Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

بینک آف چائنا پاکستان پہنچ گیا

$
0
0

بینک آف چائنا نے پاکستان میں اپنے باقاعدہ آپریشنز کا آغاز کر دیا ہے۔ اس مناسبت سے اسلام آباد میں منعقدہ تقریب سے صدر ممنون حسین خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں بینک آف چائنا کے آپریشن کے آغاز کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا اور کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔ صدر ممنون حسین کا کہنا تھا کہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث پاکستان خطے کی اقتصادی سرگرمیوں کا فطری مرکز ہے۔

اُنھوں نے اس موقع پر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کے مثبت اثرات جلد عوام تک پہنچنا شروع ہو جائیں گے۔
افتتاحی تقریب سے خطاب میں پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے گورنر طارق باجوہ نے کہا کہ بینک آف چائنا کا شمار دنیا کے بڑے اور ممتاز بینکوں میں ہوتا ہے اور اُن کے بقول اس کے پاکستان میں آپریشن سے مقامی بینکنگ سیکٹر میں بھی بہتری آئے گی۔

چین پاکستان کا قریبی اتحادی ہے اور بیجنگ نے پاکستان میں توانائی کے علاوہ مختلف شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالر کے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین کے شہر کاشغر سے پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع ساحلی شہر گوادر تک مواصلات، بنیادی ڈھانچے، توانائی اور صنعتوں کا جال بچھایا جا رہا ہے جسے حکام دونوں ملکوں سمیت جنوب ایشیائی خطے کی ترقی و خوشحالی کے لیے بہت اہم قرار دیتے ہیں۔
 


جان بیٹا خلافت پہ دے دو, مولانا محمد علی جوہر…ایک عظیم شخصیت

$
0
0

اگرچہ مولانا محمد علی جوہر نے تحریک پاکستان میں حصہ نہیں لیا کیونکہ قیام پاکستان سے کئی برس پہلے ان کا انتقال ہو چکا تھا لیکن اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ انہوں نے مسلمانان برصغیر کے لئے بہت کام کیا۔ وہ ہر صورت برصغیر کے مسلمانوں کی فلاح چاہتے تھے۔ وہ ایک شاعر‘ صحافی عالم اور سیاست دان تھے اور ان شعبوں میں انہوں نے اپنے آپ کو منوایا تھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر وہ زندہ رہتے تو یقینا تحریک پاکستان میں حصہ لیتے جبکہ وہ اپنی زندگی میں انگریزی استعمار کے خلاف لڑتے رہے۔ 

محمد علی جوہر 1878ء کو رام پور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ جب وہ صرف پانچ برس کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بھائیوں کا نام شوکت علی اور ذوالفقار تھا۔ یہ دونوں بھائی تحریک خلافت کے رہنما تھے۔ ان کی والدہ جنہیں بی اماں کہا جاتا تھا نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ سامراج سے آزادی کیلئے جدوجہد کریں۔ اس کے باوجود کہ مولانا محمد علی جوہر کے والد انتقال کر چکے تھے، انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر 1898ء میں لنکن کالج یونیورسٹی میں جدید تاریخ پڑھتے رہے۔ جب وہ واپس ہندوستان آئے تو انہوں نے ریاست رام پور کے ایجوکیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینا شروع کر دیں۔ بعد میں انہوں نے برودہ سول سروس میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ ایک ادیب اور مقرر کی حیثیت سے ابھرے اور پھر ایک دیدہ ور سیاسی رہنما کی حیثیت سے سامنے آئے۔ انہوں نے برطانوی اور ہندوستانی اخبارات میں لکھنا شروع کیا جن میں ’’دی ٹائمز لندن‘ دی مانچسٹر گارڈین اور آبزرور‘‘ شامل ہیں۔

انہوں نے کلکتہ میں انگریزی ہفت روزہ ’’کامریڈ‘‘ نکالا۔ یہ 1911ء کی بات ہے۔ کامریڈ نے جلد ہی مقبولیت حاصل کر لی۔ 1913ء میں وہ دہلی آئے اور ایک اردو روزنامہ ’’ہمدرد‘‘ کا آغاز کیا۔ ان کی اہلیہ بھی ان کا بھرپور ساتھ دیتی رہیں۔ مولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ یونیورسٹی کی توسیع کیلئے بہت محنت کی جو اس وقت محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 1920ء میں انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ابتدائی اجلاس میں شرکت کی جو دہلی میں منعقد ہوا۔ 1918ء میں وہ لیگ کے صدر بنے۔

وہ 1928ء تک مسلم لیگ میں سرگرم رہے۔ محمد علی جوہر نے انڈین نیشنل کانگرس‘ آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک خلافت کے معاملات کی نگرانی کی اور اس لحاظ سے انہیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہے۔ 1919ء میں انہوں نے مسلمانوں کے اس وفد کی نمائندگی کی جس کا مقصد برطانوی حکومت کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ وہ ترک قوم پرست مصطفی کمال پر زور ڈالے کہ وہ ترکی کے سلطان جو اسلام کے خلیفہ تھے کو خلافت سے محروم نہ کرے۔ برطانوی حکومت نے جب ان کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے خلافت کمیٹی بنائی جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ برطانوی حکومت کے خلاف احتجاج کریں اور اس کا بائیکاٹ کریں۔ 1921ء میں مولانا محمد علی جوہر نے ایک وسیع اتحاد بنایا جس میں مسلم قوم پرست مولانا شوکت علی‘ مولانا آزاد‘ حکیم اجمل خان‘ مختار احمد انصاری اور بھارتی قوم پرست رہنما مہاتما گاندھی شامل تھے جنہوں نے کانگرس کی حمایت حاصل کی اور اس کے علاوہ ہزاروں ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو گئے۔

یہ اتحاد برطانوی حکومت کے خلاف تھا۔ مولانا جوہر نے دل و جان سے تحریک مزاحمت کی حمایت کی جو گاندھی کے کہنے پر شروع کی گئی تھی۔ مولانا جوہر کو برطانوی حکومت نے گرفتار کر لیا اور انہیں دو سال کیلئے جیل بھیج دیا۔ انہیں خلافت کانفرنس میں ایک ’’باغیانہ‘‘ تقریر کرنے کی پاداش میں یہ سزا دی گئی۔ مولانا محمد علی جوہر تحریک خلافت کی ناکامی سے دلبرداشتہ ہو گئے اور پھر مہاتما گاندھی کی تحریک عدم تعاون کی معطلی پر بھی انہیں بہت قلق ہوا۔ تحریک خلافت کے خاتمے کا اعلان گاندھی نے کیا۔ دراصل اس کی خاتمے کی وجہ چوری چورا میں ہونے والے واقعہ تھا جو 4 فروری 1922 کو پیش آیا۔ 

اس دن احتجاج کرنے والوں کے ایک بڑے گروپ کا پولیس کے ساتھ تصادم ہو گیا۔ یہ گروپ گاندھی کی تحریک عدم تعاون میں حصہ لے رہا تھا۔ پولیس نے فائر کھول دیا اور اس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے۔ ردعمل کے طور پر مظاہرین نے پولیس سٹیشن کو آگ لگا دی اور 23 پولیس والوں کو ہلاک کر دیا۔ کانگرس نے اس واقعے کے بعد تحریک عدم تعاون کی معطلی کا اعلان کر دیا۔ مولانا محمد علی جوہر نے اپنا اخبار ’’ہمدرد‘‘ دوبارہ شروع کر دیا اور کانگرس چھوڑ دی۔ انہوں نے نہرو رپورٹ کی مخالفت کی۔ اس رپورٹ میں آئینی اصلاحات تجویزکی گئی تھیں اور ایک آزاد قوم کی نو آبادیاتی حیثیت کو تجویز کیا گیا جو برطانوی سلطنت کے زیر سایہ رہے۔ 

اس رپورٹ کو کانگرس کے ہندو اور مسلمان ارکان کی کمیٹی نے تحریر کیا تھا جس کی سربراہی موتی لال نہرو نے کی تھی۔ یہ سائمن کمیشن کے خلاف ایک بڑا احتجاج تھا جو ہندوستان میں اصلاحات تجویز کرنے آیا تھا۔ لیکن اس کمیشن میں کوئی مقامی ہندوستانی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ایسی کوشش کی گئی تھی جو ہندوستانیوں کی آواز اور خواہشات کو سن سکے۔ مولانا جوہر کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس لیے نہرورپورٹ پر آل پارٹیز کانفرنس کی نمائندگی شوکت علی، بیگم محمد علی جوہر اور مرکزی خلافت کمیٹی کے 30 دوسرے ارکان نے کی۔ مولانا محمد علی جوہر نے نہرو رپورٹ کے اس حصے کی مخالفت کی جس میں مسلمانوں کے علیحدہ ووٹ ڈالنے کے حق کو مسترد کیا گیا تھا۔ انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے چودہ نکات کی حمایت کی اور پھر مسلم لیگ کی بھی ڈٹ کر حمایت کی۔

انہوں نے گاندھی کی مخالفت کی اور اپنے مسلمان ساتھیوں مولانا آزاد‘ حکیم اجمل خان اور مختار احمد انصاری سے اختلاف کیا جنہوں نے گاندھی کی حمایت جاری رکھی۔ اس کے علاوہ یہ حضرات کانگرس کی بھی حمایت کرتے رہے۔ 1921ء میں مولانا محمد علی جوہر کو ڈھائی سال قید کی سزا سنائی اور انہیں کراچی سنٹرل جیل بھیج دیا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے حکومت مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے اور بھی قیدوبند کی سزائیں بھگتیں۔ جیل میں مسلسل رہنے سے ان کی صحت جواب دینے لگی۔ وہ بہت کمزور ہو گئے۔ وہ اپنی خراب صحت کے باوجود 1930ء میں لندن میں ہونے والی پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے آرزومند تھے۔

انہوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی جس کے چیئرمین سر آغا خان تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا جوہر نے برطانوی حکومت سے کہا تھا کہ وہ واپس ہندوستان نہیں جائیں گے جب تک ان کا ملک آزاد نہیں ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ غیر ملکی سرزمین پر مر جانا پسند کریں گے۔ اگر آپ ہمیں آزادی کی نعمت سے سرفراز نہیں کرتے تو پھر مجھے آپ کو یہاں ایک قبر دینا پڑے گی۔ مولانا محمد علی جوہر 4 جنوری 1931ء کو لندن میں انتقال کر گئے اور انہیں یروشلم میں دفن کر دیا گیا۔ ایسا ان کے رشتے داروں‘ دوستوں اور مداحین کے اصرار پر کیا گیا۔ ان کی وفات کے بعد ہندوستان میں کئی جگہوں کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا جن میں کئی ہال اورہوسٹل بھی شامل ہیں۔ 

جنوبی ممبئی میں ایک سڑک کا نام مولانا محمد علی روڈ ہے۔ مولانا محمد علی جوہر بڑے باکمال شاعر تھے۔ کربلا کے حوالے سے ان کا یہ شعر آج بھی زندہ ہے۔ 

قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

تحریک خلافت مولانا جوہر کی شناخت بن گئی تھی۔ اس حوالے سے ان کی والدہ کا کردار بھی یادگار تھا۔ جب بھی مولانا جوہر کا ذکر ہوتا ہے‘ تحریک خلافت کا تذکرہ لازمی طور پر ہوتا ہے اور اس حوالے سے یہ شعر لبوں سے ادا ہوتا ہے۔ 

بولیں اماں محمد علی کی

جان بیٹا خلافت پہ دے دو

 مولانا محمد علی جوہر جیسی شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ وہ ایک زبردست شخصیت کے مالک تھے اور تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

عبدالحفیظ ظفرؔ


 

کیا یہ اتحاد ’ایک ڈراما‘ ہے؟

$
0
0

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے رہنماؤں نے 'چھ ماہ کی مشاورت اور گذشتہ رات کے اجلاس کے بعد صوبہ سندھ میں ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچانے، عدم تشدد اور عدم تصادم کی پالیسی کو ہر حال میں کامیاب بنانے کے لیے سیاسی اتحاد کا اعلان کیا ہے۔ یہ اتحاد بھی بظاہر 'گذشتہ رات کی طویل مشاورت'کے بعد جلد بازی ہی میں قائم کیا گیا کیونکہ بتایا گیا ہے کہ اس اتحاد کے نام اور منشور کا فیصلہ بعد میں مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ یہ باکل ویسے ہی جیسے مصطفیٰ کمال نے اپنی جماعت بنانے کا اعلان تو کر دیا لیکن اس کا نام اور نشان کے بارے میں اعلان بعد میں کرنے کا کہا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے سندھ کی دیگر جماعتوں کو بھی اس اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی۔ تاہم انھوں نے ساتھ ہی یہ شعر پڑھ کر اس پیشکش کے بارے میں کہا کہ یہ محدود مدت کے لیے ہے.

