Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

پاکستان ریلوے میں 60 ارب روپے کا خسارہ ؟

$
0
0

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میان ثاقب نثار نے ریلوے میں 60 ارب روپے کے خسارے پر ازخود نوٹس لے لیا۔ عدالت نے سیکرٹری ریلوے، ریلوے بورڈ کے ممبران کو آڈٹ رپورٹس سمیت طلب کر لیا۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے محکمہ ریلوے میں 60 ارب کے خسارے پر از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صرف جلسوں میں ریلوے کے منافع بخش ہونے کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن ریلوے کی اصل صورتحال مختلف ہے، کیو ں نہ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو طلب کیا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے بھارت کے سابق وزیر ریلوے کی تعریف اور ریمارکس دیے کہ بھارت کا وزیر ریلوے لالو پرشاد ان پڑھ آدمی تھا، لیکن ادارے کو منافع بخش بنایا، آج لالو پرشاد کی تھیوری کو ہاورڈ یونیورسٹی میں پڑھایا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ بادشاہت تھوڑی ہے، کہ جس کا جو جی چاہے کرتا پھرے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر متعلقہ افسران کو پیش ہو کر 60 ارب روپے کے نقصان کی وجوہات بتانے کی ہدایت کر دی۔
 


پاکستان میں اسلامی بینکاری

$
0
0

عمومی تعریف کے مطابق اسلامی بینکاری ایک ایسا نظام ہے، جس میں بینک سود کا لین دین نہیں کرتے۔ اسلامی بینکاری کے حوالے سے لا تعداد مواد چھپ رہا ہے، جن میں اسلامی بینکاری کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں دانشوروں کے خیالات و افکار جگہ پاتے ہیں ۔ پاکستان سمیت دنیا کی بہت سی یونیورسٹیوں نے اپنے ماسٹرز ڈگری کے نصاب میں اسلامی بینکاری کو بطور مضمون شامل کر رکھا ہے اور ڈاکٹریٹ کے مقالوں پر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی دی ہیں۔

اسلامی بینکاری اور پاکستان
پاکستان میں 2002ء میں اسلامی بینکاری کے آغاز سے لے کر سال 2017ء کے اختتام تک اسلامی بینکاری کا عام روایتی بینکاری میں حصہ 11.9% جب کہ اثاثہ جات کی مالیت 12.7% تک پہنچ چکی ہے۔ سال 2017 کے اختتام تک پاکستان میں اسلامی بینکاری کے 21 ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان میں 5 مکمل طور پر اسلامی بینک اور 16 روایتی کمرشل بینک اسلامی بینکاری کی خدمات فراہم کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

اسلامی بینکاری کی خدمات فراہم کرنے والی بینک برانچز کی تعداد 2 ہزار 368 تک پہنچ گئی ہے جبکہ شعبہ کے صارفین اور بینک برانچز میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی اسلامی بینکاری صنعت 2002 سے 2015 کے عرصے میں 50% سی جی اے آر کے تناسب سے وسعت پذیر ہوئی ہے۔ ستمبر 2017 تک پاکستان کے مجموعی بینکاری نظام میں اسلامی بینکوں کے اثاثہ جات بڑھ کر 11.9% ہو چکے ہیں۔ مالیت کے حساب سے یہ 2,083 ارب روپے کی صنعت بن چکی ہے۔ مجموعی ڈیپازٹس میں اسلامی بینکوں کا حصہ 13.7% فی صد ہے، جب کہ ان ڈیپازٹس کی مالیت 1,729 ارب روپے ہو گئی ہے۔ پاکستان کے مرکزی بینک کے منصوبے کے تحت 2018 کے اختتام تک، اسلامی بینکوں کے پاس بینکنگ سیکٹر کے 15% اثاثے ہوں گے ۔

اسلامی بینکاری کا فریم ورک
پاکستان میں اسلامی اور روایتی بینکوں کے نظام کو بینکنگ کمپنیز آرڈیننس ( بی سی او) 1962 کے تحت چلایا جاتا ہے۔ 2002 میں بی او سی میں ترمیم کی گئی تا کہ بینکاری کاروبار کو شریعت کے مطابق ڈھالا جا سکے ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ریگولیٹری فریم ورک اسلامی بینکوں سمیت تمام بینکوں پر لاگو ہے۔ اسٹیٹ بینک کی بینکوں کو واضح ہدایت ہے کہ مخصوص اسلامی بینکاری شاخوں میں فنڈ، سسٹم اور کنٹرول کو روایتی بینکاری سے مکمل طوپر علیحدہ رکھا جائے۔ اسلامی بینکاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ چیئرٹی اکائونٹ ، پول مینجمنٹ پریکٹس اور شریعہ بورڈ کے ارکان کی اجرت ظاہر کریں۔

روایتی بینک جو اسلامی بینکوں کی پراڈکٹس پیش کرتے ہیں، ان کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ اسلامی بینکوں کے آپریشنزکو ظاہر کریں۔ اسٹیٹ بینک تمام بینکوں بشمول اسلامی بینکوں کا سہ ماہی بنیادوں پر سخت ٹیسٹ کرتا ہے۔ بینکوں کے مسائل حل کرنے کے لیے، ادارہ جاتی فریم ورک پر غور ہو رہا ہے۔ 1962 کا بینکنگ آرڈیننس اس کے لیے عموی اور قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے ، جو روایتی اور اسلامی بینکوں پر ایک ساتھ لاگو ہیں۔ ا سٹیٹ بینک نے سہولت کی خاطر اسلامی بینکاری ڈیپارٹمنٹ کی شکل میں ادارہ جاتی فریم ورک دے دیا ہے ۔

اسلامی اور روایتی کمرشل بینکاری میں فرق
اسلامی اور کمرشل بینکاری کے ظاہری طریقہ کار میں یکسانیت کی وجہ سے عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں نظام ایک جیسے ہیں، صرف نام بدلنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہے، ان دونوں نظاموں میں واضح فرق ہے۔ آپ نے کبھی یہ سوچا ہے اگر ایک مسلمان ایک مرغی کو اسلامی طریقے سے ذبح کرے اور ایک غیر مسلم اس کو ویسے ہی مار دے اور دونوں گوشت کو بھون لیا جائے یا ہانڈی میں پکائی جائے تو کیا شکل اور ذائقےسے یہ پتہ لگانا ممکن ہے کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام؟ ہرگز نہیں، بلکہ اس مخصوص طریقہ کار ، الفاظ اور اصولوں کی پاسداری کی وجہ سے اس کو حلال قرار دیا جائے گا اوراس کی عدم موجودگی میں اس کو حرام قرار دیا جائے گا۔

کمرشل بینکوں میں رائج منافع حاصل کرنے کا نظام سودی ہے۔ وہاں قرض کا لین دین سودی بنیادوں پر ہے، چنانچہ بینک اپنے صارفین کو سود کے عوض قرضہ دیتا ہے۔ اس کے برعکس، اسلامی بینکوں میں خرید و فروخت ، مضاربت، شراکت وغیرہ کی سرمایہ کاری کیلیے جائز صورتوں کو اپنایا جاتا ہے، اسی طرح ان بینکوں میں رقوم کی منتقلی پر فیس وصول کی جاتی ہے، اور اسی طرح غیر ملکی زرِ مبادلہ کے لین دین سے بھی منافع حاصل کرتے ہیں۔

اگر کوئی صارف اپنی رقم سے منافع کمانا چاہے اور اپنی رقوم سودی بچت بینک میں جمع کروا دے، تو بینک اس کے لیے منافع مقرر کر دیتا ہے، ساتھ میں رأس المال کے محفوظ رہنے کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ یہ صورت حقیقت میں سودی قرض ہے، اس صورت میں صارف بینک کو قرضہ فراہم کرتا ہے اور بینک کو فائدہ اس طرح ہوتا ہے کہ بینک جمع شدہ رقوم کو دیگر صارفین کو منافع کے عوض بطور قرضہ فراہم کرتا ہے ، اس طرح سودی بینک قرضہ لیتا بھی ہے اور دیتا بھی ہے، لیکن لینے دینے میں جو شرح منافع میں فرق پایا جاتا ہے، اس سے بینک کو فائدہ ہوتا ہے۔

اسلامی بینک میں سرمایہ کاری کا ایک طریقہ کار یہ ہے کہ اسلامی بینک، صارف سے رقم کسی ایسے کام میں مضاربت کے لیے لیتا ہے جو شرعی طور پر جائز ہو۔ کسی رہائشی منصوبے یا کسی اور جائز کام کے لیے لے لیتا ہے، جس میں شرط یہ ہوتی ہے کہ بینک حاصل ہونے والے نفع میں سے معین فیصد صارف کو دے گا، جبکہ بینک کو بھی مضاربت میں محنت کے عوض معین فیصد میں نفع ملتا ہے۔ اس صورت میں کسی بھی منصوبے کی کامیابی کی صورت میں حاصل ہونے والے نفع سے بینک کو فائدہ ہوتا ہے۔ مضاربت میں نفع یا نقصان دونوں چیزوں کا احتمال اور خطرہ قائم رہتا ہے، جس کی وجہ سے منافع کو یقینی بنانے کیلیے کسی ایسے منصوبے پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے، جس میں نفع کے امکانات زیادہ روشن ہوں اور پھر اسے کامیاب بنانے کیلیے محنت بھی کی جاتی ہے۔

عالمی منظرنامہ اور پاکستان
دنیا کے 44 ملکوں میں اسلامک فائنانس کے قواعد و ضوابط موجود ہیں، جب کہ 12 ملکوں میں باقاعدہ مرکزی شریعہ بورڈ بھی قائم ہیں، جہاں 1,075 اسلامی اسکالرز اس صنعت کی سرپرستی اور مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔ ملائیشیا، بحرین اور متحدہ عرب امارات، اسلامی مالیاتی نظام کے حوالے سے بالترتیب دنیا کے تین بڑے ممالک ہیں۔ پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔

 لیاقت علی جتوئی

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

چوہدری شجاعت نے کیا کچھ دیکھا ؟

$
0
0

یہ ایک سرپرائز ہے۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ چوہدری شجاعت حسین اتنا سچ بول سکیں گے لیکن پاور پالیٹکس کے اس دور میں چوہدری صاحب نے کافی شجاعت دکھا دی ہے اور اپنی کتاب میں کچھ ایسی باتیں لکھ ڈالی ہیں جو صرف نواز شریف نہیں بلکہ پرویز مشرف کے دل میں بھی کانٹا بن کر پیوست رہیں گی۔ چوہدری شجاعت حسین کی آپ بیتی ’’سچ تو یہ ہے !‘‘غالب کے اس شعر سے شروع ہوتی ہے؎

صادق ہوں اپنے قول کا، غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

یہ شعر پڑھ کر میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور میں سوچنے لگا کہ الیکشن قریب ہیں اور سیاسی کھینچا تانی میں اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے اس صورتحال میں بھلا چوہدری صاحب کیا سچ بولیں گے لیکن چوہدری صاحب نے صرف دوسروں کے بارے میں نہیں اپنے بارے میں بھی سچ سے کتاب کی ابتداء کی۔ انہوں نے لکھا کہ جب دریائے چناب کے کنارے آباد ان کا گائوں ’’نت وڑائچ‘‘ دریا برد ہو گیا اور سب ختم ہو گیا تو ان کے والد چوہدری ظہور الٰہی نے پولیس میں نوکری کر لی بعد ازاں انکے والد نے اپنے بھائی چوہدری منظور الٰہی کیساتھ ملکر چند پاور لومز بنائیں اور لِیلن (بریزے) پاکستان میں متعارف کروائی۔ 

پھر پولیس کا ایک سابق سپاہی الیکشن لڑ کر قومی اسمبلی میں پہنچا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ان کے والد پر بھینس چوری سمیت سو سے زائد مقدمات بنائے گئے لیکن انہوں نے آگے چل کر ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کی پارلیمنٹ کو بھی خراج تحسین پیش کیا جس نے مسئلہ قادیانیت کو ہمیشہ کیلئے طے کر کے امت مسلمہ پر ایک احسان کیا۔ اس کتاب میں چوہدری صاحب نے خان عبدالغفار خان ( باچا خان) کی اپنے والد سے دوستی کی تفصیل بیان کرنے کے بعد یہ بھی لکھ ڈالا کہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپوزیشن کے جلسے پر فائرنگ کے بعد اجمل خٹک اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ انہوں نے میرے والد کے سامنے ولی خان سے کہا کہ اب میں پاکستان میں نہیں رہوں گا میں افغانستان جا رہا ہوں۔ پھر چوہدری ظہور الٰہی نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری سیٹھ اشرف کو ہدایت کی کہ اجمل خٹک کو بارڈر کراس کروا دیں اور اگلے دن اجمل خٹک کو طورخم کے راستے افغانستان پہنچا دیا گیا۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں بڑے فخر سے لکھا تھا کہ مسلم لیگ (ق) انہوں نے بنائی تھی۔ چوہدری صاحب کی کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) جنرل ضیاءالحق نے بنوائی تھی۔ جنرل ضیاء اپنے ہی لائے ہوئے وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے ناراض تھے۔ ایک دن جنرل ضیاء نے چوہدری شجاعت حسین کو بلا کر بتایا کہ آپ کا وزیراعظم بھی عجیب آدمی ہے، میرے گھر میں تیس سال سے ایک مالی کام کر رہا ہے میں نے اس کی ایکسٹینشن کا کیس ان کو بھیجا تو انہوں نے فائل پر ’’نو‘‘ لکھ کر واپس بھیج دی ہے ۔ محمدخان جونیجو کی حکومت برطرف ہوئی تو نواز شریف نے جنرل ضیاءالحق کا ساتھ دیا جبکہ چوہدری شجاعت حسین برطرف وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے رہے اور گجرات میں ان کیلئے جلسے کا اہتمام بھی کیا۔

شہباز شریف کو چوہدری شجاعت حسین کے پاس بھیجا گیا کہ آپ جونیجو کا ساتھ چھوڑ دیں لیکن چوہدری صاحب نے انکار کر دیا۔ نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے وہ ناراض ہو گئے انہوں نے چوہدری وجاہت حسین اور چوہدری شفاعت حسین پر جھوٹے مقدمات بنوائے لیکن اس کے باوجود 1988ء کے الیکشن میں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کامیاب ہو گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو مرکز میں اکثریت حاصل تھی انہوں نے فاروق لغاری کے ذریعے چوہدری شجاعت حسین سے رابطہ کیا اور چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کی پیشکش کی۔ یہ وہ موقع تھا جب میاں محمد شریف مرحوم درمیان میں آ گئے اور انہوں نے وعدہ کیا کہ اس دفعہ آپ نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بننے دیں جب نواز شریف وزیر اعظم بن جائیں گے تو ان کا وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی ہو گا۔

چوہدری برادران نے میاں محمد شریف کی بات مان لی اور پیپلز پارٹی کی پیشکش مسترد کر دی۔ چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم بنتے ہی جنرل ضیاءالحق کے خاندان کو آرمی ہائوس خالی کرنے کا حکم دیا بیگم شفیقہ ضیاء الحق نے نواز شریف سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کسی کرائے کے گھر میں چلے جائیں۔ پھر بیگم شفیقہ ضیاء نے بیگم چوہدری ظہور الٰہی سے رابطہ کیا تو انہوں نے چوہدری شجاعت کو حکم دیا کہ آپ اپنا گھر جنرل ضیاء کے خاندان کو دیدیں اور خود کرائے کے گھر میں چلے جائیں۔ جب تک بیگم شفیقہ ضیاء کا مکان تعمیر نہ ہوا وہ چوہدری شجاعت حسین کے گھر میں مقیم رہیں۔ 1990ءکے انتخابات کے بعد نواز شریف وزیر اعظم بنے تو پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کی جگہ غلام حیدر وائین وزیر اعلیٰ بن گئے۔ 1997ء میں نواز شریف دوسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو ایک دفعہ پھر چوہدری پرویز الٰہی کو نظرانداز کر کے شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ 1997ء میں چوہدری شجاعت حسین کو وزیر داخلہ بنایا گیا ۔ 

ایک دن انہیں پتہ چلا کہ سپریم کورٹ پر حملے کیلئے لاہور سے کچھ لوگ لائے گئے ہیں۔ چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ انہوں نے اسلام آباد پولیس کو ہدایت کی کہ لاہور سے آنے والوں کو گوجرخان میں روک لیں لیکن یہ سب شہباز شریف کی نگرانی میں ہوا اور انہوں نے پنجاب ہائوس میں حملے کیلئے آنیوالوں کو قیمے والے نان کھلائے۔ چوہدری صاحب نے لکھا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کسی نہ کسی طریقے سے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو گرفتار کرنا چاہتے تھے ۔ اس زمانے میں سینیٹر سیف الرحمان نے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ساتھ مل کر آصف زرداری پر منشیات اسمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنانے کی کوشش کی۔ اے این ایف نے لکھ کر دیدیا کہ یہ مقدمہ کمزور ہے لیکن سیف الرحمان روزانہ وزیر اعظم کے پی ایس او کیساتھ آ کر مجھ سے کہتے کہ یہ کیس بنانا ہے لیکن چوہدری شجاعت حسین نے فائل پر ’’نو‘‘ لکھ دیا ۔ چوہدری صاحب نے اس کتاب میں ایک ایسا سچ لکھ دیا ہے جو شاید کسی عدالت میں ثابت نہ ہو سکے لیکن یہ سچ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ مشرف دور کے ڈی جی ملٹری انٹیلی جینس میجر جنرل ندیم اعجاز کا لب ولہجہ اکبر بگٹی کے بارے میں بڑا سخت ہوتا تھا ۔ ایک دن چوہدری صاحب اور مشاہد حسین دونوں ندیم اعجاز کے گھر گئے اور انہیں کہا کہ اکبر بگٹی ہمیشہ وفاق کے حامی رہے ہیں لہٰذا انہیں مارنا نہیں گرفتار کر لینا۔ اگلے ہی روز اکبر بگٹی کو شہید کر دیا گیا۔

چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے لال مسجد کا مسئلہ حل کر چکے تھے۔ انہوں نے ان مذاکرات کے سلسلے میں میرے کردار کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ مذاکرات کی بحالی میں حامد میر کا کیا کردار رہا ۔ عبدالرشید غازی اور چوہدری صاحب کے درمیان ایک صلح نامہ بھی طے پا گیا تھا لیکن مشرف نے یہ صلح نامہ مسترد کر دیا ۔ چوہدری صاحب نے اپنی کتاب میں مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کا ایک دستخط شدہ بیان شامل کر دیا ہے۔ مفتی صاحب ان مذاکرات کا حصہ تھے اور انہوں نے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار مشرف کو قرار دیا ہے۔ 

چوہدری صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ 2008ء کے انتخابات میں مشرف نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا۔ ابھی پولنگ جاری تھی کہ شام چار بجے مشرف نے فون پر چوہدری صاحب سے کہا کہ آپ کو پینتیس چالیس نشستیں ملیں گی آپ نتائج تسلیم کر لیں کوئی اعتراض نہ کیجئے گا ۔ ابھی گنتی شروع نہ ہوئی تھی اور مشرف نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ پھر مشرف نے چوہدری صاحب کو مسلم لیگ (ق) کی صدارت سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن فاروق لغاری اور فیصل صالح حیات نے کوشش ناکام بنا دی۔ چوہدری صاحب کی یہ کتاب ان سب کو ضرور پڑھنی چاہئے جو نادیدہ قوتوں کیساتھ مل کر نئی نئی پارٹیاں بنا رہے ہیں۔ یہ نادیدہ قوتیں قابل اعتبار نہیں ہوتیں قابل اعتبار صرف اللہ اور عوام ہیں ۔ چوہدری صاحب نے تمام دھوکوں کے باوجود اپنا سیاسی وجود برقرار رکھا ۔ ان کی سیاسی بقاء اور ان کی کتاب دونوں ہی سرپرائز سے کم نہیں ۔

