Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

کیا پاکستان امریکا کے ساتھ مزید تعاون کے لیے تیار ہے؟

$
0
0

ڈو مور پالیسی کے ساتھ اسلام آباد میں پہنچنے والے امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن نے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر اعلیٰ پاکستانی حکام سے ملاقات کی ہے۔ کیا پاکستان مزید تعاون کے لیے تیار ہو چکا ہے؟

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس ملاقات میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید مختار، وزیرِ خارجہ خواجہ آصف ، وزیرِ داخلہ احسن اقبال اور وزیرِ دفاع خرم دستگیر بھی موجود تھے۔ اس ملاقات میں پاک امریکہ تعلقات اور خطے کی صورتِ حال پر بات چیت کی گئی۔ پاکستان میں ریکس ٹلرسن کے دیے گئے اس بیان کو انتہائی نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے، جو انہوں نے کابل میں دیا تھا۔ اس بیان میں میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کے اس مطالبے کا اعادہ کریں گے، جس میں پاکستان سے کہا گیا تھا کہ وہ طالبان اور دوسرے انتہاپسند گروپوں کے خلاف اپنی سر زمین پر کارروائی کرے۔

پاکستان کی ایوان بالا کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے اس بیان پر سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے نا قابلِ قبول اور نا مناسب قرار دیا ہے۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ٹلرسن پاک امریکا تعلقات پر پاکستانی پارلیمنٹ کی قرارداد کا مطالعہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ٹلرسن نے کچھ مطالبات وزیرِ اعظم کو پیش کئے ہیں اور وزیر خارجہ کل ان مطالبات سے ایوان کو آگاہ کریں گے۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب پاکستانی اندورنی طور پر غیر یقینی سیاسی صورتِ حال کے شکار ہے اور بیرونی طور پر اسے واشنگٹن کی طرف سے کئی الزامات کا سامنا ہے۔ کچھ دنوں پہلے سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ امریکی یرغمالی خاتون، ان کے خاوند اور بچے پانچ برس تک پاکستان میں تھے جب کہ یرغمال خاتون نے ایک کینیڈین اخبار کو اپنے پہلے انٹرویو میں بتایا کہ ان کی یرغمالی کے آخری سال میں انہیں پاکستان میں رکھا گیا۔

اس صورتِ حال کی وجہ سے پاکستان میں خیال کیا جا رہا ہے کہ واشنگٹن اسلام آباد پر مزید دباو ڈالے گا۔ تاہم کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں واشنگٹن اب ماضی کی طرح اسلام آباد پر دباو نہیں ڈال سکتا ہے۔ نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد کے ادارہ برائے عالمی امن وسلامتی سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کے خیال میں پاکستان اس وقت کمزور پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس دورے کے حوالے سے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’امریکا پاکستان کے سامنے اپنے مطالبات رکھے گا اور ڈو مور کا بھی مطالبہ کرے گا لیکن پاکستان صرف وہی کرے گا جو اس کے قومی مفادات میں ہو گا۔ ماضی میں پاکستان صرف امریکی امداد پر انحصار کرتا تھا لیکن اب خطیر چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے یہ انحصار کافی حد تک کم ہو سکتا ہے یا کم از کم اب پاکستان کے پاس زیادہ راستے ہیں، تو وہ امریکا کے بے جا مطالبات کو خاطر میں نہیں لائے گا۔ امریکا پاکستان پر دباو برقرار رکھے گا کیونکہ وہ خطے میں بھارت کو خوش رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں اب بھارت فیکٹر بہت اہم ہو گیا ہے۔‘‘

لیکن لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں ساری چینی سرمایہ کاری کے باوجود پاکستان کا امریکا پر انحصار برقرار رہے گا۔ ٹلرسن کے دورے کے حوالے سے انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ملکی معاشی حالت کا جنازہ نکلا ہوا ہے۔ ہمارا کرنٹ خسارہ بڑھا ہوا ہے اور قوی امکان ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے، تو ہم امریکا کو کیسے ناراض کر سکتے ہیں؟ امریکا کا ان اداروں پر بہت اثر و رسوخ ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ ڈو مور والے امریکی مطالبے کو سنے اور امریکا سے تعاون بھی کرے کیونکہ جہاں تک انتہا پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بات ہے، یہ صرف امریکی مطالبہ نہیں ہے بلکہ چین بھی ایسا ہی چاہتا ہے۔

بشکریہ DW اردو


 


ڈو مور بمقابلہ نو مور

$
0
0

وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے کابل میں پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیا اور پھر وہ اسلام آباد پہنچ گئے۔ یہاں ان کی حکومتی لیڈروں سے ملاقاتیں ہوئیں اور فوجی حکام سے بھی مشاورت ہوئی۔ ان ملاقاتوں میں انہوں نے حقانی نیٹ و رک کے خلاف کاروائی پر زور دیا اور پاکستان سے کہا کہ وہ اپنی سرزمین پر ان دہشت گردوں کی سر کوبی کرے۔ پاک امریکہ تعلقات میں نیا فساد ڈو مور اور نو مور کے مشاعرے نے کھڑا کر دیا ہے۔ امریکہ ڈو مور کے تقاضے سے پیچھے ہٹتا نظرنہیں آتا اور پاکستان نو مور کی گردان کئے چلے جا رہا ہے حالانکہ ہم نے آپریشن رد الفساد شروع بھی کر رکھا ہے جو سال کے تین سو پینسٹھ دن جاری رہتا ہے اور کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب سیکورٹی فورسز اور دہشت گردوں کا آمنا سامنا نہ ہو۔ 

میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب ہم ہر لمحے آپریشن پہ آپریشن کئے چلے جا رہے ہیں تو ڈو مور اور کیا بلا ہے جس سے ہم انکاری ہیں۔ اگر تو مطلب یہ ہے کہ ہم حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے گریز کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں امریکہ کو قائل کرنا پڑے گا کہ اس نیٹ ورک کا پاکستان میں وجود نہیں۔ یہ بات انٹیلی جنس رپورٹوں کی مدد سے ثابت کی جا سکتی ہے اور امریکہ کو یہ بھی باور کروایا جا سکتا ہے کہ ایک تو اس کی اور اتحادی افواج اس قدر نااہل اور نالائق ہیں کہ وہ پورے افغانستان کوکنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکیں۔ پندرہ سال کی لڑائی بڑی طویل ہوتی ہے، پاکستان اور بھارت تو چند روز میں ہف جاتے ہیں اور سیکورٹی کونسل کو سیز فائر کروانا پڑتی ہے۔ 

اب امریکی اور نیٹو افواج اگر افغانستان کی سرزمین کو فتح کرنے میں ناکام رہی ہیں تو یہ سب کو نظر ا ٓ رہا ہے، پاکستان کے پاس بھی وہ تمام انٹیلیجنس ڈیٹا موجود ہے جو امریکیوں کے منہ پہ مارا جا سکتا ہے کہ حضرت! یہ رہا آپ کا کارنامہ! ملک ملک یلغار کا شوق لاحق ہے مگر لڑنا آتا نہیں، صرف بمباری کرنا جانتے ہو، کروز داغتے ہو، ڈرون مارتے ہو اور خلق خدا کا ناحق خون بہاتے ہو۔ آج آپ کا مطالبہ ہے کہ افغانیوں کو پاکستان کی سرزمین پر ماریں، کل آپ کہیں گے کہ انہیں کابل اور قندھار جا کر مارو۔ یہ لڑائی آپ سے لڑی نہیں جاتی تھی تواس میں کودے کیوں تھے ساتھ میں ہمیں بھی دہشت گردوں سے بھڑوا دیا۔

آج مشرف ملک میں نہیں ہے ورنہ وہ امریکیوں کو جواب دیتا اور پاکستانیوں کو بھی بتاتا کہ وہ ا س جنگ میں کیوں کودا تھا۔ امریکی جنگ میں کودنے سے پہلے اس نے کسی سے مشورہ تک نہیں کیا، آدھی رات کو ایک ٹیلی فون پر ڈھیر ہو گیا اور کہتا تھا کہ میں کمانڈو ہوں۔ وہ ضرور کمانڈو تھا مگر اس نے امریکیوں کے ٹیلی فون کے سامنے سرنڈر ہو کر کمانڈو پن کی ہر گز لاج نہ رکھی اور پھر زرداری حکومت آ گئی جس نے امریکہ کی خوشی اور خوشنودی کی خاطر یہ کہہ دیا کہ یہ جنگ تو ہماری اپنی ہے اس لئے کہا کہ اس میں ان کی لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہو گئی تھیں۔ جب آرمی پبلک اسکول کے نونہال شہید ہوئے تو فوج نے اسے قوم اور ملک کی جنگ بنا دیا، دشمن اپنے مذموم عزائم میں مسلسل کامیاب ہو رہا تھا، اس کے ایجنٹ ہمارا خون بہا رہے تھے اور ہم اس جنگ کو اپنے گلے ڈال رہے تھے، اب تو اس میں گوڈے گوڈے دھنس چکے ہیں ، ا س سے نکلنا مشکل ہو رہا ہے، بہت مارا ماری کر چکے۔

اپنے افسر، جوان اور عوام بھی شہید کروا چکے۔ یہ بھی کہہ چکے کہ ہم نے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے مگر امریکہ ہمارے دعوے کو نہیں مانتا۔ وہ درمیان میں کوئی پخ تلاش کر لیتا ہے، اب وہ حقانی نیٹ ورک کا رونا روتا ہے، کل کو داعش کے پیچھے لگا دے گا، یہ داعش شام میں امریکی افواج اور امریکی کانگرس کی منظور کردہ مالی اور فوجی مدد سے لڑ رہی ہے، شام میں امریکہ، نیٹو اور داعش کا دشمن مشترک ہے، کون جانے یہ حقانی نیٹ ورک کیا ہے، کہاں سے آیا ہے، کس نے نازل کیا ہے، کیا یہ سوویت روس کو شکست دینے کے لئے امریکہ نے استعمال نہیں کیا، یہ سب امریکہ کے لاڈلے تھے۔ اسامہ بن لادن سمیت تمام جہادی لیڈرز وائٹ ہائوس میں صدر بش کے ساتھ چائے پی چکے، تو یہ امریکہ کے دشمن کیسے ہو گئے، بس امریکہ جس کو چاہتا ہے ، دشمن قرار دے ڈالتا ہے اور جس کو چاہے اپنا لاڈلا بنا لیتا ہے۔ پاکستان امریکہ کے مطالبے مانتے مانتے تھک چکا، اس کی معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا، اس کی سڑکیں نیٹو سپلائی کے ٹرکوں نے ادھیڑ ٖڈالیں مگر امریکہ پھر بھی پاکستان سے خوش نہیں، ہم اپنے ساٹھ ہز ار افراد شہید کروا بیٹھے، اور امریکہ کیا چاہتا ہے، کوئی اس سے پوچھنے والا تو ہو۔ مگر کون پوچھے گا۔

افغانستان میں امریکہ اپنی مرضی سے ا ٓیا ہے، عراق میں بھی وہ اپنی مرضی سے گیا تھا۔ وہاں بھی اسے خاص کامیابی نہیں ہوئی، اگر عراق کی جنگ اس نے لڑی تو خود تھی اردن نے نہیں لڑی، سعودیہ نے نہیں لڑی۔ اسرائیل نے بھی نہیں لڑی۔ شام میں ویسے وہ ساری دنیا کو جھونکنے میں کامیاب ہو گیا ہے، روس بھی وہاں آ چکا ہے، سعودیہ بھی آ گیا اور ترکی نے بھی اسے اپنی درد سری بنا لیا ہے۔ شاید امریکہ چاہتا ہے کہ افغان جنگ بھی پاکستان ہی نہیں ، ساری دنیا اس کو جیت کر تحفے میں دے دے۔ امریکہ ضرور سپر پاور ہے ، مگر وہ اپنی دھونس تو پاکستان پر نہیں جما سکتا۔ پاکستان صرف اپنے علاقے میں انہی دہشت گردوں سے لڑ سکتا ہے اور لڑتا بھی رہا ہے جو اس سے لڑ رہے ہیں لیکن جو شخص اس کے لئے مسئلہ نہیں بنا اور نہ پاک سرزمین پر اس کا کوئی وجود ہے تو پاکستان کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس کو افغانستان میں جا کر محض اس لئے مارے کہ امریکہ کہتا ہے کہ وہ اس کے لئے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ کو اپنے مسئلے سے خود ہی نبٹنا چاہئے۔ خواہ مخواہ پاکستان کے لئے نت نئے مصائب کھڑے نہ کرے، پاکستان نے وار ا ٓن ٹیرر کو بہت بھگت لیا۔ اسی خطے میں ایران ہے، بھارت ہے، وسط ایشیا کے سارے ممالک ہیں، اگر امریکہ کا ان سے کوئی تقاضہ نہیں تو پاکستان سے کیوں ہے۔

اسد اللہ غالب
 

سعودی عرب کی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبے کا اعلان

$
0
0

سعودی عرب نے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبے کا اعلان کیا ہے جو اس کے مطابق دو براعظموں کو جوڑ کر خطے کے مستقبل کو بدل کر رکھ دے گا ۔  سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بحیرہ احمر کے ساحلی علاقے میں 500 ارب ڈالرز کی لاگت سے نئے شہر کی تعمیر کا اعلان کیا۔ اس منصوبے جسے نیوم کا نام دیا گیا، موجودہ حکومتی فریم ورک سے آزاد خود مختار حیثیت میں کام کرے گا اور اس کے لیے حکومت 500 ارب ڈالرز سے زائد سرمایہ خرچ کرے گی، جبکہ مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے خود مختار ویلتھ فنڈ بھی قائم کیا جائے گا۔

یہ سعودی عرب کے ویژن 2030 کا حصہ ہے اور سعودی ولی عہد کے مطابق اس منصوبے کے تحت بحیرہ احمر میں اتنا بڑا پل بھی تعمیر کیا جائے جو کہ اس نئے شہر کو مصر، اردن اور افریقہ کے باقی حصوں سے ملا دے گا اور اس طرح دنیا میں پہلی بار تین ممالک کا پہلا خصوصی زون قائم ہو گا۔ ریاض میں بین الاقوامی کانفرنس کے دوران سعودی ولی عہد نے اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی عرب اب شہروں کے نئے دور کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ان کے بقول اس نئے شہر میں توانائی کی ضروریات کلین انرجی سے پوری کی جائیں گی اور وہاں روایتی اقدار کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ یہ نیا شہر دبئی کی طرح فری زون ہو گا جہاں سرمایہ کاروں کو نہ صرف ٹیرف سے استثنیٰ ملے گا بلکہ اس کے اپنے قوانین و ضوابط ہوں گے اور یہ سعودی حکومت سے الگ ہو کر خود مختار کام کرئے گا۔ 