مرا یہ دل تمہاری ہی محبت کے لیے ہے
مگر یہ پیش کش محدود مدت لیے ہے

اس اتحاد کے بارے میں میں تجزیہ کار توصیف احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کا جو ماڈل بنا ہے اس کو یہ کہا جا سکتا ہے کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی ہے۔ 'ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کا سیاسی اتحاد میں عسکری بالادستی ہے اور یہ عسکری سٹیبلشمنٹ ہی بنیادی فیصلے کر رہی ہے۔ یہ نیا ماڈل عسکری اسٹیبلشمنٹ کے غلبے میں چلنے والی جمہوریت کا ماڈل ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں جماعتوں کا اتحاد سندھ میں ہونے والے آئندہ انتخابات کے لیے ایک اہم موڑ ہے۔ 'ایم کیو ایم الطاف کے ساتھ لوگ تھے اور آئندہ انتخابات میں اس جماعت کا حصہ نہ لینے کے امکانات نہیں تھے۔ اس لیے جب ایک اتحاد سامنے آئے گا تو ممکن ہے کہ یہ اتحاد ووٹ بینک کو سلامت رکھ سکے گا۔'

فاروق ستار کی جانب سے دیگر جماعتوں کو اس اتحاد میں شامل ہونے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے یہ مہاجر سیاست کا ایک نیا دور ہو۔
'امکانات ہیں کہ سابق صدر پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ، ایم کیو ایم حقیقی اس اتحاد میں شامل ہوں جائیں اور شاید مہاجر سیاست کا ایک نیا دور آئے۔' تاہم ان کا کہنا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف اس ضمانت کے ساتھ واپس آئیں گے کہ ان کے خلاف مقدمات ختم کیے جائیں۔ انھوں نے جو غلطی پہلی کی تھی وہ اب نہیں کریں گے۔ توصیف احمد نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ اگر سندھ قوم پرست جماعتیں اس اتحاد میں شامل ہوتی ہیں تو یہ اتحاد ایک خوش آئند بات ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر اس اتحاد کے جواب میں اگر سندھی قوم پرست جماعتیں بھی اپنا اتحاد بنا لیتی ہیں تو پھر معاملہ خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ 'اگر سندھی قوم پرست جماعتوں کا ایسا اتحاد بن جاتا ہے تو معاملہ خرابی کی جانب جائے کیونکہ اس سے نئے تضادات ابھریں گے اور ایسا ہونے کے امکانات بھی ہیں کیونکہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اگلے انتخابات کے لیے سندھ کے لیے بھی اور پورے ملک کے لیے بھی نیا نقشہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔' تاہم سندھی قوم پرست جماعت جئے سندھ مہر کے سربراہ خالق جونیجو نے اس اتحاد کو ایک ڈراما قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جلد ہی لندن والے بھی اس اتحاد میں شامل ہو جائیں گے اور اس سیاسی اتحاد سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ 'مہاجر قومی موومنٹ سے جب متحدہ قومی موومنٹ کی گئی تو اس کے کریکٹر میں کوئی فرق نہیں آیا تھا اسی طرح اس نئے اتحاد کے کریکٹر میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔' جب ان سے پوچھا گیا کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے دیگر جماعتوں کو بھی اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے تو ان کا کہنا تھا 'ہماری جماعت کا موقف واضح ہے کہ جو گروپ یا جو جماعت سندھ کو توڑنے کی بات کرتا ہے اس سے کوئی اتحاد نہیں ہو سکتا۔ جو زبان الطاف بولتا ہے وہی زبان فاروق ستار بولتے ہیں۔'

سندھی اتحاد کے حوالے سے وہ بولے کہ جب ایم کیو ایم نے مہاجر نسل پرستی پر سیاست کی تو کچھ لوگوں نے سندھی نسل پرستی پر اس کا جواب دیا۔ لیکن ہماری جماعت نسل پرستی کی سیاست کے حق میں نہیں ہے اور سندھی اتحاد کے حق میں نہیں ہے۔ ہاں اگر سیاسی بنیادوں پر اتحاد کی بات ہوتی ہے تو اس پر ہم سوچیں گے۔' 'میں تو کہتا ہوں کہ جب سے ایم کیو ایم بنی ہے جتنے نعرے تبدیل کرے، نام تبدیل کرے، شکلیں بدل لے یا ٹوپیاں بدل لے ہم ان کا اصل مقصد سمجھ گئے ہیں۔ '

رضا ہمدانی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

بشکریہ بی بی سی اردو


تحریک پاکستان کے اہم رہنما، شاعر مشرق، علامہ اقبال

$
0
0

 نو نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال 20ویں صدی کی نابغہ روزگار شخصیات میں سے ایک تھے، وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، علامہ ڈاکٹر محمد اقبال محض ایک فلسفی شاعر ہی نہیں بلکہ انسان کے انسان کے ہاتھوں استحصال کے بھی خلاف تھے۔ وہ چاہتے تھے انسان بلا تمیز رنگ و نسل اور مذہب ایک دوسرے کے ساتھ اچھا رویہ روا رکھیں، باہمی احترام اور محبت سے وابستہ رہیں کہ یہی منشا رب کائنات ہے، پاکستانی کی نئی نسل بھی اقبال کی احترام آدمیت کی سوچ کو سراہتی ہے۔ علامہ ایک طرف امت مرحوم کا نوحہ کہتے ہیں تو دوسری طرف وہ مسلم نوجوان کو ستاروں پر کمند ڈالنے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں، اقبال قوم کو خانقاہوں سے نکل کر میدان عمل میں اترنے پر ابھارتے ہیں وہ اسلامی دنیا میں روحانی جمہوریت کا نظام رائج کرنے کے داعی تھے۔

علامہ اقبال کی شاعری نے برصغیر کے مسلمانوں کوغفلت سے بیدار کر کے نئی منزلوں کا پتہ دیا، ان کی شاعری روایتی انداز و بیاں سے یکسر مختلف تھی کیونکہ ان کا مقصد بالکل جدا اور یگانہ تھا، انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی جو تحریکِ آزادی میں بے انتہا کارگر ثابت ہوئی۔ علامہ اقبال کے شعری مجموعوں میں بانگ درا، ضرب کلیم، بال جبرئیل، اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ، پس چے چہ باید کرد اے اقوام شرق اور ارمغان حجاز کے نام شامل ہیں۔ علامہ اقبال نے تمام عمر مسلمانوں میں بیداری و احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں مگر ان کوششوں کی عملی تصویر دیکھنے سے پہلے ہی وہ 21 اپریل 1938 کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
 

نواز شریف کے سخت بیانات، کیا عدلیہ کے خلاف اعلانِ جنگ ہے؟

$
0
0

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے عدلیہ مخالف بیان نے پاکستان کے  سیاسی ماحول کو ایک بار پھر گرما دیا ہے اور کئی سیاست دان اسے عدلیہ کے خلاف کھلی جنگ قرار دے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے نیب عدالت میں حاضری کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جج بغض سے بھرے پڑے ہیں۔ بغض اور غصہ ان کے الفاظ میں آگیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سارا بغض، غصہ اور الفاظ تاریخ کا سیاہ باب بنیں گے۔ اس بیان سے پہلے مریم نواز شریف نے بھی اپنی ٹوئیٹ میں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے پر شدید تنقید کی تھی اور یہ الزام لگایا تھا کہ انصاف کی کرسی سے زہر اگلا جا رہا ہے۔

پاکستان کے ایک جج نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے کہ ان کے خلاف بدعنوانی کے تین مختلف مقدمات چلانے کے بجائے انہیں ایک کیس کے طور پر پرکھا جائے۔ پاکستان میں سیاست دانوں نے ان بیانات پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے نواز شریف پر الزام لگایا کہ وہ اداروں کو تباہ کر رہے ہیں اور اپنی کرپشن بے نقاب ہونے پر ججوں پر حملے کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نے صرف ان بیانات پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ پارٹی کی طرف سے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا، جس میں یہ کہا گیا کہ نواز شریف مقبول ترین رہنما ہیں اور یہ کہ ان کے خلاف تضحیک آمیز زبان استعمال کی گئی۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا، ’’شاعری کا سوال لے کر رہبری کا سوال اٹھایا گیا۔ رہبری والوں نے پاکستان بنایا اور قربانیاں دیں۔ وہی پھانسی پر چڑھے، ملک بدر ہوئے اور نا اہل ہوئے۔ نواز شریف کے خلاف جو کچھ کہا گیا وہ کسی بھی سطح کی عدالتی زبان پر پورا نہیں اترتا۔ بینچ نے ماتحت عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ بغض، عناد، غصہ اور اشتعال افسوسناک ہے۔‘‘ اس اعلامیے سے اب کئی حلقوں میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ تصادم صرف نواز شریف نہیں بلکہ ان کی پارٹی کے زیادہ تر افراد چاہتے ہیں۔

اس صورتِ حا ل پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور ماضی میں نواز شریف کے قریب سمجھے جانے والے نون لیگی رہنما سردار دوست محمد کھوسہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’مسئلہ یہ ہے میاں صاحب عدلیہ سے تصادم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے علاوہ وہ ایک اور ریاستی ادارے سے بھی تصادم چاہتے ہیں تاکہ وہ سیاسی شہید بن سکیں اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کریں لیکن اب لوگ ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ جو لوگ دو ہزارتیرہ میں ان کے پاس آئے تھے ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اس سے پہلے مشرف، پی پی پی اور دوسری جماعتوں میں کام کیا اور وہ اب میاں صاحب کے اردگرد نظر آرہے ہیں۔ بُرا وقت آنے پر وہ فوراﹰ بھاگ جائیں گے۔ جن لوگوں کی اپنی ذاتی سیاسی بنیادیں نہیں ہیں جیسے کہ خواجہ آصف یا خواجہ سعد رفیق یا ان ہی جیسے لوگ شاید میاں صاحب کے ساتھ رہ جائیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’جن لوگوں نے میاں صاحب کا برے وقت میں ساتھ دیا جیسا کہ غوث علی شاہ، میرے والد سردار ذوالفقار کھوسہ تو ان لوگوں کو میاں صاحب نے بھلا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج انہیں یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں یہ تصادم کی پالیسی اختیار کرتے ہیں تو ان کے ساتھ کوئی نہیں آئے گا۔‘‘ پی پی پی کے ترجمان اور سابق رکنِ قومی اسمبلی چوہدری منظور نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نون لیگ کی پالیسی یہ ہے کہ عدالتوں پر دباؤ ڈالا جائے۔ دوسرے مرحلے میں جمہوری نظام کو ڈی ریل کیا جائے اور پھر سیاسی شہید بن کر عوام میں ہیرو بننے کی کوشش کی جائے۔ اور پھر معاشی نظام کو مکمل طور پر تباہ کیا جائے.

