Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

خان صاحب ’’سمجھدار‘‘ ہو ئے، میاں صاحب ’’بہک‘‘ گئے

$
0
0

عمران خان کافی ’’سمجھدار‘‘ہو گئے۔ پہلے کہتے تھے کہ الیکشن کے لیے ٹکٹ صرف ایسے لوگوں کو دیے جائیں گئے جن کا کردار بہترین ہو گا۔ یہ بھی کہتے رہے electables کے پیچھے نہیں بھاگیں گے چاہے ووٹ ملیں یا نہ ملیں۔ ایک بار یہ بھی کہا کہ پانچ سو ایماندار اُن کو مل جائیں تو وہ پاکستان کی قسمت بدل دیں گے۔ اب خان صاحب کہتے ہیں کہ ٹکٹ اُن کو دیں گے جو الیکشن جیتنا جانتے ہوں۔ اب تحریک انصاف کا سارا انحصار اُن electables پر ہے جو چاہے اپنی مرضی کی بنیاد پر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے یا اُنہیں کسی دوسرے کی مرضی کے نتیجے میں خان صاحب کے ساتھ شامل کیا گیا تھا۔ 

خان صاحب کو پانچ سو ایماندار تو نہ ملے لیکن ایسے تقریباً سات سو electables مل گئے جن کے بارے میں وہ خود فرما رہے ہیں کہ میں ان میں سے کسی کی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ وہ کل کیا کریں گے۔ سوشل میڈیا میں عمران خان کا ایک وڈیو کلپ دیکھنے کو ملا جس میں وہ کچھ ویسی ہی ’’بہکی بہکی‘‘ باتیں کر رہے ہیں جو آج کل میاں نواز شریف صاحب کر رہے ہیں۔ دس پندرہ سال پرانے خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ اب پاکستان میں وہ وقت آ چکا جب اداروں کا سیاست میں کردار ختم ہو، انہوں نے یہ جو جوڑ توڑ کر کے پتلوں کو سامنے لا کر ملک کا ستیاناس کر کے رکھ دیا، ان کا ایک کام ہوتا ہے کہ اُس کو اوپر لے کر آئیں جس کو کنٹرول کیا جا سکے، ان کو کنٹرولڈ سیاست دان چاہیے، ان کو کنٹرولڈ جج چاہیے، ان کو کنٹرولڈ بیوروکریٹ چاہیے، اور یہ سب الیکشن کو manipulate کر کے پتلوں کی حکومت لے کر آتے ہیں، اس طرح ملک کیسے چل سکتا ہے، کوئی ادارہ کیسے چل سکتا ہے، اس لیے وقت آ گیا ہے کہ کوئی اپنے آئینی کردار پر چلے، کوئی پاکستانی نہیں چاہتا ہے ہمارے ادارے کمزور ہوں، خان صاحب نے اس وڈیو میں اور بھی بہت کچھ کہا لیکن جتنا میں لکھ چکا وہ کافی ہے۔ 

آج وہ باتیں جو کل خان صاحب کر رہے تھے وہ میاں صاحب کرتے نظر آ رہے ہیں لیکن آج کے خان صاحب اس موضوع پر بات نہیں کرتے بلکہ بار بار کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف اور ن لیگ اور اداروں کے خلاف نفرت پیدا کر رہے ہیں۔ خان صاحب تو ’’سمجھدار‘‘ ہو گئے لیکن میاں صاحب کو نجانے کیا ہو گیا۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ وہ ’’بہک‘‘ گئے ہیں۔ وہ کبھی خلائی مخلوق کی بات کرتے ہیں تو کبھی اداروں کا نام لے کر کہتے ہیں کہ ن لیگ کو توڑا جا رہا ہے ، اسے کمزور کیا جا رہا ہے، الیکشن میں دھاندلی کی جا رہی ہے تاکہ ن لیگ کو ہرایا جائے اور پتلیوں کی حکومت بنوائی جائے۔ میاں صاحب کہتے ہیں ایسے اقدامات سے ملک اور اداروں کا نقصان ہوتا ہے۔

میاں صاحب نے ملتان میں ن لیگ کے امیدوار رانا اقبال سراج پر تشدد اور دھمکیوں کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگا دیا ۔ اسی ایجنسی کا نام مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا اقبال سراج نے بھی ابتدا میں لیا تھا لیکن بعد میں اُنہوں نے وضاحت کی ہے کہ جس واقعے کا ذکر کیا جارہا ہے وہ غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایس آئی نہیں بلکہ محکمہ زراعت کے عملے نے اُن پر تشدد کیا۔ رانا اقبال سراج کے اس بیان کے بعد پنجاب کے محکمہ زراعت کا میڈیا اور سوشل میڈیا میں اُسی طرح ایک مذاق سا بن گیا جس طرح خلائی مخلوق کے حوالے سے ہر طرح کی بات کی جا رہی ہے۔ مجھے، میرے پڑھنے والوں، جو لوگ کبھی تو خلائی مخلوق اور کبھی محکمہ زراعت کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں اور مذاق کر رہے ہیں سب جانتے ہیں کہ اصل میں بات کس ادارے کے متعلق ہو رہی ہے۔ یہ جو صورت حال ہے بہت ہی افسوس ناک ہے کیوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ اُس کھیل کا جس کا عمران خان نے دس پندرہ سال قبل اور میاں نواز شریف آج حوالہ دے رہے ہیں اُس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا ، اس سے اداروں کا اپنا کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ اللہ کرے ہمیں یہ نکتہ سمجھ آجائے۔

انصار عباسی
 


بھاشا اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم

$
0
0

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے تین ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے ڈیمز کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کی جس میں عدالت نے ڈیموں کی تعمیر سے متعلق مختصر فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو فوری طور پر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم تعمیر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ حکومت 3 ہفتوں میں ڈیموں کی تعمیر شروع کرنے سے متعلق رپورٹ دے اور ڈیموں کی تعمیر کیلئے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نام ایک اکاؤنٹ بھی کھولا جائے۔ سپریم کورٹ نے قوم سے ڈیموں کی تعمیر کے لیے اس اکاوئنٹ میں پیسہ جمع کرانے کی بھی اپیل کی۔

اس سے قبل دوران سماعت سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ دنیا بھر میں 46 ہزار سے زائد ڈیمز بنے، بھارت نے ساڑھے 4 ہزار ڈیمز اور چین نے 22 ڈیمز بنائے جب کہ ورلڈ بینک اور کینیڈا مدد نہ کرتے تو پاکستان میں ایک ڈیم بھی نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈیموں کی شدید قلت ہے، ڈیموں کی تعمیر پر فوری کام شروع ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا ہے، پانی کے بغیر ملک کی بقاء مشکل ہو جائے گی، جنگی بنیادوں پر پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو بحران شدید ہو جائے گا لہذا فوری طور پر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر شروع کی جائے جب کہ کالاباغ ڈیم پر بہت لوگوں کے اختلاف ہیں، سب کا اتفاق ہو تو کالا باغ ڈیم بھی بن سکتا ہے۔

پانی و بجلی کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ 2001 سے پانی کی دستیابی میں بتدریج کمی آرہی ہے، رواں سال پانی کی دستیابی گزشتہ سالوں کی نسبت انتہائی کم ہے، تربیلا کے بعد ہمیں ہر 10 سال بعد ایک نیا ڈیم بنانا چاہئے تھا، ہمارے پاس 13.7 ملین ایکڑ پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد ہے، بھاشا اور مہمند ڈیم سے ہمارے اسٹوریج میں اضافہ ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کو ڈیمز کی ضرورت ہے، پاکستان کی ضرورت کے تحت جتنے ڈیمز بنائے جائیں کم ہیں، زیر زمین پانی ریاست کی ملکیت ہوتی ہے اور ہم نے کھربوں روپے کا پانی مفت میں دے دیا جب کہ ڈیمز تو بننے ہیں، یہ ملکی بقاء کے لئے بہت ضروری ہیں، ہمیں ملک متحد کرنا ہے تقسیم نہیں، اس لئے فی الحال کالا باغ ڈیم کی بات نہیں کر رہے، ممکن ہے کہ مستقبل میں سندھ کالا باغ ڈیم بنانے کا مطالبہ کرے، فی الحال ان ذخائر پر فوکس کر رہے ہیں جن پر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔
 

