Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

خواجہ آصف کے ارشادات

$
0
0

پاکستان کے نئے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے جو کچھ امریکہ جا کر کہا اُس پر بحث جاری ہے۔ کئی لوگ ان کے کئی نکتوں پر بحث کر رہے ہیں۔ گزشتہ چار سال میں سیاسی اور صحافتی حلقے یہ شور مچاتے رہے کہ پاکستان کو ایک مکمل وزیر خارجہ فراہم کیا جائے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
اِس وزارت کا چارج اُن کے پاس تھا، اور اِس حوالے سے یہ دعویٰ بے بنیاد تھا کہ کوئی وزیر خارجہ موجود نہیں۔ پاکستان قائم ہوا تو ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے خارجہ امور کی وزارت اپنے پاس ہی رکھی تھی، کچھ عرصے بعد نگاہِ انتخاب سر ظفر اللہ خان پر پڑی تو لیاقت علی خان نے یہ ذمہ داری ان کو سونپ دی۔

یہ سر صاحب کئی برس یہ ذمہ داری ادا کرتے رہے، اور انہی کے ہاتھوں پاکستان کو سیٹو (اور پھر سینٹو) کی رکنیت حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم بنایا جا چکا تھا (اور شاید دستوریہ تحلیل بھی ہو چکی تھی) کہ سر ظفر اللہ منیلا میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شریک ہوئے، اور کابینہ کی اجازت کے بغیر سیٹو میں شامل ہونے کا اقرار کر کے واپس آئے۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے تو وزارت خارجہ انہوں نے بھی اپنے پاس رکھی، اس سے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ میں بھی وہ وزیر خارجہ رہے تھے،اور ثابت شدہ حقیقت یہ ہے کہ 65ء کی جنگ سے پہلے ان کی ’’وزارت‘‘ نے اپنے صدر کو یقین دلایا تھا کہ کشمیر میں جنگ بندی لائن پر جنگ چھڑ گئی تو بھی بھارت بین الاقوامی سرحد کی طرف قدم بڑھانے کی جرأت نہیں کر پائے گا۔ معصوم ( عرف بدھو عرف بے دماغ) فیلڈ مارشل نے اس پر یقین کر کے کشمیر کو بذریعہ جنگ حاصل کرے کا منصوبہ بنا ڈالا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر نے 6 ستمبر سے کئی روز پہلے ترک سفارت خانے کے ذریعے اسلام آباد یہ خبر پہنچائی کہ بھارت (6 ستمبر کے لگ بھگ) پاکستان پر باقاعدہ حملہ کر سکتا ہے۔ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے سیکرٹری عزیز احمد نے یہ فائل دبا لی اور اپنے صدر کو اس کی ہوا نہ لگنے دی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ’’آزاد روی‘‘ کا مظاہرہ کیا، اور اپنے صدر اور وزیراعظم سے الگ اپنا راستہ بنا لیا۔ اس پس منظر میں نواز شریف کی احتیاط نے انہیں محکمے کا چارج اگر اپنے پاس رکھنے پرمجبور کیا، تو اسے یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال وزیر کے درجے کے مشیر سرتاج عزیز موجود تھے، وزیر مملکت کا مقام رکھنے والے طارق فاطمی کی خدمات بھی حاصل تھیں،اِس لیے یہ کہنا درست نہیں تھا کہ وزارت خارجہ ’’یتیم‘‘ ہے، لیکن یہ بات بار بار کہی اور دہرائی جاتی رہی، یہاں تک کہ گزشتہ دِنوں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ایک گفتگو میں یہ بات ’’بائی‘‘(Buy) کر لی۔

نواز شریف بذریعہ سپریم کورٹ وزارت عظمیٰ سے الگ کیے گئے تو وزارت خارجہ کا تاج خواجہ آصف کے سر پر رکھ آئے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اس کارخیر میں حصہ ڈالا ہو گا۔ خواجہ صاحب جب سے وزیر بنے ہیں اُن کے دِل میں پاکستان کا نیا بیانیہ ترتیب دینے کا شوق تیز ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہمارے ہمسایہ ممالک اور امریکہ کو تو بہت کچھ کرنا ہی چاہئے، لیکن پاکستان کو بھی اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے، گویا اپنی سرزمین پر موجود ’’نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کا ہاتھ روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دینا چاہیے۔ امریکہ پہنچ کر بھی انہوں نے یہی بات دہرائی، لیکن تاریخی حقائق ان کی نظر سے اُوجھل ہو گئے۔

انہوں نے جماعت الدعوۃ اور حقانی نیٹ ورک کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا، دونوں کو امریکہ کے(سابق) لاڈلے بچے قرار دے کر انہیں پاکستان کا بوجھ قرار دیا، اور کہا کہ ان سے نپٹنے کے لیے وقت دیا جائے۔ 1979ء میں افغانستان میں سوویت فوجوں کی مداخلت اور نائن الیون کے بعد ہونے والے نیٹو حملے کو ایک ہی قطار میں کھڑا کر دیا، اور جہادِ افغانستان کو ’’پراکسی وار‘‘ قرار دیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کے اس تاریخی شعور پر ہر اُس شخص کو صدمہ ہوا، جو گزرنے والے واقعات سے کچھ بھی واقف ہے۔ 79ء میں سوویت فوجوں کی مداخلت کے بعد افغان مزاحمت کاروں کی امداد کرنے، اور مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کا فیصلہ پاکستان کا اپنا تھا،امریکہ، چین اور دوسرے ممالک اِس میں بعد میں شریک ہوئے۔

سوویت مداخلت کے خلاف جہاد کی برکت ہی سے پاکستان 71ء کی جنگ میں بھارت کے اتحادی سوویت یونین سے حساب برابر کرنے میں کامیاب ہوا، اور اس کے ساتھ ہی اس کا ایٹمی پروگرام بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ پایا۔ اس جہاد میں افغانوں کی امداد پاکستان کے لیے باعثِ فخر ہے، اور اگر پاکستانی وزیر خارجہ اسے ’’پراکسی وار‘‘ کہیں گے تو اہلِ پاکستان انہیں اپنی توہین ہی کا مرتکب گردانیں گے۔ جہاں تک حافظ سعید کا تعلق ہے، ان کا اور جماعت الدعوۃ کا افغان جہاد میں کوئی کردار نہیں تھا۔ انہوں نے کشمیر میں آزادی کی تحریک کے ساتھ اپنے جذبات جوڑے تھے، ان کا ذکر اسی حوالے سے ہونا چاہیے۔ ان کی عزت اور ساکھ اسی تحریک سے وابستگی کا نتیجہ ہے۔ پاکستانی قوم کا بڑا حصہ انہیں کشمیریوں کے جذبۂ حریت کا بے باک ترجمان سمجھتا ہے۔ ان کا نام ادب اور احترام سے لیا جانا چاہیے۔

رہا حقانی نیٹ ورک کا معاملہ تو ایک ایسے وقت میں جب وزیر خارجہ خود اپنی گفتگو میں اس حقیقت پر زور دے رہے تھے کہ افغانستان کا 45 فیصد علاقہ طالبان کے قبضے میں ہے، تو پھر وہاں کسی کارروائی کی ذمہ داری پاکستان پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟ حقانی نیٹ ورک کو اب پاکستان میں ٹھکانہ تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ خواجہ آصف کی اِس بات سے اصولی اتفاق کے باوجود کہ پاکستان کی سرزمین کسی ہمسایہ مُلک کے اندر کسی پُرتشدد کارروائی میں معاونت کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہئے۔ یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ خواجہ صاحب کے الفاظ کا چناؤ انتہائی نامناسب اور غیر محتاط تھا۔ وہ گورنمنٹ کالج کے کسی مباحثے میں تقریر نہیں کر رہے تھے، وزیر خارجہ کے طور پر بین الاقوامی فورم پر اظہارِ خیال میں مصروف تھے اگر وہ تاریخ، نظریے، اور لغت سے بے نیاز ہو کر اظہارِ خیال کی عادت پر نظرثانی نہیں کر سکتے تو پھر انہیں وزارت پانی و بجلی میں واپس چلے جانا چاہیے۔

مجیب الرحمان شامی



 


کیا آپ جانتے ہیں گوگل کا نام ایک غلطی کے نتیجے میں رکھا گیا

$
0
0

کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے سب سے بڑے انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل (Google)
کا نام ایک غلطی کے نتیجے میں رکھا گیا۔ گوگل کب اور کیسے بنا؟ اس بارے میں انٹرنیٹ پر بہت سی معلومات دستیاب ہیں تاہم مستند اور حقیقت پر مبنی معلومات ڈیوڈ کولر نامی صاحب نے اپنی ایک مختصر یادداشت میں بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر گوگل کے نام اور اس ویب سائٹ کے قیام سے متعلق بے بنیاد تحریروں کی بھرمار ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

ان کے بقول ستمبر 1997 میں کیلیفورنیا کی اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے طالب علموں لیری پیج اور سرگی برن نے ایک نیا سرچ انجن ایجاد کیا تھا جو ایک منفرد طریقے پر کام کرتا تھا۔ وہ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے ایک کمرے میں دوسرے چند گریجویٹ طالب علموں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ ایک روز وہ اپنے ساتھیوں شون اینڈرسن، تمارا منزنر اور لوکاس پریرا کے ساتھ اس سوچ بچار میں مصروف تھے کہ وہ انٹرنیٹ اپنے اس نئے سرچ انجن کا نام کیا رکھیں۔ اس بارے میں سب ہی دوست سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔ ان میں سے لیری ممکنہ ناموں کو شارٹ لسٹ کر رہے تھے جبکہ شون بھی اس عمل میں پیش پیش تھے۔

لیری اور شون، وائٹ بورڈ پر منتخب موزوں ترین ناموں کو درج کر کے ان کے معنی اور مناسبت کے حوالے سے تفصیلات لکھنے میں مصروف تھے۔ اسی دوران شون نے زبانی طور پر ’’googolplex‘‘ لفظ تجویز کیا تو لیری نے فوراً ہی اسے مختصر کر کے ’’googol‘‘ کردیا جو کسی غیرمعمولی طور پر بڑے عدد کو ظاہر کرتا ہے۔ شون سے سننے میں غلطی ہوئی اور اس نے غلطی سے ڈومین نیم تلاش کرتے دوران googol کی جگہ google ٹائپ کر دیا جو لیری برن، دونوں کو بہت پسند آیا۔ خوش قسمتی سے یہ ڈومین نیم دستیاب بھی تھا اس لیے چند روز بعد لیری پیج نے google.com کے نام سے ڈومین نیم حاصل کر لیا اور یوں انٹرنیٹ کا مشہور ترین سرچ انجن ’’گوگل‘‘ وجود میں آیا۔ اس وقت بھی اگر آپ انٹرنیٹ سروس ’’ہو اِز‘‘ (Who Is) استعمال کرتے ہوئے تلاش کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ڈومین نیم google.com کی اوّلین رجسٹریشن 15 ستمبر 1997 کے روز کروائی گئی تھی۔

