Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

انور مقصود نے معزرت کر لی

$
0
0

معروف ادیب، دانشور، صحافی، مزاح نگار اور اداکار انور مقصود نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک مزاحیہ پروگرام پر تنقید کے بعد معزرت کر لی ہے۔ انور مقصود نے معزرت انوار نامہ کے نام سے معروف پروگرام میں ’’ایک سندھی کا انٹرویو‘‘ پر کئے جانے والے پروگرام پر کی۔ یہ پروگرام جوں ہی سوشل میڈیا آن ایئر ہوا سندھی زبان بولنے والوں نے ایک طوفان برپا کر دیا اور انور مقصود کی سخت مذمت کی۔

صورت حال کے پیش نظر انور مقصود نے معزرت کرتے ہوئے اس وڈیو کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ڈیلیٹ کر دیا ہے، اور وضاحت کی ہے کہ وہ خود کو سندھی سمجھتے ہیں اور ان کا ایم کیو ایم سمیت کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں، سندھی کا انٹرویو محض مذاق اور مزاح پر مبنی پروگرام تھا، تاہم اس مذاق سے دل آزاری ہوئی ہو تو وہ معافی کا طلب گار ہیں ۔
 


پاکستان میں تعلیم میں بھی کرپشن ؟

$
0
0

پاکستان ذہین، صلاحیتوں سے مالا مال اور محنتی لوگوں کا ملک ہے اور انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں دنیا سے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ نوبل انعامات اور دوسرے بین الاقوامی ایوارڈز اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ کامیابیاں ضروری سہولتوں سے محروم اور کمزور تعلیمی نظام کے باوجود حاصل کی گئیں۔ ماہرین اس بات سے متفق ہیں کہ اگر ہمارے ہاں تعلیم عالمی معیارکے مطابق سستی اور عام ہوتی اور اس شعبے میں ہر کام میرٹ پر ہوتا تو ہمارے طالب علم اور اسکالر اپنے کارہائے نمایاں سے ملک کو تعمیر و ترقی کی بلندیوں پر پہنچا سکتے تھے مگر بد قسمتی سے جس طرح دوسرے شعبوں میں ہم وقت کے تقاضے پورے نہیں کر سکے اسی طرح تعلیم کے میدان میں کما حقہ ترقی نہیں کر سکے۔ اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ تعلیمی اداروں میں میرٹ پر تقرریوں کا فقدان ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے مفاد عامہ کے مقدمات کی سماعت کے دوران چاروں صوبوں میں بہت سے شعبوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں، گھپلوں اور خامیوں کا نوٹس لیا ہے، ان میں تعلیم کا شعبہ بھی شامل ہے۔ لاہور میں میرٹ کے برخلاف تقرریوں کے حوالے سے ایک از خود نوٹس کی سماعت کے دوران انہوں نے چار سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو مستعفی ہونے کا حکم دیتے ہوئے سرچ کمیٹی کو 6 ماہ میں میرٹ پر ان کی جگہ مستقل تقرریوں کی ہدایت کی ہے۔ تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر، ان کے حکم کی تعمیل میں مستعفی ہو گئے جبکہ ایک کے انکار پر اس کو معطل کر دیا گیا۔ عبوری عرصے میں ان یونیورسٹیوں کے سینئر ترین پروفیسروں کو قائم مقام وائس چانسلر تعینات کیا جائے گا۔ جناب چیف جسٹس نے میرٹ کے برخلاف تقرریوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پنجاب میں تعلیم کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔

درحقیقت پنجاب ہی نہیں تقریباً تمام صوبوں میں تعلیم کی یہی صورتحال ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ملک میں زیادہ تر اسکول کالج اور یونیورسٹیاں سرکاری تھیں اچھے نجی اور مشنری ادارے بھی موجود تھے سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تقرریوں اور طلبہ کے داخلوں سمیت تمام امور میں میرٹ کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ تعلیم تجارت بننے لگی آج ملک کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاں گھوسٹ سرکاری سکول، گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ طالب علم نہ ہوں۔ علاقے کے بااثر لوگ سکولوں میں زیادہ تر اپنی پسند کے نالائق لوگوں کو رکھوا لیتے ہیں بعض جگہوں پر اسکول محض کاغذات میں ظاہر کئے جاتے ہیں حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ ان گھوسٹ اسکولوں میں کاغذی ٹیچر بھی ہوتے ہیں جن کی تنخواہوں کی رقم کرپٹ لوگوں کی جیبوں میں جاتی ہے۔

ایسے کئی اسکول چھاپوں کے نتیجے میں بند بھی ہوئے، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خواہ وہ سرکاری ہوں یا نجی، میرٹ پر تقرریاں کم ہی ہوتی ہیں۔ نجی شعبے میں بھاری فیسیں وصول کرنے والے اسکولوں اور کالجوں کی جو بھر مار نظر آتی ہے ان میں اکثر معمولی معاوضوں پر میرٹ پر پورا نہ اترنے والے ٹیچر رکھ لئے جاتے ہیں ۔ یونیورسٹیوں میں اتنا تحقیقی کام نہیں ہو رہا جو کسی یونیورسٹی کا لازمی خاصہ ہے۔ میرٹ کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں ہمارے اکثر سکالر باہر جانے پر مجبور ہیں یہ صورتحال یقیناً ملک میں ’’تعلیم کا بیڑہ غرق‘‘ کرنے کے مترادف ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے تعلیمی نظام کا از سر نو حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے۔

معیار تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ تدریسی اور انتظامی شعبوں میں سیاسی تقرریاں بند کی جائیں اور خالصتاً میرٹ پر امیدواروں کا انتخاب کیا جائے۔ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کے لئے پی ایچ ڈی ہونا لازمی قرار دیا جائے، سرکاری تعلیمی اداروں میں ’’معائنے‘‘ کا پرانا نظام رائج کیا جائے اور نجی شعبے کے اداروں کے لئے ملازمتوں کا اعلیٰ معیار مقرر کیا جائے جس پر پورا نہ اترنے والے اداروں کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے۔ تعلیم کے شعبے کو موثر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ تعلیمی اصلاحات پر فی الفور کام شروع کر دیا جائے۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

پیاس سے ترقی تک، گوادر بندرگاہ کی دبئی بننے کی خواہش

$
0
0

گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کا یہ خواب ہے کہ گوادر کی اہم اسٹریٹیجک بندرگاہ کو ڈیوٹی فری اور فری اکنامک زون میں تبدیل کر دیا جائے۔ کیا پینے کے صاف پانی کی قلت کا شکار یہ پاکستانی بندرگاہ دبئی کا مقابلہ کر سکے گی؟
پاکستان اور چین مل کر ایران کے قریب اور خلیج فارس کے دہانے پر واقع اس بندرگاہ کو علاقائی، تجارتی، صنعتی اور جہاز رانی کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ یہ بندرگاہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کا حصہ ہے۔ سی پیک کے ذریعے چین کو مشرق وسطیٰ تک محفوظ اور مختصر ترین تجارتی راستہ حاصل ہو جائے گا اور پاکستانی معیشت بھی اس سے فائدہ اٹھا سکے گی۔

فی الحال پاکستان کے اس ’نئے دبئی‘ کی اصل دبئی سے صرف ایک مماثلت ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہاں بھی پانی کی شدید کمی ہے۔ ایک مقامی صحافی ساجد بلوچ کا تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’گزشتہ تین برسوں سے یہاں بارش نہیں ہوئی۔ ‘‘ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے زیر انتظام گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ ’گوادر کی پیاس‘ میں موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی بڑا کردار ہے۔ ان کے مطابق اس وقت گوادر کو پانی کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ 

گوادر کے مضافات میں واقع آنکارا کور ڈیم میں پانی کے ذخائر دو برس پہلے ہی خشک ہو گئے تھے اور اب پانی دور دراز کے علاقوں سے لایا جا رہا ہے۔ دور سے لایا جانے والا کچھ پانی تو اس قدر آلودہ ہوتا ہے کہ اس سے ہیپاٹائٹس جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ عبدالرحیم کے مطابق، ’’زیر زمین پانی بھی نہیں نکالا جا سکتا کیوں کہ زیر زمین پانی نمکین ہو چکا ہے۔ ‘‘ آبادی میں تیزی سے اضافہ
فی الحال گوادر کی آبادی ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے لیکن اندازوں کے مطابق سن دو ہزار بیس تک یہ آبادی بڑھ کر پانچ لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ گوادر میں معاشی سرگرمیوں سے پہلے مقامی آبادی کا انحصار زیادہ تر ماہی گیری پر تھا اور حکومت کے ان بڑے منصوبوں سے انہیں ابھی تک براہ راست کم ہی فائدہ پہنچا ہے۔

ایک مقامی ماہی گیر رسول بخش کا کہنا تھا، ’’ہم پیاس سے مر رہے ہیں۔ بجلی کبھی ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی، علاقے میں ڈاکٹر نہیں ہیں اور ہر طرف کوڑا کرکٹ بکھرا نظر آتا ہے۔ کوئی اسے اٹھانے والا نہیں ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’پہلے ہمارے یہ مسائل حل کریں اور پھر اسے دبئی بنانے کا خواب دیکھیں۔‘‘
اس شہر کے زیادہ تر لوگ پانی ان ٹینکروں سے خریدتے ہیں، جو دو گھنٹے کی مسافت پر واقع میرانی ڈیم سے بھر کر لائے جاتے ہیں۔ رسول بخش کے مطابق یہ ٹینکر بھی ایک ماہ میں دو یا تین مرتبہ ہی ان کے علاقے میں آتے ہیں۔ صوبے میں منصوبہ بندی اور ترقیاتی امور کے شعبے کے سیکرٹری محمد علی کاکڑ کے مطابق گوادر سٹی کو روزانہ ساڑھے چھ ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے لیکن ٹینکر صرف دو ملین گیلن پانی ہی فراہم کر پاتے ہیں۔

کیا یہ مسائل حل ہو پائیں گے؟
پانی کی شدید قلت پر قابو پانے کے لیے چینی ماہرین کی مدد سے اس علاقے میں سمندری پانی صاف کرنے کے دو پلانٹ تعمیر کیے گئے ہیں۔ چھوٹا پلانٹ روزانہ دو لاکھ گیلن پینے کا صاف پانی فراہم کر سکتا ہے جبکہ حال ہی میں تکمیل پانے والا دوسرا پلانٹ ڈیوٹی فری زون میں تعمیر کیا گیا ہے اور یہ روزانہ تقریباﹰ چار لاکھ گیلن صاف پانی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ساجد بلوچ کے مطابق ان دونوں پلانٹس کا انحصار جنریٹرز سے حاصل کردہ بجلی پر ہے اور انہیں چلانے کے لیے گوادر میں بجلی بھی ناکافی ہے۔ کچھ ماہی گیروں کے مطابق اب وہ پانی بندرگاہ سے خریدتے ہیں اور تین لیٹر پانی کے لیے قریب پچاس روپے ادا کرتے ہیں۔

