Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

عامر لیاقت حسین پر تاحیات پابندی کے لیے درخواست دائر

$
0
0

اسلام آباد ہائی کورٹ نے تاحکم ثانی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو کسی بھی چینل پر پروگرام کرنے اور تجزیہ دینے سے روک دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں سابق وزیر اور معروف ٹی وی اینکر پر نفرت آمیز مواد پر مشتمل پروگرام اور معاشرے میں تفرقہ پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین پر تاحیات پابندی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی جبکہ درخواست گزار محمد عباس کی جانب سے بیرسٹر شعیب رزاق عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نام نہاد عالمِ دین ہیں اور ان کے پاس اسلامی تعلیمات کی کوئی مستند ڈگری موجود نہیں۔

بیرسٹر شعیب رزاق نے کہا کہ عالم آن لائن کے ذریعے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کئی برس سے معاشرے میں مذہبی اور معاشرتی منافرت پھیلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عامر لیاقت حسین اپنے پروگرام میں کفر اور غداری کے فتوے لگاتے ہیں اور ان کے فتوؤں سے کئی لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔  انہوں نے الزام لگایا کہ عامر لیاقت حسین ذہنی طو ر پر بیمار ہیں اور اپنے پروگرام اور تجزیوں کے ذریعے وہ پیمرا کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ پیمرا اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ عامر لیاقت حسین کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر تاحیات پابندی لگائی جائے۔

انہوں نے عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو سوشل میڈیا پر عامر لیاقت حسین کے تمام اکاؤنٹس بند کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست گزار کے وکیل کا موقف سننے کے بعد تاحکم ثانی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو کسی بھی چینل پر پروگرام کرنے اور تجزیہ دینے سے روکنے کا حکم دے دیا۔ عدالتِ عالیہ نے درخواست پر وفاقی حکومت، پیمرا، پی ٹی اے اور عامر لیاقت حسین سے جواب طلب کر لیا اور سماعت 10 جنوری 2018 تک کے لیے ملتوی کر دی۔ خیال رہے کہ ماضی میں بھی اینکر پرسن عامر لیاقت حسین اپنے ٹاک شوز کی وجہ سے پاکستانی میڈیا میں تنازعات کا شکار رہے۔

گزشتہ برس جون میں پیمرا کی جانب سے عامر لیاقت حسین کی میزبانی میں نشر ہونے والے جیو ٹیلی ویژن کے پروگرام ’انعام گھر‘ پر تین روز کے لیے عارضی پابندی عائد کر دی تھی۔ بعدِ ازاں عامر لیاقت حسین بول نیوز سے منسل ہو گئے تھے جہاں وہ ایک ٹاک شو ’ایسے نہیں چلے گا‘ کی میزبانی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اپنے اس پروگرام میں عامر لیاقت نے جیو ٹیلی ویژن، اس کی انتظامیہ اور مالکان پر الزامات عائد کیے جس کے بعد پیمرا نے اس پروگرام کو نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ پیمرا کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ عامر لیاقت حسین اور ان کے پروگرام پر یہ پابندی پیمرا (ترمیمی) ایکٹ 2007 کی دفعہ 27 کے تحت عائد کی گئی ہے تاہم اگر نیوز چینل اس فیصلے کا اطلاق نہیں کرتا تو چینل کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔

تاہم کچھ ماہ بعد عامر لیاقت ایک مرتبہ پھر مذکورہ پروگرام کی میزبانی کرتے دکھائی دیئے۔ گزشتہ ماہ عامر لیاقت حسین نے بول ٹی وی نیٹ ورک سے ایک سال سے بھی کم عرصہ وابستہ رہنے کے بعد اس سے علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔ عامر لیاقت حسین نے بول سے علیحدگی کا اعلان اپنی ایک ٹوئیٹ کے ذریعے کیا۔ انہوں نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا کہ ’ان کا سفر ختم ہو گیا، لیکن یہ سفر دوستانہ طریقے سے ختم نہیں ہوا، میں اب بول کا حصہ نہیں ہوں، میرا معاوضہ ان پر واجب الادا ہے‘۔ بول ٹی وی نے عامر لیاقت حسین کے اس عمل کو غیر پیشہ ورانہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ادارہ عامر لیاقت حسین کے اعلان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ عامر لیات نے بول ٹی وی سے استعفے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے ان تمام افراد سے معافی مانگی جن پر انہوں نے اپنے پروگرام ’ایسے نہیں چلے گا‘ میں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

بشکریہ روزنامہ ڈان اردو
 


روپے کی قدر میں کمی ۔ حقائق ، توقعات وخدشات : ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی

$
0
0

انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں زبردست کمی اسٹیٹ بینک نے ایک حکمت عملی کے تحت ایک ایسے وقت ہونے دی ہے جب آئی ایم ایف کا وفد پاکستان میں موجود تھا۔ اسٹیٹ بینک نے 8 دسمبر 2017 کے پریس ریلیز میں کہا ہے کہ جاری کھاتے کے خسارے کے بڑھنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے کی وجہ سے روپے کی قدر گری ہے۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ پاکستانی درآمدات تو 2016-17 سے بڑھنا شروع ہوئی تھیں مگر برآمدات 2014-15 سے تسلسل سے گرتی آرہی تھیں۔ برآمدات گرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ قرضہ لینے کے لئے پاکستان نے 19 اگست 2013 کو آئی ایم ایف کی یہ تباہ کن شرط منظور کی تھی کہ تین برسوں تک بجلی وگیس کے نرخ بڑھائے جاتے رہیں گے۔

اس اضافے سے صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھنا بھی برآمدات میں کمی کا ایک سبب رہا ہے۔ بجلی و گیس کے نرخ بڑھاتے چلے جانے کو عملاً چاروں صوبوں کی حمایت حاصل تھی کیونکہ وہ بھی ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور پر ٹیکس عائد کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے یہ قرضہ بنیادی طور پر اس لئے حاصل کیا تھا کہ 26 ستمبر 2008 کو فرینڈر آف پاکستان گروپ کے ساتھ کئے گئے سودے کے تحت آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضے کو واپس کیا جا سکے۔ ہم ان ہی کالموں میں کہتے رہے ہیں کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک عظیم دھوکہ تھا۔ اب یہ خدشہ نظر آرہا ہے کہ اگلی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد 2013 کے قرضے کی ناروا شرائط اور ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے تباہ حال معیشت کو سنبھالا دینے کے نام پر ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف سے نئے قرضے کے حصول کے لئے دست سوال دراز کرے گی جو تباہ کن معاشی شرائط پر امریکہ کی سفارش سے ملے گا جو ’’مزید اور کرو‘‘ کے نام پر نت نئی سیاسی شرائط عائد کرے گا۔

اسٹیٹ بینک نے اپنے 8 دسمبر 2017 کی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ روپے کی قدر میں یہ کمی بیرونی کھاتے میں عدم توازن کو روکے گی۔ یہ سوچ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ موجودہ پالیسیوں کے تناظر میں روپے کی قدر میں حالیہ زبردست کمی کے باوجود بیرونی جاری کھاتے کے خسارے کو مزید بڑھنے سے روکا نہیں جا سکے گا البتہ اس کمی سے بیرونی قرضوں کا ملکی کرنسی میں حجم بڑھا ہے درآمدنی اشیا بشمول پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں، مہنگائی اور شرح سود میں اضافہ ہو گا جبکہ بجٹ خسارہ بھی بڑھے گا۔ اسٹیٹ بینک کے پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جولائی سے اکتوبر 2017 کے 4 ماہ میں برآمدات اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں زبردست اضافہ ہوا مگر درآمدات میں مسلسل بھاری اضافے سے جاری کھاتے کا خسارہ بڑھ گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر سے رقوم نکلیں اور یہ دبائو برقرار ہیں چنانچہ روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔ یہ حقیقت بحر حال اپنی جگہ برقرار ہے کہ اس پریس ریلیز سے صرف تین روز قبل انٹر نیشنل بانڈز کی نیلامی سے اسٹیٹ بینک کو 2.5 ارب ڈالر ملے چنانچہ 7 دسمبر 2017 کو اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 5 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے تھے۔

مالی سال 2015-16 میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 22.6 ارب ڈالر تھا جو 2016-17 میں بڑھ کر 32.5 ارب ڈالر ہو گیا۔ اسی مدت میں جاری کھاتے کا خسارہ 3.3 ارب ڈالر سے بڑھ کر 12.1 ارب ڈالر ہو گیا اکتوبر 2016 سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی کمی ہونا شروع ہو گئی تھی لیکن حکومت اور اسٹیٹ بینک نے صورت حال کی سنگینی کو عملاً نظر انداز ہی کیا۔ یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ اکتوبر2016 سے نومبر 2017 تک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 6.2 ارب ڈالر کی کمی ہوئی تھی مگر مئی2017 سے نومبر 2017 کے 6 ماہ میں بینکوں کے بیرونی کرنسی کے ڈپازٹس بڑھنے سے بینکوں کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 1.3 ارب ڈالر کا زبردست اضافہ ہوا جو کہ روپے کی قدر میں کمی کی توقعات کے پیش نظر سٹے بازی کے رحجان کا عکاس ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ اب سے7 ماہ قبل 5 جولائی 2017 کو انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح مبادلہ 104.90 سے بڑھ کر 108.25 روپے ہو گئی تھی۔

اسٹیٹ بینک نے اسی روز اپنے پالیسی بیان میں اس کمی کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نئی شرح مبادلہ معیشت کے معاشی اشاریوں سے بڑی حد تک ہم آہنگ ہے۔ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے اس کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے مصنوعی قرار دیا تھا۔ اس اعلان کے بعد اسٹیٹ بینک نے اپنی خود مختاری پر سمجھوتہ کر کے روپے کی قدر میں جزوی بہتری کرا دی۔ ’’روپے کی قدر میں کمی، پراسراریت اور اعتماد کا فقدان‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں ہم نے لکھا تھا کہ ’’اسٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ کے متضاد بیانات اور وزیر خزانہ کے سخت بیان کے فوراً بعد روپے کی قدر میں جزوی بہتری سے اس معاملے کی پراسراریت میں اضافہ ہو گیا ہے، اسٹیٹ بینک کی ساکھ مجروح ہوئی ہے‘‘۔ ہم نے اس کالم میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ ’’روپے کی قدر میں اچانک کمی کروا کر کچھ اداروں اور اشخاص نے خوب ناجائز فائدہ اٹھایا ہے (جنگ 13جولائی2017) یہ سلسلہ اب پھر شروع ہو گیا ہے۔

یہ بات حیرت سے پڑھی جائے گی کہ 8 دسمبر 2017 کو روپے کی قدر میں کمی کروانے سے صرف دوہفتے پہلے اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی کے 24 نومبر 2017 کے پالیسی بیان میں کہا گیا تھا کہ برآمدات میں اضافے کی شرح میں بہتری آنے اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں واضح اضافے وغیرہ کی وجہ سے توازن ادائیگی کے خسارے کے دبائو کو قابو میں رکھنے میں مدد ملے گی مگر صرف دو ہفتے کے اندر روپے کی قدر گرانے کے لئے اسٹیٹ بینک نے اپنا موقف تبدیل کر لیا۔ اس صورت حال کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک اور اس کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کی ساکھ بھی مجروح ہوئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اکتوبر2016 کے بعد جو اقدامات اٹھانا ضروری تھے ان میں چند یہ ہیں:

1۔ مانیٹری پالیسی کو زمینی حقائق اور حکومت کی مالیاتی پالیسی سے ہم آہنگ کرنا۔

2۔ اسٹیٹ بینک کا درآمدات کنٹرول کرنے اور شعبہ بینکاری میں بہتری کے لئے اصلاحات کرنا اور 3۔ وفاق اور صوبوں کا معیشت کو بہتر بنانے، درآمدات کو کنٹرول کرنے (حکومتی شعبے میں) اور برآمدات میں تیزی سے اضافہ کرنے کے لئے اسٹرکچرل اصلاحات کرنا۔

بدقسمتی سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کےتحفظ کے لئے یہ اقدامات نہ پہلے اٹھائے گئے اور نہ اب اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہی نہیں، پست سیاسی مفادات کے حصول کے لئے خصوصی طور پر گزشتہ چند ہفتوں میں سیاسی افراتفری اور احتجاجی کلچر کو فروغ دیا گیا ہے حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ تمام متعلقہ فریق ملک کو خطرات سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرتے ۔ اس صورت حال میں سٹے بازی سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بھاپ کی طرح اڑ سکتے ہیں۔ ہم نے اپنے20 اکتوبر 2017 کے کالم میں کہا تھا کہ اقتصادی دہشت گردی پر مبنی معاشی پالیسیوں کو خیرباد کہہ کر ہماری سفارشات کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے۔ اب ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اس سے قبل آل پارٹیز کا نفرنس بلاکر ان تجاویز کی منظوری حاصل کی جائے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
 

گوادر کا تاریخی پس منظر

$
0
0

گوادر، کراچی سے تین سو میل کے فاصلے پر ایران کی سرحد کے قریب بلوچستان کا ایک ایسا ساحلی قصبہ ہے جس میں فطری طور پر گہرے پانی کی قدرتی بندرگاہ بننے کی گنجائش پائی جاتی ہے لیکن ایک ایسے دور افتادہ مقام پر واقع ہونے کے باعث جس کے ملک کے ساتھ ریل اور سڑک کے رابطے نہ ہونے کے برابر ہیں اپنی فطری صلاحیت کے باوجود اب تک گوادر کو محض مقامی سطح پر ماہی گیری کی بندرگاہ کے طور پر ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان میں ساحل مکران پر واقع گوادر، پاکستان کے نقشے پر واقع ایک نہایت پسماندہ شہر ہے اسکے اردگرد کا علاقہ گوادر کا ضلع کہلاتا ہے اس ضلع میں تین قصبے ہیں گوادر، پسنی اور مرا۔

گوادر کا قصبہ 1958ء تک چھوٹی سی ہمسایہ خلیجی ریاست مسقط کے قبضہ میں تھا۔ مسقط کے حکمران سلطان السعید نے گوادر کو بھارت کے ہاتھ فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا۔ حکومت پاکستان کو بمبئی میں ان کے میزبان مسلمان تاجروں کی وساطت سے اس سودے کے بارے میں علم ہوا۔ اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم فیروز خان نون تھے، انہوں نے کسی تساہل سے کام لیے بغیر بھارت سے زیادہ قیمت ادا کر کے گوادر کو خرید لیا۔ اس طرح 1958ء میں گوادر پاکستان کا حصہ بنا گوادر کی فروخت کے وقت مسقط اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان یہ طے پایا کہ گوادر کے باشندوں کو بیک وقت دونوں ممالک کی شہریت حاصل ہو گی البتہ 1958ء کے بعد پیدا ہونے والے صرف پاکستان کے شہری تصور ہوں گے۔
اس معاہدے کے تحت آج بھی سلطنت اومان میں گوادر کے باشندوں کو شہری حقوق حاصل ہیں ان کی ایک کثیر تعداد سلطنت اومان کی فوج اور دیگر محکموں میں ملازم ہے اور بہت سے بلوچ باشندے اومان میں کاروبار بھی کرتے ہیں جس طرح پاک افغان سرحد کے دونوں طرف بسنے والے قبائل میں سماجی، ثقافتی کاروباری اور خاندانی رشتے ہیں بالکل اس طرح گوادر کے بلوچوں اور سلطنت اومان کے بلوچوں میں قدیم اور گہرے خاندانی سیاسی، سماجی، اور تجارتی رشتے پائے جاتے ہیں۔ نصیر خان نوری حکمران قلات نے گوادر مسقط کے شہزادے سید سلطان کو گزر اوقات کے لیے حوالے کیا تھا.

