Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

انڈیا پاکستان بارڈر پر 200 فٹ بلند پاکستانی پرچم

0
0

پاکستان نے صوبہ پنجاب میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان گنڈا سنگھ بارڈر پر 200 فٹ بلندی پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بانی پاکستانی محمد علی جناح کے یوم پیدائش کے موقع پر گنڈا سنگھ بارڈر پر منعقدہ تقریب میں پرچم لہرایا گیا۔ خیال رہے کہ انڈیا نے رواں برس مارچ میں لاہور سے متصل اٹاری سرحد پر 360 فٹ بلند پول نصب کر کے اس پر جھنڈا لہرایا تھا جبکہ اسی سال اگست میں پاکستان کی جانب سے اٹاری کے بالکل سامنے واہگہ سرحد پر 380 فٹ اونچے پول پاکستانی پرچم نصب کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ مارچ میں اٹاری سرحد پر انڈیا کی جانب سے 360 فٹ اونچے پول پر نصب 120 فٹ لمبا اور 80 فٹ چوڑا لہرایا گیا تھا۔ یہ پرچم کئی بار تیز ہواؤں کی وجہ سے پھٹا اور نصب کیے جانے کے بعد حکام کو ایک ماہ کے عرصے میں تین بار سوا لاکھ انڈین روپے کی لاگت سے تین بار پرچم کو تبدیل کرنا پڑا تھا۔ اس مسئلے کے بعد مقامی سطح پر مطالبات کیے گئے کہ پرچم کی کوالٹی کو بہتر بنایا جائے تاکہ یہ نہ پھٹے یا پھر تکنیکی رپورٹ طلب کی جائے تاکہ تیز ہواؤں کے باعث پرچم پھنٹے کے واقعات نہ ہوں۔
 


قائد اعظم محمدعلی جناح کی بلوچستان سے محبت

0
0

قائد اعظم محمد علی جناح کو بلوچستان اور اہل بلوچستان سے خاص لگاؤ اورانس تھا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں اس صوبے کے متعدد دورے کیے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے بلوچستان کے دوروں کا آغاز 1934 کے وسط سے ہوا تھا، اس وقت انہوں نے صوبے میں تقریبا ًدو ماہ قیام کیا، اس کے بعد قائد اعظم نے کوئٹہ اور زیارت کے علاوہ مستونگ، قلات، پشین، ڈھاڈر اورسبی سمیت اندرون صوبہ کئی دورے کیے۔ بانی پاکستان کے بلوچستان سے تعلق اور محبت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے مشہور 14 نکات میں اس صوبے میں اصلاحات کا مطالبہ بھی شامل تھا ۔

جناح کیپ کے نام سے شہرت پانے والی اور بابائے قوم کی شخصیت کا حصہ بن جانے والی قراقلی ٹوپی بھی انہیں کوئٹہ ہی میں پیش کی گئی تھی۔ قائد اعظم نے بلوچستان سے اپنی محبت کا ثبوت قیام پاکستان کے بعد فروری 1948 میں سبی میں پہلے سالانہ دربار میں طبیعت کی خرابی کے باوجود شرکت کر کے بھی دیا ۔
بابائے قوم نے زندگی کے آخری ایام زیارت کے پر فضا مقام پر واقع ریزیڈینسی میں ہی گزارے ، وہ قیام پاکستان سے قبل جدوجہد آزادی اور بعد میں نوزائیدہ مملکت کے امور بھی یہاں سے چلاتے رہے، یہی وجہ ہے کہ زیارت ریذیڈینسی کو قومی ورثہ قرار دے کر قائداعظم سے ہی منسوب کر دیا گیا، ان کی یہ قیام گاہ اہل بلوچستان کے لیے یقینا ًایک بیش بہا اثاثہ ہے۔

ان کی بلوچستان سے محبت اور انس کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام زیارت میں گزارے، علالت کے باوجود قائد نےکسی بڑے شہر جانے کی بجائے زیارت کو ترجیح دی، زیارت میں وقت گزارنا بلوچستان اور یہاں کے لوگوں سے قائد کی محبت کا مظہر ہے۔ نواب ثناء زہری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے بڑی قربانیوں کے بعد یہ ملک حاصل کیا ہے، بلوچستان سمیت ملک بھر کےعوام کسی صورت ملک کے اتحاد اور سلامتی کو خطرے میں پڑنے نہیں دیں گے، ہم سب مل کر پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے۔انہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ ملک میں رواداری اور جمہوریت کو فروغ دے کر ہی قائد کو خراج عقیدت کا حق ادا کیا جا سکتا ہے اور آج قائد کے زرین اصولوں پرچلتے ہوئے ملک کو درپیش چیلنجوں کا سامنا کر سکتے ہیں۔

راشد سعید
 

کلبھوشن کی اہلیہ کے جوتے میں ریکارڈنگ چپ یا کیمرا تھا

0
0

دفترخارجہ نے کہا ہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کی اہلیہ کے جوتوں میں کچھ مشکوک محسوس ہوا تھا اس لیے جوتا واپس نہیں کیا تاہم باقی تمام سامان اور جیولری واپس کر دی، جوتے میں ریکارڈنگ چپ یا کیمرا تھا جس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹر فیصل نے اپنے بیان میں کہا کہ کلبھوشن کی اہلیہ کے جوتے کی چھان بین کی جا رہی ہے ان کو متبادل جوتا فراہم کر دیا گیا تھا، ان کے جوتے میں میٹل کی کوئی چیز تھی جوتے میں میٹل کی انکوائری کی جا رہی ہے کہ وہ ریکارڈنگ چپ تھی یا کیمرا تھا۔

میں نے بینظیر بھٹو کی تصویریں باہر پھینک دی ہیں

0
0

وحید احمد کی اہلیہ مجھے اپنے چھوٹے سے کمرے میں ایک دیوار پر لگی میخیں دکھاتے ہوئے بتا رہی تھیں کہ یہاں پہلے بینظیر بھٹو کی تصویریں آویزاں تھیں۔
اسی دیوار پر ایک گھڑی تھی جس میں وقت نجانے کب سے رُکا ہوا ہے۔ کمرے میں کچھ چارپائیاں اور ایک طرف چولہا تھا جو سوئی گیس نہ ہونے کی وجہ سے بند رہتا ہے۔ ان کا یہ کرائے کا چھوٹا سا گھر راولپنڈی کے محلے ڈھوک رتہ کی تنگ سی گلیوں میں واقع ہے۔ اس خاندان کی تباہی کا سفر 27 دسمبر 2007 کو شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ 'میرے شوہر پہلے برگرز بیچتے تھے اور ہمارا گزر بسر ہو جاتا تھا، بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے اور سفید پوشی کی زندگی گزر رہی تھی۔‘
27 دسمبر کو ان کے شوہر معذور ہوئے، بچوں کی تعلیم کا سلسلہ ختم ہوا، تمام جمع پونجی علاج پر لگ گئی اور نوبت فاقوں تک پہنچ گئی۔ وحید احمد بتاتے ہیں 'ہم 27 دسمبر کو بینظیر بھٹو کے آخری جلسے میں گئے اور دھماکے میں میری ٹانگ پر زخم آیا۔ ڈاکٹروں نے میری ایک ٹانگ کاٹ دی کہ کینسر پھیل جائے گا، دوسری بھی تقریباً ضائع ہو چکی ہے‘۔ وحید احمد کہتے ہیں کہ دس سال تک ان کا علاج ہوتا رہا۔ 'پیپلز پارٹی میں سے کسی نے مدد نہ کی۔ سارا علاج خود کرایا۔ کسی بھی زخمی کی مدد نہیں کی گئی۔ کسی نے پلاٹ بیچا اور کسی نے قرض اُدھار لے کر علاج کرایا۔ کئی زخمی اس لیے مر گئے کہ ان کا علاج نہ ہو سکا‘۔

وحید احمد 1970 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ بطور کارکن منسلک رہے ہیں لیکن اب وہ اس جماعت کی قیادت سے سخت نالاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان سمیت سب زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے کئی وعدے کیے گئے مگر کوئی وعدہ وفا نہیں ہوا۔ وحید احمد کہتے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کی خاطر دو مرتبہ جیل گئے۔ 'مجھے اس جماعت سے عشق تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کو مانتا تھا۔ لیکن اب میں نے پیپلز پارٹی کو چھوڑ دیا ہے۔ صرف اس محلے میں ہی سینکڑوں پارٹی کارکن تھے، اب کوئی پیپلز پارٹی کو یاد بھی نہیں کرتا‘۔

راولپنڈی میں موجود پیپلز پارٹی کے ان پرانے کارکنوں سے بات چیت کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس جماعت کی قیادت اور کارکنان کے بیچ ایک بڑی خلیج حائل ہو چکی ہے۔ رابطوں کا فقدان اور خاص طور پر ستائیس دسمبر کو زخمی ہونے والے کارکنوں کو اُن کے حال پر چھوڑنے کے اس قدر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں کہ یہاں کے عوام یا تو کسی بھی جماعت کی حمایت نہیں کرتے، یا وہ پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں بٹ گئے ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کا وجود دِھیرے دِھیرے ختم ہو رہا ہے۔

اسی محلے میں ہماری ملاقات اختر سعید سے بھی ہوئی جو پیپلز پارٹی کے کارکن بھی ہیں اور یونین کونسل کی سطح پر عہدیدار بھی ہیں۔ وہ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں اور قیادت سے کچھ خفا بھی ہیں۔ 27 دسمبر کو ان کے پیٹ میں گولی لگی تھی اور وہ کہتے ہیں کہ ان کے علاج میں پارٹی نے مدد کی۔ جس کی ایک وجہ شاید ان کی اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ علیک سلیک تھی جو غریب ریڑھی بان وحید احمد کی پہنچ سے باہر تھی۔ اس سوال پر کہ وہ اور دیگر کارکنان بینظیر بھٹو کی کمی محسوس کرتے ہیں یا نہیں، محمد سعید نے بتایا کہ 'بی بی کی شہادت کے بعد یہ خلا پُر کرنا ناممکن ہے، وہ ہماری لیڈر تھیں، آج وہ زندہ ہوتیں تو پارٹی ورکرز کے حالات مختلف ہوتے‘۔

