Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

'اسے ہم اپنے قبرستان میں دفن بھی نہ کر سکے'

$
0
0

اولاد کے لیے ایک ماں کے سینکڑوں سوالات ہوتے ہیں لیکن اس ماں کے ذہن میں کیسے کیسے سوال ابھر رہے ہوں گے جس کی آٹھ سالہ بیٹی کے ساتھ اجتماعی ریپ کیا گیا ہو؟ اس ماں کے کتنے سوالات ہوں گے جس کی بچی کے ساتھ ہونے والے جرم نے مذہبی خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہو ؟ 'ہماری بچی۔۔۔ اس نے کسی کا کیا کھویا؟ کیا گم کیا؟ کیا چوری کی تھی؟ انھوں نے اسے کیوں مارا؟
'اسے اس طرف دور لے گئے۔ پتہ نہیں گاڑی میں لے گئے یا کیسے لے گئے۔ کس طرح مارا، کچھ پتہ نہیں۔

'پتہ نہیں اس کی جان کیسے لی؟'
اس کے سوال ہیں کہ ختم ہی نہیں ہو رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک قطار باندھے چلے آ رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ماں کا درد پھوٹ نکلا ہو۔ جموں کے ادھم پور کے دودھر نالا کی پہاڑیوں پر جب ان کے سوالوں کی جھڑیاں لگیں تھیں اسی وقت میرے ذہن میں آٹھ سال کی اس معصوم کی شکل ابھر رہی تھی جو کہ اجتماعی ریپ کا شکار ہوئی تھی۔ بالکل ماں جیسی شکل، ویسی چمکتی ہوئی بڑی بڑی آنکھیں اور گورا چٹا رنگ۔

پھر میرا ذہن لوٹ آیا۔ اس کی ماں کہہ رہی تھی کہ 'بہت خوبصورت اور ہوشیار تھی میری بیٹی، جنگل میں جا کر واپس آ جاتی تھی۔ 'لیکن اس دن وہ لوٹ کر نہیں آئی اور پھر ہمیں اس کی لاش ملی۔' وہیں آس پاس بھیڑیں، بکریاں اور گائیں تھیں۔ بکروالی کتے رات کی ٹھنڈک کے بعد زنجیروں میں بندھے پڑے دھوپ سینک رہے تھے۔ گھوڑے اپنے بچوں کے ساتھ چارا کھانے میں مشغول تھے۔ اس بچی کو بھی گھوڑوں کا بہت شوق تھا۔ اس کی بہن نے بتایا کہ اسے کھیلنے کا بہت شوق تھا اور وہ بہت اچھی طرح گھڑ سواری کر سکتی تھی۔

اس دن وہ گھوڑے لے کر ہی کٹھوعہ کے جنگل میں گئی تھی جب اسے اغوا کر لیا گيا اور سات دنوں تک اجتما‏عی ریپ کے بعد لاش کو جنگل میں پھینک دیا گيا ۔  غمزدہ ماں بتاتی ہیں : 'پہلے میری تین بیٹیاں تھیں۔ اب دو ہی رہ گئی ہیں۔' اپنی اس بیٹی کو انھوں نے اپنے بھائی کو گود دیا تھا کیونکہ بھائی کی بیٹی کی ایک حادثے میں موت ہو گئی تھی۔ حادثے کے وقت بچی کے اصل ماں بات سانبا میں ڈیرہ ڈالے ہوئے اور ان کی بچی اپنے ماموں کے ساتھ کٹھوعہ کے اس گاؤں میں رہ رہی تھی۔

سات دنوں کے بعد بھی لاش کا حاصل کرنا بہت آسان کام نہیں تھا۔ بچی کے والد نے وضاحت کی: 'پولیس والے یہ کہنے لگے کہ آپ ہی کی بکروال برادری میں سے کسی نے اسے مار ڈالا ہو گا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ گاؤں والے تو ایسا برا کام نہیں کر سکتے۔' بچی کی ماں نے کہا: 'اپنی موت مر جاتی تو صبر کر لیتے۔ سمجھتے کہ مر گئی۔ دنیا مرتی ہے سو وہ بھی مر گئی۔' جبکہ بچی کے والد نے کہا: 'ہم اپنی بیٹی کو اپنے قبرستان میں دفن بھی نہیں کر سکے۔ اسے ہمیں رات میں ہی دوسرے گاؤں لے جانا پڑا۔'

فیصل محمد علی
بی بی سی نمائندہ، ادھم پور
 


شام کے مظلوم پھر نشانے پر

$
0
0

عالمی طاقتوں کی جانب سے ملک شام میں حملوں کی بنیاد داعش کے خلاف 
کارروائیوں کو بنایا گیا تھا لیکن ان طاقتوں میں شامی صدر بشارالاسد کے مستقبل کے حوالے سے کوئی سمجھوتا طے نہیں پا سکا تھا۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے برعکس روس کا یہ موقف تھا کہ شامی عوام ہی کو انتخابات کے ذریعے بشارالاسد کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے جبکہ امریکا ، ترکی اور عرب ممالک شامی صدر کی بحران کے حل کے لیے اقتدار سے رخصتی چاہتے تھے۔ روس کا موقف تھا کہ شامی صدر نہیں بلکہ داعش کے خلاف جنگ پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے اور اس میں شرکت کیلئے بشارالاسد کی رخصتی سمیت کوئی پیشگی شرط عائد نہیں ہونی چاہئے۔

فرانس اور روس کے جہازوں نے شام پر ہزاروں ٹن بارود کے گولے برسائے نتیجتاً سیکڑوں معصوم شہری لقمہ اجل بنے لیکن داعش کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا پہنچنا چا ہئے تھا۔ اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ داعش نے پیشگی احتیاطی تدابیر اختیار کیں جس کی وجہ سے وہ بڑے نقصان سے بچ گئے لیکن یہاں پر معاملہ وہ ہی قندوز حملے جیسا تھا کہ حملے کے بعد کہا گیا کہ ہلاک ہونے والے تمام تر بدنام زمانہ دہشت گرد تھے لیکن جوں جوں حقیقت سامنے آتی گئی اس سے واضح ہوا کہ فضائی کارروائی خالصتاً درندگی تھی جس سے معصوم حفاظ لقمہ اجل بنے۔

سب سے پہلے روس کی جانب سے اعتراف سامنے آیا کہ شامی سرزمین پراپنے تیار کردہ 200 نئے اقسام کے ہتھیاروں کو شام کی خانہ جنگی میں آزمائش کے طور پر استعمال کیا، گویا شام اور اس کے معصوم شہریوں کا تختہ مشق بنایا گیا۔
روس کے اپنے نئے تجربات کی کامیابیوں کا ذکر یو ں آیا کہ روسی فوج کے سابق کمانڈر اوراس وقت کے ’ڈوما‘ کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ ولادی میر شامانوو نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ماسکو کے انجینئروں نے ملکی سطح پر تیار کردہ 200 اقسام کے نئے ہتھیاروں کو شام میں ٹیسٹ کیا، شامی حکومت کی مدد کے لیے نئے اقسام کے ہتھیار بنائے گئے اور انہیں استعمال کیا، ہمارے ہتھیار اس قدر کامیاب ہوئے کہ خود بشارلاسد حکومت نے ہم سے مانگے اور ذخیرہ کیا جب کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہتھیار شامی حکومت نے اپنے شہریوں پر استعمال کئے۔

تازہ اطلاعات ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکا نے شام پر برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر حملہ کیا ہے، حملے میں بظاہر سائنسی تحقیق کی لیبارٹری کو نشانہ بنایا گیا امریکی صدر نے کہا ہے کہ شام میں مخصوص اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے جب کہ حملوں کا مقصد کیمیائی ہتھیاروں کا خاتمہ ہے۔ لیکن ان دعوئوں پر حقائق سامنے آنے تک کوئی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا کیوں کہ وتیرہ تو یہ ہی بنایا جاتا ہے کہ حملے ہدف پر تھے، دہشت گرد مارے گئے، مقصد حاصل کر لیا گیا لیکن جب زمینی حقائق سامنے آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مارے گئے عام معصوم شہری تھے، حفاظ تھے، بچے تھے، عورتیں تھیں اور دہشت گرد اس لئے بچ گئے کیوں کہ انہوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کر لی تھیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

معاملہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ سے آگے بڑھ گیا

$
0
0

کچھ عرصہ قبل مغربی ثقافت اور سوچ کو یہاں پھیلانے کے لیے کام کرنے والی
کچھ این جی اوز نے پاکستان کے چند اہم شہروں میں خواتین کے حقوق اور اُن کی آزادی کے نام پر ایک مظاہرہ کا انعقاد کیا۔ اس مظاہرہ کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ عورت مکمل آزاد ہے اور وہ اپنے فیصلوں کے لیے کسی مرد چاہے وہ باپ ہو، بھائی یا شوہر کسی کے زیر اثر نہیں۔ اس مظاہرہ کا اہم نعرہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ تھا۔ اس نعرہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے لوگوں کی توجہ حاصل کی اور بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے اپنے غم و غصہ کے ساتھ ساتھ تعجب کا اظہار کیا کہ یہ کون سی تعلیم دی جا رہی ہے اور یہ کیسے حقوق کی بات کی جا رہی ہے جن کا نشانہ شرم و حیا کے ساتھ ساتھ ہماری اسلامی و معاشرتی اقدار ہیں تاکہ مغرب کی طرح پاکستان میں بھی بے راہ روی کو پھیلا کر اس کو فری سیکس سوسائٹی بنایا جائے۔ 

