Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

کیا متحدہ مجلس عمل بحال ہو جائے گی ؟

0
0

پاکستان کی بڑی دینی جماعتوں نے اپنے اتحاد 'متحدہ مجلسِ عمل' (ایم ایم اے) کی بحالی یا اسی نوعیت کے کسی دوسرے اتحاد کے قیام پر اتفاق کیا ہے جس کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ کیا یہ اتحاد ماضی کی طرح انتخابی کامیابی حاصل کر سکے گا یا نہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق، جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا انس نورانی، جمعیتِ اہلحدیث کے سربراہ علامہ ساجد میر اور دیگر مذہبی سیاسی رہنمائوں نے اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں دینی جماعتوں کے اتحاد کے قیام پر اتفاق کیا تھا۔

ان جماعتوں کے رہنماؤں کے مطابق آئندہ چند روز میں لاہور میں ایک اجلاس ہو گا جس میں ایم ایم اے کی باقاعدہ طور پر بحالی یا تمام مذہبی جماعتوں پر مشتمل ایک وسیع تر اتحاد کے قیام کا اعلان کیا جائے گا۔ اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعتِ اسلامی کے رہنما موجودہ حالات میں متحدہ مجلس عمل کی بحالی یا اسی قسم کے کسی دوسرے اتحاد کی تشکیل کے امکانات پر بظاہر خوش ہیں۔ لیکن دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما اور تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ اس اتحاد کی ماضی کی کارکردگی اور ملک کے بدلتی ہوئی صورتِ حال میں مذہبی جماعتوں کے کسی اتحاد کو وہ پذیرائی حاصل نہیں ہو سکتی جو عوام نے 2002ء کے عام انتخابات میں ایم ایم اے کو بخشی تھی۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات عبدالجلیل جان نے مذہبی جماعتوں کے قائدین کے مابین والی ملاقات کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ ملکی اور بین الاقوامی حالات کے پیشِ نظر ملک کی مذہبی سیاسی جماعتوں کو متحد ہونا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2002ء کی نسبت موجودہ حالات نہایت گھمبیر ہیں کیونکہ اس وقت تو امریکہ اور اس کی اتحادی افواج صرف افغانستان میں داخل ہوئی تھیں مگر اب تو پاکستان کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2002ء کی طرح 2018ء کے انتخابات میں بھی اس نئے اتحاد کو پذیرائی حاصل ہو گی۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اتحاد کے باقاعدہ اعلان کے بعد کسی بھی رکن جماعت کو انفرادی طور پر سیاسی فیصلے کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ایم ایم اے نے 2002ء کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی تھی جب کہ یہ اتحاد قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت بن کر ابھرا تھا جس کے باعث اس کے پاس قائدِ حزبِ اختلاف کا اہم عہدہ رہا تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخارحسین کا کہنا ہے کہ 2002ء میں بھی مذہبی جماعتیں ایک غیر ملکی ایجنڈے کے تحت متحد ہوئی تھیں اور اب بھی غیر ملکی قوتوں نے جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان پر نظریں مرکوز کر رکھی ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر آئندہ عام انتخابات میں انہیں مذہبی جماعتوں پر مشتمل کوئی اتحاد بنتا دکھائی نہیں دیتا۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کو متحدہ مجلسِ عمل کے غیر فعال ہونے کے بعد زیادہ فائدہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سے ملا ہے۔ ان کے بقول جماعت اسلامی پاکستان تحریکِ انصاف کی اتحادی ہے اور پاکستان تحریکِ انصاف کی دشمنی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ واضح ہے۔ لہذا ان حالات میں ان دونوں جماعتوں کا ایک ہی فورم پر متحد ہونا بہت مشکل ہے۔ خیبر پختونخوا میں اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ہے جس کے رہنما اور صوبائی سیکرٹری اطلاعات شاہ فرمان کہتے ہیں کہ قومی سیاست میں سیاسی جماعتوں کا اتحاد بنانا ان کا حق ہے۔

تاہم 2002ء سے2007ء تک متحدہ مجلس عمل کے صوبائی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں شاہ فرمان کا کہنا تھا کہ عوام اس بارے میں بہتر فیصلہ دے سکتے ہیں کیوں کہ ان کے بقول 2008ء اور 2013ء کے عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے بارے میں عوامی رائے زیادہ تسلی بخش نہیں تھی۔ تجزیہ کار بریگیڈیر (ر) محمود شاہ کا کہنا ہے کہ ایم ایم اے بحال ہو یا مذہبی جماعتوں پر مشتمل کوئی نیا اتحاد بنے، اسے 2002ء کے عام انتخابات کی طرح پذیرائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ملکی اور بین الاقوامی حالات تیزی سے تبدیل ہوتے جا رہے ہیں.

شمیم شاہد

بشکریہ وائس آف امریکہ


حکومت اور فوج کے بیانات، تعلقات میں کشیدگی کے عکاس

0
0

پاکستان میں فوج اور حکومت کے درمیان مختلف معاملات پر بیان بازی کے بعد صورتحال ایک بار پھر کشیدہ نظر آ رہی ہے۔ تازہ ترین معاملہ ملک کی اقتصادی حالت کا ہے جس کے بارے میں وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے واشنگٹن سے بھیجے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو معیشت پر بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہیے۔ ایک روز قبل ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ایک نجی ٹی وی چینل پر گفت گو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملکی معیشت کی حالت اگر بری نہیں تو بہت اچھی بھی نہیں ہے۔ اس معاملے پر رد عمل دیتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو معیشت پر بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ پاکستان کی معیشت مستحکم ہے اور غیر ذمہ دارانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر کر سکتے ہیں جب کہ آئی ایم ایف پروگرام پر جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ 2013 کے مقابلے میں معیشت بہت بہتر ہے جب کہ ملک میں توانائی کے منصوبوں اور بجلی کی فراہمی سے صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری سے درآمدات پر دباوٴ پڑا ہے مگر یہ قابل برداشت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے ترقیاتی بجٹ پر عمل ہو رہا ہے، ٹیکسوں کی وصولی میں دو گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے جب کہ سیکیورٹی آپریشنز کے لئے بھی وسائل فراہم کئے جا رہے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کے علاوہ دو روز قبل ایف پی سی سی آئی اور آئی ایس پی آر کے اشتراک سے کراچی میں ایک سیمینار ہوا تھا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے خطاب کیا اور ملکی معیشت کی مشکل صورتحال پر بات کی تھی۔

اس سے قبل احتساب عدالت میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر وزیرداخلہ نے رینجرز کے رویے پر سخت برہم ہو کر ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ علاوہ ازیں فوج کے ترجمان نے رکن قومی اسمبلی محمد صفدر کی طرف سے احمدیوں کو افواج میں بھرتی کرنے سے متعلق دیے گئے بیان کی بھی نفی کی اور میجرجنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پاک فوج میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جو "جب وردی پہن لیتے ہیں تو صرف پاکستانی بن جاتے ہیں۔"

وزیرداخلہ کے ڈی جی آئی ایس پی آر کے "خلاف"بیان کے بعد حکومت مخالف جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی فوری ایکشن میں نظر آئی اور کچھ ہی دیر بعد اس کے ایک مرکزی راہنما اسدعمر کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ دوسروں کو نصیحتوں کی بجائے اپنا قبلہ درست کریں تو بہتر ہو گا۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ "طائر لا ہوتی ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریز ہونے جا رہا ہے، تجارتی خسارہ ریکارڈ پر ریکارڈ توڑے جا رہا ہے، رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ کا تجارتی خسارہ گزشتہ برس کے ریکارڈ خسارے سے بھی 20 فیصد زیادہ ہے۔"

ایسے مواقع پر بیان دینے میں عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید بھی پیچھے نہ رہے اور فوراً ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ملک کا وزیر داخلہ آئی ایس پی آر کے خلاف بیان دے رہا ہے۔ "صاف صاف نہیں بتاتے کہ آرمی چیف کا بیان چبھا ہے۔" اس جاری بیان بازی سے ظاہر ہورہا ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ دونوں ادارے اپنے اندر موجود اختلافات کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کر رہے اور میڈیا میں لگاتار اس کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ سینئر صحافی انصار عباسی نے اس بارے میں اپنے ٹوئٹر پیغام میں اس صورتحال پر وارننگ لکھ کر کہا کہ چیزیں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہیں، بہتری کا سوچنا چاہیے، پاکستان کا سوچنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ "میری سول اور ملٹری قیادت سے درخواست ہے کہ وہ مل کر بیٹھیں اور معاملات کو حل کریں، کھلے عام ایسی لڑائی سے صرف پاکستان کو نقصان ہو گا۔" انصار عباسی نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کریں اور بند کمرے میں بیٹھ کر تمام معاملات پر بات کریں۔

علی رانا

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

پاکستان میں بڑھتی گرمی، مستقبل میں درجہ حرارت کہاں پہنچے گا ؟

0
0

رواں برس جنوبی ایشیائی ملکوں میں شدید گرمی نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا۔ اس مناسبت سے ماحولیاتی سائنسدان پہلے ہی اس خطے کے ممالک کو بڑھتی گرمی کے حوالے سے متنبہ کر چکے ہیں۔ ماحول پر نگاہ رکھنے والے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جس طرح زمین کا ماحول بتدریج گرم ہو رہا ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سن 2100 میں جنوبی ایشیائی ملکوں کے بعض حصے انسانی آبادیوں سے محروم ہو جائیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی صحرائی پٹی کے ایک کونے پر آباد شہر سبّی کو ایسے ہی حالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ پاکستانی صوبے بلوچستان کے اس شہر سبی میں رواں برس درجہٴ حرارت باون ڈگری سیلسیئس سے تجاوز کر گیا ہے اور سائنس دانوں کا کہنا درست دکھائی دیتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں انسانوں سے آباد کئی علاقے ویران ہو جائیں گے۔

سبّی کے علاقے میں بجلی کی عدم موجودگی میں ڈونکی فین دن بھر اور ساری رات انسانوں کو راحت پہنچانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ماحولیاتی ریسرچرز کی جانب سے یہ انتباہ سائنسی معلومات کے جریدے ’سائنس ایڈوانسز‘ میں شائع ہوا ہے۔ محققین کے مطابق جنوبی ایشیا کے وہ علاقے جہاں، آج کل سخت گرمی کے دوران شدید حبس کی کیفیت میں بھی عام لوگ سایہ دار جگہ اور مناسب حفاظتی انتظامات کے ساتھ گزر بسر کر سکتے ہیں، اُس وقت یہ ممکن نہیں ہو گا جب درجہٴ حرارت میں پانچ یا چھ درجے کا اضافہ ہو جائے گا پھر انسانوں کو سائے میں بھی جینا مشکل ہو جائے گا۔

ریسرچرز کا کہنا ہے کہ تقریباً پچاس ساٹھ برس بعد جنوبی ایشیائی خطے کی تیس فیصد آبادی کھولتے پانی جتنے درجہٴ حرارت کا سامنا کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ برصغیر پاک و ہند کے گنجان آباد دیہات سب سے زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ اتنے شدید گرم موسم میں زندگی کا بچنا محال ہو جائے گا۔ محققین کا کہنا ہے کہ ہولناک گرم لُو اگلی دو تین دہائیوں میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش میں چلنا شروع ہو جائے گی اور اناج کے لیے زرخیز دریائے گنگا کا میدانی علاقہ بھی شدید متاثر ہو سکتا ہے۔
 

لیاقت علی خان : ملت کا قائد، ملت کا محسن

0
0

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اولین سربراہ حکومت اور قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست شہید ملت، قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1895ء کو کرنال کے ایک زمیںدار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کی جائے پیدائش آج کل بھارتی ریاست ہریانہ میں شامل ہے۔ اُن کے والد کا نام مع خطابات خان رکن الدولہ شمشیر جنگ، نواب بہادر رستم علی خان تھا، جب کہ والدہ کا نام محمودہ بیگم تھا۔ یوپی (موجودہ اُتر پردیش) اور کرنال (ہریانہ) میں زمین داری کے پیشے سے منسلک یہ خاندان کوئی پانچ سو برس قبل ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان آیا تھا۔ قائد ملت کا سلسلۂ نسب ایران کے مشہور بادشاہ نوشیروان عادل سے ملتا ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ انہیں بجا طور پر محسن ملت کا خطاب بھی دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بچپن اپنی آبائی جاگیر میں گزارا جو یوپی میں واقع تھی اور اپنی والدہ محترمہ کی نگرانی میں قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنے وقت کی مشہور درس گاہ محمڈ ن اینگلو اوریئنٹل (MAO) کالج علی گڑھ سے سیاسیات میں گریجویشن اور 1918 ء میں بیچلر آف لا کی سند حاصل کی۔ اس کالج کو بعد ازاں جامعہ کا درجہ ملا، یوں سرسید احمد خان کا دیرینہ خواب پورا ہو گیا۔