آج شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں گوگل پر چیزیں سرچ نہ کی جاتی ہوں، یوٹیوب پر ویڈیوز نہ دیکھی جاتی ہوں، جی میل سے ای میل نہ کی جاتی ہو اور اینڈروئیڈ آپریٹنگ سسٹم کے ذریعے اسمارٹ فونز نہ چلائے جاتے ہوں۔ آج 160 ممالک میں گوگل کے 4 ارب 50 کروڑ صارفین موجود ہیں۔ آج گوگل سیکڑوں نہیں تو درجنوں سروسز تو ضرور فراہم کر رہا ہے اور ویب سرچنگ ان میں سے صرف ایک ہے۔
ویب سرچنگ کے بے تاج بادشاہ گوگل نے چند روز پہلے ہی اپنی 19ویں سالگرہ منائی ہے۔ اس دن کی مناسبت سے گوگل نے مختلف گیمز متعارف کرائے ہیں جو بہت دلچسپ اور رنگوں سے بھرپور ہیں۔
 

نقطہ نظر پیش کرنے کا درست طریقہ : ڈیل کارنیگی

$
0
0

اگر آپ کو مکمل یقین ہے کہ دوسرا شخص غلط کہہ رہا ہے اور آپ بے دھڑک اسے کہہ دیتے ہیں کہ تم غلط کہہ رہے ہو۔ تو کیا ہوتا ہے میں اسے واضح کرتا ہوں۔ مسٹر سانتے نیو یارک کا ایک نوجوان وکیل ہے۔ ایک بار اس نے امریکی سپریم کورٹ کے سامنے ایک بڑے اہم مقدمے میں دلائل دیئے۔ اس مقدمے کا تعلق بہت زیادہ رقم سے تھا اور اس میں ایک بہت ہی اہم قانونی نکتہ تھا۔ دلائل کے دوران ایک جج نے وکیل سے پوچھا۔ ’’ اس قسم کے قانونی معاملے میں زیادہ سے زیادہ میعاد چھ برس ہوتی ہے نا۔‘‘ مسٹر سانتے ایک دم رک گئے اور انہوں نے ایک لمحے کے لیے جج کی طرف گھور کر دیکھا اور پھر جواب دیا ’’ عزت مآب اس قسم کے قانون میں کوئی میعاد نہیں ہوتی۔‘‘ ’’ عدالت میں ایک سناٹا طاری ہو گیا۔‘‘ سانتے نے بتایا ’’ میں بالکل صحیح کہہ رہا تھا مگر جج غلطی پر تھا اور ایسا میں نے اسے بتا دیا تھا۔ 

لیکن کیا اس سے جج مطمئن ہو گیا ؟ نہیں۔ میں یہی سمجھتا تھا کہ میری قانونی پوزیشن بہت مضبوط ہے اور میرا خیال تھا کہ میں نے پہلے سے زیادہ اچھے دلائل دیئے ہیں لیکن میں نے ایک مشہور اور قابل جج کو اس کی غلطی کا بتا کر بہت بڑی غلطی کی اور اس طرح میں نے اس کے جذبات اور عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی۔‘‘ ہم میں سے محض چند لوگ منطقی ہوتے ہیں۔ باقی سب میں صرف تعصب بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے اپنے ذہن میں حسد، شک خوف اور جلن کے جذبات لیے ہوئے ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنے مذہب اپنے بالوں کے سٹائل یا اپنے پسندیدہ ایکٹر کے بارے میں اپنا ذہن نہیں بدلنا چاہتے۔

اس لیے اگر آپ اس بات پر مائل ہوں کہ آپ لوگوں کو یوں بتائیں کہ وہ غلط ہیں تو ہر صبح ناشتے سے پہلے یہ پیراگراف ضرور پڑھیں۔ یہ جیمز ہاروے رابنسن کی مشہور کتاب The Mind in the Making سے لیا گیا ہے۔ ’’ ہم بعض اوقات کسی قسم کے دباؤ یا بھاری جذبات کے بغیر اپنا ذہن بدل رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں بتا دیا جائے کہ آپ غلط ہیں تو یہ بات ہمیں سخت ناگوار گزرتی ہے۔ ایک چھوٹا سا لفظ ’’ میرا یا میری‘‘ انسانی معاملات میں سب سے اہم ہے اور یہیں سے عقل کا ارتقا ہوتا ہے۔ اس میں بھی اتنی ہی طاقت ہوتی ہے جتنی ان الفاظ میں ہوتی ہے۔ جیسے ’’ میرا گھر‘‘ میرا والد، میرا ملک، میری کار اور میرا خدا، ہم ہر وقت اس یقین میں رہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کہیں گے اسے سچ مانا جائے گا اور ہم اس وقت سخت ناراض ہو جاتے ہیں جب ہمارے خیالات پر ذرا برابر بھی شک کیا جائے۔ اور ایسی صورتحال میں ہم اپنے خیالات سے ہی چمٹے رہتے ہیں خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم نہ صرف دوسروں کو ناراض کرتے ہیں بلکہ اپنے لیے بھی ناخوشگوار حالات کا سامان پیدا کرتے ہیں۔‘‘ 

مشہور نفسیات دان کارل راجرز نے اپنی مشہور کتاب On Becoming a Person میں لکھا ہے۔ میں اس وقت کو اپنے لیے بہت قیمتی سمجھتا ہوں جب میں کسی دوسرے شخص کا نقطہ نظر سمجھنے کیلئے خود کو تیار کر لوں۔ جن الفاظ میں یہ بیان کیا گیا ہے، ہو سکتا ہے وہ آپ کو عجیب سے لگیں۔ لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ آپ دوسروں کا نقطہ نظر سمجھنے کے لیے خود کو تیار کریں۔ بہت سی باتوں کے بارے میں ہمارا پہلا رد عمل ان کے خیالات کو جانچنا ہونا چاہیے۔ جب کوئی شخص اپنے کسی خیالی رویے یا جذبات کا اظہار کرتا ہے تو ہم فوراً یہ سوچتے ہیں ’’ یہ غلط ہے‘‘ ’’ یہ صحیح ہے‘‘ یہ بالکل فضول ہے۔ 

بہت کم ہم اس کے جذبات اور خیالات کو سمجھنے کے لیے خود کو آمادہ کرتے ہیں۔ میں نے ایک بار ایک اندرونی سجاوٹ کے ماہر کو اپنے گھر کے لیے پردے تیار کرنے کا آرڈر دیا۔ جب اس نے مجھے بل بنا کر دیا تو مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ چند روز بعد میرا ایک دوست گھر آیا اور اس نے پردوں کو دیکھا۔ میں نے پردوں کی قیمت بتائی تو فوراً وہ چونک اٹھا ’’ کیا؟‘‘ اس نے کہا میں نے پردوں کی بہت زیادہ قیمت ادا کی ہے۔ ہاں یہ صحیح تھا اور اس نے مجھے صحیح بتایا تھا مگر بہت سے لوگ اپنے فیصلوں کے بارے میں سچائی سننا پسند نہیں کرتے۔ اس لیے ایک انسان کی طرح میں نے اپنے فیصلے کا دفاع کرنا شروع کر دیا۔ میں نے اسے بتایا کہ بہترین چیز خریدنے کے لیے زیادہ قیمت تو ادا کرنی پڑتی ہے۔

اگلے دن ایک اور دوست میرے گھر آیا اس نے پردوں کی تعریف کی اور اس نے کہا کاش مجھے بھی اپنے گھر کے لیے ایسے پردے مل جائیں میرا رد عمل بہت مختلف تھا۔ میں نے کہا کہ میں اتنے مہنگے پردے خرید نہیں سکتا تھا لیکن میں نے ان کے لیے پیسے دیئے ہیں جس کا مجھے افسوس ہے۔ ’’ جب ہماری غلطی ہو تو ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی غلطی کو اندر ہی اندر تسلیم کر رہے ہوتے ہیں اور اگر ہمیں بڑی ملائمت کے ساتھ ہماری غلطی کا احساس دلایا جائے تو ہم اپنی غلطی کو اعلانیہ طور پر تسلیم بھی کر سکتے ہیں مگر اگر کوئی بحث کے ذریعے دلائل کے زور سے ہمیں غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے تو ہم تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔‘‘

امریکی سول وار کے دوران گریلے امریکہ کا سب سے مشہور ایڈیٹر تھا وہ ابراہام لنکن کی پالیسیوں کی بڑی شد و مد کے ساتھ مخالفت کرتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اس قسم کے طور طریقوں سے لنکن کو اپنا ہمنوا بنا سکتا ہے۔ وہ ہر مہینے اورہر سال بعد لنکن پر سخت ترین الفاظ کے ساتھ تنقید کرتا دراصل اس نے لنکن کی موت سے ایک دن پہلے اس پر سخت ترین الفاظ میں طنز اور ذاتی حملے کئے تھے۔ لیکن کیا ان تمام حرکتوں سے اس نے ابراہام لنکن کو اپنا ہمنوا بنا لیا؟ ہرگز نہیں۔

ڈیل کارنیگی


 

احساسِ تنہائی کیا ہے ؟

$
0
0

تنہائی کبھی نعمت ہے تو کبھی مصیبت۔ ادیبوں اور شاعروں نے تنہائی کو غنیمت سے تعبیر کیا ہے کیونکہ ہر وقت انہیں کوئی نہ کوئی خیال گھیرے رہتا ہے، لہٰذا تنہائی کہاں ہے؟ تنہائی کیا ہے ؟ اس بات کا دارومدار انسان کی سوچ پر ہے۔ بعض لوگ تنہائی کے لمحات ڈھونڈنے میں ساری زندگی صرف کرتے ہیں اور کچھ لوگ تنہائی کی ناگن کے ساتھ لڑتے لڑتے زندگی بتاتے ہیں۔ تنہائی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انسان دنیا میں تنہا آتا ہے اور تنہا ہی دنیا سے چلا جاتا ہے۔ مشہور و معروف شاعر حکیم مومن خان مومن نے اپنے ایک لافانی شعر سے خود کو ہی نہیں تنہائی کو بھی لازوال بنا دیا ہے۔ شعر یوں ہے۔

 تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

 جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

 انسان اکیلا ہو سکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ احساسِ تنہائی کا شکار ہو۔ احساسِ تنہائی اس وقت شروع ہوتا ہے جب ایک انسان اپنے آپ کو سماجی طور پر ٹھکرایا ہوا اور علیحدہ تصور کرنے لگے، وہ رشتہ داروں ، دوست و احباب کی کمی محسوس کرنے لگے۔ ایسے انسان کے لئے تنہائی کا مطلب ہوتا ہے، میرا کوئی نہیں ہے اور میں کسی کا نہیں ہوں۔ جیسے مرزا غالب فرما گئے ہیں 

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

 ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

 بے در و دیوار سا اک گھر بنانا چاہئے

 کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو

 پڑئیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار اور

 اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

 تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ تنہائی کا احساس انسان کی صحت کے لئے ضرر رساں ہو سکتا ہے۔

ایک یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جو طلبا دوستوں سے ملنے جلنے کی بجائے تن تنہا زندگی گزارنے کے عادی تھے ان کا نظامِ قوتِ مدافعت ان طلبا کے مقابلے میں بے حد ضعیف تھا جو اپنا وقت دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق، کھیل کود اور تفریح میں گزارنے کے عادی تھے۔ اسی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ کچھ طالب علم دوستوں کے درمیان رہ کر بھی احساسِ تنہائی کے شکار تھے، ایسے طلبا میں سے بیشتر نیند میں دائمی خلل کے بھی شکار تھے۔ احساسِ تنہائی کے شکار لوگ ہر وقت ذہنی دباؤ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کا فشار خون بڑی تیزی سے بلند یوں کو چھو سکتا ہے اور بعض اوقات دوائیوں کے استعمال سے بھی کم نہیں ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے جسم میں کولیسٹرول اور سیٹرس ہارمون کورٹیزول کی مقدار زیادہ ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ 

محققین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ پریشانی، مایوسی اور افسردگی جیسے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مگر محققین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سماجی علیحدگی اور احساسِ تنہائی میں فرق واضح کرنا لازمی ہے۔ اپنی مرضی سے سماجی علیحدگی اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ فرد احساسِ تنہائی کا شکار ہو۔ سماجی زندگی سے کنارہ کشی کا مطلب یہ نہیں کہ فرد کو احساسِ تنہائی بھی ہو۔ سماجی زندگی سے دوری اختیار کرنا فرد کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے جبکہ احساسِ تنہائی ایک مخصوص ذہنی کیفیت ہے۔ کچھ لوگ ’’لوگوں کے سیلاب‘‘ سے دور اپنی ایک الگ دنیا بسا کر اطمینان کا سانس لیتے ہیں۔

 احساسِ تنہائی میں مبتلا ہونے کا مطلب’’اکیلا‘‘ ہونا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کسی بھیڑ یا جشن میں بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے اور کوئی شخص اکیلا ہونے کے باوجود بھی تنہائی کے احساس کا شکار نہیں ہوتا۔ احساسِ تنہائی ایک ایسی درد بھری ذہنی کیفیت ہے جس میں مبتلا شخص اپنے آپ کو سماجی زنجیرسے ’’کٹا ہوا‘‘ حلقہ محسوس کر کے یہ سوچنے لگتا ہے کہ اس کی بنیادی اور ضروری خواہشات پورا کرنے میں کوئی بھی شخص دلچسپی نہیں لے رہا ہے۔ اس لئے یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔ 

جب احساسِ تنہائی کسی بھی شخص کو اپنی گرفت میں لیتا ہے تو 

٭وہ محسوس کرتا ہے کہ اسے ’’محفل‘‘ سے نکالا گیا ہے۔ 

٭اس کا کوئی چاہنے والا نہیں ہے۔ 

٭وہ اپنے ماحول میں اپنے آپ کو بیگانہ محسوس کرتا ہے۔ 

٭ اسے یوں لگتا ہے کہ ایسا کوئی شخص نہیں جس کے ساتھ وہ اپنے تجربات، احساسات اور دکھ درد بانٹ سکے۔ 

٭اسے دوست بنانے میں دشواری پیش آتی ہے۔ وہ کسی اجنبی کے ساتھ سلام کرنے کی حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ اور پھر اِن کے منفی اثرات یوں ظاہر ہوتے ہیں۔ 

٭احساسِ تنہائی کا شکار فرد احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ 

٭اسے ہر وقت یہ خیال ستاتا ہے کہ ’’یہاں کسی کو بھی میری ضرورت نہیں ہے‘‘۔ 

٭ وہ دعوتوں اور محفلوں میں جانے سے گھبراتا ہے۔ 

٭وہ خود پسندی اور ’’خود آگہی‘‘ کے وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ 

٭وہ کوشش کے باوجود اپنے جذبات اور احساسات بیان نہیں کر سکتا ہے۔ 

٭وہ دوسروں سے ہم کلام ہونے سے کتراتا ہے۔ 

٭وہ اپنے مسائل و مشکلات کسی دوسرے سے بیان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔ 

٭وہ ایک مخصوص اور تنگ دائرے میں مقید ہو کر رہ جاتا ہے۔ اور پھر وہ ’’موجودہ جگہ‘‘ یا ماحول سے راہِ فرار اختیار کرتا ہے۔ مثلاً اگر وہ والدین کے ساتھ رہتا ہو تو اچانک کسی وقت بنا سوچے سمجھے گھر سے بھاگ کرکسی اور جگہ پناہ لیتا ہے، اس وقت وہ یہ بھی نہیں سوچتا کہ اسے مستقبل میں کن مشکلات ومسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، اسی لئے گھر سے دور رہ کر ایسے نوجوان ایسی غلطیوں کے مرتکب ہو جاتے ہیں جن کا خمیازہ انہیں عمر بھر بھگتنا پڑتا ہے۔  

نذیر مشتاق


 

سیاسی جماعتیں ختم نبوت سے متعلق حلف نامے کی بحالی کیلیے متفق

$
0
0

قومی اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے ختم نبوت سے متعلق حلف نامے کو اصل شکل میں واپس لانے کے لیے فوری آئینی ترمیم کے لیے اتفاق کر لیا ہے۔ قومی اسمبلی میں پارلیامنی لیڈران کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے سردار ایازصادق نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کے وقت ختم نبوت سے متعلق حلف نامے کے الفاظ میں غلطی ہوگئی تھی، غلطی کودرست کرنا کوئی بری بات نہیں، اس کے لیے انہوں نے پارلیمانی لیڈران کا اجلاس بلایا تھا۔ ہم ختم نبوت سے متعلق حلف نامہ پرانی حیثیت میں بحال کریں گے۔ وفاقی وزیرقانون زاہد حامد نے کہا کہ ساری جماعتوں کا مشکور ہوں انہوں نے اس معاملے پر اتفاق کیا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپوزیشن نے اس کی نشاندہی کی اوراسے اسمبلی میں سامنے لایا گیا، یہ بڑا حساس ، جذباتی اور اہم مسئلہ ہے، اجلاس میں فیصلہ ہوا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں ایک ترمیم کی جائے گی جس کے ذریعے حلف نامے کو اس کی اصل شکل میں لایا جائے گا، اس کے ساتھ ہی میں نے تجویز دی ہے کہ شق 203 پربھی نظرثانی کی جائے کیونکہ یہ معاملہ عدالتوں میں جا چکا ہے۔ اس سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں اسپیکرقومی اسمبلی سردارایاز صادق کی زیرصدارت پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں شیخ صلاح الدین، اکرم درانی، شاہ محمود قریشی، مولانا امیرزمان اور دیگر پارلیمانی لیڈر شریک ہوئے۔ الیکشن بل میں امیدواروں کے حلف نامے میں الفاظ کی تبدیلی سے پیدا صورتحال پر غور کیا گیا، اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈران نے فیصلہ کیا کہ کاغذات نامزدگی میں حلف نامے کو اس کی اصل شکل میں لایا جائے گا۔
 

کیا نواز شریف پارٹی صدر بننے کا اخلاقی جواز رکھتے ہیں ؟

$
0
0

انتخابی قوانین میں ہونے والی حالیہ ترمیم نے اگرچہ نواز شریف کو ایک بار پھر پارٹی صدارت کی کرسی پر بٹھا دیا ہے لیکن اِس ترمیم سے جمہوری اقدار کو ٹھیس بھی پہنچی ہے۔ یقیناً، حکومت کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے اور اُسے سابق وزیرِاعظم کی سیاسی حیثیت بحال کرنے کی کچھ زیادہ ہی جلدی تھی۔ جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے تو اب اُس کی لگام بھی سابق وزیر اعظم کے ہاتھوں میں ہے جنہیں سپریم کورٹ کے حکم نامے کی نافرمانی کرتے ہوئے حکمران جماعت کی کمان سونپی گئی ہے۔ بلاشبہ، نواز شریف کی دوبارہ تاج پوشی سے پارٹی حلقوں میں اتحاد قائم رکھنے میں مدد ملے گی اور اس طرح خاندانی سیاسی سلسلے کی قیادت خاندان کے کسی دوسرے فرد کو منتقل بھی نہیں کرنی پڑے گی۔ لیکن کیا اس طرح ان کی اخلاقی حیثیت بھی بحال ہو سکتی ہے؟ پارٹی قیادت سنبھالنے سے وہ ان الزامات سے بری نہیں ہوں گے جن کا سامنا وہ عدالتوں میں کر رہے ہیں۔

اس سے بھی پریشان کن بات تو یہ ہے کہ قانون میں جس طرح فرد واحد کے لیے ترمیم لائی گئی اور جس طریقہ کار کے تحت لائی گئی ہے، اُس نے جمہوری معیار کو کافی ٹھیس پہنچائی ہے۔ اب عدالت سے سزا یافتہ کوئی بھی شخص سیاسی جماعت تشکیل دے سکتا ہے اور اُس کی قیادت بھی کر سکتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ، ایک شخص جس پر عوامی عہدہ رکھنے پر پابندی ہے وہ بھی اب کنگ میکر بن سکتا ہے اور اپنے نمائندوں کے ذریعے حکومت کو چلا سکتا ہے۔ بظاہر تو ترمیم کی اِس طرح جلد بازی میں منظوری کا مقصد عدالتوں کو دباؤ میں لانا تھا، لیکن خیال یہ ہے کہ یہ طریقہ کار کچھ زیادہ مددگار ثابت نہیں ہو گا، بلکہ لگتا ہے کہ ایک نئی قانونی جنگ چھڑ جائے گی، کیونکہ عدالتوں میں اِس ترمیم کو پہلے ہی چیلنج کر دیا گیا ہے۔