حامد میر
 

امریکہ چین تجارتی جنگ اور پاکستان

$
0
0

’’امریکہ اور چین میں تجارتی جنگ ابھی پوری طرح شروع نہیں ہوئی تاہم سرمایہ کاروں نے صدر ٹرمپ کی چینی مصنوعات پر تجارتی بند شیں عائد کرنے کی دھمکیوں کے بعد امریکی حصص بازاروں سے نکلنا شروع کر دیا ہے‘‘ ایک تازہ اخباری رپورٹ کی یہ تمہید بین الاقوامی حالات میں تیزی سے رونما ہوتی ہوئی تبدیلیوں کی عکاس ہے اور ہوشمندی کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے حکمراں، ماہرین اقتصادیات اور کاروباری حلقے ابھی سے پاکستان پر اس جنگ کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لے کر مناسب حکمت عملی کی تیاری شروع کر دیں ۔ چین کے خلاف تجارتی جنگ کا آغاز امریکی صدر نے گزشتہ ماہ کے آخری عشرے میں چینی مصنوعات کی امریکہ میں درآمد پر پچاس ارب ڈالر کے بھاری اضافی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کر کے کیا تھا ۔ 

چین نے اس کا جواب ماہ رواں کی چار تاریخ کو ایک سو چھ امریکی مصنوعات پر نیا ٹیرف عائد کرنے کی شکل میں دیا۔ ایک روز بعد ٹرمپ نے امریکی تجارتی نمائندوں کو چین کے خلاف سو ارب ڈالر کے اضافی ٹیرف پر غور کے لیے کہا۔بیجنگ نے اس کے جواب میں واضح کیا کہ وہ آخر تک اس کا مقابلہ کرے گا اور کوئی قیمت ادا کرنے سے نہیں ہچکچائے گا۔ برطانوی اخبار دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق چین ممکنہ امریکی اقدامات کے ردعمل میں جوابی حملے اور نئے جامع اقدامات کیلئے پرعزم ہے۔

وائس آف امریکہ کے مطابق امریکی کارروائی کا جواب چین نے صرف گیارہ گھنٹے میں امریکی درآمدات بشمول گاڑیوں، سویا بین اور کیمیکلز وغیرہ پر پچیس فی صد اضافی ڈیوٹی لگا کر دے دیا، جبکہ صدر ٹرمپ نے اس کے فوراً بعد بظاہر پسپائی اختیار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’’ ہم چین کے ساتھ تجارتی جنگ نہیں لڑ رہے، یہ جنگ امریکہ اپنے کچھ احمق اور نااہل لوگوں کی وجہ سے برسوں پہلے ہی ہار چکا ہے ‘‘ جہاں تک پاکستان اور امریکہ کے باہمی روابط کی موجودہ کیفیت کا تعلق ہے تو وہ پہلے ہی کشیدگی کا شکار ہے۔ گزشتہ سال دونوں ملکوں میں باہمی تجارت کا حجم صرف چھ ارب ڈالر تھا جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات کے سبب پاک امریکہ تعلقات تاریخ کی پست ترین سطح تک گر چکے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس کا ہدف پاکستان خطے میں امریکی پالیسیوں کا ساتھ دینے ہی کے نتیجے میں بنا، ہماری مثالی جدوجہد ، کامیابیوں اور سب سے زیادہ قربانیوں کے باوجود امریکی قیادت اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے اور ڈومور کی رٹ لگائے رکھنے کی قطعی غیرمعقول حکمت عملی پر کاربند ہے۔ امریکی کوششوں ہی کے باعث پاکستان دہشت گرد تنظیموں کی مالی امداد روکنے میں کامیاب نہ ہونے والے ملکوں کی گرے لسٹ میں شامل کیا جانے والا ہے۔ تاہم فی الحقیقت امریکی قیادت کی پاکستان سے ناراضگی کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کے چین سے گہرے روابط ہیں ، پاک چین اقتصادی راہداری کی شکل میں بین الاقوامی اقتصادی میدان میں چین کی غیر معمولی پیش قدمی کے امکانات نے امریکہ کو ہوش ربا خدشات میں مبتلا کر رکھا ہے اور چین کا راستہ روکنے یا کم از کم اس کی پیش قدمی میں رکاوٹیں ڈالنے اور رفتار کم کرنے کا آسان نسخہ امریکہ کے پاس پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی شکل میں موجود ہے۔

نیز چین کے خلاف تجارت کے شعبے میں امریکہ کے مزید اقدامات سی پیک اور پاکستان میں چین کے تعاون سے جاری ترقیاتی منصوبوں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ امریکہ میں برسر روزگار پاکستانیوں کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں جبکہ خلیجی ریاستوں سے بھی پاکستانی کارکنوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ترسیلات زر کا متاثر ہونا یقینی ہے لیکن دانش مندانہ حکمت عملی سے ان مشکلات کو مواقع میں بدلا جا سکتا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی وسائل بھی رکھتے ہیں اور مختلف شعبوں میں مہارت اور تجربہ بھی، قابل عمل زرعی اور صنعتی منصوبے شروع کرنے کے لیے ان کی مناسب رہنمائی اور تعاون اور بین الاقوامی اقتصادیات میں متبادل شرکاء کی تلاش کے ذریعے ملک وقوم کے لیے فلاح و ترقی کی نئی راہیں کھولی جا سکتی ہیں۔

اداریہ روزنامہ جنگ
    



کشمیر : ہر خاندان کی اپنے پیارے کو کھو دینے کی کہانی ہے

$
0
0

خاندان تباہ، بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ یہ سب ایک ہی دن میں ہوا۔ انڈین فوجیوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے جنوبی حصے میں شدت پسندوں کے خلاف تین مختلف آپریشنز کیے۔ شدت پسندوں کے ساتھ کئی گھنٹے ہونے والے فائرنگ کے تبادلے میں 13 شدت پسند، چار عام شہری اور تین فوجی ہلاک ہوئے۔ 35 سالہ مشتاق احمد، 19 سالہ مہراج الدین میر، 19 سالہ زبیر احمد بھٹ اور 27 سالہ محمد اقبال بھٹ وہ چار عام شہری تھے جو مبینہ طور پر انڈین فوجیوں کی گولیوں سے ہلاک ہوئے۔ 35 سالہ مشتاق احمد کے رشتے دار نذیر احمد نے کہا ’وہ گھر پر سویا ہوا تھا۔ جب رات دو بجے فوج آئی تو انھوں نے مشتاق سے ان کے ساتھ آنے کو کہا۔ اس کے بعد جلد ہی فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا اور ہم نے اس کو صبح تک نہیں دیکھا۔‘


مشتاق کے ایک اور خاندان والے نے بتایا کہ مشتاق کے خاندان والوں کو اس کی موت کا صبح فائرنگ رکنے کے بعد معلوم ہوا۔ ان کو بتایا گیا کہ اس کی لاش ضلعی پولیس لائنز میں پڑی ہے۔ ’ہمیں بتایا گیا تھا کہ مشتاق کی مدد تلاشی لینے کے لیے درکار ہے اور وہ واپس آ جائے گا۔‘ مشتاق کی اہلیہ رقیبہ اپنے شوہر کی تلاش میں صبح ساڑھے آٹھ بجے نکلیں۔ جب انڈین فوج سے اپنے شوہر کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا ’وہ محفوظ ہے اور جلد گھر واپس آ جائے گا‘۔
لیکن کئی گھنٹوں بعد مشتاق کی لاش واپس آئی۔

یومیہ اجرت پر کام کرنے والے محمد اقبال کی ڈیڑھ سال کی بیٹی کو اب تک سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کا والد کہاں گیا ہے۔ وہ کھیلنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس کے چہرے سے افسردگی عیاں ہے۔ 27 سالہ محمد اقبال بھٹ کے بڑی بھائی نواز احمد بھٹ نے بتایا ’وہ صبح اپنے سسرال اپنی بیٹی کو لینے گئے تھے۔ ہمیں اسی کے فون سے کسی اور شخص نے فون کیا کہ اقبال پیٹ میں گولیاں لگنے سے زخمی ہوا اور اس کو ضلعی ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اس نے دم توڑ دیا۔‘ اقبال کا آبائی قبرستان آس پاس تعمیراتی کام کے باعث پتھروں سے بھرا ہوا ہے اس لیے اقبال کو گھر کے باغیچے ہی میں دفن کر دیا گیا۔

ہر خاندان کی اپنے پیارے کو کھو دینے کی کہانی ہے۔ 19 برس کا زبیر احمد ایک ذہین طالب علم تھا اور فارغ وقت میں الیکٹریشن کا کام کرتا تھا۔ وہ صبح کی نماز پڑھ کر اپنے خاندان والوں کے ساتھ چائے پی رہے تھے۔ جب ان کو اطلاع ملی کے ان کے گھر سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے تو وہ اس مقام کی جانب چل پڑے۔ زبیر نے اپنے خاندان کی صابن بنانے کی فیکٹری کا اس دن آغاز کرنا تھا لیکن انھوں نے اپنے والد کو بتایا کہ حالات اچھے نہیں ہیں اس لیے ایک روز کے لیے فیکٹری کا آغاز روک دیں۔ زبیر کے والد نے کہا ’فائرنگ کے تبادلے میں ایک گولی زبیر کے دل پر لگی۔‘

19 سالہ مہراج الدین بھی طالب علم تھا۔ وہ صبح گھر والوں کو بتا کر نکلا کہ وہ قریب ہی واقع سیاحتی مقام اہربال جا رہا ہے۔ لیکن وہ اس جگہ چلا گیا جہاں پر فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ مہراج کے والد محمد یاسین میر نے بتایا ’شام چھ بجے تک تو ہمارا خیال تھا کہ وہ دوستوں کے ہمراہ ہے لیکن پھر ہمیں بتایا گیا کہ وہ گولی لگنے سے زخمی ہو گیا ہے۔ ہمیں ہسپتال انتظامیہ نے بتایا کہ وہ مر گیا ہے۔‘

وقار سید
شوپیاں، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

بشکریہ بی بی سی اردو
 

امریکی سفارتکار کیخلاف قانونی کارروائی ناگزیر

$
0
0

ملک بھر میں کروڑوں پاکستانی ٹی وی چینلوں پر اس واقعے کی رپورٹ دیکھ کر شدید صدمے اور حیرت سے دوچار رہے کہ وفاقی دارالحکومت میں امریکی ملٹری اتاشی کی گاڑی کی ٹکر سے ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان پاکستانی شہری کی ہلاکت اور اس کے ساتھی کے شدید زخمی ہونے کے باوجود پولیس نے گاڑی ڈرائیو کرنے والے کرنل جوزف عمانویل کو کسی قانونی کارروائی کے بغیر چھوڑ دیا اور جواز یہ پیش کیا کہ سفارت کاروں کو ملکی قوانین سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے جبکہ شواہد کے مطابق ملٹری اتاشی نے سگنل توڑ کر نوجوانوں کو کچلا تھا۔

سفارت کاروں کو ملکی قوانین سے ایسی کھلی چھوٹ کا حاصل ہونا لوگوں کے لیے بجا طور پر قطعی ناقابل فہم تھا۔ تاہم حکومتی سطح پر ہفتے کو اس واقعے کا نوٹس لیے جانے کی کوئی اطلاع منظر عام پر نہیں آسکی لہٰذا لوگ سخت اضطراب اور بے چینی میں مبتلا رہے۔ بہرکیف امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا جہاں سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے ان سے اس المناک واقعہ پر احتجاج کیا اور انہیں باور کرایا کہ نوجوان کی ہلاکت کے معاملے میں ملکی قوانین اور ویانا کنونشن کے مطابق مکمل انصاف کیا جائے گا.

