Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

کیا ہاشمی کا جرم مشرف سے بڑا تھا ؟

0
0

نہال ہاشمی ایک ماہ جیل کاٹ کر رہا ہو گئے۔ رہائی پر قسم اٹھا کر کہا کہ انہوں نے کوئی توہین عدالت نہیں کی بلکہ انہیں تو انتقام کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ نہال ہاشمی کی جو تقریر میڈیا نے سنائی اور جس پر انہیں توہین عدالت کا نوٹس دیا گیا وہ قابل اعتراض ضرور تھی لیکن کیا عدالت عظمیٰ کے لیے مناسب تھا کہ ہاشمی کی طرف سے پیش کی گئی غیر مشروط معافی نامہ میں تبدیل کروانے کے باوجود تاکہ اُسے قابل قبول بنایا جائے ، ہاشمی کو نااہل قرار دے کر تیس دن کے لیے جیل بھی بھیج دیا گیا۔ عموماً ایسا ہوتا نہیں۔ عدالتیں معافی مانگنے پر معاف کر دیتی ہیں۔ نہال ہاشمی ایک غریب سیاست دان ہے۔ اُس کو تو سزا دھمکی دینے پر ہوئی۔

توہین عدالت بلکہ اس سے بہت بڑی سزا اگر کسی کو ہونی چاہیے تھی تو وہ جنرل مشرف کو جس نے ایک نہیں بلکہ پچاس سے زیادہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نہ صرف غیر قانونی طور پر نکالا بلکہ انہیں بچوں سمیت نظر بند بھی کیا۔ جو مشرف نے عدلیہ اور ججوں کے ساتھ کیا اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی لیکن اس جرم پر مشرف کو تو ایک دن کے لیے بھی جیل نہیں بھیجا گیا۔ مشرف نے اپنے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اُنہیں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدد سے ملک سے باہر جانے کی اجازت ملی۔ مشرف نے یہ سنگین الزام بھی لگایا کہ ہمارے جج پس پردہ دبائو کے تحت ہی کام کرتے ہیں اوراسی دبائو کے تحت فیصلے دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اسی دبائو کے تحت انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔ اس سے بڑی توہین عدالت کیا ہو سکتی ہے؟

لیکن عدلیہ نے مشرف کے اس بیان پر کوئی کان نہ دھرا۔ مشرف نے تو دو بار آئین کو پامال کیا لیکن وہ اس کے باوجود بیرون ملک آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے بہت اچھا کیا کہ حسین حقانی کو پاکستان واپس لانے کے لیے ایف آئی اے کو فوری اقدامات کرنے کا حکم دیا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ سپریم کورٹ جنرل مشرف کے ریڈ وارنٹ بھی جاری کرتی کیوں کہ مشرف کے جرائم کی سنگینی سے تو کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ قانون کی بالادستی کو اگر قائم کرنا ہے تو پھر قانون کا اطلاق سب سے پہلے اُن پر ہو جو سب سے طاقت ور ہیں اور جنہوں نے بار بار ثابت کیا کہ وہ جو مرضی آئے کر لیں اُنہیں کوئی چھو بھی نہیں سکتا۔ اچھا ہوتا کہ جس طرح سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ اور نگراں جج کے ذریعے میاں نواز شریف اور اُن کے بچوں کے خلاف عدلیہ کو جلد فیصلہ کرنے کا پابند بنایا ہے، اُسی تیزی سے مشرف کے خلاف بغاوت کے کیس کا بھی فیصلہ کروایا جاتا۔ 

بغاوت کا کیس تو خصوصی عدالت کے سامنے گزشتہ چار سال سے pending پڑا ہے جبکہ اس بارے میں قانون تو روز کی بنیاد پر کیس سننے اور جلد فیصلہ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ قانون تو یہ بھی کہتا ہے کہ اگر ملزم عدالت میں پیش نہ بھی ہو تو فیصلہ جلد کرو۔ ایک لمبے وقفے کے بعدخصوصی عدالت 8 مارچ کو دوبارہ اس کیس کو سنے گی۔ دیکھنا ہو گا کہ عدلیہ کی جلد انصاف کی فراہمی کی حالیہ مہم کا جنرل مشرف کے خلاف عدالتوں میں التوا مقدمات پر بھی کوئی اثر پڑتا ہے یا سابق ڈکٹیٹر ایک بار پھر ثابت کرنے میں کامیاب ہوں گے کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں اور ان کا احتساب نہ تو پاکستان کی حکومت اور نہ ہی عدلیہ کر سکتی ہے۔

سول حکومت اور عدلیہ کے اس امتحان کے ساتھ ساتھ نیب اور اُس کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو بھی ایک بڑی مشکل نے آن گھیرا ہے۔ اپنے ایک حالیہ فیصلہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کو ہدایت دی ہے کہ وہ جنرل مشرف کے اثاثہ جات اور مبینہ کرپشن کے متعلق انکوائری کرے۔ نیب چیئرمین جو آج کل سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے احتساب میں کافی سرگرم ہے، اس معاملہ میں دو ہفتہ گزرنے کے باوجود کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس بارے میں نیب اور جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے خاموشی اپنا رکھی ہے۔ اس کے جواب کے لیے بھی شاید ہمیں جنرل مشرف کے کسی آئندہ انٹرویو کا انتظار کرنا پڑے گا جس میں اُن سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آخر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے باوجود اُن کے خلاف نیب تحقیقات کیوں نہیں شروع کر رہا ؟ کہیں کوئی دبائو تو نہیں!

انصار عباسی
 


سینیٹ الیکشن میں ایم کیو ایم کا مکمل صفایا ہو گیا

0
0

سندھ کی 12 نشستوں میں سے 10 پر پیپلز پارٹی کامیاب ہو گئی جبکہ ایم کیو ایم اور فنکشنل لیگ کو ایک ایک سیٹ ملی۔ جنرل نشستوں پر پیپلز پارٹی کے 5 امیدوار رضا ربانی، مولا بخش چانڈیو، محمد علی جاموٹ ، مرتضیٰ وہاب اور مصطفیٰ نواز کھوکھر جبکہ ایم کیو ایم کے فروغ نسیم اور مسلم لیگ فنکشنل کے مظفر حسین شاہ کامیاب ہو گئے۔ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر پیپلز پارٹی کے سکندر میندھرو اور رخسانہ زبیری سینیٹر منتخب ہو گئے۔ اقلیتی نشست پر پیپلز پارٹی کے انور لال ڈین جبکہ خواتین کی مخصوص نشست پر پی پی پی کی ہی کرشنا کوہلی اور قرۃ العین مری الیکشن جیت گئیں۔ ایم کیو ایم کو الیکشن میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور 37 ارکان اسمبلی والی جماعت صرف ایک سیٹ حاصل کر سکی۔ ایم کیو ایم میں وجہ تنازع بننے والے کامران ٹیسوری بھی ناکام ہو گئے۔
 

سینیٹ کے نتائج : ایم کیو ایم نے کراچی کی جتنی خدمت کی اس کا صلہ مل گیا

0
0

پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے کراچی کی جتنی خدمت کی ہے اس کا صلہ انہیں مل گیا۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتےہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ سینیٹ کے نتائج بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے اس لئے اپنے حصے کی تمام نشستیں حاصل کی ہیں، دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے عیاں ہے کہ ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کی خانہ جنگی کے باعث انکے ووٹر اور ممبر صوبائی اسمبلی میں دلبرداشتہ ہوئے، ممبران نے اپنی جماعت کے اندرونی خلفشار کے خلاف مینڈیٹ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو فوری طور پر ہٹایا گیا ہے پر حقیقت میں وہ اب بھی شاہد خاقان عباسی کے ذریعے وہیں بیٹھے ہیں، نواز شریف خود کش جیکٹ پہن کر اس انتظار میں کھڑے ہیں کہ کوئی آئے اور ان سے چمٹ جائے۔
 

سینٹ کے انتخابات : تحریک انصاف کہاں کھڑی ہے

0
0

اسلام آباد میں موجود ہونے کے باوجود عمران خان نے سینٹ کے انتخاب میں ووٹ نہیں ڈالا۔ وہ ایوب پارک کے قریب ایک ہوٹل میں پرانے کارکنوں سے ملاقات میں مصروف رہے۔ شاید انہوں نے سوچا ہو کہ میرے ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے سے کیا فرق پڑے گا۔ تحریک انصاف کے کسی امیدوار کو میرے ووٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا لیکن ان کے مخالفوں کو یہ کہنے کا موقع ضرور مل گیا ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو جمہوری عمل سے الگ رکھ کر اچھی مثال قائم نہیں کی۔ سینٹ کے انتخاب میں مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اپنے حمایت یافتہ تمام امیدواروں کو کامیاب کرانے میں کامیاب رہی ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی نے بھی اپنے امیدواروں کی اکثریت کو کامیاب کرا لیا۔ پیپلز پارٹی خیبر پختونخواہ میں اپنی ایک خاتون سینیٹر کو کامیاب کرانے میں کامیاب رہی ہے۔ خیبرپختونخواہ میں بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جنرل نشستوں پر اپنے امیدوار پیر صابر شاہ کو کامیاب کرایا ہے اور ٹیکنو کریٹس کی نشست پر دلاور خان کامیاب ہوئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ممتاز عالم دین مولانا سمیع الحق شکست کھا گئے۔ انہیں صرف تین ووٹ مل سکے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی خیبر پختونخواہ میں خواتین کی نشست پر اپنی امیدوار روبینہ خالد کو کامیاب کرا چکی ہے۔ خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف سینٹ میں وہ اکثریت نہیں لے سکی۔ جسے وہ تھوڑی بہت توجہ اور محنت سے حاصل کر سکتی تھی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان نے دوسری جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ ڈالا۔ حال ہی میں پنجاب میں تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اور ملک کے ایک قدآور سیاستدان جہانگیر ترین کا بیٹا ان کے اپنے حلقہ لودھراں میں ن لیگ کے امیدوار سے شکست کھا چکا ہے۔