اس مظاہرہ کے انعقاد کے ایک دو ہفتوں کے بعد پاکستان کے ایک انگریزی اخبار نے ایک خبر شائع کی جسے پڑھ کر محسوس ہوا کہ کس طرح پاکستان میں بے شرمی اور بے غیرتی کو بڑھانے کے لیے انتہائی منظم انداز میں کام ہو رہا ہے اور ہم بے فکر ہو کر بیٹھے ہیں۔ خبر بہت خطرناک تھی لیکن اس کو بھی عمومی طور پر نظر انداز کیا گیا۔ خبر کے مطابق رضامندی سے زنا کو جائز قرار دینے کے لیے اقوام متحدہ کی ایک تنظیم کی سفارشات کو پاکستان نے رد کرنے کی بجائے ’’Noted‘‘ لکھا جس کا (خبر کے مطابق) مطلب یہ ہے کہ پاکستان ان سفارشات پر غور کرے گا۔ ان سفارشات میں یہ لکھا ہے کہ ایسے قوانین جو بغیر شادی کیے نا محرم عورت اور مرد کے جسمانی تعلق یعنی زنا پر پابندی لگاتے ہیں اور اُنہیں غیر قانونی تصور کرتے ہیں ، اُنہیں ختم کر دیا جائے تاکہ زنا کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے۔

خبر میں وزارت خارجہ کے ذرائع کے حوالہ سے لکھا گیا کہ انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی پاکستان نے ان سفارشات جن کا حوالہ (The UPR Recommendations- 2017) ہے، کے بارے میں اقوام متحدہ میں اپنا ردعمل "noted"کر کے دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ان سفارشات پر غور کرے گا۔ خبر کے مطابق ماضی میں بھی پہلے 2008 اور پھر 2012 میں اسی تنظیم نے کچھ دوسری متنازع سفارشات کے ساتھ ساتھ رضا مندی سے زنا کے عمل کو جائز قرار دینے کی تجاویز دیں تھیں لیکن دونوں مرتبہ پاکستان نے ان سفارشات کو صاف صاف مسترد کیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم ان تجاویز پر غور بھی نہیں کریں گے۔ لیکن اس بار ایسا کیا اور کیوں ہوا کہ پاکستان نے ایسے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی عمل کو رد کرنے کی بجائے اس پر غور کرنے کا وعدہ کر لیا؟؟ اس بارے میں دفتر خارجہ میں بیٹھے افراد بھی حیران ہیں۔ 

ذرائع کے حوالے سے خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ عمل ممکنہ طور پر پاکستان کو بدنام کرنے کی بھی سازش ہو سکتی ہے۔ اس خبر کی سنگینی کے باوجود اس پر ابھی تک کوئی ایکشن کہیں سے بھی نہیں لیا گیا اور نہ ہی کسی انکوائری کا حکم سامنے آیا ہے۔ چلیں ٹی وی چینلز سے تو کوئی کیا توقع رکھے کہ اس معاملہ کو اٹھائیں تاکہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور یہ بھی پتا لگایا جائے کہ آخر اس عمل میں کون کون شریک ہے اور اُن کا مقصد کیا تھا، لیکن حیرانگی اس امر پر ہے کہ ایک انگریزی اخبار میں اس خبر کے شائع ہونے کے باوجود حکومت کے کان میں جوں تک نہیں رینگی۔ 

جس روز یہ خبر شائع ہوئی اُسی روز میں نے اُسے سوشل میڈیا میں ٹیوٹر کے ذریعے بھی شیئر کیا اور خصوصی طور پر وزیر خارجہ خواجہ آصف، مریم نواز اوراحسن اقبال کی توجہ کے لیے اُن کے ٹیوٹر ہینڈل کو بھی لنک کیا لیکن کسی نے اس بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا۔ اس معاملہ کو اس کالم کے ذریعے اٹھانے کا مقصد ریاستی ذمہ داروں کی توجہ حاصل کرنا ہے تاکہ اس سازش کو بے نقاب کیا جا سکے اور یہ بھی پتا لگایا جا سکے کہ کون کون سی این جی اوز اس قسم کے ایجنڈے پر یہاں کام کر رہے ہیں اور اُن کے خلاف حکومت کارروائی کرنے سے کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

انصار عباسی
 

پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کے عوض ڈالرز حاصل کیے گئے

$
0
0

لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ اور قومی احتساب بیورو ( نیب ) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کے عوض ڈالرز حاصل کیے گئے۔ رکن اسمبلی زہرہ ودود فاطمی کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں جاوید اقبال کی جانب سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ سابق وزیر داخلہ اور رکن اسمبلی آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی جانب سے 4 ہزار پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا جبکہ سابق صدر پرویز مشرف نے بھی پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کا اعتراف کیا۔

انہوں نے بتایا کہ پرویز مشرف اور آفتاب شیر پاؤ کے اقدامات کی تحقیقات کروانی چاہیے تھی اور پوچھنا چاہیے تھا کہ آخر کس قانون کے تحت پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا لیکن ان کے خلاف پارلیمان میں آواز نہیں اٹھائی گئی۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ایک پاکستانی کو کسی غیر ملک کے حوالے کیسے کیا جا سکتا ہے، ملک میں پارلیمان، آئین، عدالتیں ہونے کے باوجود کیسے کسی پاکستانی کو دوسرے ملک کو دیا گیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اور خفیہ طریقے سے انہیں غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا اور اس کے عوض ڈالرز حاص کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے اداروں نے تعاون کیا اور ایسے افراد کے اہل خانہ کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں غیر ملکی این جی اوز کا معاملہ بھی زیر غور آیا، جس پر جاوید اقبال نے کہا کہ وہ ایسے بین الاقوامی غیر سرکاری اداروں پر پابندی کے حق میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ این جی اوز ملک کی بجائے غیر ملکیوں کے مفاد میں کام کر رہی ہیں اور این جی اوز کو فنڈنگ بھی غیر ملکیوں سے مل رہی ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ میرے اختیار میں ہوتا تو این جی اوز پر پابندی عائد کر چکا ہوتا لیکن این جی اوز پر پابندی کے معاملے پر سیاسی مصلحت آڑے آجاتی ہے۔ 

نادر گُرامانی

بشکریہ ڈان نیوز اردو
 

ٹیکس ایمنسٹی اسکیم : کیا معیشت بہتر ہو جائے گی ؟

$
0
0

اپنی حکومت کے اختتام سے چند ہفتے پہلے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک چار نکاتی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری کر دی ہے اور صدر مملکت نے اس سلسلے میں چار آرڈیننس منظور کر لیے ہیں جو فوری طور پر نافذ العمل ہوں گے۔ اس طرح اس اسکیم کا اطلاق 10 اپریل سے لے کر 30 جون 2018ء تک ہو گا جب کہ سیاستدان اور ان کے اہل خانہ اس اسکیم سے باہر رکھے گئے ہیں۔ اسکیم کے اعلان کے بعد ہی سیاستدانوں، ماہرین معیشت، کاروباری حلقوں اور تجارتی تنظیموں میں بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اس سے کرپشن اور منی لانڈرنگ میں اضافہ ہو گا۔ عمران خان نے بھی اس کی مخالفت کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ جو اس اسکیم سے فائدہ اٹھائے گا ہم حکومت میں آکر اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔ 

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اصل میں اس اسکیم کے ذریعے ٹیکس ریٹ میں کمی کر کے شہروں میں رہنے والی مڈل کلاس آبادی کو خوش کیا جا رہا ہے تا کہ اس کا ووٹ شیر کے ڈبے میں جائے۔ اس طرح یہ اعتراض بھی اہم ہے کہ وہ دولت مند طبقے جنہوں نے ناجائز دولت کمائی اور غیر قانونی طریقے سے چھپائے رکھا اور ٹیکس کی چوری کی وہ اپنے کالے دھن کو 2 سے 5 فی صد ادائیگی کے ذریعے قانونی بنا سکتے ہیں اس سے اُن ایماندار ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور وہ بھی آئندہ ٹیکس چوری کا راستہ تلاش کریں گے۔ چناں چہ اصل میں یہ اسکیم ملک کے گنے چنے بااثر دولت مند طبقوں کے مفاد میں جاری کی گئی ہے۔ جہاں تک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا تعلق ہے پاکستان میں اس سے پہلے بھی کئی بار ایسی اسکیمیں جاری کی گئیں، خود موجودہ حکومت نے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے دو سال پہلے ایک اسکیم جاری کی تھی اور اندازہ تھا کہ اس سے 10 لاکھ چھوٹے تاجر ٹیکس نیٹ میں شامل ہو جائیں گے لیکن چند ہزار تاجر بھی اس اسکیم کے ذریعے آسکے۔

دوسری طرف کاروباری تنظیموں، صنعت کاروں اور ماہرین معیشت نے اس اسکیم پر مثبت اور اُمید افزا خیالات کا اظہار کیا ہے مثلاً ایسی اسکیمیں بیرون ممالک سے سرمایہ واپس لانے کے لیے بھارت، انڈونیشیا، جنوبی افریقا، روس اور مغربی ممالک نے بھی جاری کی ہیں۔ پاکستان میں غیر یقینی، دہشت گردی، لاقانونیت کے باعث بے شمار کاروباری لوگ اپنا سرمایہ باہر لے گئے اور اس سرمایے کا بڑا حصہ رئیل اسٹیٹ میں لگا دیا۔ ایک اندازے کے مطابق 100 سے 150 ارب ڈالر پاکستانیوں کے پراپرٹی کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں جب کہ سخت بینکنگ قوانین اور مختلف ممالک کے درمیان معلومات کی رسائی کے معاہدوں کے باعث ایسے لوگوں کے لیے بیرون ملک پیسہ رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔

چناں چہ اس اسکیم کے تحت 5 سے 6 ارب ڈالر پاکستان آنے کا امکان ہے۔ یہ اسکیم انڈونیشین اسکیم سے مطابقت رکھتی ہے اور انڈونیشیا میں اس اسکیم سے 100 ارب ڈالر اندرون ملک ٹرانسفر ہوئے تھے۔ اس لیے حکومت پاکستان کو بھی ڈالروں کی آمد کی قومی اُمید ہے۔ ایک اور حیران کن بات اس اسکیم میں انکم ٹیکس میں رعایت کی ہے، پہلے چار لاکھ سالانہ آمدنی سے زائد پر انکم ٹیکس لاگو ہو جاتا تھا اور اس کی شرح دس فی صد تھی جب کہ انکم ٹیکس کی آخری شرح 35 فی صد تھی۔ اب سالانہ 12 لاکھ تک آمدنی والے انکم ٹیکس سے آزاد ہو گئے اور اس طرح موجودہ ٹیکس نیٹ کے حساب سے تقریباً 5 لاکھ ٹیکس دھندگان کو فائدہ پہنچا۔ جس ملک میں ویسے ہی سات لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ 5 لاکھ افراد کے نکل جانے سے ٹیکس نیٹ میں کیا بچا۔ 

دوسرے ٹیکس کی شرح بھی کم کر دی، اس سے یقیناً لوگوں کی آمدنی میں 30 سے 55 فی صد اضافہ ہو گیا۔ مگر اس طرح 400 ارب روپے ٹیکس آمدنی میں کم ہو گئے وہ کمی کہاں سے پوری ہو گی جب کہ ہمارے تمام ہی بجٹ خسارے کے بجٹ ہوتے ہیں یعنی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ۔ اب خسارہ اور بڑھ جائے گا، حکومت کو اس سلسلے میں اُمید ہے کہ جب ہم نے ٹیکس کی شرح 35 فی صد سے کم کر کے 15 فی صد کر دی ہے اس سے ٹیکس کے دائرے میں زیادہ لوگ آئیں گے اور انکم ٹیکس کی وصولیابی بجائے کم ہونے کے بڑھ جائے گی۔

اس اسکیم میں نان فائیلر جو ٹیکس گوشوارہ جمع نہیں کراتے اُن پرکئی پابندیاں لگائی گئیں۔ مثلاً یہ لوگ فارن کرنسی اکاؤنٹس نہیں کھول سکیں گے اور 40 لاکھ روپے سے زیادہ مالیت کی پراپرٹی نہیں خرید سکیں گے۔ اس طرح لوگوں کو گویا آمادہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائیں۔ یہ ایک بہتر کوشش ہے مگر اصل معاملہ ایف بی آر کے افسران اور اہلکاروں کا ہے جو ٹیکس دہندگان کو ٹیکس چوری اور ٹیکس کی کم ادائیگی پر مجبور کرتے ہیں اور رشوت لے کر اُن کی جان چھوڑ دیتے ہیں اس لیے زیادہ تر لوگ ایف بی آر کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے۔ چناں چہ اس طرح کی اسکیموں کے بجائے ایف بی آر میں اصلاحات کی جائیں اس ادارے میں کرپشن کو ختم کیا جائے۔ ایمانداری اور محنت کو شعار بنایا جائے تو جلد ہی ٹیکسوں کا حجم دگنا ہو سکتا ہے اور کئی معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

 ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری
 

پاکستان میں ملالہ سے نفرت کیوں کی جاتی ہے؟

$
0
0

ان سوالات کا جواز یہ ہے کہ مغرب ہی نہیں ملالہ کے والد ضیا الدین صاحب بھی کافی ’’اسلام پسند‘‘ ہیں۔ اس کا اندازہ 31 مارچ 2018ء کے ’’دی نیوز‘‘ میں شائع ہونے والے انٹرویو کے ایک جواب سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ ملالہ کے والد سے پوچھا گیا کہ آپ کے زمانے اور آج کے دور میں کیا آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ملالہ کے والد نے جو کچھ کہا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ فرماتے ہیں۔

“There is huge differnce. When I was growing up as a child like her, we were reading ‘dineeyat’ which was about all faiths. After Zia came, it turned into Islamiyaat. Gradually radicalization grew as I grew older. We became less tolerant, less accommodating for difference of opinion and also we lost some peaceful regions in our country like Swat Valley. In my youth days, we could walk freely in the streets and mountains of Swat at midnight. It was the most peaceful place in the world. But later, when Malala was growing up in 2005, we lost that paradise.”

ملالہ کے والد صاحب فرما رہے ہیں کہ ہمارے زمانے میں ’’دینیات‘‘ پڑھائی جاتی تھی جو تمام عقائد یا مذاہب سے متعلق تھی۔ اس وقت تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ پھر جنرل ضیا الحق آ گئے اور انہوں نے دینیات کی جگہ ’’اسلامیات‘‘ پڑھانی شروع کر دی اور اسلامیات کی وجہ سے شدت پسندی یا Radicalization پھیلی۔ عدم برداشت میں اضافہ ہوا اور ہم اختلاف رائے کو کم برداشت کرنے والے بن گئے۔ یعنی ملالہ کے والد کے مطابق ایک خرابی جنرل ضیا نے کی مگر ان سے بھی زیادہ بڑی خرابی ’’اسلامیات‘‘ تھی۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام اور اسلامیات کی کھلی ’’توہین‘‘ ہے۔

بدقسمتی سے ’’پاکستان کی بیٹی‘‘ کے ’’پاکستانی والد‘‘ نے جو کچھ کہا ہے وہ خلاف ’’حقیقت‘‘ بھی ہے۔ ہندوستان میں دس بیس لاکھ نہیں 25 کروڑ مسلمان آباد ہیں مگر ہندوستان کے کسی اسکول، کسی کالج اور کسی یونیورسٹی میں انہیں اسلام یا اسلامیات نہیں پڑھائی جارہی۔ یورپ میں اب 5 کروڑ مسلمان آباد ہیں مگر یورپ کے کسی ملک کے کسی بھی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں مسلمانوں کے ’’Faith‘‘ کی تعلیم کا کوئی اہتمام نہیں کیا جا رہا۔ امریکا میں بھی یہی صورت حال ہے۔ مگر ملالہ کے والد چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’’تمام طلبہ‘‘ کو بیک وقت اسلام، ہندوازم یا عیسائیت بدھ ازم اور سکھ ازم پڑھایا جائے۔ ان کی نظر میں یہ ’’دینیات‘‘ کی تعلیم ہو گی۔

مگر جو کام ساری دنیا میں نہیں ہو رہا وہ پاکستان میں کیسے ہو گا ؟ دوسری بات یہ کہ پاکستان میں ہندوؤں، عیسائیوں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد ہی کیا ہے؟ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان چاہے بھی تو اس کے پاس دینیات کی تعلیم کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ چوتھی بات یہ کہ جس طرح بھارت کے 25 کروڑ مسلمان اپنے بچوں کو اپنے گھروں میں مدارس میں اسلام سکھا رہے ہیں پاکستان کی اقلیتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے گھروں اور مذہبی اسکولوں میں اپنے بچوں کو اپنا مذہب پڑھا لیں۔ یہ ایک سفید اور تاریخی جھوٹ ہے کہ جنرل ضیا اور اسلامیات سے معاشرے میں شدت پسندی پیدا ہوئی۔

سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں دس سال تک جہاد ہوتا رہا مگر دس برسوں میں کبھی پاکستان میں مجاہدین نے ’’پٹاخہ‘‘ بھی نہ پھوڑا حالاںکہ افغانستان میں 15 لاکھ مسلمان شہید اور 15 لاکھ زخمی ہو چکے تھے۔ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد پانچ سال تک افغانستان میں خانہ جنگی ہوتی رہی مگر کبھی اس خانہ جنگی کی آواز تک پاکستان میں نہ سنی گئی۔ پانچ سال تک طالبان افغانستان میں حکومت کرتے رہے مگر اس دوران بھی پاکستان میں شدت پسندی رپورٹ ہوئی، نہ خود کش حملے ہوئے، یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب جنرل پرویز نے ایک ٹیلی فون کال پر اپنا قبلہ اپنے دوست اور اپنے دشمن بدلے۔

ملالہ کے والد کو اس بات کا تو بہت ’’ملال‘‘ ہے کہ سوات انتہا پسندوں کے قبضے میں چلا گیا، مگر ملک کا سب سے بڑا، سب سے جدید شہر اور پاکستان کی معاشی شہہ رگ کراچی 30 سال تک سیکولر ایم کیو ایم کے ہاتھوں یرغمال بنا رہا اس کا ماتم نہ امریکا کرتا ہے، نہ یورپ نہ جرنیل کرتے ہیں نہ سیکولر اور لبرل دانشور اور صحافی۔ حالاں کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے جبر اور مظالم کے مقابلے پر سوات کے انتہا پسندوں کا ’’جبر‘‘ اور ’’ظلم‘‘ بچوں کے کھیل سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ بہرحال ملالہ کے والد کے مذہبی خیالات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملالہ کی کتاب میں رسول اکرمؐ کو صلی اللہ الہ وسلم کیوں نہیں کہا گیا تھا۔ ان حقائق کو دیکھ کر ’’اندھے‘‘ بھی یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ملالہ مغرب کی کیا ہیں؟۔