کیا اسمارٹ فونز ایپس آپ کی خفیہ فوٹیج بنانے میں مصروف ہیں ؟

$
0
0

ہوسکتا ہے کہ آپ کے اسمارٹ فون آپ کی باتیں نہ سنتے ہوں مگر وہ خفیہ طور پر سب کچھ دیکھ سکتے ہیں جو آپ کر رہے ہوتے ہیں۔ جی ہاں امریکی محققین نے دریافت کیا کہ اسمارٹ فون اپلیکشنز صارف کی مرضی کے بغیر ان کی ویڈیو فوٹیج ریکارڈ اور اسکرین شاٹ لے کر انہیں تھرڈ پارٹیز کو بھیج سکتی ہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کئی بار تو یہ ایپس خفیہ طور پر صارفین کی ذاتی معلومات کی فوٹیج بھی بنا لیتی ہیں۔ امریکا کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے سائنسدان اس افواہ کی تفتیش کر رہے تھے کہ اسمارٹ فونز ایپس مائیکرو فونز کو ہائی جیک کر کے صارفین کی باتیں خفیہ طور پر ریکارڈ کرتی ہیں تاکہ آن لائن زیادہ بہتر اشتہارات دکھائے جا سکیں۔

تاہم انہوں نے دریافت کیا کہ اس افواہ میں صداقت نہیں مگر اس سے زیادہ خوفناک حقیقت یہ سامنے آئی کہ یہ ایپس ویڈیو فوٹیج ضرور ریکارڈ کر کے آگے بھیج سکتی ہیں۔ اس تحقیق کے دوران محققین نے 17 ہزار سے زائد مقبول ترین اینڈرائیڈ ایپس کا تجزیہ کیا جن میں فیس بک کی بھی متعدد اپلیکشنز شامل تھیں۔
انہوں نے معلوم کیا کہ 50 فیصد سے زیادہ ایپس کو صارفین کے کیمرہ اور مائیکرو فون تک رسائی کی اجازت ہوتی ہے جس سے ان میں سے کسی ایپ اوپن ہونے پر ان کی سرگرمیاں ریکارڈ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ایسے شواہد نہیں ملے کہ اسمارٹ فون اپلیکشنز مائیکرو فون کے ذریعے صارفین کی خفیہ آڈیو ریکارڈنگ کرتی ہیں، مگر کچھ اپلیکشنز مسلسل فوٹیج اور اسکرین شاٹ ریکارڈ کر کے ضرور آگے بھیجتی ہیں۔ زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ ان ایپس کے ٹرمز میں اس بات سے صارفین کو آگاہ نہیں کیا جاتا کہ ان کی معلومات کو فوٹیج کے ذریعے اکھٹا کیا جا سکتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج اگلے ماہ بارسلونا میں شیڈول ایک کانفرنس کے دوران پیش کیے جائیں گے۔
 

ووٹ مانگنے کیلئے ہمارے گاؤں تشریف نہ لائیں

$
0
0

پاکستان میں عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں امیدواروں اور کئی سالوں تک حلقے سے غائب رہنے والے سیاستدانوں کے خلاف احتجاج، نفرت اور بائکاٹ کے مختلف انداز دیکھے گئے۔ ملک بھر کی طرح سندھ کے لوگ بھی اس بار ماضی کے مقابلے کھل کر سیاستدانوں سے اپنے غصے کا اظہار کچھ کھل کر کر رہے ہیں۔ سندھ کے ووٹرز اور عوام نے جہاں کشمور ایٹ کندھ کوٹ میں 10 سال بعد حلقے کا دورہ کرنے والے سردار میر سلیم جان مزاری کی گاڑی کے سامنے احتجاج کر کے انہیں واپس ہونے پر مجبور کیا تھا۔ وہیں سکھر میں سید خورشید شاہ کو بھی غصے میں آئے ہوئے نوجوانوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

لیکن اب شمالی سندھ کے ضلع گھوٹکی کے ایک گاؤں کے رہائشیوں کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کے بائکاٹ کا منفرد اعلان سامنے آیا ہے۔ جی ہاں، ضلع گھوٹکی کے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 21 کے ایک گاؤں ’در محمد پہوڑ‘ کے رہائشیوں نے تمام امیدواروں کے بائکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے گاؤں میں داخل ہونے والے مرکزی راستے پر ایک احتجاجی بورڈ آویزاں کر دیا۔ گاؤں کے رہائشیوں نے مرکزی سڑک سے جانے والی گوٹھ کی سڑک پر احتجاجی بورڈ آویزاں کرتے ہوئے تمام امیدواروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ووٹ مانگنے کے لیے مذکورہ گاؤں تشریف نہ لائیں۔

سندھی زبان میں آویزاں کیے گئے احتجاجی بورڈ میں بتایا گیا ہے کہ ’گوٹھ در محمد تاریخی گاؤں ہے، مگر وہ آج بھی تقریبا ہر بنیادی سہولت سے محروم ہے‘۔
گاؤں والوں نے مختصرا تمام امیدواروں کو مخاطب ہوتے ہوئے لکھا ہے کہ ’برائے مہربانی کر کے ووٹ مانگنے کے لیے مذکورہ گاؤں تشریف نہ لائیں‘۔
مذکورہ گاؤں والوں کی جانب سے آویزاں کیے گئے احتجاجی بورڈ کی تصویر سندھی زبان کے اخبار روزنامہ کاوش میں شائع ہوئی، جو بعد ازاں سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو گئی۔
 

نواز شریف کو دس سال، مریم نواز کو سات سال قید کی سزا

$
0
0

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو 10 سال قید اور 80 لاکھ پونڈ جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ عدالت نے سابق وزیرِ اعظم کی صاحبزادی مریم نواز کو سات سال قید اور 20 لاکھ پونڈ جرمانے جب کہ ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی ہے۔
عدالت نے لندن کے ایون فیلڈ فلیٹس کو بھی بحق حکومتِ پاکستان ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے فریقین کے وکلا کی موجودگی میں بند کمرے میں سنایا۔ فیصلہ سنائے جانے کے وقت صحافیوں کو عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

فیصلے سنائے جانے کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) کے پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کمرۂ عدالت سے باہر آکر صحافیوں کو فیصلے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر انتخابات لڑنے کے لیے بھی نا اہل ہو گئے ہیں۔ مریم نواز 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر لاہور سے جب کہ کیپٹن (ر) صفدر مانسہرہ سے قومی اسمبلی کے حلقوں سے امیدوار تھے۔ اس سے قبل عدالت نے فیصلے کے اعلان کو سات روز تک موخر کرنے کی نواز شریف اور مریم نواز کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے جمعے کو دن 12:30 بجے فیصلہ سنانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن فیصلے کا اعلان کئی بار تاخیر کا شکار ہوا اور عدالت کی جانب سے بار بار فیصلے کا وقت تبدیل کیا گیا اور بالآخر شام سوا چار بجے کے قریب فیصلہ سامنے آیا۔

نواز شریف اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے گزشتہ کئی ہفتوں سے لندن میں مقیم ہیں جہاں ان کے ہمراہ ان کی صاحب زادی مریم نواز بھی ہیں۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ وہ سزا سنائے جانے کے بعد وطن واپس آئیں گے یا نہیں۔ کیپٹن (ر) صفدر پاکستان میں ہی موجود ہیں لیکن وہ جمعے کی سماعت کے موقع پر عدالت نہیں آئے۔ ایون فیلڈ کی سماعت اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ساڑھے نو ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہی تھی۔ فریقین کے حتمی دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے 3 جولائی کو اپنا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے اسے جمعے کو سنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے احتساب عدالت سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ ایک ہفتے کے لیے مؤخر کرنے کی درخواست کی تھی۔

درخواستوں میں سابق وزیرِ اعظم اور ان کی صاحبزادی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جس وقت فیصلہ سنایا جائے وہ خود عدالت میں موجود ہوں۔
جمعے کو جب احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت شروع کی تو مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کے سامنے لندن میں زیرِ علاج نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی نئی میڈیکل رپورٹ پیش کی۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کلثوم نواز کی حالت تشویشناک ہے اور ڈاکٹروں نے ان کے اہلِ خانہ کو ان کے قریب ہی رہنے کا کہا ہے۔ امجد پرویز نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت کو فیصلہ ملزم کی موجودگی میں سنانا چاہیے اور ان کے مؤکلین بھی چاہتے ہیں کہ فیصلہ سنائے جانے کے وقت وہ کمرۂ عدالت میں موجود ہوں۔