اگلے الیکشن سے چند ماہ پہلے تحریک انصاف کے لئے سینٹ کا الیکشن ایک ایسا سیاسی سیٹ بیک ہے جو اس پارٹی کے مستقبل کو بڑا دھچکا لگا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے کیمپ میں یہ چہ مگوئیاں ہونا شروع ہو گئی ہیں کہ ان کی قیادت پے در پے سیاسی غلطیاں کر رہی ہے۔ اس کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں۔ 2013ءکے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے سیاسی سطح پر رائے عامہ کو دھرنوں کے ذریعے اور بعد میں جلسوں کے زور پر اور پھر مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس سپریم کورٹ سے جیت کر جو سیاسی فوائد حاصل کئے تھے وہ ان کو کیش نہیں کر پا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر جو سنجیدہ اور منجھے ہوئے لیڈر اور کارکن ہیں وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ اس کی قیادت کے پاس اگلے انتخابات میں کامیابی کے لئے کیا حکمت عملی ہے؟ اگلے عام انتخابات میں بڑا سیاسی معرکہ پنجاب میں ہو گا جو پنجاب کو جیتے گا وہ حکومت بنائے گا۔ اب تک کے سیاسی واقعات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلوں کے باوجود پنجاب کی حد تک اس جماعت کوکوئی بڑا فرق نہیں پڑا۔ سینٹ کے انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب مسلم لیگ ن کے پاس ہی رہے گا۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حال ہی میں پنجاب کے مختلف شہروں میں کامیاب جلسے کئے ہیں۔ پنجاب میں وہ جلسوں کا ایک اور پروگرام بھی بنا رہے ہیں۔ اس کے باوجود تحریک انصاف میں جو کمی محسوس ہوتی ہے وہ تنظیم کی کمی ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں میں تحریک انصاف اپنے آپ کو منظم نہیں کر سکی ہے۔ پارٹی کی تنظیم کے بغیر وہ انتخابات میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکے گی۔ محض جلسوں اور دھرنوں کی بنیاد پر اگلہ الیکشن جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ اس حکومت کے بارے میں خان صاحب نے ہمیشہ دعویٰ کیا ہے کہ صحت اور تعلیم کے میدان میں ان کی صوبائی حکومت نے صوبے کی کایا پلٹ دی ہے۔

عمران خان پولیس کو بدلنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ لیکن اب تک رائے عامہ کا کوئی ایسا ٹھوس سروے سامنے نہیں آیا جس سے ثابت ہو سکے کہ خیبر پختونخواہ میں گورننس دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے یا انہیں انتظامی اعتبار سے کوئی غیر معمولی کامیابی ملی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو سینٹ کے انتخابات کے بعد حالات کا معروضی اور غیر جذباتی جائزہ لینا چاہئے کہ وہ کہاں غلطیاں کر رہی ہے۔ 2018ء کے انتخابات سے پہلے اسے اپنا ہوم ورک کرنا ہو گا اور غلطیوں کا ازالہ کرنا ہو گا ورنہ اسے کامیابی ملنے کے امکانات معدوم ہوتے جائیںگے۔

جاوید صدیق

بھارت میں اچھوت طبقہ کی خاتون پاکستان کے ایوان بالا کی رکن منتخب

0
0

پاکستان میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اقلیتی ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی کرشنا کماری کو منتخب کیا گیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی اڑتیس سالہ کرشنا کماری کا سفر طویل تھا۔ ان کا تعلق دلت ذات سے ہے، جسے ذات پات کے لحاظ سے بھارت میں اب بھی سب سے ’نچلا ترين‘ اور اچھوت تصور کیا جاتا ہے۔
صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر کے ڈسٹرکٹ نگر پارکر کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی کرشنا کماری کولھی کی حمایت پیپلز پارٹی کی تمام قیادت نے کی تھی۔

کرشنا کماری ابھی سولہ سال کی ہی تھیں کہ ان کی شادی لال چند سے ہو گئی تھی لیکن ان کے شوہر نے شادی کے بعد بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ شادی کے وقت وہ نویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ کرشنا کماری نے سن دو ہزار تیرہ کے دوران سندھ یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے تھر کے غریب لوگوں کی مدد کے لیے فلاحی اور سماجی سرگرمیاں بھی جاری رکھی ہوئی تھیں۔ اس وقت اڑتيس سالہ کرشنا کماری کے انتخاب کو نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ پاکستان کے حریف ملک بھارت میں بھی سراہا جا رہا ہے۔


گلف میں پاکستانی ہنرمندوں کی طلب میں کمی پر تشویش

0
0

گلف کے ممالک میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی ہنر مندافراد قوت کی مانگ میں چالیس فیصد کمی انتہائی تشویشناک ہے۔ کالج آف ٹورازم اینڈ ہوٹل مینجمنٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر احمد شفیق نے اپنے دفتر میں وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس معاملے کو نظر انداز کرنے کی بجائے سنجیدگی سے لے اور اعلیٰ سطحی وفود کو بات چیت کیلیے فوری ان ممالک میں بھجوایا جائے، ہمیں اپنے نوجوانوں کو روایت سے ہٹ کر گلف سمیت دیگر ممالک کو درکار ہنر مند فورس تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی جس کیلیے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے۔

احمد شفیق نے کہا کہ گلف کے ممالک سے بہترین تعلقات کے دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن بہت سے معاملات میں اس کی عملی تصویر نظر نہیں آتی۔ حالیہ دنوں میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی افرادی قوت کی مانگ میں 40 فیصد کمی کی رپورٹ انتہائی تشویشناک ہے۔ ہمیں اس معاملے کو فوری طور پر ان ممالک کے ساتھ حکومتی سطح پر اٹھانا چاہیے اور اس کیلیے متعلقہ وزارتوں کے وفود کو ان ممالک میں بھجوایا جائے جبکہ سفارتکارتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ احمد شفیق نے کہا کہ ہمارے ٹیکنیکل اداروں میں بہت سے ہنر سکھائے جا رہے ہیں لیکن اب جدید ہنر مند فورس تیار کرنے کی ضرورت ہے جو گلف سمیت دیگر ممالک کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف بیروزگاری کی شرح میں کمی ہو گی بلکہ یہی افرادی قوت بیرون ممالک سے کثیر زر مبادلہ لانے کا ذریعہ بھی بنے گی۔
 

ذیابیطس کی دو نہیں بلکہ پانچ اقسام ہیں

0
0

دنیا میں تقریباً ہر 11واں بالغ فرد ذیابیطس سے متاثر ہے۔ اس کی وجہ سے اسے دل کا دورہ پڑنے، فالج ہونے، بصارت متاثر ہونے یا گردے ناکارہ ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ٹائپ 1 ذیابیطس نظامِ مدافعت کی بیماری ہے۔ یہ انسانی جسم کی انسولین فیکٹریوں (بیٹا سیلز) پر حملہ کرتی ہے تاکہ جسم میں یہ ہارمون اتنی مقدار میں موجود نہ رہ سکے کہ وہ خون میں شکر کی مقدار کو کنٹرول کر سکے۔ ٹائپ 2 ذیابیطس کا تعلق عموماً طرزِ زندگی سے جوڑا جاتا ہے کیونکہ اس میں جسم میں جمع چربی انسولین کے کام کرنے کے طریقے کو متاثر کرتی ہے۔ سویڈن کی لونڈ یونیورسٹی کے ذیابیطس مرکز اور فن لینڈ کے انسٹیٹیوٹ آف مولیکیولر میڈیسن کی مشترکہ تحقیق کے دوران 14775 مریضوں کے خون کے نمونوں کا مفصل جائزہ لیا گیا۔ اس تحقیق کے نتائج کے مطابق عام خیال کے برعکس ذیابیطس کی دو نہیں بلکہ پانچ اقسام ہیں اور ان مریضوں کو پانچ گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