قائد ملت لیاقت علی خان نے 1918ء میں اپنی کزن جہانگیرہ بیگم سے شادی کی اور پھر اپنے والد کے انتقال کے بعد، قانون کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان تشریف لے گئے۔ 1921ء میں آکسفورڈ کے ایگزیکٹر (EXECTER) کالج سے قانون کے شعبے میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے والے نوابزادہ لیاقت علی خان نے اِنر ٹیمپل (INNER TEMPLE) اور 1922ء میں بارایٹ لا کیا۔
علی گڑھ کے یہ لائق فائق فرزند ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے خواہش مند تھے۔ حسن اتفاق سے انہیں آکسفورڈ کی انڈین مجلس کا اعزازی خازن منتخب کر لیا گیا اور یوں اُن کی قومی خدمات کا آغاز ہوا۔ بعض کتب میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ وہ اس مجلس کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔ بہرحال قانون کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد لیاقت علی خان 1923ء میں ہندوستان واپس تشریف لے آئے۔ انہیں انڈین نیشنل کانگریس نے رکنیت کی پیش کش کی جو انہوں نے رَد کر دی اور مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔
مئی 1924ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس میں دیگر راہ نماؤں کے علاوہ لیاقت علی خان بھی شریک تھے۔ 

انہیں 1926ء میں مظفر نگر، یوپی کے حلقے سے یوپی کی مجلس قانون ساز میں مسلم نمائندہ چنا گیا۔ یہ گویا اُن کی عملی سیاست کا آغاز تھا۔ اُن کی کامیابی اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ انہیں 1932ء میں یوپی کی مجلس قانون ساز کا بِلا مقابلہ نائب صدر منتخب کیا گیا ، وہ 1940 ء تک اس مجلس سے منسلک رہے اور پھر مرکزی مجلس قانون ساز ( CENTRAL LEGISLATIVE COUNCIL) کے رکن منتخب ہوئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرکزی سطح پر مقننہ میں اہم کردار ادا کرنے والے یہ عظیم راہ نما 1928ء میں کلکتہ کے قومی کنوینشن میں شریک ہونے والے مسلم لیگی وفد کے رکن بھی تھے۔ یہ کنوینشن موتی لال نہرو رپورٹ پر غوروخوض کی غرض سے منعقد کیا گیا تھا۔ 1932ء میں لیاقت علی خان کی نجی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ انہوں نے ایک خاتون کو، اُن کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد، ’رعنا‘ نام دیا اور اُن سے شادی کر لی۔ یہ خاتون تعلیم اور معاشیات کے شعبوں میں ممتاز تھیں اور پھر تحریک پاکستان میں انہیں بیگم رعنا لیاقت علی کے نام سے شہرت ملی۔

برصغیر کی سیاسی تاریخ میں دوسری گول میز کانفرنس کے بعد، ایک نمایاں تبدیلی یہ ہوئی کہ قائداعظم محمد علی جناح نے سیاسی حالات کی ابتری دیکھتے ہوئے لندن میں مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا اور پری وی کونسل (PRIVY COUNCIL) میں وکالت کی پریکٹس کرنے لگے۔ 1928ء سے 1937ء تک مسلمانان ہند کی سیاسی صورت حال پُرآشوب رہی، مسلم لیگ میں دھڑے بندی اور دیگر جماعتوں کے معرض وجود میں آنے کے سبب، مسلمانوں کا سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہو گیا تھا۔ ایسے میں اُن کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا ممکن نہ رہا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مولانا محمد علی جوہرؔ جیسے جری اور بے باک قائد بھی اسی دور میں (چارجنوری سن انیس سو اکتیس کو ) رحلت فرما گئے۔ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ 1933ء میں لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت لندن پہنچے اور قائداعظم سے ملاقات میں لیاقت علی خان نے اُن سے وطن واپسی کا تقاضا کیا۔ لیاقت علی خان نے کہا کہ ایسے وقت میں مسلمانوں کو آپ جیسے قائد کی ضرورت ہے جسے خریدا نہ جا سکے۔ آپ ہی مسلم لیگ کو نئی زندگی دے سکتے ہیں۔ چناں چہ 1934ء میں قائداعظم واپس ہندوستان تشریف لائے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی۔ ایسے میں ہندوستان کی سیاسی فضاء اس نعرے نما شعر سے گونج اٹھی:

ملا ہے وراثت میں تختِ سیاست
محمد علی سے محمد علی کو!

1935ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ، مسلم اکثریتی علاقوں سے بوجوہ خاطر خواہ کام یابی حاصل نہ کر پائی تو پنڈت جواہرلال نہرو نے کہا : ’’ہندوستان میں دو ہی جماعتیں ہیں…ایک کانگریس، دوسری حکومت۔‘‘ اس پر قائداعظم نے برملا تصحیح کی: ’’نہیں ! ایک تیسری جماعت بھی ہے ….مسلم لیگ!‘‘ لیاقت علی خان نے مسلم لیگ کی تنظیم نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بارہ اپریل 1936ء کو بمبئی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں انہیں قائداعظم کی تجویز پر، بِلامقابلہ، اعزازی جنرل سیکریٹری منتخب کرلیا گیا۔ 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے گویا نیا جنم لیا۔ اب اس کی منزل آزادی تھی۔ پورے ہندوستان میں باقاعدہ رکنیت اور تنظیم نو کا سلسلہ شروع ہوا تو بطور جنرل سیکریٹری لیاقت علی خان نے اس میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1938ء میں پٹنہ میں منعقد ہونے والے اجلاس میں قائداعظم کے پُرجوش خطاب نے مسلم لیگ کی بطور نمائندہ مسلمانان ہند کامیابی کی راہ ہموار کی۔ ہوتے ہوتے 1940ء آپہنچا۔ قائداعظم نے اپنی مصروفیات کے پیش نظر، لیاقت علی خان کو پارلیمان میں اپنا نائب مقرر کر دیا۔ 

اس اہم دور میں وہ بہ یک وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری، ڈپٹی پارلیمانی لیڈر، ایکشن کمیٹی کے کنوینر(CONVENOR) ، مرکزی پارلیمانی بورڈ کے سربراہ اور روزنامہ ڈان کے Managing Director جیسے اہم عہدوں پر فائز تھے۔ 1942ء میں جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی، کانگریس نے ’ہندوستان چھوڑدو‘ (QUIT INDIA MOVEMENT) کی قرارداد منظور کی تو اُس کے تمام اہم راہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایسے موقع پر بھولا بھائی ڈیسائی جیسے بعض راہنما اس قرارداد کی مخالفت اور اس مسئلے سے الگ تھلگ رہنے کے سبب آزاد رہے۔ چناں چہ لیاقت علی خان نے نجی حیثیت میں، ڈیسائی سے دس نکاتی معاہدہ کیا جو نظریہ پاکستان کے حق میں بڑی پیش رفت کا باعث ثابت ہوا۔

ادھر گاندھی جی نے بھی جیل سے رہا ہونے کے بعد قائد اعظم سے مذاکرات کیے مگر کئی دن بعد انہیں ناکام قرار دیا۔ اس تفصیل سے قطع نظر، کانگریس نے بالواسطہ طور پر مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت تسلیم کر لی۔ اس ضمن میں قائد ملت کا کردار ناقابل فراموش تھا۔ 1943ء میں قائداعظم نے لیاقت علی خان کی خدمات سراہتے ہوئے انہیں اپنا دست راست قرار دیا۔ وہ 1945ء میں میرٹھ کے حلقے سے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اسی برس منعقد ہونے والی شملہ کانفرنس میں مسلم لیگ کے وفد کے رکن کی حیثیت سے شریک ہوئے اور جب 1946ء میں مسلم لیگ عبوری حکومت کا حصہ بنی تو لیاقت علی خان نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے وہ تاریخی بجٹ پیش کیا جسے عوام کے لیے نہایت مفید ہونے کے سبب، کٹر کانگریسی پریس نے بھی عوامی بجٹ اور ’غریب آدمی کا بجٹ‘ قرار دیا تھا۔ اسی دور میں نوابزادہ صاحب نے کیبنٹ مشن سے مذاکرات میں قائداعظم کی مدد بھی کی تھی۔

پاکستان کے قیام کے وقت 11 اگست 1947ء کو قومی پرچم کی منظوری کی قرارداد اور اگلے دن محمدعلی جناح کو سرکاری طور پر قائداعظم قرار دینے کی تجویز بھی لیاقت علی خان نے پیش کی تھی۔ چودہ اگست 1947ء کو پاکستان نامی اسلامی ریاست معرض وجود میں آئی تو اگلے دن اس نامور ہستی نے ملک کے اولین وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا، جب کہ وہ بہ یک وقت ملک کے اولین وزیرخارجہ نیز وزیر برائے تعلقات دولت مشترکہ (پندرہ اگست 1947ء تا ستائیس دسمبر1947ء) ، وزیردفاع (پندرہ اگست 1947ء تا سولہ اکتوبر 1951ء ) ، وزیر برائے امور کشمیر (اکتیس اکتوبر 1949 تا 13اپریل 1950ء) اور وزیر برائے ریاستی و سرحدی امور (بارہ ستمبر 1948ء تا سولہ اکتوبر 1951ء) کے عہدے پر بھی فائز تھے۔ سر ظفراللہ خان کو بعدازاں (ستائیس دسمبر1947 کو) باقاعدہ وزیرخارجہ مقرر کیا گیا تھا، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ تھے۔ (حوالے کے لیے ڈاکٹرصفدرمحمود کی کتاب ملاحظہ فرمائیں: پاکستان ڈیوائیڈڈ)۔

قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے نوزائدہ ملک کے جملہ مسائل کے حل کے لیے شبانہ روز اَن تھک محنت کی۔ سترہ جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستانی وفد کے قائد، وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان نے مسئلہ کشمیر پر تقریر کی اور اگلے روز وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے بیان میں کہا تھا: ’’جب تک ایک بھی پاکستانی زندہ ہے، کوئی دُنیوی طاقت، پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔‘‘ اسلام سے والہانہ لگاؤ رکھنے والے، قائد ملت نے چار اپریل 1948ء کو ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان کا دستور، قرآن کریم اور شریعت کی بنیاد پر بنایا جائے گا۔ 

سات مارچ 1949 ء کو انہوں نے قرارداد مقاصد، مرکزی قانون ساز اسمبلی میں پیش کی، جس کے ذریعے پاکستان کے مجوزہ آئین کے راہ نما اصول فراہم کیے گئے تھے۔ یہ قرارداد بارہ مارچ 1949 ء کو منظور ہوئی، مگر ایک طویل مدت تک آئین پاکستان کی اصل دستاویز کا اساسی حصہ نہیں رہی۔ یہ کام سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد حکومت میں، اُن کے ایماء پر ہوا تو اُن کے سیاسی و ذاتی مخالفین نے تب سے یہ پراپیگنڈا شروع کیا کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا کوئی تصور، اُن سے پہلے موجود نہ تھا۔ بائیس اپریل 1949 ء کو لندن میں دولت مشترکہ سربراہ کانفرنس کا آغاز ہوا تو پاکستان کے وفد نے اس میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی قیادت میں شرکت کی۔ اسی سال دس مئی کو وہ مصر کے دورے پر تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے بارہ مئی کو ریڈیو قاہرہ کے ذریعے مصری عوام سے خطاب کیا ، جب کہ سولہ مئی کو وہ ایران تشریف لے گئے۔ علاوہ ازیں اُن کے مصر کے دورے کے نتیجے میں بائیس مئی1949 ء کو پاک مصر تجارتی معاہدہ طے پایا تھا۔

9جون 1949 ء کو سوویت یونین (سابق) نے وزیراعظم پاکستان محترم لیاقت علی خان کو دورے کی دعوت دی، مگر وہ نامعلوم وجوہ کی بناء پر وہاں تشریف نہ لے جا سکے۔ اس بارے میں بہت ابہام اور اختلاف پایا جاتا ہے کہ قائد ملت اس دورے پر کیوں تشریف نہ لے جا سکے۔ بعض اہل قلم نے یہاں تک لکھا ہے کہ انہیں فقط زبانی دعوت ملی اور باضابطہ دعوت، دونوں حکومتوں کی مشاورت سے تاریخ طے پانے کے مرحلے میں تھی کہ سات نومبر 1949ء کو امریکا نے انہیں سرکاری دورے کی دعوت دی اور یوں وہ امریکا تشریف لے گئے۔

قیام پاکستان کے وقت، اس نئی مملکت کو ہندوستان سے اپنی سرکاری رقم کے حصول میں مشکلات، دریائی پانی کی تقسیم پر اختلاف اور کشمیر سمیت بعض علاقوں کے الحاق پر محاذ آرائی جیسی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ قائد ملت ہر مسئلے کے حل کے لیے ہمہ وقت ، ہمہ تن کوشاں رہے۔ پچیس اگست 1949 ء کو لاہور میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ’’قوت کے بل بوتے پر کوئی طاقت کشمیر کو ہم سے نہیں چھین سکتی۔‘‘ اُدھر مشرقی و مغربی بنگال میں ہندومسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ قائد ملت 2 اپریل 1949 ء کو ہندوستان تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے 8 اپریل 1950ء کو دہلی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو سے معاہدہ کیا جو ’’لیاقت ۔ نہرو پیکٹ‘‘ کہلایا۔

