Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

امریکی صدر پاکستان کی قربانیاں بھول گئے

0
0

امریکی صدر نے نئے سال کا آغاز پاکستان کے خلاف ایک دھمکی آمیز ٹویٹ سے کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ بیوقوف ہے جس نے پاکستان کو پندرہ برس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تینتیس ارب ڈالر ادا کئے مگر پاکستان نے جواب میں جھوٹ بولا اور دھوکہ دیا، آئندہ پاکستان کی امداد بند کر دیں گے۔ صدر ٹرمپ ایک مخصوص ذہنی کیفیت کے مالک ہیں، ان کی کس بات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور کسے ہذیان کا نام دیا جائے، یہ تفریق ذرا مشکل ہے مگر پاکستان کے ارد گرد اور اندر بھی جو حالات پیدا کئے جا رہے ہیں، وہ سنگین خطرات کی چغلی کھاتے ہیں، اس لئے ٹرمپ کی تازہ اور اگلی پچھلی ساری دھمکیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

حال ہی میں امریکی انتظامیہ نے درجہ بدرجہ ایک ہی دھمکی بار بار دہرائی ہے کہ پاکستان بندہ نہ بنا تو اسے بہت کچھ کھونا پڑے گا، یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ نہ کئے تو امریکہ خود سرجیکل اسٹرائیک کرے گا، یہ بھی سنا گیا کہ ایبٹ آباد کے ا ٓپریشن کی طرح لاہور میں ایک آپریشن کر کے حافظ سعید کو امریکہ ا ٹھا لے جائے گا۔ یہ ساری دھمکیاں پاکستان کے اقتدار اعلی کے خلاف ہیں، اس پس منظر میں صدر ٹرمپ کی حالیہ دھمکی مور اوور کے مترادف ہے۔ ہم اگر جواب میں یہ کہیں کہ امریکہ ہماری قربانیاں بھول گیا تو یہ کوئی نرالی بات نہیں ہو گی.

امریکہ کی پرانی عادت ہے کہ وہ کام نکلنے پر پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہے، 80 کے عشرے میں پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کیا، اسے شکست فاش دی، افغانستان سے پسپا کیا اور پھر اسی جہاد کے نتیجے میں سوویت روس پارہ پارہ ہو گیا، کیا یہ پاکستان کا ایک احسان عظیم نہیں تھا۔ یحییٰ خان کے دور میں پاکستان نے امریکہ اور چین کو ہاتھ ملانے کا موقع فراہم کیا اور اس مقصد کے لئے ہنری کسنجر کے چین کے دورے کا خفیہ خفیہ انتظام کیا جس سے دنیا کی سٹریٹجک صورت حال ہی بدل گئی، یہ بھی پاکستان کاایک عظیم احسان تھا، ایوب دور میں سوویت روس کے خلاف جاسوسی کے لئے امریکہ کو پشاور کے قریب بڈ بیر میں ایک خفیہ اڈہ دیا گیا جہاں سے یو ٹو جاسوس طیاروں کی پروازیں اڑتی رہیں، تو کیا پاکستان نے یہ کوئی گناہ کیا تھا.

امریکہ نے سیٹو اور منٹو کے اتحاد بنائے اور پاکستان چھلانگ لگا کر ان      اتحادوں میں شامل ہو گیا تو کیا یہ پاکستان کی دھوکہ دہی کی واردات تھی اور اب نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے قوم سے پوچھے بغیر ایک امریکی فون کال پر پاکستان کو امریکی جنگ میں جھونک دیا اور پندرہ برسوں میں پاکستان کے اندر ایک لاکھ بے گناہ شہید ہو گئے، چھ ہزار فوجی جوان ا ور افسر بھی شہید ہوئے اور پاکستان کی معیشت کو ایک سو بیس ارب ڈالر کا نقصان پہنچا، اس کے لئے امریکہ نے 33 ارب اگر دے بھی دیئے تو کونسا حاتم طائی کی قبر پہ لات مار دی.

ان میں سے چودہ ارب ڈالر تو جنگی اخراجات تھے جس کے لے امریکہ ڈرون مارنے کے لئے پاکستان کی ہی سرزمین استعمال کرتا رہا، نیٹو افواج کے بھاری ٹرکوں نے پاکستان کی سڑکیں ادھیڑ ڈالیں تو کیا ان کے اخراجات ادا کر کے امریکہ نے پاکستان پر کوئی احسان کیا اور دہشت گردی کی جنگ لڑنے کے لئے پاکستان کو مخصوص جنگی اسلحہ درکار تھا، وہ اگر امریکہ نے دیا تو ان کا بل پاکستان کے کھاتے میں کیوں شانل کر لیا گیا، اول تو ہیلی کاپٹر واپس بھی منگوا لئے گئے ہیں۔ 

امریکی صدر کو پتہ لگانا چاہئے کہ مشرف کا مارشل لا گیارہ برس تک چلتا رہا، اس دوران جتنی رقم مشرف کو ادا کی گئی، وہ ساری کی ساری لازمی طور پر امریکی یا یورپی بنکوں میں جمع ہے، امریکہ اس سے یہ رقم واپس لے لے اور اس کا طعنہ بیس کروڑ پاکستانیوں کو نہ دے۔ اس کے بعد زرداری صدر بنے، انہیں بھی کوئی رقم دی گئی تو اسکا حساب اس سے لے لیا جائے ، وہ دنیا میں موجود ہے اور اس کے احتساب پر پاکستانی خوش ہوں گے، باقی رہ گئی کوئی ایسی رقم جو افواج پاکستان کے اکائونٹ میں دی گئی تو یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ افواج پاکستان نے قربانیوں پر قربانیاں دے کے دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا۔ 

اس دہشت گردی میں وہ عناصر شامل تھے جو افغان سرزمین پر بھارت کی را سے تربیت لیتے رہے، یعنی دھشت گردوں کی نرسریاں امریکی نگرانی میں افغانستان میں تھیں اور ان کو ختم کرنے کی ذمے داری افواج پاکستان پر عائد کر دی گئی تھی، ان دھشت گردوں نے پاکستان میں خون کی ندیاں بہائیں، مسجدوں، مزاروں، بازاروں، مار کیٹوں، چرچوں ، امام بارگاہوں اور ننھے منے پھول جیسے بچوں کے اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، کیا امریکہ ان سب قربانیوں سے ا ٓنکھیں بند کر کے صرف دھمکیاں ہی دے سکتا ہے۔

اصل میں جب امریکی افواج کابل میں اتری تھیں تو ان کے سامنے ایک گرینڈ ڈیزائن تھا، یہ ڈیزائن تھا پاکستان اور چین کو گھیرے میں لینے کا۔ اگر اوبامہ نے کہا تھا کہ وہ امریکی افواج کو واپس لے جا رہے ہیں تو کونسی خوشنما چیز تھی جس کے لئے یہ افواج جوں کی توں بیٹھی رہیں اور ان میں اضافہ بھی ہوتا رہا۔ امریکی اور نیٹو افواج اس قدر نااہل ثابت ہوئیں کہ وہ کابل اور قندھار جیسی بڑی چھائونیوں سے باہر قدم رکھنے کے قابل نہیں ہیں، باقی افغانستان کے طو ل و عرض پر انہی طالبان کا قبضہ ہے جن کی حکومت کو امریکیوں نے توڑا تھا، یہ مٹھی بھر لوگ عالمی افواج کے کنٹرول میں نہیں آ سکے تو اس میں پاکستان کو کیوں دوش دے رہے ہو.

پاکستان نے اس دوران فاٹا کی ساری ایجنسیاں صاف کر ڈالیں اور ان بلندو بالا پہاڑوں کی سنگلاخ چوٹیوں کے نیچے سرنگوں کے اندر گھس کر دہشت گردوں کا مکمل صفایا کر دیا تھا، اب اگر پاکستان میں کوئی واردات ہو جاتی ہے تو کل بھوشن یادیو کے دہشت گردوں کا نیٹ ورک سرگرم ہے جسے جلد ہی ٹھکانے لگا دیا جائے گا، کراچی میں بھارتی را کے ایجنٹوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، کراچی کی رونقیں اور روشنیاں بحال ہو چکی ہیں اور گزشتہ روز پاکستانیوں نے نئے سال کا جشن منایا تو فوج کے ترجمان نے بجا طور پر قوم کو یاد دلایا کہ ان خوشیوں کے لئے پاک فوج کے جاں نثاروں کی قربانیوں کا کردار ہے۔

امریکی صدر کی دھمکیاں صرف پاکستان کے لئے خاص نہیں، یہ دھمکیاں ایران کے لئے بھی ہیں، شمالی کوریا کے لئے بھی ہیں ، شام کے لئے بھی ہیں اور چین کے لئے بھی جسے امریکہ نے للکارا ہے کہ دنیا کی کسی طاقت کو امریکی تجارتی بالادستی ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، یوں لگتا ہے کہ امریکی صدر پوری دنیا کے ساتھ لڑنے بھڑنے کے لئے کمر کس رہے ہیں۔ چنگیز خان ، ہلاکو خاں ا ور ہٹلر نے یہ سب کچھ کر کے دیکھ لیا، اس دنیا پر کوئی تنہا اپنا حکم نہیں چلا سکا، بس ایک خونریزی ہے جو ہوتی رہی اور ٹرمپ صاحب اس سے زیادہ کچھ نہیں کر پائیں گے، ناگا ساکی ، ہیروشیما، ویت نام، لائوس ، کمبوڈیا، لیبیا، عراق اور افغانستان میں اس نے انسانیت کا خون چوسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ایک قیامت برپا کی، ایک حشر برپا کیا۔ اب امریکی خطرات سے نبٹنے کے لئے پاکستان کے پاس کئی ایک امکانات موجود ہیں اور انشااللہ پاکستان اپنی سلامتی، سیکورٹی ا ور اقتدار اعلی کے تحفظ میں کامیاب و کامران رہے گا۔

اسداللہ غالب
 


ٹرمپ، نظریے سے دنیا کا امن خطرے میں ہے

0
0

جب دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں امریکہ اور بھارت نے ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کو منتخب کیا تو اس سے امن کو پہلا دھچکا، ان دونوں ممالک کے ساتھ اسرائیل کا اشتراک دنیا کے کروڑوں امن پسندوں کیلئے مزید مہلک ثابت ہوا۔ جب ہر کوئی سال نو کی مبارک بادیں وصول کر رہا تھا تو عین اس وقت امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان پر نئے سال کا ’’بم‘‘ گرا دیا۔ مقام حیرت ہے کہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور کو اپنی خارجہ پالیسی ان دنوں ٹویٹر کے ذریعے چلانی پڑ رہی ہے، امریکی صدر کو شائد کوئی بھی سوشل میڈیا پر نہ پچھاڑ سکے۔ ایک ٹویٹ کے ذریعے جنگ تو برپا کی جا سکتی ہے لیکن امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔

سب سے پہلے تو امریکیوں کے ساتھ ہمدردی کرنی چاہیے جنہیں سب سے بڑا دھچکا تب لگا جب ڈونلڈ ٹرمپ کرسی صدارت پر متمکن ہو گیا اور تجربہ کار ہیلری ہار گئی۔ دنیا کی سب سے بڑی لبرل جمہوریت نے ایک عورت کے وائٹ ہائوس میں داخلے کے حق میں کبھی ووٹ نہیں دیا جبکہ پاکستان میں ایک خاتون محترمہ بینظیر بھٹو دو دفعہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہیں تو پھر صدر یا وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے کونسا ملک زیادہ اعتدال پسند سوچ کا حامل ہے۔ ٹرمپ کی صدارت میں اظہار رائے کی آزادی سب سے پہلے نشانہ بنی ۔

میڈیا کے ساتھ اس کی جنگ صدر منتخب ہونے سے قبل ہی شروع ہو چکی تھی۔اس نے جو کہا وہ پاکستانیوں کیلئے نئے سال کا تحفہ ہے ’امریکہ نے 15 سال میں پاکستان کو 33 ملین ڈالرز کی امداد دے کر بیوقوفی کی، اس کے بدلے پاکستان نے ہمیں کچھ نہیں دیا سوائے جھوٹ اور دھوکے کے، پاکستانی ہمارے رہنمائوں کو پاگل سمجھتے ہیں، وہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں جبکہ ہم افغانستان میں انہیں ختم کر رہے ہیں ’’نو مور‘‘۔ سال سالہا ’’ڈو مور‘‘ پر عمل کرنے کے بعد پاکستان کی جانب سے چند دن قبل کہے جانے والے ’’نو مور‘‘ کے جواب میں ٹرمپ کا یہ ’’نومور‘‘ سامنے آیا ہے۔

یقیناً ہم نے بہت ساری غلطیاں کی ہیں اور ان میں شائد سب سے بڑی غلطی افغانستان کے حوالے سے ہماری پالیسی تھی جو کئی عشرے پرانی ہے۔ ٹرمپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ 1980ء میں امریکہ کی سوویت افغان جنگ سے قبل پاکستان بھی ایک اعتدال پسند ملک تھا۔ اس جنگ نے پاکستان کو 50 لاکھ مہاجرین، بندوق اور منشیات کا کلچر ، دہشت گردی اور انتہا پسندی ملی ۔ ہزاروں غیر ملکی جن میں عرب بھی شامل تھے امریکہ کی جنگ لڑنے کیلئے پاکستان میں بھیجے گئے۔
اسامہ بن لادن بھی ان میں سے ایک تھا جو 9/11 کا ماسٹر مائنڈ اور مطلوب ترین مجرم رہا۔ امریکیو ں کے بجائے پاکستانی بیوقوف ہیں جوامریکیوں پر یقین کرتے ہوئے آزادی کے فوراً بعد ان کے اتحادی بن گئے۔ امریکیوں کی تقلید میں پاکستان میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان پر 50 کے عشرے میں جبکہ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر 70 کے عشرے میں پابندی لگا دی گئی۔ اب ہمارا جواب کیا ہونا چاہئے؟

ہماری کمزریوں کے باوجود ہمارا جواب ٹرمپ کی طرح بیوقوفانہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہم ایک ذمہ دار قوم ہیں اور حال ہی میں ہمیں اقوام متحدہ میں اچھی حمایت ملی ہے جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جب بھی دنیا نے ہمیں سپورٹ کیا تب ہی امریکہ نے ہماری مخالفت کی۔ وزیراعظم عباسی نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جس میں سول و عسکری قیادت ٹرمپ کے الزامات کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لے گی۔ اس اہم مسئلہ پر حکومت اور حزب اختلاف ایک صفحے پر ہیں تاہم اس کے باوجود ہمارے اپنے مسائل ہیں لیکن یہ اہم وقت ہے کہ ہم افغانستان سے متعلق اپنی عشروں پرانی پالیسی میں تبدیلی کریں۔

خارجہ پالیسی کے خدوخال واضح کریں۔ پاکستان کو نہ کسی پراکسی کا حصہ بننا چاہئے اور نہ ہی کسی کے خلاف پراکسی اختیار کرنی چاہئے۔ امریکہ ہیروشیما، ناگاساکی، شام، عراق، افغانستان اور لیبیا جیسی مہم جوئیوں کی تاریخ رکھتا ہے۔ جب امریکی مفادات کی بات آتی ہے تو انسانوں کی اہمیت نہیں رہتی۔ ہم 1977 اور 1979ء کے سال کیسے بھول سکتے ہیں جب امریکہ نے اپنی پالیسیوں سے روگردانی کی پاداش میں ہمارے منتخب وزیراعظم کو ’’عبرتناک مثال‘‘ بنا دیا تھا ۔ ہمارا جواب بالکل شائستہ ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان میں کوئی ’’ڈونلڈ ٹرمپ ‘‘نہیں ہے۔ 

ہمیں صرف یہ آئینہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ ہم نے گزشتہ 15 یا 30 سال میں کیا قیمت چکائی یا پھر 1950 کے عشرے سے امریکیوں کی بانہوں میں بانہیں ڈالیں تب سے آج تک ہم نے اس دوستی کی کیا قیمت چکائی ہے۔ یہ نہایت شرمناک بات ہے کہ امریکی صدر ہماری گزشتہ 40 سال کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کر رہا۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان میں آمریت کی حمایت کی۔ چاہے وہ فیلڈ مارشل ایوب خان ہوں، ضیاء الحق یا جنرل مشرف ہوں۔ پاکستانی عوام ابھی تک بھٹو کا تختہ الٹے جانے میں مبینہ امریکی کردار کو نہیں بھولے۔ اگر امریکہ نے اقوام متحدہ میں شمالی کوریا، عراق یا ایران کے خلاف قرارداد کی مخالفت نہیں کی تو اس نے یروشلم پر قرارداد کی مخالفت کیوں کی؟

دنیا 9/11 کے بعد یقیناََ بہت بدل چکی ہے، 9/11 جس میں 3 ہزار لوگوں نے اپنی جانیں گنوا دیں تاہم ایک پاکستانی جس کا نام ’’ہمدانی‘‘ تھا اس نے وہاں لوگوں کی زندگیاں بچائیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں پاکستانی جانیں گنوا چکے ہیں، پھر بھی یہ جنگ جاری رہنی چاہئے کیونکہ ہم غیر ریاستی عناصر کے پھلنے پھولنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں ڈرون حملوں سے بھی باخبر رہنا ہے۔ پاکستان کو ڈرون حملوں اور معاشی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دہشت گردی کا ناسور مکمل ختم نہیں ہو سکا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ جب دنیا امن کی کوششیں کر رہی ہے دنیا کی دو بڑی جمہوریتیں ٹرمپ اور مودی جیسوں کے زیر کمان ہیں۔

مظہر عباس
 

کلبھوشن والدہ، اہلیہ سے ملاقات پر پاکستان کا شکر گزار

0
0

بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو نے کہا ہے کہ پاکستان میں مجھے کسی قسم کے تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا، والدہ سے ملاقات کرانے پر پاکستان کا مشکور ہوں، میری والدہ مجھے صحت مند حالت میں دیکھ کر خوش ہوئیں۔ دفتر خارجہ نے بھارتی دہشت گرد کلبھوشن جادیو کا ایک اور وڈیو بیان جاری کیا ہے جس میں اُس کا کہنا ہے کہ میں بھارتی عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں بھارتی بحریہ کا کمیشنڈ آفیسر ہوں، میرے انٹیلی جنس ایجنسی کیلئے کام کرنے کو کیوں جھٹلایا جا رہا ہے؟ کلبھوشن نے بیان میں مزید کہا کہ بھارتی سفارتکار میری ملاقات کے بعد میری ماں پر کیوں چلا رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے میری والدہ کو جہازمیں مارپیٹ کر کے لایا گیا ہو، میں نے اپنی والدہ اور اہلیہ کی آنکھوں میں خوف دیکھا، مجھے افسوس ہے کہ میری والدہ بہت ڈری ہوئی تھی۔
 

آخری عظیم ناکام پاکستانی کی موت

0
0

اگر پاکستان کے پانچ ایسے لوگوں کی فہرست بنائی جائے جو ضمیر کے سامنے انتہائی کامیاب اور دنیاوی اسکیل پر اتنے ہی ناکام رہے تو اس میں پہلے سے پانچویں نمبر پر ایک ہی نام ہے۔ ایر مارشل اصغر خان۔ اگر میں ان کی زندگی ایک سطر میں سمونے کی کوشش کروں تو وہ یہ ہو گی کہ ’’اصغر خان ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنے تئیں جس بات کو درست سمجھے اسے مکمل خلوص اور پیشہ ورانہ ذمے داری کے ساتھ نبھاتا چلا جائے‘‘۔

اصغر خان کے ساتھ کئی فرسٹ لگے ہوئے ہیں۔ رائل انڈین ایرفورس کا پہلا پائلٹ جس کے اسکواڈرن نے سانگھڑ کے علاقے مکھی میں گوٹھ جام نواز علی پر پرواز کرتے ہوئے حر پناہ گزینوں کے نہتے قافلے کو دہشت گرد سمجھ کر بمباری نہیں کی اور اظہارِ وجوہ کے نوٹس کا سامنا کیا۔ رائل انڈین ایرفورس کا پہلا پائلٹ جس نے جیٹ لڑاکا طیارہ گلوسٹر میٹیور اڑایا (انیس سو چھیالیس)۔ پاکستان بننے کے بعد رائل ایر فورس کا پہلا سینئر پائلٹ جس نے نئی مملکت کی ایرفورس کے لیے آپٹ کیا۔ پاکستان ایرفورس اکیڈمی رسالپور کا بانی کمانڈنٹ (مئی دو ہزار سترہ میں اکیڈمی کا نام ان کے نام پر رکھ دیا گیا)، ایر سٹاف کالج اور کالج آف ایرو ناٹیکل انجینیرز کا بانی، پاک فضائیہ کا پہلا ایرمارشل اور چیف (عمر چھتیس برس)۔

جب ایوب خان نے اپریل انیس سو پینسٹھ میں رن آف کچھ میں فضائیہ کو اعتماد میں لیے بغیر کارروائی کی تو حاضر سروس ایر چیف نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ دو ماہ بعد انھیں کمان سے ہٹا کر ایئرمارشل نور خان کو کمان دے دی گئی۔ مگر اصغر خان نے جو پروفیشنل ادارہ کھڑا کر دیا تھا اس نے پینسٹھ کی جنگ کا پانسہ پلٹ کے رکھ دیا۔ ایوب خان نے اصغر خان کو پی آئی اے کا مینجنگ ڈائریکٹر بنا دیا۔ان کا پیسٹھ سے اڑسٹھ کا تین سالہ دور پی آئی اے کی ’’ گولڈن ایج‘‘ کہلاتا ہے۔ اس عرصے میں پی آئی اے حادثاتی اعتبار سے دنیا کی سب سے محفوظ ایرلائن بن گئی اور پروازوں کے شیڈول اور کیبن سروس کے اعتبار سے پانچ بڑی ایرلائنز میں شمار ہونے لگا۔ اصغر خان نے اس دوران کمرشل پائلٹ لائسنس بھی حاصل کر لیا (یعنی ایرفورس کا پہلا سابق چیف جو کمرشل پائلٹ بھی تھا)۔

