Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

کیا ایم کیوایم مزید تقسیم سے بچ سکے گی؟

0
0

ایم کیو ایم پاکستان ایک اندرونی خلفشار سے گزر رہی ہے جبکہ اندر سے آنے والی خبروں کے مطابق مزید بحران ٹل چکا ہے۔ اس بات کا بھی انتظار کرنا چاہیے کہ کب رابطہ کمیٹی سرجوڑ کر بیٹھے گی اور پارٹی کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر فاروق ستار کی طرف سے پارٹی آئین میں کی گئی تبدیلیوں کو واپس بحال کرے گی۔ پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ سے متعلق ایک چیز حالیہ دنوں میں اس وقت دیکھنے میں آئی جب متحدہ کے بانی رکن سلیم شہزاد نے نئی پارٹی کی بنیاد رکھنے کا اعلان کر دیا اور 16 دسمبر کو اورنگی ٹائون میں جلسے کر کے طاقت کے اظہار کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں۔ یہ فیصلہ انہیں ایم کیو ایم پاکستان یا پاک سرزمین پارٹی میں ایڈجسٹ نہ ہوسکنے کی وجہ سے کرنا پڑا۔ کیا پہلے سے تقسیم شدہ متحدہ کو مزید تقسیم کرنے کی طرف یہ ایک اور قدم ہو گا ؟ یہ خبریں بھی سرگرم ہیں کہ پرانی مہاجر رابطہ کونسل جس نے 1992ء اور 1995ء کے مشکل اوقات میں ایم کیو ایم اور اس کے بانی کو سپورٹ کیا تھا، وہ بھی الیکشن سے قبل متحرک نظر آئے گی۔

ایم کیو ایم پاکستان جو کہ 8 دسمبر کو حیدرآباد میں عوامی طاقت کے مظاہرے کا ارادہ رکھتی ہے، اندرونی طور پر بالکل مختلف قسم کے خلفشار سے نبرد آزما ہے۔ جس میں سب سے اہم مدعا تو یہ ہے کہ پارٹی رہنمائوں کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ فاروق ستار کچھ ’’نامعلوم افراد‘‘ کی رضامندی سے پارٹی آئین میں سخت قسم کی تبدیلیاں کر چکے ہیں۔ رابطہ کمیٹی نے مذکورہ تبدیلیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور خبریں ہیں کہ فاروق ستار نے بھی 23 اگست 2016ء کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کروائے گئے پارٹی آئین کو اصل شکل میں بحال کرنے اور مذکورہ تبدیلیوں کو دور کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ رابطہ کمیٹی کی گرفت کم کرنے کیلئے بھی ایک تجویز زیر غور ہے۔

متحدہ پاکستان کے بعض سینئررہنمائوں سے بات چیت سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق فاروق ستار بھی اسٹیبلشمنٹ کے کچھ کرتا دھرتائوں کی طرف سے شدید دبائو میں ہیں، اسی وجہ سے وہ رابطہ کمیٹی کو اعتماد میں نہیں لے پائے۔ خاص طور پر آئین میں تبدیلیوں اور پارٹی چیئرمین کو مضبوط کرنے کے حوالے سے رابطہ کمیٹی کی منظوری نہیں لی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بہت سے رہنما فاروق ستار پر دبائو سے واقف ہیں جو کہ 22 اگست 2016ء کے بعد سے جاری ہے۔ انہیں ہی جماعت کا سب سے قابل قبول رہنما بھی قرار دیتے ہیں۔ انہی رہنمائوں نے فاروق ستار سے آئین میں تبدیلیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایک سینئر لیڈر نے بتایا ’’ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے سب اپنی مرضی سے نہیں کیا، تاہم جس چیز نے ہمیں حیرت زدہ کیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خیر خواہوں کو بھی پی ایس پی کے ساتھ ادغام کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا بلکہ ہمارے سامنے یہ انکشاف ایک تیسری پارٹی نے کیا‘‘۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔ تاہم پی ایس پی لیڈران مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران شدید تنائو اُن کے چہرے سے عیاں تھا۔ کوئی چیز شائد انہیں پتا چلی ہو اور دوسری پریس کانفرنس میں انہوں نے اتحاد ختم کرنے کا اعلان کر دیا جس کے بعد طرفین نے ایک دوسرے پر دھوکہ بازی کا الزام لگایا جس کے بعد پہلی مرتبہ ’’تیسرے ہاتھ ‘‘ کا کردار واضح طور پر سامنے آگیا اور انہیں پشیمانی اٹھانی پڑی۔

پارٹی رہنمائوں نے فاروق ستار کو کہا ہے کہ وہ آئین میں تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لئے رابطہ کمیٹی کا اجلاس منعقد کریں۔ کیونکہ رابطہ کمیٹی نے ہی انہیں پارٹی چیئرمین مقرر کیا ہے۔ باخبر رہنمائوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کو اس بات کا خوف ہے کہ رابطہ کمیٹی نا صرف آئینی تبدیلیوں کو ختم کر سکتی ہے بلکہ ڈپٹی کنوینر کامران ٹیسوری کے خلاف بھی ایکشن لے سکتی ہے جن کے بارے میں بہت سے ارکان کا خیال ہے کہ اس سارے منظر نامے کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے۔ پی ایس پی کے ایک مرکزی رہنما نے بتایا ’’ہم فاروق بھائی کی سیاسی اہمیت سے آگاہ ہیں اگر وہ ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہئیں تو یہ ہمارے لئے ایم کیو ایم کی اہم ترین وکٹ ہو گی‘‘۔

گزشتہ چھ آٹھ ماہ کے دوران اسٹیبلشمنٹ، فاروق ستار اور پی ایس پی کے مابین جو کھچڑی پکتی رہی اس نے پہلے ہی بہت سے سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ بعض ذرائع نے بتایا ہے کہ ایک موقع پر تو فاروق ستار دبائو میں آ کر ایم کیو ایم کو ختم کرنے، پارٹی چھوڑنے یا خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے کا سوچ چکے تھے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ معاملات میں ملوث ’’ایمپائر‘‘ نے انہیں اور پی ایس پی والوں کو کوئی قابل قبول فارمولا طے کرنے کا کہا ہے۔ اس عمل نے پی ٹی آئی رہنما فیصل واڈا اور ایم کیو ایم رہنما کامران ٹیسوری کے کردار کو بے نقاب کر دیا ہے۔

بعد ازاں ایم کیو ایم کی طرف سے فیصل سبزواری اور خواجہ اظہار الحسن نے کچھ میٹنگوں میں شمولیت کی ، دیگر سینئر لیڈر بھی شامل تھے جبکہ پی ایس پی کی طرف سے مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی پورے مینڈیٹ کے ساتھ شریک ہوتے رہے۔ رابطہ کمیٹی کے اکثرارکان پارٹی کا نام، جھنڈا اور انتخابی نشان ختم کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ تاہم فاروق ستار بہت دبائو میں تھے اور ان کا نروس بریک ڈائون ہوتے ہوتے بچا۔ ایم کیو ایم پاکستان پرصرف پی ایس پی کے ساتھ ادغام یا متحدہ لندن کو سیاسی منظرنامے سے باہر کرنے سے متعلق ہی دبائو نہیں تھا حتیٰ کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ووٹ دینے پر بھی کچھ حلقوں نے اعتراض کیا۔

فیصل سبزواری اور خواجہ اظہار الحسن کو اس وقت اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ ہوا جب مذاکرات کے دوران تھرڈ پارٹی کے نمائندے نے یہ کہتے ہوئے بم پھوڑا کہ فیصلے کا سارا اختیار چیئرمین کے پاس ہے اسی میٹنگ میں انہیں پتا چلا کہ پارٹی آئین میں ان کی مرضی کے خلاف تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ جب انہوں نے فاروق ستار سے اس بابت پوچھا تو انکے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا اور وہ خاموش ہو گئے۔ تاہم خواجہ اظہار اور فیصل سبزواری نے کہا کہ ادغام کی بجائے انہیں سیاسی اتحاد کرنا چاہیے۔ مصطفیٰ کمال اور انیس قائمخانی نے ایم کیو ایم کے رہنمائوں کو بتایا کہ وہ اپنی جماعت کے نام سے دستبرد ار ی کیلئے تیار ہیں تاہم ایم کیوایم کو بھی کسی تیسرے نام جیسا کہ ’’پاکستان قومی موومنٹ‘‘پر متفق ہونا ہو گا۔ یہی نام پی ایس پی اپنے قیام کے وقت اپنانا چاہتی تھی۔

اب اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں جماعتوں کی پریس کانفرنس سکرپٹڈ تھی لیکن دونوں نے ہی ایک دوسرے کو سکرپٹ سے باہر جانے پر مورد الزام ٹھہرایا۔ پاکستان کی تاریخ اور خصوصاً شہری سندھ کی سیاسی تاریخ میں یہ ایک تاریک باب ہے۔ حالانکہ ماضی میں بھی ایسی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ 1992ء میں اور پھر 1993ُء میں ایم کیو ایم (ایچ) یا پھر عظیم طارق سے متعلق فیصلے ہوں یہ سب اقدامات متوقع نتائج دینے میں ناکام رہے۔ بانی متحدہ کی یکے بعد دیگرے حماقتوں نے پارٹی میں توڑ پھوڑ اور 2013ء کے انتخابات کے بعد زوال میں اہم کردار ادا کیا۔

تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتی ایم کیو ایم کو ایک اور خلفشار کا سامنا ہے اور ایسے میں فاروق ستار کی قیادت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں متحدہ کے لیے چیزیں بدستور تاریک ہیں اور اگر اس نے ان پر قابو نہ پایا اور نوشتہ دیوار نہ پڑھا تو پارٹی یا تحریک جو کہ ’’ایم کیو ایم‘‘ کہلاتی ہے کا اختتام ہو سکتا ہے۔ پارٹی کیلئے یہ کرو یا مرو کی حالت ہے۔ کچھ ارکان کا خیال ہے کہ لیاقت آباد جلسہ نے انہیں امید دلائی ہے اور حیدر آباد جلسہ سے مزید بہتری کی امید ہے اس سے پتا چلے گا کہ لوگ ان پر اعتماد رکھتے ہیں یا خیر باد کہنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

مظہر عباس
 


موبائل فون کا زیادہ استعمال معاشرے پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے

0
0

موبائل فون کا زیادہ استعما ل انسان کے میل جول کے انداز پر سب سے زیادہ اثر مرتب کر رہا ہے، دو بدو ملاقاتیں اور آپس کے تعلقات میں بھی بہت حد تک فرق آ چکا ہے، موبائل فون کا زیادہ استعمال سماجی تعلقات پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار الیکٹرونکس ڈیپارٹمنٹ قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر حسن محمود، اینتھرو پولوجسٹ ڈاکٹر وحید اقبال اور ماہر نفسیات ڈاکٹر ماریہ مصطفی نے جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کے دوران کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل سے نکلنے والی نیلے رنگ کی شعائیں نوجوانوں کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہیں جس کے نتائج آج نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو پتا چل سکتے ہیں، لیپ ٹاپ کا ٹانگ پر رکھ کر استعمال بانجھ پن کی بیماری کاباعث بن رہا ہے، الیکٹرانک اشیا ء کے موثر استعمال کیلئے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے، مائیکرو یو میں کھانا گرم کرنے سے بہتر ہے چولھے کے استعمال کو زیادہ ترجیح دی جائے۔

ڈاکٹر حسن محمود نے ہے کہا کہ سائنسدانوں کے دو گروپ بن چکے ہیں، کچھ کے مطابق موبائل فون سے نکلنے والی شعاؤں سے کوئی نقصان نہیں ہوتا جبکہ دوسرے گروپ کے مطابق برقی شعاؤں سے انسان کی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دو طرح کی شعائیں ہوتی ہیں آئی نائزنگ اور نان آئی نائزنگ، ایکسرے میں جو شعائیں نکلتی ہیں وہ آئی نائزنگ ہوتی ہیں جو بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہیں اور کینسر تک لے جا سکتی ہیں۔ موبائل فون میں نا ن آئی نائزنگ شعائیں موجود ہوتی ہیں جو جسم کے اندر توڑ پھوڑ نہیں کرتیں لیکن ان کے اثرات ہوتے ہیں.