روس کی پاکستان کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت

0
0

ایسے میں جب پاکستان پر امریکہ کا اثر و رسوخ کمزور پڑتا جا رہا ہے، پاکستان کا سابق حریف روس اُس کے ساتھ فوجی، سفارتی اور اقتصادی تعلقات بڑھا رہا ہے، جس کے باعث خطے کے تاریخی اتحاد ٹوٹنے لگے ہیں، جب کہ روس کی توانائی کی کمپنیوں کے لیے قدرتی گیس کی منڈی تک رسائی سہل ہوتی جا رہی ہے۔ خبر رساں ادارے، ’رائٹرز‘ نے اسلام آباد سے شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ روس کی جانب سے پاکستان کو گلے لگانے کی پالیسی ایسے وقت دیکھنے میں آرہی ہے جب امریکہ اور اُس کے تاریخی اتحادی کے مابین تعلقات اُس وقت استوار ہو رہے ہیں جب افغانستان میں لڑائی کے معاملے میں الجھاؤ ہے۔

اَسی کی دہائی کے مقابلے میں پاکستان روس تعلقات مختلف ہیں جب پاکستان سویت فوجوں کے خلاف نبرد آزما تھا، اور سرحد پار افغان عسکریت پسندوں کے لیے اسلحہ اور امریکی جاسوس بھیجنے میں معاونت کر رہا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالانکہ روس اور پاکستان کے درمیان خیرسگالی کا معاملہ ابتدائی مراحل میں ہے، جب کہ اس کا ہمسایہ چین پاکستان میں اُس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جسے امریکہ نے خالی کیا ہے۔ ادھر روس اور پاکستان کے کئی دہائیوں سے سمٹے ہوئے تعلقات توانائی کے معاہدوں کی صورت میں اور بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کے میدان میں نمودار ہو رہے ہیں۔

پاکستان کے وزیر دفاع، خرم دستگیر نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ’’اِن کی ابتدا ہو رہی ہے۔ مستقبل کا دروازہ کھولنے کے لیے دونوں ملکوں کو ماضی سے نکلنا ہو گا‘‘۔
تعلقات کی نئی جہت ابھی افغانستان پر مرتکز ہے، جہاں روس نے افغان طالبان شدت پسندوں کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں، جو امریکی فوجوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں جب کہ اُن کے پاکستان کے ساتھ تاریخی روابط ہیں۔ روس کا کہنا ہے کہ وہ امن مذاکرات کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس اور پاکستان دونوں افغانستان کے اندر داعش کی موجودگی سے بھی پریشان ہیں، جب کہ روس کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ شدت پسند گروپ کے عسکریت پسند وسط ایشیا کی جانب پھیل سکتے ہیں، جو اس کی سرحد کے ساتھ کا خطہ ہے۔ پاکستان میں، پہلے ہی داعش بڑے حملے کر چکی ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ’’سفارتی سطح پر زیادہ تر معاملات میں ہماری سوچ یکساں ہے۔ یہ ایسے تعلقات ہیں جو آئندہ خاصے فروغ پائیں گے‘‘۔ گذشتہ ماہ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کے دورہٴ روس کے دوران، دونوں ملکوں نے ’فوجی تعاون کمیشن‘ کے قیام کا اعلان کیا، تاکہ علاقے میں دولت اسلامیہ کے خطرے سے نمٹا جا سکے۔ اُنھوں نے سالانہ فوجی تربیت کی مشقیں جاری رکھنے کی تجویز سے بھی اتفاق کیا، جن کی ابتدا 2016ء میں ہوئی، جس کی شروعات روس نے پاکستان کو چار حربی ہیلی کاپٹر فروخت کر کے کی، ساتھ ہی پاکستانی فضائیہ کے ’جے ایف 17‘ لڑاکا جیٹ طیاروں کے لیے روس نے انجن فروخت کیے، جن طیاروں کو پاکستانی فوج اپنی سرزمین پر تیار کرتی ہے۔

تعلقات میں قربت کو پاکستان کا ہمسایہ اور تاریخی مخالف بھارت شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جو سرد جنگ کے دِنوں میں سویت کیمپ کے ساتھ کھڑا تھا۔ گذشتہ دو عشروں کے دوران، روس بھارت تعلقات میں قربت روس کی جانب سے اسلحے کی بڑی کھیپ کی فروخت کی صورت میں سامنے آئی، جس ملک کو روس اپنا ’’حکمتِ عملی کا حامل ساتھی‘‘ قرار دیتا ہے۔ سشانت سارین پاکستان اور افغانستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات کے معاملے پر معروف ماہر خیال کیے جاتے ہیں۔ وہ نئی دہلی میں ’آبزرور رسرچ فاؤنڈیشن‘ سے وابستہ ہیں۔ اُن کے بقول، ’’اگر روسی سیاسی سطح پر بڑے پیمانے پر پاکستانیوں کی حمایت کرتے ہیں تو اِس سے ہمارے لیے مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے‘‘۔ توانائی کے شعبے میں تعاون کے بارے میں پاکستانی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ روس اور پاکستان 10 ارب ڈالر مالیت کے توانائی کے ممکنہ معاہدوں پر بات چیت کر رہے ہیں۔ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ’’بجلی کے چار سے پانچ بڑے منصوبے طے ہونے سے ہمارے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے‘‘۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

 


ہر ایم پی اے کی قیمت چار کروڑ روپے لگی

0
0

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الزام عائد کیا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں ہر ایم پی اے کو چار کروڑ کی پیش کش کی گئی تھی اور ان کے کچھ اراکین بھی بکے ہیں جس کی تحقیقات کی جارہی ہے۔ کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں جمہوریت کی نفی ہوئی ہے۔ ’افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خیبر پختون خواہ میں بھی پیسہ چلا اور اس سے بھی زیادہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی لوگوں نے اپنے آپ کو بیچا ہے۔‘ تحریک انصاف کے سربراہ نے کہا کہ ’رشوت دی بھی گئی اور لی بھی گئی ہمیں یہ تو پتہ ہے کہ رشوت کس نے دی بدقسمتی کے ساتھ ہمارے پاس یہ ثبوت نہیں ہے کہ رشوت لی کس نے کیونکہ رسید لے کر تو کوئی رشوت نہیں لیتا لیکن رشوت لی تو ہے بکے تو ہیں۔‘ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کی خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ بات ہوئی ہے وہ ایک انکوائری ٹیم بٹھا رہے ہیں جو اس بات کی تحقیقات کرے کہ ان کی جماعت میں سے کون کون سے لوگ بکے ہیں۔

انھوں نے تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن اصلاحات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ سینیٹ کی الیکشن میں پیسہ چلتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ کہتے رہے ہیں کہ براہ راست انتخاب کروائیں جس طرح امریکہ میں ہوتا ہے یا پھر جس طرح خواتین کی مخصوص نشستوں پر انتخاب ہوتا ہے ویسے سینیٹر منتخب کیے جائیں تاکہ سینیٹ کا تقدس پامال نہ ہو لیکن ان سفارشات کو مسترد کر دیا گیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’چار کروڑ روپے کا ریٹ لگا ہے ایک ایم پی اے کا ضمیر خریدنے کے لیے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ میری ذمہ داری ہے۔ کیا ادارے ختم ہو چکے ہیں۔ کیا احتساب بیورو یا ایف آئی اے کی ذمہ داری نہیں ہے، کیا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ساری قوم کو پتہ ہے کہ ایم پی ایز بکے ہیں۔ عمران خان نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے بھی اپیل کی کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں اور کہا کہ ’ہماری جمہوریت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا کون ذمے دار ہے۔ ساری قوم کے سامنے سیاستدانوں کی خرید و فروخت ہوئی ہے کیا عزت رہے گئی ہے ہمارے سیاست دانوں کی عوام کی نظر میں۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
 

سینٹ انتخابات : سیاست کیسے بدعنوان ہوئی ؟

0
0

حالیہ سینٹ انتخابات میں اگر تمام سیاسی جماعتوں پر گھٹیا سیاست کھیلنے کے شک کا اظہار کیا جا رہا ہے تو ایسے میں یہ انتخابات اپنی ساکھ کھو دیتے ہیں۔ چاہے مسلم لیگ (ن) سے تحریک انصاف یا ایم کیو ایم ہی کیوں نہ ہو۔ الیکشن کمیشن ان انتخابات کو کالعدم قرار دے سکتا ہے بشرطیکہ تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوں یا الیکشن کمیشن کے پاس بھی دھاندلیوں، سودے بازی اور ہیر پھیر کی شہادتیں موجود ہوں۔ یہ بھی نظام کی صفائی نہیں کر سکتا جب تک کہ اصلاحات عمل میں نہ لائی جائیں۔ کرپشن کا عمل جو معاشرے میں تمام سطحوں اور طبقات پر پھیلا ہوا ہے اب یہ ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن گیا ہے۔