جب ایوب خانی اسٹیبلشمنٹ اسکول کے بچوں کو یہ سمجھا رہی تھی کہ پینسٹھ کی جنگ ایک عظیم الشان فتح تھی تو اندرونی حالات جاننے والے اصغر خان اس راگ میں اپنی راگنی ملانے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ پی آئی اے سے سبکدوشی کے بعد جب انھوں نے عملی سیاست میں چھلانگ لگائی اور جسٹس پارٹی بنائی تو وہ پہلے سیاستداں تھے جنھوں نے کہا کہ ہم نے یہ جنگ نہیں جیتی بلکہ ایوب خان، بھٹو اور عزیز احمد وغیرہ کے ٹولے نے ہمیں اس جنگ کے تالاب میں دھکہ دیا تھا (بعد ازاں دو ہزار گیارہ میں ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ انیس سو اڑتالیس کی جنگِ کشمیر سے انیس سو ننانوے کی گرگل لڑائی تک ماسوائے اکہتر کی جنگ جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان میں پہل پاکستان کی طرف سے ہوئی)۔اگر یہ دعوی غلط تھا تو اصغر خان پر غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے تھا۔ مگر کون چلاتا ؟

اصغر خان کو ایوب کے وزیر خارجہ بھٹو سے اختلاف ضرور تھا لیکن بطور سیاستداں بھٹو کی گرفتاری کی انھوں نے پھر بھی مخالفت کی اور بھٹو نے جب انیس سو اڑسٹھ میں بھوک ہڑتال کی تو اصغر خان نے ان کے موقف کی بھرپور حمایت کی۔ لیکن بھٹو نے انیس سو ستر کے انتخابات کے بعد انتقالِ اقتدار کی مخالفت کی تو اصغر خان مشرقی پاکستانیوں کے حق ِ جمہوریت کی حمایت میں کھڑے ہونے والے معدودے چند مغربی پاکستانی سیاستدانوں میں شامل ہو گئے۔ وہ آخری سانس تک اپنے موقف پر قائم رہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھٹو اور یحیی خان برابر کے شریک تھے۔

بھٹو کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اصغر خان کی سیکولر جماعت (جو جسٹس پارٹی سے تحریکِ استقلال ہو گئی تھی) بھٹو کی سخت گیر اندرونی پالیسیوں کی ناقد رہی۔ اصغر خان نے بلوچستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ معاملہ صرف بلوچستان تک نہیں رہے گا بلکہ یہ بعد میں بھٹو کو بھی سیاسی طور پر کھا جائے گا۔ اصغر خان نے انیس سو پچھتر میں حزبِ اختلاف کے اتحاد کمبائینڈ اپوزیشن پارٹیز (سی او پی) میں فعال کردار ادا کیا۔ انیس سو ستتر میں پاکستان قومی اتحاد کے نو ستاروں میں شامل ہوئے۔ انتخابی مہم کے دوران برسرِ اقتدار آ کر بھٹو کو کوہالہ پل پر لٹکانے کا وعدہ کیا۔ مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک میں بے لچک موقف اختیار کیا۔ فوجی قیادت کو ملک بچانے کے لیے اپنی آئینی ذمے داریاں یاد دلانے کے لیے متنازعہ خط بھی لکھا اور آخر وقت تک یہ الزام دھونے میں مصروف رہے کہ ان کے خط نے ضیا الحق کو آگے بڑھنے کا اخلاقی حوصلہ دیا۔

جب پانچ جولائی کو ضیا الحق نے بھٹو کا تختہ الٹا تو اصغر خان نے اس کا خیرمقدم تو کیا لیکن فوری عام انتخابات کروانے کا بھی مطالبہ کر دیا۔ ضیا الحق نے نوے دن میں انتخابات کا وعدہ پورا نہیں کیا اس کے بجائے پی این اے کو عبوری حکومت میں شمولیت کی دعوت دی۔ مگر اصغر خان نے یہ سیاسی رشوت لینے سے انکار کر دیا اور کھل کے ضیا الحق کی مخالفت شروع کر دی۔ ضیا حکومت نے اصغر خان کا منہ بند کرنے کے لیے انھیں ایبٹ آباد کی رہائش گاہ میں اگلے پانچ برس کے لیے نظربند کر دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انھیں ضمیر کا قیدی قرار دے دیا۔ اصغر خان اگرچہ نظربند رہے مگر انھوں نے انیس سو تراسی کی تحریکِ بحالیِ جمہوریت کی حمایت کی۔ انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ انیس سو اٹھاسی کے انتخابات میں اگرچہ تحریکِ استقلال نے حصہ لیا مگر تب تک سیاسی حالات بہت آگے نکل چکے تھے۔

تحریکِ استقلال کا جائزہ لیا جائے تو اس نے سیاسی نرسری کا کام تو کیا مگر خود کبھی تن آور درخت نہ بن سکی اور اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود اصغر خان کی شخصیت رہی جو ٹیکسٹ بک میں درج بلیک اینڈ وائٹ سیاست کر کے ایک ایسے سماج میں کامیاب ہونا چاہتے تھے جہاں ہر شے گرے ایریا میں ہے۔ تحریکِ استقلال کی نرسری نے اس ملک کو نواز شریف، خورشید محمود قصوری، اعتزاز احسن، جاوید ہاشمی، مشیر پیش امام، اکبر بگٹی، مشاہد حسین، گوہر ایوب، ظفر علی شاہ، عابدہ حسین اور فخر امام وغیرہ دئیے اور آخر میں تحریکِ استقلال تحریکِ انصاف میں ضم ہو گئی اور اصغرخان اسلام آباد کے گھر کی چار دیواری میں رہ گئے۔

سن نوے کے عشرے تک یہ بات اصغر خان کو بالاخر اچھی طرح سمجھ میں آ گئی تھی کہ سیاست دو اور دو چار کا گیم نہیں بلکہ اس میں دو اور دو ساڑھے تین اور پانچ بھی کرنے پڑتے ہیں۔ سیاست کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلتی ہیں، سیاست پیشہ نہیں نوکری ہے۔ سیاسی جماعتیں ٹھوس میٹریل سے نہیں گتے کے میٹریل سے بنائی جاتی ہیں تاکہ حسبِ ضرورت لچک کا مظاہرہ ہو سکے۔ سیاست ایمانداری کی دکان نہیں جائز و ناجائز ناممکنات کو ممکن بنانے کا کارخانہ ہے ۔  اس تناظر میں اصغر خان نے اپنی سیاسی زندگی کی آخری گیند انیس سو چھیانوے میں سپریم کورٹ کے سامنے سیاست میں ایجنسیوں کے کردار کے خاتمے کے لیے کھیلی اور انیس سو نوے میں آئی جے آئی بنوانے کے سلسلے میں صدر غلام اسحاق خان، جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس ائی کے سربراہ اسد درانی کی جانب سے مہران گیٹ کے یونس حبیب کے توسط سے سیاستدانوں میں ایک سو چالیس ملین روپے بانٹ کر انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے استدعا کی کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا دروازہ مستقل بند کرنے کی سبیل کی جائے۔

سپریم کورٹ نے تمام کرداروں کے زندہ ہونے کے باوجود اس درخواست کے فیصلے میں سولہ برس لگا دئیے۔ دو ہزار بارہ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے مختصر فیصلے میں کہا کہ انیس سو نوے کے انتخابات صدر غلام اسحاق خان، اسلم بیگ، اسد درانی اور ایوانِ صدر اور آئی ایس آئی کے پولٹیکل سیل نے داغدار کیے۔ وفاقی حکومت ایف آئی اے کے ذریعے تمام کرداروں بشمول رقم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف بلا تاخیر قانونی کارروائی شروع کرے۔ 

پیپلز پارٹی حکومت نے اس فیصلے کو اپنی عظیم فتح قرار دیا اور وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ نے وعدہ کیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر حرف بحرف عمل کیا جائے گا۔ اس اعلان کے پانچ برس بعد مئی دو ہزار سترہ میں تحریکِ انصاف نے اعلان کیا کہ وہ سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن داخل کر رہی ہے جس میں توجہ دلائی جائے گی کہ عدالت ایف آئی اے سے استفسار کرے کہ عدالتی حکم پر کس حد تک عمل ہوا؟ مگر اس پیٹینشن کو دائر ہونے سے پہلے پہلے پانامہ کیس کا ہلہ گلہ کھا گیا۔ اصغر خان اس دنیا سے جا چکے مگر ان کی پیٹیشن کا مستقبل آج بائیس برس بعد بھی پاکستانی آئین، قانون اور جمہوریت کے آلودہ سمندر میں لاوارث پھولی لاش کی طرح تیر رہا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اگر سیاست میں کچھ کمانا ہے تو وہ سب کرنے کی ضرورت ہے جو اصغر خان نہیں کر سکے۔ مگر اس عظیم آدمی کی ناکامیابیوں کے لیے کم ازکم ایک بھرپور سیلوٹ تو ہر پاکستانی کی طرف سے بنتا ہے۔

وسعت اللہ خان
 

Turkish agency builds over 600 water wells in Pakistan

0
0
A Turkish aid agency has built more than 600 water wells across Pakistan as part of a water-purification project. The International Humanitarian Relief Foundation built the wells in several provinces including the second-largest province Punjab.











کیا امریکہ پاکستان کو چھوڑنے کا متحمل ہو سکتا ہے ؟

0
0

امریکی اخبار نے ڈونلڈ ٹرمپ کوتنبیہہ کی ہے کہ امریکا کو دی گئی رسائی پاکستان کسی بھی لمحے بند کر سکتا ہے اس لیے وہ پاکستان سے منہ پھیرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمزکے اداریے کے مطابق پاکستان نے اہم خفیہ معلومات اکثر امریکا کوفراہم کی ہیں، افغانستان کیلیے ہرفوجی پرواز پاکستانی فضا سے گزرتی ہے اور زیادہ ترسپلائی پاکستانی ریل یا روڈ سے ہوتی ہے، یہ دیکھنا ہو گا کہ امداد منجمد کرنے پر پاکستان تعاون کرتا بھی ہے یا نہیں، پاکستان کے خلاف فیصلے سے لگتا نہیں کہ ٹرمپ کے پاس اثرات سے نمٹنے کی پالیسی ہے جب کہ امریکا کو دی گئی رسائی پاکستان کسی بھی لمحے بند کر سکتا ہے۔

اخبار کے مطابق ٹرمپ اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ پاکستان کو چھوڑ دیں، اس صورت میں پاکستان، چین کا زیادہ قریبی اتحادی بن سکتا ہے، ٹرمپ کا پرانے پارٹنرز کو امریکا سے دور کرنے کا فیصلہ چین کیلیے فائدہ مند ثابت ہو گا، بھارت کے خلاف زیادہ سخت رویہ اپنا سکتا ہے۔ اداریے میں کہا گیا کہ پاکستان کے زیادہ تعمیری تعاون کیلیے ٹرمپ کو سفارتی طریقے اپنانے چاہئیں، امریکا کو سعودی عرب اور امارات سے نئے دوستانہ تعلقات استعمال میں لانا چاہیے، ان دونوں ممالک کے ذریعے طالبان کی خلیج فارس میں فنڈ اکھٹا کرنے کی کوشش ناکام بنانا چاہیے جب کہ پاکستان سے تعاون کیلیے ٹرمپ کو شور مچانے کے بجائے خاموش بات چیت کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی ہر طرح کی مالی و فوجی امداد روکتے ہوئے تمام تر سیکیورٹی تعاون معطل کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد پاک امریکا تعلقات تناؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔
 