ان کا کہنا تھا کہ انسان کے اندر جو سسٹم کام کر رہا ہے وہ بھی الیکٹریکل سگنلز کی بنیاد پر چلتا ہے، جب ہم موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں تو اس سے دل اور دماغ کے اندر موجود الیکٹریکل سگنلز سے وہ چیز لنک ہو جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنسدانوں کے اس پر دو گروپ بن چکے ہیں کچھ کے مطابق ان شعاؤں کا کوئی نقصان نہیں جبکہ دوسرے گروپ کے مطابق برقی شعاؤں سے انسان کی صحت کو نقصان پہنچتا ہے، آج جو نوجوان موبائل فون استعمال کر رہے ہیں ان پر دس سال بعد اس کا کیا اثر ہوتا ہے یہ آج ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بنتا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر حسن کا کہنا تھا کہ نیلے رنگ کی شعائیں جو ڈیوائس میں سے خارج ہوتی ہے وہ نوجوانوں کی صحت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں اور اس کے اثرات آج نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی پتا چل سکتے ہیں، خاص کر انسان کی پیدائش اور جینیٹک کوڈ بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موبائل فون کو جسم کے قریب یعنی جیب میں رکھنا بھی خطرے سے خالی نہیں، اس وقت جتنی شعائیں نکل رہی ہیں چاہے وہ ٹاور سے ہوں یا موبائل اور دیگر ڈیوائس سے وہ اتنی ہیں کہ جن سے بچنا نا ممکن ہو چکا ہے۔ موبائل کا بڑھتا استعمال ہماری ثقافت کو بھی تبدیل کر رہا ہے، لوگ اگر خود غلطی پر ہوں لیکن وہ الزام موبائل فون پر ڈال دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ موبائل فون کی طرح لیپ ٹاپ کے بھی نقصانات ہیں اور اسے قطعاً ٹانگ پر رکھ کر استعمال نہ کریں بلکہ کسی ٹیبل پر رکھ کر استعمال کریں۔ اسی طرح اس طرح کی ڈیوائسز میں جہاں تعلیمی میدان میں فائدے ہیں وہیں ساتھ میں لوگ اس کو آلہ چیٹنگ کے طور پر بھی استعمال کر رہے ہیں۔ مائیکر ویو آون سے نکلنے والی شعاؤں سے متعلق کہنا تھا کہ اس سے نکلنے والی شعائیں بھی صحت کیلئے خطرناک ہوتی ہیں اور بہتر یہ ہے جب بھی آون استعمال کیا جائے اس کے قریب نہ کھڑ اہوا جائے۔

اینتھرو پولوجسٹ ڈاکٹر وحید اقبال کا کہنا تھا کہ موبائل فون کی بہتات نے انسان کے میل جول کے انداز پر سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے، دو بدو ملاقاتیں اور آپس کے تعلقات میں اس سے بہت حد تک فرق آیا ہے۔ موبائل فون کا زیادہ استعمال سماجی تعلقات پر گہرا اثر ڈال رہا ہے، اسی طرح نائٹ پیکیجز بھی ختم ہونے چاہئیں کیونکہ اس سے بچوں کی رجہان پر کافی اثر پڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موبائل کا کثیر استعمال بچوں اور والدین کے اندر دوری کا سبب بنتا جا رہا ہے، اس کا سب سے بڑا نقصا ن یہ ہے کہ ہم اس ڈیوائس کی وجہ سے جز وقتی ہر جگہ موجود ہیں اور مکمل طور پر کہیں موجود نہیں۔ ایک گھر میں بیٹھے ماں اور بچے بھی آپس میں موبائل کے ذریعے بات کرتے دکھائی دیتے ہیں جس سے محبت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے، ڈاکٹر وحید کے مطابق موبائل فون کا زیادہ استعمال انسانی یاد داشت پر گہرا اثر مرتب کر رہا ہے۔ غرض یہ کہ موبائل فون نے ہمیں اتنا مشغول کر دیا ہے کہ ہر انسان اپنے موبائل فون کو ہر تھوڑی دیر بعد ضرور اٹھا کر دیکھتا ہے، سماجی زندگی اور نجی زندگی کا فرق ختم ہو چکا ہے۔

 

بابری مسجد کے انہدام سے بی جے پی نے کیا کھویا کیا پایا ؟

0
0

پچیس سال قبل آج ہی کے دن یعنی چھ دسمبر سنہ 1992 کو میں نے ہندو قوم پرستوں کے ہاتھوں شمالی انڈیا کے شہر ایودھیا میں ایک تاریخی مسجد کو مسمار ہوتے دیکھا تھا۔ اس مقام کو ہندوؤں کے دیوتا رام کی جائے پیدائش کہا جاتا ہے۔
یہ ہندو قوم پرست پارٹی بی جے پی کی چھ سالہ مہم کا نتیجہ تھا۔ وہ مسجد کو توڑ کر اس جگہ رام کا مندر تعمیر کرنا چاہتا تھے۔ تقریباً 15 ہزار افراد کی بھیڑ اچانک آگے بڑھی گئی اور مسجد کے تحفظ کے لیے تعینات پولیس کے گھیرے کو توڑتے ہوئے مسجد کے گنبد پر حملہ آور ہو گئی اور پل بھر میں مسجد کو مسمار کرنے کا کام شروع ہو گيا۔ میں نے دیکھا کہ پولیس کا آخری دائرہ ٹوٹ چکا تھا اور اوپر سے آنے والے پتھروں سے بچنے کے لیے پولیس لکڑی کی ڈھال سے خود کو بچاتے ہوئے پیچھے ہٹ رہی تھی۔

ایک پولیس افسر پہلے سے ہی دوسرے پولیس اہلکاروں کو دھکا دے کر کنارے کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ میں ایک تاریخی واقعے کا گواہ بن گیا۔ اور یہ واقعہ آزادی کے بعد ہندو قوم پرستوں کی اہم جیت اور سیکولرزم کو شدید جھٹکا تھا۔ سیاسی ماہر تجزیہ نگار زویا حسن نے ’مسجد کی مسماری کو جدید ہندوستان میں قانون کی سب سے بڑی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا تھا۔‘ ان کے خیال میں یہ 'ہندوستانی قوم پرستی کے لیے ایک تاریخی'موڑ تھا۔ لیکن مسجد کے منہدم کیے جانے والی شام کو اتر پردیش میں اس وقت کے بی بی سی کے نامہ نگار رام دت ترپاٹھی بہت پرجوش نظر آئے۔
انھوں نے کہا کہ ہندو قوم پرستوں نے مسجد کو تباہ کر کے 'اس مرغی کو ذبح کر دیا جو سونے کے انڈے دیا کرتی تھی۔' ان کا کہنا تھا کہ ہندو قوم پرستوں کے لیے مسجد کی موجودگی ایک جذباتی مسئلہ تھا اور وہاں مندر کی تعمیر کی ان کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ وہ بھی یہ مانتے تھے کہ وہ رام کی جائے پیدائش ہے۔ پہلی نظر میں ایسا نظر آتا ہے رام دت غلط تھے کیونکہ اس کی وجہ سے انڈیا کے مختلف حصوں میں ہندو مسلم فسادات میں بہت خوں ریزیاں ہوئيں۔ ممبئی سب سے پہلے فسادات کی زد میں آیا جہاں تقریباً 900 افراد ہلاک ہوئے اور پولیس پر ہندوؤں کی حمایت کے الزامات لگے۔ لیکن وقت کے ساتھ فسادات بند ہو گئے اور ایودھیا میں اس مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کی مہم مدھم پڑ گئی۔ بی جے پی کو امید تھی کہ مسجد کا انہدام ان کے حق میں جائے گا اور ہندو ووٹروں کو متحد کر دے گا لیکن سنہ 1993 میں تین ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں وہ حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائی اور ان میں سے ایک ریاست اترپردیش بھی تھی۔ سنہ 1995 کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی نے آہستہ آہستہ اپنی گرفت مضبوط کرنی شروع کر دی اور سنہ 1999 میں وہ ایک مستحکم اتحادی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔

لیکن مرکز میں پہلی بار بی جے پی کے حکومت تک پہنچنے کی وجہ کانگریس پارٹی میں جاری اندرونی کشمکش تھی۔ سنہ 1991 میں کانگریس کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کا قتل کر دیا گیا جس کے سبب کانگریس نہرو گاندھی خاندان کی قیادت سے محروم ہو گئي۔ اسی خاندان نے پارٹی کو آزادی کے بعد متحد رکھا تھا۔ کانگریس کی واحد امید اٹلی نژاد راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا گاندھی تھیں جنھوں نے سیاست میں آنے سے انکار کر دیا۔  اس کے بعد آندھرا پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور طویل عرصے تک مرکزی حکومت میں وزیر رہ چکے نرسمہا راؤ کو اقلیتی حکومت کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ مسجد کی حفاظت میں ان کی ناکامی کو ان کے حریفوں نے انھیں کمتر دکھانے کے لیے استعمال کیا اور الزام لگایا کہ وہ ایک سیکولر کانگریسی ہونے کے بجائے ہندو قوم پرست تھے۔

اس مسئلے پر پارٹی منقسم تھی اور جب سنہ 1996 میں عام انتخابات منعقد ہوئے تو پارٹی اپنے وجود کے لیے خود ہی جدوجہد کر رہی تھی۔ لیکن جب بی جے پی نے سنہ 1999 میں ایک مستقل مخلوط حکومت بنا لی تو نہ تو اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی اور نہ ہی اس وقت بی جے پی کے دوسرے سب سے زیادہ طاقتور رہنما لال کرشن اڈوانی ہی یہ مانتے تھے کہ ایودھیا کے واقعے نے انھیں اتنا زیادہ ہندو ووٹ نہیں دیا ہے کہ وہ ہندو قوم پرستی یا ہندوتوا کا ایجنڈا نافذ کر سکیں اور مندر کے معاملے پھر سے زندہ کر سکیں۔