ملالہ پاکستان آئیں تو میرشکیل الرحمن کے انگریزی اخبار دی نیوز نے ان کی آمد پر اداریہ لکھا۔ حالاں کہ اداریہ کسی اہم قومی یا بین الاقوامی معاملے پر لکھا جاتا ہے۔ دی نیوز میں ملالہ کے حوالے سے دو بڑے بڑے مضامین شائع ہوئے۔ ایک مضمون میں ڈاکٹر ناظر محمود نے فرمایا ’’پیاری ملالہ تم عظیم ہو، اس لیے نہیں کہ تمہیں گولی ماری گئی اور تم بچ گئیں بلکہ اس لیے کہ تم پاکستان کا نیا چہرہ ہو۔ وہ چہرہ جو افغانستان سے ارجنٹائن اور نیوزی لینڈ سے زمبابوے تک پہچانا جاتا ہے۔ تم اس ملک اس ملک کے مردوں، خواتین اور بچوں کی ’’امید‘‘ ہو‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف شہرت بھی کسی کی عظمت کا سبب ہو سکتی ہے؟

دوسری بات یہ کہ مغرب کی ایجنٹ پاکستان کا ’’نیا چہرہ‘‘ کیسے ہو سکتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ پاکستان کے لوگوں کی اُمید ان کا خواب، ان کا دین، ان کی تہذیب اور ان کی تاریخ ہے۔ ان چیزوں کے مقابلے پر ملالہ کیا پوری دنیا کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ معروف سیکولر صحافی غازی صلاح الدین نے مارشل میک لوہن کے مشہور زمانہ فقرے Medium is the message سے استفادہ کرتے ہوئے Malala is the message کے عنوان سے کالم ٹھونکا۔ اتفاق سے ہم بھی مغرب کے تناظر میں ملالہ کے حوالے سے یہی کہہ رہے ہیں۔ Malala is the message۔ غازی صلاح الدین نے اپنے کالم میں لکھا کہ ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ پاکستان میں Face book page پر 60 فی صد لوگ ملالہ کو ناپسند کرتے ہیں اور 40 فی صد پسند فرماتے ہیں۔

غازی صلاح الدین آئے دن جمہوریت جمہوریت کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں انہیں ملالہ کے سلسلے میں ’’اکثریت کی رائے‘‘ کا احترام کرتے ہوئے تسلیم کر لینا چاہیے کہ ملالہ واقعتاً مغرب کی ایجنٹ ہیں اور صرف اسی لیے پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت انہیں سخت پسند کرتی ہے۔ مگر اس ضمن میں غازی صلاح الدین نے جمہوریت پر تھوک دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہو گا۔ یعنی پاکستانیوں کی اکثریت کو ملالہ کا عاشق بنانا ہو گا۔ تجزیہ کیا جائے تو غازی صاحب کے تجزیے سے بھی مغرب اور اس کے ایجنٹوں کی اسلام دشمنی، جمہوریت پسندی اور ان کی سیاست ظاہر ہو رہی ہے۔ اب آپ سمجھے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ملالہ سے نفرت کیوں کی جاتی ہے؟۔

شاہنواز فاروقی
 

"عوام ہوشیار"پاکستانی حکومت کی شاہ خرچیوں کا بوجھ ان کے کندھوں پر بڑھنے والا ہے

$
0
0

پاکستانی معیشت اندرونی و بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبی سسک رہی ہے اور مہنگائی کا ایک طوفان آیا ہوا ہے۔ ایسے میں پاکستانی حکومت نے ایک اور ایسا کام کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے کہ سن کر پاکستانیوں کے اوسان خطا ہو جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت نے آئندہ مالی کے لیے ریکارڈ 13 ارب ڈالر یعنی تقریباً 14کھرب روپے قرض لینے کا فیصلہ کر لیا ہے جو کسی بھی ایک مالی سال میں لیے گئے قرض سے 63 فیصد زیادہ ہو گا۔ وزار ت خزانہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ قرض 2018-19ءکے بجٹ کے لیے لیا جا رہا ہے جو حکومت 27 اپریل کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے جا رہی ہے۔

اگر حکومت یہ قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ پاکستان کی 71 سالہ تاریخ کا کسی ایک سال میں لیا گیا بلند ترین قرض ہو گا۔ واضح رہے کہ اسی حکومت نے مالی سال 2016-17ء میں 10.4 ارب ڈالرتقریباً 11 کھرب روپے قرض لیا تھا۔ پاکستان کے آئندہ بجٹ کے بارے میں کچھ عرصہ قبل آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس کا جاری خسارہ جی ڈی پی کا 4.4 فیصد ہو جائے گا۔
 

پاکستان میں نادیدہ قوتیں اظہار پر پابندیاں لگا رہی ہیں

$
0
0

پاکستان میں مارشل لا کے ادوار میں صحافیوں نے کوڑے کھائے لیکن اظہار رائے سے باز نہیں آئے۔ لیکن جمہوری دور میں نا دیدہ قوتیں اظہار پر پابندیاں لگا رہی ہیں۔ کئی کالم نویسوں نے شکایت کی ہے کہ ان کی تحریریں روکی جارہی ہیں۔
پاکستان میں جنرل ایوب اور جنرل ضیا کے مارشل لا ادوار میں میڈیا کو سینسر شپ کا سامنا کرنا پڑا۔ خبریں روکی جاتی تھیں اور صحافیوں کے لکھنے اور بولنے پر پابندی لگائی جاتی تھی۔ یہ اکیسویں صدی ہے اور پاکستان میں جمہوری ادارے کام کر رہے ہیں۔ لیکن کئی لکھنے والوں نے شکایت کی ہے کہ ان کے کالم نامعلوم وجوہ پر روکے گئے ہیں۔

ممتاز قانون داں بابر ستار نے بتایا کہ دی نیوز نے پہلی بار ان کا کالم چھاپنے سے معذرت کی ہے۔ پھر انگریزی اخبار نیشن نے گل بخاری کا کالم واپس کر دیا۔ آج مشرف زیدی نے ٹوئیٹ کیا کہ ان کا کالم بھی رک گیا ہے۔ وجاہت مسعود کا ایک کالم بھی جنگ میں نہیں چھپ سکا۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وجاہت مسعود نے کہا کہ کچھ اخبارات اور چینلوں کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ 2014 سے جاری ہے۔ یہ نہ صرف غیر اعلانیہ سینسر شپ ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔

وجاہت مسعود کہتے ہیں، اس ملک میں اب بہت کچھ غیر اعلانیہ ہو رہا ہے۔ اسی میں سینسر شپ کا معاملہ ہے۔ کوئی باقاعدہ اعلان تو نہیں کیا گیا لیکن یہ تو طے ہے کہ کچھ اخبارات کو، کچھ چینلز کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ ان کا راستہ محدود کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ 2014 سے شروع ہوا ہے اور اب اس کی لپیٹ میں دوسرے لوگ بھی آ رہے ہیں۔ میں اپنے ادارے سے کیا شکایت کر سکتا ہوں۔ میرا ادارہ جو ہے جس میں میں لکھتا ہوں وہ تو چار سال سے ابتلاؤں کا سامنا کر رہا ہے۔ واحد اس ادارے کے بارے میں آرمی چیف نے کھل کر کہہ دیا کہ جب چاہیں آپ کو بالکل بند کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد تو باقی کچھ نہیں بچا۔ یس، یہ غیر اعلانیہ سینسر شپ بھی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ غیر اعلانیہ ہے۔

اخبار نائنٹی ٹو کے ایڈیٹر ارشاد احمد عارف کہتے ہیں کہ کالم نگاروں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں۔ جب کوئی تحرير چھپ جاتی ہے تو ایڈیٹر اور ادارہ اس کا جواب دہ ہوتا ہے۔ ایڈیٹر اگر آئین و قانون اور معاشرتی اقدار کے خلاف کالم روکتا ہے تو ٹھیک کرتا ہے۔ ارشاد احمد عارف کہتے ہیں ’ خود کالم نویسوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ کیا ملک کی اخلاقیات ہے سیاسی، قانون اور آئین کے جو تقاضے ہیں، وہ پورے کر کے کالم لکھ رہے ہیں یا جو مرضی چاہتے ہیں لکھتے ہیں اور پھر ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے من و عن چھاپا جائے۔

کسی کالم کو چھاپنا نہ چھاپنا، اس کو ایڈٹ کرنا ایڈیٹر کا اور ادارے کا حق ہے۔ کیونکہ وہ جواب دہ ہے۔ جب ایک چیز چھپ جاتی ہے تو اس کا جوابدہ ادارہ ہے اور ایڈیٹر ہے۔ اگر وہ اس دائرہ کار میں رہتے ہوئے، جو آئین نے متعین کیا ہے، جو قانون نے متعین کیا ہے۔ یا جس کا معاشرہ تقاضا کرتا ہے، کسی چیز کو ایڈٹ کرتا ہے یا کسی کالم کو روکتا ہے تو میرے نقطہ نظر سے کوئی ایسی غلط بات نہیں ہے۔ ایسا ہونا چاہیے کیونکہ ہم معاشرے کو شتر بے مہار نہیں چھوڑ سکتے۔
ارشاد احمد عارف سے اتفاق کرنے والے سینیر صحافیوں کا بھی کہنا ہے کہ اخبارات میں کالم روکے جانے اور کیبل پر بعض نیوز چینلوں کی بندش سے میڈیا دباؤ میں آئے گا اور چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات کی غیر جانب دارانہ کوریج ممکن نہیں رہے گی۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 