پاکستان امریکہ کا محتاج نہیں خود انحصاری واحد حل ہے

0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازع شخصیت اور پالیسیاں پاکستان ہی نہیں امریکہ سمیت پوری دنیا میں ہدف تنقید بنی ہوئی ہیں۔ اپنے ملک کو جس تیزی سے وہ عالمی سطح پر تنہا کرتے چلے جا رہے ہیں اس کا ایک نہایت فیصلہ کن مظاہرہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی اقدام کی بین الاقوامی برادری کی بھاری اکثریت کی مخالفت کی شکل میں ہو چکا ہے۔ صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی بھی جس کا بنیادی نکتہ افغان مزاحمت کو شکست دینے میں ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اسے قربانی کا بکرا بنانا ہے، خود امریکی رائے عامہ میں کسی وقعت کی حامل قرار نہیں پائی ہے۔

اس پالیسی کے تحت صدر ٹرمپ نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ پاکستان پندرہ سال سے امریکہ کے ساتھ دہرا کھیل کھیل رہا ہے اور اس مدت میں پاکستان کو جو امداد دی گئی وہ درحقیقت امریکی قیادت کی حماقت تھی۔ اس کے بعد فوجی امداد کی بندش سمیت پاکستان کے خلاف مختلف اقدامات کا آغاز ہوا جس کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم خود امریکہ میں اس حکمت عملی کو قومی مفادات کے منافی قرار دیا جا رہا ہے جس کا تازہ ترین ثبوت گزشتہ روز ممتاز امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے اداریے کی شکل میں منظر عام پر آیا ہے۔ 

اخبار نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ پاکستان سے بے اعتنائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نیویارک ٹائمز نے ٹرمپ انتظامیہ کو یاد دلایا ہے کہ افغانستان کیلئے ہر فوجی پرواز پاکستان کے فضائی حدود سے گزرتی ہے، زیادہ تر سپلائی پاکستان کے ریل یا روڈ سے ہوتی ہے جسے پاکستان کسی بھی لمحے بند کر سکتا ہے۔اداریے میں حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اہداف کے حصول کیلئے شور مچانے کے بجائے خاموش بات چیت کی ضرورت ہے اور اس کیلئے سفارتی طریقے اپنائے جانے چاہئیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے بھی صدر ٹرمپ کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان کی وجہ سے سال رواں میں پچھلے سال سے بھی زیادہ سیاسی فساد رونما ہو گا۔

دوسری جانب پاکستان میں نہ صرف عوامی بلکہ سیاسی اور عسکری قیادت کی سطح پر بھی اس اعتماد کا بھرپور اظہار ہو رہا ہے کہ پاکستان امریکی امداد کا محتاج نہیں، نیز یہ کہ افغانستان پر فوج کشی میں امریکہ سے تعاون کر کے غلطی کی گئی تھی، اسی کی بناء پر ملک میں دہشت گردی پھیلی تاہم نہ صرف اس مسئلے سے پاکستان اپنے ہی وسائل سے کامیابی کے ساتھ نمٹ رہا ہے بلکہ معاشی ترقی اور سماجی اصلاحات کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے بھی اس کے پاس متبادل وسائل و ذرائع موجود ہیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے برطانوی اخبار دی گارجین کو گزشتہ روز دیے گئے انٹرویو میں اس حقیقت کی واضح طور پر نشان دہی کی ہے کہ امریکی امداد پاکستان کیلئے غیر اہم ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان خود لیڈر کا کردار ادا کر رہا ہے۔

ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر اور ایک سو بیس ارب روپے کا نقصان اٹھا کر پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت چکا ہے، گزشتہ پانچ سال میں امریکی امداد کی رقم ایک کروڑ ڈالر سالانہ سے بھی کم رہی لہٰذا امریکی امداد بند ہونے سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے بھی ممتاز امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل میں گزشتہ روز شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں بالکل دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ پاکستان کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کے حالیہ اقدامات کے بعد وہ امریکہ سے اتحاد کو ختم سمجھتے ہیں، 2001ء میں امریکہ کی افغانستان مہم میں شامل ہو کر ہم نے بہت بڑی غلطی کی اوراب یہ جنگ دوبارہ پاکستان کی سرزمین پر نہیں لڑی جائے گی۔

صدر ٹرمپ کی پاکستان مخالف پالیسیوں کے نتیجے میں باہمی تعلقات کے اس نہج پر پہنچ جانے کے بعد ضروری ہے کہ پاکستانی قوم اور قیادت پوری یکسوئی کے ساتھ طے کر لے کہ پاکستان کو اب ماضی کی طرح امریکہ کا تابع مہمل بن کر نہیں رہنا اور امریکی امداد سے بے نیاز ہوکر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے ۔ پاکستان کیلئے یہی عزت و سرفرازی کی راہ ہے جسے قدرت نے خود اس کیلئے ہموار کر دیا ہے۔

اداریہ روزنامہ جنگ

زرداری میں بھٹو کی روح

0
0

چار روز پہلے میر پور خاص میں ذوالفقار علی بھٹو کی نویویں سالگرہ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نے فرمایا کہ اگرچہ میرا تعلق بھٹو خاندان سے نہیں لیکن مجھ میں بھٹو کی روح داخل ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی مزدوروں اور مظلوموں کی جماعت ہے اور وہ تمام مظلوموں کو حقوق دلوائیں گے۔ بھٹو نے یہی سکھایا ہے۔ آج غریب عوام کو جو کچھ بھی دیا پیپلز پارٹی نے دیا۔عوام سے جو وعدے کیے پورے کیے وغیرہ وغیرہ۔ ایک بار کراچی کے ایک سینئر شاعر و نقاد جاذب قریشی کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کے دوران صاحبِ کتاب کی شخصیت اور فن کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک مقرر نے نتیجہ اخذ کیا کہ حضرت ِ جاذب قریشی موجودہ دور کے محمد حسین آزاد ہیں۔ اس پر اردو کے ممتاز ادبی کالم نگار اور پارکھ مرحوم مشفق خواجہ نے لکھا ’’یعنی محمد حسین آزاد اپنے دور کے جاذب قریشی تھے‘‘۔

اگر کوئی اور حضرتِ آصف علی زرداری کی مدح میں اتنا آگے بڑھ جاتا کہ زرداری صاحب میں بھٹو کی روح حلول کر گئی ہے تو میں اسے ایک تعلی سمجھ کے نظرانداز کر دیتا۔ مگر یہ بات چونکہ زرداری صاحب نے بہ زبانِ خود کہی ہے لہذا اس کے محرکات ڈھونڈنا ضروری ہے۔ لیکن اتنی کھکیڑ کی کیا ضرورت ہے۔ اگر بقول زرداری صاحب ڈاکٹر طاہر القادری آج کے نوابزادہ نصراللہ خان ہو سکتے ہیں تو خود ان میں بھٹو کی روح کیوں حلول نہیں کر سکتی ؟ البتہ ڈاکٹر صاحب کا منصب اتنا پست کر دینا کہ انھیں نوابزادہ کے برابر لے آنا خود ڈاکٹر صاحب کی شان میں گستاخی سے کم نہیں۔

ﷲ ﷲ ! جس نے عالمِ رویا میں امام ابو حنیفہ علیہہ رحمتہ کے آگے بارہ برس تک زانوئے تلمذ تہہ کیا ہو ایسی متبرک ہستی کو نوابزادہ نصرﷲ خان جیسے معمولی سیاستداں کے برابر کھڑا کر دینا۔ استغفراﷲ۔ زرداری صاحب کی اس گستاخی پر ڈاکٹر صاحب کو برافروختہ ہو کر پیپلز پارٹی سے منگنی توڑ دینے کا پورا پورا حق تھا۔ مگر ڈاکٹر صاحب کا ظرف بھی انھی کی طرح وسیع ہے لہذا یہ سمجھ کر شائد دل ہی دل میں زرداری صاحب کو معاف کر دیا ہو کہ ’’ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے‘‘۔ بات ہو رہی تھی بھٹو صاحب کی روح زرداری صاحب میں حلول کرنے کی اور میں بھی کہاں سے کہاں بہہ گیا۔ بی بی کو دیکھ کے ضرور اکثر لگتا تھا کہ ان میں باپ کی روح بول رہی ہے اور بلاول کے انداز کو دیکھ کے بھی کبھی کبھی لگتا ہے کہ بیٹے میں ماں بول رہی ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو کی روح آج چالیس برس بعد بھی اس قدر بے چین ہو کہ اسے شانت ہونے کے لیے کوئی مستقل ٹھکانہ نہ مل رہا ہو اور وہ جہاں خلا دیکھ رہی ہے وہیں قیام کرتی پھر رہی ہے۔ ایسا میں نے کم ازکم چار دن پہلے تک نہ سوچا تھا۔

کچھ سوچا تھا تو بس یہ کہ جس کارکن نے خود کو بھٹو کی سزاِ موت کے خلاف بطور احتجاج بھرے بازار میں آگ لگا لی تھی، جو جو جیالا جئیے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے ضیا الحق کے تختہِ دار تک چل کر گیا اور پھانسی کا پھندہ چوم کر گلے میں ڈال لیا ، جس جس نے بھی انیس سو تراسی اور چھیاسی کے سندھ میں کموں شہید سینوری آباد تک ننگی گولیوں کے سامنے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے زمین پر گرنا پسند کیا اور پسماندگان میں خون کی سرخ لکیر بھی چھوڑی شایذ ان سب کے جسموں میں بھٹو کی روح گھس گئی تھی۔ ایسا دیوانہ پن بازار میں تو نہیں ملتا۔ میری نسل شمس تبریز اور رومی، مادھو لال اور حسین، سرمد اور ابھے چند کے یک جان دو قالب ہونے کے قصے سن سن کے بڑی ہوئی ہے مگر زرداری میں بھٹو ؟؟ (خبروں میں رہنے کے لیے کچھ بھی کرے گا )۔

تاہم آصف زرداری کی بات جھٹلانے کی بھی کوئی ٹھوس وجہ نظر نہیں آتی۔ میں گمان کر سکتا ہوں کہ اگر ان کے جسم میں بھٹو کی روح آئی بھی ہے تو میر پور خاص کے جلسے میں اسٹیج پر چڑھنے کے دوران ہی یہ معجزہ ہوا ہو گا۔ کیونکہ اگلے ہی سانس میں انھوں نے اپنے تاریخی خطاب میں یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی مظلوموں کی جماعت ہے اور وہ تمام مظلوموں کو حق دلوائیں گے (انھی کے گھر میں پہلی مظلوم تو خود بی بی کی روح ہے جو آج بھی انصاف کی تلاش میں دربدر ہے )۔ میں صحت کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ زرداری صاحب پانچ جنوری کو ہیلی کاپٹر سے میر پور خاص کی جلسہ گاہ پہنچے یا پھر سڑک کے راستے تشریف لائے۔ کیونکہ سڑک پر تو جگہ جگہ وہ کسان بیٹھے ہوئے تھے جو اپنا گنا شوگر ملوں کو فروخت کرنے کے لیے مارے مارے گھوم رہے ہیں۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ بھٹو دور میں کبھی ایسا ہوا ہو کہ کسی کسان نے اس لیے خودسوزی کی کوشش کی ہو کہ اس کی فصل کوئی نہیں خرید رہا اور اگر خرید بھی رہا ہے تو من مانے ریٹ پر اور وہ بھی ادھار میں۔ کیا یہ ممکن تھا کہ بھٹو کی کوئی اپنی شوگر مل ہوتی اور اس کے دروازے کسانوں پر بند ہو جاتے ؟

