Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

معیشت کی فکر کریں

$
0
0

کسی ملک کی اسٹاک مارکیٹ اس کی معاشی صورت حال کا آئینہ دار ہوتی ہے، اس اصول کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو پاکستان کی معیشت اس وقت غیر معمولی دبائو میں ہے جسے اس مشکل سے نکالنے کے لئے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مندی کی جو شدید لہر آئی ہوئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہماری حکومت، پالیسی ساز ادارے اور ماہرین معیشت سنجیدگی سے اس کے اسباب پر غور کریں اور اقتصادی بحالی کے لئے ٹھوس اقدامات تجویز کریں جنہیں انتخابات کے بعد آنے والی حکومت مزید سوچ بچار کر کے ان پر عملدرآمد کرے۔ سال ڈیڑھ سال پہلے اسٹاک ایکسچینج کا ہنڈرڈ انڈیکس 52 ہزار پوائنٹس کی حد عبور کر گیا تھا جو بعد کے عرصے میں آنے والی مسلسل مندی کے باعث پیر کو 39288 پوائنٹس کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا۔

بازار حصص کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک روز میں ہنڈرڈ انڈیکس میں مجموعی طور پر 996 پوائنٹس کی کمی آئی، کل 12 کروڑ 35 لاکھ حصص کا کاروبار ہوا توانائی، بینکاری اور کیمیکل سیکٹر کی 30 کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، صرف 8 کمپنیوں کے کاروبار میں استحکام رہا جبکہ 288 کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں گر گئیں جس سے سرمایہ کاروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑاحصص کی قیمتوں میں کمی سے کاروبار کی مجموعی مالیت بھی غیر معمولی طور پر کم ہو گئی نقصان سے دو چار ہونے والی کمپنیوں کی اتنی بڑی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ ملک کے معاشی معاملات پر فوری توجہ نہ دی گئی تو آگے چل کر صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے۔ 

ملکی معیشت کے نباض اور مالیاتی ماہرین اسٹاک مارکیٹ میں اس تنزلی کی بڑی وجہ ملک میں غیر یقینی سیاسی صورت حال، سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بلا ثبوت سنگین مالی اور اخلاقی الزامات کی بھرمار، بڑھتا ہوا سیاسی تنائو، کشیدگی اور افراتفری، بعض سیاسی لیڈروں کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات، بعض بینکوں کے صدور دیگر عہدیداروں اور اکائونٹس ہولڈرز کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائی، بعض بروکروں، مقامی میوچل فنڈز، انشورنس کمپنیوں، آرگنائزیشنز اور غیرملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے سیلنگ پریشر بتاتے ہیں جس سے ملکی سرمایہ کاروں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ 

اسٹاک مارکیٹ کی خراب صورت حال کے علاوہ ملکی معیشت پر کئی دوسرے دبائو بھی ہیں جو تسلسل سے میڈیا میں رپورٹ ہوتے رہتے ہیں ان میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر، زرمبادلہ کے ذخائر میں تشویشناک حد تک کمی، درآمدی و برآمدی تجارت میں بڑھتے ہوئے عدم تفاوت کی وجہ سے تجارتی خسارہ جو 14 ارب ڈالر سے بھی بڑھ گیا ہے۔ بیرونی قرضوں میں اضافہ، زرعی شعبے میں ترقی کی مطلوبہ شرح حاصل نہ ہونا۔ سرکاری کمپنیوں اور اداروں کا خسارے میں چلنا، گردشی قرضوں میں اضافہ، کرپشن اور منی لانڈرنگ، چالیس سال سے ایک بھی ڈیم کا نہ بننا اور حکومت کے بڑھتے ہوئے غیر ترقیاتی اخراجات شامل ہیں۔ ان اسباب کی وجہ سے عوام پر ٹیکسوں یوٹیلیٹی بلوں اور مہنگائی کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ 

سابق حکومت کی کوششوں سے بجلی کی پیداوار میں دس ہزار میگاواٹ کا اضافہ تو ہوا اور سسٹم میں 28 ہزار میگاواٹ کی صلاحیت پیدا ہو گئی مگر ٹرانسمیشن لائنوں کا نظام بہتر بنانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ آج بھی جاری ہے اور لوگوں کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے ۔ اس کے باوجود اسٹیٹ بینک کے مطابق پچھلے دس سال میں غربت کی شرح میں کمی ہوئی جو اچھی بات ہے مگر ایک تہائی آبادی اب بھی خط افلاس سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔ ملک کی مجموعی معاشی صورت حال بہتر بنانے کے لئے تمام شعبوں میں بہت کچھ کرنے کی گنجائش ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام لایا جائے طویل و قلیل المدت اقتصادی منصوبے بنائے جائیں۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا جائے اور مہنگائی سمیت عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے۔ اس حوالے سے آئندہ منتخب حکومت کو ٹھوس فیصلے اور انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 


پاکستانیوں کے اربوں روپے سوئٹزرلینڈ اور دبئی میں ہیں

$
0
0

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ لوگ پیسہ لوٹ کر ملک سے باہر لے گئے، جنہوں نے غیر ممالک میں اپنے بینک اکاونٹس ظاہر نہیں کیے ان کا پتہ چلنا چاہیے، پاکستانیوں کےاربوں روپے سوئٹزرلینڈ اور دبئی میں پڑے ہیں، اصل مقصد پیسے کی بیرون ملک منتقلی کو روکنا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پاکستانیوں کے غیر ممالک میں اکاونٹس اور روپے کی بیرون ملک منتقلی کے مقدمے کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت نے حکم دیا تھا کہ بتائیں کتنے لوگوں کے غیر ملکی اکاوئنٹس ہیں؟ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا متحدہ عرب امارات میں 4 ہزار 2 سو 21 افراد کے اثاثے اور اکاوئنٹس ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پیسے کی بیرون ملک منتقلی 1992 میں بنائے گئے کے قانون کے تحت ہوئی ، کچھ لوگ قانونی طریقے سے بھی پیسہ باہر لے کر گئے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو کرپشن اور ٹیکس چوری کا پیسہ باہر لے کر گئے، یہ پیسہ یورپ امریکہ اور کینیڈا بھی لے جایا گیا۔ ڈی جی ایف آئی نے کہا کہ پیسہ واپس لانے کے لئےراستہ نکالنا ہو گا ، ہمارے پاس باہمی قانونی معاونت کا اختیار نہیں، بیرون ملک پیسہ ہنڈی کے ذریعے بھی منتقل ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا پیسہ کو باہر جانے سے روکنے کے لئے طریقہ کار بنانا ہو گا۔ یہ ضروری نہیں کہ ملک سے باہر جانے والے 200 ڈالرز بھی ظاہر کریں، ایسی غیر مناسب پابندی بھی نہیں لگا سکتے، لوگ خریداری کے لئے بھی ملک سے باہر جاتے ہیں، اصل مقصد پیسے کی بیرون ملک منتقلی کو روکنا ہے۔  

 

جعلی اکائونٹس کیس دوبارہ کیوں کھلا ؟

$
0
0

اگر ملک کے ایک سابق اور طاقتور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو جعلی اکائونٹس کے ایشو پر مکمل اندھیرے میں رکھا جاتا ہے حتیٰ کہ جب یہ کیس طاق کی زینت بنا دیا گیا وہ اس سے آگاہ نہ تھے اس سے یہ سنگین سوالات اٹھتے ہیں کہ کن ہدایات پر اس کیس کو 2015 سے التوا میں ڈالا گیا۔ چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ انہیں ایف آئی اے نے کبھی ایسی انکوائری کے بارے میں بتایا اور نہ ہی التوا کے حوالے سے آگاہ کیا ۔ وزارت داخلہ کو ایف آئی اے کی جانب سے انکوائری پر پیشرفت جو باقاعدہ رپورٹس دی جاتی ہے ان میں بھی اس کا کہیں ذکر نہیں۔ 

سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے بارے میں اب یہ انکوائری دوبارہ کھول دی گئی ہے ان کے تمام 29 جعلی اکائونٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ کے الزام میں سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے اپنے وکلا کے ذریعے جواب ایف آئی اے میں داخل کرائے ہیں۔ دسمبر 2017 میں اسٹیٹ بینک نے مشتبہ منتقلیوں کی رپورٹ (ایس ٹی آر) میں 29 جعلی اکائونٹس کا انکشاف کیا تھا جس کے بعد اس کیس کو رواں سال جنوری میں دوبارہ کھول دیا گیا۔ یہ انکوائری مبینہ سیاسی وجوہ کے باعث دو سال تک التوا کا شکار رہی۔ یہ بھی دیکھنا ہے ہو گا کہ خود اسٹیٹ بینک نے اس کیس میں کس حد تک دلچسپی لی اور ان تمام برسوں میں کیا اقدامات اٹھائے؟ 

یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اس انکوائری کے دوبارہ کھولے جانے سے اس کے یکطرفہ ہونے کا تاثر زائل ہو جائے گا۔ اس کا انحصار انکوائری کی رفتار اور اس کے نتائج پر ہو گا۔ ان تمام برسوں کے دوران ایف آئی اے کی انکوائری ایک جعلی اکائونٹ میں پیشرفت سے آگے نہیں بڑھی کیونکہ ایف آئی اے کے مطابق تینوں بینکوں نے مبینہ طور پر تعاون سے انکار کر دیا تھا یا کوئی ریکارڈ ہی حوالے نہیں کیا۔ اب ایک بینکار حسین لوائی کی گرفتاری کے بعد جو آصف زرداری کے بے حد قریب بتائے جاتے ہیں آئندہ ہفتوں میں تحقیقات کے نئے موڑ لئے جانے کا امکان ہے۔ 

آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے نام زرداری لمیٹڈ کے باعث سامنے آئے ہیں اور منتقلی بظاہر کوئی بڑی نہیں ہے لیکن جعلی اکائونٹس کے حوالے سے دیگر کچھ لوگوں کے نام اور کمپنیاں بعد کے مراحل میں ان دونوں کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایف آئی اے کے کچھ متعلقہ افسران پر مزید کارروائی آگے نہ بڑھانے کیلئے دبائو ہے۔ ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس پر خاندان کے ارکان کا بھی دبائو ہے۔ ایک بھائی کو چھوڑ کر پورا خاندان درپہ ہے کہ میں انکوائری سے علیحدہ ہو جائوں کیونکہ اس کے انہیں سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ایک بھائی نے حوصلہ دیا ہے اور وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ماضی میں بھی افسران کو دبائو کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے تبادلے بھی ہوئے۔ 