اس سے قبل سعودی عرب میں بحیرہ احمر کے ساحلی علاقوں کے سینکڑوں کلومیٹر کو دنیا کے بہترین سیاحتی مقام کی شکل میں ڈھالنے کے منصوبے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ یہ نیا منصوبہ سعودی حکام کی جانب سے لگ بھگ دو برسوں سے جاری اصلاحات کی مہم کا حصہ ہے تاکہ معیشت کو خام تیل کی آمدنی میں آنے والی کمی کے دھچکے سے باہر نکالا جا سکے۔ سعودی ولی عہد نے نے کچھ عرصے قبل کہا تھا کہ ماضی کی غلطیوں سے بچا جائے گا اور ویژن 2030 پر عملدرآمد کیا جائے گا چاہے خام تیل کی قیمتیں جتنی بھی گر جائیں۔ سعودی حکومت نے بجٹ خسارے میں کمی کے لیے حکومتی اخراجات میں بھی کٹوتی کی اور اگلے سال سے ویلیو ایڈڈ ٹیکسوں کو متعارف کرانے کا اعلان بھی کیا۔ یہ منصوبہ اتنا بڑا ہے کہ پاکستان اور چین کا سی پیک بہت چھوٹا لگتا ہے جس کی مجموعی لاگت پچاس سے ساٹھ ارب ڈالرز کے درمیان ہے۔

 

ایدھی لینڈ مافیا کی زد میں

$
0
0

گزشتہ برس آٹھ جولائی کو عبدالستار ایدھی کا انتقال ہوا تو بے مثال انسانی خدمات کے اعتراف میں ریاستِ پاکستان نے ان کی تجہیز و تکفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن کے لیے قومی پرچم سرنگوں ہوا۔ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ان کی نمازِ جنازہ میں صدرِ مملکت ممنون حسین، تینوں مسلح افواج کے سربراہوں، گورنر سندھ ، پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلی سمیت پوری ریاستی قیادت کی نمایندگی تھی۔ فوجی گاڑی میں تابوت رکھا گیا، انیس توپوں کی سلامی ہوئی اور پھر جلوسِ جنازہ ایدھی ولیج کی جانب روانہ ہوا۔ دو رویہ عوام نے انھیں آخری بار نم آنکھوں سے رخصت کیا۔

اس روز میڈیا کو کوئی کام نہ تھا۔ ہر چینل کوریج میں دوسرے سے بازی لے رہا تھا۔ بہرحال ایدھی صاحب کی تدفین کے بعد ان کی قبر کو ایک چاق و چوبند فوجی دستے نے سلامی دی۔ اس دن پورے پاکستان میں ہر شخص ٹی وی کیمروں کے سامنے ایدھی کے عظیم مشن کو آگے بڑھانے کے لیے دامے درمے قدمے ہر ممکن مدد کی قسمیں کھا رہا تھا۔ چنانچہ یہ فقیر اسی وقت کھٹک گیا کہ اب ایدھی فاؤنڈیشن کے بحرانی دن آنے والے ہیں۔ کیونکہ ریاست نے ایدھی صاحب کو ریاستی اعزازی تدفین دے کر اور باقی لوگوں نے اسکرین پر قسمیں وعدے کر کے واہ واہ سمیٹ کر اپنا اپنا مردہ پرست فرض پورا کر دیا ہے۔ اب جو بھگتنا ہے وہ بلقیس ایدھی اور فیصل کو بھگتنا ہے۔
میرے منہ میں خاک وہی ہونے لگا جس کا ڈر تھا۔ ایدھی صاحب کا کفن میلا ہونے سے پہلے پہلے ہی رمضان کا مہینہ آن پہنچا کہ جو سب سے بڑا خیراتی مہینہ ہوتا ہے اور لوگ اس ایک مہینے میں پورے سال کے برابر دان کرتے ہیں۔ مگر ایدھی صاحب کی آنکھیں مندنے کے ایک ماہ بعد آنے والے رمضان میں ایدھی فاؤنڈیشن کو گزشتہ برس سے بھی تیس فیصد کم عطیات ملے۔ ایدھی فاؤنڈیشن ریاستی مدد نہیں لیتی۔ انفرادی اعانت ہی قبول کرتی ہے۔ مگر امدادی قلت کے باوجود انسانی آپریشنز میں کوئی کمی نہیں آئی۔ شاہ نورانی اور پھر سیہون میں بم دھماکے میں بھاری جانی نقصان کے بعد امدادی کام اسی بھرپور طریقے سے ہوا جیسا کہ ایدھی کی روایت ہے۔ چند ماہ بعد فیصل نے بتایا کہ امدادی رقوم کی ترسیل رفتہ رفتہ معمول پر آ رہی ہے اور سمندر پار پاکستانی بھی اچھا خاصا کنٹری بیوٹ کر رہے ہیں۔

لیکن پچیس اکتوبر کو (تین روز پہلے) بلقیس ایدھی اور فیصل ایدھی نے گویا دل پر بم گرا دیا جب انھوں نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ اندرونِ سندھ ان کے مراکز پر لینڈ مافیا مشکوک کاغذات عدالت میں دکھا کر ایدھی سینٹرز پر قبضہ کر رہی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر سینٹرز نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کی مہربانی سے بڑی شاہراہوں پر قائم ہیں۔ کیونکہ ہائی ویز کے دونوں جانب دو دو سو گز چوڑی پٹی این ایچ اے کی ملکیت ہے۔ زیادہ تر جان لیوا حادثات بھی بڑی شاہراہوں پر ہوتے ہیں اور ان شاہراہوں کے ذریعے دیگر مقامات تک تیز رفتار امدادی رسائی بھی آسان ہے (ایدھی مراکز کے لیے این ایچ اے نے زمین زبانی نہیں بلکہ تحریری طور پر دی تھی)۔

اس سلسلے میں سب سے پہلی زمین ٹھٹھہ میں انیس سو پچاسی میں ملی اور یہ کراچی سے باہر ایدھی فاؤنڈیشن کے آپریشن کا نکتہِ آغاز تھا۔ مگر ایک ہزار گز پر مشتمل اس پلاٹ پر تین چار روز قبل مقامی پولیس نے مقامی عدالت کے حکم پر تالہ لگا دیا۔ ایدھی سینٹر کا وائرلیس اور دیگر آلات و ساز و سامان بھی سربمہر کر دیا گیا۔ تاہم ایمبولینسیں اب بھی متحرک ہیں مگر مرکز چھن جانے سے ان کا ہیڈ کوارٹر سے رابطہ صرف موبائل فون کے ذریعے ہے۔ بقول فیصل ایدھی ٹھٹھہ کی قبضہ مافیا نے عدالت میں انیس سو چورانوے کے شہری توسیع سروے کی آڑ میں بنائی گئی ملکیتی دستاویزات عدالت کو دکھا کر عبوری قبضہ حاصل کر لیا اور ہمارے پاس انیس سو پچاسی کے این ایچ اے کے جو ڈاکومینٹس ہیں انھیں مسترد کر دیا گیا۔

اسی طرح حیدرآباد میں لطیف آباد کے تین ہزار مربع گز پر قائم ایدھی مرکز سے عملے کو بے دخل کر کے وہاں دکانیں بنا دی گئیں۔ یہی کام ہالہ میں ایدھی سینٹر کی جگہ پر قبضہ کر کے مخدوم خاندان کی گدی کے روایتی سیاسی و روحانی اثر و رسوخ کے باوجود ہوا ہے۔ قاضی احمد اور مورو ضلع بینظیر آباد عرف نواب شاہ میں آتے ہیں اور قاضی احمد ایدھی سینٹر پر قبضہ کر کے دکانیں اٹھا دینے اور مورو ایدھی سینٹر پر مارکیٹ بنانے کا عمل آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا آبائی ضلع ہونے کے باوجود ہوا ہے۔ لاڑکانہ بھٹو خاندان اور موجودہ وزیرِ داخلہ سہیل انور سیال کا آبائی ضلع ہے۔ پھر بھی وہاں کا ایدھی سینٹر ہتھیا لیا گیا۔ سیہون موجودہ وزیرِ اعلی مراد علی شاہ کا آبائی شہر ہے۔ مگر وہ یہاں کے ایدھی سینٹر کو لینڈ مافیا سے نہ بچا پائے۔

اب تک وزیرِ اعلیٰ نے صرف ٹھٹھ سینٹر کے چھینے جانے کا نوٹس لیا ہے اور یہ مہربانی ضرور کی ہے کہ عدالت سے حتمی فیصلہ ہونے تک ایدھی مرکز کو متبادل جگہ کی فراہمی کا حکم دیا ہے۔ اگر تمام قبضہ شدہ سینٹرز بازیاب نہیں ہوتے تو خطرہ ہے کہ لینڈ مافیا اس سرکاری تساہل کو گرین سگنل سمجھ کے سندھ میں دیگر ایدھی سینٹرز بھی ہڑپ کر لے گی۔ بلوچستان اور سندھ کے سنگم پر واقعہ حب چوکی کے ایدھی مرکز کے ساتھ تو اور طرح کا ہاتھ ہو گیا۔ ایک گروپ نے اس سینٹر پر قبضہ کر کے اسے مدرسے میں تبدیل کر دیا۔ بلوچستان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اس مرکز کی بازیابی کے احکامات صادر کر چکی ہیں۔ مگر ایدھی فاؤنڈیشن کے ہاتھ میں آج بھی صرف عدالتی احکامات ہیں۔ مقامی انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ اگر مدرسے والوں سے یہ سینٹر بزور طاقت چھڑوایا گیا تو اس معاملے کو بہت آسانی سے مذہبی رنگ دے کر انتظامیہ اور ایدھی کو مرتد قرار دیا جا سکتا ہے۔

میں نے عبدالستار ایدھی کی بیوہ بلقیس صاحبہ کی آنکھوں میں ایدھی صاحب کے بچھڑنے پر جو آنسو نہیں دیکھے تھے وہ تین دن پہلے اس پریس کانفرنس میں دیکھ لیے جس میں وہ نہایت بے بسی سے اپنے بیٹے کی زبانی لینڈ مافیا، مقامی سیاست اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے بے لوث انسانی خدمت پر پڑنے والی ڈکیتی کی داستان میڈیا تک پہنچانے کی کوشش کر رہی تھیں (سنا ہے سندھ رینجرز نے بھی یقین دلایا ہے کہ ان مراکز کو چھڑوانے کے لیے جو بھی ممکن ہوا کیا جائے گا)۔ یہ کہانی اپنے تئیں المناکی، ناسپاسی اور بے حسی کے اجزا سے اتنی بھرپور ہے کہ اس پر ذاتی تبصرہ کرنا نہ بنتا ہے اور نہ ہی فی الحال ہمت ہے۔کس کس کو روئیں اور کیا کیا روئیں۔

وسعت اللہ خان 
 

فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ آپ کو نوکری سے برخاست کروا سکتی ہے

$
0
0

آج کل سوشل میڈیا پرایک نئی بحث چھڑی ہوئی جس کا موضوع ہے ’’شرمین عبید چنائے اور ان کی بہن کو ایک ڈاکٹر کی جانب سے بھیجا جانے والا دوستی کا پیغام‘‘۔ سوشل میڈیا صارفین اس بات کو لے کر پریشان ہیں کہ کیا کسی خاتون کو دوستی کا پیغام بھیجنا ہراسگی کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔

چند روز قبل آسکرایوارڈ یافتہ پاکستانی فلمساز شرمین عبید چنائے کی چند ٹوئٹس نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ مچا دیا تھا۔ ٹوئٹس میں شرمین نے کہا کہ گزشتہ رات ان کی بہن آغا خان اسپتال کی ایمرجنسی میں علاج کروانے کی غرض سے گئی جہاں ان کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے بعد میں انہیں فیس بک پر دوستی کا پیغام بھیجا۔ ایک اور ٹوئٹ میں شرمین نے کہا کہ انہیں سمجھ نہیں آتا کہ کیسے ایک ڈاکٹر علاج کی غرض سے آنے والے مریض کے متعلق معلومات جمع کرتا ہے اور انہیں دوستی کا پیغام بھیجتا ہے۔ تاہم ڈاکٹر یہ بات بھول گیا کہ اس نے ایک غلط خاتون اورغلط فیملی کے ساتھ یہ حرکت کی ہے، میں ڈاکٹر کے خلاف رپورٹ کروں گی، خواتین کو ہراساں کرنا بند ہونا چاہئے۔  

شرمین کی ان ٹوئٹس کے جواب میں اسپتال انتظامیہ نے ڈاکٹر کو نوکری سے فارغ کر دیا۔ تاہم معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوابلکہ ڈاکٹر کی فراغت کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پرایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا کہ کیا فیس بک پر دوستی کا پیغام بھیجنا ہراسگی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا صارفین نہایت دلچسپ اندازمیں تبصرے کر رہے ہیں۔ 

ایک صارف نے ٹوئٹر پر ہالی ووڈ کے بدنام فلمساز ہاروی وائن اسٹین کے ساتھ شرمین عبید کی تصویر شیئر کی اور لکھا کہ خواتین کو ہراساں کرنے والے ہاروی کے ساتھ بیٹھ کر مسکراتے ہوئے تصویر کھینچوانے میں شرمین کو کوئی مسئلہ نہیں لیکن بیچارا غریب ڈاکٹر ان کی بہن کو دوستی کا پیغام نہیں بھیج سکتا۔
اس موقع پر حمزہ علی عباسی کہاں چپ رہنے والے تھے انہوں نے شرمین عبید چنائے کی ٹوئٹس کے جواب میں کہا کہ جب میں مشہور نہیں تھا اس وقت بہت ساری خواتین جن کی مجھ سے ویسے ہی ملاقات ہوئی تھی مجھ سے فیس بک پر دوستی کرنا چاہتی تھیں لہٰذا ان کے خلاف بھی ہراسگی کا مقدمہ دائر کرنا چاہئے۔حمزہ علی عباسی نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ شرمین عبید لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں ڈاکٹر کو نوکری سے نکلوانے سے پہلے آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ جنسی ہراسگی کا مطلب کیا ہے۔

ایک اور صارف نے شرمین عبید کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 165.8 کے فالوورز کا مطلب ہے کہ 165.8 کے لوگ انہیں ہراساں کرتے ہیں۔

ایک اور صارف نے شرمین عبید اور ان کی بہن کو ڈراما کوئین قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب انہوں نے توجہ حاصل کرنے کے لیے کیا۔

ایک صارف نے پوچھا کہ میں نے غلطی سے ٹوئٹر پر شرمین کو کوئی پوسٹ ٹیگ کر دی تھی کیا اب مجھ پر ہراسگی کا مقدمہ چلے گا؟