پیپلز پارٹی کے یہ کارکنان بینظیر بھٹو حملہ کیس میں عدالتی فیصلے سے مایوس ہیں اور قاتلوں تک نہ پہنچنے کا ذمہ دار بھی وہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت ہی کو ٹھہراتے ہیں۔ اختر سعید نے بتایا کہ ان سے عام لوگ سوال کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنے پانچ برسوں میں قاتلوں کو پکڑنے میں کیوں ناکام رہی تو ان کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ جب ان کارکنوں سے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف ہوا ہے تو وحید احمد کا کہنا تھا 'انصاف نہیں ہوا، میں نے اپنی پوری زندگی اس پارٹی کو دی لیکن نہ ہمارے ساتھ انصاف ہوا، نہ بی بی کے ساتھ انصاف ہوا'۔ یہی سوال جب وحید احمد کی اہلیہ سے کیا تو وہ دیوار پر لگی خالی میخوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے غصے سے بولیں 'انصاف؟ میں نے بینظیر بھٹو کی تصویریں باہر پھینک دی ہیں۔ دس سال کوئی ہماری خبر لینے نہیں آیا۔ میرا گھر تباہ ہو گیا لیکن کسی نے حال تک نہیں پوچھا۔ یہ کیا انصاف دیں گے‘۔

فرحت جاوید
بی بی سی اردو، اسلام آباد
 

موسیقی و رقص کے کلاسیں اب اسکولوں میں

0
0

پاکستان کے مسلمانوں کو progressive اور لبرل بنایا جا رہا ہے تا کہ امریکا و یورپ کسی طرح خوش ہو جائیں۔ لیکن جو مرضی کر لیں اسلام کو نہیں بدلا جا سکتا ۔ اور ہاں جنہیں خوش کرنے کے لیے یہاں رہنے والے مسلمانوں کو جدّت پسندی اور روشن خیالی سیکھائی جا رہی ہے وہ بھی کبھی مطمئن نہیں ہوں گے تا وقت کہ دین اسلام کو ہی خیر باد کہہ دیا جائے۔ ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے قومی کلچر پالیسی کا مسودہ تیار کیا ہے جس کے تحت ملک بھر کے اسکولوں میں جماعت اول سے میٹرک تک کے نصاب میں موسیقی، رقص اور مصوری بطور مظامین شامل کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔ 

خبر کے مطابق اس پالیسی کا مقصد’’ قومی ثقافت‘‘ کو محفوظ بنانا ہے جبکہ اس پالیسی کی تیاری کے لیے پاکستان بھر سے نامور اداکاروں، فنکاروں اور ہنر مندوں سے مشاورت کی گئی۔ کوئی پوچھے ناچ گانے کا ہماری ثقافت سے کیا تعلق کہ اسکولوں میں بچوں کو اب میوزک اور رقص سیکھایا جائے گا۔ اگر یہ کلچر کسی کا تھا تو وہ اُس مخصوص طبقہ کا جن کا تعلق حسن کے بازاروں سے ہوتا تھا اور جن کو معاشرہ کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا تھا۔ ہمارے دین میں تو ایسی ثقافت کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں لیکن اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں ایسی روشن خیالی اور لبرل ازم کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جو امریکا و یورپ کے لیے تو قابل قبول ہو سکتا ہے لیکن اُس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ اسلام تو اپنے پیروکاروں کو ایسے گناہ کے کاموں سے سختی سے روکتا ہے۔ 

میڈیا کے ذریعے ناچ گانے کو تو ہر ایک گھر میں پہلے ہی پہنچا دیا گیا ہے اور اب قومی کلچر پالیسی کے نام پر موسیقی اور رقص کی باقاعدہ تعلیم بھی دی جائے گی۔ اس پالیسی کے بنانے میں اداکاروں، فنکاروں وغیرہ نے اپنا کردار ادا کیا جو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن جو سرکاری افسران اور سیاسی افراد اس کام میں شامل ہیں کیا اُن میں سے کسی کے اپنے گھر یا خاندان کا وہ کلچر ہے جسے ـ’’قومی کلچر پالیسی‘‘ کے نام پر وہ پوری قوم پر مسلط کرنے کی حکمت عملی بنا رہے ہیں؟ پہلے ہی یہاں حالات بہت خرابی کی طرف گامزن ہیں۔ 

ابھی چند روز قبل ہی میں نے سوشل میڈیا پر اسلامی اسکالرز ڈاکٹر ذاکر نائیک اور مفتی تقی عثمانی صاحب کا یہ پیغام کہ مسلمانوں کو Merry Christmas نہیں کہنا چاہیے، شیئر کیا لیکن اُن کی بات پر توجہ دینے کی بجائے بہت سے دیسی لبرلز میرے ہی پیچھے پڑ گئے۔ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عسکری قیادت بھی Merry Christmas کا کیک کاٹتے ہوئے دیکھائی دی۔ بہت لوگ کہتے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ بھی بحث کی جاتی ہے کہ ایسا کرنے کا مقصد تو بین المذاہب ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو معاشرہ میں پروان چڑھانا ہے۔

چند برسوں سے ہمارے سیاسی رہنما ہندوئوں کے ساتھ عبادت کرتے اور اُن کی مذہبی رسومات میں حصہ لیتے دیکھائی دیئے۔ کرسمس کے موقع پر کیک کاٹنا اور مسیحی برادری کی مذہبی رسومات میں شامل ہونےکا بھی اب رواج زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اسلامی ریاست میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو اُن کے حقوق دیئے جائیں، اُن سے اچھا برتائو کیا جائے، اُن کی عزت و آبرو اور جان و مال کا تحفظ کیا جائے، اُ نہیں تعلیم و صحت کی سہولتیں میسر کی جائیں اور اُن سے کسی قسم کی ناانصافی سے گریز کیا جائے اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے لیکن مغرب کی دیکھا دیکھی مختلف مذاہب کے رسومات جن کا تعلق faith سے ہے انہیں کلچر کا درجہ دے کر مسلمانوں کے لیے منانا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور یہی بات اسلامی اسکالرز کہتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل اسی موضوع پر محترم جسٹس مولانا تقی عثمانی نے ایک کالم جنگ اخبار کے لیے لکھا جس کے کچھ اقتباسات یہاں قارئیں کرام کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں :’’اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو شائستگی کے دائرے میں اپنے مذہبی تہوار منانے کا پورا حق حاصل ہے، اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں نہ خود کوئی رکاوٹ ڈالے، نہ دوسروں کو ڈالنے دے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان کی وہ مذہبی رسمیں جو ان کے عقیدے پر مبنی ہیں، ان میں کوئی مسلمان انہی کے ایک فرد کی طرح حصہ لینا شروع کر دے.

غیر مسلموں کے ساتھ رواداری، حسن وسلوک اور ان کی باعزت اور آرام دہ زندگی کا خیال رکھنا ضروری ہے اور مستحسن ہے، لیکن ہر چیز کی کچھ حدود ہوتی ہیں اور ان حدود سے آگے نکلنے ہی سے انتہا پسندی کی قلمرو شروع ہوتی ہے۔غیر مسلموں یا ان کی عبادت گاہوں پر حملے کرنا، یا ان کے اپنے مذہب پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالنا یقیناً گناہ اور قابل مذمت ہے، لیکن کسی مسلمان کا ان کے عقیدوں پر مبنی رسوم میں شریک ہونا بھی ناجائز اور قابل مذمت ہے۔ اعتدال کا راستہ افراط و تفریط کی انتہائوں کے درمیان سے گزرتا ہےـ‘‘

انصار عباسی
 

انٹرنیٹ، بچے اور بڑوں کی ذمہ داری

0
0

اگرچہ یہ انٹرنیٹ کا دور ہے، کاغذ اور قلم کا استعمال بتدریج کم ہو رہا ہے، عملی زندگی میں یہ ضرورت بھی بن چکا ہے لیکن انٹرنیٹ کا بلا ضرورت اور بے تحاشا استعمال طالب علموں، باالخصوص پرائمری اور ثانوی تعلیم کے بچوں اور نوجوانوں کو کتب بینی، لکھنے لکھانے اور دوسری مثبت سرگرمیوں سے دور لے جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کا 70 فیصد استعمال بچے کر رہے ہیں اور بچوں کی محفوظ آن لائن مواد تک رسائی بڑھانے کے لیے بہت کم اقدامات کئے گئے ہیں یہ صورت حال پوری قوم بالخصوص تعلیمی حلقوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بچوں کی اکثریت ایسا مواد تلاش نہیں کر سکتی جو ان کی سمجھ میں آئے یا ان کی ثقافت کے مطابق ہو۔ وڈیو گیمز اور غیر اخلاقی مواد کے باعث ان کی ذہنی پرداخت متاثر ہو رہی ہے کھیل کے میدان اور پارک ویران ہو کر رہ گئے ہیں نوجوانوں کی زندگی نیند اور انٹرنیٹ کے درمیان محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق تیرہ سال تک کی عمر کا عرصہ پڑھنے لکھنے کی بنیاد بنتا ہے اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے پرائمری اور مڈل سطح کے نصاب کی تشکیل ہوتی آئی ہے، لائبریری کلچر نے لکھاری اور قاری پیدا کئے جس سے ماضی کی نسلوں کے درمیان خلا پیدا نہیں ہونے پایا۔ 

آج چھوٹے بڑوں کے ہاتھوں میں موبائل اور انٹرنیٹ کا بے مقصد استعمال تشویش ناک ہے یہ رجحان نئی نسل کو تیزی سے بربادی کی طرف لے جا رہا ہے اعلیٰ تعلیم، یہاں تک کہ سول سروسز کا معیار گر چکا ہے۔ اس بارے میں قومی اورانفرادی سطح پر سوچ بچار کی ضرورت ہے بچے نا سمجھ ہیں لیکن بڑے تو سمجھ رکھتے ہیں۔ بچوں کے ہاتھوں میں کاغذ اور قلم دیا جائے کمپیوٹر کا استعمال ضروری ہے لیکن یہ اختیاری مضامین کی طرح ہونا چاہیئے۔ پرائمری تا ثانوی سطح تک کتب بینی اور لکھنے لکھانے کے کلچر کو اس طرح فروغ دیا جائے کہ آنے والی نسلیں جڑی رہیں۔