سیاست کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے بڑے عزم اور حوصلے کی ضرورت ہے جبکہ یہ کام آئین میں چند ضروری ترامیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ سیاست عوام کی خدمت کے تصور کا نام ہے۔ عوام دوست دستور سازی کے لئے ذہنی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ جاننا بھی بڑا اہم ہے کہ پاکستان میں عوامی سیاست کے جڑ نہ پکڑنے کی بنیادی وجہ کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں دو یا تین سیاستی جماعتیں ہی قومی جماعتوں کی حیثیت سے ابھرتیں لیکن جو قومی سطح کی جماعتیں گردانی جاتی ہیں انہوں نے بھی اپنی اہمیت کھو دی ہے۔

پاکستان میں سیاست قصہ، کہانی یا داستان ہے، اسے کبھی اصل روح کے مطابق پروان چڑھنے نہیں دیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ سول اور ملٹری بیورو کریسی نے سیاسی امور اور فیصلہ سازی پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ انہوں نے نہ صرف سیاسی جماعتیں تخلیق کیں بلکہ کئی ایک رہنماء اسی نرسری کی پیداوار بھی رہے جب کسی لیڈر یا جماعت نے عوامی مقبولیت حاصل کی، انہیں تقسیم اور گروہ بندیوں کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں پورا سیاسی کلچر آلودہ اور بدعنوان ہو گیا۔ نت نئے تجربات ہوتے رہے۔ ’’جمہوریت‘‘ مارشل لاء کی چھتری تلے پروان چڑھتی رہی۔

انہوں نے میڈیا کے ساتھ عدلیہ کو بھی استعمال کیا۔ اس طرح وہ بھی جاری نظام کا حصہ بن گئے۔ عدلیہ نے غیر آئینی حکمرانی کو قانونی تحفظ فراہم کیا جبکہ میڈیا نے آمروں کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا۔ ایسے نظام کے خلاف آوازیں بھی اٹھیں۔ میڈیا اور عدلیہ کو اس کی وجہ سے صعوبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اسی طبقے نے ایوب خان کی بنیادی جمہوریتوں اور ضیاء الحق کا مجلس شوریٰ نظام متعارف کرایا۔ پرویز مشرف خود ملک کے چیف ایگزیکٹو بن بیٹھے۔ ان تمام آمروں نے آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھا۔ آئینی حکمرانی کو سب سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔

سیاست میں آنے والوں کی اکثریت ایک سے دوسرے آمر کی حاشیہ بردار رہی جنہوں نے آمرانہ کلچر کو چیلنج کیا انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، انہیں اذیتیں دے کر مارا گیا۔ اس کی تازہ ترین مثال جام ساقی ہیں۔ بدعنوان طبقہ پہلے قومی و نظریاتی جماعتوں کو بدنام اور لااعتبار کرتا ہے۔ اس کی ابتداء خود پاکستان کی تخلیق کار مسلم لیگ سے ہوئی۔ قائداعظمؒ کی وفات کے پہلے دو سال بعد ہی یہ جماعت منتشر اور گروہ بندیوں کا شکار ہوئی جبکہ بڑا حملہ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کی شکل میں بائیں بازو کی جماعتوں پر ہوا۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔

شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوا۔ یہاں تک کہ قائداعظمؒ کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اور ذوالفقار علی بھٹو بھی قابل قبول نہ رہے۔ تخلیق پاکستان کے اول 25 برسوں میں سیاست جڑ نہ پکڑ سکی۔ نتیجہ زوال مشرقی پاکستان کی صورت میں ظاہر ہوا۔ بھٹو بڑے مقبول رہنماء تھے۔ وہ سیاست کا قبلہ درست کرسکتے تھے لیکن اپنی جاگیردارانہ ذہنیت کی وجہ سے انہوں نے اندرون اور بیرون پارٹی اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبایا۔

مظہر عباس
 

شام میں جاری لڑائی : محصور علاقوں میں امدادی سامان نہ پہنچ سکا

0
0

اقوام متحدہ کے تحت حقوقِ اطفال کے ادارے یونیسف کے ترجمان کرسٹوفی بولائیرک نے کہا ہے کہ شام میں جاری لڑائی میں اس سال اب تک کم سے کم ایک ہزار بچے مارے جا چکے ہیں۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شامی فوج کے محاصرے کا شکار مشرقی الغوطہ میں لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے زیر زمین پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں اور یہ اس محصور علاقے کے مکینوں کی ایک طرح سے روایت بن چکی ہے۔ شامی دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع مشرقی الغوطہ میں اس وقت کم سے کم چار لاکھ افراد مقیم ہیں اور وہ نان جویں کو ترس رہے ہیں لیکن شامی حکومت ان تک امدادی سامان پہنچانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے اور اس کی فوج نے مختلف علاقوں پر گولہ باری اور فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دریں اثناء اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ مشرقی الغوطہ میں ایک اور امدادی قافلہ بھیجنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔عالمی ادارے نے سوموار کو مشرقی الغوطہ میں واقع بڑے شہر دوما اور دوسرے قصبوں میں سامان سے لدے 46 ٹرک بھیجے تھے لیکن علاقے میں شدید گولہ باری کی وجہ سے ان میں سے 14 ٹرکوں سے تمام سامان اتارا نہیں جا سکا تھا۔ اقوام متحدہ کے رابطہ کار دفتر برائے انسانی امور کے ترجمان جینز لائرکی نے کہا ہے کہ ’’ یہ امدادی قافلہ نو گھنٹے تک وہاں رکا رہا تھا اور جب وہاں سامان اتارنا ممکن نہیں ہو سکا تو پھر وہاں سے سکیورٹی وجوہ کی بنا پر نکل جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ برسرزمین موجود انسانی امدادی ٹیموں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور انھیں کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔
 

شاہد مسعود کے لیے معافی کا وقت گزر چکا

0
0

چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے نجی نیوز چینل کے اینکر کی جانب سے زینب کیس میں کئے گئے دعوؤں سے متعلق از خود نوٹس کی سامعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ شاہد مسعود کے لیے معافی کا وقت بھی گزر چکا ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ آچکی ہے بظاہر شاہد مسعود کا بیان درست نہیں ہے، آپ کی ویڈیو دوبارہ دیکھی ہے، آپ ویڈیومیں باربار نوٹس لینے کی بات کر رہے تھے جب کہ آپ نے الزامات ثابت نہ ہونے پر پھانسی کی بات بھی کی، الزامات کی شدت کو دیکھتے ہوئے نوٹس لیا، معافی کا وقت بھی گزر چکا ہے، آپ اپنا مقدمہ لڑیں، جس پر ڈاکٹر شاہد مسعود کے وکیل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی تفصیل نہیں ملی، ہم کاپی کو دیکھنے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ مقدمہ لڑنا ہے یا نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کی کاپی ہم دے دیتے ہیں، مقدمہ کا دفاع کریں گے تو قانونی نتائج بھی ہوں گے جب کہ کل تک تحریری اعتراضات دے دیں کیس کوسن لیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے الزامات کو تقویت نہیں ملی جب کہ آپ نے اپنے الزامات کی عدالت میں بھی تائید کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کچھ لوگوں کی رائے تھی آپ کے الزامات سچ پرمبنی ہیں، آپ نے اپنی غلطی کوعدالت میں تسلیم نہیں کیا، آپ کی استدعا پر جے آئی ٹی تشکیل دی، آپ نے جو کہا ہم اس حد تک محدود رہیں گے، آپ کے الزامات کس حد تک درست ہیں جس کا جائزہ لے رہے ہیں اور دوددھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوتا نظر آئے گا۔ اس سے قبل اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہرمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹی وی اینکر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ اپنے مؤقف پرقائم ہوں، نہ مؤقف سے پیچھے ہٹوں گا نہ معافی مانگوں گا۔ ایف آئی اے نے رپورٹ میں کہا ہے کہ الزامات ثابت نہیں ہوئے، رپورٹ میڈیا پرآگئی ہے لیکن ابھی تک مجھے نہیں ملی، رپورٹ میں یہ نہیں کہا گیا کہ الزامات جھوٹے ہیں، معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

 

ہمدردی شرمندگی میں بدل گئی

0
0

یکم مارچ کو شائع ہونے والا میرا کالم ’’کیا ہاشمی کا جرم مشرف سے بڑا تھا؟‘‘ میں میں نے نہال ہاشمی سے جس ہمدردی کا اظہار کیا تھا اُسے ہاشمی صاحب نے شرمندگی میں بدل دیا ہے اور اُس کی وجہ ن لیگ کے سابق سینیٹر کی وہ تازہ وڈیو ہے جس میں وہ ججوں کو گالی دے رہے ہیں۔ ہاشمی کی فرسٹریشن اپنی جگہ لیکن جس انداز میں انہوں نے ججوں کو گالی دی وہ انتہائی قابل مذمت اور قابل افسوس ہے۔ اس رویہ کی کسی طور پر بھی نہ اجازت دی جا سکتی ہے اور نہ ہی ایسے اقدام کی حمایت ممکن ہے۔ ہم نے تو مشرف کی ڈکٹیٹر شب کے دوران ڈوگر کورٹ کے خلاف آواز تو ضرور اٹھائی اور آزاد عدلیہ کی جدوجہد میں بھی شامل رہے لیکن اُس دور میں بھی کسی پی سی او جج کے لیے گالی تو دور کی بات بدزبانی بھی نہیں کی۔