پاکستان اقوام متحدہ کے 2 اہم اداروں کا رکن منتخب

$
0
0

پاکستان ووٹنگ کے ذریعے اقوام متحدہ کی 2 غیر سرکاری تنظیموں کی کمیٹی کا رکن منتخب ہو گیا ہے۔ پاکستان کو 2019 سے 2022 تک اقوام متحدہ کی این جی اوز (غیر سرکاری تنظیموں) کی کمیٹی اور یونیسیف کے ایگزیکٹو بورڈ کا رکن منتخب کر لیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی 2 اہم باڈیز میں کامیاب ہوا، یہ کامیابی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عالمی برادری کو کس حد تک پاکستان کے کردار پر اعتماد ہے۔ اقوام متحدہ کی اقتصادی و سماجی کونسل (ECOSOC) میں ہونے والے این جی اوز کمیٹی کے الیکشن میں پاکستان کو 43 ووٹ ملے۔

ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ یونیسیف میں بھی پاکستان کا بہت اہم کردار رہا ہے اور این جی او کمیٹی میں بھی مسلسل خدمات انجام دیتا رہا ہے، پاکستان 2 سال پہلے بھی یونیسیف کے ایگزیکٹو بورڈ کا صدر منتخب ہو چکا ہے، ہمارے ملک میں یونیسیف کا بہت بڑا پروگرام چل رہا ہے، انھوں نے ان تمام ممالک کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے پاکستان کو ووٹ دیا۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے مزید کہا کہ بحیثیت رکن پاکستان یو این او کی غیر سرکاری تنظیموں کی کمیٹی سے تعاون جاری رکھے گا، دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلیے مل کر کام کرتے رہیں گے، کمیٹی کے قیام سے اب تک پاکستان کا ادارے کی بہتری کیلیے اہم کردار ہے، پاکستان نے عالمی سطح پر انسانی اور بچوں کےحقوق پر بہت کام کیا، انتخاب میں کامیابی عالمی برادری کی طرف سے پاکستانی تعاون کی تصدیق ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی غیر سرکاری تنظیموں کا 10 سال سے رکن ہے۔
 

’امریکی ہوں گے اپنے ملک میں‘

$
0
0

امریکی سفارت کار کرنل جوزف کی گاڑی کی ٹکر سے شہری عتیق بیگ کی ہلاکت کے معاملے پر عدالت نے ریماکس دیئے کہ امریکی ہونگے تو اپنے ملک میں ہونگے، سفارتی استثنا میں کسی کو مارنے کا اختیار حاصل نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق نے کرنل جوزف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او اور ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔ دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ابھی تک کرنل جوزف کا نام ای سی ایل میں کیوں نہیں ڈالا ؟جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمشنر آفس نے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست بھجوا دی ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہٹ اینڈ رن کیس میں الکوحل کا ٹیسٹ سب سے پہلے ہوتا ہے، پولیس نےالکوحل ٹیسٹ نہ کرا کے خود ثبوت خراب کیا ہے ۔  جسٹس عامر فاروق نے ایس ایچ او خالد اعوان سے سوال کیا کہ کیا آپ کو کسی کا فون آیا تھا کہ سفارتی اہلکار کو جانے دیں جس پر ایس ایچ او نے کہا کہ دفتر خارجہ سے فون آیا تھا جس میں امریکی اہلکار کو جانے دینے کا کہا گیا۔ جسٹس عامر فاروق نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سفارتی استثنیٰ میں کیا بیان ہو سکتا ہے، کیا آپ نے بیان لیا، کوئی پاکستانی ایکسیڈنٹ کرے تو آپ گاڑی کے اندر شراب کی بو سونگھتے ہیں اور گورا دیکھ کر پولیس کے ہاتھ ویسے ہی کانپ گئے ہوں گے۔

اس موقع پر ایس ایچ او خالد اعوان نے کرنل جوزف کا بیان عدالت میں پیش کیا جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ نے بیان انگریزی میں کیوں نہیں لکھا، کل کو کرنل جوزف کہے گا یہ اردو میں بیان ہے اور مجھےاردو نہیں آتی۔ جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا آپ نے یہ بیان کس وقت ریکارڈ کیا تھا جس پر ایس ایچ او نے کہا کہ تھانے میں جب وہ گاڑی کے اندر تھا اس وقت سوال کیے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سفارتی استثنی ضرور حاصل کریں لیکن قانون سےگزرنا پڑے گا، سفارتی استثنیٰ میں کسی کو مارنے کا اختیار حاصل نہیں، امریکی ہونگے تو اپنے ملک میں ہوں گے۔

ایس ایچ او خالد اعوان نے کہا کہ دفتر خارجہ کو تفصیلات بھجوائی ہیں کہ وہ ویانا کنونشن کے مطابق پولیس کی معاونت کرے۔ عدالت نے حکم دیا کہ کرنل جوزف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے کمیٹی 5 دن میں فیصلہ کرے اور وزارت داخلہ ہاں یا ناں میں درخواست کا فیصلہ کرے۔ عدالت نے کہا کہ معاملہ قانون کے مطابق حل کیا جائے جس کے بعد کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی گئی۔ یاد رہے کہ سات اپریل کو امریکی سفارتی اہلکار کی گاڑی کی ٹکر سے عتیق بیگ نامی نوجوان جاں بحق ہو گیا تھا ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

برطانوی اخبار گارڈین نے بھارت کو ’جمہوریہ خوف‘ قرار دے دیا

$
0
0

برطانوی اخبار گارڈین نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ بھارت ’جمہوریہ خوف‘ ہے۔
برطانوی اخبار کا مزید کہنا ہے کہ برطانیہ کو مودی پر دباؤ برقرار رکھنا چاہیے، ہندو قوم پرستی کے نام پر کٹھوا اور اترپردیش میں کمسنوں سے زیادتی پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو سزا وار ٹھہرایا جائے۔ بھارت میں زیادتی کے واقعات محض بے قابو مذہبی جنونیت نہیں بلکہ فاشزم پر مبنی ہندو ریاست کی جانب اقدام ہیں۔ واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت کے باعث معصوم افراد کے بہیمانہ قتل، ننھی بچی آصفہ کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے خلاف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ برطانیہ کے موقع پر لندن میں ہزاروں افراد نے احتجاج کیا۔

اس موقع پر کشمیری کمیونٹی کا کہنا ہے کہ کشمیر کامسئلہ حل کیا جائے جبکہ سکھ کمیونٹی نےخالصتان کی حمایت میں نعرے لگائے۔ مظاہرے میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم و ستم ، آصفہ کے قتل کی شدید مذمت کی گئی جبکہ مسلمانوں کے خلاف ناروا سلوک روکنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے روکا جائے۔ واضح رہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دولت مشترکہ کے سربراہان اجلاس میں شرکت کے لیے لندن میں موجود ہیں۔

 

کیا انٹرنیٹ بھارت میں ایجاد ہوا ؟

$
0
0

قدیم ہندوستان باقی دنیا سے بہت پہلے ٹیکنالوجی کے نئے محاذ پار کر چکا تھا، یہ دعویٰ تو نیا نہیں ہے لیکن پھر بھی ہر نئے ہوشربا ’انکشاف‘ کے بعد سنبھلنے میں تھوڑا وقت تو لگتا ہی ہے۔ اس مرتبہ ٹیکنالوجی کی جنگ میں نیا تیر شمال مشرقی ریاست تریپورہ کے وزیر اعلیٰ نے چلایا ہے جن کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ قدیم ہندوستان کی ایجاد ہے اور ہزاروں سال پہلے براہ راست نشریات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے کمپیوٹروں کے استعمال پر ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مہا بھارت کی جنگ کے دوران سنجے نے دھرت راشٹر کو جنگ کا آنکھوں دیکھا احوال سنایا تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت انٹرنیٹ بھی تھا اور سیٹلائٹ بھی۔ انڈیا میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے اس طرح کے مضحکہ خیز دعووں میں اضافہ ہوا ہے۔

اینٹی بایوٹک ادویہ کے استعمال میں پاکستان تیسرے نمبر پر

$
0
0

پاکستان میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر بیماریوں سے نمٹنے کے لیے نہ صرف بے پروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ امراض کی تشخیص کیے بغیر ہی ایسے ڈاکٹری نسخے تجویز کر دیتے ہیں۔ عالمی ماہرین ادویات و صحت نے عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کے رجحان کے بارے میں حال ہی میں شائع ہونے والی اہم تحقیق میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں سن 2000 اور 2015 کے درمیانی عرصے میں 65 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ پیش رفت لوگوں کی صحت پر منفی اثرات کے حوالے سے انتہائی تشویش ناک ہے۔

دنیا کے 70 سے زائد ممالک میں ہونے والی اس نئی تحقیق میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں اضافے کے حوالے سے پاکستان کو چین اور بھارت کے بعد تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ امریکہ کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی اس نئی تحقیق میں محققین نے خبردار کیا ہے کہ ان ادویات کے غیر محتاط استعمال میں اضافے سے بیماریوں کے خلاف ان ادویات کا اثر کم ہو رہا ہے جبکہ پاکستان میں مختلف بیماریوں کے خلاف اینٹی بائیوٹک ادویات غیر مؤثر ہو رہی ہیں۔ یہ تحقیق حال ہی میں امریکہ کی اکیڈمی آف سائنسز کے پروسیڈنگس میں شائع ہوئی ہے۔

عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں اس تشویش ناک حد تک اضافے کی وجہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، مراکش، فلپائن، ویتنام، مصر اور تیونس سمیت کم آمدنی والے ممالک میں ان ادویات کے استعمال میں تیز رفتار اور غیر محتاط طریقے سے ہونے والا اضافہ ہے۔ اس تحقیق پر کام کرنے والے ماہرینِ صحت نے کہا ہے کہ سن 2000 سے 2015 کے درمیان پاکستان میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں 65 فیصد تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق سن 2000 میں اینٹی بائیوٹک ادویات کا سالانہ استعمال 80 کروڑ تھا، جو اب بڑھ کر 130 کروڑ سالانہ تک پہنچ چکا ہے۔ اس تحقیق پر کام کرنے والے سات محققین کی ایک ٹیم کی سربراہی جانس ہاپکنس سکول آف میڈیسنز کے اسسٹنٹ پروفیسر ایلی وائی کلائین نے کی ہے۔