بندرگاہ کی آپریشنز اتھارٹی کے ڈائریکٹر گل محمد کے مطابق، ’’ہم ڈیوٹی فری زون میں بھی بڑے پلانٹ سے اٹھانوے پیسے فی گیلن پانی فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے لیے بلوچستان حکومت کو ہمارے ساتھ معاہدہ کرنا ہو گا۔‘‘
ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے عبدالرحیم کے مطابق صوبائی حکومت کی طرف سے معاہدہ نہ کرنے کہ وجہ بارش کی امید ہے۔ صوبائی حکام کے مطابق بارش ہونے سے آنکارا کور ڈیم دوبارہ بھر جائے گا۔ دوسری جانب پاکستانی فوج بھی متحدہ عرب امارات اور سوئٹزرلینڈ کی مدد سے اس علاقے میں پانی صاف کرنے کا ایک پلانٹ تعمیر کر رہی ہے، جو اس علاقے کو روزانہ چوالیس لاکھ گیلن پانی فراہم کر سکے گا۔ پاکستانی فوج کے مطابق علاقے میں بہتر سہولیات اور صاف پانی کی فراہمی سے مقامی سطح پر حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔

پاکستانی فوج نے مقامی آبادی کے دل جیتنے کے لیے یہاں ماہر ڈاکٹر بھی تعینات کیے ہیں، جو مقامی ہسپتالوں میں کام کر رہے ہیں۔ ایک نئی سڑک سے بندرگاہ کو مکران ساحلی ہائی وے سے جوڑ دیا جائے گا جبکہ گوادر کا زیر تعمیر ایئر پورٹ مستقبل میں پاکستان کا سب سے بڑا ایئر پورٹ ہو گا۔ گوادر میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے لیے چائنہ پاور کمپنی تین سو میگا واٹ کا ایک پلانٹ بھی لگا رہی ہے جبکہ اس علاقے میں سیاحوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ بندرگاہ کے سکیورٹی افسر منیر احمد کا کہنا تھا، ’’ گزشتہ دو برسوں کے دوران گوادر کی سکیورٹی میں بہتری آئی ہے۔ اگر حالیہ عرصے میں ہونے والی پیش رفت کو دیکھا جائے تو ’نیا دبئی‘ تعمیر کرنے کا خواب ایک عشرے یا اس سے کچھ زائد عرصے میں اپنی تعبیر سے ہمکنار ہو جائے گا۔‘‘

بشکریہ DW اردو
 

فیس بک میں آپ کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں ؟

$
0
0

سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے صارفین کی تعداد دنیا میں 2 ارب سے زائد جبکہ پاکستان میں ہی کروڑوں افراد اسے استعمال کرتے ہیں، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اس پر کیا پوسٹ کر سکتے ہیں اور کیا نہیں؟ گزشتہ سال مئی میں برطانوی روزنامے دی گارڈین نے فیس بک کی مواد کی مانیٹرنگ یا اس کو منظور یا مسترد کرنے کے حوالے سے موجود رہنماء اصول کی دستاویزات کو لیک کیا تھا۔ اب لگ بھگ ایک سال بعد یا یوں کہہ لیں کہ اپنے قیام کے 14 سال بعد آخر کار فیس بک نے ان رہنماءاصولوں کو عام صارفین کے لیے پیش کر دیا ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ وہ اس سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں.

اسی طرح کمپنی نے کسی پوسٹ کو بلاک یا ہٹائے جانے پر ایپل کے نئے طریقہ کار کو بھی متعارف کرایا ہے۔ فیس بک کے کمیونٹی اسٹینڈرڈ 27 صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں اور یہ بدزبانی، پرتشدد دھمکیوں، خود کو نقصان پہنچانے، فحش مواد سمیت متعدد دیگر موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ فیس بک کی گلوبل پالیسی منیجمنٹ کی سربراہ مونیکا بیکریٹ کے مطابق 'یہ حقیقی دنیا کے مسائل ہیں، وہ برادری جو فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرتی ہے، درحقیقت حقیقی دنیا کی عکاسی کرنے والی برادری ہے، تو اس حوالے سے ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہئے، بیشتر افراد فیس بک پر متعدد اچھی وجوہات کی بناء پر آتے ہیں، مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو توہین آمیز مواد کو پوسٹ کرنے یا رویے کا اظہار کریں گے، ایسی چیزوں کو برداشت نہ کرنے کے حوالے سے ہماری اپنی پالیسی ہے، ہمیں رپورٹ کریں اور اس مواد کو ہٹا دیں گے'۔

ان رہنماء اصولوں کا اطلاق ہر اس ملک میں ہوتا ہے جہاں فیس بک کام کر رہی ہے اور اسے جلد 40 سے زائد زبانوں میں ترجہ بھی کیا جائے گا، جس کے لیے کمپنی نے دنیا بھر کے ماہرین اور گروپس کی مدد حاصل کی ہے۔ ان اصولوں کے بیشتر حصے کا اطلاق فیس بک کی دیگر سروسز جیسے انسٹاگرام وغیرہ پر بھی ہوتا ہے۔ کمپنی کی جانب سے مواد ماڈریٹ کرنے والے عملے کی تعداد میں دوگنا اضافہ کر کے 10 ہزار کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس پر رواں سال کے آخر تک عملدرآمد ہو گا، جبکہ کمپنی نئی چیزوں کے مسلسل سامنے آنے پر ان گائیڈ لائنز کو بھی اپ ڈیٹ کرے گی۔
 

نادرا شناختی کارڈ فیس میں 100 فیصد اضافہ

$
0
0

نادرا نے شناختی کارڈ کی فیسوں میں 100 فیصد اضافہ کرتے ہوئے نارمل فیس 400 روپے اوورسیز کیلئے فیسوں میں معمولی کمی کر دی، ملک بھر کے دفاتر کو آگاہ کر دیا ہے کہ نئی فیسوں کا اطلاق فوری اور آج ہی سے ہو گا۔ اس حوالے سے ملک بھر کے نادرا دفاتر کو آگا ہ کر دیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کی ارجنٹ فیس 500 روپے سے بڑھا کر 1150 روپے کر دی گئی ہے۔ اسمارٹ کارڈ کی نارمل فیس 300 سے بڑھا کر 750 روپے اور ارجنٹ فیس 750 سے بڑھا کر 1500 روپے کی گئی ہے اس کے علاوہ اسمارٹ کارڈ کی تجدید کی فیس میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ 

نارمل شناختی کارڈ کی فیس 200 روپے سے بڑھ کر اب 400 روپے اور 1600 روپے میں بننے والا ایگزیکٹو شناختی کارڈ اب 2500 روپے میں بنے گا جبکہ اوورسیز پاکستانیوں کے شناختی کارڈز کی فیسوں میں چند سو روپے کمی کی گئی ہے۔ شناختی کارڈ کی فیسیں بڑھانے کی منظوری گزٹ آف پاکستان نے دی ہے ۔نائیکوپس کارڈز کی فیس زون اے نارمل 39 ڈالر ارجنٹ 57 ڈالر اور ایگزیکٹو سمارٹ کارڈ کی فیس 78 ڈالر وصول کی جائے گی ۔ زون بی میں نارمل سمارٹ کارڈ کی فیس 20 ڈالر،ارجنٹ 30 ڈالر اور ایگزیکٹو سمارٹ کارڈ کی فیس 40 ڈالر ہو گی۔ پہلے سے موجود نائیکوپس کارڈز پر تین ڈالر اور قومی شناختی کارڈز پر ساڑھے تین سو روپے کی رعایت دی جائے گی۔
 

پشتون موومنٹ، جائز مطالبات، ناجائز نعرے

$
0
0

پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کے رہنما منظور پشتین کے مطالبات بلکل جائز لیکن نعرے انتہائی قابل اعتراض ہیں۔ اس تحریک کے ساتھ اگر بہت سے لوگ اس لیے جڑ گئے کہ اس کے مطالبات جائز ہیں جن کے دادرسی کے لیے ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، تو ایک طبقہ یہاں وہ بھی ہے جو اپنے بغض اور عناد کی وجہ سے اُن نعروں کی گونج کو ہوا دینا چاہتا ہے جو بلاشبہ غیر ملکی قوتوں کی خواہش اور پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ جہاں ایک طرف ریاست اور ریاستی اداروں کو اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے، غلط پالیسیوں کی درستگی کرنی چاہیے اور پشتون تحفظ تحریک کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنا چاہیے تاکہ گمشدہ افراد اور ماورائے عدالت ہلاکتوں جیسے سنگین مسائل کا یہاں خاتمہ ہو سکے، وہیں اس تحریک اور اس کو چلانے والوں کو ایسے اقدامات اور نعروں کو فوری ترک کر دینا چاہیے جو امن اور بھائی چارے کی بجائے پاکستان کو مزید بدامنی اور افراتفری کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔

ویسے منظور پشتین اور اس کے ساتھیوں کو چاہیے کہ زرا غور کریں کہ کہیں ایک ایسا طبقہ بھی تو موجود نہیں جو بظاہر اُن کا بڑا ہمدرد نظر آتا ہے اور جو میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاست کے ذریعے اُن کی تحریک کو خوب اجاگر بھی کر رہا ہے مگر دراصل اُس طبقہ کے اس عمل کے پیچھے کسی مخصوص ادارہ کے
خلاف اُن کا اپنا بغض اور عناد چھپا ہوا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اسی طبقہ میں موجود افراد اور اُن کے ماضی پر نظر دوڑائیں تو یہ بھی پتا چلے گا جن حالات کے سبب پشتون تحفظ موومنٹ بنی اُن حالات کو پیدا کرنے میں اسی طبقہ کا اہم ترین کردار رہا۔ زرا غور کریں اور جواب تلاش کریں کہ وہ کون سا طبقہ تھا جو 9/11 کے بعد امریکا کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کا یہاں سب سے بڑا وکیل بن گیا اور جس نے اس جنگ کی مخالفت کرنیوالوں کو طالبان اور دہشتگردوں کے ساتھ جوڑا؟؟ 

وہ کون سا طبقہ تھا جس نے امریکا کی افغانستان میں جاری جنگ کو پاکستان کے اندر دھکیلنے کے لیے ’’دہشتگردی کی جنگ ہماری اپنی جنگ ہے‘‘ کے بیانیے کو یہاں کامیاب کروایا؟؟ وہ کون سا طبقہ ہے جس نے پرامن طریقہ یعنی بات چیت کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی کے فتنہ کو حل کرنے کی ہر کوشش کو ثبوتاژ کیا؟؟ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے سوات امن معائدے کی مخالفت کی اور ملٹری آپریشن پر زور دیا اور اس کے لیے راستہ ہموار بھی کیا؟؟ وہ کون سا طبقہ ہے جس نے قبائلی علاقوں میں ہر امن معاہدے کا مذاق اڑایا اُسے sell-out اور surrender سے تشبیہ دی اور امن کے قیام کے لیے صرف اور صرف ملٹری آپریشن کے حل ہی کی تجویز دی؟؟ 