یہاں ایک بار پھر قائد ملت لیاقت علی خان کی ملک و ملت کے لیے مساعی اور بے خوف قیادت نیز دوراندیشی کا ذکر ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔ جب ریڈکلف ایوارڈ میں یہ طے کیا گیا کہ کشمیر کو ملانے والی واحد شاہراہ کی بنیاد پر، انتہائی اہم ضلع گورداس پور کوہندوستان کے صوبے مشرقی پنجاب میں شامل کر دیا جائے تو لیاقت علی خان نے لارڈ اِسمے (Lord Ismay) کو خبردار کیا تھا کہ مسلمان ایسے سیاسی فیصلے کو قول و قرار کی سنگین خلاف ورزی سمجھیں گے اور اس سے پاکستان اور برطانیہ کے آئندہ (استوار ہونے والے ) دوستانہ تعلقات متأثر ہو سکتے ہیں۔ 29 اپریل 1950ء کو امریکا جاتے ہوئے لیاقت علی خان نے لندن میں مختصر قیام کیا، جہاں سے وہ یکم مئی کو امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین (Trueman) کے خصوصی طیارے INDEPENDENCE کے ذریعے امریکا تشریف لے گئے۔ 

چار مئی 1950ء کو انہوں نے امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان سے خطاب کیا۔ ان کے دورے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے وائس آف امریکا کے ذریعے امریکی عوام سے بھی خطاب کیا۔ 30 مئی 1950ء کو شہید ملت کینیڈا کے دورے پر روانہ ہوئے، جب کہ بیس جولائی 1950ء کو انہوں نے ایک مرتبہ پھر بھارت کا دورہ کیا۔ 9 اکتوبر 1950ء کو لیاقت علی خان، پاکستان مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ ستائیس دسمبر 1950ء کو انہیں سندھ یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ آف لا کی اعزازی سند عطا کی گئی۔ سات جنوری 1951ء کو وہ ایک بار پھر لندن تشریف لے گئے،اس مرتبہ ان کے دورے کا مقصد دولت مشترکہ کی سربراہ کانفرنس میں شرکت تھا۔ 9 مارچ 1951ء کو انہوں نے راول پنڈی سازش کیس کے سلسلے میں اپنا بیان جاری کیا۔

سولہ اکتوبر 1951ء کو کمپنی باغ، راول پنڈی میں جلسہ عام کا آغاز ہوا تو بلدیہ کمیٹی کے سربراہ شیخ مسعود صادق نے سپاس نامہ پیش کیا۔ قائد ملت نے خطاب کا آغاز ہی کیا تھا کہ کرائے کے قاتل سَید (Sayd) اکبر نے اُن پر گولیاں برسا دیں۔ تحریک پاکستان کے عظیم راہ نما اور اولین وزیراعظم، لیاقت علی خان اس حملے کی تاب نہ لا سکے اور اس دعا کے ساتھ دنیائے فانی سے کوچ فرما گئے:’’خدا پاکستان کی حفاظت کرے!‘‘ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کمپنی باغ کو ’لیاقت باغ‘ کا نام دیا گیا۔ اس سانحے کے چھپن سال بعد، اسی جگہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی قاتلانہ حملے میں جا ں بحق ہو گئیں…. یوں یہ مقام دو راہ نماؤں کے لیے مقتل ثابت ہوا۔ آج پاکستان کی بقاء اور استحکام کے لیے شہید ملت کی جیسی لیاقت اور بے لوث قیادت، نیز قربانی کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔

سہیل احمد صدیقی
 

میڈیا کی خرابی کا ذمہ دار کون ؟

0
0

ایک نجی ٹی وی چینل میں حال ہی میں نشر ہونے والے اپنے انٹرویو کے دوران وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستانی میڈیا خصوصاً ٹیلی ویژن چینلز کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دن پہلے اُنہوں نے پیمرا کے اعلیٰ عہداروں کے ساتھ ایک میٹنگ کی جس میں انہوں بتایا گیا کہ پیمرا نے ٹی وی چینلز کے خلاف مختلف خلاف ورزیوں کے ضمن میں نوٹسز جاری کئے لیکن ان نوٹسز کے جواب میں ٹی وی چینلز عدالتوں سے اسٹے لے لیتے ہیں اور یوں قانون اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے باوجود پیمرا کوئی ایکشن نہیں لے پاتا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ انہیں پیمرا چیئرمین نے بتایا ہے کہ اس وقت پیمرا کو مختلف عدالتوں کی طرف سے جاری کئے گئے تقریباً 800 اسٹے آرڈرز (حکم امتناہی) کا سامنے ہے جس کی سبب پیمرا کی نہ صرف رٹ ختم ہو چکی ہے بلکہ کروڑوں روپے ان کیسوں کی پیروی میں خرچ ہو جاتے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے انہوں نے چیئرمین پیمرا کو ہدایت دی ہے کہ وہ تمام عدالتی کیس واپس لے لے ۔ یعنی قانون اور ضابطہ کی خلاف ورزی کرنے والے تمام چینلز کے خلاف عدالتی کارروائی سے پیمرا پیچھے ہٹ جائے تا کہ کم از کم وکیلوں کو دی جانے والی کروڑوں روپے کی فیس تو بچ جائے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پیمرا کی کارروائی نے اگر عدالتوں کی مداخلت پر اسٹے ہی ہو جانا اور ان اسٹے آرڈرز پر سالوں فیصلہ بھی نہیں ہونا تو پھر بہتر ہے مزید پیسہ ضائع نہ کرو۔ اس عدالتی نظام کے سامنے پیمرا اور حکومت کی اس بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے، شاہد خاقان عباسی نے یہ بھی کہا کہ ہم تمام کیس واپس لے رہے ہیں کیوں کہ جس کے ساتھ میڈیا نے زیادتی کی اگر اُسے وقت پر انصاف نہیں ملنا تو پھر عدالت میں جانے اور کیس لڑنے کا کیا فائدہ۔

وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ میڈیا کو کھلی چھٹی ہے جو مرضی آئے کرے۔ یعنی جس پر مرضی ہے بہتان تراشی کرے، جھوٹے الزام لگائے، اگر کسی کو شر پھیلانا ہے اور فتنہ بازی کرنی ہے تو اُسے بھی کھلی چھٹی، اگر کسی نے نفرت پھیلانی ہے اور لوگوں کو کسی فرد یا افراد کے خلاف اشتعال دلوانا ہے تو اُس پر بھی کوئی قدغن نہیں۔ وزیر اعظم نے جس بے بسی کا اظہار کیا ہے یہ اگر خصوصاً عدلیہ اور میڈیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلز نے اپنی آزادی کا بے حد غلط استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کی اگر ایک طرف ذمہ داری میڈیا مالکان اور صحافی برادری پر آتی ہے تو دوسری طرف عدلیہ کا اس خرابی میں بہت اہم کردار ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم نے کہا پیمرا جب بھی کسی بھی چینل کے خلاف کارروائی کرتا ہے اور یہ کارروائی چاہے کتنی ہی سنگین خلاف ورزی پر ہو، چینل کو باآسانی عدالتوں سے اسٹے آرڈر مل جاتا ہے اور یوں پیمرا کو بے بس بنا دیا گیا ہے۔ 

نہ کسی چینل کو قانون و ضابطہ کی خلاف ورزی پر سزا ملتی ہے اور نہ ہی کسی اینکر کو اس بات کا ڈر ہے کہ جھوٹے الزامات لگانے، بہتان تراشی کرنے، فتنہ انگیزی پھیلانے حتیٰ کہ انتشار پھیلا کر دوسروں کی زندگیوں کے لیے خطرات پیدا کرنے پر اُنہیں پوچھا جا سکتا ہے یا سزا دی جا سکتی ہے کیوں کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے عدالتی اسٹے آرڈر ایک اہم ترین ہتھیار ہے جسے اب خوب استعمال کیا جا رہا ہے۔ فحاشی وعریانی پھیلانے اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے پر بھی اگر پیمرا کوئی ایکشن لیتی ہے تو اس کے خلاف بھی فوری اسٹے آرڈر دے دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم صاحب نے جو کہا وہ درست ہے۔ یعنی اگر پیمرا کو عدالتی اسٹے آرڈرز نے چلنے ہی نہیں دینا اور کسی چینل کے خلاف کوئی کارروائی ہونی ہی نہیں تو پھر عدالتوں میں پیمرا اپنا وقت اور پیسہ کیوں ضائع کرے۔ 

مجھے کوئی امید نہیں کہ میڈیا اپنی خود احتسابی کرے گا یا کوئی ایسا نظام بنائے گا جس کے نتیجہ میں ٹی وی چینلز شرانگیزی، بہتان تراشی، شرارت، فحاشی وعریانیت سے اپنے آپ کو باز رکھیں۔ مجھے یہ بھی امید نہیں کہ عدلیہ اسٹے آرڈرز کی وجہ سے پیمرا کی رٹ پر پڑنے والی کاری ضرب اور انصاف کے راستہ میں پیدا کی جانیں والی رکاوٹوں کا احساس کرتے ہوئے اسٹے آرڈرز کی اس بیماری سے اس قوم کی نجات دلائے گی۔ اس لیے وزیر اعظم صاحب کو چاہیے کہ بہتر ہو گا کہ پیمرا کے ادارہ کو ہی بند کر دیا جائے کیوں کہ عدالتی اسٹے آرڈرز نے تو ویسے ہی اسے بیکار کر کے رکھ دیا ہے۔

انصار عباسی
 

بلوچستان : باون فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور

0
0

بلوچستان میں 52 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے لیکن بدقسمتی سے صوبائی حکومت کے پاس اس کے حل کے لیے کوئی جامع منصوبہ نہیں ہے۔ غربت کے حوالے سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ملک میں فاٹا کے بعد سب سے زیادہ غربت بلوچستان میں ہے جہاں 52 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں مگر صوبے میں غربت کی شرح کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی گئی۔

ستر سال سے کسی نے بھی غربت کے خاتمے اور غربت مٹانے کیلئے اقدامات نہیں کئے ۔ بلوچستان میں غربت کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری اور تعلیم کی کمی ہے، سرکاری ونجی ملازمتیں نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ حکومت کے پاس غربت کے خاتمے کے لیے دلاسوں کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں غربت زیادہ ہوتی ہے وہاں جرائم جنم لیتے ہیں ، صوبے کو بےامنی اور جرائم کی دلدل سے نکالنے کا واحد حل غربت کا خاتمہ ہے ۔

 

کیا تاج محل غداروں نے تعمیر کیا ؟

0
0

محبت کی نشانی اور عالمی شہرت یافتہ سیاحتی مقام تاج محل کو ایک سیاسی تنازعے میں گھسیٹ لیا گیا ہے۔ پہلے اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ تاج محل بھارتی تہذیب و ثقافت کی عکاسی نہیں کرتا۔ پھر ریاستی حکومت نے اسے اپنے سیاحتی کتابچے سے خارج کر دیا اور اب اتر پردیش سے بی جے پی کے متنازعہ رکن اسمبلی نے کہا کہ ”تاج محل کی تعمیر غداروں نے کی تھی اور وہ بھارتی ثقافت پر ایک بدنما داغ ہے“۔ انھوں نے میرٹھ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”سیاحتی کتابچے کے تاریخی مقامات کی فہرست سے تاج محل کو خارج کرنے پر بہت سے لوگوں کو حیرت ہے۔ وہ کس تاریخ کی بات کر رہے ہیں۔ تاج محل کی تعمیر کرنے والے شخص نے اپنے باپ کو جیل میں ڈالا تھا۔ وہ ہندووں کا قتل عام کرنا چاہتا تھا۔ اگر یہ تاریخ ہے تو افسوسناک ہے اور ہم اسے تبدیل کر دیں گے“۔

سنگیت سوم کے بیان پر شدید رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ حزب اختلاف کی جانب سے سوم کے بیان پر سخت اعتراض کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے زیر انتطام کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبد اللہ نے ٹویٹر پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اب پندرہ اگست کو لال قلعہ سے کوئی تقریر نہیں ہو گی۔ اب وزیر اعظم نہرو اسٹیڈیم سے تقریر کریں گے۔ مجلس اتحاد المسلمین کے حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے سوال کیا کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی اب غداروں کی تعمیر کردہ تاریخی عمارت سے ترنگا نہیں لہرائیں گے۔ دہلی کا حیدرآباد ہاوس بھی غداروں کا تعمیر کردہ ہے کیا وزیر اعظم اب وہاں غیر ملکی شخصیات کا استقبال نہیں کریں گے۔ 

انھوں نے سوم کو چیلنج کیا کہ وہ یونسکو سے کہیں کہ وہ تاج محل کو اپنے عالمی ورثے کی فہرست سے خارج کر دے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لوگوں کے بیانات کی جھڑی لگ گئی ہے۔ دس ہزار سے زائد افراد نے اپنا رد عمل ظاہر کیا اور بیشتر نے مذکورہ بیان کی مذمت کی اور اسے نفرت انگیز قرار دیا۔ متعدد فلمی شخصیات نے بھی بیان کی مذمت کی۔ ٹویٹر پر ہیش ٹیگ تاج محل تاج محل سب سے زیادہ ٹرینڈ کرتا رہا۔ ​تاہم بی جے پی کے بعض لیڈروں نے بیان کی حمایت بھی کی.

