادائیگی کیلئے 12 ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی، یہ رقم حاصل کرنے کیلئے مزید قرض لینے سمیت دیگر آپشن بھی استعمال کئے جائیں گے۔ اس سے قبل چین بھی پاکستان کو بیل آؤٹ پیکیج کے طور پر 1.2 ارب ڈالر قرض فراہم کر چکا ہے، جس کے بعد ملک میں پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں کچھ کمی واقع ہوئی تھی۔
 

ٹی وی والو، ڈیم کے لیے چندہ مانگو

$
0
0

پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یعنی پیمرا نے تمام سیٹلائٹ ٹی وی چینلوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ نئے ڈیموں کی تعمیر کے لیے فنڈ جمع کرنے کی خاطر مفت اشتہارات چلائیں اور طویل دورانیے کی خصوصی نشریات کا اہتمام کریں۔ اپنی نوعیت کی اس انوکھی اور غیر معمولی ہدایت کے بارے میں پیمرا کا کہنا ہے کہ اسے سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم اور اٹارنی جنرل کا خط ملنے کے بعد جاری کیا جا رہا ہے۔ آٹھ اگست کو اس ہدایت میں کہا گیا کہ مارننگ شو کے ہر گھنٹے اور پرائم ٹائم میں شام سات سے نصف شب کو بارہ بجے تک ہر گھنٹے میں ایک منٹ ڈیموں کی خاطر چندہ مانگنے کے لیے وقف کیا جائے۔ ٹی وی چینلوں کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ ٹیلی تھون یعنی طویل دورانیے کی نشریات کا اہتمام کریں اور اس میں مشہور شخصیات کو بلائیں جو عوام سے دل کھول کر چندہ دینے کی اپیلیں کریں۔

اگلے وزیر اعظم قرار دیے جانے والے عمران خان ماضی میں کئی کامیاب ٹیلے تھون میں شریک رہے ہیں۔ جیو ٹی وی پر 2010 میں سیلاب زدگان کے لیے ٹیلے تھون پکار میں تین کوششوں میں ایک ارب دس کروڑ جمع ہوئے تھے۔ پشاور میں شوکت خانم میموریل اسپتال کی تعمیر کے لیے اے آر وائی پر 2015 میں ون بلین ٹیلی تھون چیلنج کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پاکستان کے چیف جسٹس دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کے لیے فکرمند ہیں۔ ان کے حکم پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے دس جولائی کو ڈیموں کے لیے چندہ اکاؤنٹ کھولا جس میں آٹھ اگست تک 72 کروڑ 48 لاکھ روپے جمع کروائے جا چکے تھے۔

پاکستانی میڈیا ماضی میں اس بارے میں بہت حساس رہا ہے کہ کوئی اسے ایڈوائس نہ دے۔ وائس آف امریکہ نے سینئر صحافی امتیاز عالم سے سوال کیا کہ پیمرا کی ہدایت پر کسی کو اعتراض تو نہیں ہو گا ؟ امتیاز عالم نے کہا کہ ’’پاکستانی میڈیا کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں، ناک کان بند ہیں اور زبانیں کٹی ہوئی ہیں‘‘۔ پاکستان میں چیف جسٹس کا سکہ چلتا ہے۔ وہ قوم کا مستقبل اور اپنی آخرت سنوارنا چاہتے ہیں تو کسی کو کیا تکلیف ہے؟ حکومت کا سارا کام ہی سپریم کورٹ کو تفویض کر دینا چاہیے کیونکہ سیاست دان تو سب کرپٹ ہیں۔

بزرگ صحافی ضیا الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام ٹی وی چینل اپنی نشریات کا کچھ حصہ پبلک سروس یعنی عوامی خدمت کے لیے مختص کرنے کے پابند ہیں۔ عام طور پر پاکستانی میڈیا ایسا نہیں کرتا۔ اگر پیمرا نے اس کی ہدایت کی ہے تو کوئی ہرج نہیں۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا چندہ مانگ کر ڈیم تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے کم از کم 14 ارب ڈالر یعنی تقریبا 1700 ارب روپے درکار ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے اس ڈیم کے لیے قرضہ دینے سے انکار کر چکے ہیں، کیونکہ اس کے لیے مختص کی گئی زمین گلگت بلتستان کے متنازعہ علاقے میں ہے۔ پاکستان نے اس ڈیم کو سی پیک میں شامل کرنا چاہا، لیکن چین نے بھی انکار کر دیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہر ماہ ایک ارب روپے کا خطیر چندہ ملتا رہے تو بھی ایک ڈیم کے لیے رقم جمع ہونے میں ڈیڑھ سو سال لگ جائیں گے۔ تجزیہ کار حیران ہیں کہ چیف جسٹس کو ڈیم کی لاگت کا اندازہ نہیں یا کوئی شخص انھیں درست صورتحال سے آگاہ کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا۔

مبشر علی زیدی

بشکریہ وائس آف امریکہ
 


امریکا نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی تربیت کے منصوبے ختم کر دیئے

$
0
0

ٹرمپ انتظامیہ نے خاموشی کے ساتھ پاکستانی افسران سے قطع تعلق کرتے ہوئے ایسے متعدد باہمی تربیتی اور تعلیمی منصوبوں کو ختم کر دیا جو گزشتہ ایک دہائی سے بھی زائد عرصے سے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط عسکری تعلقات کی بنیاد تھے۔ امریکی انتظامیہ کی جانب سے اس طرح کا قدم پہلے کبھی نہیں اٹھایا گیا تاہم اسے اس سال صدر ٹرمپ کے ان اقدامات کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی جانب سے مزید شدت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن نہ کرنے پر امریکی سیکیورٹی مدد ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اگرچہ پاک فوج اور پینٹاگون نے براہِ راست اس پر کوئی رائے نہیں دی لیکن دونوں ممالک کے افسران نے ذاتی سطح پر اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے مطابق یہ پریشان کن فیصلہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔ پاکستانی افسران نے اس فیصلے پر خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی عسکری لیڈرشپ کی تربیت کےلیے چین اور روس سے رجوع کر سکتا ہے۔
دوسری جانب امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کےترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام (آئی ایم ای ٹی) کے تحت اس سال 66 پاکستانی افسران کو تربیت فراہم کرنا تھیں اور اب ان مواقع کو ختم کیا جارہا ہے۔ یہ مواقع یا تو استعمال نہیں ہوں گے یا کسی اور ملک کو فراہم کردیئے جائیں گے۔

پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے سابق نمائندہ خصوی، ڈین فیلڈ مین نے اس قدم کو ’ بہت تنگ نظری‘ قرار دیتے ہوئے اسے دونوں ممالک کے مستقبل پر منفی اثرات کی وجہ کہا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک نمائندے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ آئی ایم ای ٹی منسوخی کی قیمت 24 لاکھ ڈالر ہے اور اس سے مزید دو منصوبے بھی متاثر ہوں گے۔ اب یہ واضح نہیں کہ امریکی اور پاکستانی فوجی حکام آئی ایم ای ٹی سے ماورا رہتے ہوئے کس طرح کے اعلیٰ سطح تعلقات قائم رکھتے ہیں؟

اہم امر یہ ہے کہ پاکستان اور امریکی فوجی تعاون ہمیشہ سے سیاسی دباؤ اور تعلقات سے آزاد رہا ہے۔ پینسلوانیہ میں امریکی فوجی کالج میں 37 پاکستانی فوجی افسران سمیت ڈی جی آئی ایس آئی بھی پڑھ چکے ہیں لیکن اس سال ان کی فہرست میں ایک بھی پاکستانی فوجی افسر شامل نہیں۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ اس سے قبل اپنے ٹویٹ میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا اور جھوٹ بولتا رہا ہے۔ دوسری جانب سینیٹ میں خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید نے اس اقدام کو مخالفانہ اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسی ہفتے روس اور پاکستان فوجی تربیت کے ایک معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں جس کے تحت پاکستان فوجی افسران روسی اداروں میں تربیت حاصل کریں گے۔
 

اب فیس بک اسٹیٹس لکھیں نہیں بولیں

$
0
0

فیس بک صارفین کے لیے لمبے لمبے اسٹیٹس لکھنا اور پڑھنا ایک طرح کا پریشان کن معاملہ ہوتا ہے لیکن اب اس سے بہت جلد جان چھوٹ جائے گی کیونکہ مستقبل میں اسٹیٹس لکھنے کے بجائے بولا جائے گا۔ فیس بک ایک نئے فیچر کی آزمائش جاری رکھے ہوئے ہے جس میں ’وائس کلپ‘ کا آپشن دیا جائے گا۔ مکمل آزمائش اورتجزیے کے بعد یہ آپشن اسٹیٹس کے فیچر میں اپ ڈیٹ کیا جائے گا جس میں صارف آواز ریکارڈ کر کے تحریری اسٹیٹس کے متبادل کے طور پر استعمال کریں گے۔ ٹیک کرچ ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق فیس بک کا ’وائس کلپ‘ فیچر خاص طور پر ان صارفین کے لیے انتہائی مفید ہو گا جو ’وکی پیڈ یا کی بورڈ‘ کا بہت زیادہ استعمال نہیں کرتے جب کہ اچھی تحریر نہ لکھنے والے افراد بھی اپنی بات بول سکیں گے۔ ابتدائی طور پر فیس بک ’وائس کلپ‘ کا فیچرچند ممالک میں آزمائشی مرحلے میں ہے اور صارفین کی ایک معقول تعداد اس فیچر کو ٹیسٹنگ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
 

اسلامی ترقیاتی بینک کی مدد

$
0
0

یہ امر انتہائی خوش کن ہے کہ اسلامی ترقیاتی بینک پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکلنے میں مدد کیلئے 4 ارب ڈالر یعنی تقریباً 5 کھرب روپے کا قرض فراہم کرے گا۔ برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد رقم کی ادائیگی کا طریقہ کار طے کیا جائے گا۔ بلاشبہ پاکستان اس وقت شدید معاشی مشکلات میں دھنسا ہے اور آنے والی حکومت کو آتے ہی بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے 12 ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔ اسلام آباد سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے امریکی تھنک ٹینک سے خطاب میں متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ پاکستان کو گزشتہ تین ماہ سے دو ارب ڈالر ماہانہ کرنٹ خسارے کا سامنا ہے۔ 5 سال قبل کرنٹ خسارہ 2 ارب ڈالر سالانہ تھا، اب یہ دو ارب ڈالر ماہانہ ہو چکا ہے۔

عہد حاضر میں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ دنیا میں وہی ممالک کوئی مقام حاصل کر سکیں گے جو معاشی و اقتصادی طور پر مضبوط ہوں گے، خاص طور پر سوویت یونین کی تحلیل کے بعد یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ اب دنیا کو ہتھیاروں کے انباروں سے نہیں بلکہ اپنی مضبوط و مستحکم معیشت کے بل پر زیر اثر لایا جا سکے گا۔ اس حوالے سے امریکی و برطانوی تھنک ٹینکس کا بھی مشترکہ موقف یہی ہے کہ کوئی ملک اب صرف مضبوط معیشت کے باعث ہی حاکمیت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہو گا اور ترقی کا معیار صرف اور صرف معاشی ترقی کو ہی قرار دیا جائے گا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نہ تو تاریخ سے کچھ سیکھتے ہیں نہ مستقبل کے تقاضوں کا ادراک رکھتے ہیں۔

یہ حقیقت تو سب پر عیاں تھی کہ ملک میں بننے والی کسی بھی حکومت کے لئے سب سے بڑا اور بنیادی چیلنج اقتصادی استحکام ہو گا کیونکہ یہ اعداد و شمار سب کے سامنے تھے اور ہیں کہ پاکستان 95 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور ملکی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ قرضہ ہے، جاری خسارہ 18 ارب ڈالر، گردشی قرضے 10 ارب ڈالر ہیں جبکہ ہماری برآمدات 28 سے 29 ارب ڈالر ہیں اور درآمدات اس سے دوگنا یعنی 60 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ پچھلی دو جمہوری حکومتوں سے قبل پاکستان پر مجموعی بیرونی قرضہ 37 ارب ڈالر تھا جبکہ محض دس برس میں اتنا قرضہ لیا گیا جتنا مجموعی طور پر پچھلے 60 برس میں بھی نہیں لیا گیا تھا۔ یہ سب اس ملک میں ہوا جس کے 40 فیصد عوام خط افلاس کے نیچے زندگی کرنے پر مجبور ہیں اور جس کے کم و بیش 2 کروڑ نوجوان بے روزگار ہیں۔