بے شک، پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے بے نظیر بھٹو کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت سے دور رکھنے کے اپنے درپردہ مقصد کو پورا کرنے کی خاطر اِس قانون کا استعمال کیا تھا۔ لیکن یہاں اِس قانون میں ترمیم کا مقصد کسی ناجائز اقدام کی درستگی نہیں بلکہ ایک نااہل رہنما کو فائدہ پہنچانا تھا۔ یہ عمل ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری کلچر کے فقدان کو بھی ظاہر کرتی ہے جو اب زیادہ سے زیادہ خاندانی جاگیر کی صورت اختیار کر چکی ہیں اور جنہیں چند افراد کے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جمہوریت اپنی طاقت قانون کی حکمرانی سے حاصل کرتی ہے، اِس کی مزاحمت سے نہیں۔ جمہوریت صرف اُسی صورت مؤثر انداز میں کام کر سکتی ہے جب سیاسی جماعتیں اپنے رہنماؤں کو غلط کام کرنے پر مذمت کرنے کے قابل ہوتی ہیں اور اُن کی قسمت کے فیصلے کے لیے عدالت کا انتظار نہیں کرتیں۔

مگر پاکستان میں صورتحال بالکل مختلف ہے، یہاں کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے اہم عہدہ پر فائز تو ہوتے ہی ہیں بلکہ اُن کے حامی اُن کے قصیدہ خواں بنے بیٹھے ہیں۔ مثلاً، وہ شخص جس پر منی لانڈرنگ کا الزام ہے وہ کس طرح ملکی اقتصادی اور مالیاتی معاملات سنبھال سکتا ہے؟ ہاں آگے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسحاق ڈار کو ابھی مجرم قرار نہیں دیا گیا، بلکہ مقدمے کی غیر جانبداری پر بھی سوال اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ تمام الزامات سے بری ہونے تک وہ اپنے عہدے سے دستبردار رہیں؟

یقیناً، ایک داغدار وزیر خزانہ ایک ایسی معیشت کے معاملات کو مؤثر انداز میں نہیں سنبھال سکتا ہے جو مسلسل زوال کا شکار ہے۔ جبکہ ترسیل رقم میں گراوٹ اور برآمدات میں کمی کے باعث غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں پریشان کن حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ جب ادائگیوں کے توازن میں ریکارڈ خسارے کی وجہ سے آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا حکومت کے لیے ناگزیر بن چکا ہے۔ قرضے کا بوجھ اب حد سے زیادہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مقدمے میں الجھے وزیر خزانہ کے لیے غیر ملکی اداروں کے ساتھ مذاکرات کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کئی ماہ سے وزارت خزانہ مفلوج بنی ہوئی ہے۔

حکومت، جو اس وقت سابق وزیر اعظم کی سیاسی حیثیت بحال کرنے میں مصروف ہے، وہ تیزی کے ساتھ اپنا دائرہ اختیار بھی کھوتی جا رہی ہے۔ اداروں کے درمیان تصادم نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ پیر کے روز سابق وزیرِاعظم کی پیشی کے دوران احتساب عدالت کے باہر جو انوکھا واقعہ پیش آیا، وہ کافی نامبارک ہے۔ رینجرز کی تعیناتی پر اٹھنے والا تنازعہ لاقانونیت کی سی صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ بلاشبہ، یہ ایک سنگین مسئلے کا باعث ہے کہ وزیر داخلہ کو پتہ ہی نہیں تھا کہ رینجرز کو کس نے بلایا، بلکہ اُس وقت تو مزید عجیب و ٖغریب صورتحال تب پیدا ہو گئی جب رینجرز نے احسن اقبال کو عدالت کی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ رینجرز کسی کے احکامات کے بغیر تو یہاں آئی نہیں تھی اور عوام کے آگے وزیرِ داخلہ کا غصہ اور ریاست کے اندر ایک ریاست موجود ہونے کا بیان دینا دراصل اُن کی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔

بلاشبہ یہ حکومت کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ یہ واقعہ حکومت کے سکڑتے دائرہ اختیار کے خیال کو تقویت بخشتا ہے، جبکہ حکومت نے اپنا زیادہ تر دھیان معزول وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے دفاع پر مرکوز رکھا ہوا ہے۔ چھت پر چڑھ کر کسی ’غائب ہاتھ’ کے بارے میں چلانا کافی نہیں۔ یہی تو انتظامیہ ہے، احمق۔ ہم تو پہلے ہی یہ دیکھ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ زیادہ سے زیادہ اختیار حاصل کرتی جا رہی ہے۔ نواز شریف نے سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک اعلیٰ سطحی قومی مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے، اور اِس تجویز سے تو کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کے لیے بڑی سیاسی جماعتوں کو کسی قسم کے فریم ورک پر متفق ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن نواز شریف کو یہ مطالبہ کرنے میں شاید دیر ہو چکی ہے اور وہ ایسے وقت پر مطالبہ کر رہے ہیں جب انہیں صادق اور امین نہ ہونے پر نااہل قرار دیے جا چکا ہے اور وہ مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ یوں دیگر سیاسی جماعتیں اُن کے اِس ارادے کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ شکوک شبہات یہ بھی ہیں کہ وہ خود کو کٹھن حالات سے نکالنے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔

نواز شریف کے پاس گزشتہ 4 برس کے دوران دستور کے مطابق جمہوری عمل کو مضبوط کرنے کا سنہری موقعہ تھا۔ لیکن اس کے برعکس وہ پارلیمنٹ کو غیر مؤثر اور دیگر سویلین اداروں کو کمزور کرنے کی وجہ بنے، یوں غیر منتخب عناصر کو اپنے اختیارات کا دائرہ کار وسیع کرنے کا موقعہ مل گیا۔ جبکہ سابق وزیر اعظم نے خاندان کے قریبی افراد کی مدد سے اپنی ذات تک محدود حکمرانی کو قائم کیا۔ کابینہ کا اجلاس بھی کبھی کبھار ہی ہوتا اور بعد میں وہ کابینہ بھی ربر اسٹیمپ میں بدل گئی۔ اِس وقت عدلیہ کے ساتھ چل رہی اُن کی لڑائی کی وجہ سے وہ زیادہ تر سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ جمع نہیں کر پائیں گے۔

بلاشبہ سویلین بالادستی کے قیام اور طاقت میں موجود اِس عدم توازن کو ختم کرنے کے لیے میثاق جمہوریت یا اعلیٰ سطحی مذاکرات درکار ہیں، جس کے باعث غیر منتخب اداروں کو منتخب سویلین حکومتوں کو کھوکھلا کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ لیکن اپنی ذات تک محدود طاقت کا نام سویلین بالادستی نہیں ہے۔ جمہوریت صرف انتخابی مینڈیٹ جیتنے کا نام نہیں بلکہ جمہوریت کا مطلب قانون کی حکمرانی اور جمہوری احتساب پر عملدرآمد ہونا ہے۔ کاش کہ نواز شریف اِس بات کو سمجھتے۔ اہم ترین بات یہ کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک معاشی معاہدے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اقتصادی پالیسیوں میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے، پھر چاہے اقتدار میں کوئی بھی جماعت ہو۔ شاید، یہ کام انتخابات کے بعد ممکن ہو پائے گا۔

زاہد حسین
یہ مضمون 4 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
 

حافظ سعید امریکی پیداوار نہیں

$
0
0

ساری خدائی ایک طرف ہو جائے اور میں اکیلا رہ جاﺅں ، تب بھی یہی گواہی دوں گا کہ حافظ محمد سعید امریکی پیداوار نہیں ہیں۔ پتہ نہیں وزیر خارجہ کو کس نے پٹی پڑھائی کہ انہوں نے امریکہ میں جا کر یہ ایک سانس میں کہہ دیا کہ حقانی گروپ، حافظ سعید اور لشکر طیبہ امریکی پیداور ہیں۔ یہ پاکستان پر بوجھ ہیں اور ان سے جان چھڑانے میں پاکستان کو وقت درکار ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اور وہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کو ڈو مور کرنے کی ضرورت ہے، اب چونکہ آرمی چیف نے ٹرمپ کے جواب میں یہ کہا تھا کہ پاکستان کو ڈو مور کہنے والے اب خود ڈو مور کے پابند ہیں۔ اس مسئلے پر وزیر خارجہ اورآرمی چیف کے موقف میں تضاد ہے مگر اس تضاد پر قابو پانے کے لئے یہ دونوں شخصیات باہم صلاح مشورہ بھی کر سکتی ہیں مگر حافظ محمد سعید اسوقت نظر بند ہیں اور ان کی زبان بھی بند ہے، اس لئے میں کتمان شہادت کا مجرم نہیں بننا چاہتا اور جو معلومات میرے پاس ہیں، ان کی روشنی میں وضاحت پیش کروں گا۔

اس وقت حکومت میں بیشتر افراد وہ ہیں جو راوین ہیں اور میرے ہی زمانے کے ہیں، ہمارے استاد ایک ہی تھے۔ اسحق ڈار، سعید چمن، نواز شریف، شہباز شریف، خواجہ آصف، ان راوین ساتھیوں سے دلی لگاﺅ ہے، کسی سے کم کسی سے زیادہ۔
میرا اندازہ ہے کہ وزیر خارجہ کے پاس غلط معلومات ہیں۔ یہ بات برادرم مجیب شامی بھی لکھ چکے ہیں اور شاید کہہ بھی چکے ہوں، وہ اس حکومت کے حد سے زیادہ طرفدار ہیں اس لئے وزیر خارجہ کو ان کی بات پر دھیان دینا چاہئے تھا مگر پرسوں حامد میر کے پروگرام میں ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ امریکہ میں کہے گئے الفاظ پر قائم ہیں توخواجہ آصف نے روایتی دلیری سے کہا کہ وہ اپنی بات سے کبھی منحرف نہیں ہوئے، جو چار دن پہلے امریکہ میں کہا ہے، اس پر    آئندہ چالیس برس بھی قائم رہوں گا۔ دعا ہے خدا ان کواتنی لمبی عمر عطا کرے۔

وزیر خارجہ کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ حقانی گروپ نے افغان جہاد تو کیا مگر یہ ہر گز ہرگز امریکہ کی پیداوار نہیں ۔ رہا لشکر طیبہ کا قصہ تو افغان جہاد کے دنوں میں یہ لوگ ابھی منہ میں چوسنی لئے ہوئے تھے، ان کا افغان جہاد سے کیا جوڑ، کیا تعلق ، کیا لینا دینا۔ حافظ سعید کا کبھی امریکہ سے کوئی تعلق نہیں رہا، وہ کبھی امریکہ کے دورے پر بھی نہیں گئے، انہوں نے امریکن ایڈ کی کھاد، گندم یا ڈالر بھی استعمال نہیں کئے۔ جن سے ہر پاکستانی بہرہ مند یا فیض یاب ہو چکا ہے، امریکہ نے وار آن ٹیرر کے لئے کھربوں پاکستان پر لٹائے، ان میں سے حافظ سعید کو کوئی حصہ نہیں ملا، نہ انہوں نے مانگا۔