عدلیہ سے اختلاف اپنی جگہ، عدالتی فیصلوں پر کسی کو بھی اعتراض ہو سکتا ہے ، یہ بھی درست بات ہے کہ پاکستان کی عدلیہ جلد اور سستا انصاف دینے میں ناکام رہی، یقیناً تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے عدلیہ نے آئین توڑنے والوں کا ہمیشہ ساتھ دیا لیکن اس سب کے باوجود اگر ججوں کو گالیاں دینے کا رواج زور پکڑے گا تو پھر عدلیہ کا ادارہ کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ توہین عدالت کی ایک ماہ کی سزا کاٹتے ہی نہال ہاشمی نے ایسی حرکت کیوں کی لیکن اگر کوئی ن لیگی سیاستدان یا میڈیا اینکر ہاشمی کی اس حرکت پر یہ مطالبہ کرے کہ علامہ خادم حسین رضوی کی طرف سے ماضی میں ججوں کو دی جانے والی گالیوں پر عدلیہ کیوں نوٹس نہیں لیتی تو ایسی باتوں سے ججوں کو سرعام گالیاں دینے والے ہی مضبوط ہوں گے۔

یہ اعتراض کرنے والوں کو چاہیے کہ باقاعدہ ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کریں جس میں علامہ رضوی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کی جائے تاکہ یہ تاثر نہ ابھرے کہ عدالت کو گالی دینے والے کسی خاص شخص کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلاشبہ عدلیہ خصوصاً سپریم کورٹ نے کچھ حالیہ سیاسی فیصلوں میں اپنے آپ کو ایک بار پھر متنازعہ بنایا، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ن لیگی قیادت کے خلاف دیے گئے فیصلے کمزور ہیں جس پر تنقید اور اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے لیکن کیا جو ردعمل ن لیگی قیادت کی طرف سے سامنے آ رہا ہے کیا اُس سے کسی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔

جہاں ن لیگی قیادت کو اپنے رویہ کو دیکھنے کی ضرورت ہے وہاں جج حضرات کو بھی چاہیے اپنی غلطیوں پر غور کریں تاکہ معاملات مزید خرابی کی طرف نہ بڑھیں۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خلاف دیے گئے فیصلوں پر تنقید کریں لیکن جب ن لیگی اعلیٰ ترین قیادت ریڈ لائنز کراس کرتے نظر آئیں گے اور ججوں کو للکاریں گے، اُن پر براہ راست عوامی جلسوں میں سازش اور دوسرے الزامات لگائیں گے تو پھر کیا اس سے عدلیہ کو بحیثیت ایک ادارہ ہم تباہی کی طرف تو نہیں دھکیل رہے۔ اس ماحول میں جج حضرات کو بھی اپنے فیصلوں اور ریمارکس میں احتیاط کرنی چاہیے اور خصوصاً سیاسی معاملات میں ایسا نظر نہیں آنا چاہیے کہ کوئی خاص سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت اُن کے نشانہ پر ہے۔ 

ایک بات حقیقت ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز نے جو بیانیہ دیا اور جو انداز اپنایا وہ عوام میں مقبول ہوا۔ لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ بیانیہ جو عوام میں مقبول ہو اور الیکشن جیتنے کا ذریعہ بھی بن جائے کیا ایسے بیانیہ کے نتائج ملک و قوم کے لیے بہتر بھی ہوں گے کہ نہیں۔ ایسے حالات پر جہاں ن لیگ اور عدلیہ آمنے سامنے کھڑے ہیں، سینیٹر فرحت اللہ بابر نے گزشتہ روز سینیٹ میں خوب تبصرہ کیا۔ بغیر کسی توہین آمیز الفاظ کو استعمال کیے، فرحت اللہ بابر نے عدلیہ کو ہدف تنقید بنایا لیکن ساتھ ہی یہ وارنگ بھی دے دی کہ انتخابات کا سال عدلیہ پر ریفرنڈم کا سال بن گیا تو یہ تباہی ہو گی۔ فرحت اللہ بابر نے عدلیہ پر خوب تنقید کی اور بابے رحمتے کو بھی خطاب کیا لیکن اُن کی تقریر میں کوئی توہین آمیز بات تھی نہ ہی اُنہوں نے ریڈ لائنز کو کراس کیا۔ 

ن لیگ کے عدلیہ کے متعلق کئی اعتراضات اور خامیاں درست ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ن لیگی حکومت یا کسی دوسری سول حکومت نے کیا کیا۔ جب میاں نواز شریف صاحب وزیر اعظم تھے تو اُنہیں چاہیے تھا کہ عدالتی نظام میں اصلاحات لاتے، ججوں کی تعیناتی اور اُن کے احتساب کے لیے سینٹ کی طرف سے مجوزہ بل کو قانون کی شکل دیتے، جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیے اپنا پرانا وعدہ پورا کرتے۔ لیکن اُس وقت تو انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اب اپنے خلاف آنے والے فیصلہ کے نتیجے میں موجودہ عدلیہ کو discredit کر نے کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام کی تبدیلی کا وہی وعدہ کر رہے ہیں جو 2013 کے انتخابات کے دوران ن لیگ کے منشور میں شامل تھا۔ ویسے یہ بات بھی یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے وہ دو جج حضرات جو آج کل ن لیگ کے سب سے زیادہ نشانہ پر ہیں اُن کی ہائی کورٹ میں تعیناتی نواز شریف صاحب نے ہی بحیثیت وزیر اعظم اپنے دوسرے دور حکومت میں کی تھی۔

انصار عباسی
 

پاکستان شدید پانی کی قلت کی طرف بڑھ رہا ہے

0
0

چیئرمین واپڈا مزمل حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان پانی کی شدید قلت کی طرف بڑھ رہا ہے، صورتحال الارمنگ ہے، نئے ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ ہمیں پانی کی بچت کی طرف جانا ہو گا۔ لاہور چیمبر میں خطاب اور میڈیا سے گفتگومیں چیئرمین واپڈا کا کہنا تھا کہ بھارت سے پانی کے معاملات اچھے نہیں، بھارت نے کبھی پانی پر ہمارے حق کو تسلیم نہیں کیا ، وقت آگیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے پر عمل سے متعلق دنیا کو بتایا جائے کہ بھارت غلطی پر ہے۔ 

مزمل حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان پانی کی قلت کے حوالے سے دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جن کو آنے والے سالوں میں قحط سالی کا خطرہ ہو سکتا ہے، اداروں کو الزام دینے کی بجائے سب کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا کہ نہانے برتن دھونے کے لیے کتنا پانی ضائع کرتے ہیں، 13 ملین ایکڑ فٹ پانی ہر سال سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نیلم جہلم مکمل ہو گیا ہے، بھاشا ڈیم اگلے سال شروع ہو گا، کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے ضروری ہے۔
 

جھوٹی خبریں زیادہ تیزی سے کیوں پھیلتی ہیں ؟

0
0

ایک نئی تحقیق کی روشنی میں یہ بات باور کرائی گئی ہے کہ جھوٹی خبریں سچّی اور درست خبروں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل جاتی ہیں۔ محققین کے مطابق یہ جھوٹی خبریں روبوٹ نہیں بلکہ بڑی حد خود لوگ پھیلاتے ہیں۔ انگریزی جریدے SCIENCE کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ میں 2006ء سے 2017ء کے درمیان ٹوئیٹر پر تقریبا 1.26 لاکھ خبروں کا جائزہ لیا گیا۔ ان خبروں کو 30 لاکھ افراد نے 45 لاکھ مرتبہ ری ٹوئیٹ کیا تھا۔ مذکورہ خبروں کے درست یا جھوٹے ہونے کا تعیّن کرنے کے لیے محققین نے معلومات کی تحقیق کے واسطے چھ آزاد تنظیموں کا سہارا لیا۔

امریکا میں Massachusetts Institute of Technology کے سائنس دانوں کی تیار کردہ تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سچّی اور درست خبروں کے مقابلے جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کے پھیلنے کے 70 فی صد زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ٹوئیٹر پر ایک درست خبر 1500 افراد تک جتنے وقت میں پہنچتی ہے ، جھوٹی خبر یا افواہ 6 گُنا کم وقت میں اتنے ہی افراد تک رسائی حاصل کر لیتی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ جھوٹے قصّے کہانیاں "ظرافت کے مفروضے"کی بنیاد پر زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔ لوگ ان خبروں کو اس لیے شیئر کرتے ہیں کیوں کہ یہ سچّی اور درست خبروں سے زیادہ حیران کر دینے والی ہوتی ہیں۔