اداریہ روزنامہ جنگ

بہت قربانیاں دیں، مزید کسی کے لیے کچھ نہیں کر سکتے

0
0

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک کو تباہ کر دیا گیا ہے اور اس حوالے سے امریکی اور افغان عہدیداروں کے الزامات میں صداقت نہیں ہے۔ اُنھوں نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ حال ہی دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے حوالے سے امریکہ کی طرف سے ’’دھمکی آمیز‘‘ بیان بھی سامنے آیا ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں ’’ہم نے کافی کیا ہے اور ہم کسی کے لیے مزید کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستانی وزارت خارجہ اپنے ملک کا موقف امریکہ کے سامنے رکھ چکے ہیں۔

فوج کے ترجمان نے کہا کہ 2014 میں آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے قبل حقانی نیٹ ورک کی موجودگی سے متعلق الزامات لگائے جا سکتے تھے لیکن شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد تمام دہشت گردوں بشمول حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی گئی۔ فوج کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان امریکہ سے محاذ آرائی نہیں چاہتا لیکن اُنھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ملک کے مفادات مقدم ہیں جن کا دفاع کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ رواں ماہ افغانستان کے اپنے غیر اعلانیہ دورے کے موقع پر امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے بگرام کے ہوائی اڈے پر امریکی فوجیوں سے خطاب میں متنبہ کیا تھا کہ اگر پاکستان نے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی جاری رکھی تو وہ بہت کچھ کھو دے گا۔

پاکستانی وزارت خارجہ نے امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتحادی ایک دوسرے کو تنبیہ یا نوٹس جاری نہیں کرتے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نئی سیکیورٹی پالیسی میں بھی پاکستان سے کہا گیا تھا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کرے۔
اسلام آباد کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ طویل المدت تعلقات کے لیے مشترکہ راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیر دفاع جم میٹس بھی پاکستان کے دورے کر چکے ہیں۔

محمد اشتیاق
 

پاکستان اسٹیل مل بحران کا حل کیا ہے ؟

0
0

پاکستان اسٹیل مل ایک قومی اثاثہ ہے جس کے قیام کیلئے 18 سال تک منصوبہ بندی کرنے کے بعد 1973ء میں اس پر کام شروع ہوا اور 1985ء میں اس نے پیداوار شروع کی۔ 2008 تک مل 28 ارب روپے کے منافع پر چل رہی تھی۔ 2006 میں شوکت عزیز کی حکومت نے اس کی پرائیویٹائزیشن کا فیصلہ کیا جس کی ملک بھر میں مخالفت ہوئی اور سپریم کورٹ نے یہ نجکاری روک دی لیکن مل خسارے کی طرف بڑھنے لگی۔ 2011 میں اسے وفاقی حکومت کی پرائیویٹ کمپنی سے نکال کر براہ راست سرکاری ملکیت میں لے لیا گیا۔ 2012 میں یوکرین نے اس کی بحالی کی پیشکش کی لیکن عدم توجہی سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ اس کی پیداوار نہ ہونے سے حکومت کو صرف ڈیڑھ سال کے عرصہ میں دو ارب ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کر کے اسٹیل مصنوعات درآمد کرنا پڑیں۔

اسٹیل مل کی بحالی کیلئے اب تک کئی چیئرمین بھی تبدیل کئے گئے لیکن ہزار کوششوں کے باوجود یہ اپنے پیروں پر پھر سے کھڑی نہ ہو سکی۔ جس کے پیش نظر نیب نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اسٹیل مل کی یہ بربادی کسی سازش کا نتیجہ تو نہیں یہ ایک بہتر سوچ بچار ہے۔ نیب نے مل کی بربادی ، قوم کے اربوں روپے کا ضیاع اور حکومت کی عدم توجہی کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے مکمل اور جامع انکوائری کا مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار نے بھی اس ضمن میں نوٹس لیتے ہوئے نیب کو کارروائی کی سفارش کر رکھی ہے اور اس انکوائری سے پہلے ماضی اور حال کے تمام ذمہ دار افسران کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا فیصلہ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 

اسٹیل مل کو بنے 32 سال کا عرصہ ہو گیا ہے اس وقت سے اب تک ملک کی ضروریات کئی گنا بڑھ چکی ہیں اس لحاظ سے وطن عزیزمیں ایسی کئی ملیں موجود ہونا چاہئے تھیں۔ نیب نے اسٹیل مل کے حوالے سے تحقیقات کا جو بیڑہ اٹھایا ہے اسے جلد از جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پتا چل سکے کہ قومی ادارے خسارے میں کیوں جا رہے ہیں اور ان کی بحالی کیونکر ممکن ہے ۔

اداریہ روزنامہ جنگ


پاکستان کی سلامتی کو خطرات کا معاملہ، کیا جنگ کا خدشہ ہے؟

0
0

سیاسی سازشی نظریات کی گونج کے ساتھ اب پاکستان میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ملک کی سلامتی کو سنگین خطرات لا حق ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے آج یہ دعویٰ کیا کہ ناصر جنجوعہ نے نواز شریف کو بتایا کہ ملکی سلامتی کو امریکہ اور بھارت کی طرف سے خطرہ ہے۔ روزنامہ ایکسپریس نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف کو بتایا گیا ہے کہ اگلے چند ماہ پاکستان کے لئے اہم ہیں، جن میں پاکستان پر حملہ بھی ہو سکتا ہے۔  ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل غفور نے ایک بریفنگ کے دوران امریکی دھمکیوں کا تذکرہ کیا.
تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان کو خطرات لاحق ہیں۔ تاہم کسی جارحیت کا امکان نہیں۔ ان خطرات کے حوالے سے معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا تو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کو بہانہ بنایا اور جھوٹ کی بنیاد پر اس عرب ملک پر حملہ کیا، اب امریکہ کی طرف سے پاکستان پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ یہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔‘‘ ایسا بھی تاثر ہے کہ بلوچستان کی سکیورٹی کو مزید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں.

جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب مزید کہتے ہیں، ’’ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ، وزیر خارجہ ٹلرسن، امریکی وزیرِ دفاع جیمس میٹس اور افغانستان میں متعین جنرلز بھی پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں، ان بیانات سے خطرات تو پیدا ہوئے ہیں لیکن پاکستان پر کسی جارحیت کا امکان نہیں۔‘‘ امجد شعیب کا خیال ہے کہ سی پیک کے خلاف کام کیا جائے گا اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کر کے گوادر میں مسائل کھڑے کئے جائیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مقصد کے لئے بھارت سرگرم ہے اور سی پیک کو نقصان پہنچانے کا مطلب ہو گا کہ پاکستان کی معیشت کو زبردست نقصان ہو۔

کراچی یونورسٹی کے شعبہٴ بین الاقوامی تعلقات کی سابق چیئر پرسن ڈاکڑ طلعت اے وزارت کے خیال میں یہ ممکن ہے کہ امریکہ اور بھارت ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے ذریعے ملک میں گڑ بڑ کرائیں۔ اُن کا کہنا ہے، ’’میرے خیال میں امریکہ کو پہلے ہی بہت سارے چیلنجوں کا سامنا ہے جیسے کہ شمالی کوریا اور ایران، تو کوئی جنگ تو نہیں ہو سکتی۔ تاہم معاشی عوامل کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

تاہم سیاسی مبصر حسن عسکری کے خیا ل میں ٹرمپ شور زیادہ مچاتے ہیں لیکن کام کم کرتے ہیں،’’ میرا نہیں خیال کہ امریکہ کوئی حملہ کرے گا یا کوئی جنگ ہوگی ۔ ٹرمپ نے شمالی کوریا اور ایران کے حوالے سے بھی بہت شور کیا تھا لیکن ابھی تک کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا۔ امریکہ زیادہ سے زیادہ ڈرون حملوں کی تعداد بڑھا سکتا ہے۔‘‘ عسکری کے مطابق اگر اس نے پنجاب یا کہیں اور کوئی حملہ کیا تو پاکستان نیٹو کی سپلائی بند کر سکتا ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

پاکستان اور انڈیا کی سیاسی بساط پر جاسوس صرف مہرے ہوتے ہیں ؟

0
0

کلبھوشن جادھو کو دہشتگردی اور جاسوسی کے الزام میں پاکستان میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ انھیں پاکستان کے ٹیلی ویژن پر کم از کم دو بار اپنے جاسوس ہونے اور پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان کا مقدمہ پاکستان کی ایک ملٹری کورٹ میں چلایا گیا جس میں کلبھوشن تک کسی کو رسائی نہیں تھی۔ انھیں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ اب ان کا معاملہ بین الاقوامی عدالت میں بھی پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ ’کلبھوشن انڈین بحریہ کے حاضر سروس کمانڈر ہیں اور وہ انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے افسر ہیں۔ وہ پاکستان کے صوبے سندھ اور بلوچستان میں دہشتگردی کی سرگرمیوں میں ایک عرصے سے ملوث تھے۔ انھیں بلوچستان سے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا‘۔ اس کے برعکس انڈیا کا کہنا ہے کہ ’کلبھوشن جادھو بحریہ کے ایک سبکدوش افسر ہیں۔ وہ بزنس کے سلسلے میں ایران آیا جایا کرتے تھے۔ پاکستان کے خفیہ ایجنٹوں نے انھیں بزنس کے بہانے پاکستان بلایا اور انھیں پکڑ کر انڈیا کا جاسوس بنا کر پیش کر دیا‘۔