اب آیئے ان کی تنظیم لشکر طیبہ کی طرف۔ یہ بنیادی طور پر مقبوضہ کشمیر کی ایک تنظیم ہے جو بھارتی تسلط سے ا ٓزادی چاہتی ہے اور اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی روشنی میں حق خودارادیت کی طلب گار ہے،۔ پاکستان کی ہر حکومت اس مطالبے کی حامی رہی ہے اور ہمارا ہر وزیر اعظم خواہ رسمی طور پر سہی، سال میں ایک مرتبہ جنرل اسمبلی سے خطاب کرتا ہے اور پچھلے وزیر اعظم سے بڑھ چڑھ کر کشمیریوں کی آزادی کامطالبہ کرتا ہے، وزیر خارجہ کے سابق وزیر اعظم نے پچھلے سال جو تقریر کی ، اس نے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل جیت لئے۔ وزیر خارجہ اس وقت جس وزیر اعظم کی کابینہ کا حصہ ہیں، انہوں نے بھی کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حق میں آواز اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس لحاظ سے حافظ محمد سعید بھی کشمیریوں کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں تو کوئی انوکھا جرم نہیں کرتے، یہ سبق انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم کے اس قول سے سیکھا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔

اگر مجھے کہیں وزیر خارجہ ملیں گے تو ان سے ضرور پوچھوں گا کہ وہ قائد اعظم کے اس فرمان کے بارے میں کیا فرماتے ہیں اور مزید یہ پوچھوں گا کہ قائد اعظم نے افواج پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے نجات دلائے۔ گو انگریز ارمی چیف نے یہ حکم نہیں مانا مگر آزاد کشمیر کا علاقہ قبائلی اور پکی فوج کے جہاد کے بل بوتے پر ہمیں ملا۔ اس کے بعد وزیر خارجہ بھٹو کے کہنے پر پینسٹھ میں ایک بار پھر کشمیر کا جہاد شروع ہوا جو ہمارے گلے پڑ گیا اور بھارت نے پاکستان کی عالمی سرحدیں روند ڈالیں۔ اسی کشمیر کے لئے نواز شریف کے دوسرے دور اقتدار میں کارگل کا جہاد ہوا، یہ بھی ہمارے گلے پڑ گیا، محصور جہادی عناصر کو بمشکل واپس نکالا جا سکا اور نواز شریف اور آرمی چیف میں اختلافات کی وجہ سے جمہوریت کی بساط الٹ دی گئی۔ واضح رہے کہ کارگل جہاد بھی ملک کی پکی فوج ہی نے کیا تھا، اس میں لشکر طیبہ اور حافظ سعید کا دور پار سے واسطہ نہیں تھا۔

البتہ یہ بات صحیح ہے کہ حافظ محمد سعید نے کشمیریوں کی مدد کے لئے اپنے نوجوان وادی میں بھیجے مگر یہ کام ان سے بہت پہلے جماعت اسلامی کی جہادی تنظیم حزب المجاہدین ایک عرصے سے انجام دے رہی تھی۔ اس جہاد میں جماعت کے سرکردہ لیڈروں کے لخت جگر شہید ہوئے۔ قاضی حسین احمد گاﺅں گاﺅں کشمیر میں شہید ہونے والوں کے غائبانہ جنازے پڑھا رہے تھے، جماعت کے اس جہاد کشمیر پر کسی کو نہ اسوقت اعتراض تھا، نہ آج کسی کو ہے، حتی کہ وزیر خارجہ نے بھی کوئی انگلی نہیں اٹھائی۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت جو جہاد ہو رہا ہے، جس کے سرخیل کے طور پر شہید مقبول وانی کا نام عالمی تاریخ حریت میں سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا، ان کا تعلق بھی حزب المجاہدین سے ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یوں تو حریت کانفرنس میں درجن بھر تنظیمیں کشمیر کی آزادی کی آواز بلند کر رہی ہیں مگر کشمیری نوجوان مجاہدین کا صرف اور صرف حزب المجاہدین سے تعلق ہے۔

لشکر طیبہ پاکستان اور حزب المجاہدین پاکستا ن کا آزادی تحریک سے تعلق سے کوئی انکار نہیں کرتا، امریکی صدر کلنٹن چند گھنٹوں کے لئے پاکستان آئے ا ور انہوں نے نشری خطاب میں کہا کہ آج کے دور میں طاقت کے بل پر سرحدیں تبدیل نہیں کی جا سکتیں۔ کلنٹن نے یہ بھی انتباہ کیا کہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کی ایکسپورٹ کے لئے بند ہونی چاہئے تو اس تقریر کے فوری بعدجنرل پرویز مشرف نے صاف کہا کہ کشمیری عوام پر بھارت ظلم روا رکھے ہوئے ہے، ان کے رشتے دار آزاد کشمیر اور پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، اس لئے حکومت پاکستان کے بس میں نہیں کہ وہ انہیں اپنے مظلوم بھائیوں کی امداد سے روک سکے۔ مگرنائن الیون کے ڈرامے کے بعد اسی جنرل پرویز مشرف نے باقاعدہ اعلان کیا کشمیر جہاد دہشت گردی ہے اور پاکستان کی سرزمین کو اس کے لئے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ بات انہوں نے ملک بھر کے ڈیڑھ سو ایڈیٹروں کے سامنے کہی تو میرے مرشد نظامی واحد ایڈیٹر تھے جنہوں نے مکہ ہوا میں لہرایا۔

وہ جنرل مشرف کے عین قریب بیٹھے تھے ، انہوں نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا کہ آپ کشمیر سے غداری کریں گے تو اس کرسی پر قائم نہیں رہ سکتے۔ بہر حال حکومت ایک فیصلہ کر چکی تھی، اس نے اپنا فیصلہ ہر حال میں نافذ کرنا تھا۔ اس لئے حزب المجاہدین پاکستان اور لشکر طیبہ پاکستان کو اپنا جہادی بوریا بستر گول کرنا پڑا اس لئے کہ کنٹرول لائن پر ایک طرف پاک فوج کی نفری بڑھا دی گئی تھی، دوسری طرف بھارتی فوج کے دمدمے تھے ا ور درمیان میں خار دار باڑ جس میں ہر وقت بجلی دوڑتی ہے، کیا اس حال میں کوئی شخص کنٹرول لائن پار کر سکتا ہے، اگر کوشش بھی کرے گا تواس کی وہی حالت ہو گی جو دیوار برلن پھلانگنے والوں کی ہوا کرتی تھی کہ انکی سوختہ لاشیں ہفتوں تک خار دار تاروں میں ا لجھی رہتی تھیں۔ 

اب تو جہاد کشمیر صرف بھارتی فوج کر رہی ہے جس کی اندھا دھند فائرنگ سے معصوم بچے اور بچیاں، کھیتوں میں کام کرنے والے مردو زن نشانہ بنتے رہتے ہیں، کیا کبھی آپ نے دیکھا کہ کسی مجاہد نے کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کا جسم بھی گولیوں سے چھیدا ہو، وہ ایسا کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ اسلئے لشکر طیبہ، جماعت الدعوة اور حافظ محمد سعید کے خلاف جو الزام لگانا ہو بڑے شوق سے لگایا جا سکتا ہے، بھارت ان کے خلاف اس قدر واویلا نہیں کرتا جتنا واویلا پاکستان میں ہوتا ہے ا ور جتنا واویلا ہمارا ملکی میڈیا مچاتا ہے۔ ممبئی حملوں میں ہمارا میڈیا فرید کوٹ پاک پتن گاﺅں میں کیمرے لے کر پہنچ گیا تھا کہ یہ ہے اجمل قصاب کا گھر۔ حالانکہ وہ شخص میراٹھی زبان بولتا تھا، اسکا حلیہ پاکستانیوں سے نہیں ملتا تھا، وہ کسی کلبھوشن کا شاگرد عزیز تھا، اسی ممبئی حملے میں پہلا الزام بھارت نے آئی ایس آئی پر لگایا اور مطالبہ کیا کہ اس ادارے کے سربراہ کو وضاحت پیش کرنے کے لئے دلی روانہ کیا جائے، ہمارے سائیں صفت وزیر اعظم گیلانی نے بھارت کے حکم پر عمل درا ٓمد کا حکم دے دیا مگر پاکستانی قوم آڑے آ گئی۔

ہم نے بھارتی الزامات کے باوجود آئی ایس آئی کے دفتر پر تالہ نہیں لگایا مگر اسی بھارت کے پروپیگنڈے پر ہم نے لشکر طیبہ، جماعت الدعوة اورفلاح انسانیت تک کو خلاف قانون قرار دے دیا، حافظ سعید بار بار نظر بند کئے جا رہے ہیں۔ انہیں فلاحی کاموں کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی اجازت بھی نہیں مگر نواز شریف نے عمران خان کو ہسپتال کی تعمیر کے لئے اربوں کی مالیت کی زمین ہدیہ کی، اب جنرل راحیل بھی جاتے جاتے عمران خان پر اس قدر مہربان ہوئے کہ ڈیفنس کراچی میں ایسے ہی ایک ہسپتا ل کے لئے قیمتی زمین دان کر گئے۔ ایک ہی ملک۔ ایک ہی طرح کی فلاحی تنظیمیں مگر ا یک کے ساتھ نیکی کی کوئی حد نہیں اور دوسرا مغضوب۔ وزیر خارجہ کی معلومات میں اضافہ ہوا ہو تو وہ اپنے الفاط پر نظر ثانی کریں اور حافظ محمد سعید کو ضرور سزا دیں کہ یہ بھارت کا حکم ہے جس پر عمل در آمد ہمارے لئے فرض عین ہے۔

جہاد بُرا ضرو لگتا ہے مگر پاکستان اس پر فخر کرتا ہے کہ اس جہاد کے ذریعے سوویت روس کو تہہ و بالا کیا۔ جب یہ جہاد شروع ہوا تھا تو امریکی صدر نے اس کے لئے جس امداد کا اعلان کیا تھا وہ مونگ پھلی کے چھلکے کے برابر تھی، حقیقت یہ ہے کہ بارہ پندرہ افغان جہادی تنظیموں نے اپنے بل بوتے پر سوویت روس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ حقانی گروپ ان میں سے ایک ہے اور یہ افغانستان کے چالیس فیصد حصے پر قابض ہے، اسے پناہ ڈھونڈنے کے لئے پاکستان کی سرزمین کی حاجت نہیں، نہ وہ ایسی حماقت کرے گا کیونکہ اسے ضرب عضب، آپریشن رد الفساد اور ایف سولہ سے گرائے جانے والے دو ہزار ٹن بموں سے ضرور ڈر لگتا ہے۔