تاکہ وہ کہہ سکیں کہ ان کے جانے سے معاشی نظام تباہی کا شکار ہو گیا۔ ان کا تو بس نہیں چلتا ورنہ یہ لوگ عدالتوں پر حملے کریں جیسا کہ انہوں نے ماضی میں کیا۔ انہوں نے صرف آج ہی عدلیہ کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا بلکہ یہ جنگ تو پہلے سے ہی چل رہی ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پی پی پی کی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل ہو گئی ہے: ’’ہماری ڈیل اس ملک کی عوام سے ہے۔ ہم نے اس ملک میں جمہوریت کے لیے جیلیں کاٹیں ہیں، کوڑے کھائے ہیں اور بہت ساری مشکلات جھیلیں۔ اب اگر جمہوریت کو کوئی خطرہ ہوا تو ہم پھر جدوجہد کریں گے لیکن نون لیگ سے ہاتھ نہیں ملائیں گے۔‘‘

بشکریہ DW اردو

 

پاکستان میں 20 ملین بچے اسکول نہیں جاتے

$
0
0

دولاکھ بیس ہزار اسکولوں کے باوجود پاکستان میں 20 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق سن 2010 سے ہر سال حکومت تعلیم کے بجٹ میں سالانہ 15 فیصد اضافہ کر رہی ہے لیکن اب بھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان اپنے موجودہ بجٹ میں تعلیم پر 2.6 فیصد خرچ کر رہا ہے جو کہ لگ بھگ 8 ارب ڈالر کی رقم بنتی ہے۔

پاکستان کے بہت سے غریب بچوں کے لیے مدارس روایتی تعلیمی نظام کا ایک متبادل ہیں۔

پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ ملک میں تعلیمی مسائل پیسے کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اچھے اساتذہ کی کمی کی وجہ سے ہے۔

تعلیم کے وفاقی ڈائریکٹر طارق مسعود کا کہنا ہے کہ اساتذہ پر الزام عائد کرنا درست نہیں ہے۔ ان کی نظر میں بڑھتی آبادی اور سرمایے کی کمی سرکاری اسکولوں کے لیے سب سے بڑے چیلنج ہیں۔ انہوں نے روئٹرز کو بتایا،’’ کوئی بھی فرد سرکاری نظام کا حصہ بن ہی نہیں سکتا اگر وہ تعلیم یافتہ اور قابل نہ ہو۔ لیکن پرائیویٹ سیکٹر میں اس حوالے سے زیادہ سختی نہیں ہے۔‘‘


بشکریہ DW اردو


مہاجرت : جب کوئی راستہ ہی نہ بچے، پھر؟

$
0
0

چار ماہ کا فارس علی ترکی کے ایک خیمے میں ٹھٹھر کر مرا، چار سالہ ساجدہ علی سمندر میں ڈوب کر جبکہ سیموئل اور اس کی ماں اسپین پہنچنے کی کوشش میں۔ یہ بچے ان ہزارہا مہاجرین میں شامل تھے، جو مہاجرت کے خوفناک سفر کی نذر ہو گئے۔ جرمن اخبار ’ٹاگس اشپیگل‘ نے 33 ہزار دو سو ترانوے ایسے مہاجرین کی ایک فہرست جاری کی ہے، جو یورپ پہنچنے کی کوشش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس جرمن اخبار نے لکھا ہے کہ اس فہرست کے اجراء کا مقصد مہاجرین کی ابتر صورتحال کو اجاگر کرنا ہے کیونکہ اس صورتحال کی وجہ یورپی ممالک کی سخت پالیساں ہی بنی ہیں۔

حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد غربت، جنگ و جدل، مسلح تنازعات اور شورش سے جان بچا کر یورپ پہنچ چکے ہیں یا اس کوشش میں ہیں۔ کچھ یورپی ممالک نے مہاجرین کے اس سیلاب کو روکنے کی خاطر اپنی قومی سرحدوں پر رکاوٹیں بھی نصب کر دی ہیں۔ اس صورتحال میں ایسے مہاجرین بھی مارے گئے، جو یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ چار ماہ کے شیر خوار فارس علی کا تعلق شام سے تھا۔ وہ ترکی کے ایک کیمپ میں سردی کی وجہ سے انتقال کر گیا۔ اسی طرح پانچ سالہ افغان بچی ساجدہ علی سمندر کی لہروں کی نذر ہو گئی۔ کانگو سے تعلق رکھنے والا سیموئل اور اس کی ماں اپنے ملک میں جاری شورش سے جان بچانا چاہتے تھے۔ اس کوشش میں اس خاتون نے ایک خستہ حال کشتی کے ذریعے اسپین پہنچنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی جان بچا سکی اور نہ ہی اپنے چھوٹے سے بچے کی۔

گزشتہ برس جنوری میں انتیس سالہ ہردی غفور اور چھتیس سالہ طلعت عبدالحمید یورپ پہنچ کر بھی اس وقت مارے گئے تھے، جب وہ شدید سردی اور برف باری میں دو دن کا پیدل سفر کر کے ترکی سے بلغاریہ پہنچے تھے۔ یہ دونوں عراقی شہری تھے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کی مدد سے مرتب کی گئی اس فہرست میں روزنامہ ’ٹاگس اشپیگل‘ نے لکھا ہے کہ کچھ مہاجرین یورپ میں واقع کیمپوں میں آتشزدگی سے ہلاک ہوئے یا پھر سڑکوں پر حادثات کے نتیجے میں بھی۔ اس فہرست میں خود کشی کے متعدد واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ زندگی سے تنگ اور ناامیدی کے شکار کچھ مہاجرین نے خود کو آگ لگا دی جبکہ کچھ نے گلے میں پھندا ڈال کر اپنی جان دے دی۔ اسی طرح کچھ مایوس مہاجرین نے اونچی عمارتوں سے کود کر خود کشی بھی کی۔ اس فہرست کے مطابق متعدد مہاجرین نسل پرستانہ یا دیگر حملوں کی نذر بھی ہو گئے۔

خطرناک سمندری راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بھی ہزاروں مہاجرین لقمہ اجل بنے، جنہیں اس فہرست میں ’نامعلوم افراد‘ قرار دیا گیا ہے۔ سمندر میں سب سے بڑا خونریز واقعہ جولائی سن دو ہزار سولہ میں رونما ہوا تھا، جب ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی دو کشتیوں کو پیش آنے والے ایک حادثے کے نتیجے میں ساڑھے پانچ سو افراد مارے گئے تھے۔ یہ کشتیاں لیبیا سے یورپ کی طرف سفر پر تھیں۔

بشکریہ DW اردو


طلبا تعلیم سے دور کیوں ہیں ؟

$
0
0

ایک اچھے نظام تعلیم کی بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف طالب علم کو خواندہ بناتا ہے بلکہ ماحول سے مطابقت پیدا کرنے اور معاشی سرگرمیوں سے عہدہ برآ ہونے کے قابل بھی بناتا ہے، اس کے علاوہ طالب علم کی کردار سازی کے ساتھ طالب علم کی نظریاتی، فکری اور تہذیبی تربیت بھی کی جاتی ہے تاکہ اس کی روشنی میں وہ اپنی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات اور مسائل کا تجزیہ کر کے اپنی صحیح رائے قائم کر سکے اور اس کی مدد سے مستقبل کے مسائل اور مشکلات کا سامنا کر کے ان سے عہدہ برآ بھی ہو سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا نظام تعلیم ان تمام خوبیوں کا حامل ہے یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نصاب تعلیم، ذریعہ تعلیم، طریقہ تعلیم اور صلاحیت جانچنے کا طریقہ یعنی نظام امتحانات الغرض پورا نظام تعلیم ہی ناقص ہے۔

ایک عام مشاہدہ ہے کہ جس معاشرے میں تعلیم کا ذریعہ وہ زبان ہو گی جسے فرد گھر کے اندر یا گھر کے باہر بولتا ہے اور اسے استعمال کرتا ہے اس معاشرے میں تعلیم اور معیار تعلیم دونوں بلند ہوں گے، اسی صورت میں علم رٹ کر نہیں بلکہ سمجھ کر طالب علم ذہن نشیں کرے گا۔ اس طرح طالب علم میں فہم زیادہ ہو گا یہی وہ روشنی ہے جو تعلیم سے حاصل ہوتی ہے۔ ہم نے ایک اجنبی زبان انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے نام پر اپنے طالب علم پر مسلط کر دیا ہے جو طالب علم کے ذہن میں اترنے اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا طالب علم تعلیم کے میدان میں نہ صرف تخلیقی صلاحیت سے محروم ہے بلکہ علم کا حصول اور اس کی جستجو کا جذبہ بھی ختم ہو گیا ہے، اس کی ساری صلاحیت اور قوت ایک اجنبی زبان کی گتھیاں سلجھانے پر صرف ہو رہی ہے۔

جہاں تک اردو ذریعہ تعلیم کا تعلق ہے ہم نے اصطلاحات کے نام پر اس ذریعہ تعلیم کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ آپ کسی سائنسی اور فنی کتاب جسے اردو زبان میں ڈھالا گیا ہو اس کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں یہ کتاب آپ کے ذہن میں اترنا تو بہت دور کی بات ہے آپ کے فہم سے ہی بالاتر ہو گی۔ اس طرح کی عملی کوشش نے طالبعلم کے لیے تعلیم کے عمل کو مشکل تر بنا دیا ہے۔ اب آئیے نصاب تعلیم کی طرف ہمارا نصاب تعلیم ہماری عملی اور پیشہ ورانہ زندگی سے ہم آہنگ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات محنت اور لگن سے پڑھنے والے طالبعلم بھی اپنی عملی زندگی میں ناکامی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایک طالب علم سیاست کے مضمون میں ایم اے کرنا چاہتا ہے، اسے بی اے کے مضامین میں علم سیاست کے ساتھ معاشرت، ایڈمنسٹریشن اور تعلقات عامہ جیسے مضامین جو علم سیاست کے مضمون سے ہم آہنگ ہیں اس کے نصاب کا حصہ ہونے چاہئیں، لیکن یہ طالب علم ’’علم کتب خانہ‘‘ کا مضمون جس کا علم سیاست کے مضمون سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے صرف اس وجہ سے پڑھنے پر مجبور ہے کہ اس کے کالج میں اس مضمون کے استاد ہی میسر ہیں۔