عبداللہ نامی صارف نے شرمین عبید چنائے اور ہالی ووڈ اداکار کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ شرمین اس اداکار کے ساتھ کھڑی ہیں لیکن ایک  ڈاکٹران کی بہن کو دوستی کا پیغام نہیں بھیج سکتا کیونکہ ان کی بہن ہراسگی محسوس کرتی ہیں۔

ایک صارف نے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس ڈاکٹر نے شرمین عبید کی بہن کو دوستی کا پیغام بھیجا اسے فارغ کیا جا چکا ہے لہٰذا شرمین کی اس بدسلوکی، طاقت اور اثرو رسوخ پر کون ڈاکیومینٹری بنائے گا؟

ایک خاتون نے لکھا کہ شرمین عبید کی منطق کے مطابق ٹوئٹر پر میرے 35 کے فالوورز ہیں جس کا مطلب ہے 35000 لوگ مجھےٹوئٹر پر ہراساں کرتے ہیں۔

ایک صارف نے ڈاکٹر کی ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ جس ڈاکٹر نے دوستی کا پیغام بھیجا وہ اب بیروزگار ہے اب اس کے 4 بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا، انصاف کہاں ہے؟

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو

 

صحافیوں پر تشدد : ذمہ دار کون ؟

$
0
0

وطنِ عزیز میں صحافیوں پر تشدد اور ڈرانے دھمکانے کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ گزشتہ دس برسوں میں سو سے زائد صحافی قتل بھی کئے جا چکے ہیں۔ صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم پریس ایمبلم کیمپین کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان جو ایک سال پہلے صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملکوں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر تھا اب چوتھے نمبر پر آگیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران پاکستان میں پانچ صحافی قتل ہوئے جبکہ صحافیوں کو ڈرا دھمکا کر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے روکے جانے کے واقعات بھی بہت بڑی تعداد میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔

دو روز پہلے ’’دی نیوز‘‘ کے تحقیقاتی رپورٹر احمد نورانی پر نا معلوم افراد کی
طرف سے قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ آئی سی یو میں زیر علاج حملے میں شدید زخمی ہونے والے رپورٹر کو ہفتے کی شام ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے گلدستہ بھجوایا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے حملے کی شدید مذمت کی اور اِس واقعہ پر گہری تشویش کا اظہار بھی کیا۔ انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں احمد نورانی پر حملے کو بد امنی پھیلانے اور اداروں کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بھی مکمل یقین دہانی کروائی۔ پاک فوج کی طرف سے رپورٹر کو گلدستہ بھیجا جانا خوش آئند ہے۔

اِس حملے کے حوالے سے تاثر یہ پیدا ہو رہا تھا کہ کسی نہ کسی نے نامعلوم افراد کے ذریعے یہ کام کروایا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی مذمت کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ اس طرح فوج کو بدنام کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اِس کے بعد اِن عناصر کو بے نقاب کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے جو سچ کی آواز کو دبا کر اور آئے دن صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر فوج کے خلاف جذبات بھڑکانا چاہتے ہیں۔ حکومت کو بھی صحافیوں کے تحفظ کا بل جلد ا زجلد منظور کرنا چاہئے تاکہ صحافی خدشات سے بالاتر ہو کر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔

اداریہ روزنامہ جنگ

انٹر نیٹ پر توہین آمیز خاکے شائع کرنے پر عمر قید کی سزا

$
0
0

پاکستان کی ایک عدالت نے انٹرنیٹ پر توہین آمیز خاکے شائع کرنے کے جرم میں ایک شخص کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ پنجاب کے جنوبی ضلع رحیم یار خان میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے وقاص بھٹی نامی شخص پر جرم ثابت ہونے پر یہ فیصلہ سنایا۔ بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ سال جولائی میں اس شخص کے خلاف سوشل میڈیا پر توہین آمیز خاکے شائع کرنے کا الزام سامنے آیا تھا۔ پولیس نے اسے ضلعی انتظامیہ کے حکم پر تین ماہ تک نظر بند رکھا اور معاملے کی حساسیت کے پیش نظر مقدمے کی ابتدائی سماعتیں ڈسٹرکٹ جیل میں کی جاتی رہیں۔ اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جج نے مجرم پر عمر قید کی سزا کے علاوہ ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔

پاکستان میں انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر توہین مذہب پر مبنی مواد کی اشاعت کے واقعات گزشتہ ایک سال کے دوران بڑی تعداد میں دیکھنے میں آئے ہیں جن کے خلاف حکام نے کارروائیاں بھی تیز کر رکھی ہیں۔ وفاقی وزرات داخلہ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور وفاقی تفتیشی ادارے "ایف آئی اے"کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی جو انٹرنیٹ پر توہین آمیز مواد کی روک تھام کے اقدام کرے گی۔ اب تک ایسے ہزاروں ویب سائٹ لنکس کو بلاک کیا جا چکا ہے جن پر توہین مذہب پر مبنی مواد کی نشاندہی ہوئی تھی۔
 

کیا 2027 تک بھارت پرمسلمانوں کا قبضہ ہو جائے گا ؟

$
0
0

بھارتی ریاست اتر پردیش میں بی جے پی کی نظریاتی اتحادی تنظیم کے رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو 10 برس بعد ملک پر ان کا قبضہ ہو جائے گا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اترپردیش میں ہندو انتہا پسند تنظیم کے رہنما نے کارکنوں سے خطاب کے دوران کہا کہ جس تیزی کے ساتھ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے محسوس ہو رہا ہے کہ 2027 تک بھارت ایک مسلم ملک کے طور جانا جائے گا، یہ مسلمانوں کی ایک منظم سازش ہے جس کے تحت وہ بھارت پراپنا مکمل قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ اترپردیش یوگی ادتیا ناتھ شدت پسند تنظیم ہندو یووا واہنی کے سربراہ ہیں جو خود بھی ماضی میں مسلمانوں کے خلاف متعدد اشتعال انگیز اور متنازع بیانات دے چکے ہیں۔
 


پاکستان میں سیاسی افواہوں کا بازار پھر گرم؟

$
0
0

پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے یہ بیان دے کر پاکستان میں افواہوں کا بازار ایک بار پھر گرم کر دیا ہے کہ کچھ ’خفیہ ہاتھ‘ ایک بار پھر ملک میں جمہوریت کو کمزور کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ اُنہوں نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت اپنی کور ٹیم کو لندن طلب کر کے ہنگامی مشاورت کی ہے۔ اگرچہ اس ملاقات میں ہونے والی بات چیت کی تفصیل جاری نہیں کی گئی لیکن بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بات چیت میں بھی اُس ’خفیہ ہاتھ‘ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا ہو گا۔

احسن اقبال نے مذکورہ ’خفیہ ہاتھ‘ کی نشاندہی تو نہیں کی ہے۔ تاہم کچھ باخبر ذرائع اس امکان کو رد نہیں کر رہے ہیں کہ شاید پاکستان میں ایک عبوری حکومت یا کیئر ٹیکر سیٹ اپ کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ابھی زیادہ دور کی بات نہیں جب گزشتہ اگست میں بھی ایسی عبوری حکومت کے امکان کی خبریں آنے لگی تھیں کہ تین سال کیلئے جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت کے قیام کے بارے میں غور کیا جا رہا ہے جس میں کچھ سابق سیاستدان، ریٹائرڈ فوجی جرنیل اور سابق بیوروکریٹ شامل ہوں گے۔

پاکستان کے اردو روزنامہ 'خبریں‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں ہونے والے عام انتخابات منسوخ کر دئے جائیں گے اور اگلے تین برس تک کوئی سیاسی حکومت قائم نہیں ہو گی۔ مذکورہ عبوری حکومت ملک کے سیاسی نظام کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے جامع حکمت عملی پر کام کرے گی۔ اس خبر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ عبوری حکومت اپنے تین برس کی مدت میں ملک کو پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام کی جانب لے جائے گی تاکہ ملک میں پاور شیئرنگ کی کیفیت کا خاتمہ کیا جا سکے۔

شبّیر جیلانی

وائس آف امریکہ
 

گڈانی جہاں روز قانون ٹوٹتے اور سمجھوتے ہوتے ہیں

$
0
0

گڈانی کے ساحل پر موجود تباہ حال ٹینکر پر کچھ مزدور سوار ہیں جو گیس بتی سے اس کو کاٹ رہے ہیں۔ ایک سال تک کنارے پر موجود اس تباہ حال آئل ٹینکر کی ایک سال کے بعد کٹائی ہو رہی ہے۔ گذشتہ سال گیس بتی سے ایسے ہی کٹائی کے دوران دھماکے سے آگ بھڑک اٹھی تھی، جس میں 25 زائد مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حادثے کے بعد مزدوروں کی سلامتی اور تربیت کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا یعنی ربڑ کے جوتوں، دستانوں، ہیلمٹ، اور ڈانگری لباس کی فراہمی، لیکن اس پر عمل درآمد محدود ہے۔ شپ بریکنگ ورکرز یونین کے سربراہ بشیر محمودانی کہتے ہیں کہ 'کچھ یارڈز میں ہیلمٹ فراہم کیے گئے ہیں کسی کو ٹوپی پہنا کر آپ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ سکیورٹی فراہم کر دی گئی ہے، ہمارا مطالبہ رہا ہے کہ جب ایک مزدور کام کرنے آئے تو اس کو مکمل سکیورٹی ہونی چاہیے اگر رات کو کام ہو رہا ہے تو روشنی کا معقول انتظام کیا جائے۔'

گڈانی کا ساحل اس وجہ سے بھی شپ بریکنگ کے لیے سازگار ہے کیونکہ یہاں سمندر گہرا ہے اور جہاز کو کنارے تک لانے میں دشواری نہیں ہوتی۔ یہاں ساحل کو 300 سے زائد پلاٹس میں تقسیم کیا گیا ہے جن کے مالکان مقامی وڈیرے یا صوبائی حکومت ہے، موجودہ وقت یہاں پر 30 سے 40 کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔
گذشتہ ایک سال میں یہاں 70 کے قریب جہاز لائے گئے، جن میں کوئی آئل ٹینکر نہیں تھا، تاہم پھر بھی جہاز میں آگ لگنے کے واقعات پیش آئے، جس میں کم از کم سات مزدور ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔

سبز علی پچھلے دنوں ایک ایسے ہی حادثے میں زخمی ہو گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ وینچ مشین آپریٹر ہیں۔ کام کے دوران ایک انگلی مشین کے اندر چلی گئی اور کچل گئی جس کا علاج جاری ہے۔ 'ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اس میں راڈ لگے گی اور صحتیاب ہونے میں دو سے ڈھائی ماہ لگ سکتے ہیں۔' مقامی مزدوروں نے ہمیں بتایا تھا کہ سبز علی کو زخمی حالت میں بھی کام کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن سپروائزر کی موجودگی میں اس کا کہنا تھا کہ 'سیٹھ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ علاج کرایا جائے گا اور دہاڑی بھی جاری رہے گی۔' حادثات کے بعد یہاں ایمبولینس کی موجودگی کو یقینی بنایا گیا ہے، تاہم ہسپتال اور برن وارڈ کی تعمیر نہیں ہو سکی جن کا شپ بریکرز نے حکومت سے وعدہ کیا تھا۔ ہپستال کے لیے ایک مقامی شخص نے زمین عطیہ کی تھی، جس پر سنگ بنیاد بھی رکھا گیا تھا ۔  یہاں شپ بریکرز مزدورں کی خود بھرتی نہیں کرتے بلکہ یہ بھرتیاں ٹھیکیداروں کی مدد سے کی جاتی ہیں اور مزدوروں کو دہاڑی سے زیادہ کوئی مرعات نہیں ملتی۔ 

ضمیر حسین نامی مزدور نے بتایا کہ وہ سارا دن لوہا اٹھاتے ہیں۔ انھوں نے تیل سے آلودہ اپنی شلوار قمیص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: 'کپڑے دیکھو، جوتے وغیرہ کمپنیاں نہیں دیتیں، کہتے ہیں اپنے لے کر آؤ۔ تنخواہ بھی وقت پر نہیں ملتی۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں انھیں چھوڑ کر مزدوری کے لیے آتے ہیں، یہاں حالات ایسے ہیں کہ وقت پر تنخواہ تک نہیں دیتے۔' شپ بریکنگ انڈسٹری میں گذشتہ سال کے حادثے کے بعد چار کے قریب یارڈز کو ماڈل کے طور پر بنایا گیا ہے، جن میں چوھدری غفور کا یارڈ بھی شامل ہے، جہاں پچھلے سال حادثہ پیش آیا تھا۔ ان یارڈز میں مزدوروں کو ہیلمٹ، دستانے، لانگ شوز اور ڈانگری پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ آگ بجھانے والے آلے بھی داخلی راستے کے ساتھ موجود ہیں۔

مزدور رہنما بشیر محمودانی کا کہنا ہے کہ انسپیکشن کے لیے آنے والے افسران کو یہی یارڈز دکھائے جاتے ہیں۔ اس صنعت میں کام کرنے والے زیادہ تر مزدور جنوبی پنجاب اور خیبر پختون خوا کے علاقے اپر دیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک وعدہ ان کے لیے کوارٹروں کی تعمیر کا بھی تھا۔ فی الوقت مزدوروں کی اکثریت لکڑی کے کیبنوں میں مقیم ہے جو جہاز کی ناکارہ لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔
ایک مزدور محمد یاسین کا کہنا ہے کہ 'کوارٹر میں گنجائش نہیں ہے۔ ایک جگہ میں درجنوں مزدور موجود ہوتے ہیں، کوئی ادھر تو کوئی ادھر کے چکر لگا رہا ہوتا ہے، کینٹین کا بھی انتظام نہیں، 12 رپے کی روٹی اور 70، 80 روپے کا سالن ہوتا ہے، مشکل سے 15 ہزار رپے کماتے ہیں جس میں سے پانچ سے چھ ہزار روٹی کا بل بن جاتا ہے۔'

گڈانی میں پینے کے میٹھے پانی کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ یارڈز میں مالکان پانی کے ٹینکر منگواتے ہیں جبکہ مزدورں کی رہائشی کالونی میں کنویں کھودے گئے ہیں جن کا پانی کھارا ہوتا ہے۔ شپ بریکنگ ورکرز یونین کے سربراہ بشیر محمودانی کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے جو کمیٹیاں بنائی تھیں اس میں مالکان نے کہا تھا کہ پینے کے پانی کی فراہمی یقینی بنائیں گے، ہسپتال اور رہائشی کوارٹر بنا کر دیں گے، لیکن ایک بھی وعدے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ جبکہ ہمارا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ پینے کے پانی کے لیے آر آو پلانٹ لگایا جائے، ہر پلاٹ میں کینٹین اور صاف ستھری رہائش کالونی ہو۔'