یہ بم بموں کی ماں ہیں اور پہاڑ کو سرمہ بنا کر پانی نکال دیتے ہیں۔ اس عالم میں کون ہے جو پاکستان میں اپنی کمین گاہیں بنانے کی حماقت کرے گا۔ باقی رہا پروپیگنڈہ تو بھارت، امریکہ اور پاکستانی مہربانوں تک اس کی کوئی حد نہیں۔ اس پراپیگنڈے کے شر سے بچنے لئے تو ہماری فوج تک کنٹرول لائن پار نہیں کرتی جس کے سربراہ ہاٹ اسٹارٹ اور کولڈ اسٹار تک کی بات کرتے ہیں مگر وہ ایک ذمے دار اور مہذب ملک کی فوج ہیں۔ حافظ سعید نے بھی کبھی کسی غیر ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا، جہاد کیا اس وقت تک جب تک اجازت ملی، اب کھیل ختم، قسمت میں صرف نظربندی اور طعنے رہ گئے ہیں، سو اس پر قناعت کرتے ہیں۔

اسد اللہ غالب

گلو بٹ زندگی کے نئے مقصد کی تلاش میں

$
0
0

جون 2014 میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں گاڑیوں کے شیشے توڑتا شاہد عزیز عرف گلو بٹ شاید لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو ہی رہا تھا کہ اس نے اپنی زندگی کا ایک نیا مقصد ڈھونڈ لیا اور اب گلو بٹ میانمار میں ظلم و ستم کا شکار روہنگیا مسلمانوں کی آواز بن کر سامنے آیا ہے۔ کوٹ لکھپت جیل سے اپنی رہائی کے کچھ ہی ماہ بعد گلو بٹ نے سماجی سرگرمیوں کے لیے لاہور کے فیصل ٹاؤن میں واقع کوٹھا پنڈ فلیٹس کے اطراف میں لوگوں سے رابطہ کیا اور 'برما کے مسلمانوں'سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بینرز بھی لگوائے۔ ان میں سے ایک بینر پر درج ہے، 'برما کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم اور قتل و غارت روکنے کے لیے گلو بٹ کا ساتھ دیں'۔

اور گلو بٹ نے صرف اس سلسلے میں الفاظ کا سہارا ہی نہیں لیا، بلکہ حال ہی میں انہوں نے میانمار کے مسلمانوں کی حمایت میں ایک احتجاجی مظاہرے کا بھی انعقاد کیا، لیکن اسے میڈیا اور عوام کی اتنی توجہ حاصل نہیں ہوئی، جو اُس کوریج سے بالکل متصادم ہے، جو گلو بٹ کو جون 2014 میں حاصل ہوئی تھی، جب ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے باہر وہ گاڑیوں پر ڈنڈے برساتا نظر آیا تھا۔ یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور میں پولیس نے پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے سیکریٹریٹ سے رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کی تھی اس دوران اہلکاروں اور عوامی تحریک کے کارکنوں میں تصادم ہوا تھا، اسی دوران گلو بٹ نے وہاں کھڑی گاڑیوں کے شیشے توڑنے شروع کر دیے تھے اور یہ تمام مناظر کیمروں کے ذریعے عوام تک پہنچتے رہے۔

جس کے بعد گلو بٹ کو گرفتار کرلیا گیا اور 30 اکتوبر 2014 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے انہیں 11 سال قید کی سزا سنائی۔ تاہم رواں برس فروری میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے گلو بٹ کے مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرتے ہوئے اس کے تحت دی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم جاری کیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ گلو بٹ دیگر دفعات کے تحت اپنی سزا پوری کر چکا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ گلو بٹ اپنے 'نئے کردار'کے حوالے سے میڈیا کی جانب سے نظر انداز کیے جانے پر خوش نہیں تھے، لیکن یہ واحد چیز نہیں ہے، جس کا انہیں سامنا ہے۔

گلو بٹ چاہتے ہیں کہ دنیا اس بات کا نوٹس لے کہ وہ اب ایک تبدیل شدہ انسان ہیں اور 'اپنے ملک کے لوگوں کی خدمت'کے لیے تیار ہیں، لیکن گلو کے مطابق اس بات کے برعکس انہیں لوگوں کی دشمنی کا سامنا ہے، انہوں نے بتایا، 'گذشتہ ہفتے 30 سے 35 لوگوں نے ایک قریبی ریسٹورنٹ میں مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کی اور مجھے دھمکیاں دیں'۔ ساتھ ہی انہوں نے خود میں آنے والی تبدیلی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، 'اگر میں پرانا والا گلو بٹ ہوتا تو میں انہیں اُسی طرح جواب دیتا'۔ گلو بٹ کا کہنا تھا کہ انہیں کئی ذرائع سے دھمکیوں کا سامنا ہے اور اس بات کے باوجود کہ وہ اپنی سزا پوری کر چکے ہیں، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو انہیں معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اُن 'دوستوں'کی جانب سے نشانہ بننے کے خدشات کا بھی اظہار کیا جو سمجھتے ہیں کہ وہ ایک بوجھ ہے۔

گلو بٹ بحیثیت ایک سیکیورٹی گارڈ کام کرنا چاہتے ہیں، شاید کسی بینک یا اسکول میں، لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ ایک ایسے پرتشدد شخص کو سیکیورٹی گارڈ کے طور پر تعینات کرنے سے عوام پر کیا اثر پڑے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ گلو بٹ دیگر آئیڈیاز پر کام کرنے کے حوالے سے بھی تیار ہے۔
انہوں نے ڈان کو بتایا، 'میں اپنی ہینڈ رائٹنگ (لکھائی) بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ میں بیرون ملک کوئی ملازمت تلاش کر سکوں'، ساتھ ہی انہوں نے ایک کاغذ کا ٹکڑا بھی دکھایا جس پر وہ اپنے دستخط کی پریکٹس کر رہے تھے۔
خاندانی گھر کے دروازے ان پر بند ہونے کے بعد گلو بٹ کے لیے نیا گھر تلاش کرنا ایک مشکل امر ہے، ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس رہنے کو کوئی جگہ نہیں ہے اور وہ اپنا زیادہ تر وقت کوٹھا پنڈ کے علاقے میں واقع اپنے دوست کے انٹرنیٹ کیفے پر گزارتے ہیں۔

گلو بٹ کے مطابق، انہیں ملنے والی 'بین الاقوامی شہرت'کے بعد ملک کے دور دراز علاقوں سے بھی لوگوں نے آکر ان کے ساتھ سیلفیز بنوائیں، لیکن ان کی مدد کے لیے کوئی آگے نہیں آتا۔

عمران گبول
یہ رپورٹ 7 اکتوبر 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی.
 


بنگلہ دیش میں دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ، ’منصوبہ خطرناک‘

$
0
0

اقوام متحدہ کے مطابق بنگلہ دیش میں دنیا کے سب سے بڑے مہاجر کیمپ کے قیام کا منصوبہ ’خطرناک‘ ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈھاکا حکومت روہنگیا مہاجرین کے لیے ایسا کیمپ قائم کرنا چاہتی ہے، جس میں آٹھ لاکھ سے زائد مہاجرین رہ سکیں گے۔ میانمار کے ساتھ سرحد پر واقع بنگلہ دیش کے ضلع کوکس بازار سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق میانمار کی ریاست راکھین میں اگست کے اواخر سے دوبارہ شروع ہونے والی خونریزی کے باعث اب تک نصف ملین سے زائد روہنگیا مہاجرین وہاں سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔

ان نئے مہاجرین کی آمد سے پہلے اس جنوبی ایشیائی ملک میں پہلے سے بھی تین لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین موجود تھے۔ اس طرح بنگلہ دیش میں اب میانمار میں ایک مسلم نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے ان بے گھر باشندوں کی مجموعی تعداد آٹھ لاکھ سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ ان مہاجرین کو رہائش اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لیے ڈھاکا حکومت کا ارادہ ہے کہ وہ ایک ایسا مہاجر کیمپ قائم کرے گی، جہاں یہ تمام مہاجرین رہ سکیں گے۔ اگر ایسا کوئی کیمپ قائم ہو گیا تو یہ دنیا بھر میں مہاجرین کا سب سے بڑا کیمپ ہو گا۔ اس کیمپ کے لیے ہزاروں ایکٹر زمین مختص بھی کی جا چکی ہے۔
لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ڈھاکا حکومت کا یہ منصوبہ اس کی روہنگیا مہاجرین کی مدد کے لیے نیک نیتی سے کی جانے والی کوششوں کے باوجود ایک ’خطرناک منصوبہ‘ ہے۔ اس عالمی ادارے کے مطابق مہاجرین کے لیے کسی ایک رہائشی علاقے میں، جہاں تین چوتھائی ملین سے زائد انسان رہتے ہوں، یہ منصوبہ اس لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کہ وہاں کسی آتشزدگی یا وبائی بیماریوں کے بہت تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے بے تحاشا انسانی ہلاکتوں کا خطرہ ہو گا۔

ڈھاکا حکومت یہ نیا مہاجر کیمپ ضلع کوکس بازار میں اسی نام کے شہر کے قریب کُوٹُوپالونگ کے علاقے میں بنانا چاہتی ہے، جس میں تمام روہنگیا مہاجرین رہ سکیں گے۔ لیکن اس بارے میں بنگلہ دیش میں مقیم اقوام متحدہ کی مختلف شعبوں میں امدادی سرگرمیوں کے نگران ملکی رابطہ کار رابرٹ واٹکنز نے کہا کہ حکومت کو کوئی ایک بہت بڑا مہاجر کیمپ قائم کرنے کے بجائے ایسے دوسرے مقامامات کی تلاش کرنا چاہیے، جہاں قدرے چھوٹے لیکن تعداد میں زیادہ مہاجر کیمپ قائم کیے جا سکیں۔ رابرٹ واٹکنز نے اے ایف پی کو بتایا، ’’جب آپ کسی ایسے چھوٹے سے علاقے میں بہت بڑی تعداد میں ایسے انسانوں کو مل کر رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں، جن کا جسمانی مدافعتی نظام بہت کمزور ہو چکا ہو، تو یہ اقدام اس لیے خطرناک ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں خوفناک حد تک زیادہ انسانی جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔‘‘

واٹکنز نے کہا، ’’ایسی صورت میں اس کیمپ کے کسی بھی ایک حصے میں اگر کوئی وبائی بیماری پھوٹ پڑے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایسی کوئی وباء انتہائی تیز رفتاری سے پھیلے گی اور یوں یکدم لاکھوں انسانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر مہاجر کیمپ چھوٹے ہوں، تو وہاں لوگوں کو رہائش، صحت اور سلامتی کی سہولیات مہیا کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔‘‘ ڈھاکا حکومت کی درخواست پر اقوام متحدہ کا بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت یا آئی او ایم اس بات پر راضی ہو چکا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں کام کرنے والے مہاجرین کے امدادی اداروں کی کارروائیوں کو مربوط بنائے گا اور مجوزہ مہاجر کیمپ کی جگہ پر شیلٹر تعمیر کرنے میں بھی مدد دے گا۔