تحقیقی رپورٹ میں اس نتیجے پر بھی پہنچا گیا ہے کہ کسی بڑے واقعے یا ایونٹ کے دوران ٹوئیٹر پر جھوٹی خبروں اور افواہوں کا رجحان بڑھ جاتا ہے جیسا کہ 2012ء اور 2016ء میں امریکی صدارتی انتخابات کے موقع پر ہوا۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ جن لوگوں نے جھوٹی خبریں پھیلائیں نمایاں حد تک "اُن کے فالوورز کی تعداد کم تھی، وہ خود بھی کم لوگوں کو فالو کر رہے تھے، ٹوئیٹر پر ان کی سرگرمیاں بڑی حد تک کم تھیں اور وہ ٹوئیٹر پر نمایاں طور پر قلیل عرصے سے سرگرم تھے"۔ واضح رہے کہ امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے خصوصی تحقیقات کار روبرٹ ملر نے آخری امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کی تحقیقات کے دوران ٹوئیٹر پر "BOTS"کے نام سے سرگرم مشینی اکاؤنٹس پر توجہ مرکوز رکھی تھی۔ ملر کے دفتر کے مطابق امریکی سیاسی نظام میں دراڑ ڈالنے کے لیے ان پروگراموں کا استعمال کیا گیا۔ یاد رہے کہ فروری کے اواخر میں ٹوئیٹر نے ایسے اقدامات کا سہارا لیا ہے جن کا مقصد سوشل میڈیا کے اس فورم پر مشینی پروگراموں کے اثر انداز ہونے پر روک لگانا ہے۔

نیویارک – ایجنسیاں


 


زینب کیس، سینیٹ نے سر عام پھانسی کی حمایت کر دی

0
0

سینیٹ نے اپنی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کو منظور کر لیا جس میں زینب کیس میں ملوث ملزمان جیسے قصور وار افراد کو سر عام پھانسی کی سزا تجویز کی گئی تھی، اس بات پر اصرار کیا گیا کہ ’’قومی کی بیٹیوں کے ریپ اور ان کے قتل جیسے سنگین اور ہولناک جرم‘‘ میں ملوث افراد کو ایسی سزا دینے میں کوئی عدالتی حکم رکاوٹ نہیں ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین جاوید عباسی کی جانب سے سینیٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں یہ تنازع طے کر دیا گیا ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث شخص کو سر عام پھانسی دینے کیلئے موجودہ قوانین میں تبدیلی ہونی چاہئے یا نہیں۔ 

قصور واقعے میں ملوث زانی اور قاتل کو سر عام پھانسی کو روکنے کیلئے ’’حقوق انسانی‘‘ کا ایشو اٹھانے والوں سے نمٹنے کیلئے رپورٹ میں اصرار کیا گیا ہے کہ قصور وار شخص کے حقوق کی تشریح متاثرہ شخص کے حقوق کے تناظر میں کرنا ہو گی۔ سینیٹر جاوید عباسی کی قیادت میں حالیہ ہفتوں کے دوران سینیٹ کمیٹی کے تین اجلاس منعقد ہوئے تھے اور ان میں قصور واقعے کے بعد درج ذیل معاملات پر بحث ہوئی تھی: ۱؍ جیل کے قوائد سر عام پھانسی کے حوالے قانونی طور پر جواز پیش کرتے ہیں۔ ۲؍ قوم کی بیٹیوں کے ریپ اور ان کے قتل جیسے سنگین اور ہولناک جرائم میں ملوث افراد کو سر عام پھانسی دینے کے معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ رکاوٹ نہیں ہے۔ ۳؍ صرف قصور وار افراد کے حقوق کا تعین نہیں کیا جا سکتا، ان کا متاثرہ شخص کے حقوق کے تناظر میں جائزہ لینا ہو گا۔ ۴؍ صوبے اگر ضروری سمجھیں تو وہ جیل کے قوائد (جیل رولز) میں ترمیم کر سکتے ہیں تاکہ سر عام پھانسی کے حوالے سے انتظامی معاملات حل کیے جا سکیں، اگر کوئی ہیں تو۔ 

سینیٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی نے سینیٹر رحمان ملک کی قیادت میں مطالبہ کیا تھا کہ تعزیراتِ پاکستان میں ترمیم کر کے بچوں کے اغو، ریپ اور قتل میں ملوث افراد کو سر عام پھانسی دی جائے۔ اس کے بعد یہ معاملہ سینیٹ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھیجا گیا تھا۔ ہیومن رائٹس کمیٹی نے تجویز دی تھی کہ سیکشن 364؍ اے میں ترمیم کی جائے، جس کے مطابق : قتل یا انتہائی حد تک چوٹ پہنچانے، غلام بنانے یا ہوس کا نشانہ بنانے کے مقصد سے 14؍ سال سے کم عمر بچوں کو اغوا کرنے والے شخص سر عام پھانسی (یا پھر عمر قید) یا زیادہ سے زیادہ 14؍ سال قید بامشقت کی سزا دی جا سکتی ہے اور یہ سزا سات سال سے کم نہیں ہو گی۔ سینیٹ کمیٹی برائے قانون نے ہیومن رائٹس کمیٹی کی تجاویز پر غور کیا اور یہ پایا کہ قانون میں کسی ترمیم کی ضرورت نہیں۔

تاہم، کمیٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیل قوائد (پرزن رولز) میں ترمیم کی جا سکتی ہے تاکہ 40؍ لوگ گواہی کے مقصد سے مجرم کی سرعام پھانسی کی سزا کا مشاہدہ کر سکیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قوائد میں اس بات کی بھی اجازت ہے کہ سزا کا عمل جیل سے باہر بھی کیا جا سکتا ہے۔ رپورٹ میں اس معاملے پر بھی بات کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ نے 1994ء میں کس طرح اس معاملے پر فیصلہ سنایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تیز رفتار ٹرائل ایکٹ 1992ء کے سیکشن 10؍ کا جائزہ لیا تھا۔ یہ سیکشن ایکٹ کے تحت دی جانے والی کسی بھی سزا کے مقام کے متعلق ہے اور یہ اس سزا کے معاشرے میں جرائم کیخلاف مزاحمتی عنصر پیدا کرنے کے حوالے سے ہے۔

رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے آئین کے سیکشن 14؍ کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ تمام حالات میں ہر شخص کی تعزیم واجب ہے اور سر عام پھانسی دیئے جانے سے بدتر مجرموں کی بھی تعزیم کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور یہ آرٹیکل 14؍ میں وضع کردہ بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ کمیٹی رپورٹ میں اسلامی نظریاتی کونسل، وزارت قانون اور تمام صوبائی حکومتوں کے سرعام پھانسی کے متعلق موقف کو شامل کیا گیا ہے اور اختتام میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جیل قوائد سر عام پھانسی کی اجازت دیتے ہیں، ایسی صورت میں سپریم کورٹ کا فیصلہ قوم کی بچیوں کے زنا اور قتل میں ملوث افراد کو سر عام پھانسی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں، مجرم کے حقوق کی تشریح متاثرین کے حقوق کے تناظر میں ہو گی، اور صوبے چاہیں تو سر عام پھانسی کے حوالے سے انتظامی معاملات حل کرنے کیلئے اپنے جیل قوائد میں ترمیم کر سکتے ہیں۔

انصار عباسی
 

پاکستان اسٹیل مل : آغاز سے نجکاری تک بے حسی کی داستان

0
0

اگر آپ کراچی سے مشرقی سمت میں نیشنل ہائی وے پر چلنا شروع کریں تو دس بارہ کلو میٹر بعد سیدھے ہاتھ پر پاکستان اسٹیل کے بورڈ نظر آئیں گے اور اگر آپ اس رخ پر مڑ جائیں تو فیکٹریوں، پاور پلانٹ، لوہے کے گودام، ریلوے لائن، فورک لفٹرز وغیرہ کا ایک سلسلہ آپ کا استقبالیہ کرے گا لیکن نہ تو کسی بھٹی میں آگ جل رہی ہو گی نہ کوئی فورک لفٹر وزن اٹھاتا نظر آئے گا اور نہ ہی کسی فیکٹری کے چلنے کی آواز آپ کو سنائی دے گی ہاں البتہ کہیں کہیں لوہے یا اسٹیل کی زنگ آلود شیٹوں کا ذخیرہ آپ کو باخبر کرے گا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں اسٹیل اور لوہے کی پیداوار ہوتی تھی اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی پروجیکٹ ہے جو آج کل بند ہے اور اس کی خریدو فروخت کی باتیں ہو رہی ہیں یہ وہ پروجیکٹ ہے جو 19000 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے جس میں سے 10 ہزار ایکڑ اسٹیل کی پیداوار کے مختلف پلانٹ پر مشتمل ہے جب کہ 8 ہزار ایکڑ رقبے پر رہائشی مکانات بنے ہوئے ہیں۔ 200 ایکڑ پر ایک بڑا ذخیرہ آب موجود ہے۔ اور تمام ہی ارباب اقتدار کی نظر اس کی زمینوں پر ہے۔