سوچیے ایسی صورت میں طالب علم اس مضمون سے دلچسپی کس طرح برقرار رکھ سکتا ہے یہ وہ عوامل ہیں جن کے باعث ہمارا طالبعلم تعلیم سے بیزار اور عدم دلچسپی کا شکار نظر آتا ہے۔ اس کے نزدیک تعلیم کا مقصد محض امتحان پاس کرنا اور ڈگری کے حصول کا ذریعہ بن گیا ہے نتیجے میں وہ پورا سال پڑھنے کے بجائے اپنا زیادہ تر وقت کلاس روم سے باہر غیر تعلیمی سرگرمیوں میں گزارتا ہے جیسے ہی امتحان کے انعقاد میں چند ہفتے رہ جاتے ہیں تو وہ امتحانی ٹوٹکے کی تیاری میں مصروف ہو جاتا ہے۔

یہ امتحانی ٹوٹکے کی صورت میں مختصر اور آسان انداز میں ماڈل ٹیسٹ پیپر، خلاصہ جات، گیس پیپر، حل شدہ پرچہ جات اس کے ہاتھوں میں آجاتے ہیں جب منتخب مواد مربوط انداز میں مرتب کیا ہوا اس کو حاصل ہو جاتا ہے تو نتیجے میں علمی جستجو کا جذبہ طالب علم میں ختم ہو جاتا ہے وہ اپنی کامیابی کا انحصار ان امتحانی ٹوٹکوں پر کرتا ہے۔ کیونکہ وہ طالب علم سارا سال تعلیم سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے نتیجے میں یہ امتحانی ٹوٹکے اسے سمجھنے اور یاد کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں تو وہ امتحانات کے آخری ایام میں رٹے کا سہارا لیتا ہے۔ اس میں بھی وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ صرف ان سوالات کے جوابات کو رٹے کی مدد سے حافظے میں محفوظ کیا جائے جو عموماً ہر سال دہرائے جاتے ہیں (عمومی طور پر ان کی تعداد دو درجن سے بھی کم ہوتی ہے) اس کوشش کے نتیجے میں وہ پانچ سے چھ سوالات کے جوابات لکھ کر امتحان میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔

جن مضامین میں رٹے سے کام نہیں لیا جا سکتا وہ طالب علم نقل کا سہارا تلاش کرتا ہے امتحان میں نقل دراصل علمی بددیانتی ہے اس کے منفی اثرات پورے نظام تعلیم پر مرتب ہوتے ہیں نقل کے رحجان سے لائق اور باصلاحیت طلبا کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کیونکہ نقل کے نتیجے میں نالائق اور تعلیم میں دلچسپی نہ رکھنے والے طلبا زیادہ نمبر لے جاتے ہیں ذہین اور پڑھنے والے طالب علم اس صورتحال کا منفی اثر لیتے ہیں اور وہ بھی محنت سے جی چرانے لگتے ہیں تعلیمی سرگرمیوں میں ان کا ذوق و شوق ختم ہو جاتا ہے اس سے ہمارا پورا تعلیمی نظام متاثر ہوتا ہے۔ یہ ہے طالب علم کا کردار۔ اب آئیے تعلیمی نظام میں اساتذہ کے کردارکا بھی جائزہ لیتے ہیں کیونکہ تعلیمی نظام میں استاد کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ 

بد قسمتی سے ہمارے بیشتر اساتذہ کرام بھی امتحانی نکتہ نظر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی تعلیمی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ طلبا کو اتنی ہی معلومات فراہم کی جائیں جتنی طالب علم کے لیے امتحان میں کامیابی کے لیے ضروری ہے اس بنیاد پر اساتذہ پورے نصاب کی تکمیل کے بجائے نصاب کے اہم حصوں پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ان کی توانائی اور قوت اپنی ترقیوں کے حصول اور دوسروں کی ٹانگ کھینچنے میں صرف ہو جاتی ہے۔ بعض اساتذہ تعلیمی میدان میں اپنے نجی تعلیمی ادارے یعنی ٹیوشن سینٹرز جنھیں روپیہ پیسہ بنانے کے تعلیمی کارخانوں کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہو گا اس کے قیام اور فروغ میں کوشاں اور فکرمند نظر آتے ہیں۔ اساتذہ کے اس عمل کی وجہ سے تعلیم کو جو کبھی ایک مشن اور نصب العین ہوتی تھی اب ایک تجارت بن کر رہ گئی ہے۔

بعض اساتذہ طلبا کو پڑھانے کی اہلیت اور صلاحیت دونوں سے محروم ہوتے ہیں وہ اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لیے طالب علموں کے ساتھ دوستیاں قائم کر کے ان کے مشاغل میں شریک ہوکر وقت کو گزارنے یا کسی حد تک کلاس میں نظم و ضبط قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ طلبا شعور کی اس منزل پر نہیں ہوتے کہ وہ اس بات کا ادراک کر سکیں کہ انھیں الو بنا کر دراصل اپنا الو سیدھا کر رہا ہے نتیجے میں طلبا کا تعلیمی نقصان ہوتا ہے اور استاد بھی اپنی حرمت اور احترام کھو دیتا ہے۔ اگر ہم اپنے نظام تعلیم کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے ان اسباب کو ختم کرنا ہو گا جس کی وجہ سے ہمارے نظام تعلیم میں خرابیوں نے جنم لیا ہے ایسی صورت میں ہی ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ ورنہ ہم اس جاری نظام کے تحت اچھی یادداشت رکھنے والے طوطے پیدا کرتے رہیں گے اور اس میں اضافے کی تعداد کو کوئی نہیں روک سکے گا اور ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

جبار قریشی
 


طبی معائنے کے حوالے سے پاکستان دوسرا بد ترین ملک

$
0
0

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں نہ صرف صحت کی سہولیات کا فقدان ہے، بلکہ وہ مریضوں کے معائنے کے حوالے سے بھی بدترین پوزیشن پر موجود ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ پاکستان میں ڈاکٹرز کی سخت قلت ہے، تاہم ایک حالیہ عالمی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان مریضوں کے طبی معائنے کے حوالے سے دوسرا بدترین ملک ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں 21 کروڑ سے زائد افراد کے لیے سال 2014 کے آخر تک رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد ایک لاکھ 75 ہزار 600 تھی۔ جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (جے پی ایم اے) کے مطابق پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے طلبہ کے داخلہ لینے کی شرح تو زیادہ ہوتی ہے، لیکن ان طلبہ سے ڈاکٹرز بننے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں کم ہوتی ہے۔

سائنس جرنل بی ایم جے میں شائع ایک مضمون کے مطابق مریضوں کے معائنے کے حوالے سے پاکستان دنیا کے 67 ممالک میں دوسرا بدترین ملک ہے۔ مریضوں کے معائنے کے حوالے سے دنیا کا سب سے بدتر ملک بنگلہ دیش ہے، جہاں ایک ڈاکٹر اوسطا ایک مریض کو محض 48 سیکنڈز تک ہی دیکھ پاتا ہے۔ ان 48 سیکنڈز میں ڈاکٹر نہ صرف مریض کی بیماری کا اندازہ لگاتا ہے، بلکہ اسے صحت مند ہونے کے لیے دوائیں تجویز کرنے سمیت اسے اب تک کی صورتحال سے بھی آگاہ کرتا ہے۔

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ مریضوں کے معائنے کے حوالے سے دوسرا بدترین ملک پاکستان ہے، جہاں ایک ڈاکٹر اوسطا ایک مریض کو ایک منٹ 13 سیکنڈز تک دیکھ پاتا ہے۔ یعنی پاکستانی ڈاکٹرز بنگلہ دیشی ڈاکٹرز کے مقابلے اپنے مریضوں کو 63 سیکنڈ اضافی وقت دیتے ہیں۔ اسی طرح 67 ممالک میں مریضوں کے معائنے کے حوالے سے بھارت تیسرا بدترین ملک ہے، جہاں ایک ڈاکٹر اوسطا ایک مریض کو 2 منٹ تک دیکھتا ہے۔ یہ حیران کن بات ہے کہ جنوب ایشیائی تعاون تنظیم (سارک) کے تینوں ممبر ممالک مریضوں کے معائنے کے حوالے سے بدترین ممالک میں شمار ہوئے ہیں۔

اگرچہ تینوں ممالک نے سارک کے ذریعے خطے میں صحت کی سہولیات عام کرنے سے متعلق کمیٹی بھی بنا رکھی ہے، تاہم خطے کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بی اے جے اوپن جرنل کی رپورٹ کے مطابق اس ڈیٹا کے لیے ماہرین نے 67 ممالک کے ڈاکٹروں کے ریکارڈ کا معائنہ کیا، یہ ریکارڈ 1953 سے 2016 تک کا تھا، اور سروے کے دوران 2 کروڑ 80 لاکھ دستاویزات کا جائزہ لیا گیا۔ سروے سے پتہ چلا کہ مریضوں کے معائنے کے لیے فرسٹ ورلڈ ممالک سرفہرست ہیں۔ سروے میں شامل 67 ممالک میں سب سے زیادہ سویڈن کے ڈاکٹر مریضوں کو زیادہ وقت دیتے ہیں، وہاں اوسطا ایک ڈاکٹر ایک مریض کو 22 منٹ تک دیکھتے ہیں۔

یورپی ملک ناروے میں بھی ڈاکٹرز مریضوں کو 20 منٹ سے زائد وقت تک دیکھتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکا بھی یورپی ممالک سے پیچھے ہے، وہاں کے ڈاکٹرز اوسطا ایک مریض کو 20 منٹ تک دیکھتے ہیں، جب کہ برطانیہ کی حالت تو امریکا سے بھی بدتر ہے، جہاں ایک مریض کو ڈاکٹر اوسطا 10 منٹ سے کچھ زیادہ وقت دے پاتا ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا اور برطانیہ میں ہر سال ڈاکٹرز کی جانب سے مریضوں کو زیادہ وقت دینے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکا میں ڈاکٹرز کی جانب سے معائنے کے وقت میں اوسطا سالانہ 12 سیکنڈز اور برطانیہ میں 4 سیکنڈز کا اضافہ ہو رہا ہے۔
 

پاکستان کے مجموعی قرض میں ایک کھرب روپے کا اضافہ

$
0
0

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اگست کے اواخر تک ملک کا مجموعی قرضہ تقریباً 21 کھرب 80 ارب روپے تک پہنچ گیا جو کہ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران کی شرح سے 11.23 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال 31 اگست کو پاکستان کا قرض ساڑھے 19 کھرب روپے تک تھا۔ مرکزی بینک کے ہفتہ کو سامنے آنے والے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت بدستور بینکوں سے قرضوں پر انحصار کر رہی ہے جب کہ ماہرین اس بڑھتے ہوئے قرضے کو اخراجات اور بجٹ خسارے میں اضافے، ٹیکسوں کی کم وصولی اور بڑی تعداد میں ٹیکس کا دائرہ محدود ہونے اور بیرونی سرمایہ کاری کے فقدان کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