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی ٹوئٹ کے مطابق امریکی سفارت کار نے واضح طور پر ٹریفک قانون توڑا جس کے باعث نوجوان جاں بحق ہوا جبکہ زخمی ہونے والے نوجوان کا بیان بھی یہی ہے۔ لہٰذا امریکی ملٹری اتاشی کے خلاف ضروری قانونی کارروائی میں کسی لیت و لعل سے کام نہیں لیا جانا چاہیے اور انصاف کے تقاضوں کی جلد ازجلد تکمیل کا اہتمام ہونا چاہیے۔ جب امریکہ میں قانون کی پابندی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم بھی ایئرپورٹ پر جسمانی تلاشی کے عمل سے گزرتا اور اس کارروائی کو قانون کا تقاضا قرار دے کر خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہے تو امریکی سفارت خانے کے ایک اہلکار کی غیرذمہ داری سے ایک پاکستانی شہری کی جان کے نقصان کا معاملہ کسی رعایت کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے۔


اڈیالہ جیل میں ’اہم مہمان‘ کی میزبانی کی تیاریاں

$
0
0

سینٹرل جیل اڈیالہ میں کسی اہم مہمان کی میزبانی کے لئے تیاریاں شروع کر دی گئیں ہیں، ذرائع کے مطابق اڈیالہ جیل کے احاطہ میں واقع ہائی سیکیورٹی جیل کی تزئین وآرائش شروع کر دی گئی ہے جہاں مختلف سیلوں میں وائٹ واش کرایا جا رہا ہے اور بلبوں اور نئی لائٹس بھی لگائی جا رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی جیل میں ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی سماعت کے لئے سپیشل روم بھی بنائے گئے ہیں جب کہ خطرناک اور اہم اسیروں کو بھی اسی جیل میں رکھا جاتا ہے یہاں آئندہ کیا کسی اہم شخصیت کو بطوراسیر لایا جائے گا یا پھر آئندہ چند روزمیں کسی اہم شخصیت نے اس جیل کا دورہ کرنا ہے اس بارے جیل انتظامیہ نے چپ سادھ رکھی ہے۔

وسیم اختر

مودی کا یوم حساب قریب ہے

$
0
0

مقبولیت کھوتی مودی حکومت جب اقتدار میں آئی تھی اس وقت ان کی مقبولیت عروج پر تھی اوران کے پاس اکثریت کے ساتھ اتنی سیٹیں موجود تھیں کہ وہ اپنے بل بوتے پر حکومت تشکیل دے لے۔ مودی حکومت نے ابتداء مقبولیت سے تو کی لیکن بتدریج ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوتی رہی جس کی مختلف وجوہات رہیں، کبھی کرنسی نوٹوں کی تبدیلی ان کی مقبولیت میں کمی کا باعث بنی تو کبھی ان کےسب سے قریب اور مضبوط اتحادی تیلگو دیشم پارٹی کی ان سے علیحدگی اس کا باعث قرار پائی۔ اقلیتیں خاص طور پر مسلمان ان کی حکومت میں نشانہ رہے، انہیں کبھی گائو رکشک کےغنڈوں کے ہاتھوں قتل کرایا گیا تو کبھی حج پر مسلمانوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کر کے، اب اگلے سال یعنی 2019  میں پارلیمانی انتخاب ہونے والے ہیں، اس حوالے سے مودی سرکار اور ان کی جماعت کی پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔

اپنی حکومت کی ناقص کارکردگی کے احساس کے بعد مودی حکومت اور ان کی جماعت اس کوشش میں ہے کہ جائز نا جائز کوئی ایسا کام کیا جائے جس کی بنیاد پر یہ لوگ ووٹ لینے عوام میں جا سکیں۔ ماضی میں بھارتی حکومتوں کا وتیرہ رہا ہے کہ جب بھی انہیں اپنی ناکامیاں سامنے نظر آئیں، انہوں نے پاکستان کو ہدف بنایا اور یوں اپنی ساکھ کو بچانے کی کوششیں کیں، مودی سرکار کو بھی جب اگلے الیکشن کی فکر لاحق ہوئی تو انہوں نے بھی پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا۔ مودی کے دورِ حکومت میں کنٹرول لائن کی صورت حال کو خراب کیا گیا، پاکستانی علاقوں میں بلا اشتعال فائرنگ، گولہ باری معمول بنا دی ہے، کشمیر میں مظالم انتہا کو چھو رہے ہیں اور ہر روز کشمیریوں کو لاشوں کے تحفے دیے جا رہے ہیں۔

اسی سلسلے میں مودی سرکار نے ایک اور شرانگیزی کرتے ہو ئے پاکستانی سفارتکار کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کر دیا ہے جس کا مقصد اپنی ساکھ کو بچانا اور عالمی برادری میں پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔ اس حوالے سے بھارتی تحقیقاتی ایجنسی ’این آئی اے‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں پاکستانی سفارت خانے میں تعینات ویزا قونصلر عامر زبیر صدیقی جنوبی بھارت میں امریکا اور اسرائیلی قونصل خانوں پر ممبئی طرز کے حملوں کی پلاننگ کر رہے تھے۔ این آئی اے نے الزام عائد کیا ہے کہ عامر زبیر صدیقی جو 2009ء سے 2016ء تک پاکستانی سفارتخانے میں تعینات رہے، اس دوران انہوں نے ممبئی حملوں کی پلاننگ کی۔
 


فیس بک جعلی اکاؤنٹس پاکستانی الیکشن پر اثر انداز ہو سکتے ہیں : زکربرگ

$
0
0

فیس بک کے سر براہ نے انکشاف کیا ہے کہ فیس بک پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے پاکستان میں ہونے والے انتخابات پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ امریکی کانگریس میں مارک زکربرگ کا کہنا تھا کہ ہم ایسے تمام جعلی اکائونٹس پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان سب کو بند کر رہے ہیں جن کے ذریعے ووٹ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فیس بک کے بانی مارک زکر برگ ڈیٹا اسکینڈل کے حوالے سے امریکی کانگریس کے سامنے پیش ہو گئے، انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ نے اپنے صارفین کے کوائف کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے تھے اور وہ اس کوتاہی کی پوری ذمہ داری قبول کرتے ہیں ۔  

زکر برگ اپنے ایک بیان میں فیس بک کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے نظام کو بہتر بنانے کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔ انہوں نے توانائی و تجارت کی امریکی نمائندگان کی کمیٹی کو ایک تحریری بیان میں بتایا تھا کہ ’’ یہ واضح ہو چکا ہے کہ ان آلات یا ٹولز کے غیر قانونی استعمال کو روکنے کیلئے ضروری اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔ یعنی جعلی خبریں، انتخابات میں بیرونی مداخلت اور نفرت انگیز بیانات کے ساتھ پروگرامنگ اور نجی کوائف کے تحفظ کے شعبوں میں‘‘۔
 

قومی پرچم کی بے حرمتی کرنے والے چینی انجینئرز کو ملک سے نکال دیا گیا

$
0
0

وزارتِ داخلہ نے سیکیورٹی افسران پر تشدد کرنے والے چینی انجینئرز کو ملک بدر کر تے ہوئے حکم نامہ جاری کر دیا، تفصیلات کے مطابق سیکیورٹی افسران پر تشدد کرنے والے چینی انجنیئرز کو ملک بدر کر دیا گیا ہے.  سیکیورٹی افسران کے مطابق فیصل آباد ملتان موٹروے پر کام کرنے والے چینی انجنیئرز بغیر سیکیورٹی کیمپ سے باہر جانا چاہتے تھے جس پر ان سے تلخ کلامی ہو گئی جو ہاتھا پائی پر جا پہنچی، انجینئرز نے سیکیورٹی افسران پر تشدد کیا اور جوتوں سمیت پاکستانی پرچم والی گاڑی پر چڑھ گئے۔ کمشنر ملتان کی انکوائری رپورٹ کے بعد وزارتِ داخلہ نے انجنیئرز کو ملک بدر کا حکم جاری کیا اور انہیں گاڑیوں کے ذریعے لاہور لایا گیا اور خصوصی طیارے کے ذریعے ملک بدر کر دیا گیا۔  

چین پاکستان اقتصادی راہداری سے باہمی دوستی مزید مستحکم ہوئی ہے : شی جن پنگ

$
0
0

پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور چین کے صدر شی جن پنگ نے پاک چین اقتصادی راہداری کے ذریعے دونوں ملکوں کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے کا اعادہ کیا ہے۔ چینی صدر کا کہنا تھا کہ سی پیک کے تحت بننے والے انڈسٹریل پارکس پاکستان میں ترقی کی نئی راہیں کھولیں گے۔ اسلام آباد میں وزیر اعظم آفس کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اس وقت چین میں موجود ہیں جہاں انہوں نے باؤ کانفرنس میں شرکت کی جب کہ باؤ گیسٹ ہاؤس میں پاکستانی وزیر اعظم اور چینی صدر کے درمیان ملاقات ہوئی۔