ایف آئی اے کو اس بات پر خوشی ہو گی اگر چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ ک تین رکنی بنچ پاناما کی طرز پر جے آئی ٹی کی تشکیل دے۔ ان تحقیقات سے متعلق ایف آئی اے کے سینئر حکام نے جے آئی ٹی بنانے کی حمایت کی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ غیر معمولی انکوائری ہے جس میں بڑے نام اور کمپنیاں ملوث ہیں۔ ایسے اسکینڈلز میں گہرائی تک جانے کے لئے خصوصی اختیارات کی ضرورت ہو گی۔ توقع کے عین مطابق پیپلز پارٹی نے دو وجوہ سے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اول چونکہ آصف زرداری اور فریال تالپور کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے۔ دوسرے تین نام انہیں کھلتے ہیں جن میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن، ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی منیر شیخ اور تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نجف مرزا شامل ہیں۔ 

کہا جاتا ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کے مخالفین ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا پیپلز پارٹی جے آئی ٹی بنانے کی بھی مخالفت کرتی ہے یا نہیں۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ مذکورہ تین شخصیات کی مخالفت ضروری کی جائے گی جس کی وجہ سیاسی ہے نہ پیشہ ورانہ بلکہ ذاتی ہے۔ ایف آئی اے نے جنوری 2018 ایس ٹی آر کی روشنی میں تحقیقات دوبارہ کھولی ہے۔ لیکن رفتار سست ہے کیونکہ ایف آئی اے کو نیب جیسے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ دوسری انکوائری میں ملوث بینکوں نے تعاون سے انکار کیا۔ تیسرے کارروائی مزید آگے بڑھانے میں سیاسی رکاوٹیں حائل ہیں۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کس کے زبانی حکم پر تحقیقات کو التوا میں ڈالا گیا۔ خصوصی چوہدری نثار علی خان جیسے طاقتور وزیر داخلہ کی موجودگی میں۔ بڑے نام سامنے آنے کے بعد حتٰی کہ اسٹیٹ بینک نے بھی دو سال قبل کارروائی آگے نہیں بڑھائی اور معاملہ التوا میں ڈال دیا۔

ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملہ التوا میں ڈالنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جائیداد اور دیگر کاروبار میں ملوث نامی گرامی شخصیات کے نام موجود تھے۔ یہ کیس ایسے وقت دوبارہ کھولا گیا ہے جب سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو احتساب عدالت سے سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ گزشتہ برسوں میں سیاست اور جرائم کے گٹھ جوڑ کے سنگین الزامات لگے۔ لیکن کراچی آپریشن کے نتیجے میں ایسے کچھ کیسز بھی سامنے آئے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی موجودگی میں اپیکس کمیٹی اجلاسوں میں نرم لفظوں میں خبردار بھی کیا جاتا رہا۔ اس کے بعد فشریز کوآپریٹو سوسائٹی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، کے ڈی اے اور دیگر محکموں میں گرفتاریاں ہوئیں۔ 

ایک صف اول کے منی چینجر گروپ کے مالک کو بھی پکڑا گیا۔ ان تمام تحقیقات کے دوران جعلی اکائونٹس کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ جس کی اسٹیٹ بینک نے اپنی ایس ٹی آر میں تصدیق کی۔ اب اگر سپریم کورٹ ان جعلی اکائونٹس کی تہہ تک پہنچنے کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دیتی ہے تو اربوں کی منتقلیوں کا کھوج لگایا جا سکتا ہے۔ چوہدری نثارعلی خان نے اپنی وزارت داخلہ کے دور میں کراچی آپریشن کو دہشتگردی کے تدارک سے لے کر منی لانڈرنگ کی تحقیقات تک وسعت دینے کی اجازت دی تھی۔ لیکن 2015 میں کارروائی شروع کئے جانے کے بعد ایف آئی اے نے پراصرار طورپر معاملہ التواء میں ڈال دیا۔ 

انتہائی مشکوک معاملہ یہ تھا کہ کچھ کھاتے کھلے اور چند ماہ میں بند بھی کر دیئے گئے۔ آصف زرداری اور فریال تالپور کے نام اس طرح سامنے آئے کہ ایک منتقلی زرداری لمیٹڈ کے نام سے ہوئی۔ جب ایک جعلی اکائونٹ کے ریکارڈ کی چھان بین کی گئی تو ایسے دیگر کو اربوں کا حساب دینا ہے جے آئی ٹی بنائے جانے کا امکان موجود ہے کیونکہ پیپلزپارٹی نے پہلے ہی ایف آئی اے کے مذکورہ تین افسران پر اعتراضات کئے ہیں۔ اب انتخابات میں 15 دن رہ گئے ہیں۔ ان تحقیقات کا حتمی نتیجہ سندھ میں کئی حکومت کی تشکیل تک آ نہیں سکتا۔ لیکن سپریم کورٹ کےنظر رکھنے کی صورت میں جعلی اکائونٹس کیس کا حتمی نتیجہ ہم دیکھ سکیں گے۔

مظہر عباس

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

الیکشن، فوج، جیپ اور کالعدم تنظیمیں

$
0
0

سید مردان شاہ پیر پگارا نے 1980 کی دہائی میں کہا تھا کہ پاکستان کے انتخابات میں فرشتے بعض جماعتوں کو ووٹ ڈال جاتے ہیں۔ اس طرح غالبا پہلی بار کسی نے الیکشن میں فوج کے کردار کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام اور اصغر خان کیس سے یہ بات مزید واضح ہوئی۔ پھر ہر الیکشن کے موقع پر ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ الزام لگایا جاتا رہا۔ اس بار ڈھکا چھپا کچھ نہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کھل کر فوج پر انتخابات میں دخل اندازی کے الزامات لگائے ہیں بلکہ بعض فوجی افسروں کے نام بھی لیے جارہے ہیں۔ ان الزامات میں اس قدر شدت آئی کہ افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کو پریس کانفرنس کر کے ان کی تردید کرنا پڑی۔

فوج پر کیا الزامات لگائے جارہے ہیں اور ترجمان نے ان کے کیا جوابات دیے، یہ ذیل میں دیکھا جا سکتا ہے۔

الزام: فوج عام انتخابات پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: فوج انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن کو تعاون فراہم کرے گی۔ عام انتخابات میں فوج کا کوئی براہ راست کردار نہیں۔ الیکشن کمیشن نے ہمیں سیکورٹی سے متعلق کچھ ذمے داریاں دی ہیں۔ بیلٹ پیپرز گننا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

الزام: فوج قبل از انتخابات دھاندلی کر رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: ملک کی تاریخ میں ایسا کوئی الیکشن نہیں ہوا جس میں دھاندلی کے الزامات نہ لگائے گئے ہوں۔ ہم کیسے ساڑھے دس کروڑ افراد سے کہہ سکتے ہیں کہ کس کو ووٹ دیں؟ ہم کیسے ساڑھے تین لاکھ فوجیوں کو خفیہ ہدایت دے سکتے ہیں کہ کیا کرنا ہے؟

الزام: فوج بعض سیاسی جماعتوں کی مدد کر رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: ہماری کوئی پسندیدہ سیاسی جماعت نہیں۔ عوام کو جو پارٹی اور لیڈر پسند ہے، وہ اسے کسی خوف کے بغیر ووٹ ڈالیں۔ عوام کے ووٹوں سے جو وزیراعظم آئے گا، ہمیں قبول ہو گا۔

الزام: فوج نے انتخابی امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کروائیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: ہر الیکشن سے پہلے انتخابی امیدوار وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہوا ہے اور اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ فوج کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

الزام: آئی ایس آئی نے ملتان میں انتخابی امیدوار پر پارٹی بدلنے کے لیے دباؤ ڈالا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: اس معاملے میں آئی ایس آئی کا کوئی کردار نہیں۔ محکمہ زراعت سے معلوم کریں کہ وہ ایک سال سے اس شخص کے خلاف کارروائی کر رہا تھا یا نہیں۔ یہ رنگ دینا ٹھیک نہیں کہ الیکشن کی وجہ سے ایسا ہوا۔

الزام: جیپ کے انتخابی نشان والے امیدواروں کو فوج کی حمایت حاصل ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: انتخابی نشانات فوج یا آئی ایس آئی جاری نہیں کرتی۔ یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ انتخابی نشان والی جیپ فوج کی نہیں۔ اس قسم کی جیپیں انتخابی امیدواروں کے پاس ہیں۔

الزام: کالعدم تنظیمیں فوج کی رضامندی سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: کسی کے الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ فوج نہیں کرتی۔ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو قانون کے مطابق رجسٹر کیا جاتا ہے۔ اگر کسی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ہے تو ایسا قانون کے مطابق ہوا ہو گا۔

الزام: فوج سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: ہم سوشل میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتے اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔ جب کوئی حدود پار کرتا ہے تب کارروائی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے اچھا کام کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر جو کام ملک کے خلاف ہو گا، اسے نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔

مبشر علی زیدی

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

پاکستان اپنی معاشی مشکلات پر قابو پا لے گا : چین

$
0
0

چین نے پاکستان کے قرضوں میں اضافوں اور بیرونی ادائیگیوں کےتوازن کے چیلنج کے پیش نظر چین پاکستان اقتصادی راہداری 'سی پیک'کے منصوبوں کے متاثر ہونے کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ پاکستان اپنی معیشت کو درپیش عارضی مشکلات پر قابو پا لے گا۔ ذرائع ابلاغ میں پاکستان عہدیداروں کے حوالے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق پاکستان کو قرضوں کے بوجھ میں نمایاں اضافے اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کا سامنا ہے، جس سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ چین پاکستان کو قرضہ فراہم کر سکتا ہے، بصورت دیگر پاکستان کو ایک بار پھر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ'آئی ایم ایف 'سے سے رجوع کرنا ہو گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو چین پاکستان راہداری کے بعض منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔

چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان خوا چن ینگ نے کہا کہ یہ رپورٹس حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔ پاکستان کی وزیر خزانہ شمشاد اختر نے اس بات کی وضاحت ایک بیان کی ذریعے کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد، چین پاکستان اقتصادی راہدری کے منصوبوں کو ثابت قدمی سے آگے بڑھائے گا۔ چینی وزارت خاجہ کی ترجمان کا کہنا ہے کہ چین کی پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پر نظر ہے تاہم حالیہ برسوں میں سی پیک نے پاکستان کے نسبتاً بلند شرح نمو کو برقرار رکھنے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا ہے کہ قرضہ ترقی پذیر معیشتوں کے لیے ایک حققیقت ہے اور ان کے بقول پاکستان سے متثنیٰ نہیں ہے۔