کلبھوشن اور ان کے اہل خانہ کی ملاقات 25 دسمبر کو اسلام آباد میں ہوئی تھی
انڈیا کلبھوشن کے جاسوس ہونے سے انکار کرتا رہا ہے لیکن اس کی وضاحت کرنا اس کے لیے مشکل ہے کہ کلبھوشن کے پاس ایک باضابطہ دوسرا پاسپورٹ کیوں تھا اور یہ پاسپورٹ مسلم نام سے کیوں تھا۔ اگر کلبھوشن کا تعلق بحریہ سے نہ ہوتا تو انڈیا نے انھیں ترک کر دیا ہوتا۔ انڈیا کی ایک سرکردہ تجزیہ کار انوپما سبھرامنیم کے مطابق ’جاسوس صرف دونوں ملکوں کی سیاسی بساط کا محض مہرہ ہیں۔ ایسے متعدد شہری انڈین اور پاکستانی جیلوں میں قید ہیں جنھیں جاسوسی کے جرم میں سزائیں دی گئیں۔ کتنے تو ایسے ہیں جو سزائیں ختم ہونے کے بعد بھی قید میں ہیں۔ دونوں ملکوں کی حکومتیں گرفتاری کے بعد ان سے لاتعلقی اختیار کر لیتی ہیں‘۔

کلبھوشن کی زندگی اور موت کا فیصلہ ابھی تک پیچیدہ صورتحال میں الجھا ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کے لیے کلبھوشن انفرادی طور پر اہمیت نہیں رکھتے لیکن دونوں ملکوں کی داخلی سیاست کے لیے وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں ہی حکومتیں انھیں اپنے اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کے تعلقات جو پہلے ہی کافی کشیدہ تھے وہ کلبھوشن سے ان کی اہلیہ اور والدہ کی ملاقات پر ہونے والے تنازعے کے بعد مزید خراب ہو گئے ہیں۔ جارحانہ قوم پرستی کو ابھارنے کے لیے انڈیا اور پاکستان کے میڈیا نے کلبھوشن کے واقعے کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ 

پاکستان کے لیے وہ ایک ’خطرناک شدت پسند اور تخریب کار‘ ہیں۔ انڈیا کے لیے کلبھوشن ایک ’باعث فخر‘ شہری ہیں۔ پچھلے تین برس میں انڈیا اور پاکستان کے تعلقات مسلسل خراب ہوتے گئے ہیں۔ اب داخلی سیاست بھی دونوں ملکوں کے تعلقات سے براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ گزرے ہوئے برس میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک بھی مثبت پہلو نظر نہیں آیا۔ بگڑتے ہوئے رشتوں میں کلبھوشن جیسے افراد سیاست کی بساط پر دونوں ملکوں کے مہرے سے زیادہ کچھ بھی تو نہیں۔

شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
 

حکومت ڈاکٹر عافیہ کیلئے ایک خط بھی نہ لکھ سکی

0
0

وقت کے پہیے نے اپنا مزید ایک چکر پورا کیا۔ سال 2017 کا اختتام ہوا اور 2018 کا آغاز ہو گیا۔ نئے سال کا استقبال دنیا بھر میں نہایت ہی مسرور انداز میں کیا جاتا ہے۔ عشرے کی الٹی گنتی (دس 10 سے ایک 1) کے اختتام پر نئے سال کا پیغام گویا خوشیوں کا سیلاب لے آتا ہے۔ ایک گنتی ڈاکٹر عافیہ بھی گِن رہی ہے کہ ایک ایک کر کے اس کے جرمِ بے گناہی کی سزا کا آخری دن آئے۔ اس کی زندگی میں بھی آزادی اور خوشی کے نئے دور کا آغاز ہو۔ سال 2017 ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی مسلسل کوششوں کا گواہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ ان کوششوں کا نقطۂ عروج اس سال کا غمناک پہلو بن گیا۔ عافیہ کی رہائی کےلیے حکمرانوں کا خط، جو تمام تر عوامی دباؤ کے باوجود نہ لکھا جا سکا۔

اس سال کے آغاز میں 20 جنوری کو سابق امریکی صدر براک اوباما اپنی آئینی مدتِ صدارت کے اختتام پر چند دیگر قیدیوں کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ کو بھی رہا کرنا چاہتے تھے۔ یہ رہائی پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے ایک خط سے مشروط تھی۔ مگر سنگ دل پاکستانی حکمران اس کے لیے تیار ہی نہ ہوئے۔ خط کی اہمیت کے پیشِ نظر ڈاکٹر عافیہ کے اہلِ خانہ نے اس کے حصول کےلیے عوامی حمایت کے ساتھ منظم کوششیں شروع کیں۔ عافیہ کے امریکی وکلاء، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور سیاسی و سماجی نمائندے صدر ممنون حسین، سابق وزیرِاعظم نواز شریف، مشیرِخارجہ سرتاج عزیز اور سابق وزیرِداخلہ چوہدری نثار سے باربار رابطے کر کے اس ایک خط کےلیے التجائیں کرتے رہے، مگر حکمرانوں کے دل پتھر ہی بنے رہے؛ جب کہ عوام نے حمایت کا کوئی میدان نہ چھوڑا۔

نرم دل کالم نگاروں اور صحافی برادری نے دردمندی کے ساتھ دینی و قومی فریضے کی ادائیگی کےلیے عوام کو حقیقتِ حال سے آگاہ کیا۔ اس عرصے میں ملک بھر میں عوام، عافیہ موومنٹ کے رضاکاروں اور سیاسی و دینی جماعتوں نے ڈاکٹر عافیہ کی حمایت میں جدوجہد تیز کی۔ گاڑیوں اور پیدل مارچ کے ذریعے اس خط کے مطالبے کو ملک گیر تقویت دی گئی۔ اسی کے ساتھ کراچی، حیدرآباد، پشاور، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور کئی دیگر شہروں میں مختلف سیاسی و دینی اور سماجی تنظیموں نے ڈاکٹر عافیہ کے حق میں جلسے جلوس ریلیوں اور پریس کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔

اس ملک گیر عوامی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ سابق امریکی صدر کی سبکدوشی کی تاریخ 20 جنوری کے قریب آتے آتے، عافیہ کی رہائی کےلیے خط کا عوامی مطالبہ بھی تیز تر ہوتا گیا۔ مگر حکومت کی نام نہاد مصلحت کوشی ایک بار پھر آڑے آئی۔ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بالواسطہ اور بلاواسطہ پیغامات کا سلسلہ شروع ہوا کہ عافیہ کو جلد بارٹر سسٹم کے تحت (شکیل آفریدی کے تبادلے میں) واپس لانے کی خوشخبری دی جائے گی۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اس جھوٹ کو استحکام بخشا گیا۔

ڈاکٹر عافیہ کے اہلِ خانہ نے حکمرانوں کو ان کے وعدے اور آئینی فریضہ کی ادائیگی کےلیے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ اس سلسلے میں اسلام آباد، لاہور اور سندھ ہائی کورٹس میں پیٹیشنز دائر کی گئیں۔ سال 2017 میں تقریباََ پورے ہی سال ملکی و میڈیائی اُفق پر عدالتوں میں زیرِسماعت مقدمات اور فیصلے چھائے رہے۔ مگر کیا عافیہ کیس کے معاملے میں بھی حکمرانوں اور ریاستی حکام کو عدالتی احکامات پر عمل درآمد یاد آیا ؟ یہاں تک کہ 20 جنوری کے دن کے بعد 2017 کا پورا سال ہی گزر گیا۔ فقط ایک خط کے ذریعے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا انمول موقع حکمرانوں کی بےحسی کے باعث المیہ بن گیا۔

رنج و الم کی تصویر مظلوم عافیہ امریکی جیل میں اپنے حکمرانوں کی نظرِکرم کی منتظر ہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ میں پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی عافیہ سے ملاقات کرنے جیل گئیں۔ ان کے مطابق جنیوا کنونشن کی شق 2047 کا حوالہ دینے پر انہیں ملاقات کے لیے اس بیرک تک لے جایا گیا جہاں عافیہ قید ہے۔ عائشہ فاروقی کے جو الفاظ ہیں، کیا حکمران وہ الفاظ اپنے جگر گوشوں کے لیے پسند کریں گے؟ ’’سلاخوں کے پیچھے بستر پر ایک خاتون منہ پر چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہڈیوں اور گوشت کا ڈھیر بستر پر دھرا ہو۔ بےحس و حرکت۔ جیل کے حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ یہی عافیہ ہے۔‘‘

اس طرح عافیہ کے زندہ ہونے کی تصدیق ہو گئی ورنہ ماضی میں تقریباََ گیارہ برس قبل صرف ایک مرتبہ پاکستانی سینیٹرز کے ایک وفد کو ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کی اجازت ملی تھی جب کہ گزشتہ ڈھائی سال سے ٹیلی فون پر ہونے والی اہلِ خانہ سے چند منٹ کی گفتگو کا سلسلہ بھی منقطع ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی صحت سے متعلق تشویش ناک اطلاعات کے بعد حکومت سے کئی بار نجی خرچ پر عافیہ سے ملاقات کروانے کی درخواست کی جا چکی ہے۔ ضعیف والدہ اپنی بیٹی اور اور بچے اپنی ماں سے ملاقات کےلیے ساڑھے چودہ سال سے تڑپ رہے ہیں۔ 

حکمرانوں کے پاس کوئی حِس موجود ہے اس تڑپ کو محسوس کرنے کے لیے؟
ایک طرف انسانیت کو شرماتی یہ کرب ناک صورتِ حال ہے تو دوسری جانب، پہلے ماضی میں امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ جب پانچ پاکستانیوں کے قاتل اس امریکی جاسوس کے ذریعے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی ڈیل کی کوشش ہو سکتی تھی۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے انتہائی عجلت میں، ملکی قوانین کے برخلاف اس جاسوس اور قاتل کو باعزت طریقے سے اس کے ملک رخصت کیا۔ پاکستانی مقتدر اداروں، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ نہایت شرمناک واقعہ ہے۔

اب ایک اور سلگتا معاملہ، سزائے موت کے قیدی، ملک دشمن بھارتی جاسوس اور پاکستان میں دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ کلبھوشن یادیو کی صورت میں سامنے ہے۔ حکومت ماضی کی طرح ایک بار پھر کمزوری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ایک ایسا دہشت گرد جاسوس اور قاتل جس نے بلوچستان میں ہزاروں لوگوں کے قتل کا اعتراف کیا، دھماکوں کے ذریعے ہزاروں قیمتی جانوں کے ضیاع اور معذوری کا سبب بنا۔ جس نے پاک وطن کی سالمیت کو آگ لگانے کی حد تک نقصان پہنچایا۔ ایسے خطرناک دہشت گرد کو ہمارے حکمرانوں کے مطابق انسانی ہمدردی کے ناطے اس کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی سہولت فراہم کی گئی۔ سہولت بھی ایسی کہ مکمل ترین سکیورٹی، سرکاری پروٹوکول اور ان کی ایک ایک ادا کی بھرپور میڈیائی کوریج!