ارے یاد آیا۔ میں نے دو ہزار دس کے سیلابِ عظیم میں راجن پور کے علاقے روجھان مزاری میں بی بی سی کے لیے سیلاب کی رپورٹنگ کے دوران ایک کاشتکار دیکھا جو اطمینان سے ہائی وے کے ٹرک ہوٹل پر بچھے ہماچے ( ایک بہت بڑا پلنگ جس پر آٹھ دس افراد آرام سے بیٹھ سکتے ہیں ) پر بیٹھا کیچڑ زدہ پاؤں ہلاتے ہوئے حقہ گڑ گڑا رہا تھا۔ سفر کی تھکن سے چور میں بھی کچھ دیر کے لیے اس کسان کے برابر جا بیٹھا۔ حال احوال ہوا۔ میں نے پوچھا آپ کہاں رہتے ہو ؟ اس نے پانی میں گھرے ایک کچے پکے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا پانچ دن پہلے میں وہاں رہتا تھا۔ اب ایک ہفتے سے اسی ہماچے پر رہتا ہوں۔وہ پھر حقہ گڑ گڑانے لگا۔ اور پھر اچانک مجھ سے پوچھا، سائیں آپ نے بھٹو کا نام سنا ہے؟ میں نے گڑبڑاتے ہوئے کہا کیوں نہیں کیوں نہیں۔ اس کا نام کس نے نہیں سنا۔ کہنے لگا بھٹو کے بعد سیلاب میں وہ مزہ نہیں رہا۔ میں نے کہا مطلب ؟

کہنے لگا مطلب یہ کہ جب بھی سیلاب آتا۔ اس کے بعد کوئی آئے نہ آئے بھٹو صاحب کا سفید ہیلی کاپٹر ضرور اترتا تھا۔ وہ گھٹنے گھٹنے پانی میں اترتا اور ایک ایک کے پسینے والے کالر کو زور سے کھینچتا۔ گھبرانا نہیں پیچھے امداد آ رہی ہے۔ اور پھر ہمیں اتنا راشن ملتا کہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔ اب بھی ہیلی کاپٹر آتے ہیں مگر اوپر سے گذر جاتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ وہ سفید ہیلی کاپٹر ابھی کہاں ہو گا ؟ پھر خود ہی ہنستے ہوئے کہنے لگا۔ ابھی وہ تو کسی کباڑی کے پاس ہی ہو گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ قصہ اس وقت کیوں یاد آ گیا؟ اگر بے محل لگے تو معافی چاہتا ہوں۔

وسعت اللہ خان
 


آلودہ پانی پینے سے ہر سال 53 ہزار پاکستانی مرتے ہیں

0
0

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ آلودہ پانی پینے سے ہر سال 53 ہزار پاکستانی بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں، پانی میں آلودگی ہیضہ، ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ پھیلانے کا باعث ہے۔ یونیسیف نے اپنی رپورٹ میں آلودہ پانی کو پاکستان کا مسئلہ نمبر1 قرار دیدیا اور کہا کہ ملک میں 30 سے 40 فیصد بیماریوں اور اموات کی بنیادی وجہ آلودہ پانی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بڑھتی آبادی اور کم ہوتے پانی کے باعث 2025ء میں پاکستان خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پراجیکٹ آفیسر نے کہا ہے کہ لاہور کے شہریوں کو پانی فراہم کرنے والے دریائے راوی ہی میں سیکڑوں فیکٹریوں کا فضلہ ڈالا جاتا ہے، دریا کی مچھلی کی ہڈیوں میں ہیوی میٹل کے اثرات ملے ہیں۔ وائس چانسلر پمز نے کہا کہ 5 سے 6 کروڑ پاکستانی آرسینک ملا پانی پی کر خود کو ’سلوپوائزننگ‘ کا شکار کر رہے ہیں ۔
 

دہشت گردی کے خلاف جنگ : معاشی نقصان پر مشتمل فیکٹ شیٹ جاری

0
0

امریکی کی جانب سے پاکستان کی عسکری امداد روکنے کے بعد پاکستانی حکام نے گزشتہ 14 برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاں بحق ہونے والے 74 ہزار شہریوں اور 1 کھرب 23 ارب ڈالر کے معاشی نقصان پر مشتمل ایک فیکٹ شیٹ جاری کردی۔ پاکستان اور امریکا کے مابین تناؤ اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب امریکا نے 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی پر آپریشن کیا تاہم مذکورہ فیکٹ شیٹ امریکا کی سیاسی نقطہ نظر میں معمولی اثر مرتب کر سکتی ہے۔

رپورٹ میں اس امر پر بھی توجہ دی گئی کہ کس طرح پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں سے دشمن عناصر افغانستان کے بارڈر کی محفوظ پناہ گاہیں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ دفاعی اور سیکیورٹی اداروں نے عمومی طور پر پورے ملک اور خصوصاً وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں امن کی بحالی کے لیے گراں قدر خدمات پیش کیں۔
فیکٹ شیٹ میں تفصیل سے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کے 20 نکات کے تحت قومی سطح پر انسداد دہشت گردی کی کوششوں کی وضاحت کی گئی اور بتایا گیا کہ کس طرح پاکستان نے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرتے ہوئے انہیں افغانستان میں دھکیل دیا۔

اسی ضمن میں بین الااقوامی ادارے انٹرنیشنل فیزیشن فار دی پریوینشن آف نیوکلر وار کی پیش کردہ ایک علیحدہ رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 2003 سے 2015 کے دوران پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اپنے 48 ہزار 5 سو 4 شہریوں کی قربانی دی۔ فیکٹ شیٹ میں عالمی دہشت گردی انڈیکس (جی ٹی آئی) کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاک آرمی کے قبائلی علاقوں میں کامیاب آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردی سے متعلق واقعات میں 2014 کے بعد سے نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ نومبر 2017 میں شائع ہونے والی نیٹا سی کرافورڈ کی تصنیف اپ ڈیٹ آن دی ہیومن کاسٹس آف وار فار افغانستان اینڈ پاکستان، 2001 سے وسط 2016‘ میں اسلام آباد کے دعویٰ کی تصدیق کی گئی کہ پاکستان میں جنگ اس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ اور طالبان 2001 میں افغانستان سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے پاکستان کے شمالی خطے میں داخل ہوئے۔

مصنفہ کا کہنا تھا کہ جنگ میں پاکستان کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ نہیں لگایا گیا تاہم امریکی ڈرون طیاروں کے حملے سے تقریباً 2 ہزار 657 معصوم شہری نشانہ بنے۔ انہوں نے پاکستان کے موقف کی تائید کی کہ افغانستان میں عسکری آپریشن کے ثمرات پاکستان پر پڑتے ہیں۔ فیکٹ شیٹ میں بتایا گیا کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف عسکری آپریشن کے نتیجے میں ایک لاکھ شہری بے گھر ہوئے اور نقل مکانی پر مجبور ہوئے تاہم 15 برسوں میں 22 ہزار ایک سو شہری اور 8 ہزار 214 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار جاں بحق ہوئے جبکہ 40 ہزار 792 شہری جزوی زخمی یا مکمل معذوری کا شکار ہوئے۔

فیکٹ شیٹ میں امریکا کو آگاہ کیا گیا کہ صحافتی فرائض کی ادائیگی کے دوران 58 صحافیوں کے ساتھ ساتھ 92 سماجی رضا کار بھی اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے جبکہ 31 ہزار طالبان اور دیگر عسکریت پسند کو بھی ہلاک کیا گیا۔ جیمز میٹس نے حالیہ بیان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے نیٹو فورسز کے مقابلے میں زیادہ جانوں کی قربانی دی، جبکہ سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن نے بھی کم و بیش انہی الفاظ میں پاکستان کی قربانی کو سراہا تھا۔

دوسری جانب جنوبی ایشیا کے امور کے معروف امریکی اسکالر ماروین ویمبون نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے موقف اور امریکی حکام، میڈیا اور سماجی اداروں کے نقطہ نظر میں کوئی ‘ربط نہیں’ ہے ۔ ماروین ویمبون نے فیکٹ شیٹ کی افتتاحی تقریب جہاں 90 فیصد پاکستانی نژاد امریکی تھے، سے کہا کہ ‘پیغامات کا تبادلہ دو طرفہ نہیں ہو پاتا’۔
انہوں نے کہا کہ سفارتکار پاکستان کا نقطہ نظر امریکی کانگریس، میڈیا، این جی اوز، انتظامیہ کو بھرپور انداز میں پیش کرتے ہیں لیکن وہ اتنا پُر اثر ثابت نہیں ہوتا کہ متعلقہ ادارے اور شخصیات پاکستان کی کہانی سنیں۔ انہوں نے عالمی سطح پر پاکستانی موقف کی حمایت میں کمی کی بڑی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ امریکی ذرائع ابلاغ میں پاکستان سے متعلق خبریں اس زویہ سے پیش کی جاتی ہیں جس سے پاکستان کے لیے امریکی حلقوں میں منفی تصور پڑتا ہے۔

یہ خبر 9 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.
 

امریکا کا پاکستان پر انگلی اٹھانا درست نہیں، چین

0
0

چین نے پاکستان پر امریکی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان پر انگلی اٹھانا درست نہیں دہشت گردی کو کچلنے کی ذمہ داری کسی خاص ملک پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ بیجنگ میں پریس بریفنگ کے دوران چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لوکانگ نے کہا کہ امریکا کی جانب سے پاکستان پر انگلی اٹھانے اور اسے دہشت گردی سے منسلک کرنے کے مخالف ہیں، دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کی ذمہ داری تنہا پاکستان پر عائد نہیں ہوتی۔ ترجمان نے کہا کہ ہم نے کئی بار یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ عالمی دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا اور بڑی قربانیاں دیں.