وکیلِ صفائی کے اس مؤقف کی عدالت میں موجود قومی احتساب بیورو (نیب) کے پراسیکیوٹرز نے مخالفت کی۔ بعد ازاں عدالت نے فیصلہ مؤخر کرنے درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت 11 بجے تک ملتوی کردی تھی۔ جمعے کو سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت کے جج محمد بشیر نے فیصلہ مؤخر کرنے کی نواز شریف اور مریم نواز کی درخواستیں مسترد کر دیں اور کہا کہ ریفرنس کا فیصلہ آج ہی دن ساڑھے بارہ بجے سنایا جائے گا۔ بعد ازاں عدالت نے فیصلہ سنانے کا وقت ڈھائی بجے کر دیا۔ لیکن ڈھائی بجے سے چند منٹ قبل عدالت کے رجسٹرار نے کمرۂ عدالت میں آکر اعلان کیا کہ اب فیصلہ تین بجے سنایا جائے گا۔

تین بجے عدالت کے جج کمرۂ عدالت میں آئے اور بتایا کہ فیصلے کے اعلان کو ایک بار پھر مؤخر کر دیا گیا ہے اور اب فیصلہ ساڑھے تین بجے سنایا جائے گا۔
احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ فیصلے کی فوٹو کاپیاں کرائی جارہی ہیں جس میں دیر لگ رہی ہے۔ ساڑھے تین بجے جب صحافیوں نے کمرۂ عدالت میں داخل ہونے کی کوشش کی تو انہیں عدالتی عملے نے یہ کہہ کر روک دیا کہ جج صاحب پہلے فریقین کے وکلا سے مشاورت کریں گے لہذا انہیں داخلے کی اجازت نہیں۔
تاہم میڈیا کی غیر موجودگی میں ہی جج محمد بشیر نے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔
مقدمے کے دیگر دو شریک ملزمان اور نواز شریف کے صاحبزادوں - حسن اور حسین نواز - کو عدالت مسلسل عدم حاضری پر اشتہاری قرار دے چکی ہے۔ حسن اور حسین دونوں لندن میں مقیم ہیں۔
 

نواز شریف کے پاس اب کیا راستہ ہے؟

$
0
0

اب تو لگتا ہے منیر نیازی نے نظم ’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں‘ نواز شریف کے لیے لکھی تھی۔ عدالت کچھوے کی رفتار سے چلتی ہے اور سیاست خرگوش کی طرح پھدکتی اچھلتی۔ جو خرگوش ضرورت سے زیادہ اعتماد کا شکار نہ ہو وہ دوڑ جیت جاتا ہے مگر ایسا واقعی ہو جائے تو پھر نسل در نسل کچھوے اور خرگوش کی کہانی کون پڑھے۔ غلط وقت پر غلط فیصلہ تو معاف کیا جا سکتا ہے مگر درست وقت پر غلط فیصلے کا کوئی مداوا نہیں۔ کامیڈی اور سیاست میں سارا کھیل ٹائمنگ کا ہے۔ ایک بھی غیرضروری لمحہ لطیفے کو کثیفہ اور ایک دن کی سستی سیاستدان کو برسوں کی مشقت میں دھکیل سکتی ہے۔

سیاست کا سستی سے وہی رشتہ ہے جو ریل کے پہیے کا پنکچر سے۔ میاں صاحب کو پہلا سنہری موقع پاناما گیٹ کے منظرِ عام پر آتے ہی ملا۔ اگر پارلیمنٹ میں اپنی بےگناہی اور پاناما سے اپنی لاتعلقی ثابت کرنے کے بجائے اسی تقریر میں میاں صاحب کہہ دیتے کہ میں جس عہدے پر تیسری بار منتخب ہوا اس کے بعد عوامی اعتماد کا تقاضا ہے کہ میری ذات پر ذرا سا بھی چھینٹا پڑے تو مجھے اس عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ میں دوبارہ آؤں گا مگر اس وقت جب خود کو بےگناہ ثابت کر دوں گا۔ ان چند جملوں کے ساتھ میاں صاحب کے شیئرز سیاسی سٹاک ایکسچینج کی چھت پھاڑ سکتے تھے مگر یہ ہو نہ سکا اور ان کے حواری کان میں پھونکتے رہے میاں صاحب دب کے رکھو۔

دوسرا موقع تب آیا جب سپریم کورٹ نے پاناما معاملے کو قابلِ سماعت سمجھنے سے انکار کر کے سیاستدانوں کو موقع دیا کہ وہ اپنے کپڑے سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر دھونے کے بجائے پارلیمنٹ کے اندر دھوئیں۔ اس وقت اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت بھی راضی تھی کہ ایک پارلیمانی کمیٹی اس معاملے کی چھان بین کر کے کسی نتیجے پر پہنچ جائے مگر میاں صاحب نے یکطرفہ تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کر دیا جسے اپوزیشن نے مسترد کر دیا اور اپوزیشن کے فارمولے کو میاں صاحب اور ہم نواؤں نے مسترد کر دیا اور پھر عمران خان کے لاک ڈاؤن کی دھمکی نے سپریم کورٹ کو بادلِ نخواستہ اس معاملے کی شنوائی پر مجبور کر دیا۔ مگر اس معاملے کو ٹیکنیکل اور قانونی طریقے سے پیشہ ورانہ انداز میں کمرہِ عدالت تک محدود رکھنے کے بجائے ایک متوازی عدالت سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر لگا لی گئی اور یوں عدالت نواز و عدالت مخالف گروہ ابھر کے سامنے آ گئے اور میڈیا کی مہربانی سے پاناما ایک دلدل کی طرح پھیلتا چلا گیا۔ پھر اس دلدل میں طعن و تشنیع و گالیوں اور عدلیہ سے دوبدو کے جھاڑ جھنکار اگتے چلے گئے۔

میاں صاحب جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا بھی اظہار کرتے رہے اور اس کے سامنے پیش بھی ہوتے رہے، عدالتی فیصلہ قبول بھی نہیں کیا اور عملاً سبکدوشی کے سبب قبول بھی کر لیا۔ نیب عدالتوں پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا اور سو سے زائد بار پیش بھی ہوتے رہے اور جلسوں میں عوام کی عدالت سے بھی پوچھتے رہے مجھے کیوں نکالا ؟ ظاہر ہے میاں صاحب محض سیاسی شخصیت نہیں ایک شوہر اور والد بھی ہیں لیکن سیاستداں کا امتحان یہی تو ہے کہ وہ کیسے اپنے نجی معاملات اور رشتے بھی نبھائے اور سیاسی ٹائمنگ کو بر موقع استعمال کرنے کے لیے آنکھیں بھی کھلی رکھے۔

ہر کوئی جانتا ہے کہ بیگم کلثوم کی سنگین علالت کے سبب میاں صاحب کس ذہنی ازیت سے گزر رہے ہیں مگر ایک شوہر اور خاندان کے سربراہ کے ساتھ ساتھ وہ اپنی جماعت کے قائد بھی ہیں اور اس جماعت کے لاکھوں حامی بھی ہیں۔ پولنگ میں صرف ڈھائی ہفتے کا فاصلہ ہے۔ ایک زیرک سیاستداں کو ایسے میں کیا فیصلہ کرنا چاہیے۔ بیگم صاحبہ کی حالت اگر بہتر نہ بھی ہوئی تب بھی وہ وینٹی لیٹر پر ہی رہیں گی۔ میاں صاحب ان کے سرہانے بیٹھ کر کیا مدد کر سکتے ہیں؟ مگر سفاک حقیقت یہ ہے کہ انتخابات وینٹی لیٹر پر نہیں ہیں۔ میاں صاحب یہ بھی جانتے تھے اور ہیں کہ عدالت انھیں مزید کوئی رعایت دینے پر تیار نہیں۔

ایسے میں میاں صاحب کو کیا کرنا چاہیے؟ جب آپ سیاست کے سفاک شعبے میں پینتیس، چالیس برس سے موجود ہی ہیں تو آپ سے زیادہ کسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کاروبار میں ٹائمنگ ہی سب کچھ ہے۔ سات دن بعد بھی اگر آپ آتے ہیں تو وہی ہو گا جو آج ہونے والا تھا مگر سات دن بعد انتخابی مہم کے لیے صرف ایک ہفتہ رہ جائے گا اور سیاست میں بقول آنجہانی برطانوی وزیرِ اعظم ہیرلڈ ولسن ایک ہفتہ بہت لمبا عرصہ ہے۔ اتنا لمبا کہ اکثر اوقات برسوں پر پھیل جاتا ہے۔
ہاتھوں سے لگائی گرہ دانتوں سے کھولنے کا نام ہی تو سیاست ہے۔ گر یہ نہیں ہو سکتا تو پھر،

آپ ایک اور نیند لے لیجیے
قافلہ کوچ کر گیا کب کا (جون ایلیا )