وہ کون سی سوچ تھی جس نے 9/11 کے بعد گمشدہ افراد اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات پر اس لیے کبھی آواز نہ اٹھائی کیوں کہ گمشدہ افراد اور ماورائے عدالت قتل کیے جانے والوں کا تعلق امریکاکی دہشتگردی کے خلاف جنگ سے جوڑا گیا؟؟ جو لوگ ملٹری آپریشن کا مطالبہ کرتے رہے، جو لوگ امن کے حصول کے لیے بات چیت کے حکومتی فیصلوں کو حکومت اور ریاست کے لیے طعنہ کے طور پر استعمال کرتے رہے کیا وہ اُن حالات کے ذمہ دار نہیں جو ان آپریشن کے نتیجے میں پیدا ہوے اور جس کے خلاف پشتون تحفظ موومنٹ اب آواز اٹھا رہی ہے۔ منظور پشتین اور اس کے ساتھیوں کو چاہیے کہ اس طبقہ کو پہچانے کیوں کہ انہی کی وجہ سے پاکستان میں شدت پسندی اور دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے ہر پرامن کوشش کو ثبوتاژ کیا گیا، یہی وہ لوگ ہیں جو رات دن میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ملٹری آپریشن ملٹری آپریشن کا راگ الاپتے رہتے تھے۔ 

کچھ عرصہ پہلے تک سب دہشتگردی کے فتنہ کی کمی پر خصوصاً فوج کو مبارکباد دیتے تھے اور ان کی قربانیوں کو سراہتے تھے لیکن آج اُسی فوج کے خلاف پشتون موومنٹ کی انتہائی قابل اعتراض نعروں کو واٹس ایپ کے ذریعے خوب شئیر بھی کرتے ہیں۔ مجھے 9/11 کے بعد اپنائی گئی ریاستی پالیسیوں سے شدید اختلاف رہا اور میری دانست میں انہی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگردی اور شدت پسندی نے زور پکڑا اور ہمارے ہی لوگوں کو ہمارا دشمن بنا دیا۔ مجھ سمیت جس شخص نے امریکا کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کی مخالفت کی اور پاکستان میں شدت پسندی اور دہشتگردی کے مسئلہ کو پرامن طریقہ اور بات چیت سے حل کرنے کی حمایت کی، اُنہیں اُسی طبقہ نے طالبان اور دہشتگردوں کا حامی قرار دیا جو صرف اور صرف ملٹری آپریشن کو مسئلہ کا واحد حل دیکھتا رہا۔ 

منظور پشتین اور اُس کے ساتھی قبائلیوں کے مسائل، گمشدہ افراد اور ماورائے عدالت قتل کے المیہ پر ضرور بات کریں اور تحریک بھی چلائیں لیکن ہمارے درمیان موجود اُس مخصوص طبقہ سے ضرور ہوشیار رہیں جو اس تحریک سے کوئی اور کام لینا چاہتے ہیں۔ یہاں ریاستی اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ غور کریں، سوچیں کہ وہ کون کون سے عوامل ہیں جو اُنہیں عوام میں غیر مقبول کر رہے ہیں اور جن سے احتیاط کرنا اور باز رہنا پاکستان کے ساتھ ساتھ ان اداروں کے اپنے بھی وسیع تر مفاد میں ہے۔ ایک سوچ وہ ہے جو اپنے بغض اور عناد کی وجہ سے اداروں کو تباہ و برباد دیکھنا چاہتی ہے، ایک دوسری سوچ ہے جو اداروں میں خامیوں اور اُن کی غلط پالیسیوں کو دور کرنے کی حامی ہے تاکہ ادارے ملک و قوم کے مفاد میں قائم بھی رہیں، اپنا کام کریں اور مضبوط بھی ہوں۔ہمیں پہلے سوچ کی مخالفت اور دوسری سوچ کو خیر مقدم کرنا چاہیے۔

انصار عباسی
 

وٹس ایپ کے استعمال کیلئے عمر کی حد مقرر کر دی گئی

$
0
0

یورپی یونین میں ڈیٹا کے تحفظ کے قوانین کا اطلاق اب واٹس ایپ پر بھی ہو گا۔ ان قوانین کے تحت سولہ برس سے کم عمر لڑکیاں لڑکے اپنے والدین کی اجازت کے بغیر یہ سروس استعمال نہیں کر سکیں گے۔ پیغام رسانی کی ایپ واٹس ایپ نے یورپی یونین میں ڈیٹا تحفظ کے قوانین کی وجہ سے اپنے صارفین کے لیے عمر کی حد تیرہ سے بڑھا کر سولہ برس کر دی ہے۔ یورپی یونین میں اب واٹس ایپ استعمال کرنے والے پرانے اور نئے صارفین سے اب یہ پوچھا جائے گا کہ آیا ان کی عمر سولہ برس سے زائد ہے۔ یورپی یونین میں مئی میں نافذ ہونے والے ان نئے قوانین کے تحت سولہ برس سے کم عمر نوجوانوں کا ڈیٹا جمع کرنے کے لیے ان کے والدین کی اجازت لینا ضروری ہے۔

واٹس ایپ سروس فیس بک خرید چکا ہے اور اب ایک نیا طریقہء کار متعارف کروایا جائے گا، جس کے تحت والدین سے یہ اجازت حاصل کی جائے گی۔ یورپی یونین سے باہر واٹس ایپ نے فی الحال اپنے صارفین کی عمر کی حد میں اضافہ نہیں کیا۔ یورپی یونین سے باہر تیرہ سالہ نوجوان اب بھی یہ سروس استعمال کر سکتے ہیں۔ تاہم اس نئے قانون کے تحت عمر کی حد کنٹرول کرنے نظام زیادہ سخت نہیں ہے، یعنی واٹس ایپ کی طرف سے کوئی شناختی دستاویز یا برتھ سرٹیفیکیٹ اپ لوڈ کرنے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔ کمپنی کے مطابق وہ مستقبل میں بھی کچھ ایسا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

واٹس ایپ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یورپی صارفین کے لیے آئرلینڈ میں ایک نیا ذیلی ادارہ قائم کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کی یورپی یونین کے صارفین کا ڈیٹا یورپی سرحدوں کے اندر ہی محفوظ رکھا جائے گا۔ لیکن واٹس ایپ کا زور دیتے ہوئے یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی سروس کے ذریعے بھیجے گئے پیغامات صرف ’اینڈ ٹو اینڈ‘ یعنی صرف ارسال کرنے والا اور موصول کرنے والا ہی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ پیغامات خود واٹس ایپ سروس نہیں پڑھ سکتی۔ نئے قوانین کے تحت یہ کمپنی اب وہ ڈیٹا بھی نہیں پڑھ پائے گی، جس تک پہلے اس کمپنی کی رسائی تھی۔ اسی طرح واٹس ایپ اکاؤنٹس کی معلومات یا موبائل نمبر فیس بک کو مہیا نہیں کیے جائیں گے۔

بشکریہ DW اردو



 

A Pakistani farmer harvests wheat in a field

$
0
0
A Pakistani farmer harvests wheat in a field on the outskirts of Lahore.


قرضہ معاف کرانے والوں کے اثاثے فروخت کر کے رقم وصول کریں گے

$
0
0

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ قرضہ معاف کرانے والوں کے پاس اگر رقم نہیں ہے تو اثاثے فروخت کر کے رقم وصول کریں گے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے قرضہ معافی ازخود نوٹس کی سماعت کی، اس دوران وکیل نیشنل بینک اور مختلف بینکوں کے وکلاء بھی پیش ہوئے۔ دوران سماعت نیشنل بینک کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں مرکزی پارٹی اسٹیٹ بینک ہے جبکہ نجی بینک کے وکیل نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک ریگولیٹری اتھارٹی ہے اور بینکوں نے قرضے معاف کیے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی اندازہ ہے کہ کتنے ارب روپے معاف ہوئے، جس پر وکیل نے بتایا کہ 54 ارب روپے معاف ہوئے جبکہ کمیشن کا کہنا ہے کہ قصہ ماضی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیشن کی رپورٹ کہاں ہے، جس پر وکیل نے بتایا کہ مجھے بھی رپورٹ دیکھنے کا موقع نہیں ملا لیکن بینک اس پیسے کی واپسی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ مقدمات پرانے ہو گئے ہیں، اسی لیے اسے نہیں کھول رہا لیکن یہ بتایا جائے کہ سیاسی بنیادوں پر جو قرض معاف ہوئے اس کی تفصیلات کہاں ہیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 222 مشکوک مقدمات ہیں، نیشنل بینک نے بہت زیادہ رقوم کے قرضے مختلف ٹیکسٹائل ملوں کو معاف کیے ہیں۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جب سے یہ رپورٹ آئی ہے، اس کے بعد کوئی کارروائی نہیں ہوئی، یہ معاملہ ہمارے پاس 2007 سے زیر التوا ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹٓس نے کہا کہ ہمیں رپورٹ چاہیے، رپورٹ کیا ہے، انہوں نے ذمہ داری کس پر ڈالی ہے، پوری رپورٹ کی سمری عدالت کو فراہم کی جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے سیاسی بنیادوں پر قرض معاف کرائے ان سے وصول کرتے ہیں۔ دوران سماعت درخواست گزار بیرسٹر ظفر اللہ نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزراء اعظم محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور چوہدری برادران نے بھی قرض لے کر معاف کرائے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن لوگوں نے قرض معاف کرائے ہیں، ان سے وصول کریں گے اور اگر رقم نہیں تو اثاثے فروخت کر کے رقم وصول کریں گے۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جسٹس جمشید سے بات کرتا ہوں، لگتا ہے کمیشن کی ابھی صرف عبوری رپورٹ آئی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے جسٹس جمشید کمیشن کی رپورٹ کی نقل فریقین کو دینے کی اجازت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ گورنر اسٹیٹ بینک مقدمہ کی سمری آئندہ سماعت پر پیش کریں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہر بندہ اپنے خرچے پر کمیشن رپورٹ حاصل کرے۔
دوران سماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا حیات بھی پیش ہوئے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مختلف لوگوں نے قوم کا پیسہ معاف کروا رکھا ہے اور اس پیسے سے جائیدادیں بنائی گئیں، ملک کے قوانین میں سقم ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون بنانے والے آپ ہی ہیں، حکومت میں رہتے ہوئے آپ نے کیا کیا، آپ کی حکومت نے آپ کے توجہ دلاؤ نوٹس پر کیا کیا، سندھ حکومت نے قرار داد پاس کی کہ یہ معاملے کو عدالت دیکھے۔

حسیب بھٹی
 

مسلم لیگ (ن) کا بجٹ امید پر قائم ہے

$
0
0

کل کی بجٹ تقریر بالکل ویسے ہی تھی جیسے کہ پاکستان کا معاشی انتظام و انصرام ہے : بیچ کمرے کے کھڑا ایک اکیلا شخص سیاسی شور ہنگامے کے درمیان اپنی بات کہنے کی جدوجہد کرتا ہوا۔ یہ صورتحال اب بہت عرصے سے معمول بن چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اصلاحات کیوں سنجیدگی سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ اس بجٹ میں دو چیزیں نہایت واضح ہیں۔ پہلی، حکومت کی سخت کمزوریاں، اور دوسری، ترقیاتی اخراجات کے بجائے جاری اخراجات کی طرف جھکاؤ۔ یہ دونوں آپس میں منسلک ہیں۔ ہم ایک ایسی حکومت دیکھ رہے ہیں جو اپنی حکمرانی کو لاحق سخت خطرات میں گھری ہوئی ہے، جس کی وجہ سے وہ ہر ممکن حد تک خصوصی مفادات کے سامنے جھکنے پر مجبور ہے۔