ان کا خیال تھا کہ اگر انھیں اپنا سیاسی کا اتحاد برقرار رکھنا ہے اور آنے والا انتخاب جیتنا ہے تو آبادی کے مختلف طبقوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انھیں اعتدال پسند رخ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بار اڈوانی نے مجھ سے کہا تھا: 'ہندتوا کی اتنی قسم ہے کہ در حقیقت آپ مذہب کے نام میں ہندوؤں سے اپیل ہی نہیں کر سکتے۔' بی جے پی میں بہت سے لوگوں کا یقین ہے کہ اگر پارٹی نے ہندو قوم پرستی کے پرچم تلے ہندو ووٹوں کو متحد کیا ہوتا تو وہ آنے والے انتخابات میں شکست سے دو چار نہ ہوتی۔

لیکن یہ شکست اتحادی کے انتخاب میں غلطی کے سبب ہوئی تھی اور اس وقت تک سونیا گاندھی دوبارہ کانگریس پارٹی کو متحد کرنے میں منہمک ہو گئي تھیں۔
اور جب وہ کانگریس کی قیادت کے لیے رضامند ہو گئیں تو پارٹی میں نئی جان آ گئی۔ ان کی قیادت میں کانگریس نے دس سال تک حکومت کی۔ ایودھیا کا واقعہ بہت اہم تھا لیکن پھر بھی وہ ایک ایسا ہندو ووٹ بینک نہیں بن سکا جو پوری طرح سے ہندوستان کے سیاسی افق کو بدل دے۔ عین ممکن ہے کہ یہ تاريخی موڑ سنہ 2014 میں بی جے پی کی زبردست کامیابی کے ساتھ اپنے انجام تک پہنچ چکی ہو جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں پہلی مرتبہ اسے مکمل اکثریت ملی ہے اور نریندر مودی جیسا رہنما ملا ہے جو ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار نہیں اور اپنی پارٹی کے ہندو ایجنڈے کو نافذ کرنے کی ابتدا کر دی ہے۔
مثال کے طور پر ان کی حکومت نے ذبح کرنے کے لیے گائے کی فروخت پر پابندی لگا دی ہے، ہندی زبان کی حوصلہ افزائی کی جانے لگی اور اہم تعلیمی اور ثقافتی اداروں کی اعلی پوزیشنوں پر ہندوتوا کے حامیوں کی تقرری شروع ہو گئی۔

اگرچہ مودی نے مسلسل اپنے موقف کو ظاہر کیا ہے کہ وہ تمام ہندوستانیوں کی ترقی چاہتے ہیں لیکن بی جے پی مرکزی اور ریاستی حکومتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ وزیر اعظم مودی ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی طور پر اہم ریاست اترپردیش سے منتخب کیا گیا لیکن وہ ریاست مسلمانوں کے خلاف جارحیت کے لیے جانی جاتی ہے۔ بہر حال مودی صرف ہندوؤں کے ووٹ کی بنیاد پر انتخابات میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ان کی انتخابی مہم کا اہم نعرہ ہندوستان کی ترقی اور تبدیلی تھی۔ ان کی کامیابی اس حقیقت پر بھی منحصر تھی کہ کانگریس ایک بار پھر ریشہ دوانیوں کے دور میں پہنچ گئی تھی۔

اس بات کے اشارے پہلے بھی مل رہے تھے کہ وہ گائے کے ذبیحے پر نرمی لائيں کیونکہ اس کا کسان ووٹروں پر بہت اثر پڑا ہے۔ ہندتوا بہت سے مسلک اور ذات پات والا مذہب ہے اور انڈیا بہت تنوع والا ملک ہے جس کی جڑی متنوع رسم و رواج میں گہری پیوست ہیں۔ لہٰذا، میرے پر ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ مودی اس تاریخی موڑ تک پہنچ جائیں گے یا وہاں تک پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں جہاں سیکولر انڈیا کا خاتمہ ہو جائے گا اور ہندو انڈیا معرض وجود میں آ جائے گا۔

مارک ٹلی
بی بی سی، سابق نمائندہ، انڈیا
 

جب مجھے اپنے ہندو ہونے پر شرم محسوس ہوئی

0
0

انڈیا کے مقدس شہر ایودھیا میں چھ دسمبر سنہ 1992 میں ہندوؤں کے ایک
مشتعل ہجوم نے سولہویں صدی عیسوی میں تعمیر کی گئی تاریخی بابری مسجد کو مسمار کر دیا تھا۔ اس سانحے کے بعد فسادات میں دو ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ اس واقع سے ایک دن قبل فوٹوگرافر پروین جین ہندو کار سیوکوں یا رضاکاروں میں شامل ہو گئے تھے۔ اس دن کو بابری مسجد کو مسمار کرنے کی مشق قرار دیا گیا تھا۔ پروین جین نے اس مشق کی تصاویر کے ساتھ اس روز کی روداد بیان کی ہے۔

’میں چار دسمبر 1992 کی دھند میں لپٹی صبح ایودھیا شہر پہنچا۔ مجھے 'دی پائنیر'اخبار کی طرف سے ایودھیا شہر میں جمع ہونے والے کار سیوکوں اور انتہا پسند ہندو رہنماؤں اور ان کی کارروائیوں کی تصاویر لینے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ 'کمیش کے آگے یہ حقائق پیش کیے گئے کہ یہ مشق بابری مسجد کو گرانے کے لیے کی گئی تھی۔ کمشین کے سامنے اس ضمن میں کچھ تصاویر بھی پیش کی گئیں۔ تاہم ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی میں حتمی طور پر یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ کار سیوک تربیت یافتہ یا تجربہ کار مزدور تھے گو کہ کچھ بیانات اور واقعاتی شواہد اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔'
ہندو قوم پرست جماعت راہشٹریا سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ہزاروں کارکن پہلے ہی شہر میں جمع ہو چکے تھے۔ آر ایس ایس کو ہندو کٹر یا انتہا پسندوں گروپوں کا منبع تصور کیا جاتا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی اسی ہی کے نظریے کے بطن سے جنم لیا ہے۔ اُنھوں نے بابری مسجد کی جگہ جسے وہ ہندوؤں کے دیوتا رام کی جنم بھومی یا جائے پیدائش تصور کرتے ہیں وہاں ایک مندر تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ انھوں نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ بابری مسجد کو ہاتھ نہیں لگائیں گے اور رام مندر کی تعمیر شروع ہونے کی علامت کے طور پر ایک مذہبی تقریب منعقد کریں گے جس میں صرف ایک اینٹ لگائی جائے گی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن پارلیمان جس سے میں رابطے میں تھا اس نے مجھے بتایا کہ پانچ دسمبر کی صبح بابری مسجد کو مسمار کرنے کی مشق کی جائے گی۔

پروین جین کے مطابق بی جے پی کے رکن پارلیمان نے مجھ سے کہا کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے انھیں واضح احکامات ہیں کہ کسی بھی صحافی یا ذرائع ابلاغ کے نمائندے کو قریب نہ آنے دیا جائے لیکن'کیونکہ آپ سے ہماری دوستی ہے اس لیے میں آپ کو یہ جانکاری (معلومات) دے رہا ہوں۔' زعفرانی رنگ کا گمچھا یا سر پر ڈالنے والے رومال اوڑھے اور سینے پر خصوصی پاس (اجازت نامہ) سجائے، ایک کار سیوک کے روپ میں مجھے بابری مسجد کے قریب فٹ بال گراؤنڈ کے برابر ایک میدان میں لے جایا گیا۔

سروں اور کندھوں پر زعفرانی رنگ کے رومال باندھے ہزاروں کی تعداد میں کار سیوک پہلے ہی میدان میں موجود تھے۔ اس پورے علاقے کو آر ایس ایس کے رضاکاروں نے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ میں جس شخص کے ساتھ تھا اس نے مجھے سخت الفاظ میں ہدایت کی کہ مجھے ہر وقت اس کے قریب رہنا ہے اور وقتاً فوقتاً میدان میں لگائے جانے والوں کے نعروں کا جواب بھی دیتے رہنا ہے اور اس دوران جتنا ممکن ہو بچا بچا کر اپنا کام بھی کرتے رہنا ہے۔

ہجوم میں ایک ہٹا کٹا آدمی یک دم میرے سامنے آ گیا اور اس نے تحکمانہ انداز میں مجھے اشارہ کیا کہ میں اپنا کیمرہ بند کر دوں۔ میں نے اپنے سینے پر لگے پاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہجوم کی طرف سے لگائے نعرے کا زور دار انداز میں جواب دیا۔ جواب میں اس شخص نے معنی خیز انداز میں سر ہلاتے ہوئے مجھے ایک کونے میں کھڑے کچھ لوگوں کی طرف جانے کو کہا۔ میں نے اپنے کیمرے کے لیز پر مٹی صاف کی اور ان حیران کن منظر کی تصاویر اتارنا شروع کر دیں۔ ہتھوڑوں، کھدالوں، بیلچوں اور مختلف اوزاروں سے لیس اس ہجوم نے ایک مٹی کے بہت بڑے تودے کو کھودنا شروع کر دیا۔

یہ ساری مشق بڑی مہارت سے کی جا رہی تھی اور صاف نظر آ رہا تھا کہ یہ عام لوگ نہیں بلکہ عمارتیں مسمار کرنے کا تجربہ رکھنے والے مزدور ہیں۔ بابری مسجد کو منہدم کرنے کے واقع پر رپورٹ مرتب کرنے والے سرکاری کمیشن لبرہان کمیشن نے سنہ 2009 میں پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں یہ بات کہی کہ: 'کمیشن کے آگے یہ حقائق پیش کیے گئے کہ یہ مشق بابری مسجد کو گرانے کے لیے کی گئی تھی۔ کمشین کے سامنے اس کے تصاویری شواہد بھی پیش کیے گئے۔ تاہم ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی میں حتمی طور پر یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ کار سیوک تربیت یافتہ یا تجربہ کار مزدور تھے گو کہ کچھ بیانات اور واقعاتی شواہد اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔'

میں نے ایک ایسے شخص کی تصویر بنائی جس نے منہ پر رومال باندھا ہوا تھا اور وہ چیخ چیخ کر مٹی کے تودے کو رسیوں اور جال ڈال کر گرانے والے کارسیوکوں کو ہدایات دے رہا تھا۔ وہ دائیں بازو کی کٹر تنظیم آر ایس ایس کا کوئی خاص رہنما لگ رہا تھا اور شاید اس ہی لیے اس نے اپنا چہرہ چھپا رکھا تھا۔
اس تودے کو آخر کار نعروں کی گونج میں کامیابی سے گرا لیا گیا۔ میں نے اپنی جیکٹ میں کیمرہ چھپا کر باہر جانے کی راہ لی اور ساتھ ساتھ اس ہجوم کے نعروں کا جواب بھی دیتا رہا۔ میں یہ سوچ کر انتہائی خوش تھا کہ میں ان تاریخ ساز مناظر کی تصاویر بنانے والا واحد صحافی ہوں۔

اس کے اگلے روز میں دوسرے صحافیوں کے ساتھ ایک چار منزلہ عمارت کی چھت پر موجود تھا جہاں سے بابری مسجد اور اس کے قریب لگائے گئے سیٹج کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا جہاں سے وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بی جے پی کے رہنما ڈیڑھ لاکھ کے قریب کارکنوں اور لوگوں سے خطاب کر رہے تھے۔ یہاں پر موجود پولیس اہلکار بھی ہجوم کے نعروں کا جواب دے رہے تھے۔ دوپہر کے وقت ہجوم اس قدر مشتعل ہو گیا کہ اس نے مسجد کی حفاظت پر معمور پولیس اہلکاروں اور رضاکاروں پر دھاوا بول دیا۔ اور چند گھنٹوں میں مسجد کی عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔

فساد شروع ہو چکے تھے۔ میں نے اپنے اردگر نظر ڈالی کہ پولیس یا کسی اور مدد کرنے والے کو تلاش کر سکوں لیکن لوگ دکانیں اور گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں بند کر رہے تھے۔ جس دن مسجد کو گرایا گیا اس دن مجھے اپنے ہندو ہونے پر شرم محسوس ہوئی۔ میں لبرہان کمیش کے سامنے عینی گواہ کے طور پر پیش ہوا اور اس کے بعد متعدد مرتبہ سینٹرل بیورو فار انویسٹیگشن (سی بی آئی) کے حکم پر ایک خصوصی عدالت کے سامنے بھی گواہی کے لیے بلایا جاتا رہا جو اس واقع کی تحقیقات کر رہی تھی۔ اس واقع کو پیش آئے پچیس سال بیت چکے ہیں لیکن اس کے ذمہ دار ایک بھی شخص کو سزا نہیں سنائی گئی ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

 

جاوید ہاشمی نے نہیں پوچھا کہ ’مجھے کیوں بلایا؟

0
0

مخدوم جاوید ہاشمی قومی سیاست کے ایک باعزت مِس فٹ بزرگ ہیں۔ ایسے بزرگ جن کے سبق آموز جرات مندانہ تجربات کی دھاک محلے میں ہر کسی پر ہوتی ہے۔ ان کی بات کو کوئی نہ نہیں کرتا اور دل ہی دل میں ہاں بھی نہیں کہتا۔ بابا جی کی نصیحت محلے کے بڑے چھوٹے سر جھکا کے کھڑے کھڑے سنتے ہیں اور پھر پیڈل مارتے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ مخدوم صاحب میں 66 برس کی عمر میں بھی اتنی ہی توانائی ہے جتنی 45 برس پہلے کی پنجاب یونیورسٹی کے 21 سالہ طلبا یونین کے صدر میں تھی۔ سدابہار توانائی نے اگر کہیں ڈیرہ ڈالا ہے تو وہ جاوید ہاشمی کا ڈیرہ ہے۔ برین ہیمبرج کا حملہ بھی ان کی شعلہ صفتی نہ بجھا سکا۔

سنہ 1972 میں گورنر پنجاب مصطفیٰ کھر کو دو لڑکیوں کے اغوا کے شبہے میں رگیدنے سے لے کر اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقعے پر بنگلہ دیش نامنظور چیختے ہوئے لاہور میں شاہ فیصل کے قافلے کے سامنے سڑک پر آجانے تک، بھٹو دشمنی کے جوش میں ضیا الحق کی پہلی کابینہ میں چند ماہ کے لیے یوتھ منسٹر ہونے اور پھر سنہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں پہلی بار ایم این اے بننے اور پھر سنہ 1988 میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اور پھر 23 برس بعد پاکستان تحریکِ انصاف میں ڈھائی برس گزار کے دوبارہ مسلم لیگ ن میں واپسی پر اصولی رضامندی تک۔۔۔

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی

عام طور سے اگر کوئی بندہ اسلامی جمیعتِ طلبا سے چھلانگ مار کے تحریکِ استقلال اور پھر وہاں سے ضیا کے غیر جماعتی نظام اور پھر مسلم لیگ ن اور پھر تحریکِ انصاف اور پھر واپس نون لیگ کی طرف آجائے تو ایسے شخص کو پاکستانی سیاست میں ’لوٹا‘ کہا جاتا ہے۔ مگر جاوید ہاشمی شاید واحد سیاستدان ہیں جنھیں دیکھ کر جہاندیدہ لوٹے بھی اپنا لوٹا پھینک کے نکل لیتے ہیں۔ اتنے راستے بدلنے کے باوجود بھی جاوید ہاشمی شاید اس لیے لوٹے کا خطاب نہ پا سکے کیونکہ انھوں نے اب تک جو بھی کامیاب یا ناکام سیاسی ہجرتیں یا فیصلے کیے وہ کسی ترغیب یا لالچ میں آ کر نہیں بلکہ طبیعت کے ہاتھوں کیے۔ لہذا انھیں لوٹا کہنا کسی کو شوبھا نہیں دے سکتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی

نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مصیبت کے وقت وہ اور لوگوں پر تکیہ کرتے ہیں اور راحت ملتی ہے تو تکیے بھی بدل جاتے ہیں۔ جیسے دورِ جلاوطنی میں انھیں جاوید ہاشمی پارٹی صدارت کے لیے موزوں دکھائی دیے اور پرویز مشرف نے فوج کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں جاوید ہاشمی کو ساڑھے تین برس کے لیے جیل میں ڈال دیا۔ لیکن جب شریفوں کے اچھے دن آئے تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ جاوید ہاشمی کی جگہ اسٹیبشلمنٹ نواز چوہدری نثار علی خان کو قائدِ حزبِ اختلاف چن لیا گیا۔ زرداری کے مقابلے میں صدارتی امیدوار جاوید ہاشمی کو بنانے کے بجائے جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی کو بنا دیا گیا۔

اب نواز شریف ایک بار پھر مصیبت میں ہیں اور جاوید ہاشمی کی کمزوری ہے کہ کسی گاؤں کی دور دراز دخانی چکی سے آتی کوک کوک کوک کی آواز بھی اگر انھیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ محسوس ہو تو دوڑے چلے جاتے ہیں۔ یہ جاوید ہاشمی کی بڑائی ہے کہ مجھے کیوں نکالا فیم نواز شریف سے سات برس بعد ہونے والی ملاقات میں انھوں نے نہیں پوچھا ’مجھے کیوں بلایا؟‘ مجھے انتظار ہے اس وقت کا جب نواز شریف کے برے دن ختم ہوں اور کوئی چوہدری نثار علی پھر معاملات خوش اسلوبی سے سنبھال لے اور جاوید ہاشمی ایک بار پھر ’ہاں میں باغی ہوں‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سوٹا گھماتے ہوئے کسی پگڈنڈی پر چلتا جا رہا ہو۔

یہاں کون ہے تیرا مسافر جائے گا کہاں
دم لے لے گھڑی بھر یہ چھئیاں پائے گا کہاں

وسعت اللہ خان
تجزیہ کار
 

پاکستان میں اے ٹی ایم فراڈ سے کیسے بچا جائے ؟

0
0

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حال ہی میں نجی حبیب بینک لمیٹڈ کی اے ٹی ایم مشینوں سے صارفین کی معلومات چوری ہونے کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حبیب بینک کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر صارفین کی رقوم لوٹانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے حکام کے مطابق گذشتہ ماہ نجی بینک حبیب بینک لمیٹڈ کے بینک اکاؤنٹس کو اے ٹی ایم (آٹومیٹڈ ٹیلر مشین) کارڈز کے ذریعے ہیک کر لیا گیا اور اب تک ان واقعات میں بینک کے 296 صارف متاثر ہوئے ہیں۔ ان صارفین کے اکاؤنٹس سے کل ایک کروڑ دو لاکھ روپے چوری کیے گئے ہیں۔ تاہم ابھی تک وفاقی تحقیقاتی ایجنسی یعنی ایف آئی اے کو اس بارے میں بینک کی جانب سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ایف آئی اے میں سائبر کرائمز کے ڈائریکٹر کیپٹن ریٹائرڈ محمد شعیب نے کہا ہے کہ اس بارے میں ابھی صرف سوشل میڈیا یا مقامی خبر رساں اداروں سے ہی معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔ 'بینک ہمیں باضابطہ شکایت درج کرائے گا اس کے بعد ہی تحقیقات کا آغاز ہو سکے گا‘۔ دوسری جانب بینک دولت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق متاثرہ بینک نے ان تمام اے ٹی ایم کارڈز کو بند کر دیا ہے جنھیں ہیک کرنے کے بعد استعمال کیا گیا، جبکہ متاثرہ صارفین کو یہ رقم واپس کرنے کے عمل کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔

اے ٹی ایم سکِیمنگ یا فراڈ میں ہوتا کیا ہے؟
واضح رہے کہ اے ٹی ایم سکِیمنگ یا فراڈ ایک ایسا عمل ہے جس میں اے ٹی ایم کارڈ کی مقناطیسی پٹی پر موجود تمام اہم ڈیٹا چوری کر لیا جاتا ہے۔ اس کے لیے مشین میں کارڈ پاکٹ میں سکینر نصب کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ اے ٹی ایم مشین کے 'کی پیڈ'پر ایک اور کی پیڈ نصب کیا جاتا ہے جو وہ خفیہ پِن کوڈ محفوظ کر لیتا ہے جو کارڈ استعمال کرنے کے لیے صارف مشین میں داخل کرتا ہے۔ اس کے علاوہ خفیہ کیمرہ بھی نصب کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ معلومات کسی بھی دوسرے کارڈ پر باآسانی منتقل کی جا سکتی ہیں جو دنیا کے کسی بھی حصے میں بینک اکاؤنٹ سے پیسے چوری کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

احتیاطی تدابیر
آئی ٹی اور سیکیورٹی سے متعلق اشاعت و تشہیر سے وابستہ آئی ٹی ماہر عبداللہ سعد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اب ڈیبِٹ اور کریڈٹ کارڈ کے استعمال میں خاصا اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان ایسے ہیکرز کی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ عبداللہ سعد کے مطابق کسی بھی صارف کے لیے یہ خاصا مشکل ہے کہ وہ یہ جانچ سکیں کہ ان کے زیر استعمال اے ٹی ایم مشین پر ڈیٹا چوری کرنے کے لیے کوئی آلہ نصب کیا گیا ہے تاہم وہ صارفین کو چند احتیاطی تدابیر ضرور دیتے ہیں:

1. ایسی اے ٹی ایم مشینیں جہاں عام طور پر رش رہتا ہے، وہاں سکیمنگ کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

2. اگر آپ کسی اے ٹی ایم مشین کو باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں تو مشین پر موجود کسی بھی تبدیلی کو نظرانداز نہ کریں، ایسی مشین پر کارڈ ہرگز استعمال نہ کریں، اور متعلقہ بینک کو اطلاع دیں۔

3. بینک کے ساتھ یا بینک کے اندر موجود اے ٹی ایم مشینیں نسبتاً محفوظ ہوتی ہیں۔

4. صارف دو اکاؤنٹس رکھیں، جن میں سے ایک اکاؤنٹ کا اے ٹی ایم یا ڈیبٹ کارڈ جاری کروائیں اور اس اکاؤنٹ میں صرف ضرورت کے مطابق رقم رکھیں۔ تاکہ ہیکنگ ہونے کی صورت میں بھی بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔

عبداللہ سعد یہ بھی کہتے ہیں کہ صارف کے پاس کارڈ سے رقم نکلوانے کی حد مقرر کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔

پاکستان میں اس وقت بینکوں نے چوبیس گھنٹوں میں اے ٹی ایم مشین سے پچاس ہزار روپے نکلوانے کی حد مقرر کی ہے، جو کہ عبداللہ سعد کے مطابق زیادہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صارف کے پاس اپنا اے ٹی ایم کارڈز ’آف ‘کرنے کا اختیار بھی ہونا چاہیے جیسا کہ دنیا کے کئی ممالک میں یہ نظام رائج ہے۔ اس نظام میں بھی صارف صرف اس وقت کارڈ ’آن‘ کرتا ہے جب وہ اے ٹی ایم مشین استعمال کر رہا ہوتا ہے۔