تاہم بعد میں مسقط کے حکمرانوں نے اسے اپنی حکومت کا حصہ بنا لیا 1822-23 میں خان قلات ناصر خان مرحوم نے اپنی فوج کی مدد سے گوادر پر قبضہ کر نے کی ناکام کوشش کی اس کی بڑی وجہ گوادر کے گورنر نے خان قلات کے کمانڈروں کو لالچ دے کر خرید لیا تھا۔ 1957ء میں پاکستانی حکومت نے اومان سے گوادر پونے تین کروڑ روپے باقاعدہ معاہدے کے تحت واپس خریدا کیوں کہ خان آف قلات کے آباؤ اجداد نے تحفہ میں یہ اومان کے شہزادے کو دیا تھا گوادر اس علاقے سے فاصلاتی طور پر بھی نہایت قریب ہے بلکہ اومان اور گوادر کے درمیان تاریخی روابط بھی استوار ہیں 1957ء سے قبل مسقط کی طرح گوادر بھی پسماندہ علاقہ رہا یہاں پر سلطان نے کسی قسم کی سماجی ترقی لانے کی کوشش نہیں کی تاہم گوادر میں فوجی ملازمتوں کے دروازے کھولے گئے۔

گوادر کی کل آباد ی تقریباً دو لاکھ کے قریب ہے اور مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے سارا ضلع ساحل سمندر پر واقع ہے اس لیے یہاں 3400 افراد ماہی گیری کا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہیں غربت کی وجہ سے وہ پرانی کشتیوں اور جالوں کے ذریعے مچھلیاں پکڑتے ہیں ساحلی علاقے کے قریب سمندر میں ٹیونا مچھلی عام ہے جس کی مغربی دنیا میں بڑی زبردست مانگ ہے ماہی گیر ناخواندہ ہونے کی وجہ سے مچھلی کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کرتے ہیں یہ صورتحال 1958ء سے اب تک ویسی کی ویسی ہے۔ بلوچستان میں 35 مختلف رنگ و نسل کی مچھلیاں جن کا وزن ایک لاکھ چودہ میٹرک ٹن اور جو 910 ملین روپے کی مالیت کی ہوتی ہیں کو روایتی طریقوں سے پکڑا جاتا ہے۔

گوادر کے ساحل کا کل رقبہ 130 ایکڑ ہے۔ روس کی وسط ایشیائی ریاستیں اور افغانستان جبکہ دوسرے طرف متحدہ عرب امارات اور دیگر علاقوں کے راستے میں گوادر اور سب سے خاص بات یہ کہ گوادر کی بندرگاہ خلیج فارس کے عین دہانے پر واقع ہے اور وسطی ایشیاء سے گوادر تک زمینی فاصلہ محض 500 کلومیٹر ہے وسطی ایشیائی نو آزاد مسلم ریاستوں کی باقی دنیا کے ساتھ تجارتی روابط کا موزوں ترین ذریعہ گواردر کی بندرگاہ ہے اگر دفاعی اعتبار سے سی پورٹ بنایا جائے تو کراچی کی نسبت زیادہ اہم ثابت ہو گا۔ گوادر فش ہاربر اور منی ڈیپ واٹر پورٹ کا سنگ بنیاد دسمبر 1989ء میں رکھا گیا۔ 1991ء میں اس منصوبے کی تکمیل متوقع تھی لیکن ریاستی اکھاڑ پچھاڑ کے باعث یہ منصوبہ برقت پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ بلوچستان کے ساحلی علاقے میں آٹھ قصبے ہیں جن میں 34 مختلف آبادیوں میں تین لاکھ سے زائد افراد آباد ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو

اہم عدالتی فیصلے اور سیاسی نتائج

$
0
0

عدل و انصاف کو ایک آفاقی حقیقت کا درجہ حاصل ہے۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ خواہ مسلم ہو یا غیرمسلم، عدل و انصاف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ عہد ِحاضر میں سماج میں عدل و انصاف کا قیام عدلیہ کا فریضہ ہے۔ جس کے حالیہ فیصلوں کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ عدلیہ نے جانبداری سےکام لیا، اگر کوئی ایسا طرز ِ عمل اختیار کرتا ہے تو اس کاعمل توہین عدالت کی ذیل میں تو آتا ہی ہے اس سے عوام کا عدلیہ ایسے معتبر ادارے پر اعتماد بھی متزلزل ہونے کا احتمال رد نہیں کیا جا سکتا۔ وطن عزیز کی سیاست میں پچھلے چند برس سے عدلیہ کو خاص اہمیت حاصل ہوئی ہے کہ اسے بیشتر ایسے معاملات فیصل کرنا پڑے جن کا تعلق سیاستدانوں سے تھا۔

پاناما کیس کے 28 جولائی کے فیصلے، جس میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا، سے دو روز قبل مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کے لئے سپریم کورٹ میں درخواستیں جمع کرائیں کہ دونوں رہنمائوں نے انتخابات لڑنے کے لئے جمع کرائے گئے کاغذات میں سچائی سے کام نہیں لیا اور اپنے اثاثوں کی مکمل تفصیلات ظاہر نہیں کیں، لہٰذا آئین کی شق 62 کے تحت دونوں کو نااہل قرار دیا جائے۔ اس پر 405 روز کے دوران 50 سماعتوں میں 101 گھنٹے عدالتی کارروائی ہوئی، کم و بیش 7 ہزار دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد عدالت ِ عظمیٰ نے 14 نومبر 2017 کو فیصلہ محفوظ کر لیا۔

گزشتہ روز عدالت ِ عظمیٰ نے دو ایسے فیصلے سنائے جنہیں ملک اور ملکی سیاست میں انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ عمران خان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ آنے سے قبل عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے شریف خاندان کے خلاف دائر حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کو دوبارہ کھولنے سے متعلق اپیل کو مسترد کر دیا، بعد ازاں سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر نیب کی اپیل کومسترد کرنے کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا وجوہات تحریری فیصلے میں بتائی جائیں گی۔ حدیبیہ پیپر ملز کا مقدمہ ایک ایسا مقدمہ تھا جس پر شریف خاندان کےمخالفین سب سے زیادہ انحصار کر رہے تھے اور اسے شریف خاندان کی سیاست کے خاتمے کا باعث بننے والا مقدمہ قرار دے رہے تھے۔ 

تاہم یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عدالتی فیصلے کسی کی منشا یا جذبات پر فیصل نہیں ہوتے ۔ حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے کو حالیہ سیاست میں اس لئے خاص اہمیت حاصل ہو گی کہ اب مسلم لیگ ن کے مخالفین کے پاس وہ کاری ہتھیار نہیں رہے گا جسے وہ شریف برادران کی سیاست کے خاتمے کے حوالے سے سب سے ’’اہم‘‘ گردان رہے تھے۔ دوسرا اہم فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیا اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی نااہلی سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حنیف عباسی کی درخواست مسترد کر کے عمران خان کو اہل قرار دے دیا جبکہ جہانگیر ترین کے خلاف درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا گیا۔ 

چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تحریک ِ انصاف پر غیرملکی فنڈنگ پر درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں۔ الیکشن کمیشن غیر جانبدارانہ طور پر پی ٹی آئی کے اکائونٹس کی پچھلے 5 سال تک کی چھان بین کر سکتا ہے۔ جہانگیر ترین کے بارے میں عدلیہ کا کہنا تھا کہ انہیں ایماندار قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ایک ہی دن عدالت ِ عظمیٰ کے دو مختلف مگر اہم ترین فیصلے اس امر کے غماز ہیں کہ ہماری عدلیہ آزاد ہے اور آزادانہ فیصلے کر رہی ہے اور جب عدلیہ آزاد ہو تو ملک و قوم کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہو سکتا۔ لازم یہ ہے کہ مذکورہ مقدمات کے تمام تر متعلقین عدلیہ کے فیصلوں کو من و عن تسلیم کریں۔ کسی کو اگر ان فیصلوں پر تحفظات بھی ہیں تو اسے صرف وہ راہ اختیار کرنی چاہئے جو اسے آئین نے سجھائی ہے۔ دوسرا کوئی راستہ خود کو آزمائش میں ڈالنے کے مترادف ہو گا۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

کیا پاکستان کی قومی اسمبلی قبل از وقت ٹوٹنے والی ہے ؟

$
0
0

پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسمبلی مدت پوری نہیں کرے گی۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے ملک کی سیاسی صورتحال کو ‘مایوس کن’ قرار دیا اور کہا کہ ایسے معاملات 2002 میں بھی نہیں دیکھے تھے۔ انھوں نے کہا مجھے لگ رہا ہے کچھ ہونے والا ہے لیکن یہ ملک کے مفاد میں نہیں۔ اللہ کرے اسمبلی مدت پوری کرے لیکن جو کچھ پچھلے دو تین مہینوں میں ہوا مجھے نہیں لگتا اسمبلی مدت پوری کرے گی۔ سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ مایوسی گناہ ہے مگر میں پہلی بار سیاست میں ناامید ہوا ہوں۔ ان کا کہنا تھا ن کہ مجھے ایک ‘گریٹر پلان’ نظر آ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ استعفوں کی طرف بھی جائیں۔ ایاز صادق نے کہا پاکستان اس وقت دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔ پاکستان کو بیرونی خطرہ اندرونی خطرے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ہمیں متحد ہو کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ ایک پارٹی کے علاوہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں چاہتی ہیں کہ سسٹم نہ ٹوٹے اور حکومت مدت پوری کرے۔  

’فیس بک‘ کے ساتھ کام کرنا گناہ کبیرہ تھا, فیس بک کے نائب سربراہ کا اظہار ندامت

$
0
0

سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائیٹ ’فیس بک‘ کے ایک سابق ایگزیکٹو ڈپٹی ڈائریکٹر نے سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرے کو تباہ کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے ’فیس بک‘ کے ساتھ سرگرم رہنے پر شرمندگی کا اظہار کیا ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اسٹانفرڈ یونیورسٹی میں لیکچر کے دوران ’فیس بک‘ کے سابق سینیر عہدیدار چامتھ پالیھا پیٹیا نے کہا کہ میں نے خود بھی ’نیلی ویب سائیٹ‘ فیس بک‘ استعمال کرنا چھوڑ دی اور اپنے بچوں کو بھی اس سے منع کر دیا ہے۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے ’سوشل فیبرک‘ کو تباہ کرنے کے آلات ایجاد کیے ہیں۔ ان کا اشارہ فیس بک اور اس قبیل کی دوسری ویب سائیٹس کی طرف تھا۔ پالیھا پیٹیا نے بتایا کہ وہ ’فیس بک‘ میں صارفین میں اضافے کے نگران تھے اور 2007ء سے 2011ء تک ’فیس بک‘ کے ساتھ کام کیا۔ آج میں فیس بک کے ساتھ کام کرنےکو گناہ کبیرہ سمجھتا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ نہ صرف فیس بک بلکہ تمام سوشل ویب سائیٹس کو لمبے عرصے کے لیے بند کر دیا جائے۔ دوسری جانب فیس بک کے مالک اور چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ نے کمپنی کے سابق سینیر عہدیدار کے بیانات کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’چامتھ پالیھا پیٹیا‘ چھ سال سے کمپنی سے دور ہیں۔ ان کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں۔ ’فیس بک‘ نے معاشروں کو تباہ نہیں بلکہ آپس میں جوڑا ہے۔

دبئی - العربیہ ڈاٹ نیت


 