سہیل انجم

بشکریہ وائس آف امریکہ

 

مکلی کا عالمی ورثہ تجاوزات اور قبضے کے نرغے میں

0
0

سرخ اینٹوں اور کاشی گری کے فن سے تعمیر 'مرزا باقی بیگ ازبک'کے یادگار کی مرمت جاری ہے، اس یادگار کی دیواروں اور مقبرے کے گنبد میں دراڑیں پڑ گئی تھیں۔ مرزا باقی بیگ کا تعلق ترخائن شاہی خاندان سے تھا۔ اس خاندان نے سولھویں صدی میں سندھ پر حکومت کی۔ باقی بیگ کی یادگار مکلی کے قبرستان میں واقع ہے۔ یہ دنیا کا وسیع ترین قبرستان ہے یونیسکو نے 1981 میں عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔ جہاں چودھویں صدی عیسوی سے لیکر سترھویں صدی کے حکمران خاندانوں اور جنگجوؤں کی قبریں موجود ہیں جن کو بارشوں، ہوا کے دباؤ، سورج کی تپش اور نگرانی کے فقدان نے ان آثاروں کو زبوں حال کر دیا ہے۔

بالاخر اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے اس ورثے کو عالمی ورثے سے خارج کرنے کی دھمکی دے دی، جس کے بعد حکومت سندھ نے اس طرف توجہ دی اور یونیسکو بہتری کی یقین دہانی کرائی۔ مکلی قبرستان کے کیوریٹر سرفراز جتوئی کا کہنا ہے کہ چالیس سے پچاس ایسے یادگاریں ہیں جنہیں ہنگامی بنیادوں پر مستحکم کیا گیا ہے ان میں سے کچھ پتھر اور کچھ اینٹوں سے بنی ہوئی تھیں، ان پر پودے نکل آئے تھے جن کی جڑیں اندر جا رہی تھیں اور نتیجے میں دراڑیں پڑ گئیں اور جب بھی بارش ہوتی تھی تو پانی بنیادوں میں چلا جاتا تھا۔ اب چونے اور بجری کے پلستر سے ان دراڑوں کو بند کر دیا گیا ہے۔

یہاں سماں، ارغون، ترخان اور مغل ادوار کے شاہی خاندانوں کے 80 سے زائد یادگار موجود ہیں جو پتھر، اینٹوں یا دونوں کی مدد سے بنائے گئے ہیں ان پر فارسی، سندھی اور عربی زبان تحریر ہے۔ اس میں سے مقامی سندھی حکمران جام نظام الدین اور عیسیٰ بیگ ترخائن دوئم کے یادگار نمایاں ہیں۔ نامور آرکیا لوجسٹ ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کہتے ہیں سماں مقامی حکمران تھے اور رن آف کچھ میں ان کے کزن حکمران تھے۔ سماں فن تعمیر میں اس کی جھلک نظر آتی ہے جس میں زیادہ اثر پتھر کے فن کا ہے۔ ارغون اور ترخائن وسطی ایشیا سے آئے تھے انہوں نے اینٹ اور کاشی گری کا استعمال کیا۔ چونکہ مغل خود بھی وسطی ایشیا سے آئے تھے اور انڈیا میں انہیں سو سال ہو چکے تھے تو اس امتزاج نے ایک نئے طرح کے فن تعمیر کو جنم دیا۔

ٹھٹہ سندھ کا خوشحال خطہ سمجھا جاتا تھا جہاں کیٹی بندر، شاہ بندر نام سے بندرگاہیں اور کئی درسگاہیں موجود تھیں۔ ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کہتے ہیں کہ اس علاقے کا بحیرہ ہند کے ذریعے پوری دنیا سے رابطہ تھا۔ بارہویں ، تیرہویں اور چودہویں صدی میں یہاں تجارت نے فروغ پایا اور دنیا بھر سے لوگ اکھٹے ہو رہے تھے اسی دوران آرٹ اور کرافٹ نے اپنا عروج حاصل کیا۔ مکلی کا قبرستان قومی شاہراہ کی دونوں اطرف میں پھیلا ہوا تھا لیکن اس کے نصف حصے پر قبضہ ہو چکا ہے، جس کی نشاندھی یونیسکو کی جانب سے بھی کی گئی ہے۔
نامور آرکیالوجسٹ ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کہتے ہیں کہ مکلی کا پورا قبرستان اور اس سے ملحقہ جو تہذیبی عناصر اور اسٹریکچر ہیں، جیسے کلان کوٹ، قبرستان کا دوسرا حصہ جو جنوب میں ایک ہزار ایکڑ رقبے پر محیط ہے اور ٹھٹہ شہر یہ سب عالمی ورثے پر مشتمل ہے لیکن جو سڑک کے شمال میں 912 ایکڑ قبرستان ہے ہم سمجھتے ہیں کہ بس یہ ہی ہماری ہریٹیج سائیٹ ہے۔

مکلی قبرستان کے کیویٹر سرفراز جتوئی کا کہنا ہے کہ مغربی طرف زیادہ قبضے اور تجاوزات ہیں۔ سروے میں ایسے پونے تین سو گھروں اور دو سو کے قریب دکانوں کی نشاندھی ہوئی ہے، انہیں متبادل جگہ فراہم کرنے کے لیے بائی پاس مکلی پر 15 ایکڑ زمین مختص کر دی گئی ہے، کچھ عرصے میں انہیں بیدخل کر دیا جائے گا۔ یونیسکو نے غیر قانونی تجاوزات کے علاوہ افرادی قوت کی قلت، موسمی اسٹیشن کی عدم دستیابی، صفائی ستھرائی، تاریخی حوالے کے نوٹس بورڈز کے فقدان اور لوگوں کی بے تحاشہ آمدرفت کی بھی نشاندھی کی تھی۔

مکلی قبرستان کے کیویٹر سرفراز جتوئی کا کہنا ہے کہ قبرستان میں موسمی اسٹیشن قائم کیا گیا ہے تاکہ بارشوں، سورج کی تپش اور ہوا کے دباؤ کو مانیٹر کیا جا سکے، اس کے علاوہ آس پاس سے ملبہ ہٹا دیا گیا ہے اور کوڑے دان لگائے جا رہے ہیں، تاہم لوگوں کی آمدرفت ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ یہاں 10 سے زائد مزارات ہیں جن پر میلے بھی لگتے ہیں پہلے لوگوں بسوں اور بڑی گاڑیوں میں اندر جاتے تھے اس کی روک تھام کی گئی ہے۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، مکلی ٹھٹہ
 


امریکی وزیر دفاع کی جنگی حکمت عملی اور تاریخ فہمی ؟

0
0

اصل موضوع سے قبل ایک اچھی اور مثبت خبر کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی ’’ہیومن رائٹس کونسل‘‘ کی ایشیائی نشست کا انتخاب جیت لیا ہے۔ عالمی ’’ہیومن رائٹس کمیشن‘کو 2006 میں ختم کر کے اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لئے اعلیٰ ترین ادارہ کے طور پر یہ کونسل قائم کی جس کے 47 منتخب رکن ممالک میں سے 13 ایشیائی 13 یورپی اور 13 افریقی ممالک اور 8 لاطینی امریکہ کے ممالک پر تین سالہ مدت کے لئے منتخب ہوتے ہیں۔ بھارت، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور قطر اپنی تین سالہ میعاد پوری ہونے پر کونسل کی چار نشستیں 31 دسمبر 2017 کو خالی کریں گے۔ لہٰذا نیپال، افغانستان، پاکستان، ملائشیا مالدیپ نئے امیدوار اور قطر اپنی دوسری تین سالہ میعاد کے لئے امیدوار تھا کہ مالدیب دستبردار ہو گیا اور چار نشستوں کے لئے پانچ امیدوار میدان میں رہ گئے پاکستان 151 ووٹ حاصل کر کے یکم جنوری 2018 سے تین سال کے لئے نیپال، افغانستان اور قطر کے ساتھ اس ہیومن رائٹس کونسل پر اپنی نشست سنبھالے گا۔ اس کامیابی پر ہماری سفیر ملیحہ لودھی مبارکباد کی مستحق ہیں۔

وزیرخارجہ خواجہ آصف کے دورۂ واشنگٹن اور ایک انٹر ایجنسی نمائندوں پر مشتمل اہم امریکی نمائندوں پر مشتمل وفد کے دورہ پاکستان کے بعد اب امریکی وزیرخارجہ ٹلرسن کی اسلام آباد آمد کا انتظار ہے لیکن اس دوران امریکی ڈرونز کے تازہ حملے کے ذریعے پاکستان کوجو پیغام دیا گیا وہ کوئی مثبت پیغام نہیں ہے بلکہ میری رائے میں یہ ’’گاجر‘‘ اور ’’ڈنڈا‘‘ کی امریکی پالیسی کا بھی حصہ یوں نہیں کہ ماضی میں ملا منصور کی ڈرونز حملے میں ہلاکت بھی امریکی پالیسی کے مذکورہ اصول کے تحت نہ تو سزا کا ڈنڈا تھی اور نہ ہی انعام میں گاجر تھی بلکہ طالبان کو مذاکرات کے لئے طالبان کو آمادہ کرنے کی پاکستانی کوششوں کو سبوتاژ کرنا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کی آمد سے قبل تازہ ڈرون حملہ ایک طرف تو امیر کینیڈین فیملی کی بازیابی میں پاکستانی رول کے مثبت امیج کو ختم کر کے بہتر ماحول میں کسی ڈائیلاگ کی بجائے ٹلرسن کی آمد پر کشیدگی کا ماحول پیدا کرنا اور صدر ٹرمپ کے اگست والے اعلان اور جنوبی ایشیا اسٹرٹیجی پر اصرار قائم رکھنے کا اشارہ ہے۔ گو کہ ابھی واضح نہیں کہ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس پاکستان کا دورہ کب کریں گے؟ تاہم امکان موجود ہے۔ بعض حلقوں کا 16 اکتوبر کو ہونے والے پاک افغان سرحد کے قریب ڈرون حملے کے بارے میں ایک منفرد خیال یہ ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ڈپلومیسی اور ڈائیلاگ کے ذریعے طالبان اور افغان مسائل کے حل کی بات اور کوشش کا حامی ہے جبکہ صدر ٹرمپ کے جرنیل مشیروں کی ٹیم ایک بار پھر منظم ہو کر پنٹاگون کی برتری قائم رکھنے اور فوجی انداز میں کامیابی کا حصول چاہتی ہے۔ تاہم اس معاملے کو واشنگٹن کی بجائے پاک افغان سرحدوں پر ڈرونز کے استعمال سے طے کرنے کا مطلب و مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہی تاریخوں میں مسقط اومان میں طالبان سے مذاکرات کی جو خبریں چل رہی تھیں اس کا تناظر بھی اب واضح ہے۔

یوں بھی وزیر خارجہ ٹلرسن کے ایک روزہ دورہ پاکستان اور پھر افغانستان سے کسی ڈرامائی تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی کی پریس کانفرنس اور افغانستان میں نئی امریکی تیاریوں کی مخالفت اور افغان حکومت اور قائدین کے بیانات انتہائی قابل تعریف ہیں۔ پاک افغان مسائل کو آپس میں مل کر مقامی حل تلاش کرنے کی اپروچ بھی قابل تحسین ہے لیکن کافی تاخیر سے یہ خیال آیا ہے۔ مسئلے کے عالمی فریق اپنی حکمت عملی اور اس کے مطابق نفع و نقصان کے اندازے لگا کر اپنی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں دوسروں کو ڈائیلاگ اور روز مرہ کے حالات کے الجھائو میں مصروف رکھ کر اپنے مقاصد کی تیاری مکمل کرنا ذہین اقوام کا شیوہ رہا ہے لیکن ہم نے تاریخ کو ماضی کے اوراق سمجھ کر ان سے مستقبل کے لئے کچھ سیکھنے کی عادت کو بالکل ترک کر رکھا ہے۔ 

جبکہ اکیسویں صدی میں ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کے نعرے پر یقین رکھ کر دنیا میں امریکی برتری قائم کرنے والے افراد اس مقصد کے لئے تاریخ سے سبق کیسے حاصل کرتے ہیں ۔اس کی ایک مثال موجودہ امریکی وزیر دفاع جنرل (ر) جیمز میٹس کی ہے جو نہ صرف افغانسان کی جنگ کا تجربہ رکھتے ہیں بلکہ خلیج کی جنگ، جنوبی ایشیا، سینٹرل ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے عراق اور دیگر جنگی اور دفاعی محاذوں پر کمانڈ اور فیصلوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں 44 سال فوجی ملازمت کے دوران ری پبلیکن صدر جارج بش اور ڈیموکریٹ صدر اوباما کے تحت کام کر چکے ہیں۔ اعلیٰ فوجی حلقوں میں ’’انٹلکچول ‘‘ یعنی دانشور ملٹری آفیسر اور عام فوجیوں میں "CHOAS"اور "MAD DO4"کے ناموں کے علاوہ (WARRIOR MONK) یعنی جنگجو پروہت، کے القابات سے مشہور رہے ہیں۔ جنرل میٹس کی والدہ امریکی فوج کے شعبے انٹلی جنس اور والد امریکی ایٹم بم کے لئے ایٹمی مواد تیار کرنے والے پلانٹ میں ملازم تھے۔ 

تاریخی امریکی ’’مین ہیٹن‘‘ پروجیکٹ کا اہم حصہ تھے۔ ان کے گھر میں ٹی وی نہیں تھا مگر کتابوں کا ہجوم تھا اس ماحول میں پلنے والے جیمز میٹس نے بطور میرین کرنل پرویز مشرف کے دور میں ان کی خفیہ اجازت کے ساتھ پاکستان کے راستے خفیہ طور پر اپنی بریگیڈ کے ساتھ داخل ہو کر جنوبی افغانستان میں داخل ہوئے اور امریکی ٹاسک فورس 58 کے ذریعے خفیہ آپریشن بھی کیا جس کی تفصیل پرویزمشرف ہی بتا سکتے ہیں اور وہ امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے گیارہویں سربراہ بھی رہے ہیں اور ریٹائر ہو کر اب امریکی وزیر دفاع کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہمارے سیاست داں یا فوجی حکمراں اتنا تجربہ اور عہدے حاصل ہونے کے بعد خود کو ہی اتھارٹی سمجھ کر کتاب یا تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کی بجائے خود کو مینارہ نور قرار دے بیٹھتے ہیں.