ان حالات میں تحریک انصاف کی حکومت کو بلاشبہ غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے ہی معیشت کو مستحکم کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ لازمی بات ہے کہ پہلے سے لئے گئے قرضوں کا سود اتارنے کے لئے اسے آئی ایم ایف سے بھی رجوع کرنا پڑے گا جو قرضے دے کر مقروض ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اپنا حق خیال کرتا ہے بلکہ بسا اوقات اپنی شرائط قبول کئے جانے کے بعد ہی قرضہ جاری کرتا ہے۔ وطن عزیز میں اس وقت جو ناقابل برداشت مہنگائی اور بیروزگاری ہے اس کی بڑی اور بنیادی وجہ آئی ایم ایف کے قرضے بھی ہیں، جن کے باعث عوام کو بجلی اور تیل جیسی بنیادی ضرورت کی اشیا پر دی جانے والی سبسڈیز کا خاتمہ کر دیا گیا اور مہنگائی آسمان پر پہنچ گئی۔ آئندہ حکومت کو سخت ترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اسی اعتبار سے مدبرانہ فیصلے بھی کرنا پڑیں گے۔

ٹیکس اصلاحات نافذ کرنا از بس ضروری ہے اور غیر ملکی ترسیلات زر کو بڑھانے کے لئے خصوصی اقدامات بھی۔ تاہم یہ سب اقدامات فوری طور پر ہو بھی گئے تو پاکستان اس پوزیشن میں نہ ہو گا کہ بیرونی قرضے خود ادا کر سکے اس کے لئے پاکستان کے دوست ممالک کو معاونت کرنا ہو گی تاکہ پاکستان کو آئی ایم ایف پر کم سے کم انحصار کرنا پڑے۔ عالمی برادری کو بھی اس حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ معاشی و اقتصادی تعلقات بڑھانا ہوں گے۔ خاص طور پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو اس ضمن میں بنیادی کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ ملک معاشی مسائل کے گرداب سے نکل سکے۔ اسلامی ترقیاتی بینک کی طرز پر پاکستان کی مدد کرنا اس وقت پاکستان کے دوست ممالک پر واجب ہے۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

سیاسی کارکنوں کو تربیت بھی دیں

$
0
0

جماعت اسلامی کے ایک سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے ایک بار یہ ارادہ ظاہر کیا تھا کہ وہ سیاسی کارکنوں کیلئے ایسی تربیت کا اہتمام کریں گے جس کے ذریعے کارکنوں کو جلسوں جلوسوں خصوصاً احتجاجی ریلیوں کے مواقع پر زیادہ بہتر نظم و نسق اور طرز عمل کا مظاہرہ کرتا دیکھا جا سکے۔ قاضی صاحب ایک صاحب فکر اور دوراندیش لیڈر کی حیثیت سے سیاسی کارکنوں کی تربیت کی جو ضرورت برسوں پہلے محسوس کر رہے تھے اس پر بھرپور کام کرنے کا انہیں موقع نہ مل سکا اور اس وقت حالات کا بگاڑ ایسے مقام پر محسوس ہو رہا ہے کہ کارکن تو کئی مواقع پر پارٹی ڈسپلن کو فراموش کرتے ہی ہیں بعض لیڈر بھی جوش تقریر میں اپنے مقام کا پاس نہیں رکھ پاتے جبکہ ہر رہنما جانتا ہے کہ سخت سے سخت بات بھی مناسب الفاظ و لہجے میں ملک و قوم کی سلامتی و وقار کی حدود ملحوظ رکھتے ہوئے کہی جا سکتی ہے۔ 

جلسوں کا انعقاد ہو، جلوس نکالے جائیں یا احتجاجی اجتماع ہو۔ عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ دکانیں بند کرا کر، ٹریفک رکوا کر یا خلق خدا کیلئے دوسری مشکلات پیدا کر کے اپنے کاز کو کیوں کر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ احتجاجوں اور ریلیوں کا مقصد خواہ مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے ازالے کی راہ ہموار کرنا ہو یا کسی دل آزاری والی بات پر ردعمل دینا۔ سیاسی رہنمائوں، مذہبی تعلیمات کا پرچار کرنے والوں اور صاحبان دانش کے احتجاج کے اسلوب اور زبان و بیان سے ان کے تدبر اور بصیرت کا اظہار ہونا چاہئے۔ سیاسی سرگرمیوں کا محور و مرکز عوام کے حقوق کا تحفظ ہے جو ملکی بقا و سلامتی سے جڑے ہوتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کے لئے وفاق یا قومی اداروں یا قابل احترام دنوں کا نام محض زبان کی چاشنی کیلئے معمول کے مطلب سے قدرے مختلف لہجے میں ادا کرتے ہیں تو انہیں اس کا جائزہ ضرور لینا چاہئے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا مفہوم کہاں تک پہنچ رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری سیاسی پارٹیاں اپنے کارکنوں کے لئے ملکی تاریخ، اہم قانونی نکات اور سیاسی نظم و ضبط پر مبنی ایسی تربیت کا اہتمام کریں جس کی بنا پر بعد میں یہ کارکن پارٹی ہی نہیں، ملک کا قابل قدر اثاثہ ثابت ہوں۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

تحریک انصاف کی نئی حکومت، پہلے 45 دن میں کیا کرے

$
0
0

پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات سے قبل قوم سے وعدہ کیا تھا کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر یہ رقوم تعلیم و صحت پر خرچ کی جائیں گی اور پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے گا۔ آج کی نشست میں ہم 5نکاتی حکمت عملی کا خاکہ پیش کررہے ہیں جو آنے والی حکومت کو تیز رفتاری سے اپنانا ہو گی۔ یہ تجاویز تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وعدوں اور تحریک انصاف کے 2013ء اور 2018ء کے انتخابی منشور کی روشنی میں وضع کی گئی ہیں.