ای میل کے ذریعے بھیجے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کو بتایا ‘‘تیسری دنیا کے ممالک، خاص کر پاکستان اور بھارت میں ڈاکٹروں کی جانب سے امراض کی تشخیص کیے بغیر مریض کو ادویات تجویز کر دی جاتی ہیں، ڈاکٹروں کی جانب سے بیماریوں سے نمٹنے میں بے پروائی کا مظاہرہ کرنا، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، نکاسی آب کی بہتر سہولیات میں کمی اور بے ہنگم اربنائیزیشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ملیریا، ڈینگی ملیریا، دست، خسرہ، ہیپاٹائٹس، آنتوں، پیٹ، سانس، جلد اور خون کی مختلف بیماریاں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں تشویش ناک اضافے کی اہم وجوہات ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جیسے جیسے مریض ان اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال کرتا جاتا ہے، یہ ادویات غیر مؤثر ہوتی جاتی ہیں، ‘‘اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ماہرین مریضوں کو مزید اینٹی بائیوٹک ادویات کے نسخے تجویز کرتے رہتے ہیں، جس سے ملکی سطح پر ان ادویات کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔’’ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ مریض کی جانب سے اینٹی بائیوٹک ادویات کا ڈاکٹری نسخوں کے بغیر استعمال بھی ان کے استعمال میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔

پاکستان جیسے دیگر ایشیائی ممالک میں اینٹی بائیوٹک ادویات کو ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر بھی خریدا جا سکتا ہے۔ اس تحقیق پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اینٹی بائیوٹک کے استعمال میں مسلسل اضافے پر قابو پانے کے لیے ان بیماریوں کے اسباب پر قابو پانا ناگزیر ہے اور اس کے لیے پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کے انفر اسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے مالی و تکنیکی اقدامات  کرنے ہوں گے۔ تحقیقی ٹیم کے سربراہ اسسٹنٹ پروفیسر ایلی وائی کلائین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، غیر پائیدار اور بے ہنگم اربنائیزیشن کو ماحول دوست بنا کر صحت کی مختلف وبائی و غیر وبائی بیماریوں سے لوگوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ان بیماریوں کے خلاف لوگوں میں استعمال ہونے والی اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں بڑی حد تک کمی کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ 

اقوامِ متحدہ کے صحت پر کام کرنے والے ذیلی ادارے ڈبلیو ایچ او کے جنیوا میں واقع سربراہ دفتر میں اینٹی بائیوٹک ادویات کی مختلف بیماریوں کے خلاف مزاحمتی اثرات پر تحقیق کرنے کے حوالے سے قائم اہم شعبے میں ڈاکٹر سارہ    پاؤلن ٹیکنیکل افسر ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) اور ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) اور ایک بین الاقوامی تنظیم برائے اینیمل ہیلتھ کے ساتھ مل کر ایک اہم فریم ورک کی تیاری کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس سے اینٹی بائیوٹک ادویات کے بیماریوں کے خلاف غیر مؤثر ہونے والے عمل پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل قریب میں عالمی سطح پر روشناس ہونے والے اس عالمی فریم ورک برائے اینٹی بائیوٹک ریز سٹنٹ کا خاص مقصد ان ادویات کے اثر کو برقرار رکھنا ہے۔

ایک ای میل کے جواب میں ورلڈ ہیلتھ آرگنا ئزیشن کی ٹیکنیکل افسر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، پاکستان، بھارت، فلپائن، تھائی لینڈ، ویتنام اور انڈونیشا سمیت مختلف نچلی اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو اینٹی بائیوٹک ادویات کے تجویز کردہ ڈاکٹری نسخوں کے عمل کو قانون سازی کے ذریعے درست کرنا ہو گا۔ امراض کے اسباب، خاص کر صاف پانی اور صفائی کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے لازمی اقدامات کر نے ہوں گے۔ اس کے علاوہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال اور ان کے منفی اثرات کے حوالے سے بڑے پیمانے پر عوامی آگاہی پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ 

بشکریہ DW اردو


 

کیا پاکستان میں کچھ عناصر احتساب سے بالا تر ہیں ؟

$
0
0

پاکستانی سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی طرف سے جنرل کیانی کے خلاف درج کی گئی ایک پٹیشن کو اعتراضات لگا کر واپس کرنے کے بعد ایک بار پھر یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ ریاست کے ’طاقتور افراد‘ احتساب سے بالا تر ہوتے جا رہے ہیں۔
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی طرف سے دائر کردہ اس پٹیشن میں الزام لگایا گیا تھا کہ آرمی کے ایک سابق جنرل نے فوج کے زیرِ اتنظام اسپتالوں کو غیر معیاری دوائیں فراہم کیں۔ درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ اس معاملے کی تحقیق غیر جانبدار اداروں کے ذریعے کرائی جائے اور اس میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

اس پٹیشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’فوج کے اسپتالوں کو ایک منظم طریقے سے دوائیاں فراہم کی جاتی تھیں اور یہ ہسپتال براہ راست ادویات نہیں خرید سکتے تھے۔ لیکن ایک کورکمانڈر صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی ایک دوائی بنانے کی فیکڑ ی لگا لی اور انہوں نے غیر معیاری دوائیں بنانا شروع کر دیں۔ پنجاب ڈرگ اتھارٹی نے ایک رپورٹ میں ان ادویات کو جعلی اور مضرِ صحت قرار دیا۔ کیونکہ یہ ریٹائرڈ کور کمانڈر صاحب فوج میں ایک انتہائی سینیئر افسر کے دوست تھے۔ اس لئے فوج کے ہسپتالوں کو ایک جعلی خط لکھ کر یہ کہا گیا کہ وہ اس کمپنی سے ادویات خرید سکتے ہیں۔ میں نے اس معاملے کی پوری تحقیق کے لئے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی، جسے رجسٹرار نے اعترضات لگا کر واپس کر دیا ہے۔ اب میں اس کے خلاف اپیل کروں گا۔‘‘

پاکستان میں کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اس پٹیشن کو اس لئے منظور نہیں کیا گیا ہے کیونکہ اس میں ایسے آرمی افسران کے نام ہیں، جو انتہائی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ابھی کچھ ہی برس پہلے وہ ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ اس سے یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ ملک میں احتساب صرف سیاست دانوں کا ہو سکتا ہے۔ فوج کے جرنیلوں کا احتساب کرنے کے لئے کوئی ادارہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے معروف تجزیہ نگار مطیع اللہ جان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس پٹیشن کو کیسے منظور کر لیا جاتا۔ اس میں کچھ ایسے افسران کے نام ہیں، جو ابھی کچھ ہی برسوں پہلے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ اگر ان کی تحقیق کی تو ہو سکتا ہے کہ حاضر سروس افراد کے نام بھی آجائیں۔

 مسئلہ یہ ہے کہ یہاں نیب نے بھی ریڈ لائن کھینچی ہوئی ہے۔ وہ سیاست دانوں کے پیچھے تو پڑی ہوئی ہے لیکن اس میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ جرنیلوں کا احتساب کر سکے۔ مشرف سمیت جن جرنیلوں کے خلاف ابھی انکوائری کھولی گئی ہے، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ یہ صرف اس لئے کھولی گئی ہے تاکہ عوام کی نظروں میں نیب کا امیج بہتر ہو سکے۔‘‘ سیاسی مبصر ڈاکڑ توصیف احمد خان مطیع اللہ جان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو کو اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے کہا،’’کیا ایوب کا کوئی احتساب ہوا ؟ کیا جنرل یحیٰی خان ، جس نے ملک کے دو ٹکڑے کئے، اس کو کوئی احتساب ہوا۔ کیا جنرل ضیاء جس نے آئین توڑا، اس کا کوئی احتساب ہوا۔ تو اس ملک میں جنرلوں کا توکبھی بھی احتساب نہیں ہوا اور نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے۔ تاہم سیاست دان ہمیشہ اس کا شکار رہے ہیں۔‘‘ 

لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے تجزیہ نگار اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ جنرلوں کا احتساب نہیں ہوتا۔ معروف سیاسی مبصر جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں در حقیقت اس ملک میں سیاست دانوں کا آج تک صحیح معنوں میں احتساب نہیں ہوا ہے،’’یہ بات صحیح ہے کہ سیاست دانوں کے نیب میں مقدمے ہیں لیکن مجھے آپ کسی ایک سیاست دان کا نام بتا دیں ، جسے سزا ہوئی ہو۔ لوگ آرمی کے احتساب کی بات کرتے ہیں۔ آرمی کا اپنا اندورنی احتساب کا نظام انتہائی مضبوط ہے اور وہاں افسران کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔ جہاں تک اس پٹیشن کی بات ہے، اس میں لگائے گئے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔ آرمی کے ہسپتالوں کو ادویات فراہم کرنے کا جو طریقہ اپنایا گیا ہے وہ بالکل میرٹ کی بنیاد پر ہے اور آپ کسی بھی آرمی ہسپتال میں چلے جائیں، وہاں آپ کو تما م ادویات ملیں گی اور یہ الزام بالکل غلط ہے کہ ان ادویات کا معیار بہتر نہیں ہیں یا یہ جعلی ہیں۔ 

فوجی ہسپتالوں کی اپنی لیبارٹریز ہیں، جہاں ادویات کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔‘‘ ناقدین کا کہنا ہے کہ ماضی میں جنرل حمید گل، جنرل درانی، جنرل اسلم بیگ، جنرل جاوید اشرف قاضی سمیت کئی فوجی عہدیداروں کے نام مختلف مقدمات اور الزامات میں آئے لیکن ابھی تک ان کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی۔ تاہم انعام الرحیم کا خیال ہے کہ اب عدالتوں کو جنرلوں کے خلاف کارروائی کرنی پڑے گی ورنہ ان کی غیر جانب داری پر بہت بڑا سوالیہ نشان آئے گا۔

بشکریہ DW اردو

 

بجلی کی اضافی لوڈشیڈنگ : کوئی تو خبر لے

$
0
0

بجلی کی اضافی لوڈشیڈنگ نے گرمی سے بے حال شہریوں کا جینا دوبھر کر دیا، سیاسی جماعتوں کے احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں، شاید کوئی خبر لے لے۔ کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے درمیان تنازع اور سندھ و وفاقی حکومت کی بیان بازیوں نے کراچی میں لوڈشیڈنگ کے معاملے کو مزید الجھا دیا اور اسی کے ساتھ شہریوں کو غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ بجلی کی طویل اور غیراعلانیہ بندش پر سیاسی جماعتوں کے احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے.