حال ہی میں وزیر خزانہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کو اپنی اقتصادی کی شرح نمو کو بلند سطح پر برقرار رکھنے اور ملک کے سماجی شعبے کی ترقی لیے اپنے بنیادی ڈھانچے کو وسعت دینا ضروری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے کل قرضے ملک کی مجموعی پیدوار کے 70 فیصد سے تجاوز کر گئے ہیں اور پاکستان نے قرضوں کو کم کرنے کے ایک پروگرام وضح کر رکھا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر حال ہی میں تجارتی اور معاشی امور سے متعلق غیر سرکاری ادارے پاکستان بزنس اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور غیر ملکی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر کرنے کے لیے اسے ایک بار پھر عالمی مالیاتی فنڈ 'آئی ایم ایف'سے رجوع کرنا پڑے گا۔

بزنس کونسل نے عام انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کے پہلے 100 دنوں کے لیے اقتصادی ڈھانچہ تجویز کرتے ہوئے کہا تھا کہ مختصر مدت کے لیے کئی اقدمات کیے جا سکتے ہیں جن میں دوست ممالک سے قرضے اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم شامل ہیں۔ تاہم ان کے بقول یہ کافی نہیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معاشی ڈھانچے میں پائیدار بنیادوں پر اصلاحات کی عمل کو شروع کرنا بھی ضروری ہو گا۔
 

گوگل پر کبھی ان چیزوں کو سرچ مت کریں

$
0
0

ویسے تو دیکھا جائے تو انٹرنیٹ کی دنیا گوگل کے بغیر ویران ہے۔ خودکار گاڑیوں سے لے کر ورچوئل رئیلٹی ہیڈ سیٹ اور اسمارٹ کانٹیکٹ لینسز تک گوگل کے متعدد پراجیکٹس ہیں مگر اس کی اصل پہچان سرچ انجن ہی ہے۔ اور سب ہی گوگل پر روزانہ کچھ نہ کچھ سرچ کرتے ہیں، تاہم کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں گوگل کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

ایسی چیزیں جن کے اشتہار بعد میں دیکھنا پسند آئیں
ہوسکتا ہے کہ آپ گوگل پر کسی وجہ سے ڈائپر ریش کے علاج کو تلاش کرنے کی کوشش کریں اور اگر ایسا ہی کچھ کرتے ہیں تو پھر آپ کو متعدد اشتہارات کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ ہر بار جب بھی آپ کوئی ویب پیج اوپن کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ آپ کی مطلوبہ سرچ سے متعلق اشتہار آپ کے سامنے آجائے۔

کسی قسم کے جرائم سے متعلق
یہ کافی سنگین بھی ہو سکتا ہے، جیسے آپ گوگل پر سرچ کریں کہ کوئی ہتھیار کیسے بنایا جاتا ہے وغیرہ، چاہے ایسا تفریح کے لیے ہی کیوں نہ کیا گیا ہو، مگر مختلف ممالک میں سیکیورٹی ادارے اس طرح کی سرچز کو ہمیشہ ٹریک کرتے ہیں، اور آپ کا آئی پی ایڈریس ان کے ڈیٹابیس میں جا سکتا ہے۔

اپنے مرض کی علامات
پہلی بات تو یہ ہے کہ جب طبی مسائل کا سامنا ہو تو اس کے لیے متعدد ویب سائٹس ایسی موجود ہیں، جہاں اس حوالے سے بہترین مواد دستیاب ہوتا ہے، مگر اپنے مرض کی علامات کو انٹرنیٹ پر سرچ کرنا ذہنی طور پر دھچکا پہنچا سکتا ہے، بلکہ بدترین اور بے چینی کا شکار کر سکتا ہے، تو اگر کوئی طبی مسئلہ ہو تو ڈاکٹر گوگل سے رجوع نہ کریں بلکہ کسی ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں۔

جلد کے مسائل
اگر چہرے پر کوئی دانہ یا دھبہ ہو تو گوگل نہ کریں۔ ایسا کرنے پر آپ کے سامنے اتنی زیادہ معلومات اور تصاویر آجائیں گی جو کہ ہلا کر رکھ دیں گی۔ ویسے تو عام طور پر دانے کچھ دن میں خود ٹھیک ہو سکتے ہیں، تاہم پھر بھی پریشانی ہے تو کسی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

ٹرانسلیشن
کتنی بار آپ کو انگلش کے اردو ترجمے کے لیے گوگل سے رجوع کرنا پڑا ؟ ایسا کرنے کی کوشش کرنی بھی نہیں چاہئے کیونکہ گوگل سے جو ترجمہ آپ کے سامنے آئے گا وہ شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ جملے کا مطلب کچھ سے کچھ ہو جائے۔

کھٹمل
یہ ننھے کیڑے یقیناً رات کی نیند خراب کر سکتے ہیں، تاہم اگر آپ ویسے ہی اس بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ کیڑے کیسے پھیلتے ہیں تو ایسا نہ کریں کیونکہ ان کی تصاویر نیند اڑا دیں گی۔

تمباکو نوش افراد کے پھیپھڑے
ہم میں سے بیشتر افراد تمباکو نوشی کے عادی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اکثر وہ اس عادت کے مضر اثرات کے بارے میں سوچتے بھی ہوں، انٹرنیٹ تمباکو نوشی کے عادی افراد کے بیمار پھیپھڑوں کی تصاویر سے بھرا ہوا ہے، جو کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو بہت زیادہ پریشان کر دیں۔

اپنا نام
یہ کوئی راز نہیں کہ انٹرنیٹ کے اس عہد میں پرائیویسی نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی، اگر آپ اپنے نام کو گوگل کریں گے تو بہت زیادہ امکان ہے کہ کچھ ناخوشگوار نتائج کا سامنا ہو جائے، آپ کی چند بری تصاویر، ماضی کی معلومات، غیر مناسب مواد وغیرہ، چونکہ وہ مواد یا تصاویر ڈیلیٹ کرنا آپ کے لیے ممکن نہیں تو اپنے نام سے سرچ کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے۔
 

چندہ برائے ڈیم، مگر ڈیم چندوں سے نہیں بنتے

$
0
0

پاکستان میں پانی کی قلت پر چیف جسٹس پاکستان کی حساسیت قابل ستائش ہے مگر نہایت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ اس طرح انفراسٹرکچر کی مالی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں۔ آپ لوگوں کے چندے سے ڈیم نہیں بنا سکتے۔ بلکہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ایسا کہنا باعثِ شرمساری ہے۔ دیامیر بھاشا ڈیم کی فنڈنگ، جس کا تخمینہ 1 اعشاریہ 450 کھرب روپے لگایا گیا، کے لیے رضاکارانہ طور پر اکٹھا کیے گئے چندے کو جب استعمال کرنے کی کوشش کی جائے گی تو جو سوالات کھڑے ہوں گے ان پر ذرا غور کیجیے۔ مذکورہ تخمینہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات کو دی گئی پانی و بجلی کے افسران کی بریفننگ سے لیا گیا ہے۔ آبی ذخائر کی تعمیر کا تخمینہ 650 ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ بقیہ رقم بجلی کے ٹربائن اور متعلقہ انفراسٹرکچر، زمین کے حصول اور متاثرین کی آبادکاری کو مدنظر رکھتے ہوئے شامل کی گئی۔

آئیے ان اندازوں کا تھوڑا حساب کتاب کرتے ہیں۔ تاوقت تحریر، اس اکاؤنٹ میں اب تک 3 کروڑ 20 لاکھ روپے ڈالے جا چکے ہیں۔ اب چونکہ اکاؤنٹ کو 6 جولائی کو کھولا گیا تو چلیے فرض کرتے ہیں کہ اکاؤنٹ کو کھلے 3 دن ہوئے ہیں؛ اس حساب سے فی دن اکاؤنٹ میں 1 کروڑ روپے ڈالے گئے۔ اب یہ فرض کرتے ہیں کہ اس فی دن کے حساب میں رقم میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ (منگل کے روز ہونے والے اجلاس میں) بینک ملازمین سے پیسے لے کر فنڈنگ میں اضافہ کرنے کے لیے بینکوں پر بن کہے دباؤ ڈالا گیا ہے۔ یہ چندہ کس طرح کا ’رضاکارانہ‘ ہو گا، یہ ایک الگ بحث ہے۔ چلیے فرض کرتے ہیں کہ (اگر بہت ہی زیادہ امیدیں باندھی جائیں تو) فی دن اکاؤنٹ میں 2 کروڑ منتقل ہوتے ہیں ، تو ہدف تک پہنچنے کے لیے 72 ہزار 500 دن یا 199 برس درکار ہوں گے۔

چند لوگ یہاں ہماری بات کاٹتے ہوئے کہیں گے کہ بھئی کام شروع کرنے کے لیے کُل رقم کی ضرورت تھوڑی ہو گی! اچھا تو پھر ایک دوسرے زاویے سے غور کیجیے۔ منصوبہ بندی کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب پبلک سیکٹر ڈولپمنٹ پروگرام کے دستاویز کے مطابق اگلے برس کے لیے اس منصوبے میں شامل ڈیم کے ایک حصے کی خالی تعمیر کے لیے ہی 23 اعشاریہ 68 ارب روپے مختص کیے گئے۔ چلیے اب حساب کتاب کرتے ہیں۔ 2 کروڑ فی دن کے حساب سے 23 اعشاریہ 68 ارب کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے 1184 دن یا 3 اعشاریہ 2 برس درکار ہوں گے۔ مطلب یہ کہ اگلے برس کی پی ایس ڈی پی کی اگلے سال کے لیے مختص کردہ رقم کے برابر پیسے حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

ہم ان مفروضوں کو بدل بھی سکتے ہیں۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ چندہ میرے اندازوں سے بہت زیادہ (بہت ہی زیادہ سخاوت کے ساتھ) دیا جاتا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ رقم دگنی ہو جاتی ہے۔ یوں پھر عرصہ بھی نصف درکار ہو گا یعنی فقط اگلے برس کے ہدف کو پہنچے کے لیے بھی ڈیڑھ سال سے زائد وقت درکار ہو گا۔فرض کریں کہ چندے کا مقصد پورے ڈیم کی قیمت کی ادائیگی کے بجائے حکومت کے منصوبے کے لیے مختص کردہ رقوم میں محض اضافہ کرنا ہو۔ اس کے بعد بھی، (فرض کیجیے اگر فی دن 2 کروڑ چندہ دیا جاتا ہے تو) سالانہ 7 اعشاریہ 3 ارب روپے اکٹھا ہوں گے، یہ رقم منصوبے میں شامل دوبارہ آباد کاری کے عمل پر آنے والی لاگت کو بھی پورا کرنے کے لیے ناکافی ہو گی۔ عوام سے مالی امداد مانگنا مذاق کی بات نہیں، ریاست خیرات پر نہیں چلتی، اور بنیادی ڈھانچوں پر آنے والی رقم کو اس طرح لوگوں سے چندہ مانگ کر اکٹھا نہیں کیا جاتا۔ دھیان رہے کہ یہاں پر فرض کیے گئے حساب کتاب کے مطابق سالہا سال تک یومیہ دو کروڑ روپے کے عطیات ہر روز کی ضرورت ہو گی۔ ان عطیات کے پیچھے موجود جوش و جذبہ کب تک برقرار رہے گا ؟ ہفتوں تک ؟ مہینوں تک ؟