وسعت اللہ خان
تجزیہ کار
 

ایون فیلڈ ریفرنس؛ کب، کیسے اور کیا ہوا ؟

$
0
0

ایون فیلڈ ریفرنس شریف خاندان کے لندن میں موجود فلیٹس سے متعلق ہے۔ لندن کے پوش علاقے’مے فیئر‘میں ارب پتی افراد کے گھر ہیں، اس علاقے میں واقع ایون فیلڈ فلیٹس نواز شریف کے بچوں کے نام ہیں۔ ملک کے سیاسی منظر نامے میں اس جائیداد کی گونج نوے کی دہائی سے سنی جارہی ہے لیکن نواز شریف اور ان کا خاندان اس کی مسلسل تردید کرتا رہا۔ 2016 میں پاناما لیکس کے بعد نواز شریف کے خاندان سمیت ہزاروں لوگوں کی آف شور کمپنیوں کی تفصیلات سامنے آئیں، جس کے بعد معاملہ احتجاج کے بعد سپریم کورٹ میں گیا۔ جولائی 2017 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا جس میں نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا۔
8 ستمبر 2017 کو نیب نے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف، ان کے تینوں بچوں اور داماد کے خلاف عبوری ریفرنس دائر کیا۔ 19 اکتوبر 2017 کو مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر براہ راست جب کہ نواز شریف پر ان کے نمائندے ظافر خان کے ذریعے فردِ جرم عائد کی گئی۔ نیب نے مزید شواہد ملنے پر 22 جنوری 2018 کو اسی معاملے میں ضمنی ریفرنس دائر کیا۔

نواز شریف پہلی بار 26 ستمبر 2017 جب کہ مریم نواز 9 اکتوبر کو عدالت کے روبرو پیش ہوئیں۔ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری ہونے کے باعث ایئرپورٹ سے گرفتار کر کے عدالت پیش کیا گیا۔ عدالت نے 26 اکتوبر کو مسلسل عدم حاضری کی بنا پر نواز شریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ 3 نومبر کو پہلی بار نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر اکٹھے عدالت میں پیش ہوئے۔ 8 نومبر کو پیشی کے موقع پر نواز شریف پر براہ راست فرد جرم عائد کی گئی۔ 10 جون کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نےاحتساب عدالت کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف ٹرائل مکمل کرنے کی مدت سماعت میں تیسری مرتبہ توسیع کی درخواست پر سماعت کی۔ 

سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف زیرسماعت تینوں ریفرنسز کا ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا۔ 11 جون 2018 کو حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کیس سے الگ ہو گئے جس کے بعد ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے وکالت نامہ جمع کرایا۔ 19 جون کو خواجہ حارث احتساب عدالت پہنچے اور دستبرداری کی درخواست واپس لے لی۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 9 ماہ 20 دن تک ریفرنس کی سماعت کی اور 3 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا۔ اس دوران مجموعی طور پر 18 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔
 

آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے گرد گھیرا تنگ

$
0
0

بدعنوانی کے خلاف مہم میں نواز شریف کے خلاف مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد سابق صدر آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے گرد گھیرا تنگ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ایف آئی اے نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اور منی لانڈرنگ کیس میں ملوث چیئرمین پاکستان اسٹاک ایکسچینج حسین لوائی کو حراست میں لے لیا ہے۔ حسین لوائی پر 35 ارب روپے منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق حسین لوائی نے 3 بینکوں کے 29 جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی، مذکورہ 29 اکاؤنٹس سے رقم کا لین دین اومنی گروپ کے ملازمین کرتے تھے، اومنی گروپ کے مالک انور مجید ہیں جو بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

ایف آئی اے نے حسین لوائی کیخلاف مقدمے میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے ساتھ ساتھ آصف زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ مقدمے کے متن کے مطابق آصف زرداری اور فریال تالپورکی کمپنی بھی منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہے، زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔ مقدمے میں اومنی گروپ کے مالک انور مجید کی کمپنیوں کا بھی ذکر ہے۔ منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں اور افراد کو سمن جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کر لی گئی ہے۔ ایف آئی اے نے 29 اکاؤنٹس کی تمام تفصیلات عدالت میں پیش کر دیں جس کے مطابق 6 مارچ 2014 سے 12 جنوری 2015 تک اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔

بشکریہ ایکسپریس اردو
 


ڈاکٹر ذاکر نائک کو بھارت واپس نہیں بھیجا جائے گا : مہاتیر محمد

$
0
0

ملیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ مذہبی مبلغ ذاکر نائک کو بھارت واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ انھوں نے ملک کے انتظامی دارالحکومت پتراجیہ میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب تک ذاکر نائک سے یہاں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ہم انھیں واپس نہیں بھیجیں گے۔ کیونکہ انھیں یہاں مستقل رہائشی کا درجہ حاصل ہے۔ چند روز قبل نئی دہلی میں میڈیا رپورٹوں میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ ذاکر نائک بھارت واپس آرہے ہیں۔ نائک نے ایک بیان جاری کر کے اس خبر کو بے بنیاد اور غلط قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ جب تک وہ یہ محسوس نہیں کرتے کہ بھارت میں ان کے خلاف صاف شفاف اور منصفانہ کارروائی ہوگی وہ واپس نہیں آئیں گے۔

قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کے ترجمان آلوک متل نے بھی میڈیا رپورٹ کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ سرِدست ہمیں ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ہم اس خبر کی تصدیق کر رہے ہیں۔ ممبئی میں واقع ذاکر نائک کے ادارے اسلامک ریسرچ فاونڈیشن (آئی آر ایف) کے میڈیا مشیر عارف ملک نے وائس آف امریکہ کے اس سوال پر کہ کیا ملیشیا کے وزیر اعظم کا مذکورہ بیان دونوں ملکوں کے مابین حوالگی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے، نفی میں جواب دیا اور کہا کہ کوئی بھی ملک پہلے حوالگی درخواست کا جائزہ لیتا ہے اس کے بعد ہی واپس کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتا ہے۔ ملیشیا کی حکومت جائزہ سے قبل اس معاہدے کی پابند نہیں ہے۔ 

انھوں نے این آئی اے کی جانب سے ذاکر نائک کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات کی ترید کی اور کہا کہ انٹرپول نے نائک کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس جاری کرنے سے اسی لیے انکار کر دیا تھا کہ این آئی اے کوئی بھی الزام ثابت نہیں کر سکی۔ وہ ملکی عدالت میں بھی کوئی الزام ابھی تک ثابت نہیں کر سکی ہے۔ بقول ان کے یہ پوری کارروائی ایک انفرادی شخص کو پریشان کرنے اور اس کے ادارے کو بند کرنے کے مقصد سے کی جا رہی ہے۔

سہیل انجم

بشکریہ وائس آف امریکہ


 

نواز شریف کو وطن واپسی پر فوری گرفتار کرنے کا فیصلہ

$
0
0

نیب نے احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کو وطن واپسی پر فوری گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے ایوان فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی گرفتاری کے لیے نیب حکام احتساب عدالت سے رجوع کر کے مجرمان کے وارنٹ حاصل کریں گے۔ نیب نے احتساب عدالت سے وارنٹ حاصل کرنے کے لیے ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کی تصدیق شدہ نقل حاصل کر لی ہے۔ امکان ہے کہ وارنٹ جاری ہونے کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کی وطن واپسی کی صورت میں انہیں ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کر لیا جائے گا جب کہ کیپٹن (ر) صفدر ملک میں ہی موجود ہیں وارنٹ ملنے پر انہیں بھی گرفتار کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد لندن میں موجود نواز شریف اور مریم نواز نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے وطن واپسی کا اعلان کیا ہے۔

 

تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول پر پہنچ گئی

$
0
0

ملک میں پانی کے ذخائر میں انتہائی حد تک کمی آ گئی ہے، تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول پر پہنچ گئی ہے۔ ملک میں کم بارشوں اور گلیشیر کے نہ پگھلنے سے آبی ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق تربیلاڈیم ڈیڈ لیول پر آگیا، جہاں پانی کی سطح تیرہ سو چھیاسی فٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔
تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد ایک لاکھ ایک ہزار، اخراج پچانوے ہزار پانچ سو کیوسک ریکارڈ کیا گیا گیا۔ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق منگلا ڈیم میں پانی کی سطح گیارہ سو بائیس فٹ ریکارڈ کی گئی ہے، تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد انتالیس ہزار، اخراج انہتر ہزار ایک سو بیس کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ دریائے کابل میں نوشہرہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ پینتالیس ہزار دو سو کا ہو گیا ہے۔