موبائل فون کے مضر اثرات سے کیسے بچیں ؟

$
0
0

کیلیفورنیا کے شعبہ پبلک ہیلتھ نے موبائل فون سے خارج ہونے والی ریڈیو فریکوئنسی انرجی سے بچنے کے لیے ہدایت نامہ جاری کیا ہے۔ اگرچہ ماہرین سائنس موبائل فون کے استعمال سے ہونے والے نقصانات پر متفق نہیں ہیں لیکن تحقیق نے عندیہ دیا ہے کہ طویل عرصے تک موبائل فون کا استعمال اور زیادہ استعمال صحت کے لیے مضر ہے۔ کیلیفورنیا کے شعبہ پبلک ہیلتھ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر کیرن سمتھ کا کہنا ہے ’موبائل فون کے زیادہ استعمال سے صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ موبائل فون کے مضر اثرات سے بچے اور بالغ دونوں ہی بچ سکتے ہیں اگر وہ اپنی جیب میں فون نہ رکھیں اور رات کو سوتے وقت اپنا موبائل بستر سے دور رکھیں۔‘
کیلیفورنیا کے شعبہ پبلک ہیلتھ کے مطابق موبائل فون ریڈیو فریکوئنسی انرجی خارج کرتے ہیں جب موبائل فون سیل ٹاور سے سگنل موصول کرتا ہے یا موبائل سگنل بھیجتا ہے۔ اور یہ ریڈیو فریکوئنسی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح امریکہ میں موبائل فون کا استعمال بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ امریکہ میں 95 فیصد امریکیوں کے پاس موبائل فون ہیں اور 12 فیصد امریکی انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے اپنے موبائل کا ہی استعمال کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ امریکہ میں پہلا موبائل فون ملنے کی اوسط عمر کم ہو کر 10 سال ہو گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق زیادہ تر نوجوان سارا دن اپنے فون آن رکھتے ہیں اور سوتے ہوئے بھی فون قریب رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں بھی موبائل فون کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 13 کروڑ افراد موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سمتھ کا کہنا ہے ’بچوں کے ذہن کی نشو نما جوانی میں ہوتی ہے اور موبائل کے زیادہ استعمال سے منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو زیادہ موبائل فون استعمال نہ کرنے دیں اور رات کو فون بند کر دیں۔‘
کیلیفورنیا کے شعبہ پبلک ہیلتھ نے چند بنیادی احتیاطی تدابیر بھی تجویز کی ہیں جن سے ریڈیو فریکوئنسی انرجی سے بچا جا سکتا ہے۔

فون کو اپنے جسم سے دور رکھیں.
موبائل فون کم استعمال کریں جب سگنل کمزور ہوں.
موبائل پر آڈیو یا ویڈیو سٹریمنگ کم کریں یا بڑی فائلیں اپ لوڈ یا ڈاؤن لوڈ نہ کریں.
رات کے وقت فون کو اپنے بستر سے دور رکھیں.
جب فون پر بات نہیں کر رہے ہوں تو ہیڈ سیٹ اتار دیں.

بشکریہ بی بی سی اردو
 

سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا

$
0
0

عظیم قومیں جب اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں تو ترقی کرتی ہیں لیکن ہم نے تو حادثات سے بھی نہیں سیکھا اور وہ بھی ملک کا سب سےبڑا حادثہ یعنی 1971 میں مشرقی پاکستان کا الگ ہونا جو اب بنگلہ دیش ہے۔ صرف ایک ہی سبق سیکھا گیا ہے کہ ‘‘کچھ نہیں سیکھنا۔ ’ مشرقی پاکستان کا سانحہ بطور ریاست ہماری قومی ناکامی تھی۔ نہ ہی ہم نے ’اکثریت’ کو مانا اور نہ اکثریت کے مینڈیٹ کو۔ اگر 1948، 1956، 1960اور 1971 میں ہم نے اکثریتی صوبے کااحترام کیا ہوتا تو مشرقی پاکستان کا سانحہ نہ ہوتا۔ اُن کے دکھ فرضی نہیں تھے بلکہ حقیقت پر مبنی تھے لیکن ہماری سول اور ملٹری بیورو کریسی کا مائنڈ سیٹ اکثریت کو ان کا ‘ لازمی حصہ’ دینے کو تیار نہیں تھا، نہ وسائل میں اور نہ ہی سیاست میں۔

گزشتہ 46 سال میں ریاست کے چار ستون اپنے ذمے کا کردار ادا کرنے اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کے قابل نہیں ہوئے۔ اس کے برعکس ہم اسی طرح کی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم ’بیدار’ ہو جائیں۔ 1971 کی غلطیوں سے ہمیں مندرجہ ذیل سبق سیکھنے چاہئے تھے لیکن 1947 سے 1971 کے درمیان ہم نے غلطیوں کو دھرایا۔

(1) اکثریت اور اکثریت کی رائے کا احترام۔
(2) لوگوں کے مینڈیٹ کا احترام حتیٰ کہ یہ کسی کی خواہشات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
(3) حقیقی معنوں میں آئین کا احترام۔
(4) قانونی کی حکمرانی کا احترام۔
(5) پارلیمنٹ کا احترام۔
(6) جمہوری اقدار کا احترام۔
(7) ریاست کے تمام ستونوں کو ذمہ داری سے کام کرنا چاہیئے۔
(9) پریس یا میڈیا کو لوگوں تک غلط معلومات نہیں پہنچانی چاہیئےاور نہ اُس طرح کسی کے ہاتھوں میں کھیلنا چاہیئے جس طرح ہم نے 1971 میں اس کا غیر ذمہ دارانہ استعمال دیکھا۔
(10) جب بات سیاسی بحران یا تنازع کی ہو توعسکری حل کی بجائے سیاسی حل تلاش کرنے چاہیئں۔

لیکن 1971 سے 2017 کے درمیان کیا ہوا۔ دو فوجی حکومتیں، 1977 سے 1988 تک اور 1999 سے 2007 تک۔ درمیان میں سول حکومتیں 1988 سے 1990 تک، 1993 سے 1996 تک اور 1997 سے 1999 تک اپنی مدت پوری نہ کر سکیں اور برطرف کر دی گئیں، ایسا زیادہ ترغیر سیاسی مداخلت کے باعث ہوا۔ افسوسناک طور پر اس کے باعث پاکستانی معاشرے کی سیاسی اور معاشرتی سمتیں بد سے بدتر ہو گئیں۔ جمہوری نظام تاحال ’ونٹی لیٹر‘ پر ہے۔ عدلیہ بھی ناکام رہی اور 2007 میں ججز اور وکلاء کی تحریک کے آغاز تک اس نے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اس نے جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کے ملٹری اقتدار کو قانونی حیثیت دی۔ دونوں نے آئین کو پامال کیا اور اس میں ترامیم کیں۔ جنھوں نے آرٹیکل VI کی خلاف ورزی کی انھیں کبھی ٹرائل کاسامنا نہیں کرنا پڑا۔

جنرل ضیاء ہوائی جہاز حادثے میں مارے گئے جبکہ مشرف جلاوطنی کاٹ رہے ہیں۔ ان کے دورِ اقتدار نے ملک کو نسلی، فرقہ ورانہ ذات برادری نظام میں تقسیم کیا اور جاگیردارانہ نظام کو مضبوط کیا۔ ان کے دورِ اقتدار میں اسلحہ اور منشیات کلچر کو فروغ ملا اور معاشرہ کرپٹ ہوا۔ پارلیمنٹ اور سیاستدان بھی آئین کی حفاظت، اعلیٰ اخلاقی معیار کا قیام اور گُڈ گورننس کا اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے۔ آمریت کو چیلنج کرنے کی بجائے ایک پارٹی دوسری کو بے دخل کرنے کی سازش کا حصہ بن جاتی تھی۔ انھوں نے کچھ ’فائدے اورعہدے‘ لینے کیلئے ‘ فوجی حکومت‘ کوخوش آمدید کہا۔ جس طرح سے بھی آمروں کو اچھا لگا، قومی جماعتوں اور گروپس میں تقسیم پیدا کرنے کیلئے وہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے۔ سیاستدان اور سول حکمران جمہوری ادارے بنانے میں بھی ناکام رہے اور اس کے نتیجے میں ان کا ریکارڈ بطور ’ صاف حکمران‘ بہت خراب رہا۔ لہٰذا 1970 کےانتخابات کےنتیجے میں پہلی منتخب حکومت کے بعد کرپشن سیاسی کلچر کی ’ پہچان’ بن گئی۔

سن 1972 کی اسمبلیاں اور سیاستدانوں کو بہت زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور حتیٰ کہ ذوالفقارعلی بھٹو پر اپنے مخالفین اور پریس کو دبانے کے الزامات لگے لیکن اُن پر کرپشن کے الزامات کبھی نہیں لگے۔ اس کے برعکس غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں سامنے آنے والے لوگ کرپشن میں ملوث رہے اور بعد میں انھیں آئین میں ترمیم کرنے کی بھی اجازت دے دی۔ مثال کےطور پر ریاست کے چوتھے ستون پریس کو بھی اپنی غلطیوں سے سیکھنےکی ضرورت ہے۔ سن 1970-71 کے بحران میں اس کا کردار ’مشکوک‘ رہا۔ ‘حقائق’ کی بنیاد پر رپورٹنگ کی موت ہو گئی۔ 1970 کےانتخابات کے دوران پریس سنسر شپ کا شکار نہیں تھا لیکن میڈیا بھی اتنا ہی تقسیم ہو گیا تھا جتنا سیاست مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تقسیم ہو گئی تھی۔

سنسرشپ کا نفاذ 1971 میں جنگ کے دوران کیا گیا اور سب سے بڑی اور افسوسناک خبر ’سقوطِ ڈھاکہ‘ کا بلیک آئوٹ کیا گیا اور کچھ قومی اخبارات نے اِسے سنگل یا ڈبل کالم میں رپورٹ کیا۔ یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ 1947 سے جمہوریت جڑیں نہیں پکڑ سکی اور اس کے نتیجے میں ہم اپنی سمت کا تعین نہیں کر سکے۔ جو کچھ 1971 میں ہوا وہ غلط سمت کا نتیجہ تھا۔ بطورِ قوم اس وقت مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے کا سانحہ اس کا نتیجہ ہے جو گزشتہ 70 سال میں ہوا، ہمارے پاس بمشکل کوئی سیاسی جماعت ہے جس کے پاس مکمل قومی کردار اور تمام صوبوں میں جڑیں ہوں۔ 1971 کا سبق یہ تھا کہ مینڈیٹ کا احترام اور اُسے قبول کیا جائے۔ جو کچھ 46 سال قبل ہوا وہ مجموعی طورپر ہمارے قومی کردار کی ناکامی تھی۔

ہمیں تسلیم کرنا چاہیئے کہ ہم نے 1970 کے انتخابات کے مینڈیٹ کا احترام کیا اور نہ ہی اسے قبول کیا۔ یہ بھی قبول کرنا چاہیئے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی موت کے بعد ہم نے اکثریت کی رائے کا احترام نہیں کیا۔ اگر ہم نے 1956 سے یہ کیا ہوتا توغالباً 1971 کا سانحہ رونما نہ ہوتا۔ لیکن کسی ایک ادارے کو مودرِ الزام ٹھرانا غلط ہو گا۔ سب کو ذمہ داری لینا ہو گی لیکن زیادہ ذمہ داری ریاستی اداروں جیسے اسٹیبلشمنٹ، بیورو کریسی اور انتظامیہ کی ہے۔ اگر ہم نے 1971 کے بحران سے سبق سیکھا ہوتا تو 1977 کاسانحہ نہ ہوتا، جب سیاستدانوں میں انتخابات کا معاہدے طے پا گیا تھا۔ کوئی سبق نہیں سیکھا گیا اور چھ سال بعد ہی مارشل لاء نافذ ہو گیا۔ حتیٰ کہ اگر انتخابات 90 دن کے اندر ہو جاتے جیسا کہ وعدہ کیا گیا تھا تو پاکستان اب جمہوری راستے پر ہوتا۔ 

اس سے بڑا سیاسی سانحہ کیا ہو گا جو پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ گزشتہ 70 سال میں کیا گیا۔ وہ پارٹی جس نے سمت کا تعین کرنا تھا، قائد اعظم کی رحلت کے بعد وہ ہی راستہ بھٹک گئی۔ پی ایم ایل میں تقسیم کے بعد کوئی قومی جماعت سامنے نہ آئی اور حتیٰ کہ پی پی پی اور عوامی لیگ جیسی جماعتیں بھی اپنے اپنے صوبوں تک محدود رہیں۔ آج ریاست کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مرکزی سیاسی جماعتوں کی ناکامی سے ’قومی مفاد ‘ کو نقصان پہنچے گا اور منفی سیاست کی راہ ہموار ہو گی۔ 

مظہر عباس

 


فحاشی بے حیائی کو کون روکے گا ؟

$
0
0

چند روز قبل ایک سرکاری افسر کا فون آیا۔ کہنے لگے حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ڈرامے تو کیا خبریں تک نہیں دیکھی جا سکتی۔ کوئی پتا نہیں کس وقت اسکرین پر کیا چلا دیں۔ اشتہارات ہیں تو فحش، ڈرامے ہیں تو اُن میں ہمارے دینی اور معاشرتی اقدار کو تار تار کیا جا رہا ہے، بے حیائی کو پھیلایا جائے، فیشن شو جن میں لباس سے زیادہ عریانیت پر زور ہوتا ہے اُس کے بغیر تو کوئی خبر مکمل نہیں ہوتی۔ سرکاری افسر مجھے کہنے لگے کہ اس بارے میں مجھے کچھ کرنا چاہیے۔ اُن کی اس بات نے جیسے میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے تو اس معاملہ میں انتہائی مایوسی کا سامنا ہے۔ اتنی کوشش کی، کئی کالم لکھے، روشن خیال اینکرز اور کالم نگاروں کے طعنوں کا سامنا کیا متعلقہ اداروں ، سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور پارلیمنٹیرین سے بھی کئی بار بات کی۔ عمومی طور پر سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہاں میڈیا معاشرے میں تیزی سے فحاشی و عریانیت پھیلانے اور ہماری مذہبی و معاشرتی اقدار کی تباہی میں بہت آگے نکل چکا ہے۔ لیکن افسوس کہ اس برائی کو روکنے کیلئے کوئی کچھ کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ 