(1) لوٹی ہوئی، ٹیکس چوری اور دوسرے ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ رقوم سے بنائے گئے کئی ہزار ارب روپے کے ایسے اثاثے اب بھی ملک میں موجود ہیں جو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں بھی ظاہر نہیں کئے گئے۔ ان ناجائز اثاثوں کی مکمل تفصیلات بشمول ان کے مالکان کے قومی شناختی کارڈ نمبر ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ ملک کے اندر موجود ہونے کی وجہ سے یہ اثاثے حکومت کی دسترس میں بھی ہیں۔ ان اثاثوں میں غیرمنقولہ جائیدادیں، گاڑیاں، بینکوں و مالیاتی اداروں کے کھاتوں میں جمع شدہ رقوم، قومی بچت اسکیموں میں لگائی گئی رقوم، حکومتی تمسکات و میوچل فنڈز میں کی گئی سرمایہ کاری اور اسٹاک مارکیٹ کے حصص وغیرہ شامل ہیں۔ 

اب کمپیوٹرز کے ذریعے ان اثاثوں کا متعلقہ شخص کے ٹیکس کے گوشواروں سے موازنہ کر کے ان ناجائز اثاثوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جو ابھی تک ٹیکس حکام سے خفیہ رکھے گئے ہیں اگر ان اثاثوں پر مروجہ قوانین کے تحت اگست 2018ء سے ہی حکومتی واجبات وصول کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے تو چند ماہ میں کم از کم 1500؍ارب روپے کی اضافی آمدنی ہو سکتی ہے۔ اس رقم سے ایک بڑا ڈیم بنایا جا سکتا ہے، پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کے نرخوں میں کمی کی جا سکتی ہے اور تعلیم و صحت کے لئے زیادہ رقوم مختص کی جا سکتی ہیں۔

ایف بی آر کی اصلاح کرنے اور اس کو متحرک بنانے میں چونکہ خاصہ وقت درکار ہو گا اس لئے یہ ازحد ضروری ہے کہ اس مہم کی مانیٹرنگ خود وزیر اعظم کے دفتر سے کی جائے۔ ایف بی آر کے چیئرمین نے جون 2018ء میں یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ ناجائز ملکی اثاثوں کو ظاہر کرنے کی مدت ختم ہونے کے ایک دن بعد سے ہی ان اثاثوں پر مروجہ ٹیکس قوانین کے تحت حکومتی واجبات وصول کرنا شروع کر دئیے جائیں گے۔ جن کو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔ ان ناجائز اثاثوں پر ٹیکس اور واجبات کی وصولی اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے ٹیکسوں کی مد میں ملنے والی تقریباً 127؍ارب روپے کی رقوم سے عوام کو اگلے 45 روز میں ریلیف دینا یقیناً ممکن ہو گا۔ یہ نئی حکومت کا ٹیسٹ کیس ہو گا۔

(2) کھلی منڈی سے ڈالر خرید کر ملک میں کام کرنے والے بینکوں کے بیرونی کرنسی کے کھاتوں میں جو رقوم جمع کرائی جاتی ہیں ان کو تعلیم و علاج معالجے کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے ملک سے باہر بھیجنے کی انکم ٹیکس کے گوشوارے داخل کرانے والوں کو بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ جون 2018ء میں سپریم کورٹ کو بتلایا گیا تھا کہ صرف 2017ء میں کھلی منڈی سے ڈالر خرید کر بینکوں کے ذریعے 15؍ ارب ڈالر سے زائد کی رقوم ملک سے باہر بھجوائی گئی ہیں۔ 2016ء اور 2017ء میں پاکستان میں صرف ہم ہی کہتے رہے تھے کہ عام حالات میں ان رقوم کو ملک سے باہر بھیجنے کی اجازت نہیں ہونا چاہئے۔ (جنگ 21؍ اپریل 2016ء، 4؍ مئی 2017ء، 29؍جون 2017ء اور 17؍نومبر 2017ء) یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ ملک سے بھیجی جانے والی ان رقوم سے بیرونی ممالک میں نہ صرف جائیدادیں اور دوسرے اثاثے بنائے جاتے ہیں بلکہ مغربی ممالک کی شہریت بھی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ اگر اس ضمن میں گزشتہ برسوں میں ہماری پیش کی گئی گزارشات پر عمل کیا جاتا تو آج ہم آئی ایم ایف کے پاس جانے کے لئے مجبور نہ ہوتے۔ کیا اس ضمن میں کسی کا احتساب ہو گا ؟

(3) تحریک انصاف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان کی حکومت سی پیک اور ایل این جی معاہدات کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرے گی۔ ہماری تجویز ہے کہ اس صدارتی آرڈی ننس کو بھی فوری طور پر پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے جس کے تحت نگراں حکومت کےایماء پر دونوں ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں میں توسیع و ترمیم کی گئی تھی۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ کو بھی حقائق سے آگاہ کیا جائے کیونکہ نگراں حکومت نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بجائے خاموشی کو ترجیح دی۔ ایف بی آر نے جولائی 2018ء میں تواتر سے قومی اخبارات میں جو اشتہارات شائع کرائے تھے ان میں تنبیہ کی گئی تھی کہ 31؍ اگست 2018ء تک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں ’’غیرظاہر شدہ غیرملکی اثاثوں اور آمدنی پر ٹیکس کے علاوہ جرمانہ اور قانونی کارروائی‘‘۔