کیا ان دونوں دہشت گردوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کا موازنہ ڈاکٹرعافیہ جیسی مظلوم قیدی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے؟ ایسی بےگناہ قیدی کہ جس کا جرم تک ثابت نہ ہو سکا۔ کیا یہ منافقانہ رویّے عوام اور حکومت کےلیے قابلِ فہم ہیں؟ کیا حکمرانوں کے نزدیک ڈاکٹر عافیہ، اس کی ناتواں ماں اور معصوم بچے انسانیت کے دائرے سے باہر ہیں؟ کیا ہمدری ان مظلوم انسانوں کا حق نہیں؟ کیا انصاف کا یہ انداز ہمارے مسلمان حکمرانوں کو زیبا ہے؟ مسلمان حکمرانوں کی تاریخ میں عظیم جرنیل محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، عباسی حکمران معتصم باللہ اور سلطنتِ عثمانیہ کے حاکم سلطان محمد فاتح نے بیٹیوں کی حفاظت کے لیے تاریخ کے ساتھ جغرافیہ تک بدل ڈالے۔ ہمارے ماضی کی ان تابناک روایات کی روشنی حال اور مستقبل کی تاریکیوں کو یقیناََ دور کر سکتی ہے؛ اگر آپ، ہم اور سب چاہیں تو! 

رضوانہ قائد


زیادہ ویڈیو گیم کھیلنے والے دماغی خلل میں مبتلا ہوتے ہیں

0
0

عالمی ادارہ صحت نے جنون کی حد تک ویڈیو گیم کھیلنے کو 11 بڑی دماغی بیماریوں میں سے ایک قرار دے دیا اور کہا ہے کہ زیادہ ویڈیو گیم کھیلنا ’’ گیمنگ ڈس آرڈر‘‘ کی نشانی ہے۔ سی این این کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے 11 بڑے مینٹل ڈس آرڈر ( دماغی خلل) میں اب حد سے زیادہ ویڈیو گیم کھیلنے کا رویہ بھی شامل کر لیا ہے جسے ’’ گیمنگ ڈس آرڈر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ڈس آرڈر سے مراد وہ ذہنی بیماری یا وہ مختلف انسانی رویہ ہے جن کا اثر انسان کی ذاتی، سماجی، تعلیمی، پیشہ ورانہ زندگی کو متاثر کرتا ہے ۔ اگلے برس کے لیے ’’گیمنگ ڈس آرڈر‘‘ کو بھی دماغی خلل کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گیمنگ ڈس آرڈر وہ دماغی بیماری یا خلل ہے جس میں انسان بے اختیار ہو جاتا ہے اور منفی نتائج کو جانتے بوجھتے ہوئے متاثرہ انسان گیم کھیلنے کو حد سے زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ ویڈیو گیم چاہے آن لائن کھیلے جائیں یا آف لائن اس مرض کی تشخیص کے لیے ضروری ہے کہ ایسے انسان کو گیمنگ ڈس آرڈر میں مبتلا کہا جائے جس نے کم از کم ایک سال کا عرصہ جنون کی حد تک گیم کھیلتے ہوئے گزارا ہو اس کے بعد ہی اسے گیمنگ ڈس آرڈر کا مریض کہا جائے۔ لیکن رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ افراد جو ایک برس کے دوران کم وقت کے لیے ویڈیو گیم کھیلتے ہیں لیکن ان میں گیمنگ ڈس آرڈر کی تمام علامات موجود ہوں اور وہ شدت بھی رکھتی ہوں تو طبی ماہرین ایسے افراد کو بھی ڈس آرڈر کے مریضوں میں شمار کرتے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ترجمان گریگوری ہارٹل نے گیمنگ ڈس آرڈر کو 11 بڑی دماغی بیماریوں میں شامل کیے جانے کی تصدیق کی ہے تاہم عالمی ادارہ صحت کی مرتب کردہ رپورٹ ابھی باقاعدہ طور پر جاری نہیں ہوئی، مئی 2018ء میں یہ رپورٹ جاری کیے جانے کا امکان ہے۔ یاد رہے کہ چند روز قبل ہی خبر سامنے آئی ہے کہ ملائیشیا کے ایک شخص نے اپنی بیوی کو صرف اس بات پر طلاق دے دی کہ وہ اسے ویڈیو گیم کھیلنے سے روکتی تھی۔
 

مجلس احرارِ اسلام

0
0

۲۹؍ دسمبر ۱۹۲۹ء کو مجلس احرارِ اسلام کے نام سے ایک قافلۂ لاہور میں تشکیل پایا تھا۔ امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، چودھری افضل حق، مولانا سید محمد دائود غزنوی، شیخ حسام الدین، خواجہ عبدالرحمن غازی اور مولانا مظہر علی اظہر جیسے سربکف، جاں باز مجاہدوں نے اس انقلابی جماعت کی بنیاد رکھی۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ دین کے متوالوں اور آزادی کے علم برداروں نے علی برادران کی برپا کردہ تحریک خلافت میں خوب دادِ شجاعت دی اور تحریک ِ خلافت کی ناکامی کے بعد دل برداشتہ اور مایوس ہونے کی بجائے عزمِ کامل اور پوری جرأت و شجاعت کے ساتھ حریّتِ اسلامی اور آزادیٔ وطن کا علم بلند کیا۔

حضرت امیر شریعت نے تاسیسی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ مسلمان نوجوان ہندوستان کی آزادی کا ہراول دستہ ثابت ہوں اور آزادی کے حصول کا فخر ہمارے حصے میں آئے۔‘‘ ممبئی میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’غلامی بہت بڑا گناہ ہے، اگر اس گناہ سے نکلنا ہے تو اس سے بہتر کوئی موقع نہیں کہ ہم انگریزوں کے خلاف پُرامن لڑائی میں شامل ہو جائیں۔‘‘ موچی دروازہ لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’استبداد کی چکی کا دستہ گورے کے ہاتھ میں ہو یا کالے کے ہاتھ میں چکی وہی رہتی ہے اور میں اِس چکی کو توڑ دینا چاہتا ہوں۔‘‘ قافلۂ احرار، انگریزی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنی حیاتِ عزیز کا کل اثاثہ جمع کر کے میدانِ کارزار میں اترا، صفیں درست کیں، کفن بردوش، سرخ پوش مجاہد، سرخ پرچم ہاتھوں میں تھامے، بغاوت کی لے پر شہادت کے گیت چھیڑ کر جادہ پیما ہوئے۔

ہیں احرار پھر تیز گام اللہ اللہ 

ہوئی تیغِ حق بے نیام اللہ اللہ

حضرت شاہ ولی اللہؒ، حضرت سید احمد شہیدؒ، حضرت محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت شیخ الہند محمود حسن ؒاور حضرت نانور شاہ کشمیریؒ کے فکر و درد کو لے کر ذرا آگے بڑھے تو انگریز اپنے تمام تر ظلم و استبداد اور قہر سامانی کے ساتھ مقابلے پر سامنے موجود تھا۔ انگریز، اُس کے ٹوڈی سرکاری مسلمان، جاگیردار اور قادیانی گروہ کے خلاف انھوں نے چومکھی جنگ لڑی۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اس دینی، قومی اور وطنی جدوجہد میں مصائب و مشکلات کی گھاٹیوں کو پوری جرأت و شجاعت، عزم و ہمت اور صبر و استقامت کے ساتھ عبور کیا۔ 

آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ اپنی دینی شناخت کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس کی پوری پوری حفاظت کی۔ ڈیڑھ درجن سے زائد قومی و ملّی تحریکوں کو پروان چڑھایا۔ یہ حقیقت ہے کہ ابناء امیر شریعت نے بقائِ احرار کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ خصوصاً جانشینِ امیر شریعت حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ نے اعتقادی و فکری بنیادوں پر احرار کو مضبوط و منظم کیا۔ لٹے ہوئے قافلے کو پھر سے تشکیل دے کر اس امانت کی حفاظت کا حق ادا کیا۔ ابن امیر شریعت مولانا سید عطاء المحسن بخاریؒ کے انتقال کے بعد جماعت کی امارت حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری کے سپرد ہوئی۔

قافلۂ احرار اُن کی قیادت میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ تحریک مقدس تحفظ ختمِ نبوّت، مجلس احرارِ اسلام کی پہچان تھی اور ہے۔ ۱۹۳۰ء میں قادیانیت کے عوامی محاسبے کا آغاز کیا اور شعبۂ تبلیغ تحفظ ختمِ نبوّت قائم کر کے ایک منظم جدوجہد کی۔ تحریک تحفظ ختمِ نبوّت ۱۹۳۴ء (قادیان) اور ۱۹۵۳ء میں بے پناہ قربانیاں دیں، شہدا ختمِ نبوّت کا خون رنگ لایا اور ۱۹۷۴ء میں فتح و کامرانی کا سورج طلوع ہوا۔ عوامی جدوجہد پارلیمنٹ میں پہنچی اور قادیانیوں کو پاکستان کے آئین میں غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ ۱۹۸۴ء میں مزید پیش رفت ہوئی، قانون امتناعِ قادیانیت بنا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی حقیقی آزادی و خود مختاری کے لیے نوجوان ہراول دستہ بنیں، عالمی استعمار کی غلامی کے خلاف پر امن جد وجہد تیز تر کر دیں اور استبداد کی چکی توڑ ڈالیں۔

سیدمحمد کفیل بخاری


 