وفاقی وزیرپاورڈویژن نے وزیراعلیٰ سندھ کو دوسرا خط لکھ ڈالا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ کراچی واٹربورڈ پر واجب الادا بقایاجات کی ذمہ داری حکومت سندھ پر ہے، حکومت سندھ کراچی واٹر بورڈ پر واجب الادا ادائیگیوں کا مسئلہ حل کرے، کوئی بھی معاہدہ آئینی ترامیم کو منسوخ نہیں کرتا۔ اویس لغاری نے یہ بھی لکھا کہ نیپرا وفاقی ادارہ نہیں، یہ قومی ادارہ ہے، نیپرا میں سندھ کی نمائندگی بھی شامل ہے ، ایک رکن سندھ کا ہے، وفاقی حکومت سندھ کو مکمل حمایت کا یقین دلاتی ہے ، کے الیکٹرک کو بغیر کسی قانونی معاہدے کے 650 میگاواٹ بجلی دے رہے ہیں ۔ 
 


بار بار اسمارٹ فون دیکھنے کی لت نشے کی مانند جکڑ لیتی ہے، ماہرین

$
0
0

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اسمارٹ فون کو بار بار دیکھنے کی شدید عادت اس شخص کو منشیات کی لت کی مانند جکڑ لیتی ہے۔ سان فرانسسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ایرک پیپر کے مطابق اسمارٹ فون کا استعمال عین اسی طرح ہے جس طرح کوئی شخص منشیات استعمال کرتا ہے لیکن اس کی باقاعدہ سائنسی وجوہ ہیں جنہیں جاننا بہت ضروری ہے۔ شروع شروع میں سوشل میڈیا ایپس کے نوٹی فکیشن کی آواز کو نظر انداز کرنا مشکل ہوتا ہے بعد ازاں اس کا انتظار رہتا ہے اور بعد میں یہ ایک نشے کی عادت بن جاتی ہے اس موقع پر اسمارٹ فون کا استعمال منشیات کے استعمال جیسا ہو جاتا ہے لیکن ایسے افراد میں اداسی، تنہائی اور بے چینی کا تناسب بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔

پروفیسر پیپر کے مطابق اسمارٹ فون کی لت دماغ کے اندر خلیات کے روابط (کنکشنز) عین اسی طرح کر دیتی ہے جس طرح افیون استعمال کرنے والے کے دماغ میں ہوتے ہیں، جس طرح لوگ خود کو بھلانے اور درد بھگانے کے لیے افیون اور نشہ استعمال کرتے ہیں عین اسی طرح وہ اسمارٹ فون پر سوشل میڈیا ایپس کو بار بار کھول کر دیکھتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں ایرک پیپر اور ان کے ساتھیوں نے 135 افراد کا سروے کیا اور بتایا کہ اسمارٹ فون کے بہت زیادہ عادی افراد ایک کام پر توجہ نہیں دے پاتے اور وہ ڈپریشن، بے چینی اور اکیلے پن کے بھی شکار ہوتے ہیں۔ 

نفسیات دانوں کے مطابق اسمارٹ فون کی سب سے بڑی وجہ مختلف ایپس پر آنے والی اپ ڈیٹس اور پیغامات ہیں جو اسمارٹ فون کے عادی شخص کے لیے ایک زنجیر کی مانند ہیں۔ ایرک کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو زیادہ نگاہیں، زیادہ کلک اور بار بار توجہ چاہیے اور یہ سب زیادہ رقم کے لالچ میں کیا جاتا ہے، اب حال یہ ہے کہ اسمارٹ فون نے لوگوں کی توجہ کو اغوا کر رکھا ہے۔

 

’حکم اُوپر سے ملا ہے‘

$
0
0

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے ایک بہت اہم انکشاف کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ سینیٹ چیئرمین کے الیکشن کے دوران انہیں وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک کا فون آیا کہ بلوچستان سے نامزد امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔ اس پر سراج الحق نے خٹک صاحب سے پوچھا کہ یہ امیدوار کون ہے؟ جس پر وزیر اعلیٰ نے امیر جماعت اسلامی کو بتایا کہ انہیں خبر نہیں کہ امیدوار کون ہے۔ سراج الحق نے مزید کہا کہ سینیٹ الیکشن کے دوران تحریک انصاف نے انہیں کہا کہ حکم اوپر سے ملا ہے کہ چیئرمین کے لیے سنجرانی کو ووٹ دینا ہے۔

سراج صاحب نے مزید کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ یہ حکم عرش معلی سے آیا یا کہیں اور سے۔ حالانکہ امیر جماعت اسلامی کو یہی تو معلوم کرنے کی ضرورت تھی کہ یہ حکم کس نے اوپر سے بھیجا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اوپر سے تحریک انصاف کا مطلب عمران خان ہو!!! اس کا کوئی اور بھی مطلب ہو سکتا ہے لیکن اس سوال پر کہ اوپر سے کس نے حکم دیا مجھے تو سر کھپانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ کھوج لگانے کا مناسب وقت ہے۔ آج کل کچھ معاملات میں خاموشی اختیار کرنے میں ہی خیر ہے۔

ویسے اوپر سے حکم دینے والا جو بھی ہے، سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن کے بعد نعرہ ایک ذرداری سب پر بھاری ہی لگا اور اس بات کا بھی ذکر سراج الحق نے اپنے تازہ بیان میں کیا۔ سینیٹ کا الیکشن ہارنے کے بعد ن لیگ کے رہنما تحریک انصاف کو طعنہ دیتے ہیں کہ خان صاحب کی جماعت نے تو سینیٹ الیکشن میں تیر کے نشان پر مہر لگائی۔ ویسے بلاول بھٹو نے اپنے ایک حالیہ بیان میں خان صاحب کو یہی چوٹ لگائی کہ وہ سیاسی بیان جو مرضی پی پی پی کے خلاف دیں انہوں نے سینیٹ الیکشن میں تیر کو ووٹ دیا اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ 

نجانے بلاول صاحب نے مستقبل کے بارے میں ایسی پیش گوئی کس بنیاد پر کی لیکن سراج الحق کی بات سن کر اب محسوس ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں پھر اوپر سے تحریک انصاف کو حکم مل جائے کہ جو زرداری صاحب کہیں اُن کی بات مان لی جائے۔ جوں جوں دن گزر رہے ہیں کہ ایک زرداری سب پہ بھاری کے حالات بنتے نظر آ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ زرداری صاحب بدل گئے، انہوں نے ماضی سے سبق سیکھ لیا۔ اور انہیں اب اس بات کی سمجھ بھی مکمل طور پر آ چکی ہے کہ پاکستانی سیاست میں کامیابی کی کنجی کیا ہے۔ وہ شاید یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ یہ کنجی کس کے پاس ہے۔ اس کنجی کو کھیچنے اور چھینا چھپٹی میں اپنا نقصان کرنے کی بجائے زرداری صاحب نے اُس ہاتھ کو ہی چومنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس ہاتھ میں اُنہیں یہ کنجی نظر آ رہی ہے۔

ان حالات میں معلوم نہیں کہ تحریک انصاف کا کیا بنے گا؟؟ خان صاحب تو سمجھ بیٹھے ہیں کہ سب کچھ اُن کے لیے سجایا جا رہا ہے اور اسی لیے اُنہوں نے گزشتہ تین چار سال دن دیکھا نہ رات، جو کسی نے کہا وہ آنکھیں بند کر کے کر دیا ۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں اُبھرنے والے نئے سیاسی اتحاد ایک زرداری کو سب پر بھاری کرنے کے لیے ہی کام آئیں گے۔ پیپلز پارٹی کے اندر کئی لوگ بلاول زرداری بھٹو کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں اور نفیسہ شاہ صاحبہ نے ایک دو روز قبل یہ اعلان بھی کر دیا کہ بلاول ہی پیپلز پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔

 لیکن زرداری صاحب تو شاید خود ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ بلاول کی ابھی بڑی عمر پڑی ہے۔ ابھی تو بلاول کو بہت کچھ سیکھنا ہے۔ زرداری صاحب اپنے ہر انٹرویو میں اپنے گزشتہ دور حکومت کی کامیابیوں کو گنوا گنوا کر نہیں تھکتے۔ نجانے کیوں اُن کی حکومت کے ساتھ کرپشن اور نااہل حکمرانی کو جوڑا جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ تحریک انصاف کی طرح زرداری صاحب کو بھی کوئی حکم مل رہا ہے یا نہیں لیکن وہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں حکومت بنانے کے لیے پر تول رہے ہیں تاکہ ایک اور ’’سنہری دور‘‘ کے ذریعے پاکستان کی ’’خوب خدمت‘‘ کی جائے۔ اگر ایسا ہوا تو عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ تو ہاتھ ہو جائے گا؟؟