لیکن جنرل جیمز میٹس شمالی کوریا کے موجودہ بحران کا حل تلاش کرنے کے لئے 54 سال قبل شائع ہونے والی ایک کتاب نہ صرف خود پڑھ رے ہیں بلکہ وہ اپنے فوجی افسروں اور لیکچر سننے والوں کو بھی یہ کتاب پڑھنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ اس کتاب کے مصنف ٹی آر فاحر باخ ہیں جو 88 سال کی عمر میں کئی سال قبل فوت ہو چکے۔ کتاب کا عنوان ’’کلاسیکل کورین وار‘‘ ہے اور عنوان (THIS KIND OF WAR) ہے۔ اس کتاب میں کورین جنگ میں امریکی حکمت عملی کی غلطیاں، دشمن کی اسٹرٹیجی اور زمینی حقائق کا تجزیہ شامل ہے۔ کیا خوب ہے کہ امریکی جنرل اپنے کسی جنگی کیئریر، تجربہ اور وزیردفاع کے عہدے کا تکبر کئے بغیر شمالی کوریا کے موجودہ چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے 54 سال قبل شائع ہونے والی کتاب کا مطالعہ کرتا ہے اور اعلانیہ اس کتاب سے سیکھنے کا اعتراف بھی کرتا ہے۔

کتاب کے مصنف جو کہ کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے ان کی تحریر و تجزیہ کو جنرل میٹس خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ ہمارے ہاں تو محض کمانڈو ہونے کے تجربے کو ایک حکمراں نے دنیا کے سامنے بڑے تکبر سے پیش کرنے کی روایت قائم کی۔ یہی امریکی وزیر دفاع جنرل میٹس افغانستان میں امریکی ناکامی کو امریکی فوجی کامیابی میں تبدیل کرنے کی پلاننگ میں مصروف ہیں۔ کیا ہم نے تاریخ کے اتار چڑھائو سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ اقتدار حاصل کرنے ، حکومت بنانے اور گرانے کے جنون میں نہ تو گرد و پیش حالات پر نظر ڈالی نہ ہی تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ۔ 1971 میں پاکستان میں سے بنگلہ دیش نے جنم لیا۔ تاریخی شکست ہمارا مقدر بنی، تاریخی، سیاسی شخصیات کی سیاسی لڑائیاں ہوئیں لیکن ہم نے نہ تو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی تاریخ سے کچھ سیکھا۔

ہمارے حکمرانوں نے نہ تو پہلی افغان جنگ کی غلطیوں کا مطالعہ کیا اور نہ ہی دوسری افغان جنگ میں شریک ہونے سے پہلے ماضی پر نظر ڈالی۔ امریکی وزیر دفاع جنرل میٹس سائبر اور ڈرونز کے دور میں فوجی بوٹوں کی کسی سرزمین پر موجودگی کو جنگ کی بنیادی نیچر قرار دیتا ہے ہم اپنے ہی ملک کی حفاظت اور سلامتی کے لئے قدم ملا کر متحدہ ہو کر کھڑا ہونا بھی غیر ضروری سمجھتے ہیں 70 سالہ پاکستان کی سلامتی اور مفاد کے لئے 67 امریکی جنرل کی طرح تاریخ کی غلطیوں سے سیکھنے اور سمجھنے کی عادت ڈالنے ہی میں بھلا ہے۔

عظیم ایم میاں
 

اپنے پاکستانی پاسپورٹ کی آن لائن تجدید کیسے کروائیں

0
0

ویسے تو پاسپورٹ بنوانے کے لیے اکثر لمبی قطاروں میں گھنٹوں کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے مگر زائد المعیاد ہونے پر بھی یہی مشقت دوبارہ کرنا پڑتی ہے۔
مگر اچھی خبر یہ ہے کہ اب آپ یہ کام گھر بیٹھے بھی کر سکتے ہیں۔ جی ہاں وزارت داخلہ کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹس نے ایک نیا ای سروسز پورٹل متعارف کرایا ہے جس سے گھر بیٹھے میشن ریڈ ایبل پاسپورٹ کی تجدید یا ری نیو کرایا جا سکتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاسپورٹ کو زائد المعیاد ہوئے سات ماہ سے کم کا عرصہ گزرا ہو یا سات ماہ کے اندر معیاد ختم ہونے والی ہو۔
اس سروس کے لیے ویب سائٹ کا لنک یہ ہے۔

https://onlinemrp.dgip.gov.pk 

پاسپورٹ ری نیو کرنے کے لیے کیا کچھ چاہئے؟
معاون دستاویزات (کمپیوٹرائز شناختی کارڈ کی کاپی، پرانے پاسپورٹ کی کاپی پہلے دو صفحات، نابالغوں کے لیے تصدیقی فارم، این او سی، اگر سرکاری ملازم ہوں)۔
اس کی مزید تفصیلات آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔
پانچ ایم بی تک کی تصویر۔
فنگر پرنٹ فارم۔
کریڈٹ/ ڈیبٹ کارڈ آن لائن ادائیگی کے لیے، ری نیو پاسپورٹس کے لیے فیس یہاں دیکھ سکتے ہیں۔

آن لائن اپلیکشن
اگر تو آپ آن لائن اپلائی کے لیے تیار ہیں تو سب سے پہلے گیٹ اسٹارٹڈ پر کلک کریں اور اپنا اکاﺅنٹ رجسٹر کریں، پاکستان میں مقیم افراد کو ایس ایم ایس اور ای میل کے ذریعے رجسٹریشن کوڈ بھیج دیا جائے گا، جبکہ بیرون ملک مقیم افراد کو مطلوبہ کوڈ ای میل کے ذریعے ارسال کیا جائے گا۔
ری نیو پاسپورٹ کے لیے اپلیکشن میں مطلوبہ معلومات فراہم کریں۔
پاسپورٹ ڈیلیوری کے لیے اپنا پتا درج کریں۔
کریڈٹ/ ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے فیس کی ادائیگی کریں۔
مطلوبہ ذاتی معلومات درج کریں۔
موجودہ اور مستقل پتے کا اندراج۔
تصویر اپ لوڈ کریں۔
مطلوبہ دستاویزات اپ لوڈ کریں۔
فارم ڈاﺅن لوڈ کرکے چار فنگر پرنٹس کی فراہمی۔

اسکینر کو 600 ڈی پی آئی پر سیٹ کریں، پھر فارم اسکین کر کے اپ لوڈ کریں۔
اپنی درج کردہ معلومات کو دیکھیں، حلف نامے پر سائن کریں اور درخواست جمع کرا دیں۔ وزارت کی ویب سائٹ کے مطابق اس پورے طریقہ کار میں آپ کے 16.5 منٹ لگیں گے جو کہ کسی پاسپورٹ آفس میں اس کام کے لیے نکالے جانے والے کئی گھنٹوں سے نمایاں طور پر کم ہیں۔
 

پاکستان اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کا رُکن منتخب

0
0

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پیر کے روز 47 رکنی ہیومن رائٹس کونسل کے 15 نئے ارکان کا انتخاب کیا ہے۔ ان نئے منتخب ہونے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یہ انتخاب خفیہ ووٹنگ کے ذریعے کیا گیا۔ ہیومن رائٹس کونسل اقوام متحدہ کے نظام میں ایک ایسا اعلیٰ ترین بین الحکومتی ادارہ ہے، جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ اور اس کے فروغ سے متعلق معاملات کو دیکھتا ہے۔ جنیوا میں قائم ہیومن رائٹس کونسل کے لیے جن نئے رکن ممالک کا انتخاب ہوا ہے ان میں پاکستان کے علاوہ افغانستان، انگولا، آسٹریلیا، چلی، عوامی جمہوریہ کانگو، میکسیکو، نیپال، نائجیریا، پیرو، قطر، سینیگال، سلوواکیہ، اسپین اور یوکرائن شامل ہیں۔ نئے رکن بننے والے یہ ممالک تین برس کے لیے انسانی حقوق کی اس کونسل کے رُکن ہوں گے اور اس مدت کا آغاز یکم جنوری 2018ء سے ہو گا۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اس پیشرفت کو پاکستان کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں لودھی کا کہنا تھا، ’’یہ کامیابی دراصل پاکستان کے انسانی حقوق کو فروغ دینے اور ان کے تحفظ کے حوالے سے ریکارڈ کی توثیق ہے۔‘‘ ملیحہ لودھی نے نہ صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ارکان کے دو تہائی ووٹ حاصل کرنے پر اقوام متحدہ میں پاکستانی ٹیم کی کوششوں کو سراہا بلکہ عالمی برادری کی طرف سے غیر معمولی تعاون پر اس کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے ہیومن رائٹس کونسل کا قیام 2006ء میں لایا گیا تھا۔ اس 47 رکنی کونسل کی ذمہ داریوں میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کا تحفظ اور ان کو فروغ دینے کے علاوہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنا اور ان کے بارے میں تجاویز تیار کرنا بھی ہے۔ اس کونسل کی میٹنگز جنیوا میں قائم یو این آفس میں ہوتی ہیں۔
 

ورزش کیوں ضروری ہے ؟

0
0

دراصل ورزش ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ اس سے صحت قائم رہتی ہے اور جسم اچھی حالت میں رہتا ہے۔ ورزش سے دوران خون تیز ہو جاتا ہے۔ جو لوگ محنت کا کام کرتے ہیں ان کے لیے ورزش بہت ضروری ہے۔ مختلف قسم کی ورزشیں ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ سب سے آسان چہل قدمی ہے۔ جو ہر آدمی کے لیے ممکن ہے لیکن سیر کے وقت لباس موزوں ہونا چاہیے۔ خصوصاً موسم سرما میں گرم لباس ہونا چاہیے۔ کھلی ہوا میں سیر کرنی چاہیے۔ فاصلہ اور تیزی آدمی کی ضرورت اور رفتار پر منحصر ہوتی ہے۔ عام طور پر 40 تا 50 منٹ کی چہل قدمی کافی ہوتی ہے۔ تیرنا اور گھڑسواری بہترین ورزش ہے۔ ورزش جتنی ہلکی ہو اچھا ہے۔

لیکن پابندی ضروری ہے۔ بیرونی کھیل بہتر ورزش ہیں۔ بڑھاپے میں ہلکی ورزش کرنی چاہیے۔ جسم کی مالش بھی ایک ورزش ہے۔ جہاں انسان کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ورزش ضروری ہے وہاں مقررہ وقت پر سونا بھی صحت کیلئے انتہائی ضروری ہے کیونکہ جو توانائی محنت کے دوران خرچ ہوتی ہے۔ وہ نیند کے دوران پوری ہو جاتی ہے۔ گہری نیند جسم کے قواء کو مکمل آرام پہنچاتی ہے۔ اس طرح وہ زیادہ فعال ہو جاتے ہیں۔ اچھی نیند کے لیے غذا کا ہضم ہو جانا ضروری ہے۔ ورنہ منہضم غذا کا معدہ میں ہونا نیند میں خلل پیدا کر دے گا اور برے خواب نظر آئیں گے۔ بعض لوگ کھانا کھاتے ہی سو جاتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے ایسا کرنے سے پیٹ بڑھ جاتا ہے اور انسان طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مثلاً موٹاپا، ذیابیطس، بدہضمی اور ضعف دماغ وغیرہ، چنانچہ نیند کا وقت مقرر کر لینا چاہیے۔ 