پاکستان کو ایک دہائی سے زائد عرصے تک دہشت گردی کے علاوہ توانائی کے شدید بحران کا بھی سامنا رہا جس سے اس کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ لیکن موجودہ حکومت یہ دعویٰ کرتی آئی ہے کہ ماضی کی نسبت ملک کی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی ہے اور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے مستقبل میں مزید فروغ پائے گی۔ تاہم خاص طور پر وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف احتساب عدالت میں جاری کارروائیوں کے بعد سے حزب مخالف اور ماہرین اقتصادیات یہ کہتے آ رہے ہیں کہ ضروری ہے کہ ملک کی اقتصادیات کو کسی بڑے بحران سے بچانے کے لیے اسحٰق ڈار منصب سے علیحدہ ہو جائیں اور حکومت اس جانب سنجیدگی سے توجہ دے۔

حکومت کو سیاسی طور پر بھی مختلف چیلنجز کا سامنا ہے اور کاروباری طبقہ ملک میں جاری سیاسی کشمکش کو بھی معیشت کے لیے مضر قرار دیتا آ رہا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ عالمی بینک بھی اپنی ایک تازہ رپورٹ میں پاکستان کی معیشت کے بارے میں خبردار کر چکا ہے اور اس کے بقول پاکستان میں ترسیلات زر اور زرمبادلہ میں مسلسل کمی، مجموعی قرض، تجارتی اور بجٹ خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن وفاقی وزارت خزانہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چیلنجز کے باوجود ملک کی معیشت مستحکم ہے۔ حکومتی عہدیداران بھی یہ کہتے آ رہے ہیں کہ معیشت کی بحالی اور اس کا استحکام موجودہ حکومت کی ترجیح رہی ہے اور اس کی پالیسی کی وجہ سے ماضی کی نسبت صورتحال اتار چڑھاؤ کے باوجود بہتری کی طرف گامزن ہے۔

حکمران جماعت کے قانون ساز اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے رکن نے  وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے اس ضمن میں اصلاحات بھی کی ہیں۔ "2013-14 میں جب ہم آئے تھے تو ہمارا کل ریونیو کلیکشن 1955 ارب روپے تھا اور اس سال ہمارا ہدف 4000 ارب روپے ہے یعنی دگنے سے بھی زیادہ ہے۔ جب یہ سارے سی پیک کے منصوبے اور توانائی کے منصوبے مکمل ہوں گے تو اس سے صورتحال مزید بہتر ہو جائے گی۔" ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ صورتحال کی بہتری کے لیے ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے بھی ٹھوس اقدام کرنا ہوں گے۔
 

یورپ کا سفر کسے کیسے کھا گیا ؟ دلدوز داستانیں شائع

$
0
0

آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب سجائے غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے
والا مزید ایک پاکستانی راستے میں ہی ہلاک ہو گیا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران نوشہرہ ورکاں کے ایک ہی دیہات کا ہلاک ہونے والا یہ چھٹا نوجوان ہے۔
غیر قانونی طریقے سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں ہلاک ہونے والا پچیس سالہ مشتاق احمد ڈیڑھ ماہ پہلے اپنے گھر سے نکلا تھا۔ مشتاق کے والدین کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق ان کا بیٹا اس وقت ہلاک ہوا، جب وہ ایک گاڑی پر سوار ایران کی سرحد عبور کرنے کی کوشش میں تھا۔ بتایا گیا ہے کہ سرحد پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا اور وہ حادثے کا شکار ہو گئی۔
مشتاق احمد کی میت گزشتہ روز ان کے گاؤں متہ ورکاں لائی گئی۔ متہ ورکاں میں حالیہ چند ماہ کے دوران یورپ جانے کی خواہش میں ہلاک ہونے والا یہ چھٹا نوجوان ہے۔ چند ماہ پہلے اسی گاؤں کے پانچ نوجوان ترکی سے غیرقانونی طور پر یونان جاتے ہلاک ہو گئے تھے۔

ہلاک ہونے والے مشتاق احمد کے سات بہن بھائی ہیں جبکہ ان کے والد پہلے ہی وفات پا چکے ہیں۔ آخر اس گاؤں کے نوجوان کیوں غیر قانونی طریقے سے یورپ جانا چاہتے ہیں؟ اس حوالے سے نوشہرہ ورکاں کے مقامی صحافی میاں عمران بشیر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ آج سے پچیس تیس سال پہلے جو لوگ یورپ گئے، ان میں سے زیادہ تر یورپ کے اچھے معاشی حالات کی وجہ سے وہاں سیٹل ہو گئے تھے۔ اب ان لوگوں کی اور مقامی لوگوں کی مالی یا معاشی ترقی کی رفتار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج کے نوجوان اپنے اردگرد کے ایسے ہی لوگوں کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں اور ان جیسی پرآسائش زندگی کی تلاش میں یورپ جانا چاہتے ہیں۔ 

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے
غیر قانونی طریقے سے یورپ جانا انتہائی پرخطر ہے لیکن دیہاتوں کے نوجوان اس کے باوجود ایسا کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ آخر نوجوان اس طرح غیر قانونی طریقے سے ہی یورپ کیوں جا رہے ہیں؟ اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے عمران بشیر نے بتایا، ’’ہمارے ہاں خاندان بڑے اور ذرائع آمدن کم ہیں۔ یورپ جانے کا سب سے سستا طریقہ ’ڈنکی‘ ہی ہے، جس میں تین لاکھ روپے میں بندہ یونان تک پہنچ جاتا ہے۔ غربت، تعلیم میں کمی اور معاشی مسائل کی وجہ سے نوجوان قانونی طریقے سے یورپ جانا افورڈ نہیں کر سکتے اور وہ ’ڈنکی‘ کا طریقہ ہی اپناتے ہیں۔ بیس سے تیس سال کی عمر تک کے نوجوان فطری طور پر ناسمجھدار، ایڈونچر پسند اور ڈر یا خوف سے عاری مزاج کے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایجنٹوں کے دکھائے گئے مستقبل کے سہانے سپنے، ڈنکی کے دوران ایجنٹوں کی طرف سے آرام دہ اور مشکلات سے پاک سفر کی جھوٹی منظر نگاری، اس کے اہم اسباب ہیں۔‘‘

ایک ہی گاؤں میں چھ نوجوانوں کی ہلاکتوں کے باوجود اس گاؤں کے درجنوں نوجوان مستقبل میں بھی غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مقامی افراد ان تلخ تجربات سے کیوں کچھ سبق حاصل نہیں کر رہے اور سادہ لوح انسان کس طرح ایجنٹوں کی نرغے میں آ جاتے ہیں؟ عمران بشیر اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں، ’’نئے ایجنٹ ماضی میں نوجوانوں کی ہلاکتوں کو نا تجربہ کار ایجنٹوں کے کھاتے میں ڈال کر خود کو بڑا ایجنٹ ظاہر کرتے ہیں، نوجوانوں کو ہر قسم کی گارنٹی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور سادہ لوح دیہاتی ان پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں۔‘‘

گوجرانوالہ ڈویژن کے تقریبا ہر شہر اور تحصیل میں ایجنٹ اور ان کے سب ایجنٹ نوجوانوں کو غیر قانونی طریقے سے یورپ تک پہنچانے ( ڈنکی لگوانے) کا کاروبار کر رہے ہیں۔ نوشہر ورکاں کے مقامی صحافی الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کاروبار میں ایف آئی اے کے اہلکار بھی ملوث ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اتنی زیادہ قیمتی جانیں ضائع ہونے کے باوجود بھی اس پر قابو نہیں پایا جا سکا۔
عمران بشیر کا انکشاف کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نوشہرہ ورکاں ہی کے کئی دیہاتوں کے لوگوں نے ایران اور ترکی میں اپنے سیف ہاؤسز بنا رکھے ہیں اور اسی کام کے ذریعے وہ لاکھوں، کروڑوں روپے کما رہے ہیں، ’’سب ایجنٹ یہاں سے بندے تیار کر کے انہیں ایران تک پہنچاتے ہیں، اس کے بعد ایران میں بیٹھے انسانی اسمگلر ان نوجوانوں کو ترکی میں بیٹھے ایجنٹوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ سلسلہ یونان تک چلتا ہے۔ ہر انسانی اسمگلر اپنے حصے کی رقم وصول کرکے نوجوانوں کو اگلے ایجنٹ کے ہاتھوں فروخت کر دیتا ہے۔‘‘

بشکریہ DW اردو


 

ملک میں شوگر کا مرض نزلہ زکام سے بھی زیادہ پھیلنے لگا

$
0
0

ملک میں شوگر کا مرض نزلہ زکام سے بھی زیادہ پھیلنے لگا، ایک قومی سروے کے مطابق 2016-17 کے دوران ہرچوتھا پاکستانی اس خطرناک مرض کا شکار پایا گیا، خواتین کی تعداد مردوں سے بھی زیادہ اس مرض میں مبتلا پائی گئی۔  پاکستان میں شوگر کا مرض اس قدر تیزی سے پھیلنے لگا کہ محققین بھی ڈر کر رہ گئے، 2016-17 کے دوران کئے گئے سروے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 26 فیصد حصہ ذیابیطس کا شکار ہے۔ 

طبی ماہرین وراثتی طور پر، آلودہ ماحول، ناقص خوراک اور وزرش نہ کرنے کی عادت کو جہاں اس کی وجہ قرار دے رہے ہیں، وہاں پیدائش کے وقت بچے کا وزن، ماں کی ناقص غذا، وقت پر کھانا نہ کھانا، ڈبے کا دودھ، فکر معاش اور معاشرتی مسائل بھی شوگر کی وجوہات میں شامل ہیں۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ شوگر سے بچاؤ اتنا مشکل بھی نہیں، زیادہ وزن والے افراد صرف 7 فیصد وزن کم کر لیں تو اگلے 3 سال کے دوران 60 فیصد افراد شوگر سے بچ  سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 20 فیصد افراد ایسے ہیں جو شوگر کا شکار ہیں یا ہو سکتے ہیں مگرانہیں اس کا علم ہی نہیں، صاف ستھرے ماحول، اچھی خوراک اور ورزش کی عادت سے شوگر پر قابو جا سکتا ہے۔

 

ذیابیطس (شوگر) سے کیسے بچا جائے ؟

$
0
0

ذیابیطس کو اگر خاموش قاتل کہا جائے تو غلط نہ ہو گا یہ ایسا مرض ہے جس کے لیے احتیاتی تدابیراختیار نہ کی جائے یا اس کوکنڑول کرنے کے لیے دوا نہ لی جائے تو یہ مرض آپ کو دن بدن گھلاتا رہتا ہے۔ ذیابیطس کے اسباب اورعلاج سے آگاہی زندگی کے لئے ناگزیر ہے اورغفلت سے یہ جان لیوا بیماری مریض کو موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے۔

ذیابیطس کیا ہے؟
ذیابیطس ایک ایسا دائمی مرض ہے جس میں شوگر کی مقدارمطلوبہ حد سے بڑھ جاتی ہے اور ذیابطیس لبلبے میں پیدا ہونے والے ہارمون انسولین کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔

یہ کمی دو طرح کی ہو سکتی ہے:
ذیابیطس ٹائپ 1: لبلبے سے انسولین کی پیداوار کم یا ختم ہو جاتی ہے۔
ذیابیطس ٹائپ 2 : انسولین پیدا ہوتی رہتی ہے لیکن کسی وجہ سے اس کا اثر کم ہوجاتا ہے۔

ذیابیطس سے کیسے بچا جائے؟
غذائی پرہیز ہی ذیابیطس کا واحد علاج ہے۔ ماہرین صحت کہتے ہیں کہ اس لاعلاج مرض کے لاحق ہونے کا ایک اہم سبب بے احتیاطی ہے اگر کھانے میں توازن رکھا جائے اوراس میں پروٹین اور کاربوہائڈریٹس کی مناسب مقدار شامل ہو تو ذیابیطس سے بچاؤ ممکن ہے۔ سستی، کاہلی اور بے پرواہی سے بھرپور طرز زندگی بھی اس مرض کا سبب بنتے ہیں۔

اگرذیابیطس ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے؟
ذیابیطس ہونے کی صورت میں بلڈ شوگر لیول کا باقاعدہ کنٹرول رکھنا چاہیے۔ ٹائپ 1 ذیابیطس انسولین کے ساتھ ساتھ غذا کی تبدیلیوں اور مشق کے ساتھ منظم کیا جا سکتا ہے۔ ٹائپ 2 ذیابیطس بغیرانسولین کی ادویات، انسولین، وزن میں کمی، یا خوراک کی تبدیلیوں کے ساتھ منظم کیا جا سکتا ہے۔ مناسب غذا اور صحت مند لائف اسٹائل کسی بھی طرح کی ذیابیطس کا علاج ہے.