اس برائی کے خلاف بیان جاری کر دیئے جاتے ہیں، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں قراردادیں بھی پاس کر دی جاتی ہیں، وزیر اعظم کی طرف سے پیمرا کو ہدایات بھی دے دی جاتی ہیں لیکن کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بے شرمی اور بے ہودگی کو ہر گزرتے دن کے ساتھ آہستہ آہستہ بڑھاوا دیا جا رہا ہے بالکل اسی انداز میں جیسے کسی کے جسم میں زہر کو غیر محسوس انداز میں اس طرح شامل کیا جائے کہ موت کے قریب پہنچنے پر ہی پتا چلے کہ یہاں تو زندگی ہی کے خاتمہ کا سامنا ہے اور اب اتنی دیر ہو چکی کہ جان بچانے کی کوئی تدبیر میسر نہیں ۔ ویسے تو ہم میں بحیثیت قوم انفرادی اور اجتماعی طور پر بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں جن کی درستگی کیساتھ معاشرہ کی کردار سازی پر ریاست کے ساتھ ساتھ ہر فرد کو بہت کام کرنا پڑے گا۔ 

لیکن مغربی دنیا کے برعکس شرم و حیا ہمارے معاشرے کا وہ سرمایہ تھا جس پر ہمیں ہمیشہ فخر رہا اور جس نے ہمیں دوسروں سے نمایاں رکھا۔ معاشرے کی دوسری خرابیوں کو دور کرنے اور افراد کی کردار سازی میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے ہمارے میڈیا نے ہمارے اس معاشرتی فخر اور اسلامی شعائر شرم و حیا کو ہی نشانہ پر رکھ لیا ہے۔ شرم و حیا کو ختم کرنے کے لیے فحاشی و عریانیت کا زہر اس قوم کے جسم میں پھیلایا جا رہا ہے ۔ جیسا کہ میں نے اوپر کہا کہ کوئی میڈیا کو اس ظلم سے روکنے کیلئے تیار نہیں۔ سب ڈرتے ہیں جیسے مافیا اور ڈان سے ڈرا جاتا ہے۔ ان حالات میں حکومت، پارلیمنٹ کو اس قوم اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کی دنیا و آخرت کی بقا کیلئے میڈیا کو آئین و قانون کے دائرہ میں رہ کر کام کرنے کا پابند بنانا ہو گا۔

انصار عباسی
x

فیس بک پر ایسی پوسٹ کبھی مت کریں

$
0
0

اگر تو آپ فیس بک پر اپنی پوسٹس پر لائیکس، کمنٹس وغیرہ کی اپیل کرنے کے عادی ہیں تو ایسا کرنا فوری چھوڑ دیں، ورنہ سوشل میڈیا آپ کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے۔ یہ انتباہ فیس بک کی جانب سے ایسے افراد کے لیے جاری کیا جو کہ اپنے دوستوں سے ووٹ، لائیک ، کمنٹ یا پوسٹ شیئر کرنے کی درخواست اس امید کے ساتھ کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نیوزفیڈ پر سب سے اوپر نظر آئیں۔ فیس بک کے مطابق ایسی پوسٹس کو مکمل پابندی کا سامنا تو نہیں ہو گا مگر انہیں نیوز فیڈ پر اتنا نیچے پھینک دیا جائے گا کہ وہ اکثر افراد کی رسائی سے دور ہو جائیں گی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ نے اپنے بلاگ میں کہا کہ لوگ اس طریقہ کار کو بار بار استعمال کرتے ہیں اور اب ایسا کرنے پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
فیس بک کے مطابق ایسی پوسٹس پر کارروائی فوری طور پر شروع نہیں کی جارہی تاہم آئندہ چند روز بعد اس طرح کے طریقہ کار کو بالکل بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تاہم اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگوں سے مدد، مشورہ یا تجاویز مانگنے والی پوسٹس کے خلاف ایکشن نہیں لیا جائے گا جیسے کسی گمشدہ بچے کی رپورٹ، کسی مقصد کے لیے فنڈ اکھٹا کرنا یا سفری ٹپس وغیرہ۔

فیس بک کے مطابق اس اقدام کے بعد صارفین کے نیوزفیڈ پر زیادہ 'مستند'مواد نظر آنے لگے گا جس کی ساکھ کو حالیہ عرصے میں فرضی خبروں کے پھیلاﺅ سے شدید دھچکا لگا ہے۔ اب فیس بک کا کہنا ہے کہ اسپام، سنسنی پھیلانے والے یا غلط فہمی بڑھانے والے مواد کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی اور زیادہ بامعنی پوسٹس کو ہی صارف کی نیوزفیڈ میں دکھایا جائے گا۔ ویسے فیس بک کی جانب سے نیوزفیڈ کے الگورتھم میں اکثر اس طرح کی تبدیلیاں کی جاتی ہیں جس میں اسپام ویڈیو، جنک پوسٹس اور جعلی لائیکس کو ہدف بنایا جاتا ہے۔
 

پاک چین تجارت امریکی ڈالر کے بجائے یوان میں

$
0
0

پاکستان کی حکومت چین سے دوطرفہ تجارت کے لیے امریکی ڈالر کے بجائے چینی کرنسی ’یوان‘ کے استعمال کا جائزہ لے رہی ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ دو طرفہ تجارت کے لیے یوان کے استعمال پر غور کیا جا رہا ہے۔ وزارت خزانہ سے متعلق اُمور کے پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد افضل نے  وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کی کہ حکومت چین پاکستان تجارت کے لیے امریکی ڈالر کو ’یوان‘ سے تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔  پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ منصوبے کے تحت چین کی کرنسی کو پاکستان میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اور ملک کے اندر پاکستانی کرنسی یعنی ’روپیہ‘ ہی استعمال ہو گا۔

رانا افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یورپی ممالک سے تجارت کے لیے یورو جب کہ برطانیہ سے تجارت کے لیے ’پاؤنڈ‘ بطور کرنسی استعمال ہو رہا ہے۔ ’’ہمیں چینی کمپنیاں (سامانِ تجارت کے لیے) یوان میں ریٹ دیتی ہیں۔ ہم پہلے پاکستانی روپے کو ڈالر میں تبدیل کرتے ہیں اور پھر ڈالر کو یوان میں بدلتے ہیں۔ ہماری کاروباری برداری کا یہ مطالبہ ہے کہ جب (چین پاکستان) بینکنگ تعلقات براہِ راست ہوں تو ہمیں درآمد پر اضافی رقم خرچ نہیں کرنی پڑی گی۔‘‘ رانا افضل نے بتایا کہ ’’حکومت اس بات پر غور کر رہی ہے اور جیسے ہی بینک اس کے لیے تیار ہو جائیں گے تو جس طرح یہ سہولت ہم نے یورپ کو دی ہوئی ہے، وہ چین (کے ساتھ تجارت) کے لیے بھی ممکن ہو جائے گی۔‘‘ واضح رہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے پاکستان میں طویل المدت منصوبے کا آغاز ہوا ہے۔

گزشتہ ماہ بینک آف چائنا نے پاکستان میں اپنے باقاعدہ آپریشنز کا آغاز کیا تھا، جسے پاکستانی حکام دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے کے لیے اہم پیش رفت قرار دیتے ہیں۔ بینک آف چائنا کا شمار دنیا کے بڑے اور ممتاز بینکوں میں ہوتا ہے اور اسٹیٹ بینک کے مطابق بینک آف چائنا کے آپریشن سے مقامی بینکنگ سیکٹر میں بھی بہتری آئے گی۔ چین پاکستان کا قریبی اتحادی ہے جس نے لگ بھگ 60 ارب ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کے علاوہ پاکستان میں توانائی اور دیگر شعبوں میں بھی بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

محمد اشتیاق
 

فیس بک ڈیٹا کے حصول کیلئے پاکستانی درخواستیں بڑھ گئیں

$
0
0

حکومت پاکستان کی جانب سے فیس بک استعمال کرنے والے افراد کے بارے میں معلومات کے حصول کے لیے رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران درخواستوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس بات کا انکشاف فیس بک کی ششماہی ٹرانسپیرنسی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ جنوری 2017 سے جون 2017 کے دوران پاکستان کی جانب سے فیس بک سے لیگل پراسیس اور ایمرجنسی کے نام سے مجموعی طور پر ڈیٹا کے حصول کے لیے 1050 درخواستیں کی گئیں، یہ تعداد جولائی 2016 سے دسمبر 2016 کے دوران 998، جبکہ جنوری 2016 سے جون 2016 کے دوران 719 تھی۔
فیس بک کے مطابق پاکستانی حکومت نے 1540 صارفین یا اکاﺅنٹس کے بارے میں ڈیٹا طلب کیا، یہ تعداد جولائی 2016 سے دسمبر 2016 تک 142، جبکہ جنوری سے جون 2016 کے دوران 1015 تھی۔ 1540 اکاﺅنٹس یا صارفین کے لیے 1050 درخواستوں میں سے فیس بک نے 63 فیصد پر تعاون کرتے ہوئے حکومت کو ڈیٹا یا معلومات فراہم کیں۔ اس سے ہٹ کر بھی پاکستان کی جانب سے فیس بک سے کسی جرم کی تحقیقات کے لیے 399 درخواستوں کے ذریعے 613 اکاﺅنٹس یا صارفین کا ڈیٹا یا ریکارڈ محفوظ کرنے کی درخواست کی گئی، یہ تعداد گزشتہ سال کی دوسری ششماہی میں 442 ، جبکہ جنوری سے جون 2016کے دوران 280 درخواستوں کے ذریعے 363 صارفین یا اکاﺅنٹس کا ڈیٹا یا ریکارڈ محفوظ رکھنے کی درخواست کی گئی تھی۔

اس رپورٹ کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی قانونی درخواستوں کی بناء177 پیجز یا انفرادی اکاﺅنٹس پر ایسے مواد کو بلاک کیا گیا جو کہ پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی، توہین مذہب یا ملکی خودمختاری کے خلاف تھا، جولائی سے دسمبر 2016 میں تعداد 6 جبکہ جنوری سے جون 2016 کے دوران 25 تھی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے جولائی سے دسمبر 2015 کے دوران 471، جنوری سے جولائی 2015 میں 192 درخواستوں کے ذریعے 275 اکاﺅنٹس جبکہ جولائی 2014 سے دسمبر 2014 کے درمیان 100 درخواستوں کے ذریعے 150 صارفین یا اکاﺅنٹس کا ڈیٹا طلب کیا گیا تھا۔

فیس بک کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صارفین سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے حکومتی درخواستوں میں گزشتہ ششماہی کے مقابلے میں 23 جبکہ ایک سال پہلے کے مقالبے میں 33 فیصد اضافہ ہوا اور امریکا، بھارت، جرمنی اور فرانس اس حوالے سے سرفہرست رہے۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں 78 ہزار 890 درخواستیں کی گئیں، یہ تعداد گزشتہ ششماہی میں 64 ہزار 279 تھیں۔ فیس بک کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ وہ کسی بھی حکومت کو 'بیک ڈور 'یا صارف کے ڈیٹا تک براہ راست رسائی نہیں دیتا اور ہر درخواست کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس کا جواب دینا چاہئے یا نہیں۔ اس سے قبل گزشتہ سال فیس بک نے اپنی رپورٹ کے حوالے سے کہا تھا کہ حکومتی درخواستوں پر جواب اسی صورت میں دیا جاتا ہے جب وہ کسی فوجداری مقدمے سے متعلق ہو۔
 

متحدہ مجلس عمل کی بحالی

$
0
0

اگرچہ چھ جماعتوں پر مشتمل مذہبی اور سیاسی اتحاد ، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو بحال کرنے کی کوششیں کافی دیر سے جاری تھیں لیکن اس کی توقعات اُس وقت بڑھ گئیں جب جماعت ِاسلامی کے امیر، سراج الحق نے گزشتہ ماہ اعلان کیا کہ اس ضمن میں اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے، اورسابقہ اسلامی اتحاد کی باضابطہ بحالی کا اعلان دسمبر 2017 ء کے وسط میں کر دیا جائے گا۔ تاہم ان چھ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے نظریات اور فعالیت سے واقفیت رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ متحدہ مجلس ِعمل کی بحالی کوئی سیدھا سادہ، ہموار معاملہ نہیں ہو گا۔ 2008 ء میں متحدہ مجلس عمل کی تحلیل کے بعد سے یہ جماعتیں مختلف ، بلکہ مخالف اہداف کے حصول کے لئے فعال دکھائی دے رہی ہیں۔ نیز دو سب سے بڑی مذہبی جماعتیں اس وقت مخالف اتحادیوں کا حصہ ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام (فضل) پاکستان مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کا حصہ ہے، جبکہ جماعت اسلامی خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے حکومتی اتحاد میں ذیلی شراکت دار کے طور پر مطمئن ہے۔ چونکہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف ایک دوسرے کی شدید ترین مخالف ہیں اس لئے بعض اوقات اُن کے حامی بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔ کچھ حالیہ فیصلے اور نزاعی مسائل شاید متحدہ مجلس عمل کی بحالی میں آڑے آئیں۔ ان میں سے ایک فیصلہ نومبر کے آغاز میں جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کے قائد، مولانا سمیع الحق اور پاکستان تحریک ِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے درمیان ہونے والا سمجھوتہ تھا۔ 

اس کا ہدف 2018 ء کے عام انتخابات کے لئے سیاسی اتحاد کا قیام تھا۔ یہ ایک حیران کن پیش رفت تھی۔ اس کا جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کو بہت حد تک فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ ایک چھوٹی جماعت ہے اور اس کی نہ تو ملک کی اسمبلی میں کوئی نمائندگی ہے اور نہ ہی اس کا قابل ِ ذکر ووٹ بنک ہے۔ تحریک ِ انصاف کو اس سے واحد فائد ہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے عمل کو روک دے، یا کم از کم جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کو اس سے دور رکھے۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ متحدہ مجلس عمل میں ہمیشہ جماعت ِاسلامی اور جمعیت علمائے اسلام فضل کو بالا دستی حاصل رہی ہے نیزتحریک ِ انصاف دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس کی پالیسیاں اور قیادت ایک دینی جماعت کے لئے قابل قبول ہیں۔ اس طرح وہ اپنی حریف جماعت، جمعیت علمائے اسلام فضل کے الزامات کا تدارک کر سکتی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان، عمران خان پر غیر اسلامی اقدار کو فروغ دینے اور یہودی لابی کے لئے کام کرنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔

پاکستان تحریک ِ انصاف کوجمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کے ساتھ شراکت داری کے نتیجے میں پہنچنے والا نقصان فائدے کی نسبت کہیں زیادہ ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں مولانا سمیع الحق کے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ قریبی روابط رہے ہیں۔ 2014ء میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی وفاقی حکومت کے ساتھ ہونے والے پرامن مذاکرات ، جو ناکامی سے دوچار ہوئے، میں مولانا نے تحریک طالبان پاکستان کی نمائندگی کی تھی ۔ مزید برآں، انتخابی اتحاد کے تحت، تحریک ِ انصاف کو خیبر پختونخوا اسمبلی اور سینیٹ میں کچھ نشستیں مولانا سمیع الحق کی جماعت کو دینی پڑ سکتی ہیں، لیکن اس کے عوض اسے دوسری طرف سے کچھ نہیں ملے گا۔ بلکہ اس سمجھوتے کی وجہ سے تحریک انصاف کی صفوں میں کچھ ناراضگی بھی پید ا ہو سکتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کو دئیے گئے انتخابی حلقوں سے تحریک انصاف کے ٹکٹ کے خواہشمند بغاوت پر اترتے ہوئے بطور آزاد امیدوار انتخابی معرکے میں شریک ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

چونکہ پاکستان تحریک ِ انصاف مولانا فضل الرحمان کے مسلسل حملوں کی زد میں ہے ، چنانچہ اس نے بہتر سمجھا ہے کہ مولانا سمیع الحق اُن کے ساتھ کھڑے دکھائی دیں۔ وزیر ِ اعلیٰ پرویز خٹک نے خیبر پختونخوا حکومت کے فنڈز سے تین سو ملین روپے دارالعلوم حقانیہ کو دئیے تھے ۔ نوشہرہ ضلع کے شہر اکوڑہ خٹک میں واقع دارالعلوم حقانیہ ، جسے مولانا سمیع الحق چلاتے ہیں، ملک کے سب سے بڑے دینی مدارس میں سے ایک ہے ۔ پرویز خٹک اور مولانا سمیع الحق، دونوں کا تعلق ضلع نوشہرہ سے ہے۔ پرویز خٹک نے مولانا کے مدرسے کو فنڈز دیتے ہوئے اُنہیں اپنی پارٹی کے قریب لانے اور انتخابی اتحاد قائم کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ تحریک انصاف نے مدرسے کو عطیہ فراہم کرنے کے متنازع فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اسے مدرسہ اصلاحات لانے اور انہیں مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کا ایک حصہ قرار دیا ۔ 

عمران خان نے مولانا سمیع الحق کے ہمراہ پولیو کے قطرے پلانے کی مہم چلانے کے لئے بھی دارالعلوم حقانیہ کا انتخاب کیا تا کہ پولیو کے قطروں کے خلاف کچھ مخصوص علما اور انتہا پسندوں کی تنقید کا توڑ کر سکیں۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کرنے کی کچھ اپنی وجوہ رکھتے ہوں لیکن کچھ حلقے اسے کچھ اور معانی دیتے ہیں۔ ایک سینئر سرکاری افسر کو یہ کہتے سنا گیا کہ عمران خان کا مولانا سمیع الحق کے ساتھ اتحاد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ مولانا کے انتہا پسندوں پر اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آنے والے انتخابات کی مہم کے دوران خود کش حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ کہنا پڑے گا کہ موصوف بہت دور کی کوڑی لائے، کیونکہ مولانا سمیع الحق تمام انتہا پسند گروہوں پر اس طرح کا اثر نہیں رکھتے ۔ ایک تو انتہا پسند اب گروہ در گروہ بہت سی شاخوں میں تقسیم ہو چکے ہیں، اور پھر اُن کے پاس حملہ کرنے کا اپنا محرک ہوتا ہے ۔ 

متحدہ مجلس عمل کے بحال اور فعال ہونے میں کچھ دیگر رکاوٹیں بھی ہو سکتی ہیں۔ ایک وجہ جماعت ِاسلامی اورجمعیت علمائے اسلام فضل کا فاٹا کے مستقبل پر اپنایا گیا مختلف موقف ہے ۔ زیادہ تر دیگر سیاسی جماعتوں ، بشمول جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کی طرح جماعت ِاسلامی بھی فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی پرزور حامی ہے ۔ دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام فضل اس کی ببانگ دہل مخالفت کر رہی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے ذریعے قبائلی عوام کو فیصلے کا حق دیا جائے کہ کیا وہ خیبر پختونخوا کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں یا اپنا ایک الگ صوبہ چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اس حد تک چلے گئے ہیں کہ وہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کو خطے میں امریکی ایجنڈا قرار دیتے ہیں۔ اُن کے موقف کو غلط قرار دیتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنما، سراج الحق کا کہنا ہے کہ یہ انضمام قبائلی عوام کو معاشی ، سیاسی اور قانونی حقوق دینے اور فاٹا کو ترقی کے راستے پر ڈالنے کے لئے ضروری ہے ۔

ایک اور نزاعی مسئلہ حکومت سے نکلنے کا ہے ۔ جمعیت علمائے اسلام فضل پاکستان مسلم لیگ نواز کی وفاقی حکومت میں شامل ہے تو جماعت اسلامی پاکستان تحریک ِ انصاف کی خیبر پختونخوا کی حکومت کا حصہ ہے ۔ وہ حکومتوں کی پانچ سالہ مدت تک اُن کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں تاکہ وہ ترقیاتی فنڈز حاصل کر کے منصوبے مکمل کریں اور اگلے انتخابات میں ووٹروں کی حمایت کی امید رکھ سکیں۔ جماعت ِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام فضل کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ حکومت سے نکلنے کا اعلان متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے کیا جائے گا لیکن تاحال اس پر کوئی اتفاق ِ رائے نہیں پایا جاتا۔ 

یہ بات واضح ہے کہ مذہبی شناخت رکھنے والی سیاسی جماعتیں متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لئے بے تاب ہیں تاکہ وہ اپنے ووٹوں کو مستحکم کر سکیں اور عوام کے سامنے ایک اسلامی آپشن رکھ سکیں۔ اُنھوں نے 2002 ء کے عام انتخابات میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی تھی جب متحدہ مجلس عمل نے ایک انتخابی اتحاد کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرتے ہوئے حکومت بنائی ۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان کی مخلوط حکومت کا بھی حصہ تھی ۔ متحدہ مجلس عمل قومی اسمبلی میں حکمران جماعت، پاکستان مسلم لیگ ق کے سامنے سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی تھی ۔ ق لیگ کو جنرل پرویز مشرف نے اپنے سیاسی ایجنڈے کے حصول کے لئے تشکیل دیا تھا۔ تاہم متحدہ مجلس عمل کی 2002 ء میں انتخابی کامیابی اسلامی ووٹ کے ارتکاز اور امریکہ مخالف لہر کا نتیجہ تھی ۔ نائن الیون کے بعد القاعدہ کو تباہ کرنے اور طالبان کا تختہ الٹنے کے لئے افغانستان پر حملے کی وجہ سے خطہ امریکہ مخالف جذبات سے کھول رہا تھا ۔

رحیم اللہ یوسفزئی
 

موبائل انٹرنیٹ اسپیڈ ، پاکستان نے بھارت اور بنگلا دیش کو پیچھے چھوڑ دیا

$
0
0

پاکستان نے تیز ترین موبائل انٹرنیٹ اسپیڈ میں بھارت اور بنگلا دیش کو پیچھے چھوڑ دیا۔ موبائل انٹرنیٹ اسپیڈ کا جائزہ لینے والے عالمی ادارے ’ اووکلا‘ کے مطابق نومبر میں پاکستان موبائل انٹرنیٹ اسپیڈ کے شعبے میں 89 ویں پوزیشن پر تھا جبکہ اس سے قبل اس کا نمبر 86 تھا۔ پاکستان میں موبائل ڈاؤن لوڈنگ کی اوسط شرح دوسرے ملکوں سے زیادہ ہے جبکہ عالمی سطح پر ناروے میں موبائل فون کی رفتار 62.66 ایم بی پی ایس ہے ۔

’اووکلا ‘ پوری دنیا میں ہر ماہ انٹرنیٹ سہولیات کا جائزہ لیتی ہے، جہاں تک لینڈ لائن انٹرنیٹ کا تعلق ہے تو اس میں پاکستان عالمی سطح پر 126 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان رواں ماہ موبائل انٹرنیٹ اسپیڈ میں کچھ سست رہا لیکن 2017 میں پاکستان میں موبائل انٹرنیٹ کی رفتار بہتر ہوئی ہے۔ جبکہ بھارت اس شعبے میں 109 ویں نمبر پر ہے، اور بنگلہ دیش 120 ویں نمبر ہے۔
 

چھتیس سال بعد مکان کا قبضہ چھڑوانے پر مالک کا جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے مکالمہ

$
0
0

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے حکم پر وفاقی پولیس نے وکیل سے مکان کا قبضہ چھڑوا کر 36 سال بعد مالک عبدالسمیع کے حوالے کر دیا، اس کے مطابق سیکٹر ای سیون میں دو پراپرٹی ڈیلروں نے اس کے مکان پر قبضہ کیا تھا اور بعد میں انہوں نے ایک وکیل محمد سہیل کے والد کو فروخت کیا،ان کے مطابق 8 دسمبرکو سول جج نے بیلف کو بھیجا جس نے مکان کا قبضہ لے لیا مگراگلے دن محمد سہیل نے ساتھی وکلاء کی مدد سے مکان پر دوبارہ قبضہ کر لیا، عبدالسمیع نے عدالت میں درخواست دائر کی، 18 دسمبر کو عدالت نے ضلعی انتظامیہ کو مکان خالی کرانے کا حکم دیا جس پر محمد سہیل اورساتھی وکیل گلباز مشتاق نے بحث شروع کی اور جسٹس شوکت صدیقی کے ساتھ بدتمیزی کی جس کے بعد فاضل جسٹس نے دونوں کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا اورکہا کہ کیوں نہ ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے.

کل کی سماعت کے دوران دونوں عدالت میں پیش نہ ہوئے، جس پر جسٹس شوکت صدیقی نے ان کے لائسنس معطل کرتے ہوئے ممبرشپ معطلی کا حکم بھی دیا۔ اس موقع پر مالک عبدالسمیع نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جیسے ججز ہوں گے تو غریب اور کمزور کو انصاف ملے گا۔ درخواست پر سماعت کے دوران مالک مکان عبدالسمیع اور ایس ایچ او تھانہ کوہسار اسجد محمود عدالت میں پیش ہوئے، فاضل جسٹس نے ایس ایچ او سے استفسار کیا کہ عدالتی حکم پر عملدر آمد ہوا کہ نہیں ؟ ایس ایچ او نے کہا قبضہ لیکر مالک مکان کو دیدیا ہے، مالک مکان نے کہا قبضہ مل گیا ہے عدالت کے شکر گزار ہیں، دونوں وکلاء سہیل احمد اور گلباز مشتاق کی عدم حاضری پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کے شوکاز پر حاضر نہ ہونا بھی توہین عدالت ہے ، آئندہ سماعت تک دونوں وکلاء کے نام ووٹر لسٹ سے نکالے جائیں، آئندہ سماعت پر وکلاءپیش نہ ہوئے تو گرفتاری کا حکم دینگے، عدالت نے آئندہ سماعت 9 جنوری تک ملتوی کر دی۔
 


بیت المقدس پر امریکا مخالف ووٹ دینے پر امداد بند کر دینگے، ٹرمپ

$
0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقبوضہ بیت المقدس کے معاملے پر امریکا مخالف ووٹ دینے والے ممالک کی امداد بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ واشنگٹن میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس ’یروشلم‘ کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا مخالف ووٹ آنے کی پروا نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ہم سے لاکھوں نہیں، کروڑوں بلکہ اربوں ڈالر امداد لیتے ہیں اور ووٹ بھی ہمارے خلاف دیتے ہیں، وہ لوگ مخالفت میں ووٹ دیکر اپنا شوق پورا کر لیں۔ 

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہم نے پوری صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور ایسے تمام ممالک کو دیکھ رہے ہیں اور مخالفت میں ووٹ دینے والوں کی امداد بند کر دیں گے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ میں امریکی مستقل مندوب نکی ہیلی نے مختلف سفیروں کو خط میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ جنرل اسمبلی میں بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے خلاف قرارداد کی حمایت کرنے والے ممالک کے نام صدر ٹرمپ کو بتاؤں گی اور ایک ایک ووٹ کا حساب رکھا جائے گا۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقبوضہ بیت المقدس کواسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے خلاف قرارداد آئی تھی، جسے امریکا نے ویٹوکر دیا تھا۔ لیکن اب سلامتی کونسل کے فیصلے پر بحث کے لیے اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے، جہاں اس معاملے پر ووٹنگ بھی ہو گی۔

 

مسعود احمد برکاتی؛ میرے عظیم استاد کی چند ذاتی یادیں

$
0
0

استادِ محترم و مکرم سید مسعود احمد برکاتی سے میرا تعلق لگ بھگ تیرہ سال پر محیط ہے۔ فروری 1992 سے لے کر 16 فروری 2005 تک ایک طویل رفاقت ہے جو ماہ نامہ ہمدرد نونہال اور ماہ نامہ ہمدرد صحت کے حوالے سے یادوں کا ایک عظیم ذخیرہ رکھتی ہے۔ استاد گرامی سے میری پہلی ملاقات 1991 کے کسی مہینے ہوئی کہ جب میں ان کے پاس اپنی چند شائع شدہ تحریریں لے کر ہمدرد نونہال کے دفتر پہنچا۔ وہ اس وقت ہمدرد صحت ترتیب دے رہے تھے۔ مجھ سے مختصر سی ملاقات کی اور فرمایا کہ چند روز بعد آنا۔ تاہم، وہ چند روز، چند ماہ میں بدل گئے۔ اس زمانے میں موبائل فون تو ہوا نہیں کرتا تھا، جیسے تیسے لینڈ لائن پر بات ہوئی تو انہوں نے وقت دیا۔ دوسری ملاقات میں انہوں نے میری تحریروں والی فائل دیکھی جس میں کئی مؤقر روزناموں اور جرائد میں شائع شدہ میرے تراجم جمع تھے۔