اس کے برخلاف ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے مقرر کردہ عدالتی معاون نے ایمنسٹی اسکیم کی میعاد ختم ہونے کے بعد 7؍ اگست 2018ء کو عدالت کو بتلایا کہ تاجر برادری اور عام شہریوں نے جو رقوم بیرونی ملکوں میں جمع کی ہوئی ہیں ان پر کوئی داغ نہیں لگنا چاہئے مگر ان رقوم کو پاکستان واپس لایا جا سکتا ہے۔ یہ موقف حیران کن ہے کیونکہ (الف) یہ رقوم ٹیکس حکام سے خفیہ رکھ کر ملک سے باہر منتقل کی گئی تھیں (ب) ان اثاثوں کو سالانہ ٹیکس گوشواروں میں شامل نہیں کیا گیا ہے جوکہ غلط بیانی ہے اور (ج) ان اثاثوں کو حالیہ ٹیکس ایمنسٹی کے تحت بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کے خلاف مروجہ قوانین کے تحت ٹیکس کی وصولی، جرمانہ اور قانونی کارروائی ہونا چاہئے۔

(4) اگلے 5 برسوں میں لوٹی ہوئی رقوم پاکستان کو واپس ملنے کا امکان روشن نہیں ہے لیکن ملکی قوانین اور قواعد و ضوابط میں مناسب تبدیلیاں کر کے اور نئی قانون سازی کر کے تقریباً 20؍ ارب ڈالر سالانہ کے سرمائے کے فرار کو روکا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ازحد ضروری ہے کہ غیرمنقولہ جائیدادوں کی خرید و فروخت مارکیٹ کے نرخوں پر ہی کی جائے۔

(5) اب سے 3 ماہ قبل ہم نے لکھا تھا کہ 2018-19ء کا وفاقی بجٹ مفروضوں اور تضادات پر مبنی غیر حقیقت پسندانہ بجٹ ہے (جنگ 10؍مئی 2018ء) اب یہ ضروری ہے کہ موجودہ مالی سال کے نظرثانی شدہ وفاقی اور صوبائی بجٹ ستمبر کے پہلے ہفتے تک پیش کر دئیے جائیں۔ وفاق اور صوبے ایک مقررہ آمدنی سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور سے ٹیکس عائد کریں، ود ہولڈنگ ٹیکس کا نظام ختم کر دیا جائے، جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 7.5 فیصد سے زائد نہ ہو، معیشت کو دستاویزی بنایا جائے اور دولت ٹیکس عائد کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ تعلیم و صحت کی مد میں جی ڈی پی کا 7.6 فیصد مختص کیا جائے۔ گزشتہ برسوں کے تجربات کی روشنی میں ہم اپنی یہ تجویز دہرائیں گے کہ حکومتی شعبے کی یونیورسٹیوں کے چانسلرز صرف ماہرین تعلیم ہوں۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
 

ملک معراج خالد : سادہ زندگی گزارنے والے نگراں وزیر اعظم

$
0
0

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد اور وزیر اعظم بننے سے قبل ہی اس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ وہ وزیر اعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے۔عمران خان کا ارادہ ہے کہ وہ وزیر اعظم ہائوس کو تعلیمی ادارے میں تبدیل کریں گے اور خود اسپیکر ہائوس میں رہیں گے جبکہ اس بات کا حتمی فیصلہ اب تک نہیں کیا گیا ہے۔ عمران خان پاکستان کے واحد وزیر اعظم نہیں ہوں گے جنہوں نے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیر اعظم ہائوس میں نہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ اس سے قبل بھی پاکستان کے ایک نگراں وزیر اعظم نے وزیر اعظم ہائوس میں نہ رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آج جس شخصیت کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے شاید بہت کم لوگ ان کے بارے میں جانتے ہوں گے کیونکہ وہ صرف 1996 سے 1997 تک نگراں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے اور اس عرصے کے دوران انہوں نے نہایت سادہ زندگی گزاری۔ 20 ستمبر 1916ء کولاہور کے ایک گاؤں میں پیدا ہو نے والے ملک معراج خالد چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، انہیں پڑھنے لکھنے کا بے حد شوق تھا مگر گاؤں میں کوئی اسکول نہ ہونے کے سبب انہیں دیڑھ میل دور دوسرے گاؤں پڑھنے کے لیے جانا پڑتا تھا۔ مڈل اسکول امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم حاصل کرنے لاہورآ گئے۔ یہاں آکر انہوں نے اُس وقت کے نمبر ون اسکول ’سینٹرل ماڈل اسکول ‘ میں داخلہ لے لیا۔

ان کا گائوں شہر سے 13 کلو میٹر دور تھا،غربت کی وجہ سے تعلیم جاری رکھنا ملک معراج کے لیےمشکل ہو رہا تھا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور تہیہ کیا کہ وہ گاؤں سے دودھ لے کرشہر میں بیچیںگے اور اس طرح اپنی تعلیم کا خرچہ اٹھائیں گے۔ ملک معراج روزانہ صبح فجر کی نماز سے پہلے اٹھتے مختلف گھروں سے دودھ اکٹھا کرتے، ڈرم کو ریڑھے پر لاد کر شہر پہنچتے اور نواب مظفر قزلباش کی حویلی سمیت کئی دکانداروں کو دودھ فروخت کرتے۔ پھر مسجد میں جا کر کپڑے بدلتے اور اسکول چلے جاتے۔ اپنے کالج کے دور تک اسی طرح انہوں نے دودھ بیچ کر اپنی تعلیم جاری رکھی۔ غربت کی یہ انتہا تھی کہ ان کے پاس اسکول میں پہننے کو جوتے نہ تھے ۔ انہوں نے پیسے جمع کر کے جوتے خریدے مگر وہ یہ جوتے گائوں میں نہیں پہن سکتے تھے کیونکہ وہ جلد گھِس جاتے چنانچہ وہ گاؤں سےاپنے والد کی دیسی جوتی پہن کر شہر آگئے۔ وہ اپنے جوتوں کو دودھ کے برتن کے ساتھ کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیتے اورصرف اسکول کے لیے ان جوتوں کا استعمال کرتے۔