ملاقات کے بعد جاری اعلامیہ کے مطابق، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان چین کا گہرا دوست ہے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری سے یہ دوستی مزید مستحکم ہوئی ہے جب کہ پاکستان اقتصادیات، توانائی، زراعت، بنیادی ڈھانچے اور افرادی قوت کے شعبوں میں چین کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔ اس موقع پر عالمی امن و سلامتی میں چین کے کردار کو سراہتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی امور میں چین کے ساتھ تعاون مضبوط بنانے کا خواہشمند ہے، جب کہ سی پیک 21 ویں صدی میں عالمی ترقی کیلئے بین الاقوامی منصوبہ بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کی اصلاحات اور آزادانہ پالیسی سے کسی ملک کو خطرہ نہیں۔

اعلامیہ کے مطابق، چین کے صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ آج علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان قریبی دوستانہ تعلقات انتہائی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ چینی صدر نے کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتا ہے، جو ایک خطہ ایک شاہراہ منصوبے کے تحت دو طرفہ تعاون کی ایک عظیم مثال ہو گی۔ چینی صدر نے گوادر بندرگاہ صنعتی زونز اور بجلی گھروں سمیت سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں چین کے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے دورہ میں ایک اہم ملاقات معروف کاروباری ویب سائیٹ، ’علی بابا‘ کے مالک، جیک ما کے ساتھ بھی تھی جس میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے علی بابا گروپ کو پاکستان میں کاروبار شروع کرنے میں دلچسپی پر خوش آمدید کہا۔ جیک ما نے وزیر اعظم شاہد خاقان کو علی بابا گروپ کے حوالے سے بریفنگ دی۔ جیک ما نے ٹیکنالوجی کے حوالے سے پاکستان میں موجود پوٹینشل کی تعریف کی۔ وزیر اعظم نے جیک ما کو پاکستان میں آن لائن کاروبار شروع کرنے کے حوالے سے دلچسپی لینے پر خوش آمدید کہا اور بتایا کہ پاکستان میں ’اِی کامرس‘ کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے جیک ما کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی۔ 

تیار ہو جاؤ روس، امریکی میزائل آ رہے ہیں

$
0
0

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں کیمیائی حملوں کے بعد روس کو براہِ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’روس تیار ہو جاؤ، امریکی میزائل آرہے ہیں‘۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کو خبردار کیا ہے کہ شام میں کیمیائی حملے کے بعد روس بھی امریکا کے ردِ عمل کے لیے تیار رہے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ روس نے شام کی جانب داغے گئے میزائلوں کو گرانے کا عزم کیا ہوا ہے، تو وہ تیار ہوجائے کیونکہ امریکا کے میزائل آرہے ہیں، جو نئے اور مزید بہتر اور چالاک ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ روس کو ایسے لوگوں کا ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا جو جانوروں کی طرح اپنے ہی لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اپنے ایک اور پیغام میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ کبھی نہ ختم ہونے والی روسی تحقیقات کے باوجود وہ ایسی چیزیں کر رہے ہیں جو لوگوں کے نزدیک ممکن ہی نہیں ہیں۔
 

پاکستان میں بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کا مقابلہ کیسے کریں ؟

$
0
0

بجلی کی لوڈشیڈنگ میں ہر گزرتے روز کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور یہ 12 سے 16 گھنٹوں تک پہنچ چکی ہے۔ بجلی کی پیداوار میں کمی، گرڈ اسٹیشن کا ناقص نظام اور دیگر کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ جلد حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ یا یوں کہہ لیں کہ حالات میں جلد کوئی بہتری کا خاص امکان نہیں۔ تاہم کچھ ٹپس پر عمل کر کے آپ لوڈشیڈنگ کے دوران بھی گرمی سے خود کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے کاموں کو آسان بناتے ہوئے مشکلات کم کر سکتے ہیں۔

بالٹیاں بھریں
بجلی جانے کا دورانیہ جتنا زیادہ ہو گا، پانی کی فراہمی بھی رکنے کا امکان یا خطرہ اتنا بڑھ جائے گا۔ تو بالٹیاں اور بوتلوں کو پانی سے بھر لیں یا جو بھی کوئی بھی بڑی چیز جس میں پانی بھرنا ممکن ہو، تاکہ بجلی نہ ہونے پر پانی کی کمی کا سامنا کم از کم ہو۔

گاڑی کو جنریٹر میں تبدیل کر لیں
ایک پاور انورٹر گاڑی کے اے سی کرنٹ کو برقی مصنوعات کے لیے ڈی سی کرنٹ میں تبدیل کر سکتا ہے، اس طرح گاڑی ایک جنریٹر کی طرح کام کر سکے گی۔ کمپیوٹر یا فون وغیرہ کو اس سے چارج کیا جا سکتا ہے یا فریج کو بھی آن کیا جا سکتا ہے۔

ایل ای ڈی لائٹس
ایل ای ڈی فلیش لائٹس یا لالٹین وغیرہ کو عام ٹارچ پر سبقت حاصل ہے کیونکہ ان کی بیٹریاں زیادہ طویل عرصے تک چل سکتی ہیں (6 سے 10 گھنٹے لگاتار)۔

غذاﺅں کو برف سے بچائیں
اگر پورا پورا دن بجلی نہ ہو تو فریج یا فریزر میں موجود غذائیں خراب ہو سکتی ہیں، تو بازار سے برف لیں یا بڑے تھیلوں کو پانی میں بھر کر فریزر میں رکھ دیں۔ لوڈشیڈنگ کے دوران یہ فریزر کو طویل وقت تک ٹھنڈا رکھنے میں مدد دینے والا طریقہ ہے یا فریج کو اس طرح ٹھنڈا رکھا جا سکتا ہے۔

ٹی وی کو بچائیں
اکثر لوڈشیڈنگ کے بعد بجلی آتی ہے تو بجلی کی فراہمی میں کمی بیشی ہونے سے حساس برقی مصنوعات جیسے ٹی وی، کمپیوٹر کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تو ان مصنوعات کا پلگ نکال دیں اور کچھ دیر بعد ہی آن کریں۔

موم بتیاں استعمال نہ کریں
فلیش لائٹس زیادہ روشنی فراہم کر سکتی ہیں جبکہ گھر میں دھواں یا حرارت بھی نہیں بڑھتی۔

فریج کا دروازہ بند رکھیں
جتنا کم آپ فریج اور فریزر کا دروازہ کھولیں گے، اتنے ہی دیر وہ ٹھنڈا رہے گا جس سے اس میں رکھی مصنوعات کی زندگی بڑھے گی۔
 

علی بابا اور آمیزون بہت جلد پاکستان میں

$
0
0

آمیزون دنیا کی سب سے بڑی نہیں تو چند بڑی ای کامرس کمپنیوں میں سے ایک ہے اور بہت جلد اس کی پاکستان میں آمد کا امکان ہے۔ جی ہاں براہ راست تو نہیں مگر کلکی ڈاٹ پی کے نامی پاکستان کی آن لائن سائٹ کے ذریعے آمیزون پاکستانی مارکیٹ میں قدم رکھ سکتی ہے۔ اکنامک ٹائمز کی رپورٹ میں یہ دعویٰ ایسے 4 افراد کے حوالے سے کیا گیا جو کہ آمیزون اور کلکی ڈاٹ پی کے کے درمیان جاری مذاکرات سے واقف ہیں۔ آمیزون کے پاس اس پاکستانی کمپنی کے 33 فیصد حصص پہلے سے ہی موجود ہیں جو کہ اسے دبئی سے تعلق رکھنے والے آن لائن ریٹیلر Souq کی خریداری سے حاصل ہوئے جس نے 2016 کے آخر میں پاکستانی کمپنی میں سرمایہ کاری کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق اگر آمیزون اور کلکی ڈاٹ پی کے کے درمیان معاملات طے پا جاتے ہیں تو بھارتی تاجروں کو زیادہ فائدہ ہونے کا امکان ہے جو امریکی کمپنی میں رجسٹرڈ ہیں اور وہ اپنی مصنوعات دبئی کے راستے پاکستان کو فروخت کر سکیں گے۔ پاکستان میں بھارت کی 1200 اشیاء کو درآمد کے حوالے سے نیگیٹو لسٹ میں شامل کر رکھا ہے، مگر آمیزون کے ذریعے ان کی درآمد کا راستہ کھل جائے گا جو کہ فی الحال غیرقانونی طریقے سے پاکستانی سرزمین پہنچتی ہیں۔ اس سے ہٹ کر اگر آمیزون کلکی ڈاٹ پی کے ذریعے پاکستانی مارکیٹ میں قدم رکھتی ہے تو اسے اس مارکیٹ میں قدم جمانے میں مدد ملے گی جس میں چین کی ای کامرس کمپنی علی بابا بھی دلچسپی رکھتی ہے۔

علی بابا پہلے ہی دراز ڈاٹ پی (جرمن کمپنی راکٹ انٹرنیٹ کی ملکیت) کی خریداری کے حوالے سے مذاکرات کر رہی ہے، جس کے بارے میں انکشاف گزشتہ ماہ بلومبرگ کی رپورٹ میں ہوا۔ دراز ڈاٹ پی پاکستان میں آن لائن تجارت میں مصروف چند بڑے پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے اور کلکی ڈاٹ پی کے اس کی حریف ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ای کامرس مارکیٹ 2017 میں 100 ملین ڈالرز کے سنگ میل تک پہنچ گئی تھی۔ رپورٹ میں ماہرین کے حوالے سے کہا گیا کہ آمیزون برصغیر اور مشرق وسطیٰ میں اپنی موجودگی کو زیادہ مستحکم بنانا چاہتی ہے اور کمپنی کے ذرائع نے بتایا 'بھارت، دبئی اور پاکستان کمپنی کے لیے آگے بڑھنے کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں، آمیزون متعدد ایشیائی ممالک میں داخل ہونا چاہتی ہے، نئی حکمت عملی سے اسے اپنا حجم بڑھانے میں مدد ملے گی جبکہ کسی آمدنی کے لیے کسی ایک ملک پر انحصار کم ہو گا'۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کی ایک حالیہ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ پاکستان میں ای کامرس کا حجم 2020 تک گزشتہ سال کے 100 ملین ڈالرز سے بڑھ کر ایک ارب ڈالرز سے زائد ہو سکتا ہے۔ بھارت میں اس وقت ای کامرس مارکیٹ 2017 میں 18 سے 20 ارب ڈالرز کے درمیان تھی۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا 'علی بابا اور آمیزون دونوں پاکستان میں دلچسپی رکھتے ہیں، جہاں 22 کروڑ آبادی میں سے 70 فیصد موبائل فون استعمال کر رہے ہیں، پاک ۔ چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری بڑھی ہے جس نے دیگر سرمایہ کاروں کو اس مارکیٹ کی جانب متوجہ کیا ہے'۔
 