ویسے نیند کا بہترین وقت رات کا ہے۔ رات میں مکمل اور گہری نیند لی جا سکتی ہے۔ رات میں جلد سونے کی اور صبح جلد اٹھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ رات کے کھانے اور سونے کے درمیان کم از کم دو گھنٹوں کا وقفہ ہونا چاہیے۔ شیرخوار بچے نیند کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں۔ جوان بچوں سے کم اور بوڑھے اور بھی کم نیند چاہتے ہیں طبعی طور پر شیر خوار بچوں کو 15 تا 20 گھنٹے سونا چاہیے، بچے 10 تا 12 گھنٹے، جوان 8 گھنٹے اور بوڑھے 6 گھنٹے یا کم۔ کچھ لوگ دیر تک سونے کے عادی ہوتے ہیں اور صبح بھی دیر سے اٹھتے ہیں جو صحت کے اعتبار سے مناسب نہیں۔ نیند میں زیادہ یا کم سونا دونوں ہی صحت کے لیے مضر ہیں۔
 

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی ایک بار پھر زیر عتاب

0
0

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی جس ابتلا و آزمایش سے گزر رہی ہے وہ سب کے
سامنے ہے۔ عوامی لیگ خود دہشت گردانہ کارروائیاں کر کے، ان جرائم کا الزام جماعت اسلامی پر دھر رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں فی الواقع جماعت اسلامی ہی وہ منظم قوت ہے، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی دھونس اور مداخلت کو روکنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بھارت نے بنگالی صحافیوں، سیاست دانوں، قلم کاروں کو خرید رکھا ہے، لیکن وہ جماعت اسلامی کو خریدنے میں ناکام رہا ہے۔ چند روز قبل بنگلا دیش کی عدالت نے امیر جماعت اسلامی سمیت 9 اعلیٰ رہنماوں کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ بنگلا دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں پولیس نے ایک مکان پر چھاپا مار کر تخریب کاری کی منصوبہ بندی کے الزام میں امیر جماعت اسلامی مقبول احمد سمیت 9 اعلیٰ رہنماؤں کو گرفتار کیا جن میں جماعت کے سیکرٹری جنرل شفیق الرحمان، نائب امیر اور سابق رکن پارلیمنٹ میاں غلام پرور، چٹاگانگ جماعت کے سربراہ شاہ جہاں، مقامی سیکرٹری جنرل نذر الاسلام اور ظفر صدیق شامل ہیں۔

جماعت اسلامی کی قیادت کے خلاف ہندو تہوار درگا پوجا اور عاشورہ کے موقع پر انتشار پھیلانے اور حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے کے الزامات میں دو مقدمات درج کیے گئے۔ پولیس کی درخواست پر عدالت نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو 10 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ جماعت اسلامی نے الزامات کی تردید کر تے ہوئے کہا کہ اس کی قیادت غیر رسمی ملاقات کر رہی تھی کہ پولیس نے اچانک چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کر لیا۔ جماعت کے رہنما مجیب الرحمن نے گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جنگی جرائم کے مقدمات میں اعلیٰ رہنماؤں کو پھانسیاں دینے کے بعد اب جماعت کو قیادت سے محروم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ حکومت محض اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ہمارے بے گناہ رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر رہی ہے۔

حقیقت میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ رویے پر اندرونی و بیرونی دباؤ کا شکار بنگلہ دیشی حکومت نے ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت کے رہنماؤں کو گرفتار کیا ۔ جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں روہنگیا مسلمانوں کی مدد میں بھی پیش پیش ہیں اور حکومتی رویے پر ڈھاکا کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ یہ گرفتاریاں ایک ایسے موقع پر ہوئی ہیں جب روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ بنگلہ دیشی حکومت کے رویے پر اسے شدید تنقید کا سامنا ہے اور بظاہر ڈھاکا حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کیخلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ ایک مقامی عدالت نے حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کی سربراہ خالدہ ضیاء کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کئے۔

یہ وارنٹ بم دھماکے سے متعلق ایک کیس میں پیش نہ ہونے پر جاری کئے گئے۔خالدہ ضیاء گزشتہ دو ماہ سے اپنے جلا وطن بیٹے سے ملنے کے لئے لندن میں ہیں اور رواں ماہ کے آخر میں ان کی واپسی متوقع ہے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ مقبول احمد گزشتہ برس اکتوبر میں امارت پر فائز ہونے کے بعد سے کسی عوامی یا سیاسی تقریب میں منظر عام پر نہیں آئے تھے۔ انہیں سابق امیر مطیع الرحمٰن نظامی کو پھانسی دیے جانے کے بعد امیر منتخب کیا گیا تھا۔ مطیع الرحمٰن نظامی کو 1971 میں پاکستان کا ساتھ دینے کی پاداش میں شہید کر دیا گیا تھا۔ غدار مجیب الرحمن کی بیٹی اسلام و پاکستان سے محبت رکھنے والوں کو چن چن کر سزائیں دلوا رہی ہے۔

بنگلہ دیش میں نظریہ پاکستان ایک بار پھر بیدار ہو رہا ہے اور مضبوط تحریک کھڑی ہو رہی ہے۔ اسی سے خوفزدہ ہو کر بھارتی اشاروں پر پھانسیوں کی سزائیں سنا ئی جا رہی ہیں۔ بنگلہ دیش میں جن قائدین کو پھانسیوں کی سزائیں سنائی جا رہی ہیں ان کا جرم صرف یہ تھا کہ جب بھارت نے اگر تلہ سازش کے تحت مجیب الرحمن جیسے غداروں کو کھڑا کیا اور مشرقی پاکستان پر باقاعدہ فوج کشی کی تو ان بزرگوں نے دفاع پاکستان کے لئے پاک فوج کے ساتھ مل کر بھارتی فوج کا مقابلہ کیا تھا۔ آج بنگلہ دیش پر اسی مجیب الرحمن کی بیٹی کی حکومت ہے جو اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کا نام لینے والوں کو جیلوں میں ڈال رہی ہے اوربھارت کی ہمنوا بن کر انہیں پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔

پہلے عبدالقادرملا کو پھانسی دی گئی، پھر مولانا غلام اعظم کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جو جیل میں وفات پا گئے۔ پھر مولانا مطیع الرحمن کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ۔ یہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے، حکومت پاکستان کو اس مسئلہ پر ہر فورم پر آواز بلند کرنے کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے، وگرنہ اس سے مایوسیاں پھیلیں گی۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی درحقیقت اْس نام نہاد ’امن کی آشا‘ کے سامنے ایک آہنی چٹان ہے، جسے ڈھانے کے لئے برہمنوں ، سیکولرسٹوں اور علاقائی قوم پرستوں کے اتحادِ شرانگیز نے ہمہ پہلو کام کیا ہے۔ بھارتی کانگریس کے لیڈر سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو بے دست وپا کرنے، مولانا مودودی کی کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور دو قومی نظریے کی حامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو دیوارسے لگانے کے لئے حسینہ واجد حکومت کی بھرپور سرپرستی کی۔ دوسری جانب خود بھارت میں مسلم نوجوانوں کو جیل خانوں اور عقوبت کدوں میں سالہا سال تک بغیر کسی جواز اور عدالتی کارروائی کے ڈال دینے کا ایک مکروہ دھندا جاری رکھا ہے۔

افسوس کہ پاکستانی اخبارات و ذرائع ابلاغ اس باب میں خاموش ہیں۔ عوامی لیگ، حسینہ واجد اور ان کے ساتھیوں کی حیثیت محض ایک بھارتی گماشتہ ٹولے کی سی ہے، جسے بنگلہ دیش کے مفادات سے زیادہ بھارتی حکومت کی فکرمندی کا احساس دامن گیر ہے، گزشتہ تین برسوں پر پھیلے ہوئے عوامی لیگی انتقام کو پاکستانی سیکولر طبقے 1971ء کے واقعات سے منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ بدنیتی پر مبنی اس یلغار کا تعلق حالیہ بھارتی پالیسی سے ہے۔ وہ پالیسی جس کے تحت بھارت اپنے ہمسایہ ممالک میں نو آبادیاتی فکر اور معاشی و سیاسی بالادستی کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت یہ کام کھل ، کر رہی ہے۔

ریاض احمد چودھری
 

پاکستان میں تعلیمی اخراجات میں 153 فیصد اضافہ ہوا : رپورٹ

0
0

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک عام طالب علم کے تعلیمی اخراجات میں 153 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایس بی پی کے افراط زر کے نگراں ادارے نے گزشتہ ماہ ستمبر میں سالانہ بنیادوں پر ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کی بنیاد پر مہنگائی میں رہائش کے کرایہ کے بعد تعلیم کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ یاد رہے کہ رواں برس 18 اگست کو کراچی میں والدین نے اسکولوں کی فیس میں مسلسل اضافے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ نے ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کراچی کے تمام نجی اسکولوں کو پابند کیا تھا کہ وہ فیس کی مد میں 5 فیصد سے زائد اضافہ نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں کروڑوں بچے اسکول جانے کی اہلیت نہیں رکھتے کیونکہ ان کے والدین ان کے تعلیمی اخراجات پورا نہیں کر سکتے جبکہ ملک کے سرکاری اسکول ان بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرنے کے اہل نہیں۔ پاکستان میں بچوں کی تعلیم اس لیے بھی زیادہ مہنگی ہے کیونکہ ایک مڈل کلاس خاندان کی آمدنی کا بڑا حصہ نجی تعلیمی ادارے کی نظر ہو جاتا ہے۔ وزارت تعلیم اور پروفیشنل ایجوکیشن ٹریننگ کے ذیلی ادارے نیشنل ایجوکیشن منیجمینٹ انفارمیشن سسٹم (این ای ایم آئی ایس) نے 2016 - 2015 میں پاکستان ایجوکیشن شماریات رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں کمی ہوئی۔

تاہم اسکولوں کا رخ نہ کرنے والے بچوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ایک پوری نسل ناخواندہ ہے جبکہ حکومت بھی بچوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دے رہی۔ نجی تعلیمی ادارے تو فیس کی مد میں والدین سے پیسے لے ہی رہے ہیں لیکن ان کی کمر بچوں کی مہنگی کتابوں، کاپیوں اور اسٹیشنری کا سامان توڑ دیتی ہے اور یہی اسکولوں میں تعلیم کو مہنگا کرنے کی ایک اور وجہ ہے۔ ایس بی پی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس سال ستمبر میں تعلیم کے حوالے سے مہنگائی 153 فیصد رہی جو ہزاروں کی تعداد میں بچوں کو اسکول چھوڑنے پر مجبور کر سکتی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ملک میں اسکول نہ جانے والے بچوں میں سے 44 فیصد کی عمریں 5 سے 16 برس کے درمیان ہیں۔ خیال رہے کہ ملک میں سرکاری تعلیمی اداروں کی اسکولوں کی حالت انتہائی خراب ہے اس لیے یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ جو بچہ نجی اسکول میں تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا وہ سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کر لے۔

شاہد اقبال 

یہ خبر 22 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.
 

اللہ کرے ایسا نہ ہو

0
0

وطن عزیز کے حالات نے اچانک ایک نئی کروٹ لی ہے اور بہت کچھ ا وپر نیچے ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پچھلے تین ہفتوں میں رونما ہونے والے کچھ انتہائی تشویشناک واقعات کے باعث کچھ اہم لوگوں نے اپنے انداز فکر پر نظر ثانی کرتے ہوئے ایسے فیصلے کر لئے ہیں جس کے بعد اہل سیاست کے پاس غلطی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک معمولی غلطی بہت کچھ توڑ پھوڑ کر رکھ دیگی۔ جن واقعات نے حالات کو تبدیل کیا ہے ان کی تفصیلات سے پاکستان کے عوام کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ وجہ شاید یہ ہے کہ ابھی تک تحقیقات جاری ہیں۔ یہ واقعات دراصل پاکستان کی قومی سلامتی کے خلاف بہت بڑی مبینہ سازشیں ہیں جن میں کچھ سیاسی اور غیر سیاسی افراد ملوث تھے۔

غیر سیاسی افراد کے خلاف کارروائی شروع ہو چکی۔ سیاسی افراد کو ڈھیل دی گئی ہے تاکہ ان کی نقل و حرکت کے ذریعے ان کے مزید روابط کا پتہ چلے اور تحقیقات آگے بڑھ سکیں۔ تین اکتوبر کے بعد سے تبدیل ہوتے حالات میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت اور مارشل لا کی افواہوں نے جنم لیا۔ میں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر صاف الفاظ میں بار بار کہا کہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت اور مارشل لا کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ مزید مسائل کو جنم دے گا، لہٰذا موجودہ جمہوری نظام کو چلنے دیا جائے۔ 

مقام شکر ہے کہ فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی اپنی ایک پریس بریفنگ میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت اور مارشل لا کی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فوج جو کچھ بھی کرے گی آئین اور قانون کے اندر رہ کر کریں گی۔ اسی بریفنگ میں ان سے پوچھا گیا کہ تین اکتوبر کو کور کمانڈرز کی سات گھنٹے طویل میٹنگ کے بعد کوئی اعلامیہ جاری کیوں نہ کیا گیا تو جواب میں ایک فوجی افسر کی زبان سے بڑا معنی خیز شاعرانہ بیان جاری ہوا۔ انہوں نے کہا کہ خاموشی بھی اظہاربیان کا ایک طریقہ ہے۔ کافی دن گزرنے کے بعد میجر جنرل آصف غفور کے اس بیان کا پس منظر سمجھ میں آنے لگا ہے اور نوبزادہ نصر اللہ خان کے یہ اشعار بھی یاد آرہے ہیں؎

جبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیں
میری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں
غم نہیں، گر لب اظہار پر پابندی ہے
خامشی کو بھی اک طرز نوا کہتے ہیں

نوابزادہ نصر اللہ خان نے بہت سال پہلے خاموشی کو بھی اک طرز نوا قرار دیا تھا۔ اس زمانے میں ٹوئٹر تھا نہ فیس بک تھی۔ لب ہلانے والوں کو اٹھا لیا جا تا تھا لہٰذا لوگ خاموشی کے ساتھ آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کیا کرتے تھے۔ آج کل لب ہلائے بغیر ٹوئٹر اور فیس بک کے ذریعہ اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں نے ٹوئٹر اور فیس بک کو اظہار خیال کی بجائے صرف اظہار ملال کا ذریعہ بنا لیا ہے اور ان کی لعنت ملامت گالی گلوچ بن جاتی ہے۔ اس گالی گلوچ میں کئی سیاسی جماعتوں اور مکاتب فکر کے لوگ ہر وقت اپنا حصہ ڈالتے ہیں لیکن پچھلے دنوں ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے کچھ ایسے حضرات کو اٹھا لیا گیا جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سوشل میڈیا پر سرگرم اپنے حامیوں کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مخالف نکتہ نظر کو جبراً دبانا قابل مذمت ہے۔ ان کی بات بالکل ٹھیک ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایک حکمران جماعت کے حامیوں کی طرف سے حکومت کے ماتحت ادار وں کے ساتھ اختلاف رائے کی بجائے گالی گلوچ کرنا قابل مذمت ہے یا نہیں؟ مزید یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ جس سائبر کرائمز لا کے تحت مسلم لیگ (ن) کے کچھ حامیوں کے خلاف کارروائی ہوئی یہ سائبر کرائم لا 2016 میں نواز شریف کی حکومت نے پارلیمنٹ سے منظور کرایا۔ اس وقت ہم نے بار بار وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشے رحمان سے گزارش کی کہ ان کا سائبر کرائمز لا آزادی اظہار پر مزید پابندیوں کے راستے کھولے گا لیکن وہ کچھ سننے کے لئے تیار نہ تھیں۔

ان کا ہدف سوشل میڈیا پر متحرک تحریک انصاف کی سائبر فورس تھی لیکن آج ان کے اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کے تحت وزارت داخلہ کا ماتحت ادارہ ان کے اپنے ہی حامیوں کو حراست میں لے رہا ہے۔ کارروائی ایف آئی اے کرتی ہے اور مجھے میجر جنرل آصف غفور کا یہ بیان یاد آتا ہے کہ جو کچھ بھی ہو گا آئین و قانون کے دائرے کے اندر ہو گا۔ عجیب صورتحال ہے، مسلم لیگ (ن) مرکز، دو صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومت کر رہی ہے لیکن اس جماعت کے صدر نواز شریف اپنی ہی حکومت کی کارروائیوں کی مذمت کر رہے ہیں۔ وہ حکومت بھی ہیں اور اپوزیشن بھی ہیں۔ ایسا لگتا ہے ملک میں جمہوریت ہے بھی اور نہیں بھی۔ مارشل لا ہے بھی اور نہیں بھی۔ جمہوریت اور مارشل ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔

جمہوریت مارشل لا بننا چاہتی ہے، مارشل لا کو جمہوری میک اپ کی ضرورت ہے۔ یہی وہ منافقت ہے جس نے جمہوری اداروں کو کمزور کیا ہے، اگر نواز شریف 2016 میں سائبر کرائمز لا پر سول سوسائٹی اور میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والے اختلاف رائے کو نظر انداز نہ کرتے تو شاید آج پوری سول سوسائٹی اور میڈیا ان کے ساتھ کھڑا ہوتا۔ افسوس کہ ان کی غلط پالیسیوں کے باعث آج ان کی پارٹی کے ساتھ خاندان کے اندر سے بھی ان کے ساتھ کھل کر اختلاف کیا جا رہا ہے۔ معاملات دن بدن بگڑ رہے ہیں۔ نواز شریف تدبر کا مظاہرہ کریں اور حالات کو سنبھالیں۔ ان کے جن حامیوں کو حراست میں لیا گیا وہ عام لوگ ہیں لیکن ان سے کی جانے والی تفتیش بہت اہم ہے۔ اس تفتیش کا تعلق انہی واقعات سے ہے جن کی تفصیلات سے عوام الناس کو باخبر نہیں رکھا گیا حالانکہ کچھ بہت اہم لوگ اعتراف جرم کر چکے ہیں۔

نواز شریف کے اردگرد موجود کچھ لوگ انہیں غلط مشورے دے رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ اگر جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دی گئی تو نواز شریف ہیرو بن جائیں گے۔ نواز شریف یاد رکھیں کہ یہ 1999 نہیں ہے، خدانخواستہ کچھ اوپر نیچے ہوگیا تو ڈیل کا کوئی امکان نہیں۔ وہ سعودی عرب نہیں جا پائیں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کو احتساب عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کا بائیکاٹ کر دینا چاہئے اور جیل چلے جانا چاہئے۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا کہ احتساب عدالت نواز شریف کو جو بھی سزا دے گی صدر ممنون حسین آئین کی دفعہ 45 کے تحت اسے معاف کر دیں گے۔ یہ مشورے دینے والے نواز شریف کو جیل پہنچا کر دم لیں گے۔ ایک دفعہ وہ جیل پہنچ گئے تو پھر انہیں نت نئے مقدمات میں بھی الجھایا جا سکتا ہے۔ ایسے مقدمات بھی جو ابھی بنے نہیں بننے والے ہیں۔ جن کا تعلق کچھ حالیہ واقعات سے ہے۔ یہ سب نواز شریف کے ساتھ ان کی اپنی ہی حکومت کرے گی، اللہ کرے ایسا نہ ہو۔

حا مد میر
 


افغانستان میں سی آئی اے نے سرگرمیاں بڑھا دیں

0
0

امريکی خفیہ ادارہ سی آئی اے افغانستان ميں اپنی سرگرمياں بڑھا رہا ہے۔ امريکی اخبار نيو يارک ٹائمز نے اعلیٰ سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ سی آئی اے نے افغانستان ميں طالبان کو تلاش کرنے اور ان کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کے ليے اپنے خفيہ آپريشنز کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئی حکمت عملی کے تحت سی آئی اے کے تجربہ کار افسران اور بلیک واٹر جیسے مسلح کانٹریکٹرز پر مشتمل چھوٹی چھوٹی ٹيموں کو افغانستان بھیجا جائے گا جو وہاں افغان افواج کے ساتھ مل کر کام کريں گے اور شدت پسندوں کے ٹھکانوں تک پہنچنے کی کوشش کریں گی۔ سی آئی اے نے تاحال اس رپورٹ پر کوئی رد عمل ظاہر نہيں کيا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ پیشرفت افغانستان میں سی آئی اے کے طریقہ کار میں تبدیلی کا ایک اشارہ ہے کیونکہ اس سے قبل یہ امریکی ادارہ صرف القاعدہ کو ختم کرنے کیلئے افغان اداروں کو مدد فراہم کر رہا تھا۔ سی آئی اے کے نیم فوجی افسران اس نئی حکمت عملی میں مرکزی کردار ادا کریں گے جن کا تعلق خصوصی سرگرمیوں کے شعبے سے ہو گا۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست میں نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں مزید فوج روانہ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
 

پاکستان کی 9 جامعات ایشیا کی بہترین یونیورسٹیز میں شامل

0
0

کواکیوریلی سائمنڈز (کیو ایس) نے ایشیاء کی 400 بہترین یونیورسٹیوں کی رینکنگ جاری کر دی جس میں پاکستان کی 9 یونیورسٹیز بھی شامل ہیں۔ پاکستانی یونیورسٹیز کے درجات میں گزشتہ برس کی نسبت اس سال نمایاں بہتری آئی ہے۔
کیو ایس کی ایشیائی انٹرنیشنل یونیورسٹی رینکنگ کی فہرست میں ’نَسٹ یونیورسٹی‘ 91 نمبر پر رہی۔ لَمز یونیورسٹی آٹھ درجے ترقی کےساتھ 103، قائد اعظم یونیورسٹی 133، کومسیٹ 190 جبکہ کراچی یونیورسٹی 193 نمبر پر موجود ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز (پی آئی ای اے ایس) اکیس درجے ترقی کےساتھ 128 ویں، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) پچاس درجے ترقی کے ساتھ 200 ویں، پنجاب یونیورسٹی 232 ویں جبکہ آغا خان یونیورسٹی (اے کے یو) نمایاں بہتری کے ساتھ 234 ویں نمبر پر رہی۔
لمز یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سہیل نقوی کا رینکنگ کے حوالے سے کہنا تھا کہ ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈیز) اساتذہ کی وجہ سے پاکستان کا معیار تعلیم بہتر ہو رہا ہے۔ کیو ایس کی رینکنگ میں سنگاپور کی نَنیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی ایشیا کی سب سے بہترین یونیورسٹی قرار دیا گیا ہے۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور رینکنگ میں دوسری، ہانگ کونگ یونیورسٹی میں آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی تیسری، کوریا ایڈوانسڈ انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی چوتھی جبکہ یونیورسٹی آف ہانگ کونگ کا پانچواں نمبر ہے۔
 

امریکہ پاکستان سے چاہتا کیا ہے؟

0
0

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان کے مختصر دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے ہیں جہاں وہ چار گھنٹے قیام کے بعد انڈیا کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔
ریکس ٹلرسن افغانستان کا دورہ کرنے کے بعد پاکستان پہنچے ہیں۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان کے اس دورے کا مقصد اعتماد کی بحالی اور طالبان کو کمزور کرنے کے حوالے سے بات چیت کرنا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ریکس ٹلرسن اپنے اس دورے کے دوران ’مخصوص‘ مطالبات بھی پاکستانی حکام کے سامنے رکھیں گے۔

آخر یہ مطالبات ہیں کیا اور امریکہ پاکستان سے چاہتا کیا ہے؟
بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کا پاکستان سے بنیادی مطالبہ دہشت گردوں کے خلاف مزید کارروائیاں کرنا اور شدت پسندوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنا ہے۔ جبکہ پاکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اس کی سر زمین پر شدت پسندوں کی پناہ گاہیں موجود نہیں ہیں اور ان کے خلاف پہلے ہی خاطر خواہ کارروائیاں کر رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں ہی پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ 'اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔'جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی امریکی پالسیی سامنے آنے اور پاکستان سے اس قسم کے مطالبات کے بعد پاکستان نے رواں سال اگست میں اپنی مصروفیات کو وجہ بتا کر ایک اعلیٰ امریکی وفد کے دورے کو منسوخ بھی کر دیا تھا۔

بشکریہ بی بی سی اردو

 

گوادر پانچ برسوں میں جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی بندرگاہ بن جائے گی

0
0

چین کی جانب سے بے مثال مالی اور تعمیری کوشش بحیرہ عرب پر واقع حکمت عملی کے اعتبار سے پاکستان کی اہم بندر گاہ، گوادر کو تیزی سے ترقی دے کر اسے دنیا کی ایک سب سے بڑی سفری اور مال أسباب کی منتقلی کی ایک تنصيب میں تبدیل کر رہی ہے ۔ دونوں فریق بندر گاہ کے اس شہر کو اربوں ڈالر کی ایک دو طرفہ اقتصادی راہداری کے ایک راستے کی شکل دینے کی توقع کر رہے ہیں، جسے دونوں اتحادی ملکوں کو باہم منسلک کرنے کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے۔
گہرے پانیوں کی بندر گاہ گوادر تجارتی اعتبار سے دنیا کے تین انتہائی اہم علاقوں، تیل سے مالا مال مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔

بیجنگ، گوادر کو، سی پیک کے طور پر معروف چین ۔ پاکستان اقتصادی راہداری کے حصے کے طور پر ترقی دے رہا ہے ۔ دونوں ملکوں نے 2015 میں ا س پراجیکٹ کو چین کی ابتدا ئی طور پر لگ بھگ 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ پاکستان میں، مشترکہ طور پر شاہراہیں، ریلویز، پاور پلانٹس، کمیونیکیشنز اور صنعتی زونز کی تعمیر کے لیے شروع کیا تھا ۔ اس کا مقصد گوادر کو مغربی چین کے خشکی سے گھرے علاقے سے منسلک کرنا ہے تاکہ اسے پاکستان کے راستے عالمی منڈیوں تک رسائی کا ایک نسبتاً چھوٹا اور محفوظ راستہ مل سکے۔
پاکستان کے کچھ لوگوں کو فکر ہے کہ پاکستان چین کے ماہرین، کارکنوں اور کاروباری افراد سے بھر جائے گا اور اس سے ملکی صنعتوں کو نقصان پہنچے گا۔
گوادر پورٹ کے چیئرمین دوستین خان جمال دینی اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ تصور درست نہیں ہے۔