سن 1935ء میں انہوں نے میٹرک میں نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کی اور پھر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ لے لیا۔ اب وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے گاؤں سے ریڑھے میں دودھ لاتےاور شہر میں فروخت      کرتے لیکن اس کام میں کبھی انہیں شرمندگی محسوس نہ ہوئی۔ بی اے آنر کرنے والے ملک معراج اپنے علاقے کے واحد گریجویٹ تھے۔ معاشی دباؤ کے تحت بی اے آنرکے بعد انہوں نے باٹا پور کمپنی میں کلرک کی نوکری شروع کر دی چونکہ ان کا مقصد لاء یعنی قانون پڑھنا تھا لہٰذا کچھ عرصہ بعد کلرک کی نوکری چھوڑ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگےاور 1946ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کر کے 1950ء سے باقاعدہ پریکٹس شروع کر دی۔

ملک معراج کو خدمت خلق کا کافی شوق تھا اسی لیے انہوں نے لوگوں کی مدد سے اپنے علاقے میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے۔ لوگوں کی مدد کرنے کے لیے 1965ء میں انہوں نے قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا اور کامیاب ہوئے۔ وہ پیپلز پارٹی کے روٹی کپڑا مکان کے نعرہ سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہو گئے۔
1970ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے اور 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر خوراک بنے۔ سال 1972ء میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے اور اس پورے عرصے میں وہ رکشے میں سفر کیا کرتے تھے۔ 1973ء میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کی 1973ء میں وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور کا قلمدان سونپا گیا۔ دو دفعہ ا سپیکر قومی اسمبلی بنے اور 4 سال تک انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ڈائریکٹر رہے۔ ایک ان پڑھ کسان کا بیٹا جس نے کامیابی کا ایک لمبا اور کٹھن سفر اپنے دودھ بیچنے سے شروع کیا وہ پاکستان کا نگراں وزیر اعظم بنا لیکن پھر بھی وہ ساری عمر لاہور میں لکشمی مینشن میں رہے اور ساری عمر سادہ زندگی گزاری ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

 

ایسی اپوزیشن اللہ سب کو دے

$
0
0

اگر یہ درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ کچھ بھی کرنا پڑے اس بار نواز شریف کی پارٹی کو دوسری مدت کے لیے برسرِاقتدار نہیں آنے دینا اور تحریکِ انصاف کو کسی بھی قیمت پر حکومت سازی کا موقع دینا ہے۔ تو یہ راز سیاسی جماعتوں پر 2014 میں ہی افشا ہو گیا تھا جب اسلام آباد کے ڈی چوک پر طویل دھرنا ہوا اور تھرڈ ایمپائر کی انگلی کا سٹیج سے بار بار تذکرہ ہوا۔ شاید اسی لیے اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے اندر نواز شریف کو سخت سست کہتے ہوئے بھی ان کی بھرپور حمایت کی۔ اکثریتی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ ہم نواز شریف کو نہیں بلکہ جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچا رہے ہیں۔ جب خطرہ بظاہر ٹل گیا تو نواز شریف پھر اپنی کچن کیبینٹ والی پرانی عادت پر اتر آئے۔ وہ چاہتے تو ایوان کے اندر ملنے والی بھرپور حمایت کو اگلے چار برس کے لیے ’سب کو ساتھ لے کر چلو کی حکمتِ عملی میں بدل سکتے تھے مگر حسبِ توقع ایسا نہیں ہوا اور نواز شریف نے کنٹینری شب خون کو کوئی اتفاقی حادثہ سمجھ کر ٹال دیا۔

نواز شریف چاہتے تو پانامہ سکینڈل کھلنے کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے اس سکینڈل کی سماعت کے انکار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مرضی کا تحقیقی کمیشن بنانے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپوزیشن کی طرف سے ایک پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی کی تجویز کو فوری غیر مشروط تسلیم کر کے معاملے کو ایوان میں ہی نپٹا سکتے تھے۔ اس وقت تحریکِ انصاف بھی موڈ میں تھی کہ پانامہ کا شخشخہ پارلیمنٹ کے اندر نمٹا لیا جائے مگر وہ نواز شریف ہی کیا جو درست وقت پر غلط فیصلے نہ کرے۔ چنانچہ پھر تحریکِ انصاف اور شیخ رشید وغیرہ پانامہ پیٹیشن بذریعہ اسلام آباد لاک ڈاؤن سپریم کورٹ میں دوبارہ لے گئے اور سپریم کورٹ نے اس بار سماعت سے انکار نہیں کیا۔ اس کے بعد اعلی عدالت سے نیب عدالت تک کا شریفانہ سفر اور جزا و سزا کا ماجرا آپ کے سامنے ہے۔
مگر پانامہ تحقیقات کے نتائج سے قطع نظر اپوزیشن کے اس کمیٹمنٹ کا کیا ہوا کہ ہم شریفوں کو نہیں جمہوری نظام کو کسی ماورائے پارلیمان قوت کے شب خون سے بچانا چاہتے ہیں؟

جب بلوچستان میں گذشتہ دسمبر میں اچھی خاصی رواں ثنااللہ زہری کی مسلم لیگ نواز مخلوط حکومت کے پاؤں تلے سے کھلم کھلا قالین کھینچا گیا تو کیا اس وقت پیپلز پارٹی کو مہرہ بنتے ہوئے اندازہ نہیں ہوا کہ یہ کھیل اب سینیٹ میں لیگی حکومت کو اکثریت لینے سے روکنے پر نہیں رکے گا۔ پیپلز پارٹی نے اس وقت بلوچستان میں جو پراسرار حکمتِ عملی اختیار کی اور پھر سینیٹ کے الیکشن میں جس طرح تحریکِ انصاف سے ہاتھ ملا کر رضا ربانی جیسی شخصیت کو اپنا امیدوار نامزد کرنے سے انکار کر کے کسی بالائے پارلیمان قوت کی مرضی کے مثبت نتائج پیدا کرنے میں جو مدد دی۔ اس کی فارسی آصف زرداری کیا 29 بے نامی اکاؤنٹس کا فیصلہ ہونے کے بعد بتائیں گے؟