کسی مقصد کے لیے لوگوں کو ان کی محنت سے کمائے ہوئے پیسوں میں سے چندہ دینے کے لیے کہا جائے تو اس سے پہلے لوگ چند بنیادی سوالات پوچھنے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ پیسہ کس چیز کے لیے استمعال ہو گا ؟ اکٹھا کی گئی مجموعی رقم کو کس طرح استعمال کرنا ہے اس کا اختیار کسے ہو گا ؟ رقم کی تقسیم کن اصولوں کے تحت کی جائے گی؟ میری دی ہوئی رقم کس حد تک اثر انداز ہو گی؟ غالباً پہلے ان سوالوں کا جواب دیا جانا چاہیے۔ مثلاً کیا اکاؤنٹ سے رقم سیدھا اس جگہ منتقل کی جائے گی جہاں لاگت آنے ہے یا پھر اسے واپڈ، واٹر اینڈ پاور ڈویژن، یا وزارت خزانہ کو دے دی جائے گی؟ اگر رقم کو سیدھا اسی جگہ منتقل کیا جاتا ہے جہاں رقم مطلوب ہے، تو پھر ایک اور مثال ملاحضہ فرمائیں۔

یہ تجویز لینے کے لیے کہ خطے میں بڑی سطح پر بدلتے ہوئے درجہ حرارت کو مدنظر رکھتے ہوئے کون سا سیمنٹ استعمال کیا جائے اور ڈیم کا ڈھانچہ ایک سال میں کتنا پھیلے گا اور کتنا سکڑے گا، اس لحاظ سے مناسب کنکریٹ کا انتخاب اہم ہے، لہٰذا اس حوالے سے تجویز حاصل کرنے کی غرض سے کسی تکنیکی کنسلٹنٹ کو مقرر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون سا کنسلٹنٹ اس کام کے لیے بہتر ہے؟ کنسلٹنٹ کے انتخاب کا معیار کیا ہو گا ؟ اس قسم کے بڑے بڑے منصوبوں میں ایسے ہزاروں فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ اکٹھا کی گئی رقم کس طریقہ کار یا اصولوں کے تحت منتقل کی جائے گی۔ اگر رقم کو واپڈا کے ہاتھوں میں دینے کا منصوبہ ہے تو یہ نگرانی کون کرے گا کہ یہ پیسہ صحیح انداز میں خرچ کیا جا رہا ہے؟ وہ شخص اس قسم کے بڑی سطح کے غیر معمولی تکنیکی منصوبوں پر عملی کام کروانے کا کس حد تک تجربہ اور قابلیت رکھتا ہے؟

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ جب ایک بڑے ہی سنجیدہ معاملے کو مذاق بنا دیا گیا ہے۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد پرویز مشرف نے بھی اسی قسم کے ایک فنڈ کا اعلان کیا تھا جسے پریزیڈنٹ رلیف فنڈ کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے آغاز کے ساتھ لوگوں سے پیسے نکوالنے کے لیے اسی طرح خاموشی کے ساتھ دباؤ ڈالنے کے طریقے اپنائے گئے، اور ایک ایک کر کے مختلف کمپنیاں یہ کہہ کر قطار میں کھڑی ہو گئیں، ’امداد دینے میں ہمیں خوشی ہو گی’۔ یوں ایک جگہ سے دس لاکھ دوسری جگہ سے 20 لاکھ ملنے لگے، یہ سلسلہ اس وقت تک ہی جاری رہ سکا جب تک کہ لوگوں کی اس میں دلچسپی ختم نہیں ہو گئی اور سب بھول نہیں گئے۔ اسی طرح 90ء کی دہائی میں امدادی رقم سے غیرملکی قرضہ اتارنے کے مقصد سے نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ’قرض اتارو ملک سنوارو‘ نامی اسکیم شروع کی تھی۔ یہ اسکیم بھی شرمندگی کے ساتھ انجام کو پہنچی۔

مجھے ایسی ہی ایک دوسری اسکیم بھی یاد ہے جو ذوالفقار علی بھٹو اپنے آخری سال میں شروع کی تھی۔ ان دنوں ٹی وی پر اشتہارات نشر کیے جاتے جن میں عوام کو کہا جاتا کہ وہ ہر روز ایک روپیہ کی امداد دیں، ان اشتہارات میں رقم کو ترقیاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا وعدہ بھی کیا جاتا تھا۔ اشتہار میں ’ترقی‘ کو سیمنٹ کی لفٹ سے ظاہر کیا جاتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دور حاضر میں عوامی پیسے کو اس طرح استعمال نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر بات جب بنیادی ڈھانچے کے لیے مطلوب پیسے کی ہو۔ یہ وقت ہے کہ ہم عقلمندی سے کام لیں اور حقیقت کا سامنا کریں: جب تک ہم واٹر پرائسنگ کے نظام کو ٹھیک کرنے کے علاوہ اس بحران سے باہر نکلنے کا اور کوئی راستہ نہیں۔

خرم حسین
یہ مضمون 12 جولائی 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
 

نواز شریف کی وطن واپسی

$
0
0

پاکستان کے سابق وزیرِاعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز رات گئے لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے.


نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز ابوظہبی ایئر پورٹ پر سات گھنٹے سے زائد قیام کیا اور اس کے بعد لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔

لندن میں مریم نواز کے ہمراہ ایک پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ 'میری سیاسی پناہ لینے کی خبریں دینے والے سن لیں، میں واپس پاکستان آ رہا ہوں۔'






مستوںگ : المناک دھماکہ، پیاروں کی ہلاکت پر ماحول ماتم کناں

$
0
0

دھماکہ جمعے کی دوپہر مستونگ کے علاقے درینگڑھ میں بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی بی 32 سے امیدوار نواب زادہ سراج رئیسانی کی ایک کارنر میٹنگ کے دوران ہوا تھا۔ درینگڑھ کوئٹہ سے ایران کی طرف جاتے ہوئے تقریباً 38 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔








Who was Nawab Siraj Raisani?

$
0
0
Siraj Raisani was born on April 4, 1963 in Mehrgarh area of Bolan district. He completed his initial education from Bolan, later obtaining a BS in Agronomy from Agriculture University Tando Jam. He also studied a course in floriculture from an academic institute in Holland.Raisani’s father, Late Nawab Ghaus Baksh Raisani was former Balochistan Governor and former federal minister food and agriculture, he also founded Balochistan Muttahida Mahaz in 1970. The deceased was the youngest brother of former Balochistan chief minister Nawab Aslam Raisani and former Senator Nawabzada Lashkari Raisani. The martyred was recently elected as the chairperson of Balochistan Muttahida Mahaz and merged his party with the Balochistan Awami Party on June 3. He was scheduled to contest for PP-35 (Mastung). Raisani lost his son Akmal Raisani in a bomb blast at Mastung in July 2011.  

جو سامنے ہے وہ تو دے دو

$
0
0

پاکستان ان چند ممالک میں ہے جہاں کے باشندے اپنے ہی ملک کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں یا یوں کہئے کہ انھیں وہ بتایا ہی نہیں جاتا جسے جاننا ان کا بنیادی حق ہے۔ اس نہ بتانے کے پیچھے یہ سوچ ہے کہ اگر ہر کس و ناکس جان گیا کہ پاکستان یہ کچھ ہے تو پھر یہ سوال اٹھے گا ہم کون ہیں۔ تم کون ہو اور یہ سب ایسا کیوں ہے ویسا کیوں نہیں۔ چنانچہ پچھلے ستر برس سے کوشش یہی ہے کہ پاکستانیوں کو ایک مخصوص معلوماتی ڈائٹ پلان پر ہی رکھا جائے۔ اور انھیں یہی بتایا جائے کہ آسمان بس اتنا ہی بڑا ہے جتنا کنوئیں کے اندر سے دکھائی دیتا ہے۔

دنیا میں پاکستان رقبے کے اعتبار سے چونتیسواں، آبادی کے اعتبار سے چھٹا بڑا ملک اور آٹھویں علانیہ جوہری طاقت ہے۔ پاکستان سمیت صرف پینتیس ممالک کے ہاں گلیشئیر کی شکل میں پانی محفوظ ہے۔ دس بڑے گلیشئیروں میں سے ایک ( بیافو ) پاکستان میں ہے۔ دنیا کے بیالیس ممالک کے پاس ساحل ہی نہیں جب کہ پاکستان کے پاس لگ بھگ سوا آٹھ سو کلومیٹر کی بحری پٹی ہے۔ دنیا کے سترہ ممالک میں دریا ہی نہیں اور پاکستان میں دنیا کے بائیسویں طویل دریا ( انڈس ) ایک سو تین ویں ( ستلج ) اور ایک سو باون ویں بڑے دریا ( چناب ) سمیت کوئی ایسا صوبہ یا زیرِ انتظام علاقہ نہیں جو دریا سے محروم ہو۔ جنوبی ایشیا جہاں دنیا کی پچیس فیصد آبادی رہتی ہے وہاں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل  منچھر سمیت پاکستان کے پاس انتالیس قدرتی اور آٹھ انسانی جھیلیں ہیں۔ سب سے بڑا مصنوعی آبپاشی کا نہری نظام پاکستان میں ہے۔

اس کرہِ ارض کے بائیس ممالک کے باسیوں نے پہاڑ اگر دیکھا بھی ہو گا تو تصاویر میں دیکھا ہو گا مگر پاکستان میں نہ صرف دوسری (کے ٹو) اور نویں بلند چوٹی (نانگا پربت) ہے بلکہ یہ اکیلا ملک ہے جہاں دس عظیم پہاڑی سلسلوں میں سے تین پہاڑی سلسلے ( ہمالیہ ، قراقرم ، ہندوکش ) ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ یورپ صحراؤں سے خالی براعظم ہے اور دنیا کا بیسواں بڑا صحرا       (تھر تا چولستان ) پاکستان میں ہے۔ سترہ ممالک کے باشندوں نے ریل ہی نہیں دیکھی اور پاکستان کے ہاں ستائیسواں بڑا عالمی ریلوے نیٹ ورک ہے۔

اب آئیے مٹی کی زرخیزی کی جانب۔ پاکستان گنے کی پیداوار کے لحاظ سے پانچواں اور چینی کی برآمد کے حساب سے نواں بڑا ملک ہے۔ گندم کی پیداوار میں پاکستان دنیا میں آٹھویں درجے پے ہے۔ چاول کی برآمد کے اعتبار سے تھائی لینڈ اور ویتنام کے بعد تیسرے نمبر پر اور باسمتی کی پیداوار کے حساب سے پہلے نمبر پر ہے (بھارت دوسرے نمبر پر ہے )۔ پیاز کی فصل کے اعتبار سے چین، بھارت اور امریکا کے بعد پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ گرم مصالحوں کی برآمدی فہرست میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ چنے کی پیداوار میں پاکستان بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ دالوں کی پیداوار کے حساب سے پاکستان کی عالمی رینکنگ بیسویں ہے۔ کھجوروں کی پیداواری فہرست میں پاکستان چھٹا اور آم کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔

دریائی و زرعی ملک ہونے کے سبب یہاں مویشی بھی باافراط ہیں۔ اس کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں سالانہ چونتیس ملین ٹن دودھ کی پیداوار ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان بھارت ، امریکا اور چین کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔ البتہ ڈیری مصنوعات بنانے والے بیس بڑے ممالک میں پاکستان شامل نہیں۔ بکریوں کی تعداد کے اعتبار سے چین اور بھارت کے بعد پاکستان تیسرا اور مٹن برآمد کرنے والے ممالک میں بارہویں نمبر پر ہے۔ اونٹوں کی تعداد کے لحاظ سے یہ چھٹا بڑا ملک ہے۔ مگر یہ سب بتانے کا مقصد کیا ہے جب ان نعمتوں سے سب سے کم فائدہ اگر کسی کو پہنچ رہا ہے تو وہ عام پاکستانی ہے۔ ایک عالمی ادارے ووکس نے بائیس ممالک میں خوراک پر فی کس اخراجات کا جو عالمی جدول جاری کیا اس کے مطابق ایک عام جنوبی افریقی خاندان ہر روز اپنی بنیادی غذائی ضروریات پوری کرنے پر سو روپے کی آمدنی میں سے بیس روپے، ایک بھارتی خاندان پچیس روپے، ایک نائجیریائی خاندان ساڑھے انتالیس روپے خرچ کرتا ہے مگر پاکستان میں ایک خاندان اگر سو روپے روز کماتا ہے تو اس میں سے لگ بھگ سینتالیس روپے خوراک پر خرچ ہو جاتے ہیں۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایک سابق ڈائریکٹر برائے پاکستان ولف گینگ ہاربنگر کے بقول پاکستان میں گندم کی سب سے بڑی خریدار حکومت ہے۔ گندم کی پیداوار اس قدر ہے کہ ملکی ضروریات کے لیے ذخیرہ کرنے کے بعد بھی بیرونِ ملک برآمد ہوتی ہے۔ لیکن پاکستانیوں کو پانچ برس پہلے کے مقابلے میں آٹا تگنی قیمت پر مل رہا ہے۔ اس عرصے میں ملک کو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرنے والے صوبہ سندھ میں ناکافی غذائیت کم تو خیر کیا ہوتی اکیس سے بڑھ کے تئیس فیصد ہو گئی۔ یہ انہونی بھی ہو رہی ہے کہ کئی خاندانوں کو خوراک خریدنے کے لیے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے۔ 

مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ ملاح کا حقہ سوکھا کیوں ہے ، چراغ تلے اندھیرا کیوں ہے۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ الزام حکومت کی ترجیحات پر منڈھا جائے یا یہ کہہ کے جان چھڑا لی جائے کہ یہ سب تو ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ کوئی الہ دین کا چراغ تو ہے نہیں کہ راتوں رات سب کا پیٹ بھر دیں۔ مگر اے میرے منشور بازو اور مقدس گائیو ! تعلیم گئی بھاڑ میں ، صحت گئی جہنم میں ، روزگار کی بکواس رکھو اپنے پاس۔ جو پاکستان کی زمین بفضلِ خدا پیدا کر رہی ہے اگر وہی پیدا کاروں میں تقسیم کرنے کا نظام نہیں تو باقی کا کیا کروں؟ اسلحہ برائے امن کی نمائشیں سرآنکھوں پے۔ خوراک برائے امن کی نمائش کب ہو گی ؟؟؟

ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم

چبا لیں خود ہی کیوں نہ اپنا ڈھانچہ
تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم

(جون ایلیا)

 وسعت اللہ خان
 

بلوچستان : پاکستان کا وسیع ترین حلقہ، جہاں وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں

$
0
0

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا علاقہ قلات، کالا کولو سیب کے حوالے سے مشہور ہے اور یہاں کے باغات میں یہ سیب آئندہ 20 روز میں تیار ہو جائیں گے لیکن پانی کی عدم دستیابی نے سیبوں کی افزائش کو متاثر کیا ہے۔ بجلی کی عدم دستیابی کے باعث جنریٹر چند گھنٹے ہی چل پائے ہیں اور نتیجے میں سیبوں کا سائز کم ہو گیا ہے، اس صورتحال نے باغ کے مالک محمد اقبال کو پریشان کر رکھا ہے۔ سیاسی گہما گمی سے دور اس علاقے میں لوگ اپنے سیبوں کے لیے زیادہ فکرمند ہیں انھیں اس بات کی پریشانی نہیں کہ کس کو ووٹ دیں۔ اس رویے کی ایک وجہ شاید امیدواروں کا یہاں نہ آنا بھی ہے۔

محمد اقبال کا کہنا ہے کہ یہ امیدوار جو بڑے لوگ ہیں ان کے پاس جاتے ہیں جو غریب ہیں، اس کو ایسے ہی میدان میں چھوڑ دیتے ہیں یعنی اگر کام ہو جائے تو بھی اگر نہ ہو پھر بھی ہی ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ قومی اسمبلی کا حلقہ 267 تقریباً 500 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، ایک طرف یہ ضلع کوئٹہ تو دوسری طرف یہ خضدار ضلع سے جا ملتا ہے، اس میں مستونگ، قلات اور سکندر آباد اضلاع شامل ہیں جس نے اسے رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا ایک وسیع ترین حلقہ بنا رکھا ہے۔

قلات سے تقریباً 120 کلومیٹر دور مستونگ کے ایک قصبے میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے قومی اسمبلی کے امیدوار منظور بلوچ اپنی مہم میں مصروف ہیں۔ ملک کے دیگر علاقوں کے برعکس انھیں کم وقت اور کم اخراجات میں پانچ سو کلومیٹر پر مہم چلانی ہے اور مقررہ اخراجات صرف 40 لاکھ روپے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ الیکشن کمیشن کے جو ضابطہ اخلاق ہے اس کی پیروی کریں لیکن یہ بھی حقیقت ہے ان تین اضلاع میں اگر الیکشن کمیشن کی مقررہ رقم سے تین گنا زیادہ خرچ کریں پھر بھی اپنے ووٹر تک نہیں پہنچے سکتے۔ اسی لیے بلوچستان میں ٹرن آؤٹ کم ہوتا ہے کیونکہ لوگوں کو شعور نہیں ہے کہ وہ خود آ جائیں اس کے لیے امیدوار کو جانا پڑتا ہے، اس صورتحال میں یہاں کہ امیدوار کے لیے زیادہ چیلنج ہے۔

بلوچستان میں بجلی کی فراہمی بڑے شہروں تک محدود ہے، جس کی وجہ سے ٹی وی چینلز اور اخبارات سمیت ابلاغ عام کے ذرائع محدود ہیں، شرح خواندگی بھی دیگر صوبوں کے مقابلے میں یہاں کم ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تعلیمی اداروں کا فقدان ہے۔ بلوچستان کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ اس کا وسیع رقبہ بھی ہے، منتخب اراکین کے فنڈز اور ترقیاتی منصوبے مخصوص علاقوں تک محدود رہتے ہیں، جس کی وجہ سے تمام آْبادی مستفید نہیں ہو پاتی۔ نیشنل پارٹی کے امیدوار سردار کمال بنگلزئی این اے سے رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں اس بار وہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہیں ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ انتخابات میں تو وہ سوراب نہیں جا سکے تھے صرف ٹیلیفون پر ہی رابطہ رہا۔ ’ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب ہم لوگوں کے پاس ووٹ کے لیے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ پانچ سال کہاں تھے؟ اتنے بڑے علاقے ہوتے ہیں ان میں ڈویلپمنٹ کا مسئلہ ہوتا ہے، انسانی آبادی پھیلی ہوئی ہوتی ہے انھیں سکول، بنیادی صحت مراکز اور دیگر سہولیات فراہم کرنی ہوتی ہیں اس کے لیے فنڈز زیادہ درکار ہیں لیکن کر نہیں پاتے۔ کیونکہ فنڈز اتنے نہیں ہوتے جتنا بڑا حلقہ ہے۔ ‘

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، مستونگ
 

کوئی مضبوط نہیں سب کمزور ہو رہے ہیں

$
0
0

صحافت، سیاست اور جمہوریت یہاں ہم ایک ایسے بدترین دور سے گزر رہے ہیں کہ جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ صحافت کا جو حال ہے وہ مارشل لا دورسے بھی بدتر ہے۔ سیاست پر سیاستدانوں کا کنٹرول نہیں رہا جبکہ جمہوریت محض ایک دکھاوا بن کر رہ گئی ہے۔ صحافت ہو، سیاست یا جمہوریت تینوں پر کنٹرول کسی اور کا ہے اور المیہ یہ ہے کہ کوئی نام لے نہ لے سب جانتے ہیں کہ کون کیا کھیل کھیل رہا ہے۔ کھیل کھیلنے والے سب کچھ کھل کر کر رہے ہیں۔ شاید سمجھتے ہوں کہ وہ مضبوط ہو رہے ہیں لیکن کوئی اُن کو سمجھائے کہ وہ سب سے زیادہ اپنے ہی آپ کو کمزور کر رہے ہیں۔ حقیقتاً اس کھیل میں سب کمزور ہو رہے ہیں اور اصل نقصان پاکستان کا ہو رہا ہے۔

پاکستان بچارے کے بارے میں سوچنے کی تو کسی کے پاس فرصت ہی نہیں۔ نگراں حکمرانوں میں شامل بڑے بڑے نام بونےنکلے، الیکشن کمیشن کو قانون نے جتنا مضبوط بنایا وہ اتنا ہی کمزور نکلا، نیب نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ صرف اور صرف استعمال ہونےکےلیےبنایا گیا ہے ، عدلیہ اور عدالتی فیصلوں پر قانون دان خود حیران و پریشان ہیں کہ کیسے کیسے فیصلہ لکھے اور سنائے جا رہے ہیں۔ نام کے آزادانہ اور شفاف انتخابات ہو رہے ہیں لیکن دھاندلی اتنی کھل کے کی جا رہی ہے کہ کسی کو شک ہے نہ شبہ۔ ہاں کھلے عام دھونس دھاندلی اگر کسی کو نظر نہیں آتی تو وہ الیکشن کمیشن کو، نگراں حکمرانوں کو اور عدلیہ کو۔ الیکشن اس قدر ’’شفاف‘‘ ہیں کہ میڈیا تک کو بتا دیا گیا ہے کس کے جلسے کو دکھانا ہے اور کس کے جلسوں کا بلیک آئوٹ کرنا ہے۔