دنیا کی ’خفیہ‘ کرنسی، سرمایہ 587 ارب ڈالرسے بھی زائد

0
0

1300 سے زائد خفیہ کرنسیاں جن میں بٹ کوائن سب سے مشہور ہے‘ روایتی بین الاقوامی بینکنگ اور حکومتی اداروں کے باہر چلائی جاتی ہیں اور ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں ان کا کاروبار انٹرنیٹ پر ہوتا ہے، ان کا مارکیٹ سرمایہ اندازاً 587 ارب ڈالر سے بڑھ گیا ہے۔ امریکی کیبل‘ سیٹلائٹ اور انٹرنیٹ بزنس نیوز ٹیلی ویژن چینل ’’سی این بی سی‘‘ نے  ڈیجیٹل والٹ پلیٹ فارم بلاک چین کے سی ای او پیٹر سمتھ کے حوالے سے بتایا ’’ دنیا میں تمام خفیہ کرنسیوں کا مجموعی سرمایہ 2018ء میں ایک ٹریلین ڈالر سے بڑھ جائے گا‘‘ صنعتی ویب سائٹ ’’کوائن مارکیٹ کیپ‘‘ کے ڈیٹا کے مطابق دنیا میں 1300 سے زائد خفیہ کرنسیاں ہیں جن میں بٹ کوائن اور ایتھر خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

ان کا مجموعی مارکیٹ سرمایہ 587 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ امریکا کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس نے جو 93.62 ملین گھروں میں دیکھا جاتا ہے (جو 804 فیصد گھر بنتے ہیں) مزید رپورٹ کیا کہ بٹ کوائن کا مجموعی خفیہ کرنسی مارکیٹ میں سرمایہ 50 فیصد سے زائد ہے جو 317 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ایتھر دوسری بڑی ڈیجیٹل کرنسی ہے جس کا مارکیٹ سرمایہ 68.9 ارب ڈالر ہے۔ دونوں کی قیمتوں میں اس سال بڑا اضافہ دیکھا گیا۔ مارکیٹ کے کچھ کھلاڑیوں کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں صرف بٹ کوائن کا سرمایہ ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔

سٹینڈ پوائنٹ ریسرچ کے بانی رونی موس نے سی این بی سی کو بتایا کہ بٹ کوائن کی قدر فی ڈیجیٹل سکہ 4 لاکھ ڈالر تک بلند ہو سکتی ہے اور اس سے اس کا مارکیٹ سرمایہ ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ تاہم بٹ کوائن کو اپنے حصے کی تنقید کا بھی سامنا ہے۔ جے پی مورگن کے جیمی ڈیمون کھل کر خفیہ کرنسی کو ’’فراڈ‘‘ قرار دیتے ہیں اور ان لوگوں کو ’’احمق‘‘ سمجھتے ہیں جو اس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ادھر ڈوئچے بینک نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ بٹ کوائن کے کریش ہونے سے آئندہ سال وسیع تر مالیاتی مارکیٹ متاثر ہو سکتی ہے۔نیویارک میں نجی طور پر مالیاتی سافٹ ویئر، ڈیٹا اور میڈیا پر مشتمل ہیڈ کوارٹر رکھنے والی فرم’’بلوم برگ‘‘ کے مطابق خفیہ کرنسیاں ایک قابل قدر سرمایہ کاری ہیں اور لوگ منافع کے حصول کے لئے اس سال کھنچے چلے آئیں گے۔

فی الحال بٹ کوائن کے مارکیٹ سرمائے کے بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ ان دنوں وہ 45 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے تاہم ابھی اسے بہت وقت لگے گا کیونکہ بڑی عالمی سرمایہ کاری مارکیٹیں ڈیجیٹل کرنسیوں کے حوالے سے کچھ شاکی ہیں۔ فی الوقت رہائشی جائیدادوں میں ہونے والی سرمایہ کاری 162 ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ ’’بلومبرگ‘‘ جس نے چند سال قبل 9 ارب ڈالر کا ریونیو حاصل کیا اور اس کے دنیا بھر میں 162 دفاتر ہیں کہا ہے کہ سونے کی عالمی مارکیٹ 6 سے 9 ٹریلین ڈالر سالانہ کی ہے جس کے بعد مارکیٹ سرمائے کے حوالے سے 0.3 ٹریلین ڈالرز کے ساتھ خفیہ کرنسی سب سے آگے ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ بٹ کوائن 2009 کے جنوری میں دوبارہ عالمی مارکیٹ میں آئی جس کے بعد دیگر خفیہ کرنسیاں آئیں جن میں لائٹ کوائن، ماسٹر کوائن، فیدر کوائن اور پیرکوائن شامل ہیں۔

صابر شاہ
 

صدر ٹرمپ کی سالِ نو کی پہلی ٹویٹ پاکستان کے بارے میں

0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک دھمکی آمیز بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ 15 سال میں پاکستان کو 33 ارب ڈالرز کی امداد دے کر ہم نے بے وقوفی کی تھی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو آیندہ سے کسی بھی قسم کی امداد نہ دینے کی دھمکی دی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں ہم نے پاکستان کو 33 ارب ڈالرز کی امداد دی جو بے وقوفی تھی۔ اب پاکستان کو کوئی امداد نہیں ملے گی۔
امریکی صدر نے الزام عاید کیا کہ ہم پاکستان کو بھاری امداد دیتے رہے لیکن دوسری جانب سے ہمیں جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں دیا گیا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب صدر ٹرمپ نے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر کی جانب سے وضع کردہ قومی سلامتی کی حکمت عملی میں بھی کہا گیا تھا کہ ’ہم پاکستان پر اس کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں میں تیزی لانے کے لیے دباؤ ڈالیں گے، کیونکہ کسی بھی ملک کی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے لیے حمایت کے بعد کوئی بھی شراکت باقی نہیں رہ سکتی ہے۔‘ امریکا کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ’پاکستان کے اندر سے کام کرنے والے شدت پسندوں اور دہشت گردوں سے امریکا کو مسلسل خطرات لاحق ہیں۔‘ اس پالیسی کے سامنے آنے کے بعد امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے دورہ افغانستان کے موقعے پر پاکستان سے ایک بار پھر کہا تھا کہ وہ افغانستان کی حکومت کے خلاف لڑنے والے گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہ کرے.

پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس توہین آمیزبیان کا سخت نوٹس لیا ہے اور اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے ایک احتجاجی مراسلہ ان کے سپرد کیا ہے۔ اس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان پر امریکا سے وضاحت طلب کی گئی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پاک، امریکا تعلقات میں تناؤ کے بارے میں اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دفتر خارجہ میں امریکی سفیر کو تھمائے گئے احتجاجی مراسلےمیں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے امریکی صدر کے پاکستان مخالف بیان پر وضاحت پیش کی جائے کیونکہ اس جنگ میں اخراجات کولیشن فنڈز سے کیے جاتے تھے۔

ذرائع کے مطابق امریکی سفیر کو احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کرنے کے معاملے پر وزیراعظم نے ہنگامی طور پر تمام اہم اداروں کی قیادت سے مشاورت کی تھی اور انھیں اعتماد میں لیا تھا۔ امریکی سفیر پر واضح کیا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کا بیان پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے امریکی سفیر سے ملاقات میں واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی دعوی ٰہے کہ وزیر اعظم اس سلسلے میں سیاسی قائدین سے مزید رابطے کریں گے اور حکومت پاک امریکا تعلقات کے ضمن میں اہم اعلان کرے گی۔
 


سوشل میڈیا کا ڈیٹا انسانی مزاج معلوم کرنے میں مددگار

0
0

برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا مثلاً فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر پلیٹ فارمز انسانی موڈ اور مزاج کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں اپنی نوعیت کا ایک بہت بڑا تجزیہ کیا گیا ہے جس میں یونیورسٹی آف برسٹل کے ماہرین نے 24 گھنٹے تک 80 کروڑ سے زائد ٹویٹر پیغامات کا جائزہ لیا اور مختلف موسموں میں بھی ٹویٹر پیغامات جمع کیے ہیں۔ بعد ازاں اس ڈیٹا کو مشین لرننگ سے گزار کر چیک کیا گیا۔ اس ڈیٹا کی مشین لرننگ اور تجزیئے کا سارا کام ڈاکٹر فیبن زوگینگ نے کیا ہے جبکہ مرکزی تحقیق ایک دماغی ماہر ڈاکٹر اسٹیفرڈ لائٹ مین نے کی ہے اور مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) کا سارا کام یونیورسٹی کے شعبہ انجینئرنگ میتھمیٹکس نے کیا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج ’’برین اینڈ نیورو سائنس ایڈوانسز‘‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہیں۔

اس کے لیے ماہرین نے جسمانی گھڑی (باڈی کلاک) کا جائزہ لیا جو دن اور رات کے لحاظ سے بدن کے معمولات کنٹرول کرتی ہے۔ اس کے لیے دماغ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہپوتھیلمس ایک اہم کردار ادا کرتا ہے جس کے اندر ’’سپر اکیاسمیٹک نیوکلیئس‘‘ (ایس سی این) نامی گوشہ جسمانی گھڑی کا مرکز بھی ہے۔ واضح رہے کہ جسمانی گھڑی انسانی مزاج اور موڈ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ایس سی این دن اور رات یا سورج نکلنے اور غروب ہوتے عمل میں حساس کردار ادا کرتا ہے۔ اسی مناسبت سے ایس سی این دماغ اور بدن کو ضروری سگنل، پیغامات اور ہارمونز بھیجتا ہے۔