اس بجٹ کی سب سے اہم خاصیت اس کا عدم شفاف ٹیکس منصوبہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے حکومت کو وسائل کے بارے میں زیادہ فکر نہیں ہے جبکہ زیادہ توجہ فائدے پہنچانے اور رقومات مختص کرنے پر دی گئی ہے۔ محصولات میں 18 فیصد اضافہ جو کہ 750 ارب روپے بنتا ہے، اس میں سب سے بڑا اضافہ بالواسطہ محصولات مثلاً پیٹرولیم لیوی اور مواصلات پر ٹیکس ہے۔ ایف بی آر کے ٹیکس 500 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں جو کہ سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، اور انکم ٹیکس کے درمیان تقریباً برابر تقسیم ہیں۔ ان تمام زمروں میں زیادہ ریلیف دیے جانے کو مدِنظر رکھتے ہوئے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے جیسے ان اضافوں کی وجہ ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ٹیکس کا دائرہ کار وسیع ہونا، اور مہنگائی اور روپے کی قیمت میں کمی ہے (جس کی وجہ سے امپورٹ کرتے وقت سیلز ٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹی میں اضافہ ہو جاتا ہے)۔ مختصر الفاظ میں کہیں تو ٹیکس منصوبہ امید پر تیر رہا ہے جبکہ اخراجات کو تفصیلی توجہ دی گئی ہے۔

حکومت اپنی حکمرانی کو لاحق سخت خطرات میں گھری ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ ہر ممکن حد تک خصوصی مفادات کے سامنے جھکنے پر مجبور ہے۔
یہ متوقع تھا۔ جس حکومت نے یہ بجٹ پیش کیا ہے، وہ شاید اس بجٹ پر عمل کرنے والی حکومت نہ ہو۔ چنانچہ یہ طے ہے کہ اس بجٹ کو درمیانی مدت میں کافی تبدیلیوں کی ضرورت ہو گی۔ کئی تجاویز قابلِ تعریف ہیں، مثلاً خام مال کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹیوں میں کمی اور ایسے دیگر اقدام۔ مگر اس بجٹ کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ بلند سطح پر موجود جاری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے محصولات کی وصولی بھی اتنی ہی بلند کرنی ہو گی۔ 

ترقیاتی کاموں کے بجائے وسائل کو اخراجات کی جانب موڑنے سے فنڈنگ ایک ذریعے تک محدود رہ جاتی ہے، بینکوں سے قرضوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے (625 ارب روپے کا اضافہ)، جبکہ صوبائی سرپلس میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اگر اس سب کی بنیاد میں موجود مفروضے حقیقت ثابت ہوتے ہیں تو اس سے اشیاء کی کھپت میں کامیابی سے اضافہ ہو گا اور جس کے ترقی (اور درآمدات) پر مثبت اثرات ہوں گے۔ پر اگر یہ مفروضے غیر حقیقی ثابت ہوئے، اور زیادہ امکان بھی یہی ہے، تو اگلی حکومت کو انہیں خاصی حد تک تبدیل کرنا ہو گا، جس میں ممکنہ طور پر متوسط طبقے کے گھرانوں اور صنعتوں کو دیے جانے والے ریلیف واپس لینا شامل ہے۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 28 اپریل 2018 کو شائع ہوا۔
 

غدار وطن ڈاکٹر شکیل آفریدی نا معلوم مقام پر منتقل

$
0
0

ڈاکٹر شکیل آفریدی کو کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ شکیل آفریدی پر
الزام عائد ہے کہ اس نے اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کو مدد فراہم کی تھی۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پشاور کی جیل سے کسی اور جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ جیل انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ڈاکٹر آفریدی کو کسی ’محفوظ مقام‘ پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس اہلکار نے معاملے کی سنجیدگی کی وجہ سے اپنی شناخت ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔ مئی دو ہزار بارہ میں شکیل آفریدی کو ایک پاکستانی عدالت نے غداری کے مقدمے میں تینتیس برس قید کی سزا سنائی تھی۔ بعد ازاں شکیل آفریدی پر عسکریت پسندوں سے تعلق رکھنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔

پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ شکیل آفریدی نے اسامہ بن لادن کا ڈی این اے حاصل کرنے کے لیے ایبٹ آباد میں پولیو کے قطرے پلانے کی ایک جعلی مہم شروع کی تھی۔ دو مئی دو ہزار گیارہ کو اسامہ بن لادن کو امریکی اسپیشل فورسز نے ایک خفیہ آپریشن کرتے ہوئے ہلاک کر دیا تھا۔ مبصرین کے مطابق شکیل آفریدی کے کیس کا پاکستان میں جاری انسداد پولیو کی مہم پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔ پاکستانی طالبان کا موقف ہے کہ انسداد پولیو کی مہم غیر اسلامی ہے اور اس طرح امریکا خفیہ طور پر جاسوسی کروا رہا ہے۔ عسکریت پسندوں کی طرف سے ابھی تک پولیو کے قطرے پلانے والے درجنوں اہلکاروں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

قانون نہیں کرتوت کالے ہیں

$
0
0

قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ فرماتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 62-63 کالا قانون ہے جبکہ حقیقت میں آرٹیکل 62-63 کالا قانون نہیں بلکہ کالے تو وہ کرتوت ہیں جن کی درستگی کی بجائے ہمارے سیاستدان اور پارلیمنٹیرین اُنہیں نہ صرف برقرار رکھنا چاہتے ہیں بلکہ اُن کا آئینی و قانونی تحفظ بھی چاہتے ہیں تاکہ وہ لوٹیں کھسوٹیں، کیسی ہی بد کرداری کریں، جھوٹ بولیں، فراڈ کریں اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ ساری دنیا میں حکمرانوں کے لیے سچا اور ایماندار ہونا لازم شرط ہوتی ہے لیکن ہمارا آئین اگر یہ شرط لگائے تو اس سے خورشید شاہ ، اُن کی پارٹی اور دوسرے کئی سیاستدانوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ 

بجائے اس کے کہ کوشش کریں کہ کس طرح سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ خود آرٹیکل 62-63 کے نفاذ کو یقینی بنائیں تاکہ معاشرہ کے بہترین اور اچھے کردار کے مالک افراد ہی پارلیمنٹ اور ایوان اقتدار میں داخل ہو سکیں۔ لیکن اگر ایسا ہو گیا تو خورشید شاہ کی جماعت سمیت دوسری اور کئی سیاسی پارٹیاں اپنے اکثر رہنمائوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ اپنی خرابیوں اور نااہلیوں پر پردہ ڈالنے اور ان آئینی شرائط کو ختم کرنے کے لیے بہانہ مرحوم ضیاء الحق کا استعمال کیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ آرٹیکل جنرل ضیاء نے آئین میں شامل کیے تھے اس لیے ان کو نکالا جانا چاہیے۔ ورنہ یہ آرٹیکل جو شرائط لاگو کرتے ہیں اُن پر اگر عمل درآمد ہو تو صرف وہی لوگ الیکشن لڑ سکتے ہیں جو اپنے کردار کے لحاظ سے بہترین ہوں۔

آرٹیکل 62-63 کی جن شرائط سے سیاستدانوں میں بہت سوں کو بہت تکلیف ہے وہ کیا کہتے ہیں زرا سن لیجیے:

آرٹیکل 62 (1) کوئی شخص پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہو گا اگر ……’’(d) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔ (e) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔ (f) وہ سمجھدار پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور ایماندار اور امین نہ ہو، عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو۔ (g) اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔‘‘

درج بالا شرائط میں کوئی ایک خرابی تو بتائیں۔ ان شرائط کے مطابق تو صرف وہی رکن اسمبلی بننے کا اہل ہو سکتا ہے جو اچھے کردار کا مالک اور احکام اسلام کے انحراف میں مشہور نہ ہو، اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور کبیرہ گناہوں یعنی شراب نوشی، زنا، سود وغیرہ سے اجتناب کرتا ہو، فاسق نہ ہو، ایماندار ہو، سچا ہو اور اسلامی نظریہ پاکستان کا مخالف نہ ہو۔ اگر ان شرائط پر عمل کیا جائے تو ہماری پارلیمنٹ اور ایوان اقتدار میں کوئی چور ڈاکو، شرابی، زانی، جھوٹا فراڈیا داخل نہیں ہو سکتا۔

مسئلہ نیت کا ہے۔ جب نیت ہی خراب ہو اور سیاسی جماعتیں یہ چاہتی ہی نہ ہوں کہ حق حکمرانی صرف اور صرف اپنے کردار کے لحاظ سے بہترین لوگوں کو ہی حاصل ہے، تو پھر ان آئینی شرائط کی مخالفت تو ہو گی۔ مخالفت نہ کی تو اپنی سیاست ہی ختم ہو جائے گی۔ اسی لیے باوجود اس کے کہ آرٹیکل 62-63 کو آئین میں شامل ہوئے 30 سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن ان آئینی شرائط پر عمل درآمد کرنے کے لیے آج تک نہ کوئی طریقہ وضع کیا گیا اور نہ ہی ان آئینی شقوں پرعمل درآمد کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی۔ 

ماضی قریب میں سپریم کورٹ میں کچھ پٹیشنزکے نتیجے میں میاں نواز شریف، جہانگیر ترین اور خواجہ آصف کو آرٹیکل 62 (1) (f) کے تحت زندگی بھر کے لیے نا اہل قرار دیا جس کے بعد پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ ن لیگ نے بھی آرٹیکل 62-63 کو ہی بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ حلانکہ خرابی آئین میں نہیں بلکہ کمی اس بات میں ہے کہ پارلیمنٹ نے آج تک ان آئینی شقوں کے اطلاق کے لیے کوئی طریقہ کار ہی طے نہیں کیا اور نہ ہی آرٹیکل 62 (1)(f) کے تحت غلطی یا جرم کی سنگینی کے لحاظ سے یہ وضاحت کی کہ کس نوعیت کے جرم پر کتنی مدت کے لیے نا اہلی ہو گی۔ پیپلز پارٹی تو ان شقوں سے کبھی خوش نہ تھی اب ن لیگ بھی ان کے خاتمہ کی باتیں کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے میاں نواز شریف کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ ان شقوں کو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے نہ نکالنا اُن کی غلطی تھی۔ لیکن اگر کوئی سوچے اور سمجھے تو غلطی دراصل ان شقوں کو نکالنا ہو گا جبکہ ان پر سنجیدگی سے ایک طریقہ کار کے ذریعے عمل کرنے سے سیاست گندگی سے پاک ہو گی۔