چلیں پھر کام بانٹ لیں , خود کھانا گرم کر لو

$
0
0

پچھلے دنوں اسلام آباد میں کچھ ’’آزاد خیال‘‘ خواتین کتبے اٹھائے باہر سڑکوں پر نکلیں تھیں، کتبوں پر لکھا تھا کہ ۔۔۔ ’’اپنا سالن خود گرم کر لو، میں نے برتن نہیں دھونے۔‘‘ اوکے خواتین! ہم مان لیتے ہیں آپ سخت جان ہیں، سو آج کے بعد کام بدل لیتے ہیں۔ کس شعبے سے شروع کریں گی؟ چلیے! کم ترین شعبے سے آغاز کرتے ہیں۔ شہر میں گٹر بند ہیں۔ عوام فون کر کر کے ناک میں دم کیے جا رہے ہیں، سو ذرا ناک سے رومال ہٹائیے کیونکہ آپ کے میاں صاحب کل اسی گٹر میں اتر کے جان کھپا رہے تھے ۔ ان کو بھی بو آتی تھی مگر وہ سب بھول کر لگے رہے۔ یہ واپڈا کا کھمبا ہے، ذرا اوپر چڑھیے نا۔ جلدی کیجئے۔ ارے ہاں دھیان سے، کرنٹ نہ لگ جائے۔ 

اچھا میڈم جی، آپ بھی آئی ہیں؟ ذرا یہ پیاز کی بوری اٹھائیں اور اس کو اس ٹرک پر پھینک کے آئیں۔۔ کیا کہا بھاری ہے ؟ ارے نہیں تو، ڈھائی من کی ہی تو ہے۔۔اور آپ ہی نے تو کہا تھا کہ آپ سخت جان ہو۔ بس آج کے بعد من من کے برتن نہیں دھونا پڑیں گے، نہ ہی ہزاروں کلو کے کپڑے استری کرنا ہوں گے، بس یہ ’’پھول‘‘ سی ہلکی پھلکی بوریاں ہیں، ریشم کی گانٹھ جیسی، اٹھاؤ ان کو، ان کو اٹھائیں گی تو پیسہ ملے گا، مزدوری ملے گی تو ہی گھر چلے گا ۔ میاں گھر میں برتن دھو دھو کے تھک گیا ہے۔ انتظار میں ہے کہ آپ کب ’’کما‘‘ کے لائو گی اور کب وہ ہانڈی چڑھائے گا۔ ممکن ہے آپ بھی کہیں کہ جناب آپ نے بھی تو سیدھا گٹر میں اتار دیا، ٹرک پر بٹھا دیا، کھمبے پر چڑھا دیا۔ تو بھائی ان کی اپنی ہی تو ڈیمانڈ ہے، جب برابری کرنی ہے تو ڈیوٹی بھی برابر کرنا ہو گی نا؟۔ ’’کڑوا کڑوا تھو تھو، میٹھا میٹھا ہپ ہپ‘‘ کا اختیار نہیں مل سکتا۔ 

اب ذرا زندگی کے دوسرے شعبہ جات کی طرف آ جائیے۔ کیا خواتین 20 ،20 گھنٹے حشر کی گرمی میں ٹرک چلاتی ہیں؟ سارا سارا دن کرین کی سیٹ پر بیٹھ کے کھدائی کرتی ہیں؟ بازار میں سبزی، فروٹ کی ریڑھی لگا کر 12،12 گھنٹے سینکڑوں گاہکوں کو نپٹاتی ہیں؟ کیا سبزی منڈی میں اور تھوک کے بازاروں میں سو سو کلو کی بوریاں اٹھا کے ٹرک کو لوڈ، اور اَن لوڈ کرتی ہیں؟ سیلاب اور زلزلے آ جائیں، حادثے ہو جائیں، جسمانی مشقت کر کے کسی کو ریسکیو کرتی ہیں؟ اتنی مثالیں ہیں کہ بندہ لکھتا تھک جائے اور ختم نہ ہوں۔ جب ہر بات پر انکار ہے تو غرور کس بات کا؟ بلاشبہ عورتیں بہت محنت کرتی ہیں لیکن مرد کو بھی بہت محنت کرنا ہوتی ہے۔ گھر میں دونوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں مسابقت کی نہیں بلکہ مطابقت کی ضرورت ہے۔

فیصل اعوان


 


ہمیں تلاش ہے جس کی، یہ وہ سحر تو نہیں

$
0
0

اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی گاڑی کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار جاں بحق ہو گیا۔ گاڑی سفارتخانے کے ملٹری اتاشی چلا رہے تھے، سفارتی قوانین کے مطابق انہیں استثنیٰ حاصل ہے، اس لیے انہیں گرفتار نہ کیا جا سکا اور وہ بحفاظت سفارتخانے واپس چلے گئے۔ بس یونہی خیال آگیا کہ سفارتی اہلکار کو بندہ مارنے کے بعد بھی استثنیٰ مل گیا، مگر ہمارے وزیراعظم امریکی ایئرپورٹ پر تلاشیاں دیتے رہے اور بتاتے رہے کہ وہ نجی دورے پر تھے اور ان کی عزت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ امریکی نائب وزیر خارجہ سے ملاقات بحیثیت چیئرمین ایئربلیو کی تھی یا بحیثیت وزیراعظم… مگر پوچھے کون کہ معاملہ کیا ہے؟

ابھی ملالہ کے سحر سے نکل ہی رہے تھے کے یہ واقعہ ریمنڈ ڈیوس کی یاد دلا گیا جس کے ہاتھوں دو پاکستانیوں کا قتل ہوا۔ پھر اسے بھی سفارتی استثنیٰ ملا اور دیت کے قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے سارے ادارے اور مرکزی سیاسی جماعتیں ایک پیج پر آگئی تھیں۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ اس حادثے کو بھی صرف حادثہ سمجھ کر معمول کی کارروائی کر کے نمٹا دیا جائے گا۔ بالفرض بات آگے بڑھی بھی تو دیت والا آپشن موجود ہے۔ ہمارے یہاں یہ روایت بن چکی ہے کہ اس قسم کے معاملات میں دھن اور دھونس کا استعمال کر کے مٹی ڈال دی جاتی ہے۔

انہی خیالوں میں گم تھا کہ ٹی وی پر ٹکرز چلنے لگے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شہید خاتون تنزیلہ امجد کی صاحبزادی بسمہ امجد سے ملاقات کی ہے اور انہیں انصاف کی فراہمی کا یقین دلایا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن ریاستی جبر و تشدد کا پاکستان میں اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا جس میں پنجاب پولیس نہتے مظاہرین پر چڑھ دوڑی تھی اور 14 افراد شہید اور سو سے زائد زخمی و معذور ہو گئے تھے۔ اس کے خلاف ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان آئے روز بھرپور احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی ضمن میں 2014 میں اسلام آباد میں ایک طویل دھرنا بھی دیا تھا جس کے نتیجے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی براہ راست مداخلت پر ایف آئی آر کاٹی گئی مگر بعد میں معاملات جوں کے توں رہے۔

اچنبھے کی بات ہمارے لیے یہ رہی کے شہداء کے لواحقین کو تین تین کروڑ روپے نقد اور بیرونِ ملک شفٹنگ کی آفر کی گئی مگر حکومت وقت تمام تر وسائل اور ترغیبات کے باوجود متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لواحقین میں سے کسی ایک شخص کو بھی خرید نہ سکی۔ یوں تو انصاف میں تاخیر بھی انصاف کے قتل کے مترادف ہوتی ہے، مگر چیف جسٹس صاحب کے اقدام سے امید ہو چلی ہے کہ بے گناہوں کا خون رنگ لائے گا اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور وطن عزیز میں امیر اور غریب کےلیے یکساں قانون ہو گا.

… اور بسمہ امجد بھی فخر سے کہہ سکے گی کہ
اب سحر جو آئے گی، وہ سحر ہماری ہے!

محمد علی خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز
 

دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں 14 سال قید کا معاوضہ پانچ لاکھ روپے

$
0
0

یہ کہانی ہے دہلی کے محمد عامر خان کی، جنہیں 1998 میں دہلی پولیس نے سلسلے وار بم دھماکوں کا ملزم بنا کر پیش کیا۔ ان پر بم دھماکوں کے 17 مقدمات قائم کیے گئے تھے۔ عدالت نے 2012 میں انہیں تمام مقدموں میں بری کر دیا۔ اس وقت ان کی عمر 32 سال تھی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں جیل جانے والا عامر جب 12 سال بعد قید کاٹ کر باہر آیا تو اس کی دنیا بدل چکی تھی۔ اس کے والد جدائی کا غم سہہ نہ سکے اور داعی اجل کو لبیک کہہ گئے تھے۔ اس کی ماں بیٹے کے بچھڑنے کے دکھ میں فالج کا شکار ہو چکی تھی۔ جوانی سلاخوں کے پیچھے ختم ہو گئی تھی اور زندگی ایک عذاب کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ اس کی پیشانی پر دہشت گرد ہونے کا ٹھپہ لگ گیا تھا۔ دہلی پولیس نے اسے تلافی کے طور پر پانچ لاکھ روپے دیے گئے ہیں۔ لیکن وہ سوال کرتا ہے کہ کیا یہ حقیر رقم اس کی جوانی لوٹا سکتی ہے، اس کے والدین واپس دے سکتی ہے اور اس کی پیشانی پر لگنے والے داغ کو مٹا سکتی ہے؟