فرحت جاوید
بی بی سی اردو، اسلام آباد
 

کھیر تھر پارک : وادی کوہ تراش

0
0

کھیر تھر پارک میں کرچات سینٹر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کوہ تراش کی وادی آج بھی انسانی تہذیب کو اپنے دامن میں لپیٹے ہوئے ہے کوہ تراش فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں تراشنے والوں کا پہاڑ۔ پہاڑ اور اس کے نواح میں 3500 قبل از مسیح کے انسانی تہذیب کے آثار ملے ہیں یہ آثار ایک مکمل آبادی اور تہذیب کے بھر پور شواہدات فراہم کرتے ہیں۔ کھیر تھر پارک کا علاقہ جغرافیائی لحاظ سے خشک خطوں میں شمار کیا جاتا ہے اور بنیادی طور پر یہ علاقہ بارانی رہا ہے تاہم یہاں پر سالانہ بارش کا اوسط 6 سے 8 انچ رہا ہے۔ 1994ء سے یہ علاقہ مکمل طور پر خشک سالی کا شکار ہے۔ پہاڑوں پر سے گھاس پھونس، ترائی میں درختوں سے سبزہ اور موسمی ندی نالوں میں پانی خشک ہو گیا ہے اور صورتحال بدتر ہو چلی ہے۔

کھیر تھر نیشنل پارک کو عالمی حیثیت کے حامل ہونے کے علاوہ ملکی قوانین کے تحت بھی تحفظ حاصل ہے سندھ وائلڈ لائف آرڈیننس کے تحت کھیر تھر نیشنل پارک کی حدود میں کسی بھی قسم کی کھدائی، کان کنی یا کسی بھی مقاصد کے استعمال کے لیے زمین کی صفائی یا ہمواری جیسے اقدامات پر پابندی عائد ہے صوبائی حکومت کے ایک اور حکم مجریہ 1970ء کے مطابق پارک میں تیل و گیس کے لیے کان کنی خصوصی طور پر ممنوع ہے۔ مظاہر فطرت کے تحفظ کے لیے قائم نیشنل پارک لوگوں کی معلوماتی تفریح کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں لیکن کھیر تھر نیشنل پارک فروغ سیاحت کے ذمے دار اداروں کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود ماحولیاتی سیاحت سے دلچسپی رکھنے والوں کی نظروں سے اوجھل ہے اس کی بنیادی وجوہات مناسب قیام و طعام کی سہولتوں کا فقدان اور کچے راستوں پر سفر کے لیے مناسب نشانوں کی عدم موجودگی بھی شامل ہیں۔

اگر سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ اور حکومت سندھ فروغ سیاحت سے متعلق اداروں کے تعاون سے کرچات تک پہنچنے کے لیے پختہ سڑک، سیاحوں کے لیے مناسب کرائے پر قیام و طعام اور گارڈن کی فراہمی اور بجلی کے لیے شمسی توانائی کا پلانٹ استعمال کرے اور فروغ سیاحت کے لیے ذرائع ابلاغ کی مدد سے مہم چلائیں تو کھیر تھر نیشنل پارک سیاحت کے فروغ کی بہترین مثال بن سکتا ہے۔ پہاڑی سلسلوں سے بھرے ہوئے اس نیشنل پارک میں میدانی علاقے بھی ہیں اور بنجر علاقے بھی ہیں تاہم گھنے جنگلات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

بِٹ کوائن کیا ہے؟ اور اس کی قیمت آسمان کو کیوں چھو رہی ہے؟

0
0

ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن کی قیمت کا شدید اتار چڑھاؤ جاری رہا اور چند لمحوں کے لیے اس کی قیمت 17 ہزار امریکی ڈالر کراس کر گئی تھی تاہم پھر اس میں 2500 امریکی ڈالر کی کمی ہوئی۔ کوائن ڈیسک ڈاٹ کام کے مطابق اس کی قیمت 14 فیصد کمی کے بعد 14500 ڈالر تک گر چکی ہے۔ یاد رہے کہ اس ہفتے کے دوران بٹ کوائن کی قیمت 70 فیصد تک بڑھی ہے اور اس کی قیمت میں ڈرامائی اضافے کو بغیر بریک کے ٹرین سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس صنعت سے منسلک ایک گروپ کا کہنا ہے کہ بٹ کوائن کے فیوچرز میں تجارت کے منصوبے شاید قبل از وقت ہیں۔

ادھر ناقدین کا کہنا ہے کہ بٹ کوائن ایک مالیاتی ببل ہے جیسا کہ ڈاٹ کام بوم تھا تاہم کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی قیمت میں اضافہ اس وجہ سے ہے کہ اب یہ مالیاتی آلات کے مرکزی دھارے میں آ رہا ہے۔ بٹ کوآئن کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس اختتامِ ہفتہ پر اس کی فیوچرز مارکیٹ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ بٹ کوائن فیوچرز شکاگو کی فیوچرز ایکسچینج میں متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ ادھر دنیا کی سب سے بڑی فیوچرز ایکسچینج سی ایم ای بٹ کوائن فیوچرز آئندہ ہفتے شروع کرے گی۔

تاہم وال سٹریٹ کے اہم ترین بینکاروں اور تاجروں کی تنظیم فیوچرز انڈسٹری ایسوسی ایشن نے امریکی حکام سے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بٹ کوائن کے معاہدوں کو بغیر مکمل جانچ پڑتال کے منظور کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ گولڈ مین سیکس اس تنظیم کا رکن بینک ہے یہ وہی بینک ہے جو کہ کچھ صارفین کے لیے بٹ کوائٹ فیوچرز کی تجارت میں سہولت کار کا کام کرے گا۔ بینک کی ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے بینک نے اپنی جانچ پڑتال کے دوران اس کرنسی کے حوالے سے خطرات کا جائزہ لیا ہے۔ واضح رہے کہ کرپٹو کرنسی کی صنعت میں قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے اب تک بڑے سرمایہ کاروں نے اس میں پیسے نہیں ڈالے ہیں۔ تاہم بٹ کوائن فیوچرز مارکیٹ کے سامنے آنے سے امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اسے کافی حد تک زیرِ قانون یا ریگیولیٹڈ مانا جائے گا۔

 


جنید جمشید کی زندگی پر اک نظر

0
0

3 ستمبر، 1964ء کو پیدا ہونے والے جنید جمشید 7 دسمبر، 2016ء کو یہ جہان چھوڑ کر چلے گئے۔ پورا ملک ان کے نام سے واقف ہے۔ 1980ء اور 90ء کی دہائی میں جوان ہونے والی نسل جانتی ہے کہ بطور پاپ گلوکار انہیں کتنی شہرت حاصل ہوئی۔ بعد ازاں انہوں نے نعت خوانی میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ آپ کراچی میں پاکستان ائیرفورس کے گروپ کیپٹن جمشید اکبر کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کو پاک فضائیہ میں بطور فائٹر پائلٹ شامل ہونے کا بہت شوق تھا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ پھر انہوں نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ لاہور میں داخلہ لیا اور انجینئرنگ کی سند حاصل کی۔ 

ان کے موسیقی کے گروپ وائٹل سائنز کا آغاز 1980ء کی دہائی میں ہوا۔ یہ گروپ مختلف مقامات اور تقریبات میں گانا گانے لگا۔ اسی دوران سرکاری ٹی وی اور پھر معروف فنی شخصیت شعیب منصور کی توجہ اس گروپ نے حاصل کی۔ شعیب منصورنے اس گروپ کے پہلے البم کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا جو بہت مقبول ہوا۔ 1987ء میں پہلے البم دل دل پاکستان کی ریلز کے ساتھ ہی جنید جمشید شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ وہ پاپ موسیقی گروپ وائٹل سائنز کے نمائندہ گلوکار تھے۔ ان کے گائے ہوئے بہت سے گانے مقبول ہوئے۔ وائٹل سائنزکے پہلے البم کی ریلیز کے ساتھ ہی پورے ملک میں اس گروپ اور جنید جمشید کی آواز کو پہچانا جانے لگا ۔ اسی البم میں ’’دل دل پاکستان‘‘ شامل تھا۔ 

موسیقی کے اس گروپ کی مقبولیت اور مالی کامیابی کے سبب پاکستان میں راک موسیقی پروان چڑھنے لگی۔ اس کے بعد جنید جمشید کی آواز کا جادو 1994ء ، 1999ء اور 2002ء میں ریلیز ہونے والے البمز میں جگا۔ یہ سب کامیاب ہوئے۔ اس دوران وائٹل سائنز ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوا لیکن جنید کی مقبولیت کا ستارہ جگمگاتا رہا۔ ان کے گانے سرکاری ٹی وی پر عموماً نشر ہوتے رہتے تھے اور ان کے گانوں کی کیسٹس بھی خوب فروخت ہوا کرتی تھیں۔ 1994ء میں ریلیز ہونے والا البم ’’جنید آف وائٹل سائن ‘‘ ان کا ’’سولو‘‘ البم تھا۔ جبکہ 1999ء میں ریلیز ہونے والا البم ’’ان راہ پر‘‘ دوسرا ’’سولو‘‘ البم تھا۔ جنید جمشید اپنے البم کے گانوں کو خود بھی لکھا کرتے تھے۔ 

تاہم بعد ازاں ان میں اسلامی تعلیمات کی طرف رجحان بڑھ گیا۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے موسیقی کی صنعت کو خیر آباد کہہ دیا۔ پھر وہ نعت خوان اور تاجر کے طور پر جانے جاتے رہے۔ 2004ء میں جنید جمشید نے موسیقی چھوڑنے کا باقاعدہ اعلان کیا اور بتایا کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کر رہے ہیں۔ بعدازاں انہوں نے دینی علم کے حصول اور تبلیغ کی جانب خاصی توجہ دی۔ 7 دسمبر 2016ء کو پی آئی اے کی ایک فلائٹ حادثے کا شکار ہوئی جس میں جنید جمشید بھی شامل تھے۔ بعد ازاں ان کی موت کی تصدیق کر دی گئی۔ وہ اپنی دوسرے شریک حیات کے ساتھ چترال گئے ہوئے تھے۔ وہ اسلام آباد واپس آ رہے تھے کہ فلائٹ خیبر پختون خواہ کے مقام حویلیاں میں حادثے کا شکار ہو گئی۔

رضوان عطا


انڈین سیاست کو قاتلوں کی ضرورت ہے

0
0

راجستھان کے راجسمند ضلع میں بنگال کے ایک مسلم ورکر کے قتل اور انھیں زندہ جلائے جانے کی ویڈیو نے انڈیا کے تمام جمہوریت پسندوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس ویڈیو میں قاتل کو کلہاڑی سے وار کرنے کے بعد 'لو جہاد'کے بارے میں مسلمانوں کو وارننگ دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ حملہ آور قتل کے بعد کہتا ہے کہ 'لو جہاد میں جو بھی ملوث ہو گا اس کے ساتھ یہی برتاؤ کیا جائے گا۔‘ قتل کی یہ ویڈیو اس نے خود سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جو کچھ ہی دیر میں وائرل ہو گئی۔ لو جہاد آر ایس ایس اور بی جے پی کا تخلیق کیا ہوا استعارہ ہے اور اس سے مراد ان مسلم نوجوانوں سے ہے جو ہندو لڑکیوں سے شادی کرتے ہیں۔ 