پاکستان کے پہلے پنج سالہ منصوبے میں پاکستان کی سائنسی و صنعتی کونسل (PCSIR) نے ملک میں ایک اسٹیل ملز کی ضرورت کا خیال پیش کیا تھا بعد میں پچاس کی دہائی میں روسی وزیراعظم نکلولائی بلگان اور پاکستان کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔ 20 سال بعد جنرل یحییٰ خان نے اس میگا پروجیکٹ کی منظوری دے دی، جس کے بعد پاکستان اسٹیل ملز کارپوریشن لمیٹڈ ایک کمپنی کی شکل میں قائم کی گئی جسے سندھ میں تعمیر کیا جانا تھا۔ اس منصوبے کی تعمیر و تکمیل کے لیے پاکستان نے مالی و تکنیکی امداد کے لیے امریکا اور روس کی طرف اپنا ہاتھ پھیلایا۔ امریکا اس کے لیے تیار نہ ہوا جب کہ روس اس کے لیے تیار ہو گیا۔

چناں چہ 1969ء میں روس اور پاکستان کے درمیان اس منصوبے کے قیام کا سمجھوتا ہوا۔ جب کہ 1971ء میں روس کی طرف سے مالی اور تکنیکی امداد کا معاہدہ ہوا اور اس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے 30 دسمبر 1972 کو اس کا افتتاح کیا جس کے بعد روسی انجینئرز، ماہرین اور ٹیکنیکل اسٹاف نے پاکستان آ کر اسٹیل ملز کے انجینئرز، اسٹاف اور ملازمین کو ٹریننگ دی۔ سیکڑوں انجینئرز و ملازمین ٹریننگ کے لیے روس بھی بھیجے گئے۔ تیکنیکی اعتبار سے اسٹیل ملز کا اہم حصہ بلاسٹ فرینس ہے جہاں کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہاں لوہے کی کچ دھات (ore) سے لوہا اور اسٹیل بنتا ہے۔ 14 اگست 1981ء کو پہلی بلاسٹ فرینس نے کام شروع کیا اور اس طرح پاکستان لوہے اور اسٹیل تیار کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا۔ جب کہ اسٹیل ملز کی مختلف فیکٹریوں، بھٹیوں اور آبی ذخیرہ کرنے کے مراکز کی تکمیل 15 جنوری 1985ء کو ضیا الحق کے ہاتھوں ہوئی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو حال دوسرے سرکاری اداروں کا ہوتا ہے وہی اسٹیل مل کا ہوا۔ بڑی تعداد میں سیاسی بنیادوں پر ملازمین کی بھرتیاں ہوئیں، کرپشن، بے ایمانی اور ناقص کارکردگی نے اس میگا پروجیکٹ میں ڈیرے ڈال لیے، صرف میڈیکل کے شعبے میں ہر سال کروڑوں روپے کا غبن ہونے لگا۔ اشیا و خام مال کی خریداری میں کرپشن عروج پر تھی ، وہ اسٹیل ملز جس کی پیداواری صلاحیت 1.1 سے لے کر کر 5 ملین ٹن لوہے کی تھی نصف پر آگئی۔ ان حالات کو دیکھ کر وزیراعظم شوکت عزیز نے سال 2006ء میں اسٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے ایک کنسورشیم بنایا گیا جس میں 3 گروپ تھے۔ سب سے بڑا گروپ سعودی تھا یعنی الطواری گروپ تھا۔ وہ اس اسٹیل ملز کے ساتھ ایک اور مل لگانا چاہتا تھا اور اس نے 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر دی تھی دوسرا ایک روسی گروپ تھا جب کہ تیسرا پاکستانی یعنی عارف حبیب گروپ تھا۔ 

لیکن اس سے پہلے کہ یہ نجکاری کا عمل پورا ہوتا ایک غیر معروف وطن پارٹی نے عدالت عظمیٰ میں اس عمل کے خلاف پٹیشن دائر کر دی اس وقت کے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے اسٹیل مل کی نجکاری کے خلاف فیصلہ دے دیا اور آرڈر کیا کہ معاملے کو مشترکہ مفادات کی کونسل میں دوبارہ لے جایا جائے۔ اس وقت کے معروف قانون داں جناب خالد انور نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی جو ایک عرصے تک سنی نہ گئی اور ایک موقع پر جب خالد انور صاحب ملک سے باہر تھے تو تاریخ لگا کر اپیل مسترد کر دی گئی۔ حال ہی میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس معاملے کو دوبارہ سننے کے لیے ایک بڑا نو رکنی بنچ تشکیل دیا ہے۔

پچھلے سال چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر خان نے اعلان کیا کہ سال 2017ء میں پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے اور آئل اینڈ گیس ترقیاتی کارپوریشن کو پرائیویٹائز کر دیا جائے گا۔ حکومت کو جلدی اس لیے ہے کہ اسحاق ڈار صاحب آئی ایم ایف سے جو 6.7 ارب ڈالر کا قرضہ لیا تھا اس میں دیگر شرائط کے علاوہ ان اداروں کی نجکاری بھی شامل ہے۔ لیکن سیاسی مخالفت کی وجہ سے گزشتہ سال نجکاری کا عمل نہ ہو سکا اب حکومت دوبارہ کچھ دوسرے اقدامات کرنے والی ہے لیکن موجودہ حکومت شاید کچھ نہ کر سکے اس لیے کہ اس کے پاس وقت بہت کم ہے۔ دوسری طرف اسٹیل ملز پر نیشنل بینک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے واجبات بڑھتے چلے گئے۔

جس کے بعد جون 2015ء میں سوئی سدرن گیس کمپنی نے اسٹیل ملز کو گیس کی سپلائی بند کر دی جو اس وقت 33 فی صد پیداواری صلاحیت کے ساتھ کام کر رہی تھی۔ اس طرح جولائی 2017ء تک اسٹیل ملز کا خسارہ 177 ارب تک پہنچ گیا ہے ایک دوسرے اندازے کے مطابق اس وقت ہر ماہ 1.4 ارب روپے کا خسارہ ہو رہا ہے۔ پچھلے دنوں حکومت نے 18.5 ارب روپے کا ایک بیل آؤٹ پیکیج دیا تھا تا کہ ضروری اخراجات پورے ہو سکیں اور ملازمین کو تنخواہیں ادا کی جا سکیں۔ اسی طرح پاکستان اسٹیل کو 30 سال کے لیے لیز پر دینے کی بات بھی چل رہی ہے. لیکن اس کے لیے پاکستان حکومت کو 180 ارب کے واجبات کلیئر کرنا ہوں گے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اسٹیل ملز کے حالات جیسے ہیں ایسے ہی چلتے رہیں گے جو کچھ بھی ہو گا وہ اگلی حکومت کی تشکیل کے بعد ہی ہو سکے گا۔

ڈاکٹررضوان الحسن انصاری
 

آپ انٹرنيٹ جرائم سے کيسے محفوظ رہ سکتے ہيں ؟

0
0

کسی کا پاس ورڈ چوری ہو جانا، آن لائن بينکنگ ميں اکاؤنٹ سے رقم غائب ہو جانا يا پھر سماجی رابطوں کی ويب سائٹس پر اکاؤنٹ ہیکنگ اور پھر اس کا غلط استعمال، جانیے اس دور ميں آپ ايسی وارداتوں سے کيسے بچ سکتے ہيں؟
پاکستانی ذرائع ابلاغ پر پچھلے سال کے اواخر ميں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر ميں انٹرنيٹ استعمال کرنے والے صارفين کی تعداد پينتيس ملين سے زائد تھی۔ ان ميں لگ بھگ اکتيس ملين سے زائد صارفین فيس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور سماجی رابطوں کی ديگر ويب سائٹس پر فعال ہيں۔ پاکستان ميں اسمارٹ فون استعمال کرنے والوں کی تعداد قريب چاليس ملين ہے اور ان ميں سے تقريباً اٹھائيس ملين سماجی رابطوں کی ويب سائٹس تک رسائی اپنے اسمارٹ فونز کے ذريعے حاصل کرتے ہيں۔

عالمی سطح پر انٹرنيٹ اور سوشل ميڈيا کے پھيلاؤ کے ساتھ ساتھ آن لائن جرائم بھی بڑھتے جا رہے ہيں۔ 2016ء کے امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ روسی مداخلت اس کی ايک مثال ہے، جس کی تحقيقات اس وقت بھی جاری ہيں۔ عام صارفين مختلف صورتوں ميں ہيکنگ کی وارداتوں سے متاثر ہوتے رہتے ہيں اور ديگر ممالک کی طرح پاکستان ميں بھی اس کے انسداد کے ليے اقدامات جاری ہيں۔
پاکستان ميں ’پنجاب کميشن آن دا اسٹيٹس آف وويمن‘ (PCSW) کی سربراہ فوزيہ وقار نے حال ہی ميں کہا تھا کہ ملک ميں سائبر کرائمز، در اصل عورتوں کے خلاف جرائم کی ايک صورت ہے۔ پاکستان کے وفاقی تحقيقاتی ادارے (FIA) اور (PCSW) کے درميان مفاہمت کی ايک يادداشت پر دستختط ہوئے، جس کے مطابق ايف آئی اے ملک ميں ايسے جرائم کی روک تھام کے ليے زيادہ فعال کردار ادا کرے گا۔ اليکٹرانک کرائمز ايکٹ 2016ء پر عمل در آمد يقينی بنانے کے ليے ’پنجاب وويمنز ہيلپ لائن‘ (1043) کے اشتراک کی کوششيں بھی جاری ہيں۔
 