سینیٹ الیکشن کے دوران پیپلز پارٹی نے فیصلہ کسی انفرادی غصے کے تحت کیا یا کسی نے کوئی لالی پاپ دکھایا یا کسی نے بلیک میل کر کے استعمال کر لیا؟ کیا وجہ تھی کہ پچھلے پچاس برس میں بالائے جمہوریت قوتوں سے سب سے زیادہ مار کھانے والی جماعت کو یہ سمجھ میں نہ آیا کہ اب کیا کھیل شروع ہے اور اس کا اختتام کیسے ہو گا ؟ 25 جولائی کو انتخابات منعقد کروانے کے الیکشن کمیشن کے اعلان سے بہت پہلے ہی سیاسی اسٹاک ایکسچینج میں خبر پھیل چکی تھی کہ ایک خاص پارٹی کے لیے بھاری تعداد میں سیاسی شیئرز اٹھانے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی نواز لیگ ہو کہ پیپلز پارٹی، اے این پی کہ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں، سب الگ الگ چیخ رہی تھیں کہ انتخابی نتائج کو ایک خاص شکل دینے کے لیے محکمہ زراعت منہ مانگے داموں میں فصل اٹھا رہا ہے اور انکار پر زبردستی بھی کی جا رہی ہے۔

کیا وہ وقت نہیں تھا کہ تمام شکوہ کناں عاقل بالغ سیاسی جماعتیں انا، ماضی اور حال ِ بے حال کو بھول بھال کر اپنی اپنی فصل بچانے کے لیے قبل از 25 جولائی وسیع تر انتخابی اتحاد کے بارے میں سوچتیں کہ جس اتحاد کا خیال انھیں 25 کے بعد آیا ؟ ایسا کرنے سے کس لالچ، لالی پاپ یا آسمانی مدد کے انتظار نے روکا تھا؟
اب جو اتحاد ہوا ہے وہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مُکا ہے۔ یعنی جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے سڑک پر بھی آتے رہیں گے اور ’دھاندلی کی پیداوار‘ اسمبلیوں میں بھی نئی حکومت کو ٹف ٹائم دیتے رہیں گے۔ مگر اسی ’فراڈ الیکشن‘ کی پیداوار صوبائی اسمبلیوں میں قومی اسمبلی سے الگ حکمتِ عملی پر بھی بنا اتحاد کاربند رہیں گے۔ تحریکِ انصاف جب اپوزیشن میں تھی تو اس نے بھی یہی تو کیا تھا جو آپ آج کرنا چاہ رہے ہیں۔ اب جبکہ آپ نے آدھا انتخابی بکرا حلال آدھا حرام تسلیم کر ہی لیا ہے تو پھر حکومت بھی چلنے دیں اور بطور تعمیری اپوزیشن بھرپور کردار ادا کرتے رہیں۔ مگر الگ الگ یا یکجا ہو کر؟ یہی سوال آپ کا جمہوری و ذہنی مستقبل طے کرے گا۔

وسعت اللہ خان
تجزیہ کار

بشکریہ بی بی سی اردو




واٹس ایپ کتنی محفوظ اپلیکیشن ہے ؟

$
0
0

دنیا کی مقبول ترین چیٹنگ اپلیکیشن واٹس ایپ میں بڑی سکیورٹی خامی سامنے آگئی ہے۔ اس خامی کی مدد سے ہیکرز نہ صرف پیغام کو پڑھ سکتے ہیں بلکہ اسے بدل بھی سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ سکیورٹی کمپنی چیک پوائنٹ کے محققین نے دریافت کیا ہے کہ واٹس ایپ کی جانب سے ڈیکرپٹ ڈیٹا کے لیے استعمال ہونے والے الگورتھم میں ردوبدل کر کے واٹس ایپ سکیورٹی کو بائی پاس کیا جا سکتا ہے۔ اس خامی کی وجہ سے پبلک میسج کو پرائیویٹ میسج ظاہر کر کے بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ محقیقین کا کہنا ہے کہ اس کمزوری سے ہیکرز گروپ چیٹ میں داخل ہو کر گفتگو کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر جعلی معلومات پھیلا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی واٹس ایپ کی سکیورٹی میں بڑی خامیاں سامنے آ چکی ہیں اور محققین یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ہیکرز معمولی سی کوشش سے پرائیویٹ چیٹ میں بھیجی جانے والی تصاویر ویڈیوز اور پیغامات کو باآسانی پڑھ سکتے ہیں۔

پی آئی اے آڈٹ، 7 ارب روپے خردبرد ہونے کا انکشاف

$
0
0

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن ’پی آئی اے‘ کی آڈٹ رپورٹ میں 7 ارب روپے خرد برد ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے سپریم کورٹ کے حکم پر قومی ایئرلائین میں مالی بے ضابطگیوں کی چھان بین شروع کر دی اور اس حوالے سے سی ای او پی آئی اے کو خصوصی مراسلہ بھی جاری کر دیا ہے۔ مراسلے میں لکھا گیا کہ وزارتِ خزانہ کی جانب سے پی آئی اے کو فنڈز کی مد میں فراہم کی جانے والی رقم 30.81 ارب روپے ہے جبکہ ایئرلائن کے فنانس ڈیپارٹ کی جانب سے فراہم کردہ حساب کی رقم 23.565 ارب روپے ظاہر کی گئی ہے۔

مراسلے میں یہ بھی بتایا گیا کہ وزراتِ خزانہ کی جانب سے ضمانتوں کی رقم پی آئی اےآڈٹ میں 175.086 ارب بتائی گئی جبکہ وزارتِ خزانہ کی جانب سے یہ رقم 177.230 ارب روپے درج کی گئی ہے تاہم اس مد میں بھی 2 ارب روپے کا فرق آرہا ہے جبکہ خصوصی مراسلے میں پی آئی اے انتظامیہ کو 10 سالہ مالی ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا مراسلہ ملنے کے بعد پی آئی اے حکام نے اپنے چیف فنانس آفیسر سے غلط معلومات فراہم کرنے پر وضاحت طلب کی اور نوٹس جاری کر دیا، جس میں استفسار کیا گیا کہ آڈٹ ٹیم کو فراہم کردہ اعداد و شمار اور ادارے کو ملنے والی رقوم میں فرق کیسے آیا اور آڈیٹر جنرل کی باربار درخواست کے باوجود درست معلومات فراہم کرنے میں ناکامی کی وجہ کیا ہے۔
 