برکاتی صاحب کےلیے سب سے اہم بات یہ تھی کہ میں نے چند برس استاد گرامی جناب سید قاسم محمود مرحوم کی زیر ادارت شائع ہونے والے ماہ نامہ سائنس میگزین میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر گزارے ہیں۔ حکیم محمد سعید شہید اور مسعود احمد برکاتی، سید قاسم محمود کی بہت زیادہ عزت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ شخص جن ہے، کیوں کہ اس نے وہ کام تن تنہا کیے ہیں جو ادارے کرتے ہیں۔ خیر، برکاتی صاحب نے مجھے دوبارہ آنے کو کہا۔ غالباً انہوں نے میرے جانے کے بعد سید صاحب (سید قاسم محمود مرحوم) کو فون کیا تھا تاکہ وہ میری بات کی توثیق کر سکیں، کیوں کہ ہمدرد میں ملازمت کے کچھ عرصے بعد میری ملاقات سید صاحب سے دورانِ سفر بس میں ہوئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ برکاتی صاحب کا فون آیا تھا، وہ تمہارے بارے میں پوچھ رہے تھے۔

برکاتی صاحب کا حکیم محمد سعید اور ہمدرد نونہال کے ساتھ سفر کا باقاعدہ آغاز 1952 میں ہوا جب حکیم صاحب مرحوم نے انہیں ماہ نامہ ہمدرد نونہال کی ادارت سنبھالنے کو کہا۔ ساتھ ہی ماہ نامہ ہمدرد صحت کے مدیر منتظم کی ذمے داریاں بھی دیں، جبکہ حکیم صاحب ہمدرد صحت کے مدیر اعلا تھے۔ اس سے قبل انہوں نے اپنے بڑے بھائی حکیم محمود برکاتی شہید کے ساتھ مل کر محنت مزدوری کی۔ بتاتے تھے کہ جب پاکستان آنے کے بعد ہم کراچی آئے تو ہمیں پتا چلا کہ حیدرآباد اسٹیشن کی تعمیر ہو رہی ہے اور وہاں مزدوروں کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہم دونوں مزدوری کرنے حیدر آباد چلے گئے۔ حیدرآباد اسٹیشن پر ہم دونوں بھائیوں کے ہاتھ کی لگائی گئی اینٹیں بھی ہیں۔ بعد میں ٹیوشن مل گئیں تو جسمانی مزدوری چھوڑ دی اور ذہنی مزدوری پر آگئے۔

ہمدرد سے تقریباً پینسٹھ سالہ پیشہ ورانہ رفاقت کے دوران انہوں نے بلا ناغہ ہمدرد نونہال کو اپنی معیاری تدوین کے ذریعے نسلوں کی ذہنی اور جسمانی نمو کا ذریعہ بنایا۔ مدیر کی حیثیت سے ان کا سب سے بڑا کمال یہ رہا کہ کتنے ہی نشیب و فراز آئے، ٹیکنالوجی بدلی، لیکن انہوں نے ہمدرد نونہال کے معیار اور بالخصوص مزاج پر حرف نہ آنے دیا۔ حکیم صاحب مرحوم کے بہ قول، برکاتی صاحب کا اس سے زیادہ کمال یہ ہے کہ انہوں نے ایک شمارے میں بھی ایسی بات نہیں لکھی جو ہمدرد نونہال کی ساکھ کو متاثر کرے اور اس کی اشاعت متاثر ہو۔ جو لوگ صحافت اور خاص کر ادارت سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اس بات کی گہرائی کو محسوس کر سکتے ہیں۔

برکاتی صاحب کے ساتھ کام کرتے ہوئے ان کے کام اور مزاج کا خوب اندازہ ہوا۔ خاص طور پر جب مذکورہ بالا رسالے مرتب کرتے تو انتہائی یکسوئی اور توجہ سے کام کرتے۔ ایک رسالے کی ترتیب میں عموماً دو ڈھائی گھنٹے اور بعض اوقات چار پانچ گھنٹے لگا دیتے تھے۔ اس دوران کسی کو مخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اتنا معیاری رسالہ پینسٹھ سال تک جاری رکھا بلکہ تحریروں کے معیار پر کبھی حرف نہ آنے دیا۔

تدوین کے مراحل میں پروف خوانی (پروف ریڈنگ) انتہائی مشکل کاموں میں سے ہے اور یہ کام مشاق اور تجربہ کار آدمی ہی کو کرنا چاہیے۔ برکاتی صاحب سے یہ فن بھی خوب سیکھنے کا موقع ملا۔ عموماً لوگ پروف خوانی مبتدین کے ذمے لگادیتے ہیں۔ یہ بڑی غلطی ہے۔ پروف خوانی کے حوالے سے برکاتی صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ جب ان کی ملاقات علامہ سید سلیمان ندوی سے ہوئی تو ان سے باتوں باتوں میں تحریر کی پروف خوانی پر بات چل نکلی۔ برکاتی صاحب نے کہا کہ اس کا کوئی حل بتائیے کہ تحریر شائع ہونے کے بعد جو غلطیاں سامنے آتی ہیں، وہ تحریر کی اشاعت سے پہلے درست کر لی جائیں۔ علامہ ندویؒ نے فرمایا کہ جب آدمی پروف خوانی کرتا ہے تو بعض الفاظ پر شیطان اپنی انگلی رکھ دیتا ہے۔ گویا، کچھ بھی کر لو، چند غلطیاں تو اشاعت کے بعد ہی سامنے آتی ہیں۔

برکاتی صاحب کے ساتھ کام کر کے اندازہ ہوا کہ وہ ایک اچھے لکھاری اور بہترین مدیر ہونے کے علاوہ ایک کامیاب منتظم بھی تھے۔ تیرہ سے پندرہ افراد کے شعبے کو چلانا انہیں آتا تھا۔ تمام افراد کو ان کے مزاج کے مطابق چلاتے تھے۔ کام کے دوران اگر بہت زیادہ جلدی نہ ہو تو دھیمی رفتار سے کام کرتے تھے، کیوں کہ علمی کاموں کےلیے انتہائی یکسوئی اور صبر کی ضرورت ہے جو آج، بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ، مفقود ہے۔ کام کے دوران برسبیل تذکرہ، اپنی زندگی کے مختلف واقعات بھی بتاتے رہتے تھے جو میری پیشہ ورانہ زندگی میں بہت ہی کارآمد ہیں اور میرے لیے ایک اثاثہ بھی۔

دراصل، ہمدرد فاؤنڈیشن میں ہونے کی وجہ سے ان کی ملاقات دنیا کے بڑے ذہنوں سے ہوتی رہتی تھی اور وہ اپنی یادداشتیں اگرچہ تحریر تو نہ کر پائے، لیکن زبانی ذکر ضرور کرتے تھے۔ ہمدرد فاؤنڈیشن میں اُن کا رعب اور دبدبہ خوب تھا۔ کہتے تھے کہ میں اگر دفتر میں نہ ہوں، تب بھی سب کو دیکھتا رہتا ہوں۔ دوسری جانب کسی کی بہتر کارکردگی پر کچھ تعریف و تحسین بھی کرتے تھے۔ اول، انتہائی سینئر تھے اور دوم، سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے، اس لیے عملہ ان سے دور ہی رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ تاہم، بعض عوامل کے باعث میں چند امور پر ان سے نہ صرف اختلاف کیا کرتا تھا بلکہ ان سے ادب کے ساتھ اس اختلاف کا اظہار بھی کرتا تھا۔ چنانچہ آخری چند برسوں میں وہ مجھ سے کئی ادارتی، ادارہ جاتی اور ذاتی معاملات پر مشورہ بھی کرنے لگے تھے۔

ایک مرتبہ میں نے ایک تعلیمی ادارے میں داخلہ لے لیا اور برکاتی صاحب کو اپنا استعفا پیش کیا۔ نوجوانی کا جوش تھا اور کوئی گھریلو ذمے داریاں نہ تھیں، لہٰذا ایسا کرنے میں مجھے کوئی پس و پیش نہ تھا۔ برکاتی صاحب نے پوچھا، اپنی والدہ کو بتایا ہے کہ تم استعفا دے رہے ہو؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے میری والدہ کو فون کر دیا اور مجھ سے اظہارِ ناراضی کیا کہ جب تک تمہاری والدہ مجھے نہیں کہیں گی، میں تمہارا استعفا قبول نہیں کروں گا۔ مزید تعلیم حاصل کرنی ہے تو یہیں رہتے ہوئے تمہارے پاس بہت موقع ہے۔

برکاتی صاحب کو دنیا بچوں کے ادب کے حوالے سے جانتی ہے۔ لیکن بہت کم لوگوں کو یہ پتا ہے کہ برکاتی صاحب کا نام اُردو تدوین اور انشا پردازی میں سب سے بلند ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اردو قواعد و انشا پر سب سے بڑی اتھارٹی ڈاکٹر رشید حسن خاں صاحب (شاہ جہاں پور، ہندستان) نے اپنی ایک کتاب ‘‘اُردو املا’’ کا انتساب ہی مسعود احمد برکاتی صاحب کے نام منسوب کیا۔ اس کے علاوہ میں نے اپنے دَورِ ہمدرد میں دیکھا کہ ڈاکٹر شان الحق حقی مرحوم جو اس زمانے میں آکسفورڈ کی مشہورِ زمانہ ڈکشنری کا انگریزی سے اُردو میں ترجمہ کر رہے تھے، جب وہ کسی لفظ کے ترجمے میں پھنس جاتے تھے تو برکاتی صاحب کے پاس آ جایا کرتے تھے اور ان سے اس مشکل لفظ کا ترجمہ پوچھتے تھے۔

برکاتی صاحب اور حقی صاحب کے درمیان اس دَور کی مجلسیں میرے لیے نہ صرف ناقابل فراموش یادیں ہیں بلکہ میرے پیشہ ورانہ علم اور تجربے میں نایاب اضافہ بھی۔ جب ترجمے کے کسی مسئلے پر حقی صاحب مرحوم پھنس جاتے تو برکاتی صاحب کے پاس آجاتے۔ برکاتی صاحب مجھے بلا لیتے، کیوں کہ پے در پے مختلف لغات کی ضرورت پڑتی تھی اور ادارتی عملے میں واحد نوجوان میں ہی تھا جو بھاری بھرکم لغات سے واقف بھی تھا اور انہیں اٹھا کر برکاتی صاحب کی میز تک پہنچا سکتا تھا۔ چنانچہ برکاتی صاحب کے کمرے میں بڑی میز کے ایک جانب برکاتی صاحب ہوتے تو دوسری جانب ان کے سامنے ڈاکٹر شان الحق حقی؛ اور میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ان دونوں کی لغوی بحثوں سے محظوظ ہوتا۔ اس دوران میں نے ان دونوں اُردو دانوں کو ایک لفظ کی زیر زبر پیش پر وَاللہ، دو دو ڈھائی ڈھائی گھنٹے بحث کرتے دیکھا۔

لغت کی بات چلی تو میں یہ ذکر کرتا چلوں کہ برکاتی صاحب کے دفتر میں اردو، عربی، فارسی اور روسی زبانوں کی درجنوں لغات موجود تھیں۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی بتاتا چلوں کہ انہوں نے ایک زمانے میں روسی زبان بھی سیکھی تھی، لیکن اس میں مہارت نہیں تھی۔ البتہ اردو، فارسی اور عربی میں خوب گیرائی رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی صاحب نے ایک ترجمے میں ’’دماغ افروغ‘‘ لکھا تو لغات کھول کر بیٹھ گئے اور تقریباً پون گھنٹے کی تحقیق کے بعد انہوں نے اسے ’’ذہن افزوں‘‘ سے تبدیل کر ڈالا۔ لغت کا استعمال خوب کیا کرتے تھے۔ ان کی صحبت کے باعث مجھ میں بھی یہ عادت پختہ ہو گئی۔

میں آج دیکھتا ہوں کہ بڑے بڑے اہل زبان اور اہل قلم، بہ شمول صحافی، لغت سے استفادے کی اس عظیم صفت سے عاری ہیں۔ چنانچہ انہیں لفظ کا شعور ہے نہ وہ زبان دانی کا مزاج رکھتے ہیں۔ اپنی سستی اور علمی نا دوستی کے باعث انہوں نے غلط العوام ہی کو اپنا شیوہ بنا رکھا ہے۔ استاد محترم و مکرم کا پورا نام سید مسعود احمد برکاتی تھا، لیکن وہ اپنا نام ’’مسعود احمد برکاتی‘‘ ہی لکھا کرتے تھے۔ میں نے ایک مرتبہ یہ ذکر چھیڑا تو کہنے لگے کہ تین لفظی قلمی نام ہی سب سے اچھا لگتا ہے۔ دو لفظی نام چھوٹا ہو جاتا ہے جبکہ تین سے زائد الفاظ کا نام بولنے اور یاد کرنے میں بھاری ہوتا ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ مسعود احمد برکاتی صاحب حکیم نہیں تھے۔ میں نے فیس بک پر بعض افراد کی پوسٹس دیکھیں جن پر ’’حکیم مسعود احمد برکاتی‘‘ درج تھا۔ شاید یہ غلط فہمی ان کے بڑے بھائی حکیم محمود احمد برکاتی شہید کے نام سے مماثلت کے باعث ہوئی ہے۔