یعنی سب پر واضع ہے کہ کسے گرانا اور کسے اُٹھانا ہے۔ انتخابات سے پہلے اتنا کچھ ہو چکا کہ اب یہ بھی یقین نہیں کہ 25 جولائی کو کیا ہو گا۔ حالات ایسے بنا دیئےگئے ہیں کہ اگر الیکشن کے دن ووٹوں کی دھاندلی نہ بھی کی جائے تو ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی یعنی انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت مخلوط اور کمزور ہو گی۔ پاکستان کو استحکام کی ضرورت ہے جس کےلیے مستحکم حکومت ضروری ہے۔ انتخابات کے نتیجے میں قومیں سیاسی استحکام کے حصول کی امید کرتی ہیں لیکن انہوں نے انتخابات کا سارا میلہ اس طرح سجایا کہ الیکشن کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام ہی اس ملک کو ملے۔ اگر جاری کوششوں کے مطابق تحریک انصاف کو حکومت مل بھی گئی تو تمام عرصہ پی ٹی آئی حکومت کو یہ ہی ثابت کرنا پڑتا رہے گا کہ اُس کا مینڈیٹ اصلی ہے۔

جو تحریک انصاف کو اوپر لا رہے ہیں اُن کی مرضی کے مطابق حکومت نہ چلی تو پھر تو بالکل ہی گزارہ ممکن نہیں اور یہی تاریخ کا سبق ہے جو ہم بار بار دہرانے اور اُس سے سبق نہ سیکھنے کے سفرپر گامزن ہیں۔ اگر ن لیگ حکومت بناتی ہے تو پھر تو ویسے ہی اُسے عدم استحکام کا شدید خطرہ رہے گا۔ مسلم لیگ ن اور عدلیہ و فوج کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ن لیگ انتخابات جیت جاتی ہے تو کیا ن لیگ اور اداروں کا آپس میں دل صاف ہو جائے گا ؟ میری ذاتی رائے میں ایسا ممکن نہیں۔ گویا انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کوئی اطمنان بخش نظر نہیں آتی۔ دل صاف کرنے ہیں تو الیکشن سے پہلے اب بھی موقع ہے کہ پاکستان کی خاطر آئین و قانون کے مطابق آزادانہ انتخابات ہونے دیں۔

کھیل کھیلنے والے پیچھے ہٹ جائیں، الیکشن کمیشن اور نگراں حکمراں تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کا مساوی موقع دیں۔ جو لوگ نواز شریف اور مریم نواز کو لندن سے پاکستان نہ آنے کی صورت میں جیل نہ جانے اور قانونی و عدالتی مشکلات میں آسانی کی نوید سنا رہے تھے وہ تمام معاملات کو آئین و قانون کے مطابق حل کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیں چاہیے کسی کو سزا ملے یا اُسے چھوڑ دیا جائے۔ کیوں کہ ایسا نہ ہو کہ ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے اس کھیل میں خدانخواستہ پاکستان کا ہی ہم کوئی نقصان کر بیٹھیں۔ لیکن جیسا کہ میں اوپر کالم میں لکھ چکا سب سیاسی لوگ اور ادارے سمجھ لیں کہ ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے اس کھیل میں کمزور سب ہو رہے ہیں۔ اس نقطہ پر سب غور کریں ہو سکتا ہے کسی نہ کسی کو میری بات سمجھ آ جائے۔

انصار عباسی
 

خدارا پاکستان پر رحم کرو

$
0
0

اس نے اپنی زندگی کی آخری تقریر کا آغاز بسم اللہ الرحمان الرحیم سے کیا۔ سخت گرمی اور دھوپ کے باوجود سینکڑوں لوگ اس کی تقریر سننے آئے تھے اورکچھ لو گ نماز جمعہ ادا کر کے اس جلسے کے عقب میں جگہ تلاش کر رہے تھے جہاں حاضرین کو دھوپ سے بچانے کے لئے شامیانے لگائے گئے تھے۔ اس چلچلاتی گرمی میں اپنے سامنے بیٹھے ہوئے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے مقرر نے براہوی زبان میں صرف اتنا ہی کہا ’’بلوچستان کے بہادر لوگو‘‘ اور ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کے بعد یہ جلسہ مقتل بن گیا، جہاں لاشوں اور زخمیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ زندگی کی آخری تقریر میں بلوچستان کے بہادر لوگوں سے مخاطب ہونے والے اس بہادر انسان کا نام میر سراج رئیسانی تھا جس نے جولائی 2012 میں دہشت گردوں کے حملے میں اپنے بیٹے میر حقمل رئیسانی کو کھویا تھا اور اس واقعے کے بعد خاموشی اختیار کرنے کے بجائے کھلے عام دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو للکارنا شروع کر دیا تھا۔ 

میر سراج رئیسانی نے بلوچستان متحدہ محاذ کے نام سے ایک تنظیم بنا رکھی تھی جس کے پلیٹ فارم سے گزشتہ سال انہوں نے یوم آزادی پر پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پرچم بلوچستان میں لہرایا اور شاید یہی وہ اعزاز تھا جو دشمنوں کے سینے میں کانٹا بن کر چبھا اور اس بہادر پاکستانی کی آواز خاموش کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ میر سراج رئیسانی نے اپنی تنظیم کو بلوچستان عوامی پارٹی میں ضم کیا توبہت سے دوستوں اور رشتہ داروں نے سمجھایا کہ یہ سیاسی غلطی مت کرو لیکن انہوں نے کسی کی نہ سنی اور بلوچستان کے حلقہ پی بی 35 سے الیکشن میں حصہ لینے کافیصلہ کر لیا۔ سراج رئیسانی ایسے علاقوں میں بھی انتخابی مہم چلا رہے تھے جو پاکستان دشمنوں کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ وہ خطرات اور دھمکیوں کے باوجود ہر جگہ پاکستان کا پرچم اٹھا کر پہنچ جاتے کیونکہ وہ بلوچستان میں کسی ایک پارٹی کی نہیں بلکہ پاکستان کی جنگ لڑ رہے تھے اور اس جنگ میں دشمن نے بڑے بزدلانہ طریقے سے ایک خود کش حملہ آور کے ذریعہ انہیں شہید کر دیا۔

جب یہ حملہ ہوا تو میں پشاور سے اسلام آباد واپس آرہا تھا۔ پشاور میں ہارون بلور اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر حاجی غلام احمد بلور اور الیاس بلور کے گھر فاتحہ اور دعا کے بعد روانہ ہوا تو اطلاع ملی کہ بنوں میں اکرم درانی صاحب پر حملہ ہوا ہے ان کے کچھ ساتھی شہید ہو گئے لیکن وہ محفوظ رہے۔ صوابی کے قریب میری گاڑی موٹر وے پر ایک جلوس میں پھنس گئی۔ یہ مسلم لیگ (ن) کا جلوس تھا جو نواز شریف کے استقبال کے لئے پشاور سے لاہور جارہا تھا۔ چھوٹی بڑی گاڑیوں کا یہ جلوس کافی بڑا تھا جس میں بلا مبالغہ ہزاروں افراد شریک تھے۔ اس جلوس کے اندر سے راستہ بنا کر آگے نکلنے میں آدھ گھنٹہ لگ گیا اور جیسے ہی اسلام آباد میں داخل ہوا تو کوئٹہ سے ایک دوست نے اطلاع دی کہ مستونگ میں میر سراج رئیسانی پر حملہ ہوا ہے۔

یہ خبر سنتے ہی مجھے ان کا بیٹا حقمل اور والد غوث بخش رئیسانی یاد آئے جو اس قسم کے حملوں کا نشانہ بنے۔ دفتر پہنچا اور مختلف ٹی وی چینلز کی اسکرینوں پر میر سراج رئیسانی پر حملے کی خبر تلاش کی لیکن یہ خبر نظر نہیں آئی۔ تمام ٹی وی چینلز نواز شریف کے استقبال کے لئے مسلم لیگ (ن) کی ریلیوں کو دکھا رہے تھے۔ پھر میں نے ان ٹی وی اسکرینوں پر دیکھا کہ مسلم لیگی قیادت کنٹینر پر چڑھ چکی ہے۔ مجھے 2014 یاد آگیا جب میرے یہ مسلم لیگی دوست کنٹینر پر چڑھنے والوں کو جمہوریت کا دشمن قرار دیتے تھے، بہرحال نواز شریف کا پرامن استقبال مسلم لیگ (ن) کا آئینی و سیاسی حق تھا لیکن نگراں حکومت نے انہیں روکنے کے لئے وہی ہتھکنڈے استعمال کئے جو 2014 میں شہباز شریف کی حکومت نے عوامی تحریک اور پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کے لئے استعمال کئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور پنجاب پولیس میں جگہ جگہ پنجہ آزمائی کی خبروں کے درمیان مجھے ایک پٹی نظر آئی’’مستونگ میں سراج رئیسانی پر حملہ، پانچ افراد جاں بحق‘‘۔

تھوڑی دیر بعد خبر دی گئی سراج رئیسانی سمیت دس افراد جاں بحق اور پھر یہ خبر غائب ہو گئی۔ ایک دفعہ پھر ٹی وی چینلز لاہور میں نواز شریف کے استقبال کی تیاریوں میں کھو گئے۔ میری ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ میں حاجی لشکری رئیسانی کو فون کر کے اظہار افسوس کروں۔ اب میں اپنے دفتر میں بیٹھا کوئٹہ اور مستونگ میں فون کر رہا تھا اور مجھے بتایا جارہا تھا کہ میر سراج رئیسانی پر حملے میں سو سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں لیکن ٹی وی چینلز پر یہ تعداد بیس بتائی جارہی تھی۔ دوسری طرف 13 جولائی کے دن جیو نیوز پر خصوصی نشریات میں شمولیت کے لئے ساتھی اصرار کر رہے تھے۔ دل بہت مضطرب تھا، لاہور سے پولیس اور مسلم لیگیوں کے مابین جھڑپوں کی خبریں آرہی تھیں اور مستونگ میں دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہو گیا تھا۔ جب ٹی وی چینلز نے جاں بحق افراد کی تعداد 40 بتانا شروع کی تو پھر میں نے ایک لائیو پروگرام میں یہ گزارش کی کہ خدارا بلوچستان والوں پر بھی کچھ توجہ دو۔ 