ایم کیو ایم کے بانی رہنما سلیم شہزاد لندن میں انتقال کر گئے

$
0
0

خاندانی ذرائع کے مطابق سلیم شہزاد کینسر کے عارضہ میں مبتلا تھے اور کئی دن سے اسپتال میں زیرعلاج تھے۔ سلیم شہزاد نے اپنے سوگواران میں بیوہ اور پانچ بیٹیوں کو چھوڑا ہے۔ خاندانی ذرائع کا بتانا ہے کہ ان کی تدفین دو روز بعد لندن میں ہی ہو گی۔ واضح رہے کہ سلیم شہزاد 2015 سے جگر اور گردے کے کینسر میں مبتلا تھے اور انہیں چند روز قبل طبیعت زیادہ بگڑنے پر مغربی لندن کے ایک اسپتال میں علاج کے لیے لایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے 36 گھنٹے انتہائی اہم قرار دیئے تھے۔ سلیم شہزاد 6 فروری 2017 کو طویل خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے دبئی سے کراچی پہنچے تھے، ان کے خلاف مجموعی طور پر 23 مقدمات درج تھے اور عدالتوں سے ضمانت پر ہونے کے ساتھ انہیں عدالت نے بیرون ملک جانے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔
 

برہان مظفر وانی شہید کشمیر کا درخشندہ ستارہ

$
0
0

کشمیری قوم کی جدوجہد آزادی میں نئی روح پھونکنے والے نوجوان کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کو دو سال مکمل ہو گئے ہیں، مقبوضہ کشمیر کے اس نوجوان کی زندگی ناصرف درس حریت کا عملی نمونہ بنی ساتھ ہی درندہ صفت بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہادت کے بعد کشمیری قوم کو آزادی کی نئی راہوں پر گامزن کر گئی۔ برہان مظفر وانی مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوانہ کے گاوں شریف آباد میں پیدا ہوئے، اکتوبر 2010 میں 15 سال کی عمر میں بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد آزادی کا آغاز کیا، سوشل میڈیا پر بھارتی پروپیگنڈا کے جواب کا جدید طریقہ اختیار کر کے جدوجہد آزادی کو نئی جدت دی جس کی وجہ سے وہ کشمیری قوم کے نئے ہیرو کے طور پر سامنے آئے۔

آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی 6 سال تک نیندیں اڑانے والے اس مجاہد آزادی کو 8 جولائی 2016 کو بمدورہ کو کرناگ میں شہید کر دیا گیا۔ 22 سال کی عمر میں وطن کی آزادی کی خاطر جام شہادت نوش کرنے والا برہان وانی کشمیر میں جاری تحریک کی نئی شمع روشن کر گیا، وانی کے جنازے پر شرو ع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ دو سال بعد بھی نہ تھما. یاد رہے برہان وانی نے پلواما کے علاقے ترال میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے میں آنکھ کھولی، برہان کے والد مظفر احمد وانی ایک سرکاری سکول میں پرنسپل جبکہ والدہ میمونہ مظفر پوسٹ گریجوایٹ آف سائنس ہیں.

برہان وانی خود بھی ایک ہونہار طالبعلم تھا جس نے صرف 15 سال کی عمر میں بھارتی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھائے، برہان وانی سماجی میڈیا پر کشمیری نوجوانوں کے لیے ایک آئیڈیل جبکہ قابض فوج کی آنکھ کا کانٹا بن چکا تھا، 21 سال کی عمر میں برہان وانی نے ایک ویڈیو میں کشمیری نوجوانوں کو ہندوستان کے خلاف مسلح جدوجہد کا حصہ بننے کی دعوت دی۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد گزشتہ دو سالوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد کشمیریوں کو شہید، 24 ہزار سے زائد کو زخمی اور 19ہزار سے زائد کو جیلوں اور ٹارچر سیلوں میں اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔

 

قید کی سزا، کیا نواز شریف کو اس سے فائدہ پہنچے گا ؟

$
0
0

نواز شریف پچھلی مرتبہ جیل اور جلا وطن ہوئے تو اُن کی سیاست میں واپسی میں شدت دیکھی گئی۔ مبصرین کے مطابق دس برس کی سزائے قید سے نواز شریف ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ عدالتی فیصلے کے تحت نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی اور پھر انہیں اپنی سیاسی جماعت کی قیادت سے بھی ایک اور عدالتی فیصلے نے فارغ کر دیا۔ اب ایون فیلڈ ریفرنس میں سنائی گئی سزا کے بعد وہ عمر بھر کے لیے عملی سیاست کے قابل نہیں رہے۔ لیکن ایسا محسوس کیا جا رہا ہے کہ پچیس جولائی کے عام انتخابات میں اُن کی سیاسی پارٹی کو خاص طور پر ہمدردی کے ووٹ حاصل ہو سکتے ہیں۔

عدالتی کارروائیوں کے باوجود پاکستان کی سیاست میں تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کو بدستور ایک بڑی شخصیت خیال کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی سیاست کے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ایسے عوامل سے مسلم لیگ منظم انتخابی مہم سے عوامی حمایت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ خیال رہے کہ نواز شریف کو ابھی دو مزید کرپشن ریفرنسز کا سامنا ہے۔ پاکستان کے سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین کا خیال ہے کہ انتخابی عمل پر متاثر ہونے کا زیادہ تعلق نواز شریف کی واپسی پر منحصر ہے۔ اس وقت نواز شریف لندن میں اپنی علیل اہلیہ کی تیمارداری میں مصروف ہیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد سابق پاکستانی وزیراعظم نے پاکستان واپس جانے کا عزم ظاہر ضرور کیا ہے۔ دوسری جانب وہ پاکستان پہنچتے ہی گرفتار کر کے جیل پہنچا دیے جائیں گے اور وہیں سے وہ احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر سکیں گے۔

زاہد حسین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جتنی جلدی نواز شریف لوٹیں گے، اتنا ہی زیادہ انہیں ہمدردی کا ووٹ حاصل ہو گا اور لندن میں اُن کا قیام طویل ہونے کی صورت میں عوام کے اندر یہ ہمدردانہ جذبات بتدریج کم ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اُن کی عدم موجودگی میں پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر اور اُن کے بھائی شہباز شریف ابھی تک انتخابی مہم میں جان پیدا کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی طرف قدرے مصالحانہ اور صلح جوئی والا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب نواز شریف کے خلاف دیے جانے والے عدالتی فیصلے اس تاثر کو تقویت دے رہے ہیں کہ فوج عدلیہ کے ساتھ رابطے رکھتے ہوئے عدالت ہی کے ہاتھوں انہیں سیاسی میدان سے دور رکھنے کی کوشش میں ہے۔ حالیہ کچھ ایام کے دوران نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز شریف کا بیانیہ واضح طور پر ’’فوجی ایسٹیبلشمنٹ‘‘ کے خلاف رہا ہے۔

بشکریہ DW اردو

 

فیس بک کا پاکستانی الیکشن سے متعلق اپنی سیکورٹی بہتر بنانے کا اعلان

$
0
0

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک نے پاکستان میں الیکشن سے پہلے اپنی سیکورٹی بہتر بنانے کا اعلان کر دیا۔ پاکستان میں فیس بک کے نمائندے صارم عزیز کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فیس بک پاکستان سمیت پوری دنیا میں انتخابات کی شفافیت کیلئے کام کر رہی ہے اور اس مقصد کیلئے بڑی تعداد میں ملازمین بھی بھرتی کئے ہیں۔ فیس بک سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو تضحیک سے بچانے کیلئے بھرپور اقدامات کر رہی ہے جب کہ جعلی فیس بک اکاونٹس اور بے بنیاد افواہیں ختم کرنے کیلئے بھی کام جاری ہے۔ صارم عزیز نے مزید کہا کہ فیس بک انتظامیہ پاکستان کے انتخابی سسٹم کو سمجھنے اور اس ضمن میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
 


الیکٹ ایبلز کون ہوتے ہیں ؟

$
0
0

پاکستان میں ساون اور انتخابات کا موسم اپنے عروج پہ ہے۔ برسات میں مینڈک اور پتنگے ہر طرف منڈلاتے پھرتے ہیں۔ شام پڑے ہی دور دور سے مینڈکوں کی ٹر ٹر اور حشرات کی تن تن دب دب سنائی دینے لگتی ہے جو رات گئے تک باقاعدہ ایک راگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیمک کے لاروے جو سارا سال کھانے، سونے اور لوگوں کی عمر بھر کے اندوختوں کو چاٹنے میں مشغول رہتے ہیں، سال کے ان دنوں میں اڑنے بھی لگتے ہیں۔ چونکہ سارا سال حرام خوری کی ہوتی ہے اس لیے ان کی اڑان کی بساط بس یہاں سے وہاں تک ہی ہوتی ہے اور صبح کے وقت ان کے مردہ جسم، لیمپ پوسٹوں اور گھروں کے باہر لگی روشنیوں کے نیچے ایک بے حقیقت ڈھیر کی طرح پڑے ملتے ہیں۔