آئی او ایم کے مطابق اگر بنگلہ دیشی حکومت نے اپنے منصوبے کے مطابق کوکس بازار میں یہ بہت وسیع و عریض کیمپ قائم کر دیا، تو یہ دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ ہو گا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اب تک یوگنڈا میں بیدی بیدی کا کیمپ اور کینیا میں داداب کا کیمپ دونوں ہی عالمی سطح پر مہاجرین کے سب سے بڑے کمیپ شمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں قریب تین لاکھ مہاجرین کے رہنے کی گنجائش ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

چین اور پاکستان نے سی پیک پر امریکی اعتراضات مسترد کر دیئے

$
0
0

چین اور پاکستان نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر امریکا کے اعتراضات مسترد کر دیئے ہیں اور چینی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ سی پیک کسی تیسرے فریق کےخلاف ہے نہ اس کا علاقائی خودمختاری کے تنازعات سے کوئی تعلق ہے جبکہ پاکستان کے دفتر خارجہ نےکہا ہے کہ سی پیک خطے کی ترقی، رابطے اورعوام کی بہتری کا منصوبہ ہے، عالمی برداری مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پر توجہ دے ۔ سی پیک پر پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ متنازع بیانات علاقائی تقسیم کا باعث اور تعلقات کیلئے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ قبل ازیں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے سی پیک پر اعتراضات اُٹھا دیئے اور آرمڈ سروسز پینل میں پیشی پر کہا کہ سی پیک متنازع علاقے سے گزرتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق امریکا نے چین کے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ منصوبے پراعتراض اُٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس منصوبے کا جو حصہ پاکستان میں تعمیر ہو رہا ہے وہ متنازع علاقوں سے گزرتا ہے ، امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی کو دی گئی حالیہ بریفنگ میں کہا کہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا متنازع علاقوں سے گزرنا اس پر سوالات کا باعث بنتا ہے، امریکا نے چین کے ون بیلٹ ون روڈ پالیسی کی اصولی بنیاد پر مخالفت کی ہے کیونکہ جدید دنیا میں بہت سے بیلٹ اور متعدد سڑکیں ہیں اس لیے کسی بھی قوم کو ایسے کسی منصوبے کی بلا جواز مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔

جم میٹس نے چین پر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے ذریعے دنیا پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ہم نے ون بیلٹ ون روڈ کی تعمیر کی اس لیے مخالفت کی ہے کیونکہ اس کا جو حصہ پاکستان میں تعمیر ہو رہا ہے وہ متنازع علاقوں سے گزرتا ہے۔ ادھردفترخارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے امریکی وزیر دفاع کے بیان پررد عمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ سی پیک خطے کی ترقی ، رابطے اور عوام کی بہتری کا منصوبہ ہے جس سے لوگوں کی زندگیوں میں بہتر آئے گی۔
 

شما سوراج کے سوالات کے جواب

$
0
0

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے 72 ویں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے اپنی متوازن تقریر میں نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی مظالم کے خلاف بات کی بلکہ افغانستان ، عالمی دہشت گردی، داعش ، روہنگیا مسلمانوں کے قتل و غارت سمیت تمام علاقائی اور عالمی مسائل کا بھرپور احاطہ کیا۔ اس کے برعکس بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے توقع کے مطابق اپنی تقریر کا بڑا حصہ پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں صرف کیا۔ اسے ایک طرح سے پاکستان کی سفارتی فتح کہا جا سکتا ہے، کیونکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جیسے عالمی فورم میں اقوام متحدہ میں مستقل نشست کے خواب دیکھنے والے بھارت پر پاکستان کا اتنا سفارتی خوف سوار تھا کہ لگتا تھا کہ بھارت کی تمام ” عالمی سیاست “ کا محور صرف پاکستان سے نفرت ہے۔

محترمہ سشما سوراج کی تقریر شاید ہندی فلموں کے کسی مصنف نے لکھی تھی اور انکا خیال تھا کہ اونچی آواز اور ڈرامائی انداز سے بھارت عالمی برادری کو فریب دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اپنی تقریر میں محترمہ نے نہایت جذباتی انداز میں پاکستان سے کچھ سوالات بھی کئے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت تو ڈاکٹر اور انجینئر پیدا کرتا ہے، پاکستان دہشت گردوں کے علاوہ کیا بناتا ہے؟ محترمہ! صرف امریکہ میں اس وقت بارہ ہزار سے زیادہ پاکستانی ڈاکٹر کام کر رہے ہیں  بحوالہ CHA-USA ۔ اگر اعداد و شمار کو پاکستان اور بھارت کی آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو امریکہ میں کام کرنے والے پاکستانی ڈاکٹروں کی تعداد بھارتی ڈاکٹروں سے زیادہ ہی ہو گی۔ مہارت کی بات کریں تو امریکہ میں فارن ڈاکٹروں کو لائسنس دینے والے ادارے (USMLE) کے صدر نے کچھ عرصہ قبل PMDC کا دورہ کرتے ہوئے بیان دیا بلکہ اعتراف کیا کہ امریکہ میں کام کرنے والے غیر ملکی ڈاکٹروں میں پاکستانی ڈاکٹر سب سے بہتر ہیں۔ یہی نہیں بلکہ NATO کے ذیلی دارے سائینس اینڈ ٹیکنالوجی آرگنائزیشن (STO) کا ” سائینٹیفک ایچومنٹ ایوارڈ“ برائے 2016ء امریکہ میں کام کرنے والے ایک پاکستانی ڈاکٹر راشد احمد چھوٹانی نے حاصل کیا ہے۔

محترمہ نے اپنی ڈرامائی تقریر میں یہ سوال بلکہ اعلان کیا کہ ” پاکستان صرف دہشت گردی درآمد کرتا ہے“ ۔ کوئی ان کو جگائے اور بتائے کہ پاکستان تو خود دہشت گردی کا شکار ہے اور گزشتہ پندرہ برس میں باسٹھ ہزار سے زیادہ پاکستانی دہشتگردی کے واقعات میں شہید ہو چکے ہیں، اور پاکستانی معیشت کو 120 بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ اور یہ تمام دہشت گردی بھارت مختلف ذرائع اور مختلف راستوں سے پاکستان برآمد کرتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان پر دہشت گردی کا الزم لگاتے ہوئے محترمہ سشما سوراج اس حقیقت کو بھول گئیں کہ ” ساﺅتھ ایشین ٹیرر پورٹل “ کے مطابق بھارت میں کم از کم 65 دہشت گرد تنظیمیں متحرک اور فعال ہیں ،جنہیں بھارت میں تمام اقلیتوں کے خلاف کھل کر کام کرنے کی آزادی ہے۔ یہ الزام لگاتے وقت انکو 1999ءمیں عیسائیوں کے خلاف ہونے والی ” بجرنگ دل“ کی کارروائیاں یاد نہیں آئیں اور نہ ہی 2002ء میں ہندو انتہا پسند تنظیم ”ہندو توا“ کے ہاتھوں گجرات میں شہید ہونے والے سینکڑوں مسلمانوں کا خون یاد آیا ۔

 انکو 2007ء میں بھارتی دہشت گرد تنظیموں RSS اور ” ابھیناو بھارت“ کے ہاتھوں ہونے والا سمجھوتہ ایکسپریس کا واقع یاد رہا اور نہ ہی ”وشنو ہندو پریشد کاﺅنسل“ کے ہاتھوں شہید ہونے والے بھارتی مسلمانو ں کے بارے میں انہوں نے کچھ کہا۔ کوئی انکو سمجھائے کہ جہاں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے اور قربانیاں دی ہیں وہاں بھار ت نے ایک عالمی دہشت گرد کو اپنا وزیر اعظم بنایا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ دہشت گردی کا مجرم ہونے کی بنا پر بھارت کا وزیر اعظم بننے سے قبل تک امریکہ اور یورپ میں مسٹر مودی کا داخلہ تک ممنوع تھا۔ برآمدات کی بات کریں تو بھارت کی اہم ترین برآمد گائے کا گوشت ہے ( تقریباََ 3 ملین ٹن سالانہ)۔ جی ہاں وہی ” گاﺅ ماتا“ جس کے ذبح کا الزام لگا کر ہر دوسرے روز کسی مسلمان کو بھارت میں بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا جاتا ہے۔ اسی ” گاﺅ ماتا“ کے گوشت کے بدلے میں ڈالر اور پاﺅنڈ ملیں تو کوئی حرج نہیں۔

اسکے بعد محترمہ نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بات کی ۔ بھارت سافٹ وئیر برآمد کرتا ہو گا۔ دنیا کے بے شمار ممالک کرتے ہیں لیکن محترمہ کو یہ علم نہیں کہ سافٹ وئیر کی پاکستانی برآمدات دو بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں اور محتاط اندازے کیمطابق 2025ء تک پاکستان سے سافٹ وئیر ایکسپورٹ کا حجم پچیس بلین ڈالر تک پہنچ جائے گا ( بحوالہ PSEB)۔ پاکستان نے دنیا کے بہترین لڑاکا طیارے بنائے ہیں جسکا خواب ” ہندوستان ایرو ناٹئیکل لمیٹڈ“ کئی دہائیو ں سے دیکھ رہی ہے۔ پاکستان نے ” الخالد“ ٹینک بنائے ہیں۔ تمام بھارت پاکستان کے بنے ہوئے میزائلوں کے نشانے پر ہے۔ کھیلوں کا بہترین سامان ہو یا دنیا کے بہترین ” آلات جراحی“ پاکستان ہی برآمد کرتا ہے لیکن سشما سوراج اور مغربی دنیا کو پاکستا ن کی واحد ’ ’ پراڈکٹ “ صرف دہشت گردی نظر آتی ہے۔ اسکی وجہ بھارت، اسرائیل اور مغربی دنیا کے مفادات اور بھارتی پراپیگنڈہ ہیں۔ بلا شبہ پراپیگنڈہ کرنے اور جھوٹ بولنے میں بھارت نے بہت ترقی کی ہے اور یہ ایک میدان ہے جس میں پاکستان بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