پاکستان میں اس بیماری میں مُبتلا افراد
پاکستان میں 70 لاکھ سے زائد افراد ذیابیطس یا شوگر کے مرض کا شکار ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہرسال اس مرض میں مبتلا 84000 پاکستانی موت کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے اوریہ تعداد سال در سال بڑھ رہی ہے، جس کو کنٹرول کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہی ہے کہ اپنی خوراک میں صحت مند غذا شامل کی جائے اور سُستی اورکاہلی سے بچنے کے لیے ایک ایکٹو لائف سٹائل اپنایا جائے۔
 

مولانا بھاشانی : سامراج مخالف اور کسانوں کے رہنما

$
0
0

مولانا عبدالحمید بھاشانی ایک مقبول مذہبی عالم اور سیاسی رہنما تھے۔ ان کا تعلق مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) سے تھا۔ وہ بے غرض تھے اور مظلوموں کے ہمدرد تھے۔ وہ ایک طویل عرصے تک برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔ مولانا بھاشانی 1880ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام شرافت علی خان تھا۔ 1907 اور 1909 کے درمیان انہوں نے مکتبہ دیوبند سے مذہبی تعلیم حاصل کی۔ محمودالحسن (شیخ الہند) اور دوسرے ترقی پسند مسلمان مفکروں سے وہ بڑے متاثر ہوئے اور انہی کی وجہ سے وہ برطانوی استعمار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ 1909 میں انہوں نے ایک پرائمری سکول میں پڑھانا شروع کیا۔ 1917 میں مولانا بھاشانی عملی سیاست میں آئے اور نیشنلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی جس کی قیادت چنرن دان داس کر رہے تھے۔ 1919ء میں وہ انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہو گئے۔ 1920ء میں وہ گرفتار کر لیے گئے اور انہیں سزا بھی دی گئی۔

رہا ہونے کے بعد انہوں نے تحریک خلافت میں حصہ لیا۔ 1921ء میں انہوں نے برطانوی استعمار کے خلاف تحریک عدم تعاون میں حصہ لیا۔ اس وقت بھی انہیں اپنے ساتھیوں سمیت پابند سلاسل کر دیا گیا۔ 1930ء میں وہ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ 1937ء میں وہ آسام کی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ 1946 تک کام کرتے رہے۔ اپریل 1944ء میں وہ مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور پھر انہوں نے اپنے آپ کو تحریک پاکستان کیلئے وقف کر دیا۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد مولانا بھاشانی نے اپنے پروگرام کو عملی شکل دینے کی منصوبہ بندی کر لی۔ 23 جون 1949ء کو انہوں نے مشرقی پاکستان عوامی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ بھاشانی کو اس کا صدر اور شمس الحق کو سیکرٹری منتخب کر لیا گیا۔ 24 جولائی 1949ء کو انہوں نے عوامی مسلم لیگ کا پہلا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کر لیا جس میں یار محمد خان نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔

اس طرح ڈھاکہ شہر میں پارٹی قائم ہو گئی۔ 31 جنوری 1952ء کو انہوں نے ’’آل پارٹی لینگوئج موومنٹ کمیٹی‘‘ بنائی۔ انہوں نے پاکستان میں بنگالی کو قومی زبان تسلیم کروانے کیلئے مہم شروع کی۔ 4 دسمبر 1953 کو انہوں نے قومی جمہوری محاذ (NDF) بنایا۔ انہوں نے عوامی مسلم لیگ کا نام بدل کر عوامی لیگ رکھ دیا۔ مئی 1954ء کو وہ سٹاک ہوم گئے۔ ان کے جانے کے بعد سکندر مرزا کی حکومت نے ان پر مشرقی پاکستان واپس آنے پر پابندی لگا دی اور انہیں کمیونسٹ قرار دیا۔ 1956ء کو مولانا بھاشانی نے قحط زدہ لوگوں کی خوراک کیلئے بھوک ہڑتال کی۔ 1957ء کو بھاشانی نے ’’آل پاکستان جمہوری کارکنان‘‘ کی کانفرنس منعقد کی۔ 25 جولائی کو انہوں نے مشرقی پاکستان قومی عوامی جماعت (NAP) بنانے کا اعلان کیا۔ وہ خود نیپ کے صدر بن گئے اور محمود الحق عثمانی اس کے سیکرٹری منتخب ہو گئے۔

مولانا بھاشانی کا ایک بڑا کام یہ تھا کہ انہوں نے اعظم خان کی بجائے محترمہ فاطمہ جناح کو 1965ء کے صدارتی انتخاب میں اپوزیشن کا متفقہ امیدوار بنانے کیلئے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ لیکن جب الیکشن کا وقت آیا تو بھاشانی نے سرگرم کردار ادا نہیں کیا۔ بظاہر یہ لگتا تھا کہ انہوں نے صدر ایوب کی چین نواز پالیسیوں کی وجہ سے ان کی حمایت کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بہرحال ان کے کیرئیر پر یہ ایک سوالیہ نشان تھا؟ انہوں نے 1968ء میں مشرقی پاکستان کے کاشتکاروں کیلئے کوآپریٹوز کو منظم کیا۔ اس سال انہیں ایوب حکومت نے گرفتار کر لیا۔ 1967 میں مولانا بھاشانی نے رابندر ناتھ ٹیگور پر حکومتی پابندی کے خلاف احتجاج کیا۔ 1969ء میں انہوں نے اگرتلہ سازش کیس واپس لینے کے لئے تحریک شروع کی۔

انہوں نے شیخ مجیب الرحمان اور دوسرے ملزموں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ یہیں سے ایوب خان کے زوال کا آغاز ہوا۔ بھاشانی نے 1970ء میں ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں عالمی کسان کانفرنس منظم کی۔ اس کانفرنس میں انہوں نے حکومت پاکستان سے کہا کہ ایک ریفرنڈم کرایا جائے جس میں لوگوں سے پوچھا جائے کہ کیا انہیں اسلامی سوشلزم چاہئے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر فوجی حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی تو گوریلا جنگ ہو سکتی ہے۔ 1952ء کی ’’زبان تحریک‘‘ کے دوران مسلم لیگ کی حکومت خاصی حد تک اپنی مقبولیت کھو چکی تھی۔ 1954ء میں جگتو فرنٹ نے مسلم لیگ کو انتخابات میں شکست دے دی اور اس کے رہنما نورالامین بھی ہار گئے۔

اس کے بعد مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ نے حکومت قائم کر لی۔ تاہم اس حکومت کو بعد میں برطرف کر دیا گیا۔ مولانا بھاشانی کا کیرئیر مختلف تنازعات کا شکار رہا اور ان سے اختلاف کرنے والے آج بھی موجود ہیں۔ بہرحال ان کی سیاسی جدوجہد سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے تنازعات کے باوجود اپنا تشخص برقرار رکھا۔ انہوں نے 17 نومبر 1976ء کو ڈھاکہ میں وفات پائی اور انہیں تان گیل میں دفن کر دیا گیا۔

عبدالحفیظ ظفرؔ


 

سی پیک کے خلاف سازش کیوں ؟

$
0
0

پاکستان کے خلاف بھارت کے معاندانہ عزائم اور عملی اقدامات اگرچہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، بالخصوص پورے خطے کیلئے ترقی و خوشحالی کا ضامن پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ مودی حکومت کیلئے جس قدر ناقابل برداشت بنا ہوا ہے، اس بارے میں مختلف مقامی اور بین الاقوامی ذرائع سے بہت کچھ سامنے آتا رہا ہے۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے ایک خطیر رقم کے بھارتی خفیہ ایجنسی را کو فراہم کیے جانے کی اطلاعات بھی منظر عام پر آچکی ہیں لیکن گزشتہ روز ہماری عسکری قیادت کے انتہائی ذمہ دارانہ منصب یعنی ملک کی تینوں افواج کے سربراہوں کی کمیٹی کے چیئرمین جنرل زبیر محمود حیات کی جانب سے پوری قطعیت کے ساتھ یہ بات دنیا کے سامنے لائی گئی کہ سی پیک کی تباہی کیلئے بھارت نے پچاس کروڑ ڈالر کی بھاری رقم مختص کر دی ہے اور اس کے خفیہ ادارے مسلسل پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کارروائیوں میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں خطے میں ایٹمی جنگ چھڑنے کا خطرہ حقیقت بن سکتا ہے۔

لہٰذا کم ازکم اب بین الاقوامی برادری اورعالمی طاقتوں کو اس خطرناک صورت حال پر آنکھیں بند کر کے بیٹھے نہیں رہنا چاہیے بلکہ جنوبی ایشیا بلکہ پورے کرہ ارض کے امن کو بچانے کی خاطر فوری طور پر حالات میں مثبت تبدیلی کیلئے اقدامات عمل میں لانے چاہئیں۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے وفاقی دارالحکومت میں اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ’’جنوبی ایشیا کی علاقائی جہتیں اور تزویراتی خدشات‘‘ کے موضوع پر منعقد کی گئی دو روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس حقیقت کی نشان دہی بھی کی کہ بھارت سے بہتر تعلقات کا راستہ کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل ہی سے جنوبی ایشیا میں دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے۔