موسمی تبدیلیوں سے ساون کی شکل بدلی، لیکن اس برس، سالوں بعد ہمیشہ کی طرح چھاجوں مینہہ برسا اور لاہور میں عین جی پی او کے سامنے ایک اتا بڑا گڑھا اپنا بھاڑ سا منہ کھول کے مسلم لیگ ( ن ) کے ووٹ نگلنے کو نمودار ہو گیا۔ اس گڑھے کے اندر سے لاہور کی متنازع اورنج میٹرو کا سٹیشن جھانک رہا ہے اور زبانِ حال سے بہت کچھ بیان کر رہا ہے۔ ابھی پنجاب کے بہت سے علاقوں میں بارش کا پانی کھڑا ہی تھا کہ نوازشریف صاحب کو مریم نواز سمیت لندن کے فلیٹوں کی کیس میں سزا سنا دی گئی۔ سنا ہے لوگوں نے مٹھائی بانٹی، یہ بھی سنا کہ لوگوں نے احتجاج کیا، ہم خدا کے فضل و کرم سے دونوں سے محفوظ و مامون، مینڈکوں کی ٹر ٹر سنتے رہے۔

ان انتخابات میں باقی تمام صورت حال تو ویسی ہی ہے جیسی کہ ہمیشہ ہوتی ہے اور انتخابات کے بعد بھی ویسی ہی رہے گی جیسی کہ ہر انتخابات کے بعد رہتی ہے لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی ایک بہت دلچسپ اصطلاح ہاتھ لگی۔ یہ اصطلاح'الیکٹ ایبلز 'ہے۔ ان سے مراد وہ لوگ ہیں، جو کسی بھی نظریے، کسی بھی سیاسی جماعت، کسی بھی تصور کے محتاج نہیں ہوتے۔ ملک پہ بادشاہ حکومت کرے تب بھی، کولونیل دور آئے تب بھی، غیر جماعتی انتخابات ہوں تب بھی اور کوئی آمر حکومت بنائے تب بھی، یہ لوگ اس کا حصہ ہوتے ہیں۔

کسی زمانے میں لوگ ان کو اشرافیہ کہتے تھے پھر کچھ سر پھروں نے انہیں سٹیٹس کو کہنا شروع کیا، زیادہ بدتمیز لوگوں کو لکھنا پڑھنا آ گیا تو ایسے لوگ 'لوٹے'کہلانے لگے۔ یہ لوگ کسی بھی منشور پہ یقین نہیں رکھتے کیونکہ ان کا اپنا ایک نکاتی منشور ہوتا ہے،'اقتدار میں رہنا'۔ یہ لوگ، لسانی، قبائیلی، گروہی اور برادری ووٹ پہ کامیاب ہوتے ہیں اور اقتدار میں جانے کا ان کا مقصد بھی اپنے کاروبار، اپنی برادری کے لیے نوکریاں تلاش کرنا، اپنے لوگوں کو کلیدی عہدوں پہ فائز کرانا الغرض ہر وقت اپنے ہی پیٹ پہ ہاتھ پھیرنا ہوتا ہے۔

جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے ، دو عشرے پہلے جب تحریکِ انصاف کی داغ بیل پڑی تو ان کا نعرہ، تبدیلی اور انقلاب وغیرہ تھا۔ پاکستان میں یوں بھی آبادی کی غالب اکثریت نوجوانوں پہ مشتمل ہے تو یہ جوان، تبدیلی اور انقلاب کے رومانس میں مبتلا ہو کر جوق در جوق، پاکستان تحریکِ انصاف میں شامل ہوتے گئے۔ یہ دیکھ دیکھ کر میں بھی خوش ہوتی تھی کہ کم سے کم جوان اس ملک کو اپنا سمجھ کے، سیاسی عمل میں حصہ تو لے رہے ہیں اور ممکن ہے ان کے جوان خون کی حدت سے اس ارضِ وطن کے عارض ولب و گیسو بھی دمک اٹھیں اور اس کی بیمار جوانی کو شفا ہو جائے۔

مگر ہوا وہی جو ہر انقلاب کے ساتھ ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے تحریکِ انصاف کو اپنے لہو سے سینچا تھا، انہیں مقامی سطح پہ بھگتا کے وہی، چہرے جو اس میوزیکل چئیر میں بار بار نظر آتے ہیں اب کی بار پی ٹی آئی کے رنگ میں رنگے نظر آنے لگے۔ سیاسی لانڈری میں ڈرائی کلین ہونے کے بعد یہ پرانی بدبودار پوستینیں، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں سے نکل نکل کر پی ٹی آئی پہ ایسے جمع ہو رہی ہیں جیسے تازہ لاش پہ سردوگرم چشیدہ گدھ۔۔
تو اس بار انتخابات کے موسم میں ہمیں ایک نئی اصطلاح ملی ہے، آئندہ سے اپنے اپنے علاقے کے لوٹوں کو،'الیکٹ ایبلز 'لکھیں اور پکاریں ورنہ آپ کے دروازے پہ محکمہ زراعت کی جیپ آگئی تو ہم بالکل ذمہ دار نہ ہوں گے۔ اہلِ وطن کو برسات اور'الیکٹ ایبلز 'مبارک ہوں۔

آمنہ مفتی
مصنفہ و کالم نگار

بشکریہ بی بی سی اردو
 

عبدالستار ایدھی : لاوارثوں کے وارث کا دن

$
0
0

عبدالستار ایدھی 28 فروری 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 11 برس کی عمر میں اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو ذیابیطس میں مبتلا تھیں، صرف 5 ہزار روپے سے اپنے پہلے فلاحی مرکز ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد ڈالی۔ ایدھی نے لاوارث بچوں کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور بے سہارا خواتین اور بزرگوں کے لیے مراکز قائم کیے۔ عبدالستار ایدھی 8 جولائی 2016ء میں گردوں کے عارضے میں مبتلا ہو کر 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ 6 دھائیوں تک انسانیت کی بلاتفریق خدمت کرنے والے ایدھی، انتقال سے قبل تقریباً 20 ہزار بچوں کی سرپرستی کررہے تھے۔ 








پاکستان میں 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا اسکینڈل

$
0
0

پاکستان میں سرکاری، نیم سرکاری اور نجی شعبوں میں سرایت کر جانے والی کرپشن کا ایک اور کیس گزشتہ روز اس وقت منظر عام پر آیا جب جعلی اکائونٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ اسکینڈل سے متعلق سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت شروع ہوئی، عدالت عظمیٰ نے تین بینکوں کے سربراہوں اور جعلی اکائونٹس سے فائدہ اٹھانے والے دیگر افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ یہ لوگ معاملے کی انکوائری مکمل ہونے تک ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ 

جعلی اکائونٹس رکھنے والے 7 افراد سمیت ان اکائونٹس سے فائدہ اٹھانے والے 13 افراد کو 12 جولائی کو عدالت میں طلب کر لیا گیا ہے۔ ان میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور بھی شامل ہیں۔ ان سب کو نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں، اسٹیٹ بینک کو اسیکنڈل میں ملوث ایک بینک کی 7 ارب روپے کی زر ضمانت بھی منجمد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم عدالت کے تین رکنی بینچ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ جعلی بینک اکائونٹس اور ان کے ذریعے ہونے والی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے لئے پانامہ لیکس کیس کی طرز پر جے آئی ٹی بنائی جائے جس میں مالیاتی ماہرین بھی شامل ہوں۔ 

اس کیس کی انکوائری 2010 میں شروع ہوئی۔ ابتدا میں چار اکائونٹس کی نشاندہی ہوئی تاہم اب ان کی تعداد 29 ہو گئی ہے جن کے ذریعے 35 ارب روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی، پانامہ لیکس اور بعض دوسرے کیسز کے بعد اتنی بڑی منی لانڈرنگ کا کیس ہمارے مالیاتی نظام پر ایک اور بدنما داغ ہے۔ کرپشن ایک عالمی مسئلہ ہے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے جائزے کے مطابق کرپشن کے لحاظ سے 180 ملکوں میں پاکستان کا نمبر 117 واں ہے۔ یعنی 116 ممالک ہم سے بھی زیادہ کرپٹ ہیں جبکہ 63 ممالک ایسے ہیں جو ہم سے کم کرپٹ ہیں۔ 