دوستین خان جمال دینی جو بندر گاہ پر اعلیٰ ترین پاکستانی منتظم ہیں، کہتے ہیں کہ گوادر کے تعمیراتی اور دوسرے پراجیکٹس پر لگ بھگ 65 فیصد لیبر فورس پاکستانی ہے اور چینیوں کی تعداد صرف تین سو سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ انہوں نے ایک عمارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمارت جو آپ دیکھ سکتے ہیں، جو زیر تعمیر ہے، پہلے سے تیار چینی ٹکنالوجی سے تیار کی گئی ہے ۔ میرا نہیں خیال کہ ہم اس وقت اتنی بڑی عمارت کو دو یا تین ماہ میں تعمیر کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کام کے ساتھ ٹکنالوجی بتدریج پاکستان میں منتقل ہو رہی ہے اور اس سے پاکستان میں چینیوں کی موجودگی مزید کم ہو جائے گی۔

عہدے دار توقع کر رہے ہیں کہ گوادر پانچ برسوں کے اندر اندر جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا جہاز رانی کا مرکز بن جائے گا جہاں سالانہ 13 ملین ٹن سامان کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت ہو گی۔ اور ان کا کہنا ہے کہ 2030 تک یہ بندر گاہ 400 ملین ٹن تک کا سامان ہینڈل کر سکے گی۔ سیکیورٹی کے خدشات اوراس پراجیکٹ کے راستے میں آنے والے کچھ علاقوں پر بھارت کے دعوے گوادر کے لیے مسلسل اہم اور سی پیک کے لیے عمومی چیلنج ہیں۔ مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اس وقت انہیں جن فوری مسائل کا سامنا ہے وہ ہیں روزانہ کئی کئی گھنٹوں تک بجلی کا جانا اور پانی کی کمی۔

ایازگل 

بشکریہ وائس آف امریکہ

 

مائنس ایم کیو ایم فارمولا

0
0

بظاہر لگتا ہے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان گرنے والی ہے۔ لیکن شہری سندھ کی مستقبل کی سیاست پر رونما اس کی سیاسی اثرات نہایت تباہ کن ہوں گے۔ فطری طور پر اس سے پاکستان سرزمین پارٹی ( پی ایس پی) کے لئے گنجائش پیدا ہو گی۔ ایم کیو ایم جو کئی بحرانوں سے گزری لیکن لگتا ہے وہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد اور22 اگست کو ایم کیو ایم کے بانی کے نشریاتی خطاب کے اثرات بد سے باہر نہیں آسکی ہے۔ جبکہ ڈرائی کلیننگ کی دکان یا فیکٹری ایم کیو ایم کی گند دھونے میں مصروف ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما جو پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرنے کیلئے شدید دبائو میں ہیں یا ان پر دونوں کو ضم کر کے نیا نام اختیار کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ پہلی بار انہوں نے دبائو کے حربے جاری رہنے پر پارٹی چھوڑنے کی دھمکی دی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان، پی ایس پی، پی پی پی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی یا بالآخر ایم کیو ایم لندن کے زوال کا فائدہ کس کوپہنچے گا؟ 22 اگست کے واقعہ اور ایم کیو ایم پاکستان کے ایم کیو ایم لندن سے فاصلہ اختیار کرنے کے بعد سے جب ایم کیو ایم پاکستان کو علیحدہ جماعت قرار دیا گیا، اسے یہ بھی ’’مشورہ‘‘ دیا جا رہا ہے کہ وہ پی ایس پی میں ضم ہو جائے۔ لیکن پارٹی رہنمائوں کی اکثریت نے اسے مسترد کر دیا۔ جبکہ مختلف سیاسی جماعتوں نے ایم کیو ایم پاکستان کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اس سے یہ قیاس کیا گیا کہ انہیں نائن زیرو کے بغیر اپنا ہیڈ کوارٹر واپس مل جائے گا۔ لیکن اب تک اس حصول میں ناکام ہی رہے ہیں۔ مختلف طریقوں سے یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ ایم کیو ایم اورحق پرست جیسے الفاظ اور انتخابی نشان ’’پتنگ‘‘ ناقابل قبول ہوں گے؟ ایک مرحلے پر ایم کیو ایم پاکستان نے پی ایس پی کے ساتھ انضمام پر غور شروع کر دیا تھا۔
سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے ڈاکٹرفاروق ستار کو بتایا تھا کہ ایسا کرنا تباہ کن ہو گا اور نتیجتاً سابق گورنر بھی اپنی مضبوط پوزیشن سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے مخصوص حلقوں کا اعتماد کھو دینے کی تین وجوہ ہیں۔ اول وسیم اختر کو میئر کراچی کے منصب کے لئے نامزد کرنا۔ دوم شاہد خاقان عباسی کو وزارت عظمیٰ کے لئے اعتماد کا ووٹ دینا اورسوم آئینی ترمیم کے دوران میاں عتیق کے ووٹ پرمبینہ ڈبل گیم، اس ترمیم کی بدولت ہی نواز شریف نااہل قراردیئے جانے کے باوجود پارٹی صدر کے انتخاب کے لئے اہل ٹھہرے۔ جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کو کراچی اورحیدر آباد کے لئے ترقیاتی فنڈز کے حصول کی توقع ہو چلی، جیسا کہ وزیراعظم اور گورنر سندھ نے وعدہ کیا۔ لیکن مخصوص حلقوں کی مزاحمت کے باعث فنڈز کا حصول اتنا آسان نہیں، میئر عہدے کے لئے ان حلقوں کی جانب سے وسیم اختر کا نام مسترد کر دیا گیا تھا۔

ایم کیو ایم پاکستان نے مسلم لیگ (ن) اورسابق وزیراعظم نوازشریف کے قریب آنے کی کوشش کی لیکن مخصوص حلقوں نے اسے اچھا نہیں لیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار کے لئے معاملات بگڑتے چلے گئے۔ ایک طرف پی ایس پی اورمصطفیٰ کمال کیلئے مذکورہ حلقوں میں گرم جوشی اورخیرسگالی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ آئندہ مہینوں میں ان کا کردار پھیل جائے گا۔ مزید ارکان قومی و صوبائی اسمبلی پی ایس پی میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے خود فیصلہ کیا یا انہیں کہہ دیا گیا کہ وہ کسی کو اپنی جماعتوں سے منحرف ہونے پر مجبور نہ کریں۔
پی ایس پی کو ایم کیو ایم کے روایتی حلقوں کی حمایت حاصل ہو یا نہ ہو۔ لیکن مصطفیٰ کمال ڈاکٹر عشرت العباد کو اکھاڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ جنہیں ایک وقت اسٹیبلشمنٹ کا مکمل اعتماد حاصل رہا تھا۔ وہ اب بھی ان کی گڈ بک میں ہیں۔ محض اس لئے کہ انہوں نے ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے انضمام کو روکا۔

ڈاکٹر عشرت العباد کبھی مصطفیٰ کمال کے ساتھ تنازعے میں ملوث نہیں ہوئے اور بالآخر اپنی مضبوط پوزیشن کھو کر دبئی میں سکونت اختیار کر لی۔ لیکن وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کے انضمام کا فارمولا نہیں چلے گا۔ کیونکہ ووٹرز کی نظروں میں پی ایس پی اسٹیبلشمنٹ کی کنگز پارٹی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد شہری سندھ کے ممکنہ گیم پلان کے حوالے سے اب بھی ’’رابطوں‘‘میں ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان آئندہ عام انتخابا ت تک بحیثیت جماعت بچ جاتی ہے اور اگر نہیں تو اسے پی ایس پی سے تبدیل کر دیا جائے گا۔ لیکن پارٹی رہنمائوں کے لئے دبائو برداشت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

واقعہ 22؍ اگست کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کو متعلقہ حلقوں سے مثبت جواب نہیں ملا۔ گو کہ ان حلقوں کو بڑی حد تک یقین ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی اعلیٰ قیادت ایم کیو ایم لندن کے ساتھ رابطوں میں نہیں ہے۔ جسے خود بھی الطاف حسین سے ندیم نصرت اور واسع جلیل کی جانب سے دوری اختیار کرنے کے بعد مسائل کا سامنا ہے۔ 22؍ اگست 2016 کے واقعہ کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کو بعض حلقوں نے پی ایس پی میں ضم ہو جانے کا مشورہ دیا۔ بعدازاں یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ وہ کوئی نیا نام بھی اختیار کر لیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے رفقاء کے خیال میں ایم کیو ایم پاکستان کو مکمل طورپر لپیٹ دیا جانا مہاجر ووٹرز کو قبول نہیں ہو گا۔ 22؍ اگست کاواقعہ مہاجروں کے لئے بڑے صدمے کا باعث تھا۔ ذرائع کہتے ہیں کہ اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کو موقع دینے کا فیصلہ کیا گیا لیکن خورشید بیگم میموریل ہال، ایم پی اے ہاسٹل حوالے کرنے اور جناح پارک عزیز آباد میں جلسے کرنے کی اجازت دینے کے مطالبے رد کر دیئے گئے۔ جبکہ ایم کیو ایم پاکستان نے الطاف حسین کی رہائش گاہ نائن زیرو کی حوالگی کا کبھی مطالبہ نہیں کیا۔ لہٰذا پہلے ایم کیو ایم نے اپنا ہیڈ کوارٹر فاروق ستار کی رہائش گاہ کے قریب پیرالٰہی بخش کالونی (پی آئی بی) منتقل کیا اور بعدازاں بہادر آباد لے گئے۔


جب سابق وزیراعظم نوازشریف ، موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اورگورنر سندھ محمد زبیر خورشید بیگم میموریل ہال اور ایم پی اے ہاسٹل ایم کیو ا یم پاکستان کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو گئے تو حکومت سندھ اور متعلقہ حلقوں نے اس کی مخالفت کی۔ ایم کیو ایم کے منحرف رکن قومی اسمبلی سلمان مجاہد بلوچ کے فاروق ستار کے لندن کے ساتھ رابطوں کے الزام میں کوئی وزن نہیں ہے۔ کیونکہ لندن والے تو انہیں فاروق کا ٹولہ قراردیتے ہیں۔ خفیہ اداروں کا قومی سیاست میں کردار شاید کم ہو گیا ہو گو کہ کچھ کی رائے میں کردار اب بھی ہے۔ لیکن عموماً کراچی اور خصوصاً ایم کیو ایم کی سیاست میں اب تک سنگین شکوک و شبہات کلبلاتے رہتے ہیں۔ چاہے وہ ’’ڈرائی کلیننگ‘‘ کاعمل ہو یا خفیہ ہاتھوں کی بات ہو۔ ایم کیو ایم پراسٹیبلشمنٹ کی تخلیق ہونے کا الزام 1978 سے لگایا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم اوراس کے قائد کا اسٹیبلشمنٹ سے محبت اور نفرت کے اتار چڑھائو کے ساتھ تعلق قائم رہا۔

ایم کیو ایم کو توڑنے کی کوشش 1991ء میں پہلی بار اس وقت ناکام ہوئی۔ جب ’’حقیقی‘‘ کے نام سے دھڑا قائم کیا گیا۔ دوسری کوشش اس وقت ہوئی تھی جب چیئرمین عظیم احمد طارق استعمال ہوئے اور قتل کر دیئے گئے لیکن ایم کیو ایم لندن اور اس کی قیادت نے ارضی حقائق اور پاکستانی سیاست سے خود کو جدا کر لیا۔ جس کی وجہ سے 22؍ اگست کا واقعہ پیش آیا۔ الطاف حسین اور لندن میں ان کے ساتھی یہ بھول گئے کہ پاکستان مخالف بیانیہ نہ صرف ریاست بلکہ ہر پاکستانی اوران کے اپنے ووٹ بینک کے لئے بھی ناقابل قبول ہے۔ 23؍ اگست کو ڈاکٹرفاروق ستار سمیت ایم کیو ایم کی پاکستان میں قیادت نے جو کچھ فیصلہ کیا وہ درست تھا۔ اس دن سے آج تک ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور کارکن مشکوک تصور کئے جا رہے ہیں اور باقی وہ تمام جو پی ایس پی میں چلے گئے۔ انہیں نہ صرف ریلیف بلکہ مقدمات سے بھی چھٹکارا مل گیا۔ یہ تمام تر پیش رفت اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ پی ایس پی ہی کو ہی ایم کیو ایم کاممکنہ متبادل سمجھا جا رہا ہے۔ اب یہ تبدیلی ووٹرز کے لئے قابل قبول ہوتی ہے یا نہیں، یہ دیکھنا دلچسپی کا باعث ہو گا۔

گزشتہ چند ہفتوں سے ایسا لگ رہا ہے ڈاکٹر فاروق ستار اپنا اعتماد کھوتے اور مصطفیٰ کمال حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کا کیا انجام ہو گا ؟ اس سے قطع نظر سیاسی اور دانشور طبقات میں یہ عام احساس ہے کہ کب تک ملکی اور خصوصاً کراچی کی سیاست میں سیاسی تجربات ہوتے رہیں گے۔ ایم کیو ایم جس نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ’’منزل نہیں، رہنما چاہئے‘‘ کے نعرے سے کیا تھا، اسے واقعی رہنما ملا اور نہ ہی منزل ملی بلکہ سمت ہی گم ہو کر رہ گئی ہے۔

مظہر عباس

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live