انصار عباسی
 

ایم کیو ایم میں یا تو میں رہوں گا یا عامر خان

$
0
0

ایم کیوایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا ہے کہ بہادرآباد رابطہ کمیٹی تسلیم کرنے کو تیار ہوں مگر بہادرآباد میرے یا عامر خان میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے اور ایم کیو ایم میں یا تو میں رہوں گا یا عامر خان۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق ستار نے ایم کیوایم بہادرآباد کے ساتھ اتحاد کے لیے نئی پیش کش کر دی۔ انہوں نے کہا کہ وہ بہادر آباد رابطہ کمیٹی تحلیل کرنے کے مطالبے سے دست بردار ہو گئے، واحد شرط یہ ہے کہ بہادر آباد میرے اور عامر خان میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے، وہ ایم کیو ایم بہادر آباد کی پوری رابطہ کمیٹی کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں جو بھی فیصلہ کرتا تھا عامر خان کی رائے اس سے مختلف ہوتی تھی، پی ایس پی سے اتحاد کے معاملے پر بھی عامر خان کی وجہ سے اختلافات ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب کھل کر کہیں کہ وہ مجھے سربراہ مان کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں، جس گرم جوشی کا اظہار کرنا چاہیے تھا وہ نہیں تھا، کشور زہرہ باجی نے استقبال کیا جو مثبت قدم تھا۔ رہنما ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ جس دو تہائی رابطہ کمیٹی نے مجھے ہٹایا اس کے ساتھ بھی کام کرنے کو تیار ہوں، آج ثالثی کی ایک اور کوشش کر رہا ہوں، بہادر آباد رابطہ کمیٹی کو تحلیل کرنےکی بات نہیں کرتا، مشورے کو نادان دوستوں نے نہیں مانا، تمام ساتھیوں کے مشورے اور رائے سے ایک فیصلہ کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا میں بات میں لے کر نہیں گیا تھا۔ فاروق ستار نے عامر خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے بھی تقسیم در تقسیم کی وجہ بھی عامرخان بنے۔ اختلاف بڑا گہرا ہے، ماضی میں بھی میرے اور عامر کے درمیان جھگڑے ہوئے، جولائی اور نومبر 2017 میں میری اور عامر خان کی لڑائی بھی ہو چکی ہے۔ عامر خان کی موجودگی میں پارٹی نہیں چلا سکتا، عامر خان میری ہر تجویز اور فیصلے میں رکاوٹ ڈالتے تھے۔

انہوں نے خالد مقبول کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ وہ تو دکھاوے کے سربراہ ہیں، ایم کیو ایم بہادر آباد کےاصل معنوں میں سربراہ عامرخان ہیں، خالد مقبول کو کچھ دنوں میں یہ بات سمجھ میں آ جائے گی۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ رابطہ کمیٹی کو کہا تھا آپ عامر خان کو سربراہ بنا دیں میں گھر چلا جاتا ہوں، میں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی، بہادر آباد کے ساتھی ہی مجھے منا کر واپس لے گئے تھے۔ فاروق ستار نے کہا کہ کارکنان عامر خان کی وجہ سے آج بھی ایم کیو ایم سے دور ہیں، مہاجر قاتل مہاجر مقتول کے آغاز کرنے والے عامر خان ہیں، شہداء کے اہل خانہ عامر خان کو ایم کیو ایم میں نہیں دیکھنا چاہتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی ایم کیو ایم میں کام نہیں کر سکتا جس میں بدنام زمانہ لوگ موجود ہوں، میں کسی سیکٹر میں متنازع لوگوں کو نکالنے کی بات کروں تو ایسا نہیں کر سکتا، ایم کیو ایم حقیقی سے بھی عامر خان ہی الگ ہوئے تھے۔ فاروق ستار نے عامر خان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ کارکنان کو لگتا تھا نائن زیرو پر پڑنے والے چھاپے کے ذمےدار بھی عامر خان ہیں، عامر خان جرائم میں ملوث افراد کو ٹاؤن اور یو سی میں لگا رہے ہیں، چائنا کٹنگ کے بعد امریکی یا روسی کٹنگ ہو، ایسی پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

میرا شہر سیالکوٹ

$
0
0

سیالکوٹ، صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے جو دریائے چناب کے کنارے واقع ہے۔ یہ شہر لاہور سے 125 کلومیٹر اور مقبوضہ جموں سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ پاکستان کا ایک اہم صنعتی شہر ہے جو کہ کافی مقدار میں برآمدی اشیا جیسا کہ سرجیکل، کھیلوں کا سامان، چمڑے کی مصنوعات اور کپڑا پیدا کرتا ہے۔ سیالکوٹ سے برآمدات کئی سو ملین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔ سیالکوٹ کو شہر اقبال بھی کہا جاتا ہے، عظیم مسلمان فلسفی شاعر، قانون دان اور مفکر علامہ محمد اقبالؒ بتاریخ 9 نومبر1877 سیالکوٹ ہی میں پیدا ہوئے۔ براعظم پاک وہندو کے قدیم ترین شہروں میں سیالکوٹ بھی شامل ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ شہر سات ہزار برس قبل آباد ہوا۔ جب یونانی فاتح ، سکندر اعظم ہندوستان وارد ہوا، تو اس نے 327 قبل مسیح میں سیالکوٹ پہ حملہ کیا۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ تب تک ساکلہ (سیالکوٹ) علاقے کا اہم شہر بن چکا تھا۔ سیالکوٹیوں نے یونانی فوج کا زبردست مقابلہ کیا۔ سکندر اعظم راجا پورس کے ہاتھیوں کی مدد ہی شہر پہ قابض ہو سکا۔ سخت مقابلہ کرنے پر اسے سیالکوٹ کے شہریوں پہ اتنا زیادہ غصّہ تھا کہ اس شہر کو ہی ملیامیٹ کر ڈالا۔ یہ شہر بعد ازاں نئے سرے سے آباد ہوا۔ 1185ء میں شہاب الدین غوری نے اسے فتح کر کے اپنی اسلامی سلطنت میں شامل کر لیا۔ 

جب مغلیہ سلطنت کو زوال آیا، تو شہر پر مختلف افراد کی حکومت رہی۔ چالیس سال تک سکھوں کے قبضے میں بھی رہا۔ پھر انگریز آ پہنچے۔ جنگ آزادی 1857ء میں سیالکوٹیوں نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ ماہ جولائی میں وہاں تعینات مسلم سپاہ اور عوام آزادی کا اعلان کر کے دہلی کی سمت مارچ کرنے لگے ۔راستے میں دریائے راوی کے تریموں گھاٹ پر جنرل جان نکلسن کی فوج نے بہت سوں کو شہید کر دیا۔ بعد ازاں باشندگان ِسیالکوٹ نے تحریک آزادی پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1965ء کی جنگ میں خطہ زبردست لڑائی کا مرکز رہا۔ چونڈہ کی لڑائی کو عالمی شہرت ملی۔

دوران جنگ اہل سیالکوٹ نے بے مثال جرأت و دلیری کا مظاہرہ کیا اسی لیے حکومت نے شہریوں کو ’’ہلال استقلال‘‘ سے نوازا۔ سیالکوٹ میں شعبہ صنعت و تجارت کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ مغلیہ دور میں یہاں کے ہنرمند عمدہ تلواریں و خنجر بناتے تھے۔ ہندوستان بھر میں ’’سیالکوٹی اینٹوں‘‘ نے شہرت پائی جن سے کئی قلعے و عمارات تعمیر ہوئیں۔ آج کل سامان سپورٹس کے علاوہ سیالکوٹ میں آلات ِسرجری، فرنیچر، برتن ، ٹائر ٹیوب وغیرہ بھی بنتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ کے بعد سیالکوٹ ایک بڑا صنعتی مرکز ہے۔ شہر میں بیشتر خوشحال و تعلیم یافتہ لوگ بھی آباد ہیں۔ معیار زندگی بلند ہے۔ یہ ایک پر امن شہر ہے۔

 

پانی بحران، ماہرین نے کالا باغ ڈیم بنانے کی تجویز دے دی

$
0
0

دفاعی، آبی اور سفارتی ماہرین نے ملک میں پانی کے بڑھتے بحران کو سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے کالاباغ ڈیم بنانے کی تجویز دے دی۔ پاکستان ہاؤس کی جانب سے پاکستان کی واٹر سیکیورٹی پالیسی، خطرات اور چیلنجز کے موضوع پرقومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک نے کہا کہ ملک میں پانی کا مسئلہ سنگین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پانی کے حوالے سے کراچی کے حالات مستقبل میں معاملے کی سنگینی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ واٹر سیکیورٹی نیشنل سیکیورٹی کا حصہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم پر سیاسی جماعتوں کو مثبت قدم اٹھانا چاہیے۔

سابق سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے کہا کہ پانی کے معاملے کو ہمیں علاقائی سطح پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مودی حکومت پانی کے مسئلے پر پاکستان کو دھمکیاں دے رہی ہے، انھوں نے کہا کہ پاکستان کو پانی محفوظ کرنے کی استعداد کار بڑھانا ہو گی۔ سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک نے کہا کہ کالا باغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے پاکستانی عوام سالانہ 192 ارب ادا کر رہے ہیں پاکستان میں کالا باغ اور بھاشا ڈیم جیسے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live