وطن عزیز میں کرپشن قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔ اس پر قابو پانے کے لئے سب سے پہلے 1947 میں انسداد بدعنوانی ایکٹ بنا۔ پھر 1950 اور 1958 میں مزید ایکٹ نافذ کئے گئے۔ مگر مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں میں کمی نہ آسکی۔ 1999 میں قومی احتساب بیورو (نیب) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ورلڈ بینک اور بعض دوسرے بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ کرپشن زیادہ تر نچلے درجے کی عدلیہ، بیورو کریسی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے کچھ اداروں تعلیم، ہیلتھ کیئر، ٹیکسیشن، اسپورٹس اور مفاد عامہ کے بعض محکموں میں ہوتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق کرپشن، ٹیکس چوری اور خراب حکمرانی کے باعث پاکستان کو 94 ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ کرپشن کو سول حکومتیں روک سکیں نہ فوجی۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ کرپشن روکنے والے اداروں کے بدعنوان اہلکار خود کرپشن کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کرپٹ عناصر کو بالعموم بااثر لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ مواخذے سے بچے رہتے ہیں تاہم کچھ عرصہ سے انتظامی محکموں اورمالیاتی اداروں میں کرپشن کی نشاندہی اور ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کے لئے جو کام ہو رہا ہے اس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ان میں منی لانڈرنگ کا تازہ کیس سب سے نمایاں ہے۔

یہ تو تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ اس میں جن لوگوں کے ملوث ہونے یا اس سے فائدہ اٹھانے والوں کے نام ہیں وہ قصور وار ہیں یا نہیں، لیکن تحقیقاتی ایجنسیوں نے اس کا کھوج لگا کر قابل قدر کام کیا ہے۔ اس وقت کرپشن کے کئی بڑے کیس زیر سماعت ہیں۔ اس حوالے سے ضروری ہے کہ احتساب سب کا ہو۔ صرف چند لوگوں کو نشانہ بنانے سے انتقامی کارروائی کا تاثر ابھرتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ احتساب کے نظام میں اصلاحات لائی جائیں اور حکومتی اداروں میں کرپشن روکنے کے لئے موثر پالیسی بنائی جائے۔ یہ بات بھی مدنظر رکھی جائے کہ کرپشن میں پکڑ دھکڑ سے پرامن اور غیر جانبدارانہ انتخابات متاثر نہ ہوں۔ انتخابات میں کم دن رہ گئے ہیں یہ مرحلہ بخیر و خوبی گزر جانا چاہئے۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

حُبِّ جاہ اور حُبِّ مال اور پاکستان کی تاریخ

$
0
0

میں نے پاکستان کی تاریخ کو دلچسپی سے پڑھا اور کچھ طالب علمانہ تحقیق بھی کی ہے چنانچہ میں قرآن حکیم کے فرمان کو اپنی تاریخ پر اپلائی کر کے اسے دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ قرآن مجید کا فرمان ہے کہ حُبِّ جاہ یعنی حُبِّ اقتدار، شان و شوکت، دبدبے اور ٹوہر کی ہوس اور حُبِّ مال یعنی دولت کے حصول کی ہوس فتنہ ہیں اور انسان کی تذلیل کا باعث بنتی ہیں۔ خواہش، ہوس اور شہوت میں بڑا فرق ہے جس پر پھر کبھی لکھوں گا۔ البتہ میں نے اپنی گناہگار آنکھوں سے لوگوں کومال و دولت کی ہوس اورہوس کی اگلی منزل شہوت میں مبتلا دیکھا ہے۔ خواہش جائز طریقوں سے پوری کی جاتی ہے، ہوس جائز طریقوں کی پامالی سے تسکین پاتی ہے اور شہوت وہ آگ ہے جو نہ صرف ناجائز اور ظالمانہ طریقوں سے بھی مطمئن نہیں ہوتی بلکہ انسان اس کی تسکین کے لئے ہمیشہ ہوس کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ 

بے شک حُبِّ جاہ اور حُبِّ مال دنیا میں بھی تذلیل کا باعث بنتی ہیں اور یوم حساب بھی شاید کچھ ایسا ہی انجام ہو گا جس کا علم صرف میرے رب کو ہے۔ ایک وضاحت ضروری ہے کہ جاہ یعنی اقتدار، طاقت اور بالادستی کی خواہش خدمت کے جذبے سے معمور ہو اور حصول اقتدار کامقصد محض خدمت ہو تو وہ صدقہ جاریہ بن جاتی ہے لیکن اگر حُبِّ اقتدار یعنی حُبِّ جاہ نفس کی تسکین اور شان و شوکت کے لئے ہو تو اکثر حُبِّ مال بھی ساتھ لاتی ہے اور انسان اقتدار سے فائدہ اٹھا کر دولت کے انبار بھی اکٹھے کرتا ہے اور آمرانہ رجحانات بھی پالتا ہے جو عام طور پر تکبر اور غرور کے مرض کو پروان چڑھاتے ہیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق ہوس اقتدار عام طور پر ہوس مال کو جنم دیتی ہے اور پھر یہ ہوس تکبر کو پروان چڑھاتی ہے۔

بغور مطالعہ کریں تو احساس ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کےفوراً بعد تحریک ِ پاکستان کے رہنمائوں کا برسراقتدار آنا محض خدمت کے جذبے کا کارنامہ تھا۔ یہ لوگ نہ اقتدار سے چمٹے رہنے کے قائل تھے اور نہ ہی کبھی وہ حُبِّ مال کی خواہش میں مبتلا ہوئے۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو محکمہ بحالیات کے اعلیٰ افسران نے خوشامد کے انداز میں بہترین جائیدادیں الاٹ کرنے کی پیشکش کی کیونکہ لیاقت علی خان ہزاروں ایکڑ اراضی اور قیمتی جائیدادیں ہندوستان میں چھوڑ آئے تھے لیکن انہوں نے ان افسران کو ڈانٹ دیا اور کہا کہ جب تک آخری مہاجر کو چھت نہیں مل جاتی وہ گھر بھی الاٹ نہیں کروائیں گے۔ مرحوم قدرت اللہ شہاب نے عینی شاہد کی حیثیت سے اس واقعہ کی تفصیلات لکھی ہیں اور ’’شہاب نامہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ نوابزادہ لیاقت علی غصے میں تھے اور آکر کہنے لگے کہ ہمیں خوشامدیوں سے بہرحال محتاط رہنا ہے اور خوشامد کی ہر صورت حوصلہ شکنی کرنی ہے۔ 

چنانچہ نوابزادہ شہید ہوئے تو ان کے بچوں کے لئے پاکستان میں سر چھپانے کی جگہ بھی موجود نہیں تھی اور بقول جمشید مارکر ان کا بینک بیلنس بھی شرمندگی کی حد تک کم تھا۔ ان کی جگہ خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بنے تو وہ بھی حُبِّ جاہ اور حُبِّ مال سے نہ صرف بے نیاز بلکہ پاک و صاف تھے۔ ان کی جگہ بیوروکریٹ غلام محمد گورنر جنرل بنا تو وہ حُبِّ جاہ کی ایک عمدہ مثال تھا۔ گورنر جنرل غلام محمد فالج زدہ تھا۔ بات کرتا تو منہ سے فقط غوں غوں کی آواز نکلتی، اسے سلانے کے لئے ڈاکٹر ٹیکے لگاتے، امریکن سیکرٹری مس بورل کے علاوہ کوئی ان کی زبان نہ سمجھتا اور وہ ہی ان کے ’’فرمودات‘‘ کا ترجمہ کرتیں۔ بستر کے ساتھ چپک جانے کی باوجود غلام محمد اقتدارچھوڑنے پر آمادہ نہ تھے اور بقول عینی شاہد جناب قدرت اللہ شہاب کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان، اسکندر مرزا اور چوہدری محمد علی نے مل کر ان کے خاندان کی مدد سے ہزار جتن کر کے غلام محمد سے استعفیٰ لیا اور انہیں کراچی میں ان کی بیٹی کے گھر منتقل کیا۔ 