انصار عباسی
 

سمارٹ فون : نقصانات سے بچنے کے طریقے

$
0
0

سمارٹ فون عام ہو چکا ہے۔ اگرچہ یہ چوکور سی شے اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ جیب میں آ جاتی ہے لیکن اس کی وجہ سے دوسروں سے گفتگو اور رابطہ کرنے کے طریقوں میں انقلابی تبدیلی آئی ہے۔ سمارٹ فون کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اس سے دوستوں کے ساتھ تصویریں لی جا سکتا ہیں اور فیس بک کی وسیع ’’سیاحت‘‘ کی جا سکتی ہے۔ سننے اور پڑھنے میں آتا ہے کہ سمارٹ فون نے نئی نسل کو تباہ کر دیا یا سوشل میڈیا نے معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے۔ لیکن اس بارے میں تحقیقات کیا کہتی ہیں؟ دراصل سمارٹ فون جیسی الیکٹرونک ڈیوائسز استعمال کرنے والوں میں ڈپریشن یا یاسیت اور برے موڈ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ 

سمارٹ فون سے تعلقات میں خرابی پیدا ہو سکتی ہے۔ تو آپ سمارٹ فون سے کس طرح باہمی تعلقات کو خراب ہونے سے بچا سکتے ہیں؟ ذیل میں اس بارے میں کچھ مشورے دیے گئے ہیں جو آپ کے تعلقات کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ ۱۔ بالمشافہ ملاقات: سمارٹ فون کے آنے کے بعد ہمارے الیکٹرونک رابطے بڑھ گئے ہیں۔ ہمارے پاس وقت محدود ہوتا ہے۔ اس لیے سمارٹ فون کی مصروفیت کی وجہ سے دوسروں کے لیے وقت نہیں نکل پاتا۔ اس سے ہماری زندگی پر منفی اثرات ہوتے ہیں۔ کیسے؟ ایک تحقیق کے مطابق ذہنی و جسمانی صحت کے لیے سب سے اچھی شے مضبوط سماجی یا باہمی رشتوں کا قیام ہے۔ اور ایسے رشتے روبرو ملاقات سے قائم ہوتے ہیں۔ 

بالمشافہ تعامل سے آپ کا موڈ بہتر ہوتا ہے اور ڈپریشن میں کمی آتی ہے۔ ویسے ہی جیسے دوسری سرگرمیاں جیسا کہ مذہبی عبادت گاہ جانا، ورزش کرنا یا کھیلنا ہماری ذہنی صحت کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ ان کے بغیر ہماری ذہنی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ سمارٹ فون کی وجہ سے بامعنی تعلق اور تعامل نہیں ہو پاتا۔ ہم دوستوں سے براہ راست ان کا حال احوال پوچھنے کی بجائے ان کے فیس بک پیجز دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم دوستوں کے ساتھ کسی تھیٹر یا سینما میں جانے کی بجائے انٹرنیٹ پر ڈرامے اور فلمیں دیکھتے ہیں۔ لیکن ذہنی صحت کے لیے لازمی ہے کہ جب بھی موقع ملے ہم اکٹھے ہوں۔

۲۔ دوسروں کے ساتھ : اگر آپ کچھ دوستوں کے ساتھ ہیں اور وہ سمارٹ فون استعمال کر رہے ہیں تو باہمی گفتگو کا معیار گر جائے گا۔ آپ نے خود بھی اس کا اندازہ لگایا ہو گا۔ اس سے گفتگو کا ربط بھی ٹوٹ جاتا ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی بات کو سنا نہیں جا رہا۔ زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ کسی محفل میں سمارٹ فون کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ 82 فیصد افراد کے خیال میں کسی محفل میں سمارٹ فون باہمی گفتگو کو متاثر کرتا ہے۔ بہرحال یہ جانتے ہوئے بھی ہم اپنے سمارٹ فون کو استعمال کرتے رہتے ہیں۔ امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 89 فیصد شرکا نے کہا کہ انہوں نے جس حالیہ محفل میں شرکت کی تھی اس میں وہ سمارٹ فون استعمال کرتے رہے۔ 

جب ہم سماجی میل جول کے دوران سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہماری اپنی شمولیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ باہر دوستوں کے ساتھ رات کے کھانے پر سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں وہ دوسروں کی نسبت کم انجوائے کرتے ہیں اور زیادہ بور ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے جان بوجھ کر اس حقیقت پر آنکھیں بند کر لی ہیں۔ پس جب کسی محفل میں آپ جیب سے سمارٹ فون نکالنے لگیں تو یہ ضرور سوچیں کہ جب دوسرا ایسا کرنے لگتا ہے تو آپ کے احساسات کیا ہوتے ہیں۔ ۳۔ نظروں سے اوجھل: بعض اوقات سمارٹ فون کے استعمال سے محض احتراز کافی نہیں ہوتا۔ ایک تحقیق کے مطابق سمارٹ فون سے توجہ تقسیم ہوتی ہے۔ 

نصف سے زائد امریکیوں کا خیال ہے کہ سمارٹ فون کی وجہ سے دوسروں کی جانب ان کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ بعض تحقیقات کے مطابق سمارٹ فون کی میز پر موجودگی تک بامعنی گفتگو مشکل بنا دیتی ہے۔ تصور کریں کہ آپ کسی سے دل کی بات کہہ رہے ہیں، وہ سن یا سمجھ نہیں رہا یا پھر جواب نہیں دے رہا اور اس کی نظریں وقتاً فوقتاً اپنے فون پر پڑتی ہیں جو ساتھ ہی پڑا ہے۔ دوسروں کے ساتھ بھروسے اور یقین کا رشتہ استوار کرنے کے لیے توجہ سے سننا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کر تے تو ہم اپنے تعلقات کو خراب کرتے ہیں۔ اگلی بار دوسروں سے بامعنی گفتگو کرتے وقت اس امر کا خیال رکھیں۔ ۴۔ اجنبیوں سے بات: بہت سی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ اجنبیوں سے گفتگو، مثلاً کسی دکاندار، رکشے والے یا کیشیئر سے ہلکی پھلکی بات چیت ہمیں سماجی طور پر جڑے ہوئے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔

لیکن سمارٹ فون اس پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟ جی ہاں جب ہم اپنے سمارٹ فون میں مصروف ہوتے ہیں یا جب اس پر انحصار کرتے ہیں، تو ایسا ہوتا ہے۔ مثلاً ہم اجنبی لوگوں سے راستہ پوچھتے ہیں۔ لیکن ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر ہاتھ میں سمارٹ فون ہو تو لوگ دوسروں سے راستہ پوچھنے کی بجائے سمارٹ فون کی مدد سے راستہ تلاش کرتے ہیں۔ ان جانے لوگوں سے کسی قسم کا تعلق ختم کر دینے سے بیگانگی جنم لیتی ہے اور یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ معاشرے سے کٹے ہوئے ہیں۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ اجنبیوں سے بات مت کرو۔ ان سے بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ بھی ہوتی ہے۔ لیکن متعدد بار صورت حال ایسی ہوتی ہے جس میں دوسرے انسانوں سے گفتگو کرنی چاہیے اور ایسا کرنا ہمارے اور دوسرے پر خوش کن اثر ڈالتا ہے۔ ۵۔ بامقصد آن لائن : ہمارا خیال ہے، یا ہمیں بتایا گیا ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایک دوسرے کو جوڑتے ہیں۔ 

لیکن معلوم یہ ہوا ہے کہ سماجی رابطوں کے لیے سمارٹ فون جیسے الیکٹرونک آلات کا استعمال اتنا بھی اچھا نہیں۔ ہمارے موڈ اور احسات پر آن لائن گفتگو کا اثر متعدد بار ایسا ہوتا ہے جیسے ہم نے بات ہی نہ کی ہو۔ دوسرے الفاظ میں یہ بے معنی سا ہوتا ہے۔ تعلق قائم کرنا انسانی فطرت ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا یا آئن لائن ہو کر ادھر ادھر لوگوں کو ٹٹولتے رہنے سے بہتر ہے کہ اپنے دوست یا جاننے والے سے بھرپور چیٹ کر لی جائے۔ اس سے احساس زیاں نہیں ہوتا۔ ۶۔ حالِ دل : اگرچہ زیادہ تر تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ آپ کو الیکٹرونک آلات کی بجائے آمنے سامنے گفتگو کو ترجیح دینی چاہیے، لیکن ہر وقت ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ 

جب والدین کسی کام سے سفر کر رہے ہوں یا کوئی قریبی دوست کسی دوسرے شہر چلا گیا ہو، تو آپ کیا کریں گے؟ انہیں افراد کو آپ حال دل سناتے ہیں۔ اس صورت میں سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ بآسانی ہو سکتا ہے۔ تعلقات کی برقراری کے لیے اسے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں رابطہ یا تعلق منقطع ہو سکتا ہے۔ پس سمارٹ فون اور اس میں موجود اپلی کیشنز ترک کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ ہمارے تعلقات پر اثرانداز نہ ہو سکے۔ 

ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا


 

کیا مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد دوبارہ قدم جما رہی ہے؟

$
0
0

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں قابض فورسز کی جانب سے پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ حال ہی میں مسلح افراد نے سابق پولیس افسر اور بی جے پی کے موجودہ متحرک کارکن زبیر پارے کو قتل کر دیا۔ اس سے قبل 25 اپریل کو بھی سری نگر کے علاقے حیدر پورا میں نامعلوم مسلح افراد نے جموں اور کشمیر پولیس سے تعلق رکھنے والے گارڈ پر حملہ کیا تھا، جس کے بعد پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان پولیس کی 4 سرکاری رائفلز چھین کر باآسانی فرار ہوگئے، جس کے بعد سری نگر میں دوبارہ مسلح کارروائیوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل 23 مارچ کو نماز جمعہ کے بعد ایک کشمیری نوجوان لاپتہ ہوگیا تھا، جس کے کچھ گھنٹوں بعد خبر ملی کہ مذکورہ نوجوان، کشمیر کی سب سے بڑی عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر چکا ہے، مذکورہ نوجوان کا نام جنید اشرف صحرائی تھا اور وہ یونیورسٹی آف کشمیر میں ایم بی اے کا طالب علم تھا۔

دوسری جانب جنید کے والد خود بھی تحریک حریت کے نو منتخب چیئرمین ہیں، جو کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی مقبول جماعت آل پارٹیز حریت کانفرنس کی ذیلی تنظیم ہے۔ پولیس کے مطابق جنید گزشتہ 3 برس سے کم عرصے میں عسکری تنظیم میں شامل ہونے والا 10واں فرد تھا، جس کے بعد یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا مقبوضہ وادئ میں عسکریت پسندی دوبارہ قدم جما رہی ہے؟ انسپکٹر جنرل آف کشمیر سوایم پرکاش کا کہنا تھا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ سری نگر میں عسکریت پسندی واپس آرہی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ شہری علاقوں میں عسکریت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں کیوں کہ شہری علاقوں میں بہتر سماجی اور معاشی صورتحال کے پیش نظر اس قسم کی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔

خیال رہے کہ سری نگر میں نئے شاپنگ مالز، ہوٹلز اور تفریحی مراکز کے قیام سے شہری زندگی میں جدّت تو آئی ہے تاہم عسکریت پسندی بھی سری نگر کے باسیوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں۔ ایک سینئر پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ عموماً ’عسکریت پسندوں سے پاک‘ ہونے کا غلط مطلب اخذ کر لیا جاتا ہے، شہری اور دیہی علاقوں میں عسکریت پسندی کی شکل مختلف ہے، بارہ مولا اور سری نگر جیسے شہری علاقوں کے عوام نہ تو خود عسکری کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں اور نہ ہی عسکریت پسندوں کے لیے سہولت فراہم کرتے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق سال 2007 سے 2014 تک سری نگر کو عسکریت پسندی سے پاک علاقہ سمجھا جاتا تھا لیکن اب صورتحال مختلف ہے، 2016 میں حریت پسند نوجان رہنما برہان وانی کی بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہادت کے بعد وادئ میں نوجوانوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور اس واقعے سے شہری علاقوں کے نوجوانوں پر بھی اثر پڑا ہے۔

خیال رہے کہ حزب المجاہدین کے شہید کمانڈر برہان وانی کم عمر نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، جو مقامی طور پر مسلح جدو جہد کے حوالے سے بہت معروف ہوئے۔ پولیس کے مطابق برہان وانی نے کشمیر میں عسکریت پسندی کو نئی روح فراہم کی اور سوشل میڈیا اس سلسلے میں سب سے موثر آلہ کار ثابت ہوا۔ اس ضمن میں پولیس نے مزید بتایا کہ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کی عسکری تنظیموں میں بھرتی میں اہم کردار ادا کیا، حتیٰ کہ انجینئرنگ اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی، پوسٹ گریجویٹ ڈگریوں کے حامل نوجوان بھی اس میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ ایک انگریزی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق 80 فیصد عسکریت پسندوں کا تعلق کشمیر کے جنوبی علاقوں سے ہے جہاں سے ایک ماہ کی قلیل مدت میں 28 نوجوان مختلف عسکری تنظیموں کا حصہ بن چکے ہیں۔

یہ خبر ڈان اخبار میں 30 اپریل 2018 کو شائع ہوئی.
 

پاکستان میں سیاحت میں 300 گنا اضافہ

$
0
0

سیکیورٹی صورتحال میں بہتری کے بعد گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان میں سیاحت میں 300 گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ صرف 2017 میں 17 لاکھ 50 ہزار سیاحوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کے اعداد و شمار کے مطابق ان سیاحوں میں سے 30 فیصد پاکستانی تھے۔ ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل (ڈبلیو ٹی ٹی سی) کے مطابق گزشتہ سال سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی نے پاکستان کی معیشت میں تقریباً 19 ارب 40 کروڑ ڈالر کا اضافہ کیا جو مجموعی ملکی پیداوار کا 6.9 فیصد رہا۔ ساتھ ہی ’ڈبلیو ٹی ٹی سی‘ نے ایک دہائی کے عرصے میں یہ آمدنی بڑھ کر 36 ارب 10 کروڑ ڈالر ہونے کی توقع بھی ظاہر کی۔

سیاحت میں سالانہ اضافے کے علاوہ ملک میں کاروباری سفر کرنے والوں کی تعداد میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ سیاحت اور سفر میں تیزی سے اضافے کا بڑا سہرا انٹرنیٹ کے ذریعے مختلف سیاحتی مراکز کی تشہیر کو جاتا ہے۔ پی ٹی ڈی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر چوہدری عبدالغفور نے سرکاری خبر رساں ایجنسی ’اے پی پی‘ کو بتایا کہ ’حکومت ملک میں سیاحت کو فروغ دینے اور پی ٹی ڈی سی کو مالی طور پر مستحکم ادارہ بنانے کی کوششیں کر رہی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی ڈی سی اور یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ایم ٹی) لاہور کے درمیان ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کی تشہیر کی اسپانسرشپ کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں۔‘ پی ٹی ڈی سی کی مصنوعات اور خدمات کی سوشل میڈیا کے ذریعے بھی تشہیر کی جائے گی۔ پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے حال ہی میں ’پاکستان ٹورزم فرینڈز کلب‘ کا بھی آغاز کیا ہے جس کے ذریعے اس کے اراکین پی ٹی ڈی سی کی سہولیات پر 20 فیصد کا خصوصی ڈسکاؤنٹ حاصل کر سکیں گے۔
 


National Flag of Pakistan

$
0
0
The national flag of Pakistan was adopted in its present form during a meeting of the Constituent Assembly on August 11, 1947, just four days before the country's independence, when it became the official flag of the Dominion of Pakistan. It was afterwards retained by the current-day Islamic Republic of Pakistan. The flag is a green field with a white crescent moon and five-rayed star at its centre, and a vertical white stripe at the hoist side. Though the green colour is mandated only as 'dark green', its official and most consistent representation is Pakistan green, which is shaded distinctively darker. The flag was designed by Amiruddin Kidwai, and is based on the All-India Muslim League flag.

The flag is referred to in the national anthem as the Flag of the Crescent and Star. It is flown on several important days of the year including Republic Day, Independence Day and Defence Day. It is often hoisted every morning at schools, offices and government buildings to the sound of the national anthem and lowered again before sunset. A notable flag raising and lowering ceremony is carried out each day with great pomp and enthusiasm at the Wagah Border attended by hundreds of spectators. A designer named Amiruddin Kidwai studied the League’s flag, as he tried to design a flag for a new, independent nation. Finally he arrived at a design, and he presented it to the leadership of the Muslim League who subsequently adopted his design as the flag of the Dominion of Pakistan on 11 August, 1947. The government of Pakistan has pronounced rules about the flying of the flag. It is to be displayed at full mast on 23 March of each year, marking the adoption of the Lahore Resolution in 1940's and the Declaration of the Republic of Pakistan in 1956, and on 14 August in celebration of Independence Day, when Pakistan was carved out from British India as a home for Indian Muslims. The flag of Pakistan is also mentioned in Pakistan's own national anthem in the third verse reading "پرچمِ ستاره و ہلال رہبرِ ترقّی و کمال"‬ which translates to "Flag with the Star and Crescent, the leader of progress and ascent".

Before the Second World War, Muslims and Hindus lived together under the British Raj. A number of the Muslims formed the All India Muslim League. After the Second World War, when the independence of Pakistan in 1947, the flag of the Muslim League served as the basis for the flag of Pakistan. The green represents Islam and the majority Muslims in Pakistan and the white stripe represents religious minorities and minority religions. In the centre, the crescent and star symbolizes progress and light respectively. The flag symbolizes Pakistan's commitment to Islam and the rights of religious minorities. It is based on the original flag of the Muslim League, which itself drew inspiration from the flag of the Sultanate of Delhi, the flag of Ottoman Empire and the Flag of the Mughal Empire.



کیا شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کر دیا جائے گا ؟

$
0
0

2 مئی 2011ء کا دن پاکستان کی تاریخ کا وہ بدنما داغ اور زخم ہے جو شاید کبھی مندمل نہ ہو سکے۔ اس سانحہ کو سقوط ڈھاکہ کے بعد ملکی تاریخ کا دوسرا بڑا سانحہ قرار دیا جاتا ہے اور یہ وہ سیاہ دن ہے جو ہمیں اپنی رسوائیوں اور ناکامیوں کی ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا۔ آج سے 7 سال قبل 2 مئی کو امریکی کمانڈوز رات کی تاریکی میں ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ایبٹ آباد کے کنٹونمنٹ ایریا میں داخل ہوئے اور اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ میں گھس کر اُسے خفیہ آپریشن میں ہلاک کر دیا، ہماری آنکھ اُس وقت کھلی جب امریکی فورسز اسامہ بن لادن کی لاش اور کمپائونڈ سے ملنے والا تمام مواد اپنے ساتھ لے کر افغانستان روانہ ہو گئے۔

گزشتہ دنوں امریکی سی آئی اے نے 2 مئی 2011ء کی رات ہونے والے اس آپریشن کی کہانی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری کی جس میں بتایا گیا کہ ایبٹ آباد آپریشن سے قبل طویل عرصے تک اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کی ریکی کی گئی، آپریشن کی منظوری سی آئی اے ڈائریکٹر لیون پنٹا اور چیئرمین جوائنٹ چیفس نے رات ایک بجکر 25 منٹ پر دی جس کے بعد ایک بجکر 51 منٹ پر امریکی ہیلی کاپٹرز نے افغانستان سے پاکستان کی طرف پرواز کی اور 3 بجکر 30 منٹ پر ہیلی کاپٹرز ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ پہنچے، رات 3 بجکر 39 منٹ پر اسامہ بن لادن کو کمپاؤنڈ کی تیسری منزل پر فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا، 3 بجکر 53 منٹ پر اسامہ کی شناخت کی تصدیق کی گئی، 4 بجکر 5 منٹ پر پہلا ہیلی کاپٹر اسامہ کی لاش لے کر افغانستان روانہ ہوا جبکہ 4 بجکر 10 منٹ پر بیک اپ ہیلی کاپٹرز آپریشن ٹیم اور کمپائونڈ سے ملنے والا مواد لے کر افغانستان روانہ ہوئے، اس طرح 5 بجکر 53 منٹ پر پوری ٹیم افغانستان لینڈ کر گئی جہاں امریکی ایڈمرل مک راون نے اُن کا خیر مقدم کیا۔ 

اس تمام صورتحال کی امریکہ میں موجود اعلیٰ حکام مانیٹرنگ کرتے رہے اور صبح 7 بجکر ایک منٹ پر امریکی صدر باراک اوباما نے اسامہ بن لادن کی شناخت کی تصدیق کرتے ہوئے اپنی تقریر میں ایبٹ آباد آپریشن کی کامیابی اور اسامہ کی ہلاکت کا اعلان کیا جس کے بعد ایبٹ آباد آپریشن دنیا بھر میں امریکہ کیلئے باعث فخر بن گیا۔ اس سال 2 مئی کا دن اس لئے بھی اہمیت اختیار کر گیا کہ جب کچھ روز قبل میڈیا میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ایبٹ آباد آپریشن کے اہم کردار امریکی ایجنٹ شکیل آفریدی کو پشاور جیل سے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ شکیل آفریدی نے اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کو مدد فراہم کی تھی اور اسامہ بن لادن کا ڈی این اے حاصل کرنے کیلئے ایبٹ آباد میں جعلی پولیو مہم چلائی تھی جس کے نتیجے میں امریکہ کو اسامہ تک رسائی حاصل ہوئی اور ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن عمل میں آیا ۔