ہندو سخت گیروں کا الزام ہے کہ مسلم اس طرح کی شادیاں ایک منظم مذہبی سازش کے تحت ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنانے کے لیے کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے کئی رہنما گذشتہ دو تین برس سے اس اصطلاح کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ ابھی تک ایسا کوئی ثبوت یا اشارہ نہیں ملا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ اس طرح کی شادیاں کسی سازش کے تحت ہو رہی ہیں۔ لیکن نفرت کا یہ پروپگنڈہ کس حد تک موثر ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انسداد دہشت گردی کا ادارہ این آئی اے 'اس نام نہاد تصوراتی'لو جہاد'کی تفتیش کر رہا ہے۔ لو جہاد اور اس طرح کے دوسرے مسلم مخالف نفرت انگیز پروپگنڈے کا معاشرے پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ عام لوگ اب ان میں یقین کرنے لگے ہیں۔ راجستھان میں قتل کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حملہ آور مقتول کے بارے میں صرف یہ جانتا تھا کہ وہ مسلم ہے اور اس نے اسے صرف اس لیے قتل کیا کہ وہ مسلم تھا۔ 

مقتول ایک شادی شدہ شخص تھا جس کی مسلم بیوی اور تین بچے بنگال کے ضلع مالدہ میں رہتے ہیں۔ وہ ملازمت کے لیے راجستھان میں مقیم تھا۔ قاتل کو واضح طور پر نفرت کی مہم سے ترغیب ملی تھی۔ راجستھان میں مذہبی نفرت کے سبب مسلمانوں کو قتل کرنے کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ اس بہیمانہ واقعے پر بی جے پی کی قیادت اور راجستھان کی حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ماضی کے بعض واقعات میں بھی قتل کی ویڈیوز بنائی گئی تھیں اور انھیں باقاعدہ شیئر کیا گیا تھا۔ کچھ معاملات میں ملزم گرفتار کیے گئے لیکن میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ان میں سے بیشتر ضمانت پر رہا ہو گئے۔ قتل کے اس تازہ واقعے میں بھی کچھ دنوں بعد حملہ آور کو نشئی یا ذہنی طور پر بیمار بتا کر اگر ضمانت پر رہا کر دیا جائے تو کسی کو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

اس طرح کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سبب بھی یہی ہے کہ مجرموں کو یہ پتہ ہے وہ جرم کے بعد بچ جائیں گے اور انھیں معاشرے اور سیاست کے ایک طبقے کی پشت پناہی حاصل ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت کی مہم شدت اختیار کر رہی ہے۔ بی جے پی کے ایک مرکزی وزیر نے بنگلور میں کہا کہ جب تک اسلام کو جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکا جاتا تب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ گجرات کے بڑودہ شہر میں بی جے پی کے ایک امیدوار نے ایک سیاسی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے حقلے میں داڑھی ٹوپی والوں کی تعداد کم ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو 'سماج دشمن'قرار دیا اور کہا کہ انھیں دھمکا اور ڈرا کر رکھنا ضروری ہے۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت کا یہ زہر رفتہ رفتہ پورے معاشرے میں پھیل رہا ہے۔ پہلے جو پس پردہ اپنی نفرتوں کا اظہار کرتے تھے اب کھل کر کرنے لگے ہیں۔ ملک میں اب اکثریت مذہبی سیاست ہو رہی ہے۔ یہ ایک خطرناک نظریہ اور ایک خطرناک روش ہے۔ ایک سرکردہ صحافی رویش کمار نے موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سیاست کو مزید قاتلوں کی ضرورت ہے۔ نفرتوں کی اس سیاست کو معاشرے کے ایک بڑے طبقے کی قبولیت حاصل ہے۔ انڈین جمہوریت ایک برے دور سے گزر رہی ہے اور ملک کی ایک بڑی اکثریت محض خاموش تماشائی ہے۔

شکیل اختر
بی بی سی اردو، دہلی

Beauty Of Interior Baluchistan Pakistan

0
0
A boy walks with his camels in Jaffarabad district in the southeast of the Pakistani province of Balochistan.

واٹس ایپ اب ان فونز میں استعمال نہیں کیا جا سکے گا

0
0

اگر تو آپ واٹس ایپ استعمال کرتے ہیں تو جان لیں کہ دنیا بھر میں لاکھوں صارفین اس ماہ کے آخر میں اس ایپ کو استعمال کرنے سے محروم ہو جائیں گے۔
جی ہاں واٹس ایپ اب متعدد فونز میں کام نہیں کر سکے گی، کیونکہ دنیا کے مقبول ترین میسنجر نے ایسی ڈیوائسز کے لیے سپورٹ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے واٹس ایپ نے گزشتہ سال اعلان کیا تھا تاہم اسے التوا میں ڈال دیا تھا۔

واٹس ایپ کے مطابق 31 دسمبر 2017 میں بلیک بیری آپریٹنگ سسٹم، بلیک بیری 10 اور ونڈوز 8.0 اور اس سے پہلے کی ڈیوائسز میں واٹس ایپ کی سپورٹ ختم کر دی جائے گی، جس کے بعد ان پر اس چیٹ ایپ کو استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ یہ سپورٹ گزشتہ سال دسمبر میں ختم ہونی تھی مگر پہلے اسے جون اور پھر دسمبر 2017 تک کے لیے التواءمیں ڈال دیا گیا۔ اسی طرح نوکیا ایس 40 میں واٹس ایپ کا استعمال 31 دسمبر 2018 تک ختم کر دی جائے گی، جبکہ اینڈرائیڈ ورژن 2.3.7 اور اس سے پہلے کے فون میں یہ سپورٹ یکم فروری 2020 تک ختم کر دی جائے گی۔

واٹس ایپ کے مطابق چونکہ ہم اب ان پلیٹ فارمز کو زیادہ متحرک طریقے سے ڈویلپ نہیں کر رہے، تو کچھ فیچرز کسی بھی وقت کام کرنا بند کر سکتے ہیں۔
واٹس ایپ کے اس فیصلے سے بلیک بیری کا ہر فون متاثر ہو گا چاہے اس میں نیا بلیک بیری 10 سسٹم ہی کیوں نہ موجود ہو۔ اسی طرح ونڈوز 8.0 یا اس سے پہلے کے آپریٹنگ سسٹم پر جو فون چل رہا ہو گا اس پر بھی واٹس ایپ کی سپورٹ ختم ہو جائے گی۔ ان تمام ڈیوائسز کو استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے اور اس فیصلے سے وہ ضرور متاثر ہوں گے۔

گزشتہ سال واٹس ایپ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اگرچہ یہ موبائل ڈیوائسز ہماری کامیابی کا اہم حصہ ہیں مگر ان فونز میں ایسی خوبیاں نہیں جو ہماری ایپ کے فیچرز کو مستقبل میں توسیع دے سکیں۔ واٹس ایپ کا کہنا تھا کہ یہ فونز استعمال کرنے والے صارفین سال کے ختم ہونے سے قبل نئی ڈیوائسز پر منتقل ہو جائیں۔
بیان کے مطابق یہ فیصلہ ہمارے لیے بہت مشکل تھا مگر لوگوں کو اپنے دوستوں سے رابطوں کے لیے سہولیات فراہم کرنے کے لیے ضروری تھا۔ کمپنی کے بقول اس فیصلے سے سروس میں مزید سیکیورٹی ٹولز اور نئے فیچرز کا اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔
 

ہمدرد نونہال کے مدیر مسعود برکاتی انتقال کر گئے

0
0

پاکستان کے نامور ادیب اور مشہور میگزین ہمدرد نونہال کے مدیر مسعود احمد برکاتی طویل عرصے کی علالت کے بعد 87 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
مسعود احمد برکاتی کے رشتہ داروں اور دوستوں نے بتایا کے وہ کافی عرصے سے علیل تھے اور ان کا انتقال گزشتہ روز اتوار کو ہوا۔ وہ گزشتہ 65 سال سے ہمدرد نونہال میگزین کی ادارت کے فرائض انجام دے رہے تھے جبکہ انہوں نے بچوں کے ادب کے حوالے سے 20 کتابیں بھی تحریر کیں۔

بہت سے تجزیہ کاروں نے ایسا بھی لکھا کہ مسعود احمد برکاتی کا اس میگزین کی ادارت کا یہ عرصہ ایک ورلڈ ریکارڈ بھی ہے۔ مسعود برکاتی اس میگزین کے مالک حکیم محمد سعید کے ساتھی بھی تھے، مسعود برکاتی کا تعلق ہندوستانی ریاست ٹونک سے تھا۔ ان کے بڑے بھائی حاکم محمود احمد برکاتی ایک محقق اور اسکالر تھے۔ انہوں نے سوگوران میں تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کو چھوڑا۔
 

بہن کے ہاتھوں بہن کے قتل میں اہم کردار اسمارٹ فون کا نکلا

0
0

ملیر سعود آباد میں بہن کے ہاتھوں بہن کے قتل میں اہم کردار اسمارٹ فون کا نکلا جس نے معاشرے میں کئی سوالات پیدا کر دیئے، والدین کی جانب سے اولاد کیلئے وقت نہ ہونا المیہ ہے ۔ ایس ایس پی کورنگی نعمان صدیقی نے اپنی پریس کانفرنس میں کئی سوال اُٹھا دیئے۔ نعمان صدیقی نے کہا کہ جب بچوں کو اسمارٹ فون کی ضرورت نہیں تو ان کے ہاتھوں میں یہ کیوں ہیں، اسمارٹ فون ہی اس بلیک میلنگ اور قتل کا سبب بنے، علینہ کے قتل میں والدین کی بیٹیوں سے بے خبری اور اسمارٹ فون کا اہم کردار نکلا، والدین کے پاس بچوں کیلئے وقت نہ ہونا المیہ ہے۔

صحت کے لیے پیدل چلنے سے بہتر کوئی طریقہ نہیں : مسعود احمد برکاتی

0
0

کالون پیٹرک لوگوں کو پیدل چلنے کا مشورہ دیتا ہے، اس کی عمر ساٹھ سال سے
زیادہ ہے، لیکن وہ ابھی تک چاق چوبند ہے۔ گزشتہ سال اس نے پیدل چلنے کے ایک مقابلے میں حصہ لیا اور اوّل آیا۔ اس نے ساٹھ میل کا فاصلہ 12 گھنٹے 36 منٹ اور 20 سیکنڈ میں طے کیا اور اوّل آنے کا اعزاز حاصل کیا۔ حالانکہ اس مقابلے میں اس سے بھی کم عمر کے لوگ شریک تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کے قدم اٹھا کر چلنے سے اس کی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ دنیا میں صحت برقرار رکھنے کا بہترین نسخہ باقاعدگی سے پیدل چلنا ہے۔ پھر لطف یہ کہ اس میں خرچ بھی کچھ نہیں، صحت بھی اچھی رہتی ہے اور اچھی خاصی تفریح بھی ہو جاتی ہے۔