شپ بریکرز اونرز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین حاجی عبدالغفور میمن کیمرے پر آنا پسند نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کافی بہتر ہے، ہر ماہ مقامی ہسپتال کو ایک لاکھ تک کی دوائیں فراہم کی جا رہی ہیں، ہپستال بھی بنے گا اور مزدوروں کے بچوں کو اسکول میں داخلہ بھی دلایا جائے گا۔' گڈانی حادثے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے تحقیقات کے لیے وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ کو تحقیقات کے لیے بھیجا تھا، ایک سال کے بعد وہ پیش رفت سے مطمئن ہیں۔

'کمیشن کی سفارشات پر قانون سازی ہو رہی ہے، اس وقت یہ اسمبلی کے اندر پراسیس میں ہے کیونکہ اس سےقبل پاکستان میں شپ بریکنگ کا کوئی قانون موجود نہیں تھا، جو اب بنایا جا رہا ہے، جن لوگوں کی غفلت تھی ان کو سزا بھی ملی اور جو مارے گئے انھیں معاوضے کی ادائیگی بھی کر دی گئی تھی۔' شپ بریکنگ انڈسٹری ماحولیات کے علاوہ انسانی صحت کے لیے بھی جان لیوا ہے، یہاں نگرانی کے لیے نصف محکمے اور درجنوں ملازم تعینات ہیں لیکن ہر روز قانون ٹوٹتے اور سمجھوتے ہوتے ہیں۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، گڈانی
 

سندھ کی پلاسٹک سرجری

$
0
0

جب جی ایم سید حیات تھے اور سندھ کے تعلیمی اداروں کی دیواروں پر جی ایم سید رہبر آ ، سندھو دیش مقدر آ کے نعرے لکھے ہوتے تھے تو نہ تو کوئی انھیں مٹاتا تھا اور نہ ہی یہ نعرے لکھنے یا لکھوانے والے غائب ہوتے تھے۔ بلکہ ضیا الحق کی جانب سے سن میں گلدستے بھیجے جاتے تھے کیونکہ اس زمانے میں حکومتِ وقت کو سندھو دیش سے زیادہ ایم آر ڈی کی وفاق پرست تحریک بالخصوص پیپلز پارٹی سے خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ یہ بھی حسنِ اتفاق ہے کہ اسی زمانے میں سندھ کے شہری علاقوں میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( اے پی ایم ایس او ) کے بطن سے مہاجر قومی موومنٹ کا جنم ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے مہاجروں کی فرسٹریشن سے جنم لیا اور ایک طالبہ بشریٰ زیدی کی ٹریفک حادثے میں موت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

 مگر فیصلہ سازوں نے سیاست حرام قرار دینے کے باوجود اس نئی شہری تحریک کے ابھار یا سرگرمیوں کی اس مارشل لائی گرفت کے ساتھ حوصلہ شکنی نہیں کی جو پیپلز پارٹی جیسی دیگر مخالف سیاسی جماعتوں کے لیے مختص تھی۔ نئی تنظیم کے ابھرنے سے پیپلز پارٹی کا شہری علاقوں میں سیاسی راستہ بند ہو پایا یا نہیں البتہ گیہوں سے زیادہ گھن پس گیا۔جماعتِ اسلامی اور جمیعت علماِ پاکستان جیسی جماعتوں کو نئے نقشے کے تحت شہر بدر ہونا پڑ گیا۔ اگر ایم کیو ایم پیپلز پارٹی وغیرہ کو بیلنس کرنے کے لیے وجود میں لائی بھی گئی تھی تو تھوڑے ہی عرصے بعد خود ایم کیو ایم کی روڈ رولر سیاست کو توازن میں رکھنے کے لیے شہری علاقوں میں کوئی متبادل قوت باقی نہ رہی۔

مگر اس اسٹرکچرل خامی کا احساس آرکیٹیکٹ حضرات کو نوے کی دھائی میں ہوا۔چنانچہ ایم کیو ایم کے پر کترنے کے لیے جناح پور کے نقشے اور ایم کیو ایم حقیقی سامنے لائے گئے مگر تب تک جن بوتل سے نہ صرف نکل چکا تھا بلکہ اس کا حجم اتنا بڑھ گیا تھا کہ کنگ سائز بوتل بنانے تک اسے برداشت کرنا ایک مجبوری ہو گئی۔ بے نظیر اور نواز شریف حکومتوں کے کھردرے اناڑی پن نے حالات کو اور بگاڑ دیا۔ چنانچہ سارا منافع سود سمیت پرویز مشرف نے اپنی سیاسی بقائی سہولت کے لیے کیش کرا لیا۔ پکا قلعہ اور جناح پور سازش کی ڈسی ایم کیو ایم کو آٹھ برس تک فری ہینڈ ملا۔ لیکن اس نے یہ وقت شہری علاقوں کو بحثیتِ مجموعی آگے لے جانے کے بجائے پارٹی اور شخصی آمریت کو مضبوط کرنے اور اپنوں اپنوں میں ریوڑیاں بانٹنے میں استعمال کر لیا اور اس کے عوض اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کو بھی آگے بڑھانے میں بطور سہولت کار استعمال ہو گئی۔ اس کا منہ بولتا ثبوت بارہ مئی دو ہزار سات کی شکل میں تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

مگر وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں کہ ضرورت سے زیادہ لمبا رسہ پھانسی کا پھندہ بھی باآسانی بن جاتا ہے۔ جب یہ گمان یقین میں بدل جائے کہ اس وقت جو ہرا ہرا ہے کل بھی ہرا ہرا رہے گا تو پھر گائے بھول جاتی ہے کہ کتنا چرنا ہے کہ جگالی کی گنجائش رہے اور بد ہضمی نہ ہو۔ جیسے ہی مشرف دور گیا ایم کیو ایم کے لیے سائے لمبے ہونے لگے۔ مگر سب یہی سمجھتے رہے کہ یہ شام نہیں بادل ہیں۔ چنانچہ گذشتہ برس بائیس اگست کو ایم کیو ایم کی لندن قیادت نے اپنے ہی ہاتھوں لمبے رسے سے خود کو سیاسی پھانسی دے لی۔

بجائے اس کے کہ اسٹیبلشمنٹ خود بخود مائنس ون ہو جانے پر خوش ہوتی اور ایم کیو ایم کی مقامی پاکستان نواز قیادت کو اپنے ہاتھ پیر سیدھے کرنے اور زمین پر ٹکنے کا موقع دیتی۔ اس نے نوے کی دہائی کی طرح پھر پیراشوٹی راستہ اپنایا اور ایم کیو ایم پاکستان ، حقیقی اور پی ایس پی کو ایم کیو ایم کے ہی مانوس بنیر تلے یکجا ہو کر ماضی سے ناطہ توڑنے کا موقع دینے کے بجائے خود شطرنج کھیلنے بیٹھ گئی۔ حالانکہ ایوب خان کی سن چونسٹھ کی پہلی، ضیا الحق کی دوسری اور نوے کی دہائی کی تیسری پلاسٹک سرجری سے شہری سیاست کا منہ سیدھا ہونے کے بجائے اور ٹیڑھا گیا۔ مگر سرجن آج بھی پرامید ہے کہ اس بار کی چوتھی پلاسٹک سرجری پچھلی بد نمائیاں دور کر دے گی۔ رہے ووٹر تو ان کے بارے میں فرض کر لیا گیا ہے کہ وہ جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر نئے تخلیق کردہ حقائق بھی پہلے کی طرح قبول کر لیں گے۔

مگر آج کی اور پچھلی نسل میں ایک فرق ہے۔ پچھلی نسل موبائیل فون ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے محروم تھی لہذا آنکھوں میں جوتوں سمیت گھسنے کا تجربہ آسانی سے کیا جا سکتا تھا۔ اب کی بار لوگ بھلے کچھ نہ کر پائیں مگر انھیں پتہ سب ہے کہ کون کیا کرتب دکھا رہا ہے۔ حتیٰ کہ وہ روبوٹ اور جاندار میں بھی تمیز کرنے لگے ہیں۔ بات شروع ہوئی تھی سندھی قوم پرستوں سے اور کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ جب قوم پرستوں کے حوصلے بلند تھے اور تعلیمی ادارے بھی ان کے گڑھ تھے اور وہ کھلم کھلا سندھو دیش کے نعرے لگاتے پھرتے تھے تب تو وہ آزاد رہے یا زیادہ سے زیادہ جیل چلے گئے۔

اب جب کہ بظاہر قوم پرستی محض نعروں کی حد تک رہ گئی ہے۔ زیادہ تر چلبلے بیرونِ ملک ہیں اور جو یہاں ہیں وہ پوری طرح ہز ہائی نیس کے اعتماد میں ہیں۔ تو اس وقت ایسی کیا افتاد آن پڑی کہ بقول ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سندھ میں جتنے سیاسی کارکنان یا حقوق کے وکیل پچھلے پانچ برس میں اٹھائے یا غائب کیے گئے ان میں سے ستر فیصد موجودہ سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران غائب ہوئے۔ اور اس دفعہ جو باریک گجو جال ڈالا گیا ہے اس میں صرف خطرناک شارکیں اور آکٹوپس ہی نہیں بلکہ کیکڑے ، کچھوے ، چھوٹی مچھلیاں حتیٰ کہ جھینگے بھی پھنس رہے ہیں۔

اب تو سندھ اسی کی دہائی جیسا سیاسی خطرہ بھی نہیں۔ اب وہ پیپلز پارٹی بھی نہیں کہ جس کے لیے تیس پینتیس برس پہلے آہنی ہاتھ بنایا گیا تھا۔ آج کی پیپلز پارٹی تو آہنی ہاتھ چھوڑ بغیر دستانے والا ہاتھ دیکھ کے بھی راستہ چھوڑ دیتی ہے۔ تو پھر سندھ پر خصوصی آہنی نظرِ کرم کیوں ؟ تحریکِ انصاف اور ن لیگ کو ویسے ہی سندھ میں ووٹ بینک بنانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ مذہبی انتہا پسند تنظیموں کو پھلنے پھولنے کے لیے ووٹ بینک کی ہی ضرورت نہیں۔ ایسی تنظیموں کے پنپنے کے سبب روائیتی مذہبی سیاسی جماعتوں کی کرنسی اب نہ کراچی میں چلتی ہے نہ دادو میں۔ کراچی میں بظاہر امن و امان بحال ہو چکا ہے۔شہر کی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔ 

مگر یہ پرسکون چہرہ اس مریض کا ہے جو ابھی آپریشن تھیٹر کی میز پر انستھیسیا کے اثر میں ہے۔ جب اسے وارڈ میں منتقل ہونے کے بعد واک کرنے کی اجازت ملے گی تب پتہ چلے گا کہ پلاسٹک سرجری کس قدر کامیاب رہی۔ باقی سندھ میں کوئی ایسا بیل بھی دکھائی نہیں دے رہا جسے لال کپڑا دکھا کے کہا جائے ’’ آ بیل مجھے مار ’’۔ سنا ہے تین سو بائیسویں بار کوئی بے ضرر سا سندھ گرینڈ الائنس بھی بنایا گیا ہے۔ تو پھر آہنی ہاتھ سے شطرنج کھیلنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے۔ کوئی تو بتائے۔ اپن کی سمجھ میں تو کچھ نہیں آریلا ہے۔ 

وسعت اللہ خان
 

بدحال معیشت : کیا صوبے ذمہ دار نہیں ؟

$
0
0

اب سے تقریباً 7 برس قبل قومی مالیاتی ایوارڈ کے اجرا اور بعد میں آئین میں 18 ویں ترمیم کے بعد سے صوبوں کے مالی وسائل اور اختیارات میں اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم و صحت بشمول خدمات پر ٹیکس جیسے شعبے بھی صوبوں کے دائرہ اختیار میں آ گئے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ ان 7 برسوں میں بھی معیشت کی مجموعی کارکردگی مایوس کن ہی رہی ہے۔ گزشتہ 4 برسوں میں بھی بیشتر اہم ترین معاشی اہداف حاصل نہیں کئے جا سکے۔ یہ بات بہرحال حیران کن ہے کہ 7 برس کا عرصہ گزر نے کے باوجود اس حقیقت کا عمومی طور پر ادراک نہیں کیا جا رہا کہ معیشت کی زبوں حالی میں وفاق کے ساتھ چاروں صوبوں کا بھی کردار ہے۔ چاروں صوبوں کے مجموعی وسائل اور مجموعی اخراجات کے ضمن میں چند حقائق نذر قارئین ہیں۔

1۔ ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ سے پہلے مالی سال 2009-10 میں وفاق کے مجموعی محاصل میں سے چاروں صوبوں کو مجموعی طور پر صرف 633 ارب روپے ملے تھے جبکہ مالی سال 2016-17 میں وفاق نے چاروں صوبوں کو مجموعی طور پر 1965  ارب روپے دیئے۔ یعنی صوبوں کو صرف گزشتہ مالی سال میں 1332 ارب روپے کی اضافی رقوم ملیں۔

2۔ صوبوں نے عوام پر مزید بوجھ ڈالتے ہوئے عوام پر خدمات کے شعبے میں جنرل سیلز ٹیکس تو ضرور عائد کیا مگر صوبوں کے طاقتور طبقوں کو موثر طور سے ٹیکس کے دائرے میں لانے سے قطعی اجتناب برتا۔ چاروں صوبوں نے بہرحال عوام کو نچوڑ کر ہی صحیح اپنے محاصل میں اضافہ کیا جو مالی سال 2010 کے 123 ارب روپے کے مقابلے میں مالی سال 2017 میں 401 ارب روپے تک پہنچ گئے۔

3۔ مندرجہ بالا دونوں اقدامات کے نتیجے میں مالی سال 2010 کے مقابلے میں 2017 میں صوبوں کے مجموعی وسائل میں 1610 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

4۔ چاروں صوبوں نے غیر منقولہ جائیدادوں کے ڈی سیٹ ریٹ مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانے سے اجتناب کیا ہے کیونکہ اس سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ وفاق نے عملاً چاروں صوبوں کے تعاون سے جائیدادوں کی خریداری کے لئے کچھ شرائط پر کالے دھن کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔ اس سے ایک سال سے بھی کم مدت میں قومی خزانے کو 130 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ یہ امر یقیناً افسوسناک ہے کہ ایک طرف پاناما لیکس کا ہر وقت چرچا رہتا ہے جبکہ دوسری طرف نہ صرف ’’ملکی پاناماز‘‘ پر ہاتھ ڈالنے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے بلکہ ’’نئے ملکی پاناماز‘‘ بنانے کے لئے قومی خزانے کو سینکڑوں ارب روپے کے نقصانات پہنچا کر صوبوں کے عملی تعاون سے قانونی گنجائش پیدا کی گئ ہے پھر بھی سیاسی پارٹیوں اور سول سوسائٹی کا کوئی اعتراض سامنے نہیں آرہا ۔