 پاکستانی غدار شکیل آفریدی کو پشاور جیل سے خفیہ مقام پر منتقل کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کیونکہ سیکورٹی ایجنسیز کو کچھ اس طرح کے اشارے ملے تھے کہ امریکہ 2 مئی کو ایبٹ آباد آپریشن کی طرز پر آپریشن کر کے شکیل آفریدی کو پاکستان سے نکالنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جبکہ اس سے قبل کے پی حکومت بھی وفاقی حکومت سے درخواست کر چکی تھی کہ شکیل آفریدی کو پشاور جیل جہاں طالبان اور القاعدہ کے جنگجو بھی اپنی سزائیں بھگت رہے ہیں، سے کہیں اور منتقل کیا جائے کیونکہ طالبان اور القاعدہ کے جنگجوئوں سے شکیل آفریدی کی جان کو خطرات لاحق ہیں ۔ اس طرح سیکورٹی ایجنسیوں کیلئے یہ ناگزیر ہو گیا کہ شکیل آفریدی کو کسی خفیہ مقام پر منتقل کر دیا جائے۔

اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور ایبٹ آباد آپریشن میں ہلاکت یقیناً پاکستان کیلئے تضحیک کا سبب بنا جس کے بعد ہمیں اپنی نااہلی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ ہم اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی سے واقف نہیں تھے مگر دنیا نے ہماری وضاحت تسلیم نہ کی۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد عوامی دبائو پر جسٹس (ر) جاوید اقبال جو آج کل نیب کے چیئرمین ہیں، کی سربراہی میں ایبٹ آباد کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے اپنی رپورٹ مرتب کر کے تمام ذمہ داروں کا تعین کیا اور سفارشات پیش کیں لیکن سقوط ڈھاکہ اور دیگر کمیشن کی طرح ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو بھی منظر عام پر نہیں لایا گیا اور معاملے کو سرد خانے کی نذر کر دیا گیا۔

ایبٹ آباد آپریشن کے بعد امریکہ پاکستان سے مسلسل مطالبہ کرتا رہا ہے کہ شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کیا جائے جبکہ گزشتہ سال ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ صدر بننے کے بعد شکیل آفریدی کو منٹوں میں پاکستان سے رہائی دلا کر امریکہ لا سکتے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اس بات کو بعید از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ امریکہ اپنے ’’ہیرو‘‘ کو پاکستان سے نکال لے جانے کیلئے کوئی مہم جوئی کر بیٹھے۔ یاد رہے کہ پاکستانی عدالت نے مئی 2012ء میں شکیل آفریدی کو غداری کے مقدمے میں 33 سال قید کی سزا سنائی تھی جسے بعد میں کم کر کے 23 سال کر دیا گیا اور اس طرح شکیل آفریدی اپنی سزا کے 7 سال گزار چکا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ یہ بات یقینی بنائے کہ شکیل آفریدی کو سزا مکمل ہونے سے پہلے امریکہ کے حوالے نہ کیا جائے لیکن اگر دبائو میں آکر امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی طرح شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کیا گیا تو یہ پاکستانی عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا امریکہ اپنے ’’ہیرو‘‘ اور پاکستان کے غدار کو بچا لے جانے میں کامیاب ہو سکتا ہے؟

مرزا اشتیاق بیگ
 

تین کروڑ سے زائد پاکستانیوں کی انٹرنیٹ تک رسائی

$
0
0

سینٹرل امریکن انٹیلیجنس یعنی سی آئی اے کی ویب سائٹ ، جو کہ دنیا کے ہر ملک کا اس کی آبادی ، ٹرانسپورٹیشن، کمیونیکیشن سے لے کر عسکری استعداد وغیرہ تک کا ڈیٹا رکھتی ہے اس کےمطابق اس وقت پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد تین کروڑ سے زائد ہے۔ جب کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی ویب سائٹ پر موجود اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ملک میں 13 کروڑ 99 لاکھ 70 ہزار 7 سو 62 افراد موبائل فون استعمال کر رہے ہیں اور اس کے ذریعے تھری جی اور فور جی استعمال کرنے والوں کی تعداد قریباََ ساڑھے 4 کروڑ ہے۔

براڈ بینڈ سبسکرائبرز کی تعداد تقریباََ پونے 5 کروڑ ہے۔ جس کی وجہ تھری جی اور فور جی کی سہولت اور کم قیمت اسمارٹ فونز کی دستیابی ہے اور ای کامرس اور دیگر ڈیجیٹل ایپلی کیشنز کے استعمال کی وجہ سے گھر اور بزنس اب ایک جگہ اکٹھے ہو گئے ہیں یعنی ہم گھر بیٹھ کر بزنس بھی کر سکتے ہیں اور خریداری بھی کیونکہ بہت سی آن لائن شاپنگ کی ویب سائٹس ہیں جنھیں بہت سے انٹرنیٹ صارفین استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب اوبر اور کریم کے ذریعے سفر کی سہولت بغیر اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے حاصل نہیں ہو سکتی جو کہ ضرورت بنتی جا رہی ہے۔

پاکستان میں انٹرنیٹ کے روز مرہ استعمال میں اضافے کی وجہ سے اس وقت پاکستان انٹرنیٹ استعمال کرنے والی 10 معیشتوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ اس رینکنگ میں پاکستان 9 ویں پوزیشن پر ہے جبکہ ایران 7 اور بنگلہ دیش 10 ویں پوزیشن پر ہے۔ اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی ( یو این سی ٹی اے ڈی) کی جانب سے جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2012 ء سے 2015 ء کے دوران 16 ملین سے زائد پاکستانی آن لائن ہوئے جو ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی مجموعی تعداد کا 47 فیصد بنتا ہے۔ جبکہ ایک سروے کے مطابق اسمارٹ فون رکھنے والے 73 فیصد صارفین موٹر رائیڈ سروس کیلئے معاون ایپلیکیشنز استعمال کر رہے ہیں۔

گوگل کے تحت ایک ہزار سے زائد پاکستانیوں کے سروے کے بعد جاری کی گئی ’’پاکستان ڈیجیٹل کنزیومر اسٹڈی‘‘ نامی رپوٹ کے مطابق پاکستانی ڈیجیٹل صارفین اب انٹرنیٹ سے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ منسلک رہتے ہیں۔ سروے میں شامل 70 فیصد افراد روزانہ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جبکہ 60 فیصد کے مطابق انٹرنیٹ ہی وہ جگہ ہے جہاں وہ اپنا زیادہ تر ذاتی وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔
پاکستان میں ٹی وی دیکھنے والے افراد 41 فیصد اور اخبار پڑھنے والے افراد 24 فیصد ہیں، جبکہ 2012ء میں یہ تناسب انٹرنیٹ کو ترجیح دینے والوں سے کم تھا۔ پاکستانی صارفین کیلئے انٹرنیٹ استعمال کرنے کیلئے سب سے زیادہ قابل ترجیح جگہ گھرہے، جبکہ صرف موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین بھی گھر کے وائی فائی کنکشن کی مدد سے انٹرنیٹ استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ڈیسک ٹاپ اور موبائل انٹرنیٹ پر ہونیوالی 3 بنیادی سرگرمیوں میں سوشل میڈیا، ای میل اور عام ریسرچ شامل ہیں، جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ علوم سیکھنے اور سیکھانے کیلئے آج کے ڈیجیٹل پاکستانی اپنے اسمارٹ فونز پر آنے والے علمی مواد کو ترجیح دیتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں اسمارٹ فونز پر آن لائن بینکنگ، مالی خدمات اور سرمایہ کاری کے حوالے سے ریسرچ اور بلوں کی ادائیگی نے بھی مقبولیت حاصل کی ہے۔ یہ تو تھی پاکستان کی صورتحال لیکن ابھی بھی دنیا کی آدھی آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے تاہم کچھ ممالک میں اسے استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ایک رپورٹ میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ تمام ممالک کی حکومتوں کو اپنی عوام کو انٹرنیٹ استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ کوئی بھی ڈیجیٹلائزیشن میں پیچھے یا اس سے محروم نہ رہ جائے۔

بین الاقوامی سطح پر 2015ء میں ای کامرس کے ذریعے 25 کھرب کی خرید و فروخت ہوئی اور آئی سی ٹی سروسز کی برآمدات میں 2010ء سے 2015ء کے درمیان 40 فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق اس صنعت میں 100 ملین لوگ موجود ہیں۔ 2016ء میں دنیا بھر میں تھری ڈی پرنٹرز کی خرید و فروخت دگنی رہی اور سب سے زیادہ روبوٹس فروخت ہوئے۔ 3 کروڑ 80 لاکھ افراد نے دوسرے ممالک سے انٹرنیٹ کے ذریعے خریدو فروخت کی۔ رپورٹ میں یہ بھی پیش گوئی کی گئی ہے کہ دنیا میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 2019ء میں 2015ء کے مقابلے میں 66 فیصد زیادہ ہو جائے گی۔

تاہم رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ انٹرنیٹ کی مختلف سروسز کے استعمال کا تناسب مختلف ہے۔ مثلاً دنیا بھر میں صرف 16 فیصد افراد انٹرنیٹ کے ذریعے بل ادا کرتے ہیں اور لاطینی امریکا اور افریقا میں اب بھی تھری ڈی پرنٹرز کا استعمال فقط 4 فیصد ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں انٹرنیٹ کے استعمال کے تناسب میں مردوں اور عورتوں میں بہت فرق ہے۔ اس رپورٹ میں 25 ممالک کی فہرست بنائی گئی ہے اور وہاں سوشل نیٹ ورک اور آن لائن خریدو فروخت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں ایران بھی شامل ہے جہاں آن لائن خرید و فروخت کا تناسب تو 10 فیصد ہے تاہم سوشل نیٹ ورکس پر صارفین کی شمولیت کا تناسب 60 فیصد ہے۔

فاروق احمد انصاری

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

دل دہلا دینے والی خبر پر موت کی سی یہ خاموشی

$
0
0

دی نیوز کے رپورٹر فخر درانی کی ایک خبر حال ہی میں شائع ہوئی جس میں وہ کچھ بیان کیا گیا جسے پڑھ کر انسانیت شرما جاتی ہے اور جاہلیت کا وہ زمانہ یاد آ جاتا ہے جس کواسلام نے سختی سے رد کیا ۔ سنگدلی اور بربریت کی اس کہانی کا تعلق اسلام کے نام پر بننے والے ہمارے اپنے پاکستان سے ہے ۔ خبر کے مطابق اس سال فروری میں ایدھی سینٹر کراچی کو ایک نامعلوم ٹیلی فون کال موصول ہوئی، کالر نے بتایا کہ کوڑے کے ڈھیر میں ایک لاش ہے آ کر اٹھالیں۔ سینٹر کے اہل کار وہاں پہنچے۔ سفاکی دیکھ کر سکتے میں آگئے۔ان کے سامنے ایک نومولود کی لاش تھی، یہ چار دن کی بچی تھی، تیز دھار آلے سے اس کا گلا کاٹ دیا گیا تھا۔ 