سپریم کورٹ نے شاہد مسعود کا جواب مسترد کر دیا

0
0

سپریم کورٹ نے ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کا جواب مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف کیس چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کے زینب قتل کیس میں کیے گئے دعوؤں سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی طرف سے جمع کرایا گیا جواب مسترد کرتے ہوئے ان پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے حکومت پنجاب اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کر دیے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ الیکٹرانک میڈیا کا نگراں ادارہ پیمرا بتائے کہ شاہد مسعود پر کتنی پابندی لگ سکتی ہیں اور ان کا چینل کتنی دیر کے لئے بند ہو سکتا ہے؟، معلوم کرنا ہے کہ اس معاملے میں چینل کی کیا ذمہ داری تھی۔ چیف جسٹس نے شاہد مسعود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے نہ پہلے معافی مانگی اور نہ آج، جب کہ آپ کا جواب بھی قابل قبول نہیں۔

شاہد مسعود کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ ان کا موکل اپنے جواب میں شرمندگی کا اظہار کر چکا ہے اور اب عدالت میں معافی بھی مانگ لیتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سماعت میں ہی کہہ دیا تھا کہ معافی کا وقت گزر چکا۔ وکیل شاہ خاور نے کہا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہیں، یہ توہین عدالت کا کیس ہے تو غیر مشروط معافی مانگ لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے تو عدالت کے ازخود نوٹس کے لئے اپنے پروگرام میں منتیں کیں، اس مقدمے میں ہم اچھا فیصلہ دیں گے اور ناانصافی نہیں ہو گی۔ 

عدالت نے سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔ واضح رہے کہ شاہد مسعود نے دعویٰ کیا تھا کہ زینب کے قاتل عمران علی کے فارن بینک اکاؤنٹس ہیں اور اس کا تعلق چائلڈ پورنو گرافی کی عالمی تنظیم سے ہے۔ شاہد مسعود کے اس دعوے پر چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیا تھا۔ تاہم عدالت کی طرف سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں شاہد مسعود کے دعوؤں اور الزامات کو جھوٹا قرار دے دیا۔

 

جسٹس شوکت صدیقی کا فیصلہ اسلامی بھی آئینی بھی

0
0

اسلام آباد ہائی کورٹ کے محترم جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ختم نبوتﷺ کے معاملہ پر اہم فیصلہ دیا جس پر ایک مخصوص سیکولر طبقہ کی طرف سے سوشل میڈیا میں ایک مہم کے ذریعے یہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی جیسے اس فیصلہ سے ایک مخصوص غیر مسلم اقلیت کے ساتھ کوئی زیادتی کر دی گئی ہو۔ بظاہر اعتراض کرنے والوں کی اکثریت نے اس فیصلہ کو پڑھے بغیر اپنا ردعمل دیا جبکہ کچھ نے اپنے اندر کا بغض کھل کر نکالتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم تک کو بُرا بھلا کہا کہ ایک مخصوص اقلیت کو کیوں آئین پاکستان کے ذریعے غیر مسلم قرار دیا گیا۔

جسٹس شوکت صدیقی نے تو اپنے فیصلہ میں وہ کہا جو مکمل طور پر اسلامی اور آئینی حقیقت ہے۔ انہوں نے تو اپنے فیصلےکی شروعات اس بات سے کی کہ دین اسلام اور آئین پاکستان مذہبی آزادی سمیت غیر مسلم اقلیتوں کے تمام بنیادی حقوق کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے اور ریاست پر یہ لازم ہے کہ انکی جان، مال، جائیداد اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے اور بطور شہری انکے مفادات کا تحفظ کرے۔ فیصلے میں لکھا گیا کہ ریاست پاکستان کے ہر شہری کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی شناخت درست اور صحیح کوائف کے ساتھ کرائے، کسی مسلمان کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنی شناخت کو غیر مسلم میں چھپائے اور اسی طرح کسی غیر مسلم کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود کو مسلم ظاہر کر کے اپنی پہچان اور شناخت کو چھپائے۔ ایسا کرنے والا ہر شہری ریاست سے دھوکہ دہی کا مرتکب ہوتا ہے۔ 

اس کے بعد فیصلے میں آئین کی شق نمبر 260 کا حوالہ دیا گیا جس میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کی گئی اور جسے اجماع ِقوم حاصل ہے لیکن بدقسمتی سے اس واضع معیار کے باوجود کچھ ضروری قانون سازی نہ کی جا سکی جس کی وجہ سے ایک مخصوص غیر مسلم اقلیت اپنی اصلی شناخت چھپا کر اور ریاست کو دھوکہ دیتے ہوئے خود کو مسلم اکثریت کا حصہ ظاہر کرتی ہے جس سے نہ صرف مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ انتہائی اہم آئینی تقاضوں سے انحراف کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔ جسٹس صدیقی نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت کے پاس اس حوالہ سے کسی بھی افسر کی شناخت موجود نہیں۔ 

فیصلہ میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ پاکستان میں بسنے والی بیشتر اقلیتیں اپنے ناموں اور شناخت کے حوالے سے جداگانہ پہچان رکھتی ہیں لیکن ہمارے آئین کی رو سے قرار دی گئی ایک اقلیت اپنے ناموں اور عمومی پہچان کے حوالے سے بظاہر مختلف تشخص نہیں رکھتی جس کی وجہ سے اپنے عقیدہ کو مخفی رکھ کر مسلم اکثریت میں شامل ہو کر اعلیٰ اور حساس مناصب تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ چونکہ پارلیمنٹ کی رکنیت سمیت اکثر محکموں کے لیے اقلیتوں کا خصوصی کوٹہ بھی مقرر ہے اس لیے جب کسی بھی اقلیت سے تعلق رکھنے والا شخص اپنا اصل مذہب اور عقیدہ چھپا کر خود کو فریب کاری کے ذریعے مسلم اکثریت کا جزو ظاہر کرتا ہے تو دراصل وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے الفاظ اور رو کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے جس کو روکنے کے لیے ریاست کو ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ 

جسٹس صدیقی نے دین اسلام میں ختم نبوتﷺ کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں اسلام کی اس دینی اساس پر حملوں کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جس کی حفاظت و نگہبانی ہر مسلمان پر لازم ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر کہ معاشرہ کو انتشار سے بچایا جا سکے اور آئینی تقاضوں کے مطابق جداگانہ مذہبی شناخت رکھنے والی تمام اقلیتوں کے حقوق کا بھی تحفظ ہو عدالت نے کچھ احکامات جاری کیے جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ کوئی اپنے مذہب اور عقیدہ کے معاملہ میں جھوٹ بول کر نہ تو کوئی سرکاری عہدہ حاصل کرسکے اور نہ ہی ریاست سے دھوکہ کیا جا سکے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ شناختی کارڈ، پیدائشی سرٹیفیکیٹ، پاسپورٹ اور انتخابی فہرستوں میں اندراج کے لیے درخواست گزار سے آئین پاکستان کی شق 260 ذیلی شق 3 اور جز اے بی میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف پر مبنی بیان حلفی لازم قرار دیا جائے، تمام سرکاری و نیم سرکاری محکموں بشمول عدلیہ، مسلح افواج، اعلیٰ سول سروسز میں ملازمت کے حصول یا شمولیت کے لیے بھی اس بیان حلفی کی شرط رکھی جائے۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ تمام شہریوں کے درست کوائف ریاست کے پاس موجود ہوں اور کسی بھی شہری کے لیے اپنی اصل پہچان یا شناخت چھپانا ممکن نہ ہو۔ 

فیصلے میں ریاست کو اس بات کا بھی پابند بنایا گیا ہے کہ وہ مسلم امہ کے حقوق، جذبات اور مذہبی عقائد کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس فیصلہ میں کہاں اقلیتوں کے ساتھ کسی زیادتی کی بات کی گئی یا کسی مخصوص اقلیت کے حقوق چھیننے کا ذکر ہے۔ یہ فیصلہ تو دراصل ایک ایسے دھوکے اور فریب کو روکنے کی بات کر رہا ہے جو معاشرہ میں انتشار اورتشدد کا باعث بنتا ہے۔ ہاں اگر کوئی یہ خواہش رکھتا ہو کہ دین اسلام کے بنیادی عقیدہ اور آئین پاکستان کی اسلامی شقوں کو ہی بدل دیا جائے تو ایسا ممکن نہیں۔

انصار عباسی
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live