کانفرنس میں شرکت کرنے والی متعدد غیر ملکی سفارتی شخصیات کے موجودگی میں جنرل حیات نے عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ مسئلہ کشمیر بدستور جوہری جنگ کے خطرات کا پیش خیمہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کا عشروں سے جاری ظلم و تشدد اور پاکستان کی جانب بھارت کا جنگی ہیجان صورت حال کو سنگین بنا رہا ہے۔ بھارت نے ہر بیس کشمیریوں پر ایک فوجی مسلط کر رکھا ہے ۔پاکستان کے ساتھ جنگ کی سی فضا قائم رکھنے کے اقدامات کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بھارت نے بارہ سو سے زیادہ مرتبہ فائر بندی کی خلاف ورزی کی، ایک ہزار پاکستانی شہری اور تین سو فوجی شہید کیے، تحریک طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرائی جا رہی ہیں اور افغان سرزمین بھی پاکستان کے خلاف تخریبی کارروائیوں کیلئے استعمال کی جا رہی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کو جن خطرات کا سامنا ہے ان میں بھارت کا کولڈ اسٹارٹ، پروایکٹو ڈاکٹرائن اور بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم خاص طور پر اہم ہیں۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے آج کے بھارت کو بجا طور پر سیکولر اسٹیٹ کے بجائے انتہا پسند ہندو ریاست قرار دیا اور کہا کہ اس کی پالیسیاں جنوبی ایشیا کو جنگ کے شعلوں میں جھونک سکتی ہیں، ان حالات میں پاکستان اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اور تمام تنازعات کے پر امن حل کا خواہاں ہے لیکن اپنے دفاع سے بھی غافل نہیں اور اسی بناء پر پاکستانی قوم کم ازکم اتنی جوہری صلاحیت برقرار رکھنے کیلئے پوری طرح پرعزم ہے جو اس کے دفاع کیلئے ضروری ہے۔

جنوبی ایشیا کی موجودہ سلگتی ہوئی صورت حال کا یہ بھرپور اور مبنی بر حقائق تجزیہ بلاشبہ دنیا میں امن کے خواہشمندوں کی فوری توجہ کا مستحق ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو بلا تاخیر بھارت کے جارحانہ اور امن دشمن عزائم کو لگام دینی چاہیے اورمودی سرکار کو پاکستان کے ساتھ تمام تنازعات کے منصفانہ حل کی خاطر نیک نیتی کے ساتھ جلد از جلد بامقصد مذاکرات کا راستہ اپنانے پر آمادہ کرنا چاہیے تاکہ علاقائی اور عالمی امن و استحکام کو ممکنہ ناقابل تلافی نقصانات سے محفوظ رکھا جا سکے۔

اداریہ روزنامہ جنگ


کیا سوشل میڈیا نوجوانوں کے درمیان خود کشی کی وجہ بن رہا ہے؟

$
0
0

امریکا میں سنجیدہ حلقے نوعمر (ٹین ایج) لڑکے اور لڑکیوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رحجان سے سخت پریشان ہیں اور ان کے خیال میں اس کی وجہ فیس بک اور سوشل میڈیا ہو سکتے ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ دو عشروں سے نوجوانوں میں خودکشی کا رحجان بتدریج کم ہو رہا تھا لیکن سال 2010 سے 2015 کے درمیان اس میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ماہرین اس کی وجہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں کوئی واضح جواب کسی کے پاس نہیں لیکن نفسیاتی و سماجی ماہرین کے مطابق انٹرنیٹ پر تنقید یعنی ’سائبر بلیئنگ‘ (cyber bullying) اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا پر نوعمر بچوں کی ذہنی تباہی کے تمام لوازمات موجود ہیں۔
امریکہ میں کئی نوجوان لڑکے لڑکیوں کی خودکشی کے بعد جب سوشل میڈیا کے استعمال اور اس کے اثرات پر ایک سروے کیا گیا تو کولوراڈو کی ایک 17 سال لڑکی نے بتایا کہ وہ انسٹا گرام کی تصاویر اور پوسٹس دیکھ دیکھ کر اکتا جاتی ہے۔ اس مہم کے تحت نوعمر بچوں کو آف لائن وقت گزارنے کو بھی کہا گیا تھا۔ اس مہم میں نوجوانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کم ازکم ایک ماہ تک آف لائن رہیں اور انٹرنیٹ سے دور رہیں۔ ایک اور 17 لڑکی کلو ای شلنگ نے کہا کہ سوشل میڈیا سے جس برے انداز میں لوگ گزر رہے ہیں وہ ان کے بارے میں کچھ پوسٹ نہیں کرتے۔ امریکہ میں سی ڈی سی کے مطابق امریکہ میں 13 سے 18 سال کی بڑی آبادی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ ایک سروے میں 13 سے 18 سال کے 5 لاکھ نوعمر لڑکے اور لڑکیوں کو شامل کیا گیا۔ ان سے دوستوں سے ملاقات اور سماجی تعلقات اور سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے ان کے موڈ کے بارے میں پوچھا گیا اور خودکشی کے خیالات کی چھان بین بھی کی گئی۔

پانچ لاکھ نوعمر بچوں کے سروے کے بعد اس مطالعے سے جو نکات سامنے آئے وہ کچھ اس طرح تھے کہ شرکا روزانہ اوسط پانچ گھنٹے اپنے اسمارٹ فون پر صرف کرتے ہیں اور یہ شرح 2009 میں 8 فیصد تھی جو 2015 میں بڑھ کر 19 فیصد تک جا پہنچی۔ اب جو بچے روزانہ ایک گھنٹہ صرف کرتے تھے ان کے مقابلے میں زیادہ یعنی پانچ گھنٹے اسمارٹ فون سے کھیلنے والوں میں خودکشی کے خیالات 70 فیصد زائد نوٹ کیے گئے۔ 2015 میں 36 فیصد شرکا نے کہا کہ وہ خود کو اداس اور بے بس محسوس کرتے ہیں جبکہ 2009 میں یہ شرح 32 فیصد تھی۔ لڑکیوں میں یہ شرح 2015 تک 45 فیصد تک نوٹ کی گئی۔ جو لوگ بار بار سوشل میڈیا پر جاتے تھے، وہ بقیہ لوگوں کے مقابلے میں 14 فیصد زیادہ ڈپریشن کے شکار تھے۔ اس کی وجہ سوشل میڈیا پر وہ پوسٹس ہیں جنہیں دیکھ کر کوئی الجھن تو کوئی احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔

اس سروے کی سربراہ ڈاکٹر جین ٹوینگے سان ڈیاگو یونیورسٹی میں نفسیات کی پروفیسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ والدین اپنے نوعمر بچوں پر نظر رکھیں اور ان کےلیے اسمارٹ فون استعمال کرنے کے وقت کی حد مقرر کریں۔ تاہم نوجوانوں کے ایک معالج ڈاکٹر وکٹر اسٹراسبرگر کہتے ہیں کہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ وکٹر کے مطابق کچھ لوگ سوشل میڈیا کو اس کا ذمہ دار نہیں سمجھتے اور مثال دیتے ہیں کہ جب امریکہ میں کامک بکس آئیں، جب ٹی وی کا راج شروع ہوا اور جب راک اینڈ رول کا رحجان بڑھا تو لوگوں نے کہا کہ اب دنیا خاتمے کے قریب ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تاہم سوشل میڈیا دو طرفہ تنقید کا ایک اہم ذریعہ ہے اور یہاں لوگ خفیہ رہتے ہوئے بھی دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ہمیں اسی منفی قوت کو سمجھنا ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس اردو
 

لیونارڈو ڈاونچی کی پانچ سو سال پرانی پینٹگ 45 ارب روپے سے زائد میں فروخت

$
0
0

دنیا کی سب سے نایاب تصویر’مونا لیزا‘ کے خالق لیونارڈو ڈاونچی کی ایک اور نایاب پینٹنگ کو ایک شخص نے 45 کروڑ امریکی ڈالرز میں خرید کر اسے دنیا کی سب سے مہنگی پینٹنگ کا درجہ دے دیا۔ نیو یارک کے آکشن ہاؤس میں فروخت ہونے والی لیونارڈو ڈاونچی کی کم سے کم 500 سال پرانی تصویر ’سلواتور مونڈی‘ کو نامعلوم شخص نے ٹیلی فون پر بولی کے آخری اوقات میں 45 کروڑ امریکی ڈالر (پاکستانی 45 ارب سے زائد) میں خرید لیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹس پریس (اے پی) کے مطابق 26 انچ اونچی نایاب پینٹنگ کی بولی 10 کروڑ ڈالر سے شروع ہوئی، جو 40 کروڑ ڈالر تک جا پہنچی۔ پینٹنگ کی بولی جب 30 کروڑ تک پہنچی تو آکشن ہاؤس میں تالیوں کی گونج سنائی دی، تاہم ’سلواتور مونڈی‘ کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔
نیلامی کے آخری 20 منٹ کے دوران پینٹنگ کی بولی 40 کروڑ ڈالر لگائی گئی، یوں آکشن ہاؤس کی فیس اور خریدار کی غیر موجودگی کی فیس سمیت ’سلواتور مونڈی‘ کی رقم ریکارڈ 45 کروڑ ڈالر تک جا پہنچی۔


یہ دنیا کی واحد پینٹنگ ہے جو اتنی بڑی رقم میں فروخت ہوئی، اس سے قبل ستمبر 2015 میں ڈچ امریکن مصور ولیم ڈی کوننگ کی ایک پینٹنگ 30 کروڑ ڈالر میں فروخت ہوئی تھی۔ مئی 2015 میں مصور پکاسو کی (ویمن آف الجزائر) بھی 17 کروڑ ڈالر سے زائد میں فروخت ہوئی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ لیونارڈو ڈاونچی کی یہ نایاب تصویر ان 20 پینٹنگز میں سے ایک ہے جو انہوں نے سن 1500 اور 1505 کے درمیان بنائی تھیں۔



کینسر کا علاج کیسے کیا جاتا ہے ؟

$
0
0

کینسر(سرطان) کا علاج کئی طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ کینسر کا علاج مرض کی قسم اور شدت کو دیکھ کر تجویز کیا جاتا ہے۔ کینسر کے بعض مریضوں کے لیے صرف ایک طرح کا علاج ہی ممکن ہوتا ہے لیکن زیادہ تر کا علاج دو یا اس سے زائد طریقوں کے امتزاج سے کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سرجری اور کیموتھراپی دونوں کی جاتی ہیں۔ اگر کسی کو بدقسمتی سے کینسر کا مرض لاحق ہو جائے تو علاج سے قبل اسے اس بارے میں بہت کچھ جان لینا چاہیے اور اچھی طرح سیکھ لینا چاہیے۔ مرض کی صور ت میں مریض ابہام کا شکار ہو سکتا ہے۔ تاہم ڈاکٹر سے بات کرنے اور علاج کی اقسام کے بارے میں جاننے سے اس ابہام کو دور کیا جا سکتا ہے۔ 

کینسر کے علاج کے طریقے مندرجہ ذیل ہیں۔ 

جراحی

اس طریقے میں کینسر کو جراحی کے ذریعے جسم سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔

تابکاری

تابکاری سے علاج جسے ریڈیو تھراپی بھی کہا جاتا ہے، میں کینسر کے خلیوں کو تلف کرنے یا کینسر کی گومڑی کو چھوٹا کرنے کے لیے تابکاری کی زیادہ مقدار کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا انتخاب کرنے سے قبل اس کے ذیلی اثرات کے بارے میں جان لینا چاہیے۔ 

کیموتھراپی

اس طریق علاج میں ایسی ادویات استعمال کی جاتی ہیں جو کینسر کے خلیوں کو مار دیتی ہیں۔ اس کے ذیلی اثرات بھی ہوتے ہیں، لہٰذا اس طریقے کو استعمال کرنے سے قبل ان کے بارے جان لینا چاہیے۔ 

ایمونو تھراپی

اس طریقے میں جسم کے اندرونی نظام دفاع کی مدد کی جاتی ہے تاکہ وہ کینسر کے خلاف لڑ سکے۔ 

ٹارگٹ تھراپی

اس میں کینسر کے خلیوں کے اندر ان تبدیلیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو کینسر کے خلیوں میں اضافے، ان کی تقسیم در تقسیم اور پھیلاؤ کا باعث ہوتی ہیں۔