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ قومی انسانی حقوق کمیشن نے ایک اخباری رپورٹ کی بنیاد پر ازخود کارروائی کی اور دہلی حکومت، وزارت داخلہ اور دہلی پولیس کو میرے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا حوالہ دیتے ہوئے پانچ لاکھ روپے کی مالی مدد کے لیے نوٹس دیا۔ یہ معاملہ چلتا رہا۔ دہلی پولیس اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ کمشن نے پھر 2017 میں ہدایت کا اعادہ کیا۔
محمد عامر نے مزید بتایا کہ دہلی پولیس نے 2018 میں اپنے ایک دفتر میں ان کو بلایا جہاں کئی بڑے افسران موجود تھے۔ ایک افسر نے ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر اظہار افسوس کیا اور کمیشن کے حکم کی ہدایت کے مطابق پانچ لاکھ روپے دینے کی بات کہی۔ لیکن انہوں نے اس سلسلے میں کوئی دستاویزی ثبوت دینے سے انکار کر دیا۔ البتہ ان کے بینک اکاونٹ میں پانچ لاکھ روپے ڈال دیے گئے۔ تاہم پولیس نے انہیں دہشت گردی کے الزام میں جیل بھیجنے پر باضابطہ طور پر افسوس ظاہر نہیں کیا۔ ​

محمد عامر خان قومی انسانی حقوق کمشن کے اس قدم کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک آغاز قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دہشت گردی کے کسی جھوٹے معاملے میں قومی انسانی حقوق کمیشن نے کارروائی کی اور پہلی بار پولیس نے معاوضہ دیا یا مالی مدد کی۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پانچ لاکھ کیا پانچ کروڑ بھی ہوں تو وہ 14 سال واپس نہیں آ سکتے جو انہوں نے جیل میں گزارے ہیں۔ ہاں یہ رقم زخموں پر کسی حد تک مرہم ضرور لگاتی ہے۔
وہ اسے ایک نظیر بھی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے جیسے بہت سے بے گناہ ہیں جو جیلوں میں بند ہیں یا بہت سے بے قصور عدالتوں سے رہا ہو چکے ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

محمد عامر خان بھارت کے حکمرانوں سے ایک سوال کرتے ہیں کہ جب ماؤ نواز یا دوسرے شورش پسند ہتھیار ڈالتے ہیں اور مین اسٹریم میں آنا چاہتے ہیں تو حکومت ان کو بہت سی سہولتیں دیتی ہے۔ ان کے لیے باز آباد کاری کی ایک پالیسی موجود ہے۔ لیکن دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں برسوں تک جیلوں میں بند رہنے کے بعد جب بے قصور نوجوان عدالتوں سے بری ہوتے ہیں تو ان کی باز آباد کاری کے لیے کوئی پالیسی کیوں نہیں بنائی گئی۔ انہیں سہولتیں کیوں نہیں دی جاتیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پولیس اپنے اختیارات کا بےجا استعمال کرتی ہے اور ایک خاص فرقے کے لوگوں کو دہشت گردی کے نام پر نشانہ بناتی ہے۔ لیکن ایسے پولیس والوں کے خلاف جو کہ بے قصوروں کو دہشت گرد بتا کر اٹھا لیتے ہیں، انہیں ٹارچر کرتے ہیں اور دسیوں بیسیوں برسوں تک جیل میں ڈال دیتے ہیں، کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔ ان سے کوئی جواب کیوں نہیں طلب کیا جاتا۔

اب ذرا سا فلیش بیک میں چلتے ہیں۔ جال میں پھنسنے کی ان کی کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ 1997 میں اپنی بہن سے ملنے کے لیے کراچی جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے پاکستانی ہائی کمیشن میں ویزا کی درخواست دی اور انہیں ویزا مل گیا۔ آگے کی کہانی انہی کی زبانی۔ ’ نومبر کا مہینہ تھا۔ مجھے میرے سفری دستاویزات مل گئے تھے۔ میں گھر لوٹنے کے لیے بس اسٹاپ کی طرف جا رہا تھا۔ جبھی ایک شخص سے ملاقات ہو ئی۔۔۔اس نے بتایا کہ اس کا نام گپتا جی ہے۔ اس نے مجھے تین مورتی پلینے ٹیریم کے نزدیک ایک کھوکھے پر لے جا کر کولڈ ڈرنک پلائی اور پوچھا کہ کیا میں اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہوں گا۔ میں نے بلا سوچے سمجھے ہاں کہہ دیا۔ اس نے میرا پتا نوٹ کیا اور چند روز کے بعد رابطہ کرنے کا وعدہ کیا‘۔

چند روز کے بعد گپتا جی عامر کے گھر گئے او انہیں ان کا کام سمجھایا۔ 12 دسمبر 1997 کو عامر سمجھوتہ ایکسپریس سے کراچی گئے اور 11 فروری 1998 کو دہلی واپس آ گئے۔ لیکن انہیں جو کام سونپا گیا تھا وہ ان سے نہیں ہو سکا۔ کام اسی نوعیت کا تھا جیسا کہ جاسوسوں سے کرایا جاتا ہے۔ دہلی آکر انہوں نے سوچا کہ گپتا جی کو بتا دینا چاہیے کہ ان کا کام نہیں ہو سکا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ تھوڑا بہت ناراض ہوں گے۔ لیکن جب انہوں نے بتایا کہ وہ اپنا کام کرنے میں ناکام رہے تو وہ بری طرح برہم ہو گئے اور کہا کہ تم نے ملک کا زبردست نقصان کیا ہے۔ آئندہ کئی دنوں تک وہ اپنے غصے کا اظہار کرتے رہے۔

بہرحال 20 فروری 1997 کی شام کو ایک سنسان سڑک سے عامر کو اٹھا لیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر 18 سال تھی۔ پھر ان کے ساتھ وہی سب کچھ ہوا جو ایسے معاملات میں ہوتا ہے۔ غیر قانونی حراست میں رکھ کر مسلسل کئی روز تک ٹارچر کیا جاتا رہا۔ انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہ بارہ سال کی طویل قانونی لڑائی کے بعد تمام الزامات سے بری کیے گئے۔ وہ انسانی حقوق کے کارکنوں، سول سوسائٹی اور بعض صحافیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ جب کسی کو دہشت گردی کے خود ساختہ الزام میں اٹھایا جاتا ہے تو میڈیا خوب رپورٹنگ کرتا ہے لیکن جب وہی شخص عدالت سے بری ہوتا ہے تو اس کی اس طرح رپورٹنگ نہیں کی جاتی۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ رویہ کب تک رہے گا؟

انہوں نے ایک کتاب FRAMED AS A TERRORIST لکھی ہے جو ان کی آپ بیتی ہے اور جس میں ٹارچر کے روح فرسا واقعات سمیت حکومت اور انتظامیہ کی قلعی کھولنے والی بہت کچھ تفصیلات موجود ہیں۔

سہیل انجم
بشکریہ وائس آف امریکہ  

تاحیات نااہلی کا آرٹیکل 62 کیا ہے؟

$
0
0

آرٹیکل 62 کے تحت

(1 ) کوئی شخص اہل نہیں ہو گا، رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا،بطور ممبر مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ کے، ماسوائے یہ کہ وہ پاکستان کا شہری ہو۔

(ب) وہ قومی اسمبلی کی صورت میں پچیس سال سے کم عمر کا نہ ہو اور بطور ووٹر اس کے نام کا اندراج کسی بھی انتخابی فہرست میں موجود ہو جو پاکستان کے کسی حصے میں جنرل سیٹ یا غیر مسلم سیٹ کے لئے ہو، اور صوبے کے کسی حصے میں اگر عور ت کی مخصوص سیٹ ہو تو اس کے لئے۔

(ج) وہ سینیٹ کی صورت میں تیس سال سے کم عمر کا نہ ہو اور صوبے کے کسی ایریا میں اس کا نام بطور ووٹر درج ہو، یا جیسی بھی صورت ہو، فیڈرل کیپیٹل یا فاٹا میں جہاں سے وہ ممبر شپ حاصل کر رہا ہو۔

(د) وہ اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلامی سے انحراف میں مشہور نہ ہو۔

(ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو ، اور اسلام کے منشور کردہ فرائض کا پابند ہو ، نیز کبیرہ گناہ سے اجتناب کرتا ہو۔

(و) وہ سمجھدار ہو ، پارسا ہو، ایماندار اور امین ہو، اور کسی عدالت کا فیصلہ اس کے برعکس نہ ہو۔

(ز) اس نے پاکستان بننے کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو اور نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔

(2) نا اہلیت مندرجہ پیرا گراف (د) اور (ہ) کا کسی ایسے شخص پر اطلاق نہ ہو گا، جو غیر مسلم ہو لیکن ایسا شخص اچھی شہرت کا حامل ہو۔
 

ثانیہ مرزا کو مسلمان بچی کی حمایت کرنے پر پاکستانی ہونے کے طعنے

$
0
0

ہندوستانی ٹینس اسٹار اور پاکستانی کرکٹر شعیب ملک کی بھارتی اہلیہ ثانیہ مرزا کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ’ریپ‘ کے بعد بیہمانہ انداز میں قتل کی گئی 8 سالہ مسلمان بچی کی حمایت کرنا مہنگا پڑ گیا۔ 8 سالہ آصفہ بانو کے ’ریپ‘ کے بعد بیہمانہ انداز میں قتل کرنے کی امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کی خبر ٹوئیٹ کرنے پر بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کے خلاف خود اپنے ہی ملک کے شہری ناراض ہو گئے اور انہیں پاکستانی ہونے کا طعنے دے دیا۔ ثانیہ مرزا نے ’نیو یارک ٹائمز‘ کی وہ خبر شیئر کی جس میں بتایا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کی 8 سالہ آصفہ کے ’ریپ‘ اور قتل کے واقعے کے بعد ہندو رہنما ملزموں کے حق میں مظاہرے کے لیے سامنے آگئے۔