اس پر ایک دوسرے عینی شاہد جناب الطاف گوہر مرحوم کا مضمون ’’گونر جنرل اِن دی بیگ‘‘ پڑھنے کے لائق ہے۔ اس فالج زدہ گورنر جنرل نے 1954 میں دستور ساز اسمبلی تحلیل کی اور اس سے قبل 1953 میں خواجہ ناظم الدین کو وزارت ِ عظمیٰ سے نکالا۔ غلام محمد کی جگہ اسکندر مرزا محلاتی سازشوں کے ذریعے گورنر جنرل بنے۔ وہ بھی حُبِّ جاہ و جلال کی اعلیٰ مثال تھے۔ مارشل لا لگانے کے بعد جب جنرل ایوب خان اسکندر مرزا کو جلاوطن کیا تو اسے زندہ رہنے اور پیٹ پالنے کے لئے ایک ہوٹل میں منیجری کرنی پڑی۔ مختصر یہ کہ ہماری تاریخ کے دو ڈھائی دہائیوں پرمحیط حکمران حُبِّ جاہ ضرور رکھتے تھے لیکن حُبِّ مال سے خاصی حد تک پاک تھے۔ اس عرصے میں کوئی وزیراعظم اور کوئی سربراہ بھی عزت سے رخصت نہ ہوا۔ سوائے قائداعظم محمد علی جناح کے جنہوں نے اپنی پوری زندگی، فیملی لائف اور زندگی بھر کی جمع پونجی قوم کو دے دی اور ماسوا لیاقت علی خان کے جنہوں نے سادہ طرز ِ حکومت، قومی خدمت اور حُبِّ مال سے پرہیز کی مثالیں قائم کیں۔

مختصریہ کہ 1988 تک کے بعض حکمرانوں پر حُبِّ جاہ یاہوس اقتدار کا الزام تو آسانی سے لگایا جا سکتا ہے جن میں سارے آرمی ڈکٹیٹر شامل ہیں لیکن ان پر حُبِّ مال کا الزام مشکل سے لگتا ہے۔ اس کے باوجود وہ ذلیل ہو کر اقتدار سے نکلے اور عبرت کی مثالیں بن گئے البتہ پرویز مشرف دونوں امراض کے مریض تھے۔ دراصل دوستو! یہ دنیا اور زندگی عبرت کا مقام اور عبرت کی جگہ ہے بشرطیکہ ہم آنکھیں کھلی رکھیں اور غور و فکر کی عادت ڈالیں۔ ’’دارالفنا‘‘ اس دنیامیں ہر شے کو فنا ہے سوائے نیکی اور رضائے الٰہی کے۔ رہی اقتدار کی ہوس یا قرآنی الفاظ میں حُبِّ جاہ تو ہم نے خاندان ِ مغلیہ کے آخری علامتی حکمران بہادر شاہ ظفر کے الفاظ میں تاریخ میں صبح کے تخت نشینوں کو شام کو مجرم ٹھہرتے دیکھا مگر پھر بھی ہم عبرت حاصل کرتے ہیں نہ ’’قلب‘‘ کو حُبِّ جاہ اورحُبِّ مال سے پاک کرتے ہیں۔

میرے طالب علمانہ مشاہدے کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں حُبِّ جاہ اورحُبِّ مال 1988 کے بعد یکجا ہوئے اور یہ کسی حد تک اس طرز ِ سیاست کا شاخسانہ تھے جس کی داغ بیل جنرل ضیاء الحق نے ڈالی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد جنم لینے والی قیادت نے نہ صرف آمرانہ انداز اور شان و شوکت سے حکومتیں کیں بلکہ مال و دولت کما کر بیرونی ممالک میں اعلیٰ اور قیمتی جائیدادیں بھی خریدیں۔ ناجائز طریقوں سے کمائی گئی دولت چھپانے کا یہی بہترین طریقہ تھا کہ بیرون ملک بینکوں میں سرمایہ بھی محفوظ کیا جائے اورمحلات بھی خریدے جائیں۔ امریکی صحافی سکسنڈ نے اپنی کتاب میں چسکے لے کر نیویارک کے مہنگے ترین علاقے ’’مین ہٹن‘‘ میں بینظیر بھٹو کی خریدی گئی جائیداد اوربلاول کو کی گئی فون کالز کا ذکر کیا ہے جن میں بینظیر نے بلاول کو کچھ خفیہ اکائونٹس کے راز منتقل کئے تھے۔ سرے محل، یو اے ای اور فرانس میں خریدی گئی جائیدادوں کی تفصیلات زبان زد عام ہیں اور زرداری صاحب کی ملکیت ہیں۔ نہ سوئٹزرلینڈ سے زرداری کے کمیشن کے طور پر حاصل کردہ کروڑوں ڈالر واپس لائے جا سکے اور نہ ہی ان کی بیرون ملک جائیدادوں کا حساب لیا جا سکا۔

میاں نوازشریف کے خلاف نیب کرپشن کا ثبوت تو نہ دے سکا لیکن میاں صاحب ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کا نہ منی ٹریل دے سکے نہ ان کی خرید کے لئے جائز وسائل کا ثبوت دے سکے۔ قانون کی نظر میں آمدنی سے زیادہ جائیداد Living beyond means بھی کرپشن ہی ہے اور یہی وہ الزام ہے جس کا جواز عدالت کو مطمئن نہ کر سکا۔ ایسا نہیں کہ 1988 کے بعد برسراقتدارآنے والی قیادتوں نے ملک و قوم کی خدمت نہیں کی۔ بلاشبہ اپنی اپنی حد تک انہوں نے خدمت کی اورمیاں صاحب کے موٹروے، ایٹمی دھماکے اور سی پیک بڑے کارنامے ہیں لیکن بالآخر جوالزام انہیں لے ڈوبا وہ حُبِّ مال کا الزام تھا جس کے ابھی کچھ مقدمات کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ میری کیا حیثیت، میری کیا مجال لیکن یاد رکھیں کہ قرآن مجید نے حُبِّ جاہ اور حُبِّ مال کو فتنہ قرار دیا ہے جو تذلیل کا باعث بنتا ہے۔ یہ ایک طرح کی آزمائش ہے۔ اگر انسان اقتدار اور دولت کو رضائے الٰہی اور خدمت کے لئے استعمال کرے تو وہ سرخرو ہو گا ورنہ عبرت کی مثال بن جائے گا۔ فیصلہ ہمارا اپنا ہوتا ہے جس میں قدرت دخل نہیں دیتی۔

ڈاکٹر صفدر محمود
 

پاکستان میں شعبہ طب میں نئی تاریخ رقم

$
0
0

پانی کے شدید بحران، امن و امان کی مخدوش صورتحال، لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں اضافے کے باعث ملک کے کئی شہروں میں مظاہرے اور احتجاج کی خبریں اخبارات میں دیکھ کر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ جیسے ملک کا انتظامی ڈھانچہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے، ادارے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے آپس میں دست و گریباں ہیں مگر بعض خبروں سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ملک میں اب بھی بعض ایسے ادارے موجود ہیں جو وسائل کی کمی اور حکومت کی بے توجہی کے باوجود کارنامے انجام دے رہے ہیں جس کا ثبوت پاکستان میں پہلی بار مصنوعی دل لگانے کا کامیاب آپریشن ہے۔

قومی ادارہ امراض قلب کے ماہرین نے پاکستان کی تاریخ اور ایشیائی ممالک میں پہلی مرتبہ 62 سالہ خاتون نفیسہ میمن جن کا دل 15 فیصد کام کر رہا تھا، جسے شعبہ طب میں ہارٹ فیلیور کہا جاتا ہے، کو مصنوعی دل لگایا، قومی ادارہ امراض قلب کے ماہر ہارٹ ٹرانسپلانٹیشن ڈاکٹر پرویز چوہدری کی سربراہی میں یہ آپریشن مسلسل 5 گھنٹے جاری رہا۔ قومی ادارہ برائے امراض قلب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ندیم قمر نے بھی بتایا کہ صرف پورے خطے بلکہ ترقی یافتہ ممالک کے بڑے ہسپتال میں بھی یہ آپریشن نہیں کیا جاتا۔ یہ آپریشن بلامعاوضہ کیا گیا ہے۔ جبکہ ملک سے باہر اس آپریشن پرڈیڑھ کروڑ کے اخراجات آتے ہیں۔

شعبہ طب میں نئی تاریخ رقم کی گئی ہے۔ اب یہ حکومت اور مخیر حضرات کی ذمہ داری ہے کہ ایسے اداروں کی مالی امداد کریں جو انسانیت کی فلاح میں سرگرم عمل ہیں۔ ملک میں ماہر ڈاکٹرموجود ہیں جبکہ نوجوانوں کی بڑی تعداد میڈیکل کالجوں سے حصول تعلیم کے بعد روزگار کی تلا ش میں ہے، حکومت طبی شعبہ پر خصوصی توجہ دے اور مخیر حضرات مالی وسائل فراہم کریں تاکہ ملک کے ماہر ڈاکٹر بیرون ملک جانے کی بجائے ملک میں ہی کام کریں اور مریضوں،حاجت مندوں کے کام آئیں ۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live