موجودہ حکومت کے دور میں وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کے دستخطوں سے19 اگست 2013 کو آئی ایم ایف کو ایک خط میں یقین دہائی کرائی گئی تھی کہ 3 برسوں تک بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جاتا رہے گا جس کے لئے مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری ایک حالیہ اجلاس میں حاصل کر لی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو بھی معلوم ہے کہ ایسی کوئی منظوری حاصل نہیں کی گئی مگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی گزشتہ 4 برسوں سے اس معاملے پر خاموش ہیں کیونکہ اعتراض کی صورت میں انہیں زرعی شعبے اور جائیداد سیکٹر پر موثر طور سے ٹیکس عائد کرنا پڑتا۔ ان گزارشات کی روشنی میں ہم سمجھتےہیں کہ 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والی جماعتیں بھی معیشت میں پائیدار بہتری کے لئے معاشی پالیسیوں میں کوئی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں نہیں لا سکیں گی۔

5۔ 7 ویں قومی مالیاتی ایوارڈ سے قبل مالی سال 2010 میں صوبوں نے ترقیاتی اخراجات کی مد میں 653 ارب روپے خرچ کئے تھے جبکہ مالی سال 2017 میں اس مد میں 1681 ارب روپے خرچ کئے گئے یعنی چاروں صوبوں نے ترقیاتی اخراجات کی مد میں 2010 کے مقابلے میں2017 میں 1028 ارب روپے کی اضافی رقوم خرچ کیں۔ اسی طرح سماجی شعبے کی مد میں خرچ کی جانے والی رقوم میں بھی خاصا اضافہ ہوا۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ مالی سال 2010 میں چاروں صوبوں کے مجموعی اخراجات کا حجم 942 ارب روپے تھا جبکہ اضافی مالی وسائل کی وجہ سے مالی سال 2017 میں صوبوں کے مجموعی اخراجات کا حجم بڑھ کر 2591 ارب روپے ہو گیا جو کہ 2017 میں 1650 ارب روپے کے اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ بات بہرحال پریشان کن ہے کہ انسانی وسائل کی ترقی سمیت مختلف شعبوں میں قابل ذکر بہتری نظر نہیں آ رہی یہ صورت حال وفاق اور صوبوں میں بد انتظامی، نااہلی اور کرپشن کی نشاندہی کرتی نظر آتی ہے۔

وفاق اور صوبوں میں تین بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار میں ہیں یعنی مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف، تعلیم اور صحت کے شعبے صوبوں کے دائرہ اختیارات میں آتے ہیں۔ ان شعبوں میں چاروں صوبوں نے جو رقوم مختص کی ہیں وہ مایوس کن حد تک کم ہیں۔ مثلاً

1۔ پیپلز پارٹی کے دور میں متفقہ طور پر منظور شدہ قومی تعلیمی پالیسی 2009 کے مطابق 2015 تک تعلیم کی مد میں جی ڈی پی کے تناسب سے 7 فیصد رقوم مختص کی جانا تھیں جبکہ اسی پارٹی کے دور میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ 2012 تک صحت کی مد میں 4 فیصد مختص کئے جائیں گے۔ یعنی 2015 سے ان دونوں شعبوں میں جی ڈی پی کے تناسب سے مجموعی طور پر 11 فیصد، یہ صرف اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف 20 فیصد رکھا جائے جبکہ 2015 میں یہ تناسب ہی 11 فیصد تھا۔

2۔ موجودہ حکومت کے دور میں جاری کردہ پہلے اکنامک سروے میں کہا گیا تھا، کہ صوبوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2015 تک تعلیم کی مد میں جی ڈی پی کا 7 فیصد مختص کریں گے۔ مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور میں صحت کی مد میں 2 فیصد مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا یعنی تعلیم و صحت کے شعبوں میں مجموعی طور سے جی ڈی پی کے تناسب سے 9 فیصد جبکہ موجودہ تناسب صرف تقریباً 3 فیصد ہے۔

3۔ تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں 2018 تک تعلیم اور صحت کی مد میں جی ڈی پی کا 7.6 فیصد مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا جسے پورا کرنے کی کوشش نظر ہی نہیں آئی۔ وطن عزیز میں تعلیم کا شعبہ نہ صرف زبوں حالی کا شکار ہے بلکہ دہشت گردوں کے نشانے پر بھی ہے۔ گزشتہ 4 برسوں میں چاروں صوبوں نے صرف تعلیم کی مد میں قومی تعلیمی پالیسی 2009 کے مطابق تقریباً چار ہزار ارب روپے کم مختص کئے ہیں۔ کچھ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی مالی و انٹلیکچوئل کرپشن بہت زیادہ ہے۔ اب یہ ازحد ضروری ہے کہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں چانسلر صاحبان سربراہ مملکت یا صوبے کے سربراہ کے بجائے صرف ماہرین تعلیم ہوں۔

یہ بھی اب ناگزیر ہو گیا ہے کہ یونیورسٹیوں کی سینڈیکیٹ اور سینیٹ کے ممبران کی نامزدگیاں اور وائس چانسلرز کی تقرریاں میرٹ پر کرنے کے لئے شفاف طریقہ کار وضع کیا جائے اور اس پر لازماً عمل کیا جائے۔ ہم نے اپنے 20 اکتوبر 2017 کے کالم میں معیشت کو سنبھالا دینے، عوام کی حالت بہتر بنانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ جیتنےکے لئے 8 نکات پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے۔ گزشتہ چند ماہ سے ملک میں میثاق معیشت کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نکات کے ضمن میں پارلیمنٹ اور چاروں صوبے قانون سازی کریں۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
 

مقبوضہ کشمیر : ہزاروں بغیر نشان قبروں کی تحقیقات کا مطالبہ

$
0
0

بھارت کے سرکاری حقوق کمیشن نے حکومت سے مقبوضہ کشمیر میں دریافت ہونے والی کم ازکم 2 ہزار 80 بغیرنشان قبروں کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ قطر کے میڈیا نیٹ ورک الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق کشمیر میں انسانی حقوق کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پیرنٹس ڈس اپیرڈ پرسنس (اے پی ڈی پی) کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بغیر نشان کی 3 ہزار 8 سو 44 قبریں موجود ہیں جن میں سے 2 ہزار 7 سو 17 پونچھ میں اور 1 ہزار 1 سو 27 راجوڑی میں دریافت ہوئی ہیں۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق کمیشن نے 6 مہینوں کی تحقیقات اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ اور لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کے بعد 2 ہزار 80 قبروں کی باقاعدہ شناخت کا سراغ لگا لیا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اے پی ڈی پی کے مطابق دہائیوں سے تنازع کی زد میں رہنے والے اس علاقے میں 8 ہزار افراد لاپتہ ہو چکے ہیں۔ اے پی ڈی پی نے بھارتی فوج کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوج نے قتل وغارت کو چھپانے کے لیے بندوق اٹھا رکھا ہے۔ اے پی ڈی پی کے رہنما خرم پرویز نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’ہم ان قبروں پر ایک خود مختار کمیشن کا قیام چاہتے ہیں’۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے 53 کیسز پر تحقیقات کیں جن کی لاشوں کو نامعلوم قبروں سے نکالا گیا تھا جس میں ہمیں معلوم ہوا کہ 49 لاشیں شہریوں کی تھیں جبکہ ایک لاش مسلح تنظیم کے رکن کی تھی اور باقی تین لاشیں نامعلوم ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ان افراد کو بھارتی حکومت کی جانب سے غیر ملکی مسلح تنظیم کا رکن بتایا گیا تھا’۔

واضح رہے کہ 2011 میں جموں و کشمیر کے ریاستی ادارے انسانی حقوق کمیشن نے بتایا تھا کہ بھارتی قابض فوج کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں لاشوں کو بغیر نشان کے قبروں میں دفنایا گیا ہے۔ تحقیقات کے مطابق 2 ہزار لاشوں میں سے کم ازکم 5 سو 74 کشمیر کے شہری تھے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اے پی ڈی پی کا کہنا ہے کہ 2011 سے بھارتی حکومت انسانی حقوق کے کمیشن کی ہدایات کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب بھی امن و عامہ کی خرابی کے پیش نظر معاملے کی تفتیش سے گریز کر رہی ہے۔ ایسے ہی 2008 میں انسانی حقوق کی تنظیم انٹرنیشنل پیوپلز ٹریبیونل آن ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس نے درجنوں گاؤں کے تین سالہ سروے کے بعد بغیر نشان قبروں کی نشاندہی کی تھی جہاں سے کئی ہزار لاشیں بر آمد ہوئی تھیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کشمیر میں جاری 20 سالہ علیحدگی کی تحریک کے دوران 8 ہزار افراد لاپتہ ہو چکے ہیں۔
 

پاکستان میں دل، پھیپھڑوں کا مرض ہرچار میں سے ایک شخص کی موت کی وجہ

$
0
0

پاکستان میں اموات کی سب سی بڑی وجہ دل اور پھیپھڑوں کے امراض بن رہی ہے، مرنے والے ہر چار میں سے ایک پاکستانی اسی عارضے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی (اے کے یو) میں ہونے والی 20ویں نیشنل ہیلتھ سائنسس ریسرچ سمپوزیم کی تین روزہ کانفرنس کا انقعاد کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ دل اور اس کے خطرے کو کم کرنے کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنے کے علاوہ عوام کی صحت کا نظام بھی مؤثر اور مضبوط بنانا ہو گا۔ کانفرنس میں دل اور پھیپھڑوں کے عارضے اور مسائل سے نمٹنے اور ان کی بحالی کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔

کانفرنس میں ماہرین نے دل اور پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا افراد کے نئے طریقہ علاج اور زندگی بچانے والے طریقہ کار پر بحث کی جن کے ذریعے امراض کی فوری تشخیص اور علاج کے بہتر انتخاب کے عمل میں فائدہ پہنچا ہے۔ دل کے عارضے کے علاج میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے ماہرین کا کہنا تھا کہ کراچی اور اسلام آباد کے ہسپتالوں نے دل کے مرض سے نمٹنے کے لیے نیا طریقہ علاج اپنا لیا ہے جن میں ٹرانسکیتھیٹر اورٹک والو امپلیمنٹیشن (ٹاوی) اینڈو ویسکیلور اینیوریزم ریپیئر (ایوار) شامل ہیں، ان دونوں طریقہ علاج سے آرٹا کی مرمت کا عمل کیا جاتا ہے جو پہلے صرف ترقی یافتہ ممالک کے بڑے ہسپتالوں میں کیا جاتا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس طریقہ علاج سے امراض کے آخری اسٹیج کے مریضوں کے لیے بھی علاج ممکن ہو گیا ہے‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان دونوں طریقہ علاج نے مشکل ترین دل اور واسکیولر عارضے کے علاج میں ایک نئی راہ پیدا کر دی ہے جبکہ پاکستان میں اس طریقہ علاج کے چند ماہرین بھی موجود ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر عثمان فہیم کا کہنا تھا کہ ہمیں اس طریقہ علاج کو بڑے پیمانے پر کم لاگت میں مریضوں تک پہنچانے کے چیلینج کا سامنا ہے۔ پھیپھڑوں کے مرض کے علاج میں ہونے والی جدت پر ماہرین کا کہنا تھا کہ ویڈیو اسسٹڈ تھوراسک سرجری اور برونکو اسکوپی کی وجہ سے پھیپھڑوں کے امراض کے علاج میں واضح بہتری آئی ہے۔

ان دونوں طریقہ علاج میں سرجری کرنے والے ڈاکٹروں کو ٹیومر کی شناخت اور اس سے نمٹنے میں آسانی ہوتی ہے اور اس طریقہ علاج سے مریض کو درد بھی کم ہوتا ہے۔ کانفرنس میں دل کے عارضے میں مبتلا افراد پر اسٹیم سیل تھیراپی کے تجربات کے نتائج بھی پیش کیے گئے۔ آزمائشی مرحلے میں ہونے کے باوجود ماہرین کا ماننا ہے کہ اسٹیم سیل کو متاثرہ پھیپھڑے یا متاثرہ دل میں لگانے سے اعظاء کی بحالی سمیت، ان کے کام کرنے میں بھی دوبارہ بحالی دیکھی گئی۔
کانفرنس میں جدید ٹیکنالوجی اور تشخیص کے طریقہ کار تھری ڈی ایکو اور کارڈیک ایم آر آئیز پر بھی بات چیت کی اور بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانی اعضاء کی بہترین تصویر سامنے آجاتی ہے جس کے ذریعے سرجنز اور فزیشنز کو مرض سے نمٹنے کے لیے بہترین معلومات میسر ہو جاتی ہیں۔

تقریب کے مقاصد بتاتے ہوئے کانفرنس منتظم صولت فاطمی کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد جامعات کے درمیان باہمی تعلقات کے ساتھ بنائے گئے نئے منصوبوں کو سامنے لانا ہے تاکہ دنیا بھر میں ہوئی تحقیق سے پاکستانی مریض بھی مستفید ہو سکیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہم نے بین الاقوامی مقررین سے رجوع کیا تا کہ اس کانفرنس کا دیرپا اثر پڑ سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کانفرنس کا ایک اور مقصد ’گول 3‘ کی عالمی کوششوں کو حاصل کرنا اور نومولود بچوں میں کارڈیو ویسکیولر کے مرض سے اموات کی شرح کو 2030 تک کم کرنا ہے۔

فائزہ الیاس
یہ خبر 4 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.
 