ہارمون تھراپی

اس کے ذریعے سینے اور پوسٹیٹ کینسر کی نمو کو روکا جاتا ہے۔ 

سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ

یہ وہ عمل ہے جس میں خون بنانے والے سٹیم سیلز (خلیوں) کو بحال کیا جاتا ہے جو کیموتھراپی یا تابکاری سے تباہ ہو گئے ہوں۔ 

(مترجم: رضوان عطا) 

فیض آباد پر ناکہ نہیں ہانکہ لگا ہوا ہے : وسعت اللہ خان

$
0
0

تمہارا مسئلہ معلوم ہے کیا ہے؟ یہ کہ تم انتہائی خود غرض ہو صرف مطلب کی بات سمجھتے ہو۔ تمھیں کوئی مطلب نہیں کہ بندہِ خاکی کیا چاہتا ہے۔ قانونی، اخلاقی، انسانی دلائل دینے میں کیوں وقت ضائع کر رہے ہو۔ ڈنڈے کے روبرو دلیل کمزوری کی دلیل ہے۔ کیا چشمے پر کھڑے بھیڑیے اور بھیڑ کے بچے کی پانی گدلا کرنے والی کہانی بھی بچپن میں نہیں سنی؟ یہ تو کوئی نابینا بھی جانتا ہے کہ جس مسئلے پر فیض آباد کا دھرنا جاری ہے وہ مسئلہ تو پارلیمان کب کا سلٹا چکی۔ تب سے سرکارِ عباسیہ تین ہزار قسمیں بھی کھا چکی کہ کوئی بھی پاکستانی حکومت باہوش و حواس احمدیوں کی آئینی حیثیت کے بارے میں کسی بھی قانون میں ترمیم تو کجا اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔

ختمِ نبوت پر ایمان کی حلفیہ وڈیوز جاری کرنے کا فائدہ؟ دھرنا ختم کرانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی کاپی لہرانے سے کیا حاصل؟ تم اتنی سی بات سمجھنے کو کیوں تیار نہیں کہ ہم اب تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتے۔ بوریا بستر گول کرو۔ یہ فیض آباد پر ناکہ نہیں ہانکہ لگا ہوا ہے۔ ہانکہ سمجھتے ہو؟ کبھی شیر کا شکار کیا ؟ سنا بھی نہیں کہ بادشاہ کیسے شکار کرتا ہے؟ ہانکہ ڈھول ڈھمکے اور نعروں سے مسلح لوگوں کی جانب سے آہستہ آہستہ گھیرا تنگ کر کے شکار کو مطلوبہ مقام تک پہنچانے کو کہتے ہیں۔ جہاں سے ہاتھی یا مچان پر بیٹھا بادشاہ ایک تیر یا گولی سے شکار کا بھیجہ آسانی سے اڑا سکے۔
ہانکہ شکار کو تھکانے اور اوسان خطا کرنے کو کہتے ہیں۔ شکار جتنا سخت جان
ہانکہ بھی اتنا ہی طویل۔ ہانکے کے ڈھول مسلسل نہیں وقفے وقفے سے بجائے جاتے ہیں تاکہ شکار پہلے بے یقینی اور پھر خوف میں مبتلا ہو۔ یوں اعصاب جواب دیتے چلے جائیں اور پھر شور کا دائرہ سکڑتا سکڑتا سر پر آ جائے اور شکار بے سدھ ہو جائے۔ پھر شکاری کی مرضی زندہ پکڑتا ہے یا مردہ۔ تمہارا کیا خیال ہے فیض آباد کا دھرنا ختم کرنا مشکل ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ اگر ایک فون پر نواز شریف اپنا عدلیہ بحالی لانگ مارچ گوجرانوالہ میں روک سکتا ہے، اگر ایک میسج پر طاہر القادری اچانک اسلام آباد کے ڈی چوک سے بوریا بستر لپیٹ کر عمران خان کو ہکا بکا چھوڑ کر نکل سکتا ہے۔ اگر ایک کال پر عمران خان 126 دن سے جاری کامیاب دھرنا ختم کر سکتا ہے تو فیض آباد کا دھرنا کیا بیچتا ہے۔ مگر تم غلط نمبر سے ڈائل کر رہے ہو اور درست نمبر مسلسل انگیج ہے۔

ایک داغدار کرپٹ قیادت والی حکومت کو بہرطور جانا ہی چاہیے۔ اس پر پارلیمانی و غیر پارلیمانی سطح پر اتفاقِ رائے ہے۔ مگر کیسے پتہ چلا کہ مسلم لیگی حکومت داغ دار اور کرپٹ ہے؟ ظاہر ہے پاناما لیکس سے۔ ایک منٹ ! جب لیگی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے صرف دو ماہ بعد ہی چار حلقوں میں دھاندلی کا پتہ چلانے کے لیے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے مطالبے کے بہانے ہانکے کا پہلا ڈھول بجا اور ایک برس بعد اگست 2014 میں گو نواز گو کا ڈھول مسلسل پیٹنے سے ہانکے کا باضابطہ آغاز ہوا تب تو پاناما کہیں نہیں تھا۔ اے شریفو خدا کے لیے یہ مت کہنا کہ تم ہانکے کا مطلب نہیں سمجھتے۔ پہلا ہانکہ پی این اے سے بھٹو کو گھیرنے کے لیے کروایا گیا تو اس وقت تم اصغر خان کی تحریکِ اسلتقلال میں تھے۔ پھر تم سے آئی جے آئی کے ہانکہ بردار جمع کروائے گئے۔

پھر تم آپ اپنے استاد ہو گئے اور سجاد علی شاہ اور فاروق لغاری کا شکار کرنے کے بعد خود کو جم کاربٹ سمجھنے لگے اور اس دھوکے میں ایک ایسے شکار پر چھلانگ لگا دی جو جھکائی دے کر نکل گیا اور پلٹ کر تمہاری گردن دبوچ لی۔ تب کہیں جا کر تمہیں احساس ہونے لگا کہ ہانکہ کرنا اور اس کا حصہ بننا کتنا خطرناک ہے۔ مگر تب سے ہانکہ برداروں کی ایک نئی کھیپ تیار ہو چکی ہے۔
ویسے بھی ہانکے میں استعمال ہونے والوں کو اکثر کھانا اور شاباش ہی ملتی ہے۔ کبھی کسی نے سنا کہ شکار میں سے بھی حصہ ملا ؟ اب بھی جو شکار ہو گا اس کے بھی شکاری تین برابر کے حصے کرے گا۔ یہ میرا، دوسرا میرے ساتھیوں کا، تیسرا تم سب کا، ہمت ہے تو اٹھا لو۔

وسعت اللہ خان
تجزیہ کار
 

امریکی دفتر خارجہ کے حکام کی وزیر خارجہ ٹلرسن کی خلاف ’بغاوت‘

$
0
0

امریکی دفتر خارجہ کے قریب ایک درجن حکام نے وزیر خارجہ ٹلرسن پر غیر ملکی فوجوں اور ملیشیا گروپوں کی طرف سے نابالغ فوجیوں کے استعمال سے متعلق ایک امریکی قانون کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے ان کے خلاف ’بغاوت‘ کر دی ہے۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی خصوصی رپورٹوں کے مطابق ان قریب ایک درجن امریکی حکومتی اہلکاروں نے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے امریکا ہی کے ایک وفاقی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ قانون اس امر کا احاطہ کرتا ہے کہ بیرونی ممالک میں کسی بھی ریاست کی فوج یا ملیشیا گروپ اپنی صفوں میں نابالغ بچوں کو فوجیوں یا جنگجوؤں کے طور پر بھرتی نہ کریں۔

روئٹرز کے مطابق یہ اقدام، جسے وزیر خارجہ ٹلرسن کے خلاف ’بغاوت‘ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک ایسے اندرونی لیکن خفیہ دستاویز کی صورت میں سامنے آیا، جس کی ایک کاپی خود روئٹرز کے نامہ نگاروں نے بھی دیکھی۔ یہ میمو 28 جولائی کو لکھا گیا تھا۔ اس ’میمو‘ کے مطابق، جس کی موجودگی کا آج تک کسی کو علم نہیں تھا، امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن اس وقت امریکا ہی کے ایک وفاقی قانون Child Soldiers Prevention Act کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ عراق، میانمار اور افغانستان کو ان ممالک کی امریکی فہرست میں شامل نہ کیا جائے، جہاں جنگی مقاصد کے لیے نابالغ بچوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔
اس خفیہ میمو کے مطابق ٹلرسن نے یہ فیصلہ اس حقیقت کے باوجود کیا کہ خود انہی کی قیادت میں کام کرنے والا امریکی محکمہ خارجہ ملکی وزیر خارجہ کے اس اقدام سے قبل کھلم کھلا یہ اعتراف کر چکا تھا کہ ان تینوں ممالک میں نابالغ بچے فوجیوں کے طور پر بھرتی کیے جاتے ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ فہرست ہر سال تیار کی جاتی ہے اور اس میں عراق، میانمار اور افغانستان کے نام شامل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ یوں واشنگٹن حکومت کے لیے ان تینوں ریاستوں کو فوجی مدد فراہم کرنا آسان ہو گیا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ عراق اور افغانستان تو امریکا کے دو بہت قریبی اتحادی ممالک بھی ہیں، جہاں ملکی حکومتیں عسکریت پسند مسلمانوں کے خلاف طویل عرصے سے جنگی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

اس کے برعکس میانمار ابھی امریکا کا عراق اور افغانستان جیسا اتحادی ملک تو نہیں لیکن وہ واشنگٹن کا مسلسل ابھر کر سامنے آنے والا ایک اہم اتحادی ملک ضرور بنتا جا رہا ہے۔ میانمار کے ساتھ امریکا کی اس قربت کی وجہ واشنگٹن حکومت کی یہ خواہش ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا میں خطے کی ایک بڑی طاقت چین کے اثر و رسوخ کا توڑ نکالا جائے۔ اس میمو کی روشنی میں یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ ریکس ٹلرسن نے بطور وزیر خارجہ اس حوالے سے عراق، افغانستان اور میانمار سے متعلق جو ’خلاف قانون‘ استثنائی فیصلہ کیا، وہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اپنے قانونی ماہرین، اسی محکمے کے انسانی حقوق کے دفتر، پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی سفیروں، اور ایشیا کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں امریکی سفارت خانوں کے نگران دفتر خارجہ کے اپنے علاقائی شعبوں کے سربراہان کی متفقہ سفارشات کے بالکل برعکس کیا۔ 

روئٹرز نے یہ بھی لکھا ہے کہ اتنے زیادہ اعلیٰ سرکاری اہلکاروں کی ٹلرسن پر اتنی غیر معمولی تنقید یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پیشہ ور سفارت کاروں اور وزیر خارجہ ٹلرسن کے مابین کشیدگی پائی جاتی ہے۔ ٹلرسن امریکی ملٹی نیشنل کمپنی ’ایکسون موبیل کارپوریشن‘ کے سابق سربراہ ہیں، جنہیں صدر ٹرمپ نے اپنی ’پہلے امریکا‘ کی پالیسی کے تحت غیر متوقع طور پر وزیر خارجہ بنا دیا تھا۔

بشکریہ DW اردو
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live