کم از کم اتنا کر دیتے کہ لاہور کو اسی فیصد اور مستونگ کو 20 فیصد کوریج دے دیتے لیکن اس دن ریٹنگ کی دوڑ تھی۔ 131 بلوچوں کی لاشیں پیچھے رہ گئیں اور ریٹنگ آگے نکل گئی۔ پاکستان کا میڈیا پنجاب کا میڈیا بن کر رہ گیا۔ میڈیا نے جو کیا وہ غلط تھا لیکن جو میڈیا کے ساتھ ہوا وہ بھی غلط تھا۔ نواز شریف کے ساتھ ابوظہبی سے لاہور آنے والے صحافیوں کے ساتھ ائیر پورٹ پر سیکورٹی کے اداروں نے بدتمیزی کی اور دھمکیاں دیں۔ منیزے جہانگیر نے نواز شریف کے ساتھ ہونے والی دھکم پیل کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرنے کی کوشش کی تو ایک سیکورٹی اہلکار نے اپنا پستول نکال لیا۔ 13 جولائی کا دن پاکستان میں جمہوریت اور آئین و قانون کے لئے ایک سیاہ دن تھا۔

سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کی نگراں حکومت کے دور میں آئین پاکستان کی دفعہ 15 اور 16 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوئی جو شہریوں کو نقل و حرکت اور پرامن سیاسی سرگرمیوں کا حق دیتی ہے۔ دفعہ 19 کی خلاف ورزی ہوئی جو آزادی اظہار کا حق دیتی ہے ۔ مجھے یہ غلط فہمی تھی کہ پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی لاہور میں پولیس کی طرف سے لاقانونیت کا نوٹس لیں گے اور بےبسی کی صورت میں استعفیٰ دیدیں گے لیکن مجھے اپنی اس غلط فہمی پر اپنے آپ سے شرمندہ ہونا پڑا۔ یہ وہ ڈاکٹر صاحب نہیں رہے جنہیں میں عرصے سے جانتا ہوں۔

افسوس کہ ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ تاریخ 13 جولائی 2018 کو شروع نہیں ہوتی۔ اس تاریخ میں 17 جون 2014 کا دن بھی آتا ہے جب پنجاب پولیس نے عوامی تحریک پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ اسی تاریخ میں 7 نومبر 2007 بھی آتا ہے جب مشرف دور میں میڈیا پرپابندیاں لگائی گئیں۔ جو کام مشرف اور ن لیگ کی حکومتوں نے کئے وہ 13 جولائی کو ن لیگ کے ساتھ ہوئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ نواز شریف کے خلاف دو ریفرنسوں کی سماعت جیل کے اندر ہو گی۔ یہ غیر قانونی ہے، پہلے نواز شریف کو اس ملک کے خفیہ اداروں نے آئی جے آئی کا سربراہ بنایا تھا اب ایک نئی آئی جے آئی کی سربراہی عمران خان کو سونپی جارہی ہے اور عمران خان کا حشر نواز شریف سے مختلف نہیں ہو گا۔ خدا کے لئے تاریخ سے سبق سیکھو اور پاکستان پر رحم کرو۔

حامد میر
 

ایک دلخراش سانحہ ''سانحہ مستونگ'' 300 گھرانوں پر قیامت توڑ گیا

$
0
0

بلوچستان کے ضلع مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے امیدوار کے قافلے میں بم دھماکے سے سراج رئیسانی سمیت 128 افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔ نگراں صوبائی وزیر داخلہ آغا عمر بنگلزئی اور سول ڈیفنس ڈائریکٹر اسلم ترین کا کہنا تھا کہ حملہ خود کش تھا، جس میں 8 سے 10 کلو گرام بارودی مواد اور بال بیئرنگ استعمال کی گئی تھیں۔ صوبائی وزیر داخلہ نے ہلاکتوں کی تعداد سے متعلق تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بم دھماکے کے نتیجے میں 128 افراد جاں بحق جبکہ 200 سے زائد زخمی ہو گئے۔ 











مستونگ دھماکے میں کئی گھرانے اجڑ گئے

$
0
0

مستونگ میں سیاسی جلسے میں خود کش حملےمیں جہاں کئی گھروں کے چراغ گل ہوئے وہیں درینگڑھ کا ایک گھر ایسا بھی ہے جس کے تین بچے دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ مستونگ میں سیاسی جلسے میں ہونے والا دھماکا کئی خاندانوں کوغمزدہ کر گیا، بزرگ اور نوجوان تو خودکش دھماکے کا نشانہ بنے ہی لیکن درینگڑھ کے عبدالخالق کے تین چھوٹے بچے صرف جلسہ گاہ دیکھنے کی پاداش میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ معصوم بچوں کا سیاست سے کوئی تعلق تھا ناہی وہ جلسے میں شریک تھے، چھوٹی سی بستی کےمکین تینوں بھائی علاقے میں کبھی کبھار ہونے والی گہما گہمی دیکھنے جلسہ گاہ گئے تھے۔

عبدالخالق بتاتے ہیں کہ نماز جمعہ کے بعد گھر واپس آئے تو دھماکا سنائی دیا، دیکھنے گئے تو ہر طرف لاشیں بکھری تھیں اور زخمی تڑپ رہے تھے، ان کے 2 بچوں کی لاشیں جلسہ گاہ کے اندر سے جبکہ ایک کی لاش اسپتال سے ملی۔
دھماکے سے ایک خاندان کے 11 جبکہ ایک اورخاندان کے سات افراد اپنے پیاروں سے جدا ہوئے جبکہ درینگڑھ کے عبدالقادر کے گھر کے دو افراد بھی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔
 

برہان وانی نہیں، سوچ باقی ہے

$
0
0

اس علاقے میں پیدا ہونے والے مشہور ترین باشندوں میں سے ایک نام برہان وانی کا بھی تھا۔ وانی کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے والے عسکریت پسندوں کا ایک نوجوان اور بہت مقبول کمانڈر تھا، جو دو سال قبل بھارتی سکیورٹی دستوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ برہان وانی اب ترال میں نہیں رہتا لیکن سات جولائی کے روز اس کی دوسری برسی سے ایک روز قبل قدرتی حسن سے مالا مال اس دیہی علاقے کا منظر نامہ اس بات کا گواہ بھی بنا کہ سینکڑوں لوگ ترال میں وانی کے گھر پہنچ گئے۔ ان لوگوں کی آمد اس بات کا ثبوت تھی کہ برہان وانی خود تو زندہ نہیں ہے لیکن جس سوچ کے تحت اس نے ہتھیار اٹھائے تھے، وہ سوچ ابھی تک زندہ ہے اور کشمیر پر بھارتی حکمرانی کے خلاف مقامی آبادی کی سوچ بھی نہیں بدلی۔

پھر آٹھ جولائی کو جب برہان وانی کی ہلاکت کو ٹھیک دو سال ہو گئے تھے، ترال کی سڑکوں پر پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بکتر بند گاڑیوں سے کیے گئے اعلانات میں مقامی باشندوں کو یہ پیغام دیا جاتا رہا کہ وہ باہر نہ نکلیں اور اپنے گھروں ہی میں رہیں۔ اس کے علاوہ پورے ضلع میں نصف درجن کے قریب چیک پوسٹوں پر کڑی نگرانی کے ذریعے اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ اس روز کوئی باہر سے اس گاؤں میں داخل نہ ہونے پائے، جہاں برہان وانی کا آبائی گھر ہے۔

کشمیری عوام کی ہمدردیاں
کئی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مظاہرین کی طرف سے بھارتی سکیورٹی دستوں پر پتھراؤ اور جواباﹰ حکومتی ڈھانچے کی طرف سے کریک ڈاؤن کے علاوہ برہان وانی کی موت بھی مقامی طور پر کشمیری نوجوانوں میں پائی جانے والی عسکریت پسندی میں اضافے کی وجہ بنی ہے۔ وانی کی موت کے بعد سے اب تک کے دو برسوں میں اس علاقے سے سینکڑوں نوجوان اپنے گھروں سے بھاگ کر کشمیری عسکریت پسند تنظیموں میں شامل ہو چکے ہیں۔

اس کے علاوہ کشمیری عسکریت پسندوں کے لیے، جنہیں سری نگر اور نئی دہلی کی سرکاری زبان میں باغی کہا جاتا ہے، عوامی سطح پر پائی جانے والی ہمدردی بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایسا اب کئی جگہوں پر دیکھنے میں آتا ہے کہ مقامی لوگوں کو اگر یہ پتہ چلے کہ کسی جگہ علیحدگی پسندوں کی بھارتی دستوں کے ساتھ کوئی جھڑپ ہو رہی ہے، تو وہ کسی بھی عمارت یا جگہ پر چھپے ہوئے علیحدگی پسندوں کی اس طرح مدد کرنے لگتے ہیں کہ رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے وہاں پہلے سے موجود یا اضافی سکیورٹی دستوں کو عسکریت پسندوں تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’سینکڑوں نئے عسکریت پسند‘
برہان وانی کی والدہ نے اس بارے میں چند روز قبل ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’صورت حال ہر روز خراب تر ہی ہوتی جا رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ نوجوان علیحدگی پسندوں اور عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوتے جا رہے ہیں، کیونکہ کشمیریوں سے ناانصافی ہو رہی ہے۔‘‘ برہان وانی نے 16 برس کی عمر میں کشمیری علیحدگی پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس نے چھ سال تک مسلح مزاحمت کرنے والے ایک نوجوان کے طور پر کشمیر میں علیحدگی پسندی کی تحریک میں حصہ لیا اور اس دوران وہ کشمیری عسکریت پسندوں کا ایک انتہائی اہم کمانڈر بن چکا تھا۔ وانی 2016ء میں جنوبی کشمیر کے بمدورہ نامی گاؤں میں بھارتی فورسز کے ساتھ ایک خونریز جھڑپ میں ہلاک ہوا تھا۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 1980 کی دہائی کے اواخر میں زور پکڑ لینے والی علیحدگی پسندی کی مسلح تحریک کے دوران اب تک کم از کم بھی 44 ہزار کشمیری عسکریت پسند، بھارتی سکیورٹی اہلکار اور مقامی شہری مارے جا چکے ہیں۔ کئی سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق کشمیر سے متعلق نئی دہلی میں ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے آہنی ہاتھ کی جو فوجی حکمت عملی اپنا رکھی ہے، اس سے حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب تر ہی ہوئے ہیں۔

بشکریہ DW اردو
 

جھولے کیوں گرتے ہیں؟

$
0
0

دنیا بھر کے پبلک مقامات پر اور پارکوں میں طرح طرح کے دیوہیکل اور چھوٹے بڑے جھولوں سے عوامی تفریح کا جو سامان کیا جاتا ہے نہ صرف تنصیب کے وقت بلکہ بعد میں بھی مستقل بنیادوں پر باقاعدگی کے ساتھ شہری انتظامیہ اپنی براہ راست نگرانی میں متعلقہ کمپنی یا ادارے کے ذریعے ان کی ضروری دیکھ بھال کا انتظام کرتی ہے یہ قانون وطن عزیز میں بھی رائج ہے لیکن گزشتہ برسوں کے دوران مختلف شہروں میں پبلک پارکوں میں رونما ہونے والے حادثات اور قیمتی جانوں کے ضیاع سے پتہ چلتا ہے کہ ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔

خاص طور پر جھولوں کی مینٹی نینس پر توجہ نہیں دی جاتی کراچی کے ایک تفریحی پارک میں نصب جھولا اچانک زمین بوس ہو جانے سے ایک بچی کا جاں بحق جبکہ خواتین اور بچوں سمیت 16 افراد کا زخمی ہو جانا انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔ گورنر سندھ نگران وزیر اعلیٰ اور دیگر حکام نے اس حادثے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبے میں تین ماہ کیلئے جھولے بند کر دیئے ہیں تاہم ایسا صرف سندھ میں نہیں ہونا چاہیئے ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی یہ اقدام فوری طور پر اٹھاتے ہوئے محفوظ مقام پر جھولوں کی تنصیب اور مناسب مینٹی نینس کی تصدیق ضروری ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ حادثے کی نذر ہونے والے دیوہیکل جھولے کا افتتاح ایک ماہ قبل ہی عیدالفطر کے موقع پر نئے پارک کی تعمیر کے ساتھ کیا گیا تھا لیکن اس میں غیر محفوظ طریقے سے نصب کئے گئے پیچ اور اسکرو حادثے کی وجہ بنے جبکہ ماضی میں ملک کے دیگر شہروں میں رونما ہونے والے یہ حادثات پرانے، خستہ حال جھولوں اور اوورلوڈنگ جیسے عوامل کے باعث پیش آتے رہے۔ پبلک مقامات اور پارکوں میں جانا شہریوں کا حق ہے ان دنوں تعلیمی اداروں میں چھٹیاں ہیں جس کی وجہ سے پارکوں میں غیر معمولی رش بھی ہے ان کے تحفظ کیلئے دہشت گردی کی حالیہ لہر کو ملحوظ رکھتے ہوئے حالات پر کڑی نظر رکھنے کی اوربھی زیادہ ضرورت ہے۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

چین پاکستان کی معیشت کو ڈوبنے نہیں دے گا

$
0
0

ان دنوں جبکہ پاکستان کی تمام قوم 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کی منتظر ہے، ملک کے اقتصادی منتظم اور معاشی ماہرین ملک کی تیزی سے بگڑتی اقتصادی صورت حال کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں اور خبردار کر رہے ہیں کہ جلد ہی ملکی معیشت میں جان ڈالنے کیلئے ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی مالیاتی ایجنسی یعنی آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا۔ سابق وزرائے خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ اور شاہد جاوید برکی کے علاوہ معاشی ماہر ڈاکٹر زبیر اقبال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابقہ حکومت کے پانچ سال کے دوران ملک میں کوئی ٹھوس اقتصادی ایجنڈا موجود نہیں تھا حالانکہ دو برس قبل پاکستان نے جب بین الاقوامی مالیاتی ایجنسی آئی ایم ایف سے 6.6 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا تھا تو معاشی اصلاحات آئی ایم ایف کے ایجنڈے میں شامل تھیں۔

ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ پچھلی حکومت کے دوران ملک میں کاروبار کرنے کی سہولتیں بہتر نہیں بنائی گئیں جس کی وجہ سے سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہی اور حکومت نے کام چلانے کیلئے بے شمار قرضے حاصل کئے جن کا بھاری بوجھ ملکی معیشت پر پڑا۔ اُنہوں نے کہا کہ غیر ملکی قرضے 100 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ ان قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ درآمدات میں خطیر اضافہ اور برآمدات میں مسلسل کمی سے حالات اور کشیدہ ہو گئے ہیں اور تجارتی خسارے میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ ان حالات میں 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت کو بہت شدید معاشی چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا اور اُس کیلئے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہو گا۔

معروف معاشی ماہر ڈاکٹر زبیر اقبال بھی ڈاکٹر سلمان شاہ سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کے اخراجات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں اور بچت کیلئے کوئی حکمت عملی وضح نہیں کی گئی۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تجارتی خسارے نے بے یقینی کو جنم دیا اور نتیجتاً ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے پر شدید اثر پڑنے لگا۔ ڈاکٹر زبیر اقبال کہتے ہیں کہ سیاستدانوں اور پالیسی سازوں نے عمداً ایسا کیا۔ تاہم اب وقت آ گیا ہے کہ لوگوں سے جھوٹے وعدے کرنے کے بجائے اُنہیں بتایا جائے کہ ملک حقیقت میں کن معاشی مسائل سے دوچار ہے اور اُنہیں حل کرنے کیلئے کیا کرنا ہو گا۔ ڈاکٹر زبیر اقبال کے مطابق تصرف میں کمی کر کے بجٹ خسارہ ہر صورت ختم کرنا ہو گا۔

ڈاکٹر زبیر اقبال نے انڈر انوائسنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں برآمدکنندگان اپنا سرمایہ دبئی اور دیگر ممالک میں منتقل کرتے رہے ہیں۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ آئی ایف ایف کبھی عبوری حکومت کے ساتھ بات نہیں کرے گی اور یہ مزاکرات بالآخر نئی بننے والی حکومت کے ساتھ ہی ہوں گے۔ شاہد جاوید برکی نا صرف پاکستان کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں بلکہ اُنہوں نے عالمی بینک میں بھی نائب صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دئے ہیں۔ وہ ڈاکٹر سلمان شاہ اور ڈاکٹر زبیر اقبال سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان کے قرضے بڑھ کر کل مجموعی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے 70 فیصد کے برابر ہو گئے ہیں تاہم یہ زیادہ پریشانی کی بات نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پر اکتفا کرنے کے بجائے ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک، اسلامی بینک اور دیگر ذرائع سے بھی رجوع کرنا چاہئیے جن کے قرضے نسبتاً نرم شرائط پر ہوتے ہیں۔
شاہد جاوید برکی نے کہا کہ زر مبادلہ کے ریٹ برآمد کنندگان اور باہر سے رقوم پاکستان بھیجنے والوں کے حق میں نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے سندر پار پاکستانی رقوم پاکستان بھیجنے سے ہچکچا رہے ہیں۔

تاہم شاہد جاوید برکی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف سے ایک مرتبہ پھر بیل آؤٹ پیکیج کیلئے درخواست کرے گا تو آئی ایم ایف تعلیم اور صحت جیسے سوشل سیکٹرز پر اُٹھنے والے اخراجات میں بھی کمی کا مطالبہ کرے گا جو پہلے ہی بہت کم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان چین راہداری منصوبے یعنی سی پیک کی بھی مخالفت کرے گا کیونکہ آئی ایم ایف نہیں جانتا کہ اس راہداری منصوبے میں کن شرائط پر سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ شاہد جاوید برکی نے مزید کہا کہ گزشتہ چند ماہ میں درآمدات میں ہونے والا بے پناہ اضافہ اقتصادی راہداری منصوبے ہی سے متعلق ہے۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ چین پاکستان راہداری منصوبے کی اہمیت کے پیش نظر چین پاکستانی معیشت کو ڈوبنے نہیں دے گا۔

شبّیر جیلانی

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

ایم کیو ایم کا ووٹر تاحال کسی 'معجزے'کا منتظر

$
0
0

کراچی میں گزشتہ 30 سال متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) دوسری جماعتوں کے مقابلے میں انتخابات میں بڑی حد تک 'کلین سوئپ'کرتی رہی ہے۔ لیکن آج خود اسے بہت سے مسائل حتیٰ کہ خود اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔ "ریاستی پالیسی"کے پیشِ نظر ایک امکان تو یہ بھی ہے کہ خود ایم کیو ایم ہی 25 جولائی کے انتخابات میں 'وائٹ واش'ہو جائے۔ لیکن بعض سیاسی حلقوں کو امید ہے کہ شاید 'ایم کیو ایم'کے ساتھ انتخابات میں اتنا برا نہ ہو۔ 

مارٹن کوارٹر جیسے اردو بولنے والے ووٹرز کے گڑھ میں وہ واقعہ پیش نہ آتا جو گزشتہ شام پیش آیا۔ سن 1988ء سے پارٹی سے وابستہ سینئر رہنما فاروق ستار پریس کانفرنس کرنے کراچی کے علاقے مارٹن کوارٹر پہنچے تو ان پر خواتین نے انڈے برسائے۔ جن خواتین کے ہاتھ انڈے نہ آسکے تو انہوں نے کوڑا کرکٹ ہی ڈاکٹر فاروق ستار کی طرف اچھال دیا۔ ان خواتین نے فاروق ستار کے خلاف نعرے لگائے اور ان پر سیاست چمکانے کے الزامات عائد کیے۔ خواتین اس بات پر نالاں تھیں کہ ایم کیو ایم کے سینئر ترین رہنما ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے شہر اور اپنے ووٹرز کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ کئی دہائیوں تک حکومتوں میں شامل رہے لیکن اس کے باوجود کوئی فائدہ عوام کو نہیں پہنچا سکے۔

مارٹن کوارٹر میں پیش آنے والے واقعے کے بعد علاقے کے ایک مکین احمد کمال نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ ایم کیو ایم کو شروع سے ہی ووٹ دیتے آئے ہیں لیکن اس بار ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکے کہ ووٹ کسے دینا ہے؟
ان کے بقول ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت کھوکھلی ہے اور "ہمارے ووٹوں کا تو پہلے ہی سودا ہو چکا ہے۔"انور کمال ہی نہیں ایم کیو ایم کے بہت سے مخلص اور 'ڈائی ہارڈ'ووٹر ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکے ہیں کہ وہ ووٹ کسے دیں گے؟ بانی ایم کیو ایم انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر چکے ہیں جب کہ خود ایم کیو ایم پاکستان کئی دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔ پارٹی کا خالد مقبول گروپ سستی کا بھی شکار ہے۔

ایک جانب تو اس نے امیدواروں کا اعلان دیر سے کیا تو دوسری جانب پارٹی منشور کا اعلان بھی محض دو دن پہلے ہی کیا گیا ہے۔ ماضی میں بڑے بڑے جلسے کرنے کی شہرت رکھنے والی ایم کیو ایم نے اب تک کراچی میں انتخابی مہم کے سلسلے میں کسی بڑے جلسے کا انعقاد بھی نہیں کیا۔ ایم کیو ایم کی سست روی سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ ایم کیو ایم کو اس بار انتخابات میں امیدوار نہیں مل رہے تھے اور جو ملے بھی ہیں تو پارٹ کے حامیوں نے ان کا خیر مقدم روایتی جوش و جذبے سے نہیں کیا۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس سست روی اور عوام کی عدم دلچسپی کا فائدہ ایم کیو ایم کی حریف جماعتوں کو پہنچ سکتا ہے۔ 

وسیم صدیقی

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live