پی آئی اے برائے فروخت

$
0
0

ایئر انڈیا بھی پی آئی اے کی طرح برس ہا برس سے نقصان میں جا رہی ہے۔ مودی سرکار نے بھی اُس کو فروخت کرنے کی کوشش کی مگر کانگریس نے اقلیت ہونے کے باوجود نہیں ہونے دی کہ یہ بھارت کی آن ہے۔ سری لنکاء ایئر کے 10 بارہ سال پہلے تامل ٹائیگر نے ایک صبح کولمبو ایئر پورٹ پر کھڑے تمام جہاز اُڑا دیئے تھے۔ سرکار نے امارات سے جہاز لیز اور پارٹنر شپ کر کے سری لنکا ایئر کواپنے پائوں پر دوبارہ کھڑا کر دیا مگر سری لنکا ایئر کو فروخت نہیں کیا۔ خود پی آئی اے نے دیگر ممالک کی ایئر لائنز بنا کر دیں ۔ آج وہ تمام کی تمام منافع بخش ائرلائنوں میں شمار ہوتی ہیں۔

پی آئی اے نے 25 سال پہلے صرف 3 جہاز امارات ائیرلائن کو لیز پر دیئے تھے اُس وقت ہمارے پاس 55 بہترین جہاز تھے ان 3 جہازوں سے ایمریٹس ایئر لائن نے یو اے ای کی پہلی پرائیویٹ ایئر لائن کا درجہ حاصل کر کے آج 500 جہازوں سے پوری دنیا کے روٹس تشکیل دے کر آج اپنے آپ کو دنیا کی 10 بڑی ایئر لائنز میں شمار کر لیا ہے۔ ماضی میں پی پی پی کی حکومت نے پی آئی اے کی فروخت کی پوری کوشش کی تو مسلم لیگ ن کی حکومت نے اُس کی مخالفت کی اور فروخت نہیں ہونے دی۔ پھر پی پی پی کے نامزد چیئر مین نے مختلف روٹس فروخت کر دیئے تو مسلم لیگ ن کی یونین نے مزاحمت کر کے ہڑتال کروا دی۔ یوں چیئرمین ،ایم ڈی کو مستعفی ہونا پڑا۔ پھر جب سے مسلم لیگ ن کی حکومت آئی ہے وہ مسلسل پی آئی اے کو فروخت کرنے کی کوشش کرتی رہی ۔

اب پی پی پی کی نامزد یونین اُس کو فروخت نہیں ہونے دے رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 20 پچیس سال پہلے تک پی آئی اے منافع بخش ایئر لائنز میں شمار ہوتی تھی اُس وقت تک پی آئی اے کی اپنے ملازمین کی یونین تھی پھر اُس کے بعد یکے بعد دیگرے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے جیالوں اور مسلم لیگیوں کو بھرتی کر کے اُن کی یونین بنوا دی تو اُس کا معیا ر ختم اور کرپشن کا راج ہو گیا ۔دونوں پارٹیاں نجکاری کر کے اپنی جیبیں بھرنا چاہتی ہیں۔ دونوں کو معلوم ہے کہ پی آئی اے کی ملکیت میں اربوں ڈالرز کے ہوٹل ہیں ہم نے آج تک نیب ،ایف آئی اے یا احتساب ادارے سے یہ انکوائریاں نہیں کروائیں کہ کس کس نے پی آئی اے کو اندر سے کھوکھلا کر کے لوٹا اور کس کس کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا اور کرپشن میں نکالے ہوئے ملازمین کو اپنی حکومت آنے کے بعد نہ صرف پھر بھرتی کیا بلکہ پچھلا معاوضہ بھی دلوایا گیا۔

اور جب سے ہمارے سابق وزیراعظم نااہل ہوئے تو انہوں نے جان بوجھ کر نئے وزیراعظم جن کا تعلق بھی ائیر لائن سے ہے یہ ٹاسک دیا کہ قومی ائیر لائن کی نجکاری کا عمل جاری رکھو۔ اور انہوں نے نجکاری کا نیا حربہ استعمال کیا کہ پی آئی اے کے ایک ایک پر توڑ ڈالو پہلے تو نااہل افراد کو بھرتی کرو۔ جن کا سول ایوی ایشن سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ اور نئے سربراہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں جن کی سالانہ تنخواہ تین کروڑ ہے ان کے ماتحت قطر آئل کمپنی سے وابستہ تھے ان کی تنخواہ 20 لاکھ ماہانہ ہے ان کے ماتحت ایک موبائل کمپنی سے وابستہ تھے ان کی تنخواہ 15 لاکھ ہے تقریباً 1 کروڑ ماہانہ پی آئی اے کو مزید تنخواہوں کا اضافی بوجھ ڈال کر مزید مقروض بنا دیا گیا ۔

ایک طرف ہوائی جہاز اور ادارے کو فعال کرنے کا کوئی تجربہ نہیں اور پھر انہوں نے آتے ہی 1961ء سے امریکہ کی پروازیں یک دم بند کر دیں حالانکہ اگر ان کے روٹس بیچتے تو اربوں روپے میں یہ 108 فلائٹس سالانہ لیز پر دی جا سکتی تھیں ایک تو پی آئی اے کی ملکیت برقرار رہتی اور پھر سالانہ آمدنی بھی ہوتی اب امریکن سول ایوی ایشن کی مرضی ہو گی تو دوبارہ پی آئی اے کو حقوق دے یا نہ دے کیونکہ امریکن ائیرلائنز پاکستان سے اپنی فلائٹس بند کر چکی ہیں یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ ایک سال قبل بھی میاں صاحب نے ایک جرمن چیف ایگزیکٹو آفیسر پی آئی اے میں لگایا تھا تو وہ کروڑوں کا چونا لگا کر ایک جہاز بھی ساتھ لے گیا جو اس کے استعمال میں ہے ۔

پی آئی اے انتظامیہ اب تک کیوں خاموش ہے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے یاد رہے کہ جب پی آئی اے نے بہتر ین کمائی والے روٹس ترکش ائیر لائنز والوں کے ہاتھوں فروخت کئے تو اس وقت مسلم لیگ ن کے رہنمائوں بشمول میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ کے باہر پی آئی اے کے ملازمین کے جلسے سے خطاب کرنے کے ساتھ ساتھ اعلان کیا تھا کہ اگر ان کی زندگی میں کسی نے پی آئی اے کی طرف بُری نگاہوں سے دیکھا تو اُس کی آنکھیں نکال دی جائیں گی یہاں تک کہ انتظامیہ اور کارکنوں کے درمیان کشمکش ایک ماہ تک چلتی رہی اور آخر کار انتظامیہ نے ہتھیار ڈال دیئے تھے اور اُن روٹس کا معاہدہ منسوخ کرنا پڑا تھا۔

ہمارے ایک درجن سے زیادہ جہاز ناکارہ کر کے کراچی ایئر پورٹ پر کھڑے کر دیئے گئے ہیں. پھر مہنگے داموں پر کمیشن کی آڑ میں نئے جہاز لیز کرائے جا رہے ہیں ۔ اور ایک دن سننے میں آجائے گا کہ ہم نے پی آئی اے جو کہ مسلسل خسارے میں جا رہی تھی فروخت کر کے جان چھڑالی ہے یا پھر ائیر بلیو میں ضم کر دی ہے۔ قوم کو یہ خوشخبری مبارک ہو۔ یاد رہے کہ پی آئی اے کے بہترین ملازمین پی آئی اے سے گولڈن شیک ہینڈ لے کر آج دوسری ایئر لائنز میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس وقت پی آئی اے کے 50 ہزار ملازمین اگر نکالے جائیں گے تو وہ کہاں جائیں گے یہ سوال سابق وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب سے کریں جو کہتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا ؟ اگریہ نجکاری کامیاب ہو گئی تو اس کے بعد اسٹیل مل کی باری آئے گی۔

خلیل احمد نینی تا ل والا
 


بیٹی کی محبت اور قائداعظمؒ کا اسلامی اقدار سے لگاؤ

$
0
0

بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی اکلوتی صاحبزادی دینا واڈیا 98 برس کی عمر میں نیو یارک میں انتقال کر چکی ہیں۔ ان کی وفات کی خبر سن کر ذہن ایک بار پھر ماضی کے جھروکوں میں چلا گیا ہے۔ یہ 1918ء کا زمانہ ہے اور مسلمانان برصغیر غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کے دور کا آغاز ہو چکا ہے ۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ ، علامہ محمد اقبالؒ و دیگر مسلم رہنما مسلمانان ہند کو حصول آزادی کیلئے تیار کر رہے ہیں۔ مختلف سیاسی تحریکیں بھی زوروں پر ہیں اور قائداعظم ؒ اہم تقریبات میں شریک ہو کر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات سے ملاقات کر رہے ہیں ۔

انہی تقریبات کے دوران پارسی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی رتن بائی قائداعظم محمد علی جناحؒ کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔ رتن بائی نے قائداعظمؒ کو شادی کا پیغام بھجوایا لیکن قائداعظمؒ نے ایک غیر مسلم لڑکی کے ساتھ شادی کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔ رتن بائی قائداعظمؒ کی طلسماتی شخصیت میں پوری طرح گرفتار ہو چکی تھی لہٰذا انہوں نے شادی سے قبل اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلامی نام مریم رکھا گیا ۔ 1918ء میں قائد اعظمؒ اور مریم جناح شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ شادی کے ایک سال بعد 1919ء میں ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام دینا جناح رکھا گیا۔ قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ اپنی مصروفیات کے باعث بیوی اور بیٹی کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے۔

مریم جناح 1929 ء میں صرف 29 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اس وقت قائد اعظمؒ کی بیٹی دینا جناح کی عمر صرف دس سال تھی۔ قائد اعظمؒ اپنی اکلوتی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناحؒ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ دینا کی اسلامی تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں۔ دینا کو قرآن پاک پڑھانے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ یہ تحریک پاکستان کے عروج کا دور تھا اور قائد اعظمؒ آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک پاکستان کو آگے بڑھانے میں مصروف تھے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ بھی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہنے لگی تھیں لہٰذا دینا جناح اپنے پارسی ننھیال کے زیادہ قریب ہو گئیں۔ 

پھر ایک دن قائد اعظمؒ کو پتا چلا کہ ان کی بیٹی ایک پارسی نوجوان نیول واڈیا کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہیں۔ قائد اعظمؒ نے اپنی بیٹی کو ایک غیر مسلم کے ساتھ شادی کرنے سے روکا۔ اس موضوع پر باپ بیٹی کے درمیان ہونیوالی گفتگو تاریخ کی کئی کتابوں میں محفوظ ہے۔ قائداعظمؒ نے اپنی بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں لاکھوں پڑھے لکھے مسلمان لڑکے ہیں تم ان میں سے کسی بھی مسلمان لڑکے کے ساتھ شادی کر لو۔ جواب میں بیٹی نے باپ سے کہا کہ ہندوستان میں لاکھوں خوبصورت مسلمان لڑکیاں تھیں لیکن آپ نے ایک پارسی لڑکی سے شادی کیوں کی؟ قائد اعظمؒ نے جواب میں کہا کہ تمہاری ماں نے شادی سے قبل اسلام قبول کر لیا تھا لیکن بیٹی پر کوئی اثر نہ ہوا۔ 

وہ قائداعظمؒ جن کی آنکھ کے ایک اشارے پر کروڑوں مسلمان اپنی گردنیں کٹوانے کے لئے تیار تھے وہ اپنی بیٹی کی ضد کے سامنے بے بس ہو گئے اوربیٹی نے باپ کی مرضی کے خلاف شادی کر لی ۔ دینا واڈیا شادی کے بعد ممبئی منتقل ہو گئی تھیں ۔ پارسی نوجوان سے پسند کی شادی کرنے کے بعد دینا واڈیا کے اپنے والد سے تعلقات ہمیشہ رسمی رہے۔ قائداعظمؒ جس وقت شادی کے بندھن میں بندھے تھے ان کی عمر 42 سال جبکہ ان کی اہلیہ مریم جناح کی عمر 18 سال تھی۔ یہ محبت کی شادی تھی اور آپ کی اہلیہ کا نوجوانی میں ہی انتقال ہو چکا تھا اب قائداعظمؒ کے پاس اس محبت کی ایک ہی نشانی دینا واڈیا کی صورت میں موجود تھی ۔

قائداعظمؒ با اصول اور اسلامی اقدار پر کاربند رہنے والی شخصیت تھے لہٰذا انہی اسلامی اقدار کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے ایک غیر مسلم کے ساتھ شادی کرنے پر اپنی بیٹی سے منہ موڑ لیا اور اسلامیان ہند کی آزادی کیلئے اپنی زندگی وقف کر دی۔ تحریک پاکستان کے دوران قائداعظمؒ کے کچھ مخالفین نے کوشش کی کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ جس شخص کی بیٹی نے ایک غیر مسلم سے شادی کر لی وہ مسلمانوں کا لیڈر کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت قائداعظمؒ کے ساتھ کھڑی رہی۔ قیام پاکستان کے بعد دینا واڈیا محض دو بار ہی پاکستان آئیں۔ پہلی دفعہ ستمبر 1948ء کو اپنے والد کے انتقال کے موقع پر وہ کراچی پہنچی تھیں اور کچھ وقت اپنی پھوپھو محترمہ فاطمہ جناحؒ کے ساتھ گزارنے کے بعد واپس ممبئی لوٹ گئی تھیں اور پھر نیویارک میں مقیم ہو گئیں۔

قیام پاکستان کے بعد دوسری بار وہ 2004ء میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے دورۂ پاکستان کے موقع پر یہاں آئیں۔ اس موقع پر دینا واڈیا نے کہا کہ میں محمد علی جناح کی بیٹی ہوں اور اپنے باپ سے آج بھی محبت کرتی ہوں اسی لئے اپنے بیٹے نسلی واڈیا اور پوتوں کے ساتھ اپنے باپ کے خواب پاکستان کو دیکھنے آئی ہوں لیکن میں اپنے باپ کے نام سے شہرت نہیں کمانا چاہتی۔ دینا واڈیا جب مزار قائد کے اندر گئیں تو اس دوران کسی فوٹوگرافر یا میڈیا کو اندر نہیں جانے دیا گیا، وہ تنہا باپ کی قبر پر کچھ لمحات گزارنا چاہتی تھیں۔ 

مزار قائد پر موجود مہمانوں کی کتاب میں انہوں نے اپنے جذبات ظاہر کئے، انہوں نے وزیٹر بک پر ایک جملہ یوں لکھا’’ یہ میرے لئے ایک دکھ بھرا شاندار دن تھا۔ ان کے خواب کو پورا کیجئے‘‘۔ پاکستان سے جاتے ہوئے ان کے آخری الفاظ تھے ’’ بابا کا دیس پیارا لگا‘‘۔ دینا واڈیا کے انتقال پر ممبئی میں واڈیا گروپ کے ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے اپنے سوگواروں میں بیٹے نسلی این واڈیا جو واڈیا گروپ کے چیئرمین بھی ہیں اور بیٹی ڈیانا این واڈیا کو چھوڑا ہے۔ ان کے شوہر نویل واڈیا تھے۔ 

دینا نویل واڈیا سے شادی کے بعد ممبئی اور بعد ازاں اپنے خاندان سمیت امریکہ منتقل ہو گئی تھیں اور ایک عرصے سے وہیں مقیم تھیں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو ہر والد کی طرح اپنی صاحبزادی سے بہت پیار تھا اور جب دینا جناح نے والد کی نافرمانی کرتے ہوئے پسند کی شادی کی تو انہیں بہت دکھ ہوا لیکن قائداعظمؒ نے اپنے اصولوں اور اسلامی اقدار کی پاسداری پر کوئی حرف نہیں آنے دیا ۔ انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا اور 14اگست 1947ء کو اسلامیان ہند کو آزادی کی نعمت میسر آ گئی۔  