جب انسان کے دو پیر سلامت ہوں اور اس کے دل میں یہ خواہش ہو اور ارادہ بھی کہ اپنی جسمانی اور دماغی صحت کو برقرار رکھا جائے، اس وقت تک اس مقصد کے حصول کے لیے پیدل چلنے سے بہتر کوئی طریقہ نہیں۔ کالون پیٹرک (جس نے ایک مقابلے میں یہ کام یابی حاصل کی) کا بیان ہے کہ اگر میں یہ کہوں:’’میری اس امتیازی کامیابی اور جسمانی صحت کا باعث بڑی حد تک میری پابندی سے پیدل چلنے کی عادت ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ لوگوں کو پیدل چلنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے۔ مجھے اس میں بھی ذرا ساشبہ نہیں کہ اگر آپ یہ عادت ڈال لیں تو آپ کو کس قدر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘‘

میرے خیال میں صحیح طریقے سے پیدل چلنا بھی ایک فن ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ پیدل چلنے والے بھی اس پرانے فن کو فراموش کر چکے ہیں جو حقیقت میں بہترین ورزش ہی ہے۔ اس کا بڑا سبب موٹروں اور موٹر سائیکلوں کا کثرت سے استعمال ہے، جنھوں نے انسانی پیروں کی جگہ لے لی ہے۔ اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ آمدورفت کے ان ذرائع کو ختم کر دیا جائے، لیکن میرا یہ مطلب ضرور ہے کہ انہیں انسان کے روزانہ پیدل چلنے کی ورزش کے راستے میں حائل نہ ہونا چاہیے۔

صحیح طریقے سے پیدل چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اعضا کی ہم آہنگی کے ساتھ حرکت سے نہ صرف صحت ملتی اور فائدہ پہنچتا ہے، بلکہ حقیقت میں سارے جسم کو قوت بھی حاصل ہوتی ہے، چوں کہ پیدل چلنے کی ورزش میں انسان گہرے سانس لیتا ہے، اس لیے اس کے جسمانی نظام میں آکسیجن کی مقدار بھی زیادہ داخل ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قلب زیادہ قوت سے کام کرتا ہے، دوران خون بڑھتا ہے اورجسم انسانی کے تمام اندرونی اعضا زیادہ فعال ہو جاتے ہیں۔ اعضا کی فعالیت کے باعث شگفتگی اور اپنی بہتر حالت کا احساس ہوتا ہے اور اس کو وہی لوگ بہتر طریقے سے سمجھتے اور محسوس کر سکتے ہیں جنہیں باقاعدہ پیدل چلنے کی عادت ہوتی ہے۔ اس احساس کو سمجھنے کے لیے پیدل چلنا ضروری ہے۔ چال قدرے تیز ہونی چاہیے۔ فاصلہ بھی کافی ہونا چاہیے اور ہفتے میں کم از کم پانچ روز چلنا فائدے مند ثابت ہوتا ہے۔

عام طور سے لوگ قدرتی اور متوازن چال کے بجائے اکڑ کر اور بناوٹی انداز سے چلنے لگتے ہیں، اس طرح وہ اس فائدے سے جو صحیح طریقے سے چلنے پر حاصل ہونا چاہیے، محروم رہتے ہیں، کیوں کہ صحیح طرح سے چلنے کے معنی یہ ہیں کہ جسم سیدھا رہے، سختی نہ ہو اور چال میں موسیقی کی سی ہم آہنگی ہو۔ عام آدمی اور مقابلوں میں حصہ لینے والے تجربہ کار پیادہ رو لوگ بھی، جنہیں بہتر علم ہونا چاہیے، پیدل چلنے میں گھٹنوں سے زیادہ اور ٹخنوں سے کم کام لیتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ ابتدائی دونوں میں پیدل چلتے رہنے کے بعد بھی جلد تھکن ہو جاتی ہے، اس کی پیٹھ میں درد ہوتا ہے اور اعصاب دکھنے لگتے ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے اعصاب سے صحیح کام نہیں لے رہا ہے اور اس کا توازن درست نہیں۔

پیدل چلتے وقت انسان کا سر، کندھے اور سینہ جھکا ہوا نہیں رہنا چاہیے، کیوں کہ اس طرح خمیدہ کمری یا کبڑے ہونے سے بچاؤ ہوتا ہے۔ اسی طرح کولہوں کو ادھر ادھر جھکانے کے رجحان سے بھی بچنا چاہیے۔ پیدل چلتے وقت جسم کی ہر حرکت کو راست اور سامنے کی جانب ہونا چاہیے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ جسم کا وزن ایک پیر سے دوسرے پیر پر ٹھیک طریقے سے منتقل کیا جائے۔ مطلب یہ کہ جو پیر آپ کو آگے کی طرف بڑھا رہا ہے، اس وقت تک زمین سے نہ اٹھے، جب تک جسم کا وزن پوری طرح سے آگے بڑھتے ہوئے پیر پر منتقل نہ ہو جائے۔ بہتر یہ ہے کہ نہ کولھے جھکائے جائیں اور نہ قدم بڑھاتے وقت کندھوں کو جھٹکا دیا جائے۔

سینہ ابھرا ہوا ہونے کے بجائے خوب پھیلا ہوا ہونا چاہیے اور چلتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ آپ کس قسم کے جوتے پہنے ہوئے ہیں، کیوں کہ جوتوں کا آرام دہ ہونا بے حد ضروری ہے۔ چلتے وقت اپنے پیروں کی طرف توجہ رکھیں اور یہ دیکھیں کہ قدم صحیح رخ پر پڑ رہے ہیں یا نہیں۔ قدم بڑھا کر سیدھے چلنے میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جسم کا بوجھ پیر کے اگلے اور چوڑے حصے پر پڑتا اور متوازن رہتا ہے۔ ایڑیوں پر بوجھ ڈالنے سے اجتناب کرنا چاہیے کیوں کہ اس سے توازن پوری طرح برقرار رکھنے میں دقت ہوتی ہے۔ پیدل چلنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کے ٹانگوں کو کولھوں سے آگے بڑھائیں۔ گھٹنے ان کے ساتھ ہم آہنگی سے حرکت کریں۔ ایڑیاں پہلے زمین کو چھوئیں، لیکن اتنی تیزی سے کہ ایڑیوں سے قطعاً آواز نہ نکلے۔

باقاعدہ پیادہ روی، گھر میں ورزش، پابندی سے غسل اور مناسب اور موزوں غذا جسم انسانی کی تقریباً جملہ خرابیوں کو دور کر کے صحت قائم رکھتی ہے اور ان کے ذریعے سے جوانی، شگفتگی، تازگی اور صحت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ صبح تڑکے روزانہ پیدل چلنا، جب ہوا صاف اور پاکیزہ ہوتی ہے، بہترین، ارزاں ترین اور آسان ترین نسخہ ہے، ہر اس انسان کے لیے جو اپنی صحت اور جسمانی قوت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ کالون پیٹرک کا یہ کہنا ہے کہ ’’میں اسی اصول پر مدتوں سے عمل کر رہا ہوں۔ بعض اوقات میں پیدل چلتا ہوا دور تک حسین مناظر دیکھنے چلا جاتا ہوں اور وہاں کسی جھیل میں آبی پرندوں کے تیرنے اور غوطے لگانے کا لطف اٹھاتا ہوں۔‘‘ تجربے سے معلوم ہوا کہ پیدل چلنے سے نہ صرف عمر میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ مسلسل مشق سے انسان کی صلاحیتوں اور قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اس طرح ’’بڑھاپا‘‘ دور رہتا ہے۔

ہمارے ملک میں بہت کم لوگ صبح کو ہوا خوری کے لیے نکلتے ہیں اور جو نکلتے بھی ہیں وہ پابندی نہیں کرتے۔ بڑے شہروں کی زندگی میں جہاں بہت سی سہولتیں اور آسائشیں ہیں، وہیں بعض بہت سی خرابیاں بھی ہیں۔ مثال کے طور پر دن میں مختلف قسم کی گاڑیوں کے چلنے اور کارخانوں، فیکٹریوں اور ملوں وغیرہ سے دھواں نکلنے کے باعث ہوا بہت کثیف رہتی ہے، اس لیے بڑے بڑے پارک بنائے جاتے ہیں۔ اگر صبح کے وقت پیدل چلنے کی عادت ڈالی جائے تو صاف اور تازہ ہوا مل سکتی ہے، جو کسی اچھے سے اچھے ٹانک سے بھی بہتر ہوتی ہے۔

مسعود احمد برکاتی

(بشکریہ ہمدرد صحت، کراچی)
 


یروشلم : یورپی یونین اسرائیل کا ساتھ نہیں دے گی

0
0

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے یورپی یونین سے کہا ہے کہ وہ امریکی صدر کی پیروی کرتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرے لیکن یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے ساتھ برسلز میں ملاقات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے فیصلے سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہوا ہے، ’’حقیقت کو تسلیم کرنا امن کی بنیاد ہے۔‘‘

لیکن یورپ میں اسرائیل کے قریب ترین اتحادی ملک چیک جمہوریہ نے بھی خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں امن کوششوں کے حوالے سے ایک برا فیصلہ ہے۔ دوسری جانب فرانس نے بھی زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یروشلم کی حیثیت کا فیصلہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین طے پانے والے حتمی معاہدے میں ہی ہو گا۔ اسرائیل میں اپنے ملک کا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں چیک جمہوریہ کے وزیر خارجہ لوبومیر زاورلیک کا کہنا تھا، ’’مجھے ڈر ہے کہ یہ (فیصلہ) ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔‘‘

اسرائیلی وزیر اعظم اپنے یورپ کے دورے کے دوران یورپی رہنماؤں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں ہیں کیوں کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی مذمت نہ صرف مسلم دنیا بلکہ سرکردہ یورپی رہنما بھی کر رہے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں سے ملاقات کے بعد بھی اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا تھا، ’’فلسطینیوں کو اب یہودی ریاست کو تسلیم کر لینا چاہیے اور اس حقیقت کو بھی کہ اس کا ایک دارالحکومت ہے، جسے یروشلم کہا جاتا ہے۔‘‘

اسرائیلی وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا، ’’اس کے باوجود کہ ابھی کوئی معاہدہ موجود نہیں، مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں یہی ہونے جا رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تمام یا زیادہ تر یورپی ملک اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کرتے ہوئے اسے اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر لیں گے تاکہ سلامتی، خوشحالی اور امن کے لیے مل کر کام کیا جا سکے۔‘‘ گزشتہ ہفتے چیک جمہوریہ کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ وہ تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کو تیار ہے لیکن بعد میں اس یورپی ملک کی طرف سے کہا گیا تھا کہ وہ صرف مغربی یروشلم پر ہی اسرائیلی حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے۔

یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ وہ 1967ء میں قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں کو اسرائیل کا حصہ نہیں سمجھتے۔ ان علاقوں میں مغربی کنارہ، مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیاں شامل ہیں۔ چیک جمہوریہ کے وزیر خارجہ کا اسرائیلی وزیر اعظم سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مجھے یقین ہے کہ یکطرفہ فیصلوں سے کشیدگی کم کرنا ناممکن ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم اسرائیلی ریاست کی بات کر رہے ہیں لیکن ہمیں اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کی بھی بات کرنا چاہیے۔‘‘ قبل ازیں فرانس نے امریکا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن سے متعلق اپنے منصوبے کی وضاحت کرے کہ واشنگٹن آخر کیا چاہتا ہے؟
 