سائنس دانوں نے جن 80 کروڑ ٹویٹس کا تجزیہ کیا، وہ چار سال کے عرصے میں کی گئی تھیں۔ ان ٹویٹس میں خوشی، شادی، حیرت انگیز، مبارک باد ، ایسٹر اور کرسمس وغیرہ کے الفاظ نظرانداز کیے گئے تاکہ ڈیٹا پر اثر نہ پڑے۔ اس کے بعد منفی اور مثبت الفاظ والے ٹویٹس کی ایک فہرست بنائی گئی جو 24 گھنٹے کے موڈ کو ظاہر کرتی ہے۔ صبح کے وقت غصہ سب سے کم نوٹ کیا گیا جبکہ دن کے ساتھ ساتھ یہ ٹویٹس میں بڑھتا رہا اور شام تک موڈ خراب ہو کر غصہ اپنے عروج پر دکھائی دیا۔ دوسری جانب اداسی صبح 6 بجے کم دیکھی گئی اور صبح 8 بجے اپنے عروج پر تھی۔ اسی طرح تھکاوٹ صبح 8 بجے عروج پر تھی جو بقیہ دن میں درجہ بہ درجہ کم دیکھی گئی۔ ماہرین نے بڑے غور سے وہ الفاظ چنے ہیں جو اداسی، رنج یا غصے کی کیفیات کو ظاہر کرتے ہیں۔

بدلتے موسموں کا ٹویٹس میں غصے اور تھکاوٹ پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا جبکہ بدلتے موسموں نے مزاج (موڈ) اور اداسی پر اپنا اثر ڈالا۔ یعنی موڈ اور اداسی پر موسم کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ ماہرین نے تحقیق کے بعد کہا ہے کہ دن کے مختلف اوقات منفی اور مثبت موڈ پر اثر ڈالتے ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلی موڈ اور تھکاوٹ پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔ اس لحاظ سے سوشل میڈیا انسانی مزاج سمجھنے میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کی بدولت انسانی اندرونی گھڑی کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
 

امریکہ نے پاکستان کو کتنی امداد دی؟

0
0

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اعتماد کا فقدان اور تعلقات میں اُتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کا صدر بننے کے بعد امریکہ اور پاکستان کے درمیان بیان بازی بہت بڑھ گئی ہے۔ سالِ نو کے موقع پر صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی ہی ٹویٹ میں پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ امریکہ پاکستان کو ہمیشہ ’امداد بند کرنے‘ کی دھمکی دے کر ڈرایا ہے۔ سنہ 1947 میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی پاکستان کو امریکہ سے امداد مل رہی ہے۔ 

صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو گذشتہ پندرہ برسوں میں 33 ارب ڈالر کی امداد دی ہے جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ اسے اتنی امداد نہیں ملی ہے۔ امریکہ پاکستان کو کیوں امداد دیتا ہے اور یہ امداد کس مد میں کتنی کتنی دے گئی ہے۔ اس رپورٹ میں پہلے نائن الیون کے بعد ملنے والی امداد اور دوسرے حصے میں پاکستان کے قیام کے بعد سے ملنے والی امریکی امداد کا جائزہ لیا گیا ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو دفاعی اور سماجی شعبے کی ترقی کے لیے امداد دیتا ہے۔

9/11 کے بعد امریکی امداد
نو ستمبر 2001 میں نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد جہاں دنیا میں بہت کچھ بدلا وہیں پاکستان اور امریکہ کے اس وقت سرد تعلقات پر جمی برف پگھل گئی۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا سب سے اہم اتحادی بن گیا اور بدلے میں امریکہ امداد ایک وقفے کے بعد دوبارہ پاکستان کے لیے بحال ہو گئی۔ اس دوران پاکستان اقتصادی اور عسکری امداد کے علاوہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہونے والے اخراجات کی ادائیگی بھی کی گئی۔ جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے ایک بار پھر پاکستان کی فوجی حکومت کے لیے امداد بحال کر دی۔ امریکہ نے جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کو مجموعی طور پر 11 ارب ڈالر دیے جس میں 8 ارب ڈالر فوجی امداد کی مد میں دیے گئے 2002 سے 2010 کے دوران امریکہ نے پاکستان کو مجموعی طور پر 28 ارب 42 کروڑ ڈالر دیے۔

امریکہ نے اس دوران فوجی امداد کی مدد میں 11 ارب 39 کروڑ ڈالر دیے جبکہ ان آٹھ برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ہونے والے اخراجات کی ادائیگی کی مدد میں 9 ارب 27 کروڑ ملے۔ اسی دوران سماجی شعبے کے لیے امریکہ نے آٹھ ارب ڈالر دیے۔ سنہ 2007 میں امریکہ نے پاکستان کے سماجی شعبے میں زیادہ امداد دینے کے لیے کیری لوگر بل کا اعلان کیا۔ جس کے تحت پاکستان کے سماجی شعبے میں بہتری کے لیے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر دینے کی منظوری دی۔ سال 2010-2015 کے دوران کیری لوگر بل کے تحت پاکستان کو ساڑھے سات ارب ڈالر ملے۔ اس طرح 2002 سے 2015 کے دوران مجموعی طور پر پاکستان کو اقتصادی امداد کی مدد میں 15.539 ارب ڈالر ملے اور عسکری امداد کی مدد میں 11.40 ارب ڈالر ملے۔

اس دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے اخراجات کی ادائیگی یعنی کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت 13 ارب ڈالر جاری کیے گئے ہیں۔ امریکی تھینک ٹینک سینٹرل فار گلوبل ڈوپلنمنٹ اور امریکی کانگریس کی رپورٹ کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ نے 2002 سے 2015 تک کیری لوگر کے تحت ملنے والی امداد سمیت مجموعی طور پر 39 ارب 93 کروڑ ڈالر دیے۔ دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ 2001 سے 2015 کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے اخراجات کی ادائیگی یعنی کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت ملنے والے 13 ارب ڈالر امداد نہیں ہیں۔

نائن الیون حملوں سے پہلے ملنے والی امریکی امداد
امریکہ نے پاکستان کی امداد کے لیے پہلا معاہدہ 1954 میں کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان نے اگلے دس سالوں کے دوران تین ارب 20 کروڑ ڈالر امریکی امداد حاصل کی۔ امداد کا بڑا حصہ ملک کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے دور میں ملا۔ 1965 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے بعد امریکہ نے دونوں ملکوں کی امداد میں بڑی حد تک کمی کر دی تھی۔ 1979 میں پاکستان میں جوہری پلانٹ کی موجودگی کے انکشاف کو جواز بنا کر امریکی صدر جمی کارٹر کی انتظامیہ نے خوراک کے سوا پاکستان کی تمام امداد روک دی۔

افغانستان میں سوویت یونین کی فوجوں کے داخلے کے بعد پاکستان کی امداد نہ صرف بحال کر دی گئی بلکہ اس دوران پاکستان کو بہت زیادہ فوجی امداد ملی۔
امریکہ نے افغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کو نکالنے میں مدد کرنے پر 1980 سے 1990 کے دوران جنرل ضیا الحق کی حکومت کو مجموعی طور پر پانچ ارب ڈالر کی رقم دی۔ افغان جنگ کے دوران ہی جب امریکی انتظامیہ پاکستان کی فوجی حکومت کے لیے بھاری رقوم بھیج رہی تھی، امریکہ کے اندر پاکستان کے جوہری پلانٹ پر پائی جانے والی تشویش کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس نے امریکہ کے غیرملکی امداد کے قانون میں ایک ترمیم کی منظوری دے دی جسے پریسلر ترمیم کا نام دیا گیا۔ 

رپبلکن پارٹی کے ایک سینیٹر کے نام سے منسوب اس ترمیم کے تحت امریکی صدر کو پابند کیا گیا کہ وہ ہر سال امداد دینے سے پہلے اس بات کی تصدیق کریں گے کہ پاکستان جوہری ہتھیار تیار نہیں کر رہا۔ پریسلر ترمیم کے تحت امریکی صدور 1989 تک اس بات کی تصدیق کرتے رہے کہ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا اور اسکے نتیجے میں پاکستان کو امداد ملتی رہی۔ لیکن 1990ء میں اس وقت کے صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے یہ تصدیق کرنے سے انکار کر دیا کہ پاکستان جوہری بم نہیں بنا رہا جس کے بعد پاکستان کی زیادہ تر معاشی اور تمام فوجی امداد معطل ہو گئی اور امریکہ نے پاکستان کے لیے ایف سولہ طیاروں کی فراہمی بھی روک دی۔ 1991 سے 2000 تک وقتاً فوقتاً جو امداد ملی اس کی مجموعی مالیت 50 کروڑ ڈالر تھی۔

سارہ حسن

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

بشکریہ بی بی سی نیوز اردو

 

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا : چین

0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کےدھمکی آمیز بیان کے بعد چین پاکستان کی حمایت میں سامنے آگیا جس نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ عالمی برادری کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی غیر معمولی خدمات کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ترجمان جینگ شوانگ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ اس سلسلے میں بڑی قربانیاں بھی دی ہیں۔ دوست ملک کا کہنا ہے چین اور پاکستان مخلص دوست ہیں اور دونوں ملک ایک دوسرے کو تعاون اور مدد فراہم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ترجمان سے جب سوال کیا گیا کہ ٹرمپ کے بیان سے چین کی پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری کی کوششوں پر کوئی اثر پڑے گا تو چینی وزارت خارجہ نے بتایا کہ چین، پاکستان اور افغانستان نہ صرف جغرافیائی بلکہ مشترکہ مفادات کے لحاظ سے بھی آپس میں جڑے ہیں اور قدرتی طور پر ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا ہو گا۔

خیال رہے گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک دھمکی آمیز بیان میں کہا کہ 15 سالوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالرز کی امداد دے کر ہم نے بے وقوفی کی تھی لیکن اب پاکستان کو کوئی امداد نہیں دی جائے گی۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ڈونلڈ ٹرمپ نے الزام عائد کیا کہ ہم پاکستان کو بھاری امداد دیتے رہے لیکن دوسری جانب سے ہمیں جھوٹ اور فریب کے سواء کچھ نہیں دیا گیا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستانی ہمارے رہنماؤں کو بے وقوف سمجھتے رہے۔ وہ ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں جن کا ہم افغانستان میں تعاقب کر رہے ہیں، تاہم اب ایسا نہیں چلے گا۔
 