 دنیا بھر کے ممالک کو باہمی اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کرنا ہو گا نہ کہ ایک دوسرے پر انگلی اٹھائی جائے، یہ عمل عالمی دہشت گردی کے خلاف کی گئی کوششوں کے لیے موزوں نہیں ۔  لوکانگ نے کہا کہ دہشت گردی عالمی برادری کے لیے ایک مشترکہ مسئلہ ہے اس لیے دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں بھی مشترکہ طور پر ہونی چاہئیں، چین ایسے ممالک کا دفاع کرتا ہے جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف درست اقدامات کیے، چین دہشت گردی کے خلاف ایسی تمام مشترکہ کوششوں کا خیر مقدم کرتا ہے جو باہمی اعتماد اور باہمی احترام کی بنیاد پر کی جائیں۔
 

ترکی، یورپ میں اسلام و فوبیا کے اسباب کو جاننے کی کوشش میں

0
0

ترک قومی اسمبلی نے یورپی ممالک میں مسلمانوں پر حملوں اور اسلام مخالف پراپیگنڈا کے خلاف ایک قدم اٹھایا ہے۔ اس دائرہ کارہ میں مغربی ملکوں میں اسلامی دشمنی کا جائزہ ذیلی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ کمیشن اسلامو فوبیا کے سب سے زیادہ عام ہونے والے ملکوں جرمنی، آسڑیا، فرانس اور بیلجیم کا دورہ کرتے ہوئے ان ممالک میں اس کے اسباب کو جاننے کی کوشش کرے گا۔
کمیشن مذکورہ ملکوں سے اجازت لیتے ہوئے جائے مقام پر تفتیش کرنے اور اسلام و فوبیا حملوں کے متاثرین سے ملاقاتیں کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ یورپ میں پر تشدد واقعات، اموری زندگی میں ہیڈ اسکارف اور برقعے کے خلاف امتیازی سلوک، عبادت کی آزادی اور مساجد کی بے حرمتی پر محیط دین ِ اسلام سے خوف کا ہر پہلو سے جائزہ لے گا۔ خیال رہے کہ مغربی ممالک میں 2016 تک 2800 سے زائد اسلام و فوبیا واقعات رونما ہوئے تھے جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد تین ہزار سے بھی زائد تھی۔
 

امریکی امداد کی بندش، فی الحال پاکستان کو کوئی خوف نہیں

0
0

مبصرین کے مطابق امریکی انتظامیہ کی طرف سے ایک ارب ڈالر کی فوجی امداد بند کیے جانے سے پاکستان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن اگر امریکا نے قرضے واپس مانگ لیے تو پاکستان کے پاؤں دلدل میں ہوں گے۔ گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ اسلام آباد حکومت عسکریت پسندو‌ں کے خلاف کافی اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے، جس کی وجہ سے اس کی فوجی امداد بند کی جا رہی ہے۔ رواں سال کے پہلے ہی دن صدر ٹرمپ کا ایک ٹویٹ میں کہنا تھا، ’’یہ ان دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کر رہے ہیں، جن کو ہم افغانستان میں نشانہ بنا رہے ہیں۔ بس، ایسا بہت ہو گیا۔ 

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس وقت فوجی ساز و سامان اور فنڈنگ کی مد میں پاکستان کے لیے دو ارب ڈالر کی رقوم خطرے میں ہیں۔ ایک اعلیٰ پاکستانی اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’امریکی امداد گزشتہ چند برسوں سے واضح طور پر کم ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود معیشت میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔ اب بیجنگ صرف ایک فون کال کے فاصلے پر ہے۔‘‘ اسلام آباد کے اس سفارت کار کا کہنا تھا کہ قلیل المدتی بنیادوں پر اس امریکی فیصلے کا اثر ’معمولی‘ ہو گا، ’’بین الاقومی امداد ملک کی معیشت کے لحاظ سے بہت زیادہ نہیں ہے، اس کا مطلب ہے کہ دباؤ محدود ہے۔‘‘

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے مطابق افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کے بعد سے امریکی امداد میں اضافہ ہوتا رہا اور سب سے زیادہ سالانہ امداد سن دو ہزار دس میں تین سے چار بلین ڈالر دی گئی، ’’اس کے بعد سے امداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔ گزشتہ برس یہ صرف سات سو پچاس ملین ڈالر تھی۔‘‘ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت کے لحاظ سے یہ بہت کم ہے۔ سال 2018 کی ابتدا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی 25.5 ملین ڈالر کی عسکری امداد بند کر دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے قبل امریکا، اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد بھی روک دینے کا اعلان کر چکا ہے۔ 

دوسری جانب امریکی حکام نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ان کے پاس پاکستان کے خلاف کئی دوسرے کارڈز بھی موجود ہیں، مثال کے طور پر آئی ایم ایف کے ذریعے قرضوں کی واپسی کا مطالبہ۔ ورلڈ بینک کے ماہر اقتصادیات محمد وحید کہتے ہیں کہ فی الحال پاکستان کی معیشت مستحکم ہے اور ترقی کر رہی ہے لیکن اس کی فنڈنگ ورلڈ بینک، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ایشیائی ترقیاتی بینک بھی کر رہے ہیں۔ یہ تمام وہ ادارے ہیں، جنہیں واشنگٹن حکومت بڑی مقدار میں قرضے فراہم کرتی ہے۔ محمد وحید کا کہنا تھا، ’’پاکستان کو بنیادی ڈھانچے کے مسائل، مثال کے طور پر کم انکم ٹیکس اور تجارتی خسارے جیسے مسائل کا سامنا ہے اور انہیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوئے ہیں اور اگر پاکستان اسی رفتار سے ترقی کرنا چاہتا ہے تو اسے مزید قرضوں کی ضرورت ہو گی۔ پاکستانی تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کے خلاف مزید اقدامات کا اشارہ دے چکا ہے، ’’امریکا اپنا اثر عالمی سلامتی کونسل سمیت آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک میں بھی استعمال کر سکتا ہے۔‘‘ دوسری جانب پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی چین کے ساتھ دوستی دیرینہ ہے اور وہ دن بہ دن مضبوط بھی ہوتی جا رہی ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا، ’’اگر امریکا دوبارہ دھمکیوں اور الزامات کا سلسلہ شروع کرتا ہے، تو ہمارے پاس کئی دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔‘‘ ان کا اشارہ چین کی طرف تھا، جس نے امریکی صدر کی طرف سے الزامات کے فوراﹰ بعد پاکستان کے حق میں بیانات جاری کیے تھے۔ چین پاکستان میں پہلے ہی تقریباﹰ ساٹھ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ چین پاکستان میں مزید کتنی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہے؟ تاہم مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ امداد کی معطلی امریکا کا ایک ’ناکام فارمولا‘ ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

برطانوی سیاحوں نے پاکستان کو سفر کے لئے بہترین ملک قرار دے دیا

0
0

برطانوی سیاحوں کی تنظیم برٹش بیک پیکرسوسائٹی نے پاکستان کوسفر کے لئے بہترین ملک قرار دے دیا ہے۔ برطانیہ کی بیک پیکر سوسائٹی قدرتی حسن کے خزانوں سے مالا مال پاکستان کے حسن میں کھو کر اس کی عظمتوں کا اعتراف کرنے پرمجبور ہو گئی ہے۔ بیک پیکر سوسائٹی نے دنیا بھر کے 20 ملکوں کو سفرکے لئے بہترین قرار دیا، جن میں پاکستان کو پہلا نمبر دیا ہے۔
ارکان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ خوبصورت اور ایڈونچرس مقامات موجود ہیں، جہاں پہنچ کرآپ کو احساس ہوتا ہے کہ پاکستان آپ کے خوابوں کی تعبیر ہے۔
سوسائٹی نے پاکستانی لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستانی دوستانہ مزاج رکھتے ہیں اورآپ کو احساس تک نہیں ہونے دیتے کہ آپ غیر ملکی ہیں، جو لوگ سیاحت کا شوق رکھتے ہیں انہیں پاکستان ضرور دیکھنا چاہیے۔

برطانوی سوسائٹی کے ارکان کا کہنا ہے گزشتہ 5 برسوں میں 80 ممالک کی سیر کی لیکن پاکستان میں قدرتی مناظر، پہاڑ، دریا، جھیلیں سب دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
 

بچوں کو موبائل فون سے دور رکھنے کیلئے فیچر زیر تکمیل

0
0

معروف امریکی کمپنی ’ایپل‘ نے سرمائے کاروں کے پر زور مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمپنی ایسے فیچر تیار کرنے میں مصروف ہے جس سے بچوں کو موبائل فون سے دور رکھنے میں مدد ملے گی۔ کمپنی کے مطابق وہ ایسے فیچر تیار کر رہی ہے جنہیں استعمال کر کے والدین اپنے بچوں کو آئی فون سمیت دیگر ڈیوائسز سے دور رکھنے سمیت انہیں محدود وقت تک اسمارٹ آلات استعمال کرنے کا پابند بنا سکیں گے۔ ایپل کو سرمایہ کار کمپنیوں ’یانا پارٹنرز اور کیلیفورنیا اسٹیٹ ٹیچرز‘ (کیلسٹرس) کی جانب سے آن لائن کھلا خط لکھا گیا تھا۔
 


کیا ہے ہمارے پاس، کچھ بھی تو نہیں

0
0

چہرے پر کمزوری اور تکلیف کے آثار، ہاتھوں اور سینے پر جھلسنے کے بعد گہرے زخم لیے مجید قمبرانی ہسپتال سے چھٹی ملنے کے بعد اپنی زمین پر پہنچے ہیں۔ وہی زمین جہاں اٹھارہ ماہ کی محنت کے بعد تیار ہونے والی گنے کی فصل، کٹ تو گئی ہے لیکن زمین پر ہی پڑی سوکھ رہی ہے۔ مجید قمبرانی میر پور خاص سندھ کے چھوٹے کاشتکار ہیں، یہ سوچ کر کہ شوگر ملیں چلیں گی اور وہ اپنا گنا بیچیں انھوں نے اپنی فصل کٹوائی تھی تاکہ رقم ملنے پر اپنا ادھار چکائیں اور بیٹی کی شادی کی تاریخ بھی مقرر کریں۔ لیکن سندھ کی بیشتر شوگر ملیں اکتوبر میں چلنے کے بجائے اب سے چند دن قبل چلنا شروع ہوئی ہیں۔

ملک بھر اور خصوصاً سندھ میں کسان، گنے کی مقررہ قیمت نہ ملنے اور شوگر ملیں نہ چلنے پر احتجاج کر رہے تھے۔ مجید بھی ایسے ہی ایک احتجاج میں شریک تھے، جہاں حالات سے دلبرداشتہ ہو کر انھوں نے خود کو آگ لگا کر مارنے کی کوشش کی۔ ان کی زندگی تو بچ گئی لیکن اُن کے جسم کے کچھ حصے جھلس گیا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مجید قمبرانی نے بتایا کہ 'بس جذبات میں، ٹینشن میں، پریشان تھا، مجبور تھا میں نے سوچا اس سے بہتر ہے مر جاؤں، جان چھٹ جائے گی۔ میرا بازو ایسے جل رہا تھا جیسے لکڑی کو آگ لگی ہو۔'
مجید قمبرانی کہتے ہیں کہ ’ہم اپنے بچوں سے زیادہ فصل کا خیال کرتے ہیں۔ اگر ملیں وقت پر چلیں تو ہمیں بھی کچھ رقم مل جائے۔ کچھ بھلا ہو جائے۔' اٹھارہویں ترمیم کے بعد زراعت کا محکمہ صوبائی حکومت کو ملنے کے بعد سے گندم اور گنے سمیت اجناس کی امدادی یا کم سے کم قیمت کا اعلان کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ قانون کے تحت سندھ کی شوگر ملوں میں گنے کی کرشنگ کا آغاز 15 اکتوبر سے شروع ہونا اور کرشنگ کے آغاز سے ایک ماہ قبل امدادی قیمت کا اعلان کرنا لازم ہے لیکن کسانوں کی جانب سے احتجاج کے بعد سندھ حکومت نے دسمبر میں گنے کی امدادی قیمت 182 روپے فی من مقرر کی۔ سندھ میں سات لاکھ ایکٹر زمین پر کھڑی گنے کی فصل تو پک کر تیار ہو گئی لیکن دوسری جانب شوگر ملیں گنا خریدنے کو تیار نہیں ہیں۔