ثانیہ مرزا نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا کہ ’اگر ہم 8 سالہ بچی کو انصاف دلانے کے لیے ذات، نسل اور جنس کی تفریق کے خلاف اٹھ نہیں سکتے تو ہم اس دنیا میں کبھی بھی کسی مسئلے یہاں تک کہ انسانیت کے لیے اٹھ نہیں پائیں گے‘۔ انہوں نے لکھا کہ 8 سالہ بچی کے ’ریپ‘ اور قتل کا واقعہ اور اس پر ہماری سوچ انہیں بیمار بنا رہی ہے۔ بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا نے یہ ٹوئیٹ گزشتہ روز کو اس وقت کی، جب آصفہ کے ’ریپ‘ اور بیہمانے قتل کی خبر بھارتی میڈیا سمیت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنی۔

اگرچہ یہ واقعہ رواں برس جنوری میں پیش آیا تھا، تاہم گزشتہ روز اسی واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کے حق میں ہندو سیاستدانوں کی سربراہی میں نکلنے والے مظاہروں کے بعد اس معاملے پر بھارت اور کشمیر میں ہندو اور مسلمان ظاہری طور پر تقسیم دکھائی دیے۔ ‘ریپ‘ اور قتل کا نشانہ بننے والی بچی مسلمان تھی اور اس کے حق میں مسلمان مظاہرے کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، جب کہ انہیں نشانہ بنانے والے ملزمان ہندو تھے، جن کے حق میں ہندو مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ثانیہ مرزا کو بھی مسلمان بچی کی حمایت کرنے پر ہندو ٹوئٹر صارفین نے تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے انہیں پاکستانی ہونے کے طعنے دیے۔
پنک چوہدری نامی صارف نے ثانیہ مرزا کو تجویز دی کہ اگر انہیں بھارت میں رہنے میں مسئلہ ہے تو وہ چین چلی جائیں۔

گتا جوالا نے لکھا کہ بھارت میں ثانیہ مرزا جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی مسائل ہیں۔ راکیش کمار نے ثانیہ مرزا کی ٹوئیٹ پر لکھا کہ ’جب ہندو مرتا اور ریپ ہوتا تو ان آنٹی کو بہت مزا آتا ہے، اس لیے انہیں اپنی منافقت پر شرمندہ ہونا چاہیے۔
کچو کنان نامو نامی صارف نے تو ثانیہ مرزا کو مسلمان بچی کی حمایت کرنے پر غیر بھارتی قرار دیتے ہوئے انہیں پاکستانی ہونے کا طعنہ دے دیا۔ انہوں نے ثانیہ مرزا کو مخاطب ہوتے ہوئے لکھا کہ ’وہ کس ملک کے بارے میں بات کر رہی ہیں، کیوں کہ انہوں نے تو ایک پاکستانی شخص سے شادی کر رکھی ہے، اس لیے وہ اب بھارتی نہیں‘۔

جب بھارتی ٹینس اسٹار کو پاکستانی ہونے کا طعنہ دیا گیا تو ان سے خاموش رہا نہیں گیا اور انہوں نے بھی تنقید کرنے والوں کو کھری کھری سنا دیں۔ ثانیہ مرزا نے لکھا کہ وہ بھارتی ہیں اور بھارتی رہیں گی، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ انہوں نے صرف ایک شخص سے ہی شادی کی ہے اور انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ بھارتی نہیں ہیں۔ ثانیہ مرزا نے تنقید کرنے والوں کو کہا کہ وہ تنگ نظری سے ہٹ کر سوچیں، ساتھ ہی انہوں نے امید ظاہر کی کہ ایک دن سب لوگ کسی مذہبی تفریق کے بغیر انسانیت سے متعلق سوچیں گے۔ خیال رہے کہ بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا نے 8 سال قبل اپریل 2010 میں پاکستانی کرکٹر شعیب ملک سے شادی کی تھی، تاہم انہوں نے پاکستان منتقل ہونے کے بجائے ہندوستان میں رہنے اور اپنے ہی ملک کے لیے کھیلنے کو اہمیت دی۔ ثانیہ مرزا نے آج تک بھارت کے لیے ہی کھیلتی آ رہی ہیں اور وہیں رہتی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ڈان اردو
 

انڈیا : ریپ معاشرے کی بے حسی کا عکاس

$
0
0

گذشتہ جنوری میں جموں کے کٹھوعہ ضلع میں مسلم خانہ بدوش بکروال قبیلے کی ایک آٹھ سالہ بچی معمول کے مطابق اپنے گھوڑوں کو گاؤں سے دور جنگل کے علاقے میں چراگاہوں کی طرف لے کر گئی۔ شام میں جب وہ گھر نہیں لوٹی تو گھر والوں کو تشویش ہوئی۔ ایک ہفتے بعد اس کی لاش جنگل سے بر آمد ہوئی۔
پولیس کو ابتدائی تفتیش سے معلوم ہو گیا کہ بچی کو ریپ کیا گیا ہے۔ پولیس نے جیسے ہی ملزموں کی نشاندہی کی، مقامی آبادی پولیس افسروں کے خلاف ہو گئی۔
آٹھ سالہ بچی کے بہیمانہ ریپ اور قتل کی واردات کو مذہبی ٹکراؤ کا رنگ دے دیا گیا۔ جموں کے وکلا اور ہندو ایکتا منچ نام کی ایک دائیں بازو تنظیم نے ملزموں کی حمایت میں جلوس نکالے۔ بی جے پی کے بعض وزرا بھی اس میں شریک ہوئے۔ جموں بند کا نعرہ دیا گیا۔ یہاں تک کہ وکلا نے پولیس کو عدالت میں فرد جرم داخل کرنے سے روکنے کی کوشش کی اور کئی گھنٹے کی جد و جہد کے بعد کہیں جا کر ملزموں کے خلاف فرد جرم داخل کی جا سکی۔

وکلا کا کہنا ہے کہ پولیس نے جانبداری سے تفتیش کی ہے۔ وہ سی بی آئی سے اس معاملے کی تفتیش کرانے کی مانگ کر رہے ہیں۔ متاثرہ بچی کے والدین نے خوفزدہ ہو کر کٹھوعہ چھوڑ کر کسی اور جگہ کے لیے سفر شروع کر دیا ہے۔ عدالت میں ان کی نمائندگی کرنے والی وکیل کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
آٹھ سالہ خانہ بدوش بچی کے ریپ اور قتل کی واردات کے بارے میں پولیس کی تفتیش سے جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ انتہائی بربریت کا پتہ دیتی ہیں۔ پولیس نے فرد جرم میں بتایا ہے کہ یہ ریپ اتفاقیہ نہیں ہے۔ یہ ایک منصوبہ بند جرم کی واردات تھی جس کا مقصد بکروال خانہ بدوشوں کو خوفزدہ کر کے کٹھوعہ سے بھگانا تھا۔

اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس سے جموں کے مسلمانوں میں دہشت پیدا کی جا سکے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ کہ اس واردات کے تین مہینے گزرنے اور جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کے باوجود ریپ کے اس سنگین واقعے پر پورا ملک خاموش رہا۔ ملک کا ضمیر اس وقت جاگا جب ریپ کا ایک اور بہیمانہ واقعہ سامنے آ گيا۔ یہ واقعہ اتر پردیش کے اناؤ ضلع کا ہے۔ اس واقعے میں مبینہ طور پر ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی گئی۔ ریپ کا الزام حکمراں بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی پر ہے۔

یہ واردات جون کی ہے۔ متاثرہ لڑکی دس مہینے سے ریپ کی ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ تھک ہار کر گذشتہ ہفتے متاثرہ لڑکی اور اس کی ماں نے وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر خود کشی کرنے کی کوشش کی۔ انھیں تو بچا لیا گیا۔ لیکن چند دنوں بعد لڑکی کے والد کو قتل کر دیا گیا۔ الزام ایم ایل اے کی بھائی پر ہے۔ میڈیا میں اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد ہر طرف شور مچنے لگا۔ بحث شروع ہو گئی۔ معاملے کو سی بی آئی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ رکن اسمبلی کے خلاف اب رپورٹ درج ہو گئی ہے لیکن وہ ایک نابالغ لڑکی کے مبینہ ریپ کے الزام میں ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے تھے۔

حالیہ برسوں میں سی بی آئی کی شبیہ اتنی خراب ہو چکی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں اور لوگوں کو اس کی تفتیش پر بھروسہ نہیں رہا۔ انھیں لگتا ہے کہ یہ تفتیشی ایجنسی سیاسی دباؤ میں کام کرتی ہے۔ اناؤ اور کٹھوعہ کا واقعہ انڈین معاشرے میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم اور سیاسی اور سماجی بے حسی کا عکاس ہے۔ اناؤ میں ایک بے بس خاندان ریپ کی رپورٹ درج کرانے کے لیے خودکشی کے اقدام تک کے لیے مجبور ہو جاتا ہے۔ جبکہ کٹھوعہ کے واقعے میں جموں بار ایسو ایشن کے وکلا اور حکمراں بی جے پی کے کئی وزرا اس سنگین واردات کو مذہبی رنگ دے کر ملزموں کی حمایت میں کھڑے ہوتے ہیں، جلوس نکالتے ہیں اور ہڑتالیں کرتے ہیں۔ ریاست اور انصاف کے نظام کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔

انڈیا میں اناؤ اور کٹھوعہ جیسے ریپ کے واقعات پر مہینوں تک سیاسی جماعتوں اور لوگوں کی خاموشی خطرناک روش ہے۔ یہ انسانوں سے انسانوں کی بیزاری، بےحسی اور نفرت کی عکاس ہے۔ ملک میں جس طرح کی سیاست ہو رہی ہے اور جس طرح کی فضا قائم ہوئی ہے اس کا واحد مقصد کسی بھی طرح اقتدار کا حصول اور اپنے اقتدار کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا ہے۔ امن و قانون اور عدل و انصاف کے ادارے شدید دباؤ میں ہیں۔ سیاست میں اخلاقیات اور ایمانداری کا اثر کم ہوتا جا رہا ہے۔ معاشرے میں انسانیت اور ضمیر کی آوازیں رفتہ رفتہ دبتی جا رہی ہیں۔ اس بگڑتی ہوئی فضا میں عوام کا آخری سہارا عدلیہ ہے۔ اگر ‏عدل و انصاف کا نظام بھی لڑ کھڑا گیا تو پھر جمہوریت کے سارے راستے بند ہو جائیں گے۔

شکیل اختر
بی بی سی نامہ نگار، دہلی
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live