شاہد رشید


سیاسی جماعتیں بلا امتیاز احتساب کےعزم سے کیوں پیچھے ہٹ گئیں

$
0
0

پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ نے 2015 میں ججوں اور جرنیلوں سمیت سب کو ملا کر احتساب کے حوالے سے رپورٹ کی منظوری دی تھی لیکن اب تقریباً تمام سیاسی جماعتیں، جنہوں نے پہلے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا، وہ ہمت ہار گئیں اور اب اس ایشو پر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنے سے گریز کیا ہے۔ سینیٹ نے ستمبر 2015 میں متفقہ طورپر ایک کمیٹی رپورٹ کی توثیق کی تھی۔ جس میں نئے احتسابی نظام کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جس میں ہر کسی کا بلا تخصیص احتساب ہو سکے۔ تاہم نیا احتسابی نظام تجویز کرنے کے لئے دونوں ایوانوں میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندہ ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی۔ آخر کار اس کمیٹی نے ججوں اور جرنیلوں کو نئے احتسابی نظام کے دائرہ کار میں لانے کے خیال کو ترک کر دیا۔ جس پر کمیٹی غور کرتی رہی۔

موجودہ پارلیمانی کمیٹی میں اکثر اس سے قبل بلا امتیاز احتساب کے نظام پر آمادہ تھے لیکن اب ملک کی تمام صف اول کی سیاسی جماعتیں ردعمل سے بچنے کے لئے اپنے مطالبے سے دستبردار ہو گئیں۔ ستمبر 2015 میں سینیٹ نے مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف کی رپورٹ کی منظوری دی۔ سینیٹ کمیٹی نے موجودہ احتسابی نظام پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور یہ بات نوٹ کی گئی تھی کہ نیب جسے تحقیقات اور کرپشن کے خاتمے کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی، وہ ’’بلا امتیاز احتساب‘‘ کے اصول پر پوری نہیں اتر سکی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ نیب پراسیکیوشن کی شفافیت پر سوالات اٹھنے لگے۔

سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ جو ایوان بالا نے متفقہ طورپر منظور کی تھی، اس میں زور دیا گیا کہ اکا دکا کیسز میں نیب کے تحقیقاتی طریقہ کار کو قومی ذرائع ابلاغ نے معیاری انسانی حقوق اقدار کی خلاف ورزی قرار دیا۔ یہ تاثرات درست کرنے کی ضرورت تھی تاکہ احتسابی عمل کو اعتبار اور شفافیت پر مبنی بنایا جائے۔ سینیٹر ایم جاوید عباسی کی سربراہی میں سینیٹرز راجا ظفر الحق، اعتزاز احسن، زاہد خان، فروغ نسیم، سعید غنی، بابر اعوان، فاروق ایچ نائیک اور دیگر پر مشتمل کمیٹی نے مذکورہ رپورٹ تیار کی تھی۔

وفاقی حکومتی محکموں میں کرپشن کا ایشو اٹھایا گیا تھا اور اسے مئی 2015 میں کمیٹی کے حوالے کیا گیا تھا۔ جس نے کئی اجلاس کے بعد اپنی رپورٹ ترتیب دی۔ جس کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں: نیب اور ایف آئی اے کے حدود کار ایک دوسرے سے متجاوز ہیں۔ نیب آرڈیننس 1999 اور نہ ہی ایف آئی اے ایکٹ 1974 میں ان کے مینڈیٹ اور دائرہ کار میں فرق کو واضح کیا گیا۔ لہٰذا ابہام دور کرنے کے لئے ان دونوں اداروں کے قوانین کا ترجیحی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے۔ دونوں اداروں کی مربوط کارکردگی کے لئے سہل طریقہ کار کو یقینی بنایا جا سکے۔ وفاقی سطح پر ایک انٹی کرپشن ادارہ بنایا جانا چاہئے جسے انتظامی امور اور مالی خود مختاری حاصل ہو۔

تمام کے لئے ایسا احتسابی نظام ہونا چاہئے جس میں احتسابی ادارے کو اعلیٰ ترین سطح کے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خلاف تحقیقات کی آزادی ہو۔ اس نظام کو اپنے اختیارات انسانی حقوق کی بین الاقوامی اقدار اور ریاست کے احتسابی قوانین کے مطابق استعمال کرنے چاہئے۔ نیب کسی حد تک اس معیار پر پورا نہیں اترا۔ نیب پراسیکیوشن کی شفافیت پر سوال اٹھتے رہے۔ احتسابی عمل کو اعتبار بخشنے کے لئے ان تاثرات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ مخبری اور رائٹ ٹو انفارمیشن پر مناسب دستور سازی کی ضرورت ہے تاکہ شفافیت اوراحتساب کے حوالے سے قوانین پر وسیع تر اتفاق رائے پیدا ہو۔ تمام وفاقی محکموں میں عام آدمی کی آسانی اور شفاف خدمات کی فراہمی کے لئے آئی ٹی بنیادں پر ون ونڈو آپریشن سسٹم قائم کیا جانا چاہئے۔

کرپشن کے خلاف عام آگہی کے لئے بڑے پیمانے پر میڈیا مہم چلائی جائے۔ سرکاری دستاویزات کو ضرورت سے زیادہ خفیہ رکھنے کے رجحان کا تدارک کرنے کے لئے فیصلے کئے جائیں اور پالیسی مرتب کی جائے۔ سرکاری محکموں کے لئے عوامی خدمات کی فراہمی کی خاطر وقت کی حد مقرر کئے جانے کا طریقہ کار متعارف کرایا جائے سرکاری اداروں کے اندر ہی نگراں یونٹ قائم کئے جائیں ۔کابینہ سیکرٹریٹ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور فنانس ڈویژن کو ترغیبی بہتر کارکردگی اور پروفیشنل سول سروس کے لئے جامع سول سروس اصلاحات متعارف کرانی چاہئے۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

پانامہ لیکس کے بعد آئی سی ای جے نے پیراڈائز لیکس جاری کر دی

$
0
0

پاناما لیکس کو منظر عام پر لانے والے صحافیوں پر مشتمل بین الاقوامی کنسور شیم آئی سی آئی جے نے’’پیراڈائز لیکس‘‘ کے نام سے دنیا کی معروف شخصیات کی آف شور کمپنیوں سے متعلق تفصیلات جاری کی ہیں۔ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیشن جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے پاناما پیپرز جاری کرنے کے ایک سال بعد پیراڈائز پیپرز کے نام سے لیکس جاری کر دی ہیں جس میں پاکستان کے سابق وزیراعظم شوکت عزیز سمیت برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ اور امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن، ممتاز گلوکارہ میڈونا سمیت کئی معروف نام شامل ہیں۔ جن میں ایک کروڑ 34 لاکھ سے زائد دستاویزات سامنے آئی ہیں۔

پیراڈائز لیکس میں 25 ہزار سے زائد آف شور کمپنیوں کا انکشاف کیا گیا ہے. جبکہ لیکس کا بڑا حصہ کمپنی ایپل بائی کی دستاویزات پر مشتمل ہے۔ یہ دستاویزات سنگاپور اور برمودا کی 2 کمپنیوں سے حاصل ہوئیں، پیرا ڈائز پیپرز جرمن اخبار نے حاصل کیے اور آئی سی آئی جے کے ساتھ شیئر کیے۔ دستاویزات میں 180 ممالک کی 25 ہزار سے زائد کمپنیاں، ٹرسٹ اور فنڈز کا ڈیٹا شامل ہے جبکہ ان پیپرز میں 1950 سے 2016 کا ڈیٹا موجود ہے۔ اس تحقیقاتی کاوش میں 67 ممالک کے 381 صحافیوں نے حصہ لیا، پیراڈائز پیپرز میں جن ممالک کے سب سے زیادہ شہریوں کے نام آئے ہیں ان میں امریکا 25,414 شہریوں کیساتھ سرفہرست ہے، برطانیہ کے 12,707، ہانگ کانگ کے 6,120 ، چین کے 5,675 اور برمودا کے 5,124 شہری شامل ہیں۔ پیراڈائز لیکس میں جن پاکستانیوں کے نام آئے ہیں ان میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز نیازی شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے 2 ٹرسٹ سامنے آئے ہیں۔ سٹی ٹرسٹ لمیٹڈ سٹی بینک کی جانب سے بہاماس میں قائم کیا گیا۔ شوکت عزیز بطور بینک عہدیدار سٹی ٹرسٹ کے ڈائرکٹر بنے۔ انھوں نے انٹارکٹک ٹرسٹ بھی قائم کیا۔ ان کی اہلیہ رخسانہ عزیز، بچے عابد عزیز، ماہا عزیز اور ان کی بیٹیاں لبنیٰ خان اور تانیہ خان بینی فشری بنے۔ دستاویزات کے مطابق وزیر خزانہ بننے سے کچھ پہلے شوکت عزیز نے ڈیلاویر (امریکا) میں ٹرسٹ قائم کیا جسے برمودا سے چلایا جا رہا تھا۔ بطور وزیر خزانہ اور وزیراعظم شوکت عزیز نے کبھی یہ اثاثے ظاہر نہیں کیے۔ شوکت عزیز نے نیویارک سے اپنے وکیل کے ذریعے بتایا کہ انھیں ٹرسٹ پاکستان میں ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ ’سیٹلر‘ (Settler) تھے۔ ان کے مطابق ان کے بیوی بچوں کو بھی ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ بینی فشری تھے، بینی فشل اونر نہیں تھے۔

ایاز خان نیازی کے برٹش ورجن آئی لینڈ میں چار آف شور اثاثے سامنے آئے ہیں ان میں سے ایک اندلوسین ڈسکریشنری ٹرسٹ نامی ٹرسٹ تھا، باقی 3 کمپنیاں تھیں جن کے نام یہ تھے، اندلوسین اسٹیبلشمنٹ لیمیٹڈ، اندلوسین انٹرپرائسز لیمیٹڈ اور اندلوسین ہولڈنگز لمیٹڈ ہیں، ان سب کو 2010 میں اس وقت قائم کیا گیا تھا جب ایاز نیازی این آئی سی ایل کے چیئرمین تھے، ایاز نیازی کے دو بھائی حسین خان نیازی اور محمد علی خان نیازی بینی فشل اونر تھے جبکہ ایاز نیازی، انکے والد عبدالرزاق خان اور والدہ فوزیہ رزاق نے بطور ڈائریکٹر کام کیا، پیراڈائز پیپرز میں شامل سب سے بڑا بین الاقوامی نام برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوئم کا ہے۔

دستاویز کے مطابق ملکہ الزبتھ نے آف شور کمپنیوں میں کئی ڈالروں کی سرمایہ کاری کی، ان کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن، امریکی وزیر تجارت ولبر راس، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تیرہ قریبی ساتھی، کینیڈین وزیراعظم کے قریبی ساتھی و مشیران، اردن کی سابق ملکہ نور، یورپ میں نیٹو کے سابق کمانڈر ویزلے کلارک مائیکروسافٹ، ای بے، فیس بک، نائیکی اور ایپل جیسی بڑی کمپنیوں کے حوالے سے بھی اہم انکشافات کیے گئے ہیں جبکہ گلوکارہ میڈونا اور پاپ سنگر بونو کی بھی آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق پیراڈائز پیپرز میں دو بھارتی سیاستدانوں سمیت 714 بھارتی شہریوں اور کمپنیوں کے نام ہیں، ان میں ایک رکن پارلیمنٹ راوندر کشور سنہا ہیں جو ایک نیوز ایجنسی ہند سماچار کے چیئرمین بھی ہیں، دوسرے سیاستدان سول ایوی ایشن کے وزیر جے انت سنہا ہیں جب کہ روس کی دو سرکاری کمپینوں نے بھی آف شور کمپنیوں کے ذریعے ٹویٹر اور فیس بک میں سرمایہ کاری کی۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

دنیا تم سے پہلے بھی تھا بعد میں بھی رہے گا

$
0
0

کبھی کبھی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ جس زندگی میں مقصدیت اور خوشیاں بھرنے کے لیے ہم سب بیل بنے ہوئے ہیں اور بے سمت بگٹٹ دوڑ رہے ہیں ایسی زندگی کس کام کی۔ ہم سے بہتر فیملی لائف تو جانوروں کی ہے جو زیادہ تر وقت ایک ساتھ گذارتے ہیں اور انھیں کوئی عجلت بھی نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے ایجاد کردہ وقت اور تقسیمِ کار کے قیدی نہیں بلکہ فطرت کے بنائے ہوئے ٹائم ٹیبل کے تحت زندگی سے نبھا کر رہے ہیں۔ برا ہو ترقی کا جس نے اشیا اور لالچ تو عطا کر دی مگر کوالٹی ٹائم چھین لیا۔ اگر اپنی زندگی کا جائزہ لوں تو رائیگانی کا سوچ سوچ کے جھرجھری سی آجاتی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں اوسط عمر سڑسٹھ اڑسٹھ برس کے لگ بھگ ہے۔ چلیے اس اوسط کو ہم کھینچ تان کے ستر برس فرض کر لیتے ہیں۔ یعنی پچیس ہزار پانچ سو پچاس دن۔

اب ان ستر برسوں کو آپ مختلف خانوں میں تقسیم کر کے دیکھیں۔ لگ بھگ ایک تہائی عمر یعنی تئیس برس نیند میں گذر جاتے ہیں۔ باقی سینتالیس میں سے اکیس برس بیٹھ کر کام کرنے ، ٹی وی دیکھنے ، سستانے ، فون یا انٹرنیٹ پر ، جلنے کڑھنے یا تصوراتی دنیا میں صرف ہو جاتے ہیں۔ اب بچے چھبیس برس۔ ان میں سے اوسطاً پندرہ برس ہوش سنبھالنے سیکھنے سکھانے اور کام کی تلاش میں گذر جاتے ہیں۔ اب باقی رھ گئے گیارہ برس۔ ان گیارہ برسوں میں سے بہت ہی کوئی طرم خان ہوا اور اسے زندگی کی مشقت نے مہلت دی تو چار برس اپنی مرضی کے کام ( لکھنا ، پڑھنا ، کھیلنا ، سیاحت ، فنونِ لطیفہ ) میں بسر کرنے کا موقع مل گیا۔ مگر یہ سب کرنا ہمیں اکثر تب یاد آتا ہے جب بقول ساقی امروہوی

میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گم تھا
مگر اب شام ہوتی جا رہی ہے

یہ زندگی جسے ہم یادادشت کی کمزوری کے سبب لافانی سمجھ کے جینے کی کوشش کرتے ہیں کیا واقعی ہم جینے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر زندگی ہمیں بسر کرتی ہوئی سامنے سے گذر جاتی ہے۔ آئن سٹائن کی طرح کتنے لوگ سوچتے ہیں کہ جسے زندگی سے سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ دن چوبیس گھنٹے کا کیوں ہے، اڑتالیس کا کیوں نہیں ؟ ہم میں سے اکثریت ریاض ختم کی طرح سوچتی ہے۔ یعنی کب شام ہو گی، کب رات ہو گی، کب نیا دن نکلے گا اور کب گذرے گا۔ ختم یوں نام پڑا کہ اس نے پوری کارآمد زندگی یوں گذار دی کہ ایک تھڑے پر بیٹھا آدم شماری کرتا رہتا اور دھوپ ستانے لگتی تو سامنے والے تھڑے پر منتقل ہو جاتا۔ ہر آتے جاتے سے کچھ کچھ دیر بعد ٹائم پوچھتا رہتا۔ کوئی کوئی جگت بھی لگا جاتا کہ بھائی ختم تجھے ٹائم پوچھ کے کرنا کیا ہے ؟