کسانوں کے احتجاج کے بعد سندھ میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری نے شوگر ملیں فوری کھلوانے کا اعلان کیا لیکن شوگر ملیں نہ چلنے سے کاشتکاروں کو کافی نقصان ہوا ہے۔ کسانوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والی تنظیم فارمرز آرگنائیزیشن کونسل کے سندھ کے صدر جاوید جونیجو کہتے ہیں کہ یہ پہلی مرتبہ ہے جب سندھ میں شوگر ملوں نے جنوری میں کرشنگ شروع کی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’سندھ میں 29 میں سے 19 شوگر ملیں ایک بڑے گروپ کی ہیں، اس لیے اُن کی اجارہ داری ہے۔' جاوید جونجیو کہتے ہیں کہ شوگر ملیں کاشتکاروں کو سرکاری نرخ 182 روپے فی من بھی نہیں دے رہی ہیں اور دیر سے ملیں چلنے سے کاشتکاروں کو نقصان ہو رہا ہے۔

ادھر مجید قمبرانی بھی اپنے گنے کا وزن سوکھ کر آدھا رہ جانے پر بہت پریشان ہیں کیونکہ وزن کم ہونے سے اس کی قیمت بھی کم ملے گی۔ انھوں نے بتایا کہ ’دو سے تین لاکھ روپے خرچ آتا ہے، بیج ڈالتے ہیں کھاد لیتے ہیں ادھار پر، پیسے نہیں ملیں گے تو مقروض ہو جاؤں گا۔'  پنجاب حکومت نے گنے کی فی من امدادی قیمت 180 روپے مقرر کی تھی، جس کے بعد سندھ حکومت نے گنے کی امدادی قیمیت 182 روپے فی من مقرر کی۔ دوسری جانب شوگر ملز مالکان کا کہنا ہے کہ یہ قیمت بہت زیادہ ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ امدادی قیمت کے خلاف شوگر ملز سمیت دیگر فریقین نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ جاوید جونیجو کہتے ہیں کہ سندھ میں گنے کے کاشتکاروں کے مسائل گذشتہ آٹھ سال سے بڑھ رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’آٹھ سال پہلے جب چینی چالیس روپے فی کلو تھی تو یہ ہم سے ڈھائی سو روپے فی من گنا خریدتے تھے اب چینی پچاس روپے سے اوپر ہے اور یہ اب ایک سو بیاسی روپے فی من بھی دینا نہیں چاہتے۔ یہ جان بوجھ کر ہمارے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔' کسانوں کو گنے کی فی من قیمت کا معاملہ تو اب عدالت میں زیر سماعت ہے لیکن کاشتکاروں کا الزام ہے کہ شوگر ملز مالکان اور بااثر حکومتی افراد کے روابط کے سبب کسانوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ مجید قمبرانی کہتے ہیں کہ ’حکومت کو چاہیے ہمارے جیسے غریب کسانوں کا خیال کرے، کیا ہے ہمارے پاس، کچھ بھی نہیں ہے۔'

سارہ حسن
بی بی سی اردو، میر پور خاص
 

امریکی دھمکیاں اور ہماری معاشی پالیسیاں : ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی

0
0

امریکی صدر اور ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان دشمن بیانات، پاکستان کی امداد میں حالیہ کٹوتیوں اور مزید اقدامات کی دھمکیوں کے جواب میں وطن عزیز میں ایک مرتبہ پھر وہی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے جس پر گزشتہ 9 سے زائد برسوں سے عمل کیا جاتا رہا ہے یعنی امریکہ کے خلاف لفظی گولہ باری کرنا لیکن عملاً دہشت گردی کی جنگ میں ’’مزید اور کرو‘‘ کے امریکی مطالبے پر آخرکار سر تسلیم خم کرنا۔ یہ یقیناً ایک قومی المیہ ہے کہ معیشت پر امریکی انحصار کم کرنے کے لئے جو اقدامات بنیادی نوعیت کے حامل ہیں ان پر اب بھی بات کی ہی نہیں جا رہی۔ چنانچہ خدشہ ہے کہ سب کچھ پہلے جیسا ہوتا رہے گا۔

پاکستان میں حکومت، پارلیمنٹ اور مقتدر حلقوں کی جانب سے امریکہ کے خلاف جو تند و تیز بیانات دئیے جا رہے ہیں امریکہ ان کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ امریکہ کو اس بات کا احساس ہے کہ ہر قسم کی امریکی امداد کی بندش کے باوجود موجودہ مالی سال میں آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لئے بغیر پاکستان اپنی تمام بیرونی ذمہ داریاں پوری کر سکتا ہے۔ امریکہ یہ بات بھی خوب سمجھتا ہے کہ پاکستان کی امداد بند کرنے کے علاوہ ایسے بہت سے اقدامات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں جن کی وجہ سے پاکستانی معیشت بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔ یہ صورت حال اس لئے پیدا ہوئی کہ پاکستان میں مختلف حکومتوں نے نائن الیون کے بعد امریکی مشورے سے ایسی پالیسیاں اپنائیں جن کے نتیجے میں معیشت غیرمستحکم ہوئی اور بیرونی وسائل پر پاکستان کا انحصار محفوظ حد سے بڑھ گیا۔ یہ پالیسیاں اقتدار کو طول دینے، اقتدار حاصل کرنے اور ڈالر کے حصول کے لئے وضع کی گئی تھیں۔

گزشتہ 16 برسوں سے امریکی ایجنڈے کے مطابق دہشت گردی کی جنگ لڑتے چلے جانے سے پاکستانی معیشت کو 123؍ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔ اگر سپریم کورٹ اکتوبر 1999ء میں آمر پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے غیر قانونی اقدام کو سند قبولیت عطا کرنے کے ساتھ انتخابات کروانے کے لئے تین برس کا وقت نہ دیتی تو نائن الیون کے وقت پاکستان میں سول حکومت اقتدار میں ہوتی جو امریکی جنگ میں پاکستان کا سب کچھ دائو پر لگانے کا تباہ کن فیصلہ کر ہی نہیں سکتی تھی۔

پاکستان کا تجارتی خسارہ خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ جولائی 2016ء سے نومبر 2017ء کے 17 ماہ میں پاکستان نے 47.6؍ ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا کیا۔ اسی مدت میں 27.3؍ ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان آئیں چنانچہ جاری حسابات کا خسارہ تقریباً 18.5؍ارب ڈالر رہا۔ ان ترسیلات کا تقریباً 80 فیصد صرف چار ملکوں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، برطانیہ اور امریکہ سے آیا۔ اگر ان ترسیلات کا بڑا حصہ سرمایہ کاری کے لئے استعمال کیا جاتا تو معیشت کی شرح نمو تیز ہوتی اور برآمدات میں اضافہ ہوتا لیکن ان ترسیلات کو تجارتی خسارے کی مالکاری کے لئے استعمال کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اس خطرے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ آنے والے برسوں میں جب امریکہ کو افغانستان کی جنگ میں پاکستان کی مدد کی ضرورت مزید کم ہو جائے گی تو امریکہ اینٹی منی لانڈرنگ کی آڑ میں ان ترسیلات میں اچانک بڑی کمی کروا سکتا ہے۔ اس جھٹکے کو سنبھالنا پاکستان کی طاقت سے باہر ہو گا الا یہ کہ معاشی پالیسیوں میں فوری طور پر بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔ دریں اثناء جون 2017ء سے نومبر 2017ء کے 5؍ ماہ میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 3.5؍ ارب ڈالر کی کمی ہوئی تھی۔

مالی سال 2014ء اور مالی سال 2017ء کے 4؍ برسوں میں پاکستان کی مجموعی برآمدات تقریباً 88؍ ارب ڈالر تھیں۔ پاکستان نے اسی مدت میں چین کو صرف 7.62؍ ارب ڈالر کی برآمدات کیں جبکہ امریکہ و برطانیہ کو کی جانے والی برآمدات کا مجموعی حجم 20.1؍ ارب ڈالر تھا۔ اسی مدت میں پاکستان نے چین سے تجارت میں 36.4؍ ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ دکھلایا جبکہ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں رہا۔ چین اب سی پیک کے تحت پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے البتہ وہ بھاشا ڈیم کی تعمیر سے بھارت کی ناراضی کی وجہ سے پیچھے ہٹتا نظر آرہا ہے۔ 

پاکستانی برآمدات آج بھی 2011ء کی برآمدات سے کم ہیں۔ اس زبردست ناکامی کی وجوہات میں (1) وفاق اور چاروں صوبوں کا ٹیکس کی چوری ہونے دینا اور طاقتور طبقوں کو ٹیکسوں میں بے جا چھوٹ و مراعات دینا، چاروں صوبوں کا غیرمنقولہ جائیدادوں کے ڈی سی ریٹ مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانے سے انکار کرنا، انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کی مدد سے لوٹی ہوئی دولت کو بھی سفید ہونے دینا، دسمبر 2016ء میں ملک میں پراپرٹی کی خریداری میں کالے دھن کے استعمال کی اجازت دینا اور ان سے ہونے والے اقدامات کو کم کرنے کے لئے پیٹرول، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھاتے چلے جانا (2) زراعت کے شعبے کو نظرانداز کرنا اور (3) ہائی ٹیک بڑھانے میں مختلف وجوہات کی بناء پر دلچسپی نہ لینا شامل ہیں۔ اگر پاکستان تجارتی خسارے کو پورا کرنے کے لئے ترسیلات پر انحصار برقرار رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہتا ہے تو وہ کبھی بھی امریکہ کے سامنے سر نہیں اٹھا سکے گا۔

امریکہ کو اب بھی دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے چنانچہ وہ فی الحال پاکستان کے خلاف انتہائی اقدام اٹھانے سے اجتناب کر رہا ہے۔ حکومت پاکستان موجودہ مالی سال میں امریکی امداد کی مکمل بندش کے باوجود آئی ایم ایف سے قرضہ لئے بغیر اپنی تمام بیرونی ذمہ داریاں پوری کر سکتی ہے چنانچہ ملک میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لئے امریکہ کو دندان شکن جواب دے رہی ہے مگر ساتھ ہی بیک ڈور ڈپلومیسی بھی جاری ہے کیونکہ اگست 2018ء میں پاکستان کو امریکہ کی سفارش پر ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہو گا۔