استادِ گرامی سے میری آخری ملاقات مؤرخہ 2 نومبر 2015 کو ان کے دفتر واقع ہمدرد فاؤنڈیشن، ناظم آباد، کراچی میں ہوئی۔ اس کے بعد سے میری کوشش یہ رہی کہ ایک نالائق (یا لائق) شاگرد کی حیثیت سے اپنےاستاد محترم کا جامع انٹرویو کر لوں۔ ان سے دو تین مرتبہ فون پر اس حوالے سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے سوالات لکھ کر بھیج دو۔ میں نے چند سوالات مرتب کیے اور انہیں کوریئر کر دیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان تک یہ سولات پہنچے یا نہیں، کیوں کہ اس کے بعد ایک آدھ مرتبہ جب میں نے ان سے انٹرویو کی بات کی تو انہوں نے یہی فرمایا۔ میں آج جس منصب اور مرتبے پر ہوں، اور جس معیار کا پیشہ ورانہ کام کر رہا ہوں، اس شخصیت کی تشکیل اور پیشہ ورانہ مہارت میں میرے استادِ عظیم مسعود احمد برکاتی مرحوم کا بہت کردار ہے۔ اللہ تعالیٰ استاد گرامی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلا ترین مقام عطا فرمائے (آمین)۔

سید عرفان احمد
 

میرے قائد : ہم شرمندہ ہیں

$
0
0

آج قوم عظیم رہنماء قائد اعظم محمد علی جناح کا 141 واں یوم پیدائش منا رہی ہے سیاست میں غیرمتنازع رہنا، کمال کی بات ہے۔ اس کیلئے جس بے داغ اور اُجلے کردار کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ذاتی قربانیوں کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ پاکستان کیا، دُنیا میں اس کی مثالیں کم ملتی ہیں کہ کسی سیاست دان کے کردار کو اس کے مخالفین بھی سراہتے ہوں۔ قائداعظم محمد علی جناح سیاسیات عالم کی ایسی ہی بے مثال، غیرمعمولی اور منفرد شخصیت ہیں۔ عظمت کیا ہوتی ہے اور کیسے حاصل کی جاتی ہے؟ اس بارے میں مفکرین کے اقوال بہت مل جاتے ہیں لیکن عظمت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ بے غرض اور بے لوث ہو کر اجتماعی فلاح کے ایسے کام انجام دیئے جائیں، جن سے انسانوں کی بڑی تعداد کو فائدہ پہنچے۔

قائداعظم عظمت کے اصولوں پر پورا اُترتے ہیں۔ وہ حقیقی معنوں میں ہمارے قائداعظم ہیں۔ اُن کی بے غرضی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے سب سے پہلے سخت ڈسپلن اپنی شخصیت پر نافذ کیا تھا۔ عیش، آرام اور تن آسانی کی زندگی انہوں نے کبھی نہیں گزاری۔ وہ اپنی ذاتی کامیابی اور آسائش کے لئے کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ جن سخت ضوابط کی توقع وہ دوسروں سے کرتے تھے، اُن کی پابندی سب سے پہلے خود کرتے تھے۔ کام، کام اور صرف کام کا اصول دوسروں کے لئے بعد میں اور اپنے لیے پہلے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختصر سی زندگی میں تخلیق پاکستان کا وہ کارنامہ سرانجام دیا، جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ قاصر ہے۔ انہوں نے اس عظیم مقصد کے لئے ذاتی آرام کو تج دیا تھا اور اپنی صحت دائو پر لگا دی تھی۔

قائداعظم کے عمل سے اُن کی شخصیت کا اظہار ہوتا تھا۔ اُن کے قول وفعل میں تاثیر کی وجہ بھی اُن کی عملی سچائی تھی۔ اُن کی دیانت دارانہ زندگی نے اُن کی قیادت کو کرشماتی بنا دیا تھا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ برصغیر کے مسلمان ان کے ایک اشارے پر ہر قربانی دینے کو تیار ہو جاتے تھے۔ وہ مسلمانوں کو متحد اور مجتمع کرنے والی طاقت تھے۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ جس ملک کے بانی کا کردار بے داغ اور کرپشن سے پاک ہو، جس نے سیاست وقیادت کا اعلیٰ ترین معیار طے کر دیا ہو، اس کے ملک میں سب سے بڑا بحران ہی باکردار قیادت کا پیدا ہو جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بانی پاکستان کے کردار کو سیاست کرنے کا بنیادی اصول اور وصف بنایا جاتا۔ قائداعظم کی سیاست سے یہ گُر ہر سیاست دان کو سیکھنا چاہئے تھا کہ نیک نیتی اور اخلاص ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس سے ہر جنگ جیتی جا سکتی ہے۔

کردار کی بلندی نہ ہو تو کوئی سیاست دان، لیڈر نہیں بن پاتا، نہ وہ ہجوم کو قوم بنا سکتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کو مسلمانانِ برصغیر کے مشکل ترین دور کا سامنا رہا۔ ان میں تقسیم در تقسیم بھی تھی اور ان کا حوصلہ بھی نچلی ترین سطح پر تھا لیکن انہوں نے ایک دل گرفتہ ہجوم کو قوم میں تبدیل کر کے تاریخ کا رُخ تبدیل کر دیا۔ بعد میں آنے والے سیاست دانوں کیلئے اُن کا یہ کردار مشعلِ راہ ہونا چاہئے تھا۔ بانی پاکستان کی مسحورکن شخصیت کے مظاہر بہت سے ہیں۔ اس تاریک دور کا اندازہ لگائیں کہ انگریز نے مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان، انگریز کے مظالم کا سب سے بڑا ہدف تھے، پھر تحریک خلافت کی ناکامی نے برصغیر کے مسلمانوں کو بہت مایوس کیا تھا۔ 

ہندو، انگریز کے اتحادی بن چکے تھے، مسلمانوں نے حالات سے تنگ آکر اجتماعی راہ فرار اختیار کر لی تھی، وہ اپنے خول میں سمٹ گئے تھے، اُن پر یاسیت طاری تھی، بے عملی نے اُن کے قویٰ مزید مضمحل کر دیئے تھے۔ پے در پے آلام نے اُن میں زندگی کی رمق کم کر دی تھی۔ شکست خوردگی اور بے چارگی اُن کا مزاج بننے لگی تھی۔ کرشماتی اور غیرمتنازع قیادت کا فقدان تھا۔ ایسے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے اُن میں جو جذبہ پیدا کیا، وہ اُن کی رگوں میں تازہ خون بن کر دوڑنے لگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک پاکستان کی کامیابی قائداعظم محمد علی جناح کے بغیر ناممکن تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس عظیم مقصد کے لئے منتخب کیا تھا۔

پاکستان بنتے وقت کم و بیش تمام لوگ سچے پاکستانی تھے لیکن 70 سال بعد ہم سب اپنی ضرورت اور ذات تک محدود ہیں۔ آج تک بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنی  قائد اعظم جیسا کوئی ہو نہیں سکتا جنہوں نے گولی چلائے بغیر دلیل کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی۔ پاکستان معرض وجود میں آیا مجید نظامی کہتے تھے قائد اعظم پارلیمنٹ کی بالا دستی پر یقین رکھتے تھے۔ ان کے ذہن میں ایک بات نقش تھی کہ مسلمان ایسی فلاحی اور جمہوری مملکت قائم کریں۔ جہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے آئین کی روشنی میں زندگی گزاریں۔ مجید نظامی اس حوالے سے کبھی مصلحت کا شکار نہ ہوئے۔ وہ ہر سول اور فوجی حکمران کے سامنے ڈٹ گئے۔ پاکستان اور کشمیر پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔ اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی بھی دی اور حکمرانوں کا قبلہ درست رکھا۔

مگر افسوس آج پاکستان کو حقیقی قیادت میسر نہیں، قائد اعظم جیسی قیادت میسر نہیں وہ قیادت جس نے کانگریس میں تیزی کے ساتھ نمایاں مقام حاصل کیا۔ متحدہ ہندوستان اور ہندو مسلم اتحاد کے لئے اُن کی خدمات نے انہیں کانگریس کا قابل تعریف لیڈر بنا دیا تھا اور مسلم لیگ کے حلقے بھی اُن کے مداح تھے لیکن مسلمانوں پر ہندوئوں کے بڑھتے ہوئے مظالم اور کانگریس کے متعصبانہ رویئے نے انہیں بہت بد دل کر دیا۔ ہندوستان میں وکالت وسیاست پر اپنے گہرے نقوش مرتب کرنے کے بعد قائداعظم لندن چلے گئے اور وہاں قانون کی پریکٹس شروع کر دی۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر میں مسلمانوں کا عملاً کوئی لیڈر نہ تھا، چنانچہ ہندوستان واپس آکر قائداعظم نے مسلم لیگ کو مسلمانوں کی عظیم عوامی سیاسی جماعت میں تبدیل کر دیا۔ 

بڑی حیرت انگیز حقیقت ہے کہ قائداعظم کی زیرقیادت بہت کم عرصے میں نہ صرف مسلمانوں میں جوش وخروش پیدا ہوا بلکہ ہندو اور انگریز، مسلمانوں کو جداگانہ سیاسی قوت ماننے پر مجبور ہو گئے۔ یہ قائداعظم کی قیادت تھی، جس نے مسلمانوں کی آزادی اور جداگانہ وطن کے تصور کو تحریک کی شکل دے دی۔ آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ سیاست اصولوں سے بالاتر ہوتی ہے، اس میں جھوٹ، ریاکاری اور ہر طرح کا جوڑتوڑ جائز ہوتا ہے لیکن حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم کی سیاست ہمیشہ دوٹوک، کھری، سچی اور صاف ستھری رہی۔ ریاکاری سے پاک اس اصولی سیاست نے ہمیں آزاد وطن دلایا۔ قائداعظم مسلمانوں کے بنیادی مسائل کا ادراک رکھتے تھے۔ قیامِ پاکستان سے قبل مسلم لیگ کے دلّی میں منعقدہ تیسویں اجلاس میں انہوں نے کہا تھا: ’’مسلمان گروہوں اور فرقوں کی نہیں بلکہ اسلام اور قوم کی محبت پیدا کریں کیونکہ ان برائیوں نے مسلمانوں کو دو سو برس سے کمزور کر رکھا ہے‘‘۔

دوراندیش، باکردار، ہمہ صفات قائداعظم کا انتقال 11 ستمبر 1948ء کو 71 برس کی عمر میں ہوا تو پاکستان ہی نہیں، دُنیا بھر کے مسلمان غم سے نڈھال تھے۔ اُن کی رحلت خصوصیت سے نوزائیدہ مملکت پاکستان کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔ اُن کی شخصیت اور کردار نے پاکستانی عوام کو یکجا کر رکھا تھا۔ قوم اُن کی وجہ سے متحد ومرتکز رہی۔ اس میں آگے بڑھنے اور پاکستان کو کامیاب بنانے کا جذبہ پیدا ہوا تھا۔ طالع آزمائوں اور مفادپرستوں کی راہ میں وہ بڑی رکاوٹ تھے۔ اُن کے انتقال کے ساتھ ہی جیسے ایک شجرسایہ دار ہمارے سروں سے ہٹ گیا اور ہم دُھوپ کی شدت میں آگئے۔

اُن کی وفات کے بعد ہمارے اندرونی و بیرونی مسائل نے شدت سے سر اُٹھایا۔ چند ہی روز بعد بھارت نے حیدرآباد دکن پر قبضہ کر لیا اور اندرونی سطح پر پاکستان میں واضح طور سے قیادت کا بحران نظر آنے لگا، جو رفتہ رفتہ بڑھتا چلا گیا۔ ایک دھان پان سی مہذب وشائستہ شخصیت نے صاف ستھری سیاست کر کے انگریزوں اور کانگریسیوں جیسے سخت اور طاقتور مخالفین کے عزائم ناکام بنا کر 14 اگست 1947ء کو آزاد مملکت پاکستان کی بنیاد رکھ دی لیکن ہم اُن کے تدبر اور سیاسی بصیرت کے ورثے کو آگے نہ بڑھا سکے۔ اور اسی پر آج ہم قائد اعظم کے پاکستان میں شرمندہ ہیں۔ کیوں کہ آج کا پاکستان قائد کے پاکستان کی خواہشوں کے مطابق نہیں ہے۔ افسوس کہ آج قائد کے پاکستان میں ہر طرف اندھیرا ہے کہیں اُمید کی کرن نظر نہیں آرہی۔ 

کیا قائد کا پاکستان ایسا ہے جس میں ہر طرف احتجاج ہو رہا ہے، جس میں جمہوریت کے علمبردار ہر طرف احتجاج کی سیاست کر رہے ہیں۔ ملک میں دھرنے ہو رہے ہیں کسی کو پرواہ نہیں ہے، ملک میں احتجاج ہو رہے ہیں کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ پیمرا کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے چینلز کو پابند کرے کہ وہ نوجوان نسل کے ذہن میں قائد اعظم کے افکار کو اُجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اور پیمرا لائسنس میں اس بات کی پابندی ہونی چاہئے کہ کم از کم 24 گھنٹے میں 5 فیصد نشریات قائداعظم ، علامہ اقبال اور ان جیسے عظیم رہنمائوں کی مدح سرائی میں اور قومی افکار کے حوالے سے اُن کی سوچ کو نوجوانوں میں سرائیت کیا جائے تا کہ ہماری آنے والی نسلیں قومی جذبے سے سرشار ہو کر آگے بڑھیں۔

اور اب جبکہ 2018ء کا آغاز ہو رہا ہے، تو قائد اعظم کے پاکستان میں ہر شخص احتجاج کر رہا ہو گا اور قائد کی روح شرمندہ ہو رہی ہو گی ۔ ان حالات کی حکمران ذمہ داری قبول کرنے سے گریزاں ہے۔ ہماری جمہوریت ہے کہ ’’میں نہ مانوں‘‘ کے فارمولے پر چل رہی ہے،ایک سابق نااہل وزیر اعظم ملک کے اداروں کو بدنام کرنے کی سازش کا حصہ بنا ہوا ہے۔ حالانکہ ملک شخصیات سے نہیں اداروں کے مضبوط ہونے سے چلا کرتے ہیں۔ بلکہ قائداعظم بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ ملک کے ادارے مضبوط ہیں تو ملک کو طاقتور ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ خیر ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ اس ملک پر رحم کرے (آمین)