بچہ پرورش اور تعلیم کا خرچ ماں کو واپس کرے

0
0

تائیوان کی ایک اعلیٰ عدالت نے ایک شخص کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی ماں کو اس کی پرورش اور اس کی دندان سازی کی تعلیم پر آنے والے اخراجات کے حوالے سے اسے دس لاکھ ڈالر واپس کرے۔ ماں نے اپنے بچے کے ساتھ 1997 میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جب وہ 20 سال کا تھا۔ معاہدے کے مطابق بچے نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی ماں کو اپنی ماہانہ آمدنی کا 60 فیصد حصہ دینا تھا۔
جب کئی سال تک بچے نے معاہدے کے مطابق پیسے نہیں دیے تو ماں نے اس پر مقدمہ کر دیا۔
بچے کا موقف تھا کہ پرورش کے پیسے مانگنا مناسب نہیں ہے، لیکن عدالت کا کہنا تھا کہ معاہدہ درست تھا اور اس کا پاس ہونا چاہیے تھا۔ بچے کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ پچھلی ساری ماہانہ اقساط بمعہ سود کے اپنی والدہ کو ادا کرے۔ ماں نے، جس کا نام صرف لو بتایا گیا ہے، اپنے شوہر سے طلاق کے بعد اپنے دونوں بچوں کی پرورش کی۔ مس لو کا کہنا ہے کہ اس نے دونوں بچوں کو دندان سازی کی تعلیم دلوانے کے لیے ہزاروں ڈالر خرچ کیے، لیکن اس کے ساتھ اس کو یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں بڑھاپے میں یہ نہ ہو کہ دونوں بچے اس کا خیال رکھنے سے انکار کر دیں۔ اس واسطے اس نے اپنے دونوں بچوں کے ساتھ ایک معاہدے کیا کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ اسے دیں گے جو کہ ان کے سکول کی فیس پر آنے والے خرچے کے برابر ہو گا جو کہ 17 لاکھ ڈالر ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق بڑے بیٹے نے اپنی والدہ سے معاہدہ کیا اور ایک چھوٹی رقم اسے دینے پر اسے راضی کر لیا۔ تاہم چھوٹے بیٹے نے، جسے اس کے نام چو سے پکارا جا رہا ہے، یہ کہا کہ جب اس نے دستخط کیے تھے تو وہ کافی چھوٹا تھا اور اس معاہدے کو درست نہ مانا جائے۔ چو کا موقف ہے کہ وہ کئی سال اپنی ماں کے ڈینٹل کلینک میں کام کرتا رہا ہے اور اس نے اس سے کئی زیادہ پیسے اسے کما کر دیے ہیں جن کا اس سے مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ججوں نے اپنا فیصلہ اس بنیاد پر دیا ہے کہ جب بچے نے معاہدے پر دستخط کیے تو بالغ تھا اور اس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا تھا۔

تائپی میں بی بی سی کی نامہ نگار سنڈی سوئی کا کہنا ہے کہ تائیوان کے قانون کے مطابق بالغ بچوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عمر رسیدہ والدین کی دیکھ بھال کے لیے پیسے دیں، تاہم اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اکثر والدین ان پر مقدمہ نہیں کرتے۔ نامہ نگار کے مطابق یہ مقدمہ اس لیے بھی غیر معمولی ہے کہ اس میں بچے اور والدین (ماں) کے درمیان معاہدے کو شامل کیا گیا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

امریکہ اور پاکستان ایک دوسرے کا کیا بگاڑ سکتے ہیں ؟

0
0

2018 کا سورج ابھی طلوع ہی ہوا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں پاکستان پر دھوکہ دہی اور جھوٹ کا الزام عائد کر دیا۔ ایسا کیا ہوا کہ صدر ٹرمپ کو اس موقعے پر یہ ٹویٹ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی؟ تجزیہ کار مشرف زیدی کا کہنا ہے کہ حالیہ دباؤ صدر ٹرمپ کی جانب سے اگست میں دی گئی نئی افغان پالیسی کی ایک کڑی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت عرصے سے امریکہ پاکستان سے کچھ مطالبات کر رہا تھا اور اب شاید امریکی عسکری برادری نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ انھیں پاکستان سے جو چاہیے وہ نہیں مل رہا۔
تاہم اگر یہ فیصلہ ہو چکا ہے تو اب دباؤ بڑھانے کے لیے یا بات کو سیاسی بیان بازی سے آگے لے جانے کے لیے امریکہ کے پاس کیا راستے ہیں؟ اس پر مشرف زیدی کہتے ہیں کہ ’دیکھیں سلالہ کا جو واقعہ تھا جس میں 25 پاکستانی فوجی شہید کیے گئے، وہ بھی شاید دباؤ بڑھانے کا ایک طریقہ کار تھا۔ ایبٹ آباد میں ہونے والا واقعہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یکطرفہ تھا۔ عین ممکن ہے کہ ڈرون حملے بڑھ جائیں، یا ڈرون حملوں کی حدود میں اضافہ کر کے انھیں سیٹلڈ علاقوں تک لایا جائے۔‘

’لیکن ایسی چیزوں کو پاکستان آسانی سے نہیں تو کم از کم مشکل سے سہہ لے گا۔ کیونکہ پاکستان یہ سب سہہ چکا ہے۔ پاکستان کے پاس ابھی کافی آپشنز ہیں۔ جیسے کہ وہ زمینی راستے جن کو سلالہ کے بعد بند کیا گیا تھا وہ ابھی بھی افغانستان میں امریکی آپریشنز کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ اسی طرح پاکستان کا ائیر کوریڈور بھی استعمال ہوتا ہے۔ تو اسی نوعیت کی کئی چیزیں ہیں جو امریکہ کو درکار ہیں پاکستان سے جو پاکستان روک سکتا ہے۔‘ مشرف زیدی کا کہنا ہے کہ پاکستان ابھی بھی افغانستان میں امریکی کارروائیوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔
’ڈو مور‘ اور ’نو مور‘ کی یہ کہانی تو سب نے ہی سنی ہے۔ امریکی انتظامیہ کے لوگوں سے جب بھی بات کی جائے تو ایک نام بار بار ابھر کر سامنے آتا ہے اور وہ ہے حقانی نیٹ ورک کا۔

اس حوالے سے مشرف زیدی کہتے ہیں کہ آپ اس کو دو طرح دیکھ سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ پاکستان کا موقف درست ہے اور امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامی کا نزلہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ ’دوسرا یہ تناظر ہے کہ امریکہ سچا ہے اور پاکستان اتنا سچا نہیں۔ اس صورت میں امریکہ کو دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کو ان حقانیوں سے کیا لگاؤ ہے۔ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کسی اور بلا سے بچنے کے لیے حقانی اہم ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں اور وہ بڑی بلا جو ہے وہ ہندوستان ہے۔‘ تو کیا افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر بڑھتا ہوا امریکی دباؤ انڈیا کے ساتھ امریکہ کے بہتر ہوتے تعلقات کی عکاسی ہے؟

اس سوال پر اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہِ بین الاقوامی سیاست کے پروفیسر مجیب افضل کہتے ہیں کہ ’انڈیا اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری ایک سٹکچرل تبدیلی ہے۔ یہ (پاکستان اور امریکہ کے) مسائل ہوں یا نہ ہوں، وہ تبدیلی آ رہی ہے۔ امریکہ پاکستان کو کہتا رہا ہے کہ ہم جنوبی ایشیا کو زیرو سم گیم کے طور پر نہیں لیتے۔ اب وہ وہاں سے آگے گئے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کو علیحدہ علیحدہ کمانڈ کے ذریعے سے ڈیل کرنا شروع کیا ہے، ایک کو پیسیفک کمانڈ کے ذریعے سے اور دوسرے کو سینٹکام کے ذریعے سے۔‘

’اب ان کا اگلہ قدم، اور یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کا فیصلہ نہیں بلکہ اس سے پچھلی انتظامیہ بھی اسی فیصلے پر پہنچی تھی، یہ ہے کہ انڈیا اس خطے کا اہم ملک ہے اور اس کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے گا۔ پاکستان عالمی طاقت کے لحاظ سے ایک وسطی درجے کا ملک ہے اور اس کے ساتھ برتاؤ بھی اسی طرح کیا جائے گا۔ یہ بات نہیں ہو رہی کہ پاکستان انڈیا کے ماتحت ہو مگر یہ بات ضرور ہو رہی ہے کہ پاکستان ایسا نہ کرے کہ انڈیا کی پوزیشن کو نقصان پہنچے بلکہ وہ انڈیا کے ساتھ تعاون پر مبنی رشتہ رکھے۔‘

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر دباؤ میں حالیہ اضافے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ان کا داخلی سیاق و سباق زیادہ اہم ہے جس میں وہ اپنے عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان کی پالیسی دوسروں سے بہتر ہے اور اس کے نتائج آنا شروع ہو رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ کوئی خاص کامیاب نہیں رہے۔ انھوں نے کوشش کی کہ شمالی کوریا کے ساتھ معاندانہ پالیسی اپنائی جائے لیکن وہ کام نہیں کر سکی، مشرقِ وسطیٰ میں دونوں تناظر میں، شام میں بھی اور ایران میں بھی، انھیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی اور جو انھوں نے یروشلم کے حوالے سے قدم اٹھایا ہے اس کا کافی حد تک سنگین ردعمل سامنے آیا ہے، تو یہاں پر دباؤ بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں وہ معنی خیز نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔

وہ اپنے عوام کو کہنا چاہتے ہیں کہ گذشتہ انتظامیہ امریکی پاور کو مؤثر انداز میں استعمال نہیں کر سکی، ہم آپ کو یہ کر کے دیکھا رہے ہیں۔‘ مجیب افضل کا کہنا ہے کہ حقیقتاً افغانستان میں دونوں پاکستان اور امریکہ ناکام ہوئے ہیں۔ ’وہاں موجود فریقوں پر دونوں ممالک کا اثر کم ہے اور دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کو شکست دے کر وہ پورے افغانستان پر اثر و رسوخ قائم کر سکیں گے اور دونوں یہ سمجھ رہے ہیں کہ انھیں ناکامی دوسرے کی وجہ سے ہو رہی ہے۔‘

شجاع ملک
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live