دریں اثنا سیاسی افراتفری، اداروں میں ٹکرائو، معیشت کی تنزلی، امریکہ کے انتہائی معاندانہ رویہ اور بے یقینی کی صورت حال سے جو بحرانی کیفیت وطن عزیز میں پیدا کر دی گئی ہے اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر غورکیا جا رہا ہے جس کے تحت پاکستان سے لوٹ کر یا ٹیکس چوری کر کے جو دولت ملک سے باہر منتقل کی گئی تھی اس کو واپس لانے پر معمولی ٹیکس ادائیگی پر معافی دے کر سفید بنا دیا جائے۔ یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ وطن عزیز میں ایک درجن سے زائد ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں آچکی ہیں مگر چونکہ ملک میں معیشت دستاویزی نہیں ہے اس لئے وہ ناکام رہیں البتہ لوگوں کو لوٹی ہوئی دولت سفید بنانے کے مواقع وقتاً فوقتاً ملتے رہے۔

وفاقی و صوبائی حکومتوں، پارلیمینٹ، صوبائی اسمبلیوں اور قومی سلامتی کمیٹی کا یہ قومی فریضہ ہے کہ وہ فوری طور پر ایک ایسی حکمت عملی پر اتفاق رائے پیدا کریں جس کے تحت کسی بھی بڑے داخلی یا بیرونی جھٹکے سے معیشت کو محفوظ رکھا جا سکے اور اگست 2018 یا اس کے بعد آئی ایم ایف سے قرضہ لئے بغیر گزارا کیا جاتا رہے۔ ریاست کے تمام ستونوں کو اس ضمن میں کردار ادا کرنا ہو گا۔ امریکہ تو اس وقت کا انتظار کر رہا ہے جب اس جنگ میں اسے پاکستان کی مدد کی ضرورت نہ رہے مگر ہم اس مہلت کو وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی پالیسیاں برقرار رکھ کر ضائع کر رہے ہیں۔ ہمیں اس وقت سے خوف آتا ہے جب دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں امریکہ کو عملاً پاکستان کی مدد کی ضرورت نہیں رہ جائے گی اور پاکستان قرضے کے تجارتی پیکیج کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرے گا۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
 

ڈالر کی جگہ چینی کرنسی یوآن میں تجارت، پاکستان کو فائدہ ہو گا یا نقصان؟

0
0

پاکستان نے برآمدات، در آمدات، سرمایہ کاری اور دو طرفہ تجارت کے لیے چینی کرنسی یوآن کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔ اقتصادی ماہرین کی رائے میں یہ عمل سی پیک منصوبے میں بھی مدد گار ثابت ہو گا۔ چین نے پینتیس سے چالیس ممالک کے ساتھ ’کرنسی سواپ‘ کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ممالک ایک دوسرے کی کرنسی میں تجارت کر سکتے ہیں۔ چین اور پاکستان نے بھی اس معاہدے پر 2012ء میں دستخط کیے تھے۔ جب سی پیک منصوبہ شروع ہوا تو چین اور پاکستان کے درمیان تجارت کے حجم میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا اور پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ چین اور پاکستان کی تجارت ڈالر کے بجائے یوآن میں ہو گی۔

اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے اسکول آف سوشل سائنسز اینڈ ہیومینٹیز کے پرنسپل اور ڈین ڈاکٹر اشفاق حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’چین پاکستان سے 1.8 ارب ڈالر مالیت کی اشیا درآمد کرتا ہے جب کہ پاکستان چین سے لگ بھگ 11 ارب ڈالر مالیت کی اشیا درآمد کرتا ہے، تو حکومت سوچ رہی تھی کہ اس فرق کو کیسے دور کیا جائے؟ اب دونوں ممالک کے مابین ’تجارتی سیٹیلمنٹ‘ یوآن میں ہو گی۔‘‘ حسن کہتے ہیں کہ پاکستان چین سے قرضہ لے تو ہو سکتا ہے کہ وہ ڈالر کے بجائے یوآن میں لے اور یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں پاکستان یورپ میں یورو بانڈز کے بجائے یوآن بانڈز ہانگ کانگ میں متعارف کرائے اور اس پیسے کو ’ٹریڈ سیٹیلمنٹ‘ کے لیے استعمال کرے۔

ڈاکٹر حسن نے مزید کہا کہ اس عمل سے مستقبل میں پاکستان میں ڈالر کی مانگ کم ہو گی۔ ان کا کہنا تھا، ’’چین اور روس بھی یوآن میں تجارت کرتے ہیں۔ اس وقت چالیس سے پچاس فیصد تجارت یوآن میں ہو رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تجارت یوآن میں منتقل ہو رہی ہے اور اسی لیے عالمی سطح پر ڈالر کی مانگ میں کمی آئی ہے۔‘‘ چینی کرنسی کا شمار اب ’انٹرنیشنل ریزرو کرنسی‘ میں ہوتا ہے۔ قبل ازیں آئی ایم ایف نے برطانوی پاؤنڈ، جاپانی ین، امریکی ڈالر، اور یورو کو اس زمرے میں شمار کر رکھا تھا تاہم اب اس میں یوآن بھی شامل ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر حسن کے مطابق جن ملکوں کو ڈالر کی وجہ سے اقتصادی دباؤ کا سامنا ہوتا تھا وہ اب چینی کرنسی یوآن میں تجارت کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کے نامور ماہر اقتصادی ماہر ثاقب شیرانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’حکومت اس عمل کے ذریعے پاکستان اور چین کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانا چاہتی ہے۔ اس وقت پاکستان اور چین کی مشترکہ تجارت اور سرمایہ کاری 14 ارب ڈالر کے قریب ہو رہی ہے۔ اس میں سے صرف دو طرفہ تجارت کا حجم 12.2 ارب ڈالر ہے۔ چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور سی پیک کی وجہ سے چین پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔‘‘

شیرانی کے مطابق دو طرفہ تجارتی حجم اور گزشتہ بارہ ماہ کے دوران پاکستان میں غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کے باعث حکومت کی طرف سے یہ فیصلہ صحیح وقت پر کیا گیا ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان کے ’بیلنس آف پیمنٹس‘ کو فائدہ ہو گا۔ ثاقب شیرانی یہ بھی کہتے ہیں کہ یوآن میں تجارت کرنے سے سی پیک منصوبے میں شامل دونوں ممالک کے مشترکہ منصوبوں کے لیے تجارت میں بھی آسانی ہو گی۔ اس کے علاوہ پاکستان بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے بھی امریکی ڈالر کے علاوہ یوآن بھی استعمال کر سکے گا۔ مستقبل میں پاکستان چین کے بینکوں اور دیگر فنانشل ادروں سے یوآن کرنسی میں قرضہ بھی لے سکے گا۔

بشکریہ DW اردو
 

’’میں ایک لڑکی ہوں‘‘ زینب کا آخری ہوم ورک

0
0

میں ایک لڑکی ہوں، میرا نام زینب ہے‘ قصور میں اغواء اور زیادتی کے بعد بہیمانہ انداز میں قتل ہونے والی 7 سالہ زینب کی اسکول کی کاپی پر لکھے یہ جملے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ننھی زینب کو گزشتہ روز آہوں اور سسکیوں میں سپردخاک کر دیا گیا۔ صرف قصور شہر ہی نہیں، پورا ملک ننھی زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم اور ناانصافی پر سراپا احتجاج ہے۔

زینب کے گھر والوں پر گزرنے والی قیامت کا اندازہ کوئی بھی دل رکھنے والا انسان کر سکتا ہے۔ ننھی زینب کی کتابیں اور کاپیاں اسی طرح اس کے بیگ میں موجود ہیں جن پر 4 جنوری تک کا ہوم ورک موجود ہے۔ یہ وہی روز ہے جب زینب اغواء ہوئی اور پھر کبھی لوٹ کر گھر واپس نہ آئی۔
 

انڈین سپریم کورٹ کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا

0
0

آزاد ہندوستان میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ ہندوستان کی عدالتِ اعظمیٰ کے کورٹ نمبر 2 میں بیٹھے جسٹس چلامیشور صبح ساڑھے گیارہ بجے اچانک عدالت کی کارروائی ختم کیے بغیر اٹھ گئے۔ جلد ہی جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کریان جوزف جو کورٹ نمبر تین چار اور پانچ میں بیٹھے تھے وہ بھی اپنی کرسی سے اٹھ کے چیمبر میں چلے گئے۔ عدالتی رہداریوں میں افوائیں تھیں کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی ایک پریس کانفرنس ہونے جا رہی ہے جس کی جلد ہی میڈیا رپورٹس نے بھی تصدیق کر دی۔
دوپہر 12 بجے تک بار رومز اور کینٹین وکیلوں سے بھرنے شروع ہو گئے۔ ایک دو کے سوا سبھی عدالتیں دن کے کیسوں کا کوٹہ ختم کیے بغیر اُس وقت تک اٹھ گئی تھیں۔ عدالتی رہداریوں میں شور تھا کیونکہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں ایسا کبھی بھی نہیں ہوا تھا کہ سب سے سینیئر جج میڈیا سے بات کریں یا پریس کانفرنس بلائیں۔ اِس کانفرنس میں ججوں نے ایک خط جاری کیا جس میں چیف جسٹس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ کیسز غلط طریقے سے باقی کے ججوں کو دیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ اس خط میں کوئی مثال نہیں دی گئی لیکن اشاروں میں سب سمجھ آ گیا۔

کچھ مہینے پہلے چیف جسٹس آف انڈیا نے اپنی بینچ کے سامنے ایک معاملہ سماعت کے لیے پیش کیا تھا جو دوسرے ججوں کی بینچ کے سامنے چل رہا تھا اور اُس میں سماعت بھی ہو چکی تھی۔ یہ مقدمہ میڈیکل کونسل میں رشوت سے متعلق تھا۔ اِس بات کا بھی ذکر صاف الفاظ میں نہیں کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس روسٹر سسٹم کا خیال کیے بغیر اپنی مرضی کے ججوں کو حساس کیس دے دیتے ہیں۔ خط میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سینیئر ججوں کو چننے کے لیے ایک میمورینڈم آف پروسیجر آج تک بنایا ہی نہیں گیا ہے اور اسے ٹالا گیا ہے۔ اِس پریس کانفرنس نے کئی سوال اٹھائے ہیں۔

اِس خط میں کئی ایسی باتیں ہیں جو اِس جانب سوال اٹھاتی ہیں کہ کیا سپریم کورٹ ایک غیر جانبدارانہ پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ ایسے کئی لوگ ہیں جو اِن چار ججوں کی اِس پریس کانفرنس پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اِس نے عدالت کے تقدس کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو اِسے بہت بہادری کا اقدام کہہ رہے ہیں کیونکہ اِن ججوں کی اپنی ساکھ پر کئی سوال کیے جا سکتے ہیں۔ اِس سب کے باوجود ہندوستان کی سپریم کورٹ کے منصفوں نے عدالت کی عزت بچانے کے لیے بولنے کا فیصلہ کیا۔ اِسے جو بھی کہا جائے ایک بات صاف ہے کہ عدالتِ اعظمیٰ نقائص سے پاک نہیں ہے۔ سپریم کورٹ میں جو ہوا وہ ایک اندورنی خلش تھی جو اب دنیا کے سامنے آ گئی ہے۔

سیما راؤ
وکیل، انڈین سپریم کورٹ
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live