جاہلیت کے زمانہ میں بچیوں کو ناپسندیدہ مخلوق قرار دے کر دفن کر دیا جا تا تھا، ہم اس سے بھی دو ہاتھ آ گے نکل گئے… بچیوں کو قتل کر کے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں۔ خبر کے مطابق یہ نامعلوم بچی سفاکی کی پہلی نشانہ نہیں بلکہ جنوری 2017 تا اپریل 2018 تک ایدھی فائونڈیشن اور چھیپا ویلفیئر             آرگنائزیشن نے کراچی میں نومولود بچوں کی 345 لاشیں وصول کیں ان میں 99 فیصد بچیوں کی تھیں۔ ایدھی فائونڈیشن کراچی کے سینئر منیجر انور کاظمی نے کہا کہ ہم اس طرح کے واقعات کو سال ہا سال سے ڈیل کر رہے ہیں، چند ہی ایسے واقعات ہیں جنہوں نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا ہو، کیا ہمارا معاشرہ پھر جاہلیت کے دور کی طرف لوٹ رہا ہے۔ ایدھی فائونڈیشن نے سال 2017 کے دوران ملک بھر میں کوڑے کے ڈھیروں سے معصوم بچوں کی 355 لاشیں اٹھائیں، ان میں 99 فیصد بچیاں تھیں، اس بدنامی میں کراچی سرفہرست ہے، جہاں 180 ایسی لاشیں ملی ہیں۔

سال رواں کے ابتدائی چار ماہ میں کراچی میں صرف ایدھی فائونڈیشن نے 72 مردہ بچیوں کو دفن کیا، یہ اعداد و شمار بہت تھوڑے ہیں اس لیے کہ ایدھی فائونڈیشن صرف ان شہروں کے اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھتی ہے جہاں اس کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ چھیپا ویلفیئر ایک دوسری این جی او ہے، جس نے کراچی میں 93 نومولودوں کی لاشیں دفن کیں،2017 میں سترا ور اس سال 23۔ چھیپا ویلفیئر آرگنائیزیشن کے ترجمان شاہد محمود کا کہنا ہے اگرچہ لوگ ان کو چھوڑ جاتے ہیں لیکن ایک ویلفیئر آر گنائزیشن کے طور پر ہم ان معصوم بچوں کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں، ان کی مناسب تدفین کا انتظام کرتے ہیں، پولیس اور ہسپتال کے ضابطے پورے کرنے کے بعد ہم ان کو اپنے قبرستان میں دفن کر تے ہیں۔ 

ایک بچے کی تدفین پر اخراجات دو ہزار ہوتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ایدھی فائونڈیشن نے جھولے لگا رکھے ہیں تا کہ لوگ بے طلب بچوں کو قتل کرنے کی بجائے ان میں چھوڑ جائیں ۔ خبر کے مطابق اگرچہ ایدھی فائونڈیشن کا دعویٰ ہے کہ اسے حوصلہ افزا رسپانس مل رہا ہے لیکن اعداد و شمار اس کی تائید نہیں کرتے۔ مسٹر کاظمی کے مطابق 2017 میں انہیں صرف چودہ زندہ بچے ملے ہیں، ان میں بارہ بچیاں تھیں، دو بچے تھے وہ بھی معذور۔ اے آئی جی آفس کراچی کے ایک پولیس افسر کے مطابق کلفٹن کے قریب واقع نیلم کالونی ایک کچی آبادی ہے، جہاں کی آبادی کی بڑی اکثریت خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ بچوں کے قتل کے واقعات ان آبادیوں میں رونما ہوتے ہیں جہاں غربت عروج پر ہے، نیلم کالونی بھی ایک ایسی ہی آبادی ہے۔

اگرچہ پولیس اس کا سبب جہالت اور غربت کو قرار دیتی ہے تا ہم ایدھی فائونڈیشن کے عہدیدار وں کا موقف اس سے مختلف ہے۔ مسٹر کاظمی کے مطابق اکثر واقعات میں نومولود بچوں کے قتل کا محرک ناجائز اولاد ہے۔عمومی طور پر ناجائز اولاد اگر بچی ہو تو اس کو قتل کر دیا جا تا ہے اس لیے کہ اسے ایک بدنامی تصور کیا جا تا ہے۔ اگر بچہ ہو تو خاندان اس کوبچانے کی کوشش کرتا ہے۔ خبر میں کاظمی کے حوالہ سے یہ بھی لکھا گیا کہ ہم نے کئی ایک ہولناک واقعات دیکھے ہیں لیکن ایک واقعہ عشرے گزرنے کے باوجود بھی میں نہیں بھلا سکا جب ایک مسجد کے سامنے سے ایک نومولود کی لاش ملی جس کو پتھروں سے مار مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ کاظمی نے مزید بتایا کہ کراچی کی ایک مسجد کے دروازے پر ایک نومولود بچہ ملا، اس کو امام مسجد کے حوالے کر دیا گیا امام نے کہا کہ یہ ناجائز بچہ ہے، اس لیے اس کو سنگسار کر دیا جائے، نتیجہ یہ نکلا کہ بچے کو سنگسار کر دیا گیا۔ 

پاکستان میں نومولود بچوں کا قتل اور ان کو لاوارث چھوڑ دینا دونوں قابل تعزیر جرائم میں شامل ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 328 اور329 کے تحت مختلف مدت کی سزا، قید اور جرمانہ ہے۔ اے آئی جی آفس کے ایک افسر کے مطابق عمومی طور پر کوئی بھی اس طرح کے واقعات کی پولیس کو اطلاع نہیں دیتا، کراچی میں گزشتہ سال نومولود بچوں کے قتل کا صرف ایک ہی مقدمہ درج ہوا۔ اگر لوگ شکایات درج کرائیں گے تو اس صورت میں پولیس تحقیق کر سکتی ہے کہ آیا یہ واقعات ناجائز بچوں کے ہیں یا قتل کا محرک کچھ اورہے۔

ٰیہ خبر پڑھ کر دل دہل سا گیا کہ اتنا ظلم… معاشرتی جہالت اور بے راہ روی کی یہ پستی…اور یہ بھی کہ یہ سب ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اور جہاں کے رہنے والوں کی اکثریت مسلمان ہیں۔ یہ خبر کسی دوسرے ملک میں شائع ہوتی تو نجانے کیا طوفان برپا ہو چکا ہوتا لیکن یہاں تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ایک طرف معاملہ انسانی جانوں کے قتل کا ہے جو بربریت اور ظلم کی انتہا ہے تو دوسری طرف وہ معاشرتی حالات ہیں جن کی وجہ سے ان واقعات میں اس قدر اضافہ ہو رہا ہے۔ 

لیکن افسوس نہ ظلم کرنے والوں کو پکڑا جاتا ہے اور نہ ہی اُن معاشرتی خرابیوں کو ٹھیک کرنے کی کوئی کوشش ہو رہی ہے جن کی وجہ سے ایسے واقعات یہاں رونما ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ریاست کے ساتھ ساتھ معاشرہ کو ایک اپنا اہم کردار ادا کرنا پڑے گا۔ ایک طرف ایسے جرائم میں ملوث افراد کو سخت سزا دینے کی ضرورت ہے تو دوسری طرف اسلامی اصولوں کے مطابق اصلاح معاشرہ اور کردار سازی پر بہت زور دینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جس طرح سے معاشرتی بگاڑ اور اس سے جڑے جرائم کی مختلف صورتیں دن بدن ہمارے سامنے آ رہی ہیں اگر انہیں نہ روکا گیا تو اس معاشرہ کو تباہی و بربادی سے کوئی نہیں روک سکتا۔

انصار عباسی
 

لاپتہ افراد کیس : اسٹیبلشمنٹ نے ملک دولخت ہونے پر بھی سبق نہیں سیکھا

$
0
0

لاپتہ افراد کے حوالے سے دائر کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیے کہ ’اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے دولخت ہوجانے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا‘۔ سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے لاپتہ افراد کے حوالے سے عبوری رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ہزار 330 افراد مختلف حراستی مراکز میں قید ہیں تاہم ان افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی تفصیلات فراہم کرنے میں وقت درکار ہے جبکہ 253 افراد کو رہا کیا جا چکا ہے۔ ایڈو کیٹ انعام الرحمٰن نے حکومت کی جانب سے مزید مہلت فراہم کیے جانے کی درخواست پر شدید مخالفت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تیسری مرتبہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مہلت مانگی جارہی ہے شاید حکومت جسٹس اعجاز افضل خان کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کر رہی ہے۔
جس پر فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ کورٹ کی کارروائی ان کی ریٹائرمنٹ سے مشروط نہیں، بینچ میں شامل دیگر ججز، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس فیصل عرب موجود رہیں گے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے مزید کہا کہ عدالت ایک ہزار 330 افراد کو رہا کرنے کا نہیں کہہ رہی لیکن بتایا جائے کہ زیرِ حراست افراد پر الزامات کی نوعیت کیا ہے؟ ریاستی اداروں کو لوگوں کو غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ لاپتہ افراد کے تحقیقاتی کمیشن نے اپریل کے مہینے تک 3 ہزار 269 کیسز میں سے ایک ہزار 822 کیسز کے علاوہ باقی تمام کیسز رد کر دیے تھے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین طویل عرصے سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے مدد مانگ رہے ہیں اوراسی امید پرعدالت اور کمیشن سے رجوع بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے اعلیٰ عدلیہ میں رپورٹ جمع کرائی اور نہ ہی وہ عدالت کے احکامات ماننے میں سنجیدہ ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے سابق چیف جسٹس ناصر الملک کی جانب سے 13 مئی 2014 کو دیئے جانے والے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تاصیف علی 2013 سے زیر حراست ہے جس کے حراستی آرڈرز پیش کرنے کے احکامات جاری کیے گئے لیکن عدالت کے حکم پر آج تک عمل نہیں ہوا۔

انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے دولخت ہوجانے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا، بینچ نے ایک بار پھر تاصیف علی کے حراستی آرڈرز پیش کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ یہ بھی رحیم نے بتایا کہ 16 سالہ ارشد بلال نامی نوجوان کو 16 مئی 2011 کو سوات سے گرفتار کیا گیا، تاہم خوش قسمتی سے ہائی کورٹ کی مداخلت کے سبب اس کا کیس زیرِ سماعت تھا، اور ریکارڈ کے مطابق ارشد بلال 3 سال زیرِ تفتیش رہا لیکن 10 مئی 2014 کو دوبارہ قید کر لیا گیا۔

اس ضمن میں مزید 3 سال گزرنے کے بعد 27 مئی 2017 کو بلال نے اقرارِ جرم کر لیا، اور 30 دسمبر 2017 کو فوجی عدالت نے فوجی دستے پر راکٹ لانچر سے حملے سمیت 14 جرائم کے تحت اسے سزائے موت سنا دی، بغیر اس بات کو سمجھے کہ ایک 16 سالہ لڑکا کس طرح راکٹ لانچر کا استعمال کر سکتا ہے۔ اپنے موقف میں انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلال کا مقدمہ فوجی عدالت میں نہیں چل سکتا تھا کیوںکہ حراست میں لیے جانے کے وقت وہ کم عمر تھا۔ اس موقع پر عدالت نے کونسل کو لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی بھی ہدایت کی۔

یہ خبر 3 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live