ٹرمپ کی ٹی وی دیکھنے کی عادات، نیو یارک ٹائمز پر ’’ٹویٹر حملہ‘‘

0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خلاف ایک مضمون کی اشاعت پر موقر روزنامے نیویارک ٹائمز کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اس اخبار کا قصور یہ ہے کہ اس نے صدر ٹرمپ کی ٹیلی ویژن دیکھنے کی عادات کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون شائع کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے:’’ ایک اور جھوٹی کہانی ، لیکن اس مرتبہ نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ میں دن میں چار سے آٹھ گھنٹے ٹی وی دیکھتا رہتا ہوں۔ بالکل غلط ۔

نیز میں سی این این اور ایم ایس این بی سی نہیں دیکھتا۔ میں ان دونوں کو ’’جعلی نیوز‘‘ خیال کرتا ہوں۔ میں کبھی ڈان لیمن کو نہیں دیکھتا، وہی صاحب جنھیں میں نے ایک مرتبہ ٹیلی ویژن پر’’ گونگا شخص‘‘ قرار دیا تھا‘‘۔ نیویارک ٹائمز میں ہفتے کے روز شائع شدہ اس مضمون کے لکھاری نے صدر ٹرمپ کے روزمرہ معمولات کی تفصیل بیان کی ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ دن میں چار گھنٹے تک        ٹی وی دیکھتے ہیں اور وہ زیادہ تر سی این این یا ایم ایس این بی سی دیکھتے ہیں۔
 

پاکستانی روپے کی قدر میں کمی : کس کو فائدہ ہے اور کسے نقصان ؟

0
0

ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر سے پاکستان کی ٹیکسٹائل اور دیگر برآمدی صنعت سے وابستہ افراد میں خوشی کی لہردوڑ گئی ہے البتہ درآمد کنندگان میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کا براہِ راست اثر ان اشیاء کی قیمتوں پر ہوتا ہے جو بیرونِ ملک سے درآمد کی جاتی ہیں جیسے کہ کمپیوٹرز، گاڑیاں اور موبائل فونز وغیرہ اور ان تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے قرضوں کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔ مثلا اگر ایک ڈالر 100 روپے کے برابر ہو اور ایک ارب ڈالر کا قرضہ ہو تو اس حساب سے 100 ارب روپے کا قرضہ ہو گا لیکن اگر ڈالر 110 کا ہو جائے تو قرضہ بھی اسی حساب سے بڑھ جائے گا۔
دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی سے ملکی برآمدات کرنے والوں کو بظاہر فائدہ ہوتا ہے۔ چونکہ برآمد کرنے والے کو اپنی چیز کی زیادہ قیمت مل رہی ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی پیداواری لاگت میں رہتے ہوئے اشیاء کی قیمت میں کمی کر سکتا ہے۔ اس طرح عالمی منڈی میں برآمدات بڑھ جاتی ہیں اوراس سے جاری کھاتے یا کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ ماہرِ معاشیات پروفیسرشاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ ’جب سے موجودہ حکومت آئی ہے پاکستان کی برآمدات مستقل گر رہی ہیں اور درآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ چار سال چار ماہ میں 107 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا ہے۔ ایسے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم کے ذریعے اسے کم کرنے کی کوشش کی گئی تاہم پھر بھی جاری کھاتے کاخسارہ تقریبا 22 ارب ڈالر ہو گیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال سے جاری سیاسی افراتفری اورعدالتی کارروائی کی وجہ سے اب تک بیرونی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے جس سے پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں پانچ ارب ڈالرسے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔ پروفیسرشاہد حسن صدیقی کے بقول ’روپے کی قدر مزید کم ہونے کی گنجائش ہے تاہم اس عمل سے کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے میں کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اس کے ساتھ جو دوسرے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے مرکزی بینک اور حکومت دونوں تیار نہیں ہیں لہذا اس عمل سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا اور بجٹ کا خسارہ بھی بڑھ جائے گا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ’روپے کی قدرمیں کمی بظاہر غیر مقبول فیصلہ ہے تاہم پاکستان کا بااثر طبقہ یعنی برآمد کنندگان اور ٹیکسٹائل لابی اس سے بہت خوش ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ’حکومت نے پانچ سے دس فیصد کی ایڈجسٹمنٹ کےلیے آئی ایم ایف سے ملاقات کرنے کا عندیہ دیا ہے تاہم اگر ڈالر 111 روپے سے اوپر گیا تو حالات خراب ہو سکتے ہیں۔‘ ظفر پراچہ نے بتایا کہ کرنسی ڈیلرز کو روپے کی قدر میں کمی سے نقصان ہی ہوتا ہے کیونکہ اگر انھوں نے ڈالر بیچنا بند کیا تو افراتفری مچ سکتی ہے اور کبھی بھی اس کا فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ بیچنے والا بیچنا بند کر دیتا ہے اور خریدنے والا بھاگ بھاگ کر خریدتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

پاکستان بھارت سے آئی ٹی کی ملازمتیں اور کام چھین رہا ہے، بھارتی میگزین

0
0

بھارت سے شائع ہونے والے ایک مشہور جریدے نے اپنی حالیہ اشاعت میں کہا ہے کہ پاکستان بھارت سے آئی ٹی کی کم درجے کی ملازمتیں اور پروجیکٹ چھین رہا ہے۔ بھارتی میگزین آؤٹ لک نے ایک مضمون میں کہا ہے کہ حال ہی میں ایک امریکی فرم نے بھارتی علاقے نویڈا کی 125 ملازمتیں اسلام آباد منتقل کر دی ہیں۔ مضمون میں کہا گیا کہ گزشتہ 2 برس سے بھارتی ملازمتیں بنگلہ دیش، فلپائن اور ملائیشیا منتقل ہو رہی ہیں اور یہ ملک غیرملکی اداروں کو مزید کم تنخواہ پر کام کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں، اب اس فہرست میں پاکستان بھی شامل ہو گیا ہے جو اس معاملے میں اپنا حصہ وصول کر رہا ہے۔

پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر کی صنعت 3 ارب ڈالر کو چھو رہی ہے ۔ گزشتہ 4 برس اس کا حجم دوگنا ہوا ہے اور اگلے 2 سے 4 برس میں اس میں مزید 100 فیصد اضافہ ہو جائے گا تاہم پاکستان کی آئی ٹی مارکیٹ کا بھارت سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان کے مقابلے میں یہ 51 گنا بڑی ہے۔ بھارت میں آئی ٹی اور سافٹ ویئر مصنوعات کی فروخت 154 ارب ڈالر تک ہے جن میں سے 38 ارب ڈالر کی تجارت ملکی مصنوعات اور بقیہ 117 ارب ڈالر بیرونِ ملک برآمدات کی صورت میں شامل ہیں۔ 

پاکستان کی آئی ٹی صنعت کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ اس کے بڑھنے کی رفتار خود بھارت سے بھی ذیادہ ہے، پاکستان میں اس کا اضافہ سالانہ 20 فیصد ہے جب کہ بھارت میں 7 سے 8 فیصد تک ہے لیکن بھارت کے حجم کو دیکھتے ہوئے یہ اضافہ ہم سے کئی گنا ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش، فلپائن اور ملائیشیا کی حکومتیں آئی ٹی صنعت کو فروغ دینے کے لیے حکومتی ترغیبات، ٹیکنالوجی پارکس کا قیام، ٹیکس میں چھوٹ اور کم خرچ موبائل اور انٹرنیٹ سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔

پاکستان میں ہر سال آئی ٹی کے 10 ہزار گریجویٹس تیار ہو کر مارکیٹ کا حصہ بن رہے ہیں جب کہ پاکستانی مارکیٹ میں ڈیڑھ لاکھ مرکزی ٹیکنکل ماہرین اور ڈیڑھ سے دو لاکھ ہی فری لانسر ہیں جو آئی ٹی مارکیٹ میں اپنی بہتر ساکھ رکھتے ہیں۔ پاکستان میں آئی ٹی اور دیگر تکنیکی امور سے وابستہ فری لانسر نے بین الاقوامی طور پر اپنا نام بنایا ہے اگرچہ وہ تھوڑا ذیادہ معاوضہ لیتے ہیں لیکن معیاری کام وقت پر کر کے دیتے ہیں۔

 

اسرائیل بیت المقدس کے معاملے پر ہم سے کسی بھی قسم کی توقعات نہ رکھے

0
0

یورپی یونین نے دوٹوک الفاظ میں اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یورپی ممالک بیت المقدس سے متعلق امریکی فیصلے کی حمایت کرے۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی نگران فیڈیریکا موگیرینی نے کہا کہ ‘شہر کی مقدس حیثیت پر تبدیلی قبول نہیں کی جائے گی’۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کے بعد اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ‘ٹرمپ نے حقائق میز پر رکھے ہیں’۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ سے ملاقات میں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ ‘وہ امید کرتے ہیں کہ تمام یورپی ممالک امریکی فیصلے کی توثیق کریں’۔ اسرائیلی وزیراعظم کے بیان پر 28 یورپی ممالک کے خارجہ امور کی نگران فیڈیریکا موگیرینی نے دوٹوک جواب دیا کہ ’اسرائیل ہم سے کسی بھی قسم کی توقعات نہ رکھے’۔ واضح رہے کہ یورپی یونین نے بیت المقدس سے متعلق امریکی فیصلے کو امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔

برسلز کے اجلاس میں اسرائیل کے وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ‘یورپی یونین میں شامل ممالک بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنے اپنے سفارتخانے منتقل کریں گے اور امن، سیکیورٹی اور خوشحالی کے لیے کام کریں گے’۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی نگران فیڈیریکا موگیرینی نے واضح کیا کہ ‘یورپی یونین فلسطین کو امداد فراہم کرتا ہے اور بیت المقدس کے معاملے پر عالمی رائے شماری کا احترام کرے گا’۔ انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل اور فلسطین کے لیے درمیان دو طرفہ امن کے لیے ضروری ہے کہ بیت المقدس کو دونوں ممالک (اسرائیل اور فلسطین) کا دارالحکومت رہنے دیا جائے جو بنیادی طور پر عرب اسرائیل جنگ 1967 کے بعد کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ یورپی ممالک کی جانب سے امریکی فیصلے کی تائید نہ کرنے پر اسرائیلی وزیراعظم نے یورپی ممالک کو ‘منافق’ قرار دیا تھا۔ فرانس کے دورے پر روانگی سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ یورپ کا احترام کرتے ہیں لیکن اسرائیل سے متعلق یورپ کا دہرا معیار قبول کرنے پر تیار نہیں۔ پریس کانفرنس میں فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیل پر راکٹ حملوں کی مذمت کرتے ہیں لیکن ان کے بقول ساتھ ہی وہ صدر ٹرمپ کے یروشلم سے متعلق فیصلے کے بھی مخالف ہیں۔ فرانسیسی صدر نے امریکی فیصلے کو بین الاقوامی قوانین کے خلاف اور امن کو داؤ پر لگانے کا اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے خود اسرائیل اور اسرائیلیوں کے تحفظ کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live