ہم میں سے کتنے سوچتے ہیں کہ جتنی توانائی ہم اپنے ناکارہ پن کے دفاع میں صرف کرتے ہیں، اس سے آدھی توانائی میں کوئی ڈھنگ کا کام بھی تو کر سکتے ہیں۔ مشفق دوست اور شاعر مرحوم جمال احسانی اکثر کہا کرتے تھے کہ جتنا دماغ ہم خود کو غریب رکھنے کے لیے لڑاتے ہیں اس سے آدھی محنت میں خوشحال بھی ہو سکتے ہیں۔ کہتے تھے کہ سب سے زیادہ محنتی بھکاری ہوتا ہے۔ صبح سے شام تک اپنی جاب کرتا ہے، پھر بھی بھکاری کہلاتا ہے۔ صرف اس لیے کہ اس کے پاس اس حالت سے نکلنے کے لیے کوئی آئیڈیا نہیں ہوتا۔ جیسے کولہو کے بیل کے پاس کوئی آئیڈیا نہیں ہوتا۔ مگر کیا ضروری ہے کہ ہر کسی کے پاس کوئی نہ کوئی آئیڈیا ہو اور وہ پورا بھی ہو جائے۔ تو پھر کیا کریں ؟

ہم اپنے بچوں کو کتنا معیاری وقت دیتے ہیں اور سنگل فیملیوں کے انٹرنیٹ زدہ بچے آپ کے ساتھ کتنا معیاری وقت گذارتے ہیں۔ ہم جن بہن بھائیوں کے ساتھ بچپن میں دن رات بسر کرتے تھے اور کبھی تصور بھی نہ کرتے تھے کہ سفاک زندگی کس کو کہاں لے جائے گی۔ ان کا ایک دوسرے سے آج کتنا رابطہ ہے ؟ دن میں کتنا ان کا خیال یا تصویر یا ان کے ساتھ گذرا کوئی لمحہ بلبلے کی طرح دل میں ابھرتا ہے اور پھوٹ جاتا ہے ؟ جو ماں آپ کے ساتھ تب سے ہے جب آپ خود سے کروٹ بھی نہیں لے پاتے تھے اور جو باپ آپ کے ساتھ تب سے ہے جب آپ نے اس کی انگلی پکڑ کے پہلا قدم بھرا تھا۔ آج ان کے ساتھ کس قدر کمیونیکیشن باقی ہے (میں سلام دعا اور عزت افزائی اور سرجھکا کے بات سن لینے کی بات نہیں کر رہا۔ کمیونیکیشن کی بات کر رہا ہوں )۔

کیا آج بھی آپ کے والدین آپ سے بے ساختہ کوئی بھی بات کرنے کا حق استعمال کرتے ہیں یا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کب آپ ان کے پاس آ کر بیٹھتے ہیں یا کب آپ کا موڈ اتنا اچھا ہوتا ہے کہ وہ آپ سے دل کی بات کہنے کی جرات کر سکیں۔
سال میں تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں۔ گذشتہ برس جتنے گھنٹے آپ نے اپنی فیملی کے ساتھ بنا کسی دباؤ کے ہنسی خوشی گذارے ان کو جوڑ کر دنوں میں تبدیل کرنے کا تجربہ کیجیے۔ اگر تین سو پینسٹھ میں سے پانچ دن بھی نکل آئے تو میں آپ کے رویے پر رشک کروں گا۔ ( سب سے زیادہ معیاری وقت جرمن اپنے خاندانوں اور دوستوں کے ساتھ گذارتے ہیں یعنی اوسطاً دس روز سالانہ)۔

آپ بھلے امیر ہوں کہ غریب۔ فراغت خوشی دیتی ہے مگر ضرورت سے زیادہ فراغت زنگ آلود ہوتی ہے اور خالی دماغ میں رائیگانی ، نکتہ چینی ، منفیت اور حسد کے کیڑے مکوڑے گھر بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ ذرا بھارت اور پاکستان میں عدالتی ماحول کا جائزہ لیں۔ سب سے زیادہ دیوانی مقدمات ان سائلین کے ہوں گے جن کی عمر پچاس برس یا زائد ہو گی۔ جوانوں کو اتنی فرصت کہاں کہ ہر پھڈے میں ٹانگ اڑانے، میم میخ نکالنے یا اذیت پسندی کے لیے وقت نکل پائے۔چھوٹے شہروں میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جن کی زندگی میں مقدمہ ہی مصروفیت ہے۔ آپ وکیلوں کے آس پاس یا عدالتی منشیوں کے ساتھ سر جوڑ کے کھسر پھسر کرنے یا عدالتی کینٹین میں ہاف سیٹ چائے پر آٹھ سے تین بجانے والوں کے چہرے دیکھتے چلے جائیں۔ جوان چہرے اقلیت میں ہی نظر آئیں گے۔

کہنا شائد میں یہ چاہ رہا ہوں کہ دائمی زندگی کے چکر میں عارضی زندگی تباہ نہ کریں اور بطور انسان آپ کو جو چند کارآمد سال قدرت عطا کرتی ہے انھیں اپنی بساط کے مطابق معیاری اور مثبت انداز میں کھپانے اور اپنوں اور دوسروں کے لیے راحت کن شخصیت بننے میں لگائیں۔ اس عیاشی کے لیے بے تحاشا وسائل یا پیسہ ہونا شرط نہیں۔ محلے میں میرا سب سے اچھا دوست خلیل موچی ہے۔ میں اس کی چھوٹی سی دنیا کی سیدھی سادی گفتگو کی جھونپڑی میں کچھ دیر بیٹھ کر اس کے بے ضرر قصے اور زمانے کے بارے میں اس کا نقطہِ نظر بلا ٹوکے سنتا رہتا ہوں اور وہ جوتے بھی گانٹھتا رہتا ہے۔ آج تک خلیل نے کسی کے بارے میں کوئی غیبت کی اور نہ ہی اپنی محرومیوں کا چارٹ اپنے چہرے پر چسپاں کیا۔ اسی لیے پینسٹھ برس کی عمر میں بھی اس کا چہرہ مسکراہٹ کی گرمی سے تمتماتا رہتا ہے۔ صحبا دنیا تم سے پہلے بھی تھا بعد میں بھی رہے گا۔ رونا دھونا تمہارا عمر نہیں بڑھا سکتا کم کر سکتا ہے تو پھر ہنس بول کے سفر کاٹنے میں کیا مسئلہ ہے۔ 

وسعت اللہ خان
 

حضرت شاہ ولی اللہؒ کے حالاتِ زندگی

$
0
0

حضرت شاہ ولی اللہؒ کی تحریک کی ابتدا غدر (1857ء کی بغاوت) سے کافی قبل ہوتی ہے۔ فروری 1707ء میں اور نگ زیب کے انتقال کے بعد سے ہی مغلیہ سلطنت کا زوال ہونے لگتا ہے۔ ملک کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر تخریبی عناصر سر اٹھانے لگتے ہیں۔ یورپ کی سفید فام طاقتیں جن کو اورنگ زیب کے آباؤ اجداد نے مہربانیوں اور عنایتوں سے نوازا تھا، جن کو شاہ جہاں نے اپنے غیض و غضب کا شکار بھی بنایا تھا، اب ان کو تجارت کی آزادی مل چکی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ تجارت کے ساتھ اب ان کا عمل دخل ملک کے سیاسی معاملات میں بھی ہونے لگا۔ صوبوں کے گورنر خودمختار ہونے لگے۔ مرہٹوں کی طاقت روز بروز بڑھنے لگی۔ دہلی کے شمال میں روہیلوں کی حکومتیں قائم ہونے لگیں۔

مغرب میں جاٹوں نے اپنے اثرات پھیلائے سب کے سب آپس میں لڑتے مرتے رہتے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے۔ ایسے حالات میں 1739ء میں نادر شاہ کا حملہ ہوا جس نے دہلی میں قتل و خون کا بازار گرم کر دیا۔ اس کے بعد 1747ء میں احمد شاہ ابدالی کے حملے شروع ہوئے اور لوٹ مار ہوئی۔ احمد شاہ ابدالی کے حملے کے دس سال بعد 1757ء میں بنارس کی مشہور لڑائی ہوئی۔ اس کے بعد کئی حملے احمد شاہ ابدالی کے اور ہوئے جس نے دن بدن مرکز کی حکومت کو اور کمزور کر دیا اور خزانے لوٹے گئے۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد سے پچاس سال کی میعاد میں متعدد بادشاہ تخت پر بٹھائے گئے اور اتارے گئے۔ ملک کے ان سیاسی حالات نے اقتصادی اور معاشی حالات پر بہت اثر ڈالا۔ ہندوستان ہچکولے کھانے لگا۔ چند ہی برسوں میں اس کی حالت ایک دم سے گر گئی۔ مذہب کی اہمیت گھٹتی چلی گئی۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ (1762ئ۔ 1702ء ) ٹھیک اسی دور کے پیداوار تھے۔ انھوں نے یہ تمام زوال اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ وطن کو اجڑتے دیکھا، قوم کو بکھرتے دیکھا، مذہبی انتشار دیکھا اور مذہب کے دشمنوں کا بڑھتا ہوا اقتدار بھی دیکھا۔ خدا نے ایک درد مند دل اور سنجیدگی سے سوچنے والا دماغ دے رکھا تھا۔ بس اٹھ کھڑے ہوئے اور قوم کی مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور اخلاقی اصلاح کا سنجیدگی سے منصوبہ بنایا۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کی قوموں میں مذہب سے متعلق سچا جذبہ اٹھتا چلا جا رہا ہے جب کہ مذہبی جذبہ ہی انسان کوانسان بناتا ہے۔ اور یہی جذبہ اپنے ملک اور قوم کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ 

اقتصادی اور معاشی توازن بخشنے میں بھی یہی جذبہ کام کرتا ہے۔ اور مذہبی جذبہ جبھی ختم ہوتا ہے جب اس کے ماننے والے معاشی و اقتصادی بحران کا شکار ہوں گے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے مسلمانوں کو مذہبی اور اقتصادی اعتبار سے پستے دیکھا، جس کے سو فیصدی ذمہ دار انگریز تھے۔ لہٰذا سات سمندر پار سے آئی ہوئی اس غیر ملکی حکومت کوحضرت شاہ ولی اللہؒ سخت ناپسند کرتے تھے۔ انگریزوں نے سب سے زیادہ اثر مسلم تجاّر پر ہی ڈالا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کو اس طبقہ کی تباہی کا سخت افسوس تھا کیونکہ معیشت کا انحصار اسی طبقہ پر ہوتا ہے۔ اسی درمیان آپؒ نے 1728ء میں حجاز کا سفر فرمایا۔ وہاں دو سال قیام کے بعد یورپ اور ایشیا میں رہ کر تفصیلی معلومات حاصل کیں وہاں کے حالات کو پڑھا۔ غور کیا۔

تمام عرب ممالک میں مسلمانوں کا پرچم لہرا رہا تھا۔ وہاں سے واپسی پر آپؒ ایک نیا ذہن، نئی بیداری اور نئے خیالات لے کر آئے۔ واپس آتے ہی انھوں نے اقتصادی اور سیاسی اصول مرتب کیے، جس کا اظہار عوامی طبقہ پر تھا۔ ان لوگوں کے حق میں تھا جو محنت کرتے ہیں۔ پسینہ بہاتے ہیں۔ اس حکومت اور اس سماج کی بے حد برائی کی جو مزدوروں اور کاشتکاروں پر بھاری ٹیکس لگائے، انھوں نے اسے قوم کا دشمن قرار دیا۔ علمی اصلاح کے لیے قرآن عظیم کی حکمت عملی کو اس کا معجزہ ثابت کرنے کا عنوان بنایا اور دولت کے تمام اخلاقی اور عملی مقاصد کا مرجع اور مدار اقتصادی عدم توازن کو قرار دیا۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ کے یہ خیالات تیزی سے پھیلے اور رفتہ رفتہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے سماجی اصلاحات میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک صوفی تھے۔ ان کے تمام خیالات میں تصوف کار فرما نظر آئے گا۔ لیکن یہ تصوف ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ بقول ظہیر احمد صدیقی : ’’شاہ ولی اللہ کا رجحان عام طور سے تصوف کی طرف تھا۔ ان کے نزدیک علم و عمل کے صحیح امتزاج کا نام تصوف ہے۔ وہ نفیِ خودی کے سخت مخالف تھے۔ ان کی تحریروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جہاں انھوں نے صوفیہ کی قابلِ اعتراض باتوں کو دیکھا ان پر معترض ہوئے۔‘‘ انگریزوں کے خلاف جب یہ آوازیں تیزی سے اٹھیں تو انگریزوں نے اسے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ تحریک ایک انقلاب آمیز جذبات لے کر بلند ہوئی۔

بادشاہ کی طاقت اگرچہ کمزور تھی لیکن دو سو سالہ دبدبے کے اثرات ابھی تک تھے۔ صوبوں کے گورنر خود مختار ہو گئے تھے۔ مرہٹے بغاوت کر رہے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی فتح کی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ایسے حالات میں حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اپنی آواز اٹھائی۔ نوابوں، تمام صاحبانِ اقتدار کی مذمت کی۔ اور تیز آندھی میں انقلاب کا ایک چراغ روشن کرنے کی کوشش کی۔ بقول مولانا محمد میاں ’’اٹھارہویں صدی عیسوی کے ہندوستان میں ملک کل نظام یعنی مکمل اور ہمہ گیر انقلاب کا نصب العین ایک چراغ تھا جو شہنشاہیت، شاہ پرستی اور اجارہ داری کی طوفان انگیز آندھیوں میں روشن کیا گیا تھا۔‘‘ 1762ء میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کا انتقال ہو گیا۔

لیکن وہ اپنی ذات اور صفات سے ہندوستان میں ایک تحریک کی بنیاد ڈال گئے۔ مولانا عبیداللہ سندھی، جو حضرت شاہ ولی اللہؒ کے پیرو تھے، انھوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حقیقتاً حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ایک مجاہدانہ زندگی گزاری۔ قوم کی اصلاح کے سلسلے میں ایک تحریک کی بنیاد ڈالی، جوان کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے آگے جاری رکھی۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے بعد یہ ذمہ داری ان کے بیٹے شاہ عبد العزیز نے سنبھالی۔

علی احمد فاطمی


 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live