محمد اکرم چوہدری
 

بھارتی جیلوں میں قید بے نام پاکستانی

$
0
0

’ماں کے لیے تو ایک رات اپنے بچے کے بغیر کاٹنا مشکل ہوتی ہے اور میں سات ماہ سے اس کی راہ تک رہی ہوں۔ ہر پل، ہر لمحہ یہ سوچتی ہوں کہ ابھی دروازہ کھلے گا اور میرا حسنین گھر میں داخل ہو گا۔ نہ جانے وہ کس حال میں ہو گا ؟ اس کا خیال کون رکھتا ہو گا ؟ وہ بدنصیب تو بول سکتا ہے اور نہ ہی سن سکتا ہے۔‘‘
عشرت جاوید یہ کہتے ہوئے آبدیدہ ہو گئی۔ وہ کبھی اپنی گود میں بیٹھی چھوٹی بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتی تو کبھی اپنے بیٹے کے گم ہونے کی داستان سنانے لگ جاتی۔ عشرت جاوید کا 15 سالہ بیٹا حسنین 2 مئی 2017 کو گھر سے نکلا اور پھر واپس لوٹ کرنہیں آیا۔ اب سات ماہ بعد انہیں معلوم ہوا ہے کہ ان کا بیٹا پڑوسی ملک بھارت کے شہر امرتسر کی سینٹرل جیل میں قید ہے۔ یہ خاندان لاہور رِنگ روڈ کے قریب واقع چھوٹی سی آبادی بھماں کا رہائشی ہے۔ حسنین کے والد جاوید اقبال گھروں میں رنگ و روغن کرتے ہیں، ان کے سات بچے ہیں جن میں حسنین سب سے بڑا اور پیدائشی طور پر گونگا بہرا ہے۔ ایک چھوٹی بیٹی بھی اسی معذوری کا شکار ہے۔ بیٹے کے زندہ سلامت ہونے کی خبرسے ان کے مرجھائے چہرے پھر سے کھل اٹھے ہیں اور اب یہ لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کب ان کا جگر گوشہ واپس گھر آئے گا۔

حسنین کو 17 مئی 2017 کو بھارتی بارڈرسیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے اہلکاروں نے گرفتارکیا تھا۔ گونگا بہرا ہونے کی وجہ سے یہ اپنا نام پتا، کچھ نہیں بتا سکتا تھا جس کی وجہ سے اس کی شناخت کرنا مشکل تھی۔ بھارتی حکام کے مطابق یہ بچہ پاکستانی کرنسی نوٹ، قائداعظم کی تصویر اور پاکستانی پرچم کو پہچان لیتا تھا؛ اسی بنا پر امرتسر جیل انتظامیہ نے نئی دہلی میں پاکستانی سفارتخانے کو آگاہ کیا اور بچے کی تصویر انہیں بھیجی تاکہ اس کی شناخت ہو سکے۔ اس طرح اس بچے کے خاندان کو تلاش کرنا ممکن ہوا۔ یہ تو صرف ایک حسنین کی کہانی ہے۔ بھارت کی امرتسر جیل میں اس وقت 30 قیدی ایسے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستانی ہیں لیکن آج تک ان کی شہریت کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ان 30 قیدیوں میں دو گونگے اور بہرے ہیں۔ مئی 2017 میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی جیل حکام نے ان 30 قیدیوں کے بارے میں نئی دہلی میں پاکستانی سفارتخانے کو آگاہ کیا تاہم ابھی تک پاکستان میں ان کے خاندانوں کا کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔

یہ 30 قیدی اس وقت امرتسر جیل کے ٹرانزٹ کیمپ میں ہیں۔ اس کیمپ میں ایسے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو اپنی سزائیں مکمل کر چکے ہیں لیکن ان کی شہریت کی تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے ان کی رہائی نہیں ہو پاتی۔ ان میں 30 سالہ گونگا بھی ہے جسے 2007 میں بھارت میں غیرقانونی داخلے کے الزام میں گرفتار کر کے پاسپورٹ ایکٹ کے تحت سزا سنائی گئی۔ اس بیچارے کی سزا مکمل ہوئے دس سال گزر چکے ہیں مگر اسے ابھی تک رہائی نصیب نہیں ہو سکی؛ کیونکہ وہ اپنا نام بتا سکتا ہے اور نہ یہ معلوم ہو سکا ہے کہ وہ پاکستان کے کس علاقے کا رہنے والا ہے؟ اسی طرح ایک خاتون شکلہ گھوش ہے، 57 سالہ اس خاتون کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستانی ہے، اس کے والد کا نام کرن موہن ہے، ممکنہ طور پر یہ خاتون سندھ کی رہائشی ہو سکتی ہے تاہم آج تک اس کی بھی شہریت کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ 38 سالہ عبداللہ کا تعلق بلوچستان سے بتایا جاتا ہے، اسے 1997 میں گرفتار کیا گیا۔ ایک اورشخص تنویر احمد ہے جس کا تعلق قصور سے ہے، اسے گزشتہ برس فروری میں بی ایس ایف نے گرفتار کیا، اس نے خود کشی کی کوشش کی تھی جسے بی ایس ایف نے ناکام بنا دیا اوراب یہ بھی 6 ماہ سزا کاٹنے کے بعد ٹرانزٹ کیمپ میں ہے۔

ٹرانزٹ کیمپ میں قید کے دوران علی نام کا ایک گونگا 2014 میں دم توڑ گیا تھا۔ اس کی اپنے گھر واپسی کی امیدیں اس کے ساتھ ہی دم توڑ گئیں اوراسے بھارت میں ہی سپردِ خاک کر دیا گیا تھا۔ ان قیدیوں میں چند ایک ایسے ہیں جن کا ذہنی توازن درست نہیں۔ بھارتی حکام کے مطابق ان قیدیوں کے بارے میں پاکستانی سفارتخانے کو آگاہ کیا گیا مگرصرف چارافراد کی شہریت کی تصدیق ہو سکی ہے، جبکہ باقی قیدیوں کے خاندان کو تلاش نہیں کیا جا سکا اور یہ لوگ سزائیں مکمل ہونے کے باوجود قیدیوں جیسی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔ ایسے قیدیوں کی شہریت کی تصدیق کیوں نہیں ہو پاتی؟ اس کی کئی ایک وجوہ ہیں۔ ان قیدیوں کی طرف سے غلط معلومات فراہم کی جاتی ہیں جن کی پاکستان کی طرف سے تصدیق نہیں ہو پاتی۔ اس کے علاوہ کئی لوگ ذہنی معذوری کا شکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بارے میں درست معلومات نہیں دے پاتے اور اسی بنا پر ان کی رہائی بھی ممکن نہیں ہو پاتی ہے۔

پاکستانی سفارتی حکام کا مؤقف ہے کہ جب تک کسی قیدی کی شہریت کی تصدیق نہیں ہو جاتی کہ وہ پاکستانی شہری ہے، اس وقت تک ہم اسے کیسے قبول کر سکتے ہیں ؟ اگر ہم لے بھی لیں تو اسے کہاں بھیجیں گے؟ دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی اور بھارتی شہری شکل وشباہت میں خاصی مماثلت رکھتے ہیں، اب محض کسی کے پاکستانی ہونے کے دعوے ہی سے اسے قبول نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ اس دعوے کی تصدیق نہ ہو سکے۔ اس کی بڑی مثال بھارتی لڑکی گیتا کی ہے جو گونگی اور بہری تھی، اسے پاکستان نے خیر سگالی کے طور پر بھارت کے حوالے کیا مگر اب دو سال گزر جانے کے باوجود بھارت میں گیتا کے والدین کو تلاش نہیں کیا جا سکا ہے۔ اب تک دس خاندانوں سے گیتا کو ملوایا جا چکا ہے لیکن وہ خاندان اپنے دعوے کی تصدیق نہیں کر سکے اور گیتا پاکستان کے ایدھی ہوم سے رہا ہو کر بھارت کے اناتھ آشرم میں زندگی گزار رہی ہے۔

ہمیں ایسے افراد کے بارے میں کوئی واضح انتظامی و سفارتی لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بھارتی جیل میں قید کسی بھی مبینہ پاکستانی کی شہریت کی بروقت تصدیق کی جا سکے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں لوگوں کی بڑی تعداد تک پہنچنا اور کسی گمشدہ شخص کے بارے میں معلومات حاصل کرنا خاصا تیز رفتار اور آسان ہو گیا ہے۔ اس معاملے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ بہت سے لوگ صرف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھی ایسی معلومات کی تشہیر کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اگر انہیں سرکاری ذرائع سے براہِ راست ایسی اطلاعات ملیں گی تو یقیناً وہ بھی ایسے افراد کی شناخت اور انہیں ان کے اہلِ خانہ سے دوبارہ ملوانے کے کام میں اہم عمل انگیز بن سکیں گے۔ لیکن یہ سوچنے کےلیے جدید آلات سے زیادہ انسانی ہمدردی پر مبنی سوچ کی ضرورت ہے؛ اور یہ سوچ شاید ہمارے ملک کے کرتا دھرتاؤں میں مفقود ہے۔

آصف محمود
 

کیا موجودہ پاکستان ہی جناح کا خواب تھا ؟

$
0
0

مشہور برطانوی صحافی بیورلے نیکلز نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ورڈِکٹ آن انڈیا‘‘ میں محمد علی جناح کو ہندوستان میں اہم ترین شخصیت قرار دیا تھا۔ اپنے اس بیان کی دلیل میں اُنہوں نے لکھا ہے کہ جناح آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے تھے اور اگر وہ نہ ہوتے تو ہندوستان مکمل طور پر قتل و غارت اور انارکی کی بھینٹ چڑھ جاتا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ اگر گاندھی موجود نہ رہتے تو اُن کے بعد نہرو، راج گوپال اچاریہ، پٹیل اور متعدد دیگر رہنما موجود تھے جو ہندوؤں کی قیادت سنبھال سکتے تھے۔ تاہم اگر جناح نہ رہتے تو آل انڈیا مسلم لیگ میں کوئی بھی قابل ذکر رہنما نہیں تھا جو مسلمانوں کی باگ دوڑ سنبھالنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ 

جناح اس بات کے ضامن تھے کہ ہندوستان میں انارکی نہ پھیلے اور ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کا مقصد پر امن طریقے سے حل ہو۔ 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے قرارداد پاکستان منظور ہونے کے بعد جناح پر الزامات لگنے لگے کہ وہ ہندوؤں کے خلاف منافرت کے جذبات بھڑکا رہے ہیں۔ اس کے دو برس بعد اُنہوں نے الہ آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ وہ ہندو برادری کے خلاف کسی قسم کی نفرت میں یقین نہیں رکھتے۔ اُنہوں نے کہا ، ’’میں زندہ رہوں یا نہ رہوں، ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب نہ صرف مسلمان بلکہ یہ ہندو برادری بھی میرے اس اقدام کی قدر کرے گی۔‘‘ تاہم جو پاکستان 1947 میں وجود میں آیا، وہ اُن کے اصل خواب کا محض ایک حصہ ہی تھا۔ آخری برسوں میں اُن کی جان لیوا بیماری کے دوران کانگریس کے شدید دباؤ اور وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی چالاکیوں کے پس منظر میں وہ اُس پاکستان کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو گئے جو وہ اس سے قبل دو بار مسترد کر چکے تھے۔

وہ ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں پنجاب اور بنگال کی تقسیم نہ ہو۔ اگر ایسا ممکن ہو جاتا اور وہ قیام پاکستان کے بعد کچھ برسوں تک اس نوزائدہ ملک کی راہنمائی کیلئے زندہ رہتے تو شاید آج کا پاکستان اُس پاکستان سے یکسر مختلف ہوتا جو اُنہوں نے 1947 میں قبول کیا تھا۔ تاہم 1948 میں تپ دق سے اُن کے انتقال کے بعد پاکستان میں کوئی ایسا رہنما مو جود نہیں تھا جو آئینی اُمور اور فہم و فراست میں اُن کا ہم پلہ ہوتا۔ یوں مرکز، صوبوں اور ریاستی اداروں کے درمیان چپکلش اور رسا کشی کا ایک دور شروع ہو گیا اور آزادی کے محض 24 برس بعد ہی یہ ملک دو لخت ہو گیا۔

آج آزادی کے 70 برس بعد بھی پاکستان میں ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان شدید بداعتمادی اور بدامنی کی فضا موجود ہے اور تمام ادارے مفلوج ہو کر بڑی حد تک اپنے آئینی کردار کو نبھانے سے قاصر ہیں۔ اگرچہ قائد اعظم کی شخصیت اب بھی پاکستانی عوام اور ریاست کیلئے مرکزی حیثیت رکھتی ہے، ملکی سیاست اور قیادت اُن کے راہنما اُصولوں سے دور نظر آتی ہے۔ قائد اعظم کے بارے میں مشہور کتاب The sole Spokeman کی مصنفہ ڈاکٹر عائشہ جلال کا کہنا ہے کہ سرحد کے دونوں جانب جناح کی بے قدری نے اُن اصولوں کو پامال کر دیا ہے جن کے تحت اُنہوں نے اپنی تمام زندگی جدوجہد کی تھی۔ بھارت میں اُنہیں فرقہ ورانہ اور نسلی منافرت کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایک ایسی شخصیت سے تعبیر کیا گیا جن کی وجہ سے ہندوستان کا نقشہ بدل کر رہ گیا۔ پاکستان میں اُ ن کا حوالہ محض جذباتی نعروں تک محدود ہو کر رہ گیا۔

عائشہ جلال کہتی ہیں کہ قوموں کو ہمیشہ عظیم ہیرو درکار ہوتے ہیں اور قائد اعظم بلا شبہ پاکستان کے ایک ایسے ہیرو ہیں جن پر ساری قوم فخر کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں بھی قائداعظم کی شخصیت کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے، کیا وہ حقائق اور خود اُن کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے؟ کیا موجودہ پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان کہا جا سکتا ہے؟ کیا قائداعظم کی شخصیت اور کردار موجودہ پاکستان کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں؟ یہ یقیناً سب کیلئے ایک ایک لمحہ فکریہ ہے۔

شبّیر جیلانی
 

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live