پاکستان کے نوجوان : پاکستان کے روشن مستقبل کی امید

$
0
0

اس وقت دنیا میں ایک ارب 80 کروڑ افراد کی عمر 10 سے 24 برس کے درمیان ہے۔ آج دنیا میں نوجوانوں کی تعداد جتنی ہے، ماضی میں کبھی نہیں رہی۔ لیکن ان کی بہت بڑی تعداد ان علاقوں میں رہتی ہے جہاں تنازعات یا خانہ جنگی ہے۔ ناخواندگی، بے روزگاری، تربیت کا فقدان، سیاسی عمل اور فیصلہ سازی میں عدم شمولیت نوجوانوں کے چند اہم مسائل ہیں۔ نوجوانوں کے مسائل اور ان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے 1999ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 12 اگست کو نوجوانوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا بھی فیصلہ کیا۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی 64 فیصد آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے ، اور 29 فیصد آبادی کی عمر 15 سے 29 بر س کے درمیان ہے۔ 

پاکستان میں نوجوانوں کو درپیش بڑے مسائل میں تعلیم اور بے روزگاری شامل ہیں۔ بہت سے نوجوان تعلیم تو حاصل کر رہے ہیں لیکن انہیں معیاری تعلیم میسر نہیں۔ اس کے علاوہ سماجی کاموں میں ان کی صلاحیتوں اور توانائی سے پوری طرح مستفید نہیں ہوا جا رہا۔ انہیں فیصلہ سازی اور سیاسی عمل میں شریک کرنے اورصحت مندانہ سرگرمیوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ 195 ممالک میں سے صرف 14 ممالک ایسے ہیں جو تعلیم پر پاکستان سے کم خرچ کرتے ہیں۔ پاکستان کو 45 لاکھ کے قریب نئی ملازمتوں کی ضرورت ہے ۔ اگر یہ پیدا نہ کی گئیں تو نوجوانوں میں بے روزگاری مزید بڑھ جائے گی۔ نوجوانوں کی زیادہ تعداد بظاہر زحمت نظر آتی ہے۔ تاہم اگر نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ معاشرے کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
 

چین اور سعودی عرب نے پاکستان کو اقتصادی تعاون کی یقین دہانی کرا دی

$
0
0

مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت کے دور میں پاکستان نے سعودی عرب حکومت سے باقاعدہ 5 ارب ڈالر کی درخواست کی تھی تاکہ ادائیگیوں کے بحران پر قابو پایا جا سکے۔ آئندہ وزیر اعظم عمران خان کے بھی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سمیت سعودی قیادت سے رابطے ہوئے ہیں۔ توقع ہے کہ سعودی عرب بحران سے نکلنے کے لیے پاکستان کو مالی تعاون فراہم کرے گا۔ آئی ایم ایف سے رجوع سے بچنے کی آخری کوششوں میں چین اور سعودی عرب نے اسلام آباد کو یقین دہانیاں کرائی ہیں، تاکہ کسی بیل آئوٹ پیکج سے بچا جا سکے۔ لیکن اس سے قبل تحریک انصاف کی آئندہ حکومت کو سیاسی عزم کے ساتھ درستی کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ 

درآمدات میں کمی کے ذریعہ بجٹ خسارہ کم کرنا ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت میں وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسمعیل کے مطابق چین اور سعود ی عرب دونوں سے مالی تعاون کی درخواست کی گئی اور چین نے حالیہ انتخابات کے بعد پاکستان کو دو ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ سعودی عرب سے بھی 5 ارب ڈالرز کی فراہمی کے علاوہ 5 سال کے لیے موخر ادائیگیوں پر تیل فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے اور توقع ہے کہ درپیش بحران سے نمٹنے میں سعودی عرب اپنا پورا تعاون فراہم کرے گا۔ ان کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں تیل درآمد کی مد میں اسلامی ترقیاتی بینک سے 4 ارب 50 کروڑ ڈالرز کی درخواست کی گئی تھی جسے رواں مالی سال یکم جولائی 2018 سے شروع ہونا تھا۔ 

اس وقت چار ارب ڈالرز قرضے کی درخواست نہیں کی گئی تھی۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے سیاسی عزم و حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے سخت اور جرات مندانہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ بڑھتی درآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی لگانی ہو گی۔ چند حساس اشیا، خوردنی سامان اور ادویات کو محصولات سے استثنیٰ اور لگژری اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہونی چاہیے۔ بڑے پیمانے پر درآمدات کی حوصلہ شکنی کے برخلاف برآمدات کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی۔ سرمایہ کاری کے لیے ماحول ساز گار بنایا جائے۔ اول دو ماہ میں انٹر نیشنل بانڈ جاری کئے جائیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق مالیاتی فرق 11 ارب 60 کروڑ ڈالرز کا ہے۔ حکومت درآمدات میں دو ارب سے تین ارب ڈالرزکی کٹوتی کر لیتی ہے تو باقی خسارہ چین اور سعودی عرب کے مالی تعاون سے پورا کیا جا سکتا ہے۔

مہتاب حیدر
 

گوگل کا یوم آزادی پر پاکستانیوں کے لیے تحفہ

$
0
0

گوگل نے پاکستان کے 72 ویں یو م آزادی کے موقع پر پاکستانیوں کے جشن میں حصہ ڈالتے ہوئے اپنا ڈوڈل پاکستانی پرچم کے رنگوں میں رنگ دیا۔ دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل کی ویب سائٹ پر دیکھ جا سکتا ہے کہ ڈوڈل پر سبز ہلالی پرچم پوری آب و تاب کے ساتھ لہراتا نظر آرہا ہے۔ 

گوگل دنیا بھر میں اہم مواقع پرمنفرد قسم کے ڈوڈلز تیار کر کے داد وصول کرتا ہے۔ خیال رہے کہ گوگل 2011 سے پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر پاکستانی عوام کے لیے بھی مختلف ڈوڈل بنا رہا ہے، سرچ انجن نے پہلی مرتبہ 2011 میں چاند ستاروں اور مینار پاکستان سے مزین سبز رنگ کے ڈوڈل سے مبارکباد کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

 

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live