میں بھی بطور پاکستانی آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ بھارت بہت امن پسند ملک ہے؟ کیا آپ بتائیں گی کہ کس ہمسائے کے ساتھ بھارت کے تعلقات دوستانہ ہیں؟ نیپال، بھوٹان، برما، سری لنکا اور بنگلہ دیش آپ سے دب کر رہتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ پاکستان نے کبھی آپ کی بدمعاشی قبول نہیں کی اور کشمیریوں کے حق کی بات کرتا ہے اس لیے دہشت گرد ہے؟ آپکو بھارتی کشمیر میں موجود سات لاکھ بھارتی دہشت گرد نظر نہیں آتے ؟ اور بقول آپکے پاکستان کشمیر میں دہشت گردی کر رہا ہے ورنہ کشمیریوں کی اکثریت بھارت کے ساتھ ہے؟ اگر آپکو یہ یقین ہے تو آپ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ریفرینڈم کیوں نہیں کروا لیتے تاکہ دنیا کو حقیقت معلوم ہو جائے۔

کیا آپکو معلوم نہیں کہ آپکے ” شائیننگ انڈیا “ میں کل آبادی کی 36 فیصد بچیاں اور 29 فیصد بچے کم عمری میں جنسی تشدد کا شکار بنتے ہیں( بحوالہ JFPMC-India (اور اٹھارہ برس کی ” روپ کنور “ کو آج کے دور میں بھی ستی ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے؟ کیا آپکے علم میں نہیں کہ تیس فیصد بھارتی غربت کی انتہائی لکیر سے نیچے رہتے ہیں؟ بھارتی آبادی کے ساٹھ فیصد کے پاس رفع حاجت کے لیے ٹوائلٹ نہیں ہیں۔ روزانہ بیس کروڑ بھارتی بھوکے سوتے ہیں اور ہر برس دس ملین بھارتی بھوک اور خوراک کی کمی کے باعث مر جاتے ہیں. ( بحوالہ ہندوستان ٹایمز)

” گلوبل ہنگر انڈکس“ کے مطابق بھوک کا شکار لوگوں کے تناسب کے مطابق 1999ء میں بھارت کی پوزیشن 76 تھی جو اب 97 ہو چکی ہے ۔ (یعنی ” بھوک “ کے میدان میں آپکے بھارت نے خوب ترقی کی ہے۔ ) یہ چھوٹا سا آئینہ ہے ورنہ مکمل فہرست بہت طویل ہے۔ برائے مہربانی خوابوں کے بڑے بڑے محل تعمیر کرنے سے پہلے اپنی بنیادیں تو مضبوط کر لیں۔ جنگی جنون ، پراپیگنڈہ اور جھوٹ سے نہ آپکی عوام کا پیٹ بھرے گا نہ انکی افلاس دور ہو گی۔

ڈاکٹر احمد سلیم
 

پاکستان کا تعلیمی معیار : زبوں حالی کے اسباب

$
0
0

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے مستحسن کارروائی کرتے ہوئے پنجاب کے میڈیکل کالجوں میں داخلے کیلئے ہونے والے حالیہ انٹری ٹیسٹ کا پرچہ لیک کرنے میں ملوث مرکزی ملزم راؤ بلال کو ملتان ایئر پورٹ سے اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ نجی ایئر لائن سے قطر فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ تحقیقات کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ انٹری ٹیسٹ کے پرچے آؤٹ کرنے میں ملوث 9 ملزمان میں 6 ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر نے حقائق سامنے آنے کے بعد جو اقدامات کئے ہیں اگرچہ وہ اپنی جگہ اطمینان بخش ہیں لیکن حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ انٹری ٹیسٹ کا پرچہ آؤٹ ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں.

یہ مافیا انتہائی منظم ہے جو راتوں رات کروڑوں روپے کمانے کی خاطر نہ جانے کتنے برسوں سے غریب، محنتی اور انتہائی ہنر مند طالب علموں کا مستقبل تاریک کرتا چلا آرہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمہ پہلو کرپشن، خیانت، بے ضمیری، دولت کی ہوس، رشوت اور سفارش کے رذائل نے ہمارے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور تعلیمی معیار کی زبوں حالی کا بھی یہی بنیادی سبب ہے۔ انتظامی اور قانونی اقدامات سے اس صورتحال میں کچھ وقتی بہتری تو لائی جا سکتی ہے لیکن اس کے مستقل علاج کیلئے معاشرے کی اخلاقی سطح کا بلند کیا جانا ضروری ہے۔ لوگ اپنے مقتدر طبقوں کے طریقوں کی پیروی کرتے ہیں لہٰذا ہمارے حکمران طبقات کو محض انتظامی اقدامات تک محدود رہنے کے بجائے دیانت داری اور ستھرے کردار کی مثال بننا ہو گا۔

اس کے ساتھ ساتھ انٹری ٹیسٹ کے نظام کو مکمل طور پر شفاف بنانا ضروری ہے جس کے لئے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر ذرائع کا استعمال کیا جانا یقیناً مفید ہو سکتا ہے جبکہ نقل مافیا اور پرچے آؤٹ کرنے کے ذمہ داروں کو سخت سزائیں دینا اور ان کے پورے نیٹ ورک کو اکھاڑ پھینکنا بھی ناگزیر ہے۔ ایسا نہ کیا گیا تو محنتی اور ذہین طلبہ کی سخت حوصلہ شکنی ہو گی اور ہر شعبے میں جعل ساز اور دھوکے باز لوگوں کا راج مستحکم ہوتا چلا جائے گا۔

اداریہ روزنامہ جنگ

امریکا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کا مکمل اعتراف کرے، چین

$
0
0

چین نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کا مکمل اعتراف کرے۔ امریکی مسلح افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی پر دہشت گردوں کے ساتھ روابط کا الزام لگایا تھا جب کہ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے۔ چینی وزارت خارجہ نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی پر الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا اسلام آباد کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کی جانے والی فعال کوششوں کا مکمل طور پر اعتراف کرے۔
چین کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول محاذ پر ہے، کئی سال سے پاکستان دہشت گردی کو شکست دینے کی مسلسل کوششیں کر رہا ہے جس میں اس نے بہت قربانیاں دی ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری پاکستان کی کوششوں کا مکمل اعتراف کرے۔ چینی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ چین دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی تعاون کو مضبوط اور کوششوں کو مربوط کرنے کے لیے عالمی برادری کی تائید کرتا ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان اور امریکا باہمی احترام کی بنیاد پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے اور خطے و دنیا کی سلامتی و استحکام کے لیے مل جل کر کام کریں گے۔
 

پاکستان، انٹرنیٹ استعمال کرنے والی 10 معیشتوں میں شامل

$
0
0

پاکستان میں انٹرنیٹ کے استعمال میں روز بروز اضافے سے پاکستان انٹرنیٹ استعمال کرنے والی 10 معیشتوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ اس رینکنگ میں پاکستان 9 ویں پوزیشن پر ہے جبکہ ایران 7 سات اور بنگلہ دیش 10ویں پوزیشن پر ہے۔ سن 2012ء سے 2015 ء کے دوران 16 ملین سے زائد پاکستانی آن لائن ہوئے جو ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی مجموعی تعداد کا 47 فیصد بنتا ہے۔ یہ بات اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی کی جانب سے جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں کہی گئی ہے ۔

رپورٹ کے مطابق ملک میں تھری جی فور جی ٹیکنالوجی اور اسمارٹ فون کی تعداد میں اضافے کے بعد پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ اس وقت ملک میں انٹرنیٹ کے ذریعے تجارت کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ دراز، علی ایکسپریس، کیمو، اوبر اور کریم استعمال کرنے والے صارفین بھی انٹرنیٹ کااستعمال کر رہے ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق اسمارٹ فون رکھنے والے 73 فیصد صارفین موٹر رائیڈ سروس کیلئے معاون ایپلی کیشنز استعمال کر رہے ہیں۔
 

تاج محل بھی پاکستان بھجوا دیں : وسعت اللہ خان

$
0
0

ایسا کیوں لگنے لگا ہے کہ آدتیاناتھ کسی شخصیت کا نہیں مخصوص نفسیاتی کیفیت کا نام ہے جو کسی بھی شخص پر طاری ہو سکتی ہے۔ مثلاً ایک صاحب نے جو اچھے بھلے ڈاکٹر ہیں ایک دن فون کیا۔ وسعت صاحب آپ سے یہ امید نہ تھی؟ میں نے بوکھلا کر کہا کک کک ۔۔کیا امید نہیں تھی؟ کہنے لگے اچھا پہلے یہ بتائیے کہ آپ مسلمان ہیں؟ میں نے کہا الحمداللہ بالکل پکا ؟ پھر پوچھا آپ پاکستانی ہیں ؟ میں نے کہا اس میں کیا شک؟ کہنے لگے اگر آپ واقعی مسلمان اور سچے پاکستانی ہیں تو پھر آپ بی بی سی ہندی سروس کے لیے کیوں لکھتے ہیں؟ ہندی تو ہم مسلمانوں کی زبان نہیں۔

میں نے کہا میں تو تھوڑی بہت انگریزی بھی جانتا ہوں تو کیا میں کرسٹان ہو گیا اور عربی تو نیتن یاہو بھی جانتا ہے تو کیا وہ مسلمان ہو گیا ؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا وہ الگ بات ہے۔ انگریزی ان کی زبان ہے جو بائبل پر یقین رکھتے ہیں اور نیتن یاہو بھی یہودی ہونے کے ناطے اہلِ کتاب میں سے ہے۔ مگر ہندی اور وہ بھی سنسکرت سے آلودہ زبان بولنے والے اہلِ کتاب تو نہیں۔ بہرحال آپ جو بھی کہیں کم ازکم آپ سے یہ امید نہ تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر یہ ادتیاناتھی ڈاکٹر صاحب مسلمان کے بجائے ہندو ہوتے تو بھی ایسے ہی ہوتے۔ اب دیکھیے نا کہ تاج محل بھلے ہندوستان میں سہی اور چار سو برس سے سہی اور اتر پردیش میں سہی مگر بقول یوگی ادتیاناتھ بھارتی تاریخ سے اس کا کیا لینا دینا۔

ان حالات میں یہ دلیل دینا بھی محض وقت اور الفاظ کا زیاں ہے کہ شاہ جہاں جب پیدا ہوا تو اس کے ہاتھ میں اقوامِ متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزیناں کا پرمٹ نہیں تھا بلکہ شاہ جہاں پانچ نسلوں سے ہندوستانی تھا۔ وہ تو دفن بھی اسی زمین پر ہے۔ شاہ جہاں شاہی خزانے کا پیسہ اونٹوں پر لاد کے غزنی یا بذریعہ ہنڈی سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں نہیں لے گیا بلکہ ہندوستان میں ہی خرچ کیا۔ آگرے میں اس کی محبوب بیوی ممتاز محل کا تاج محل نامی مزار آئی ایم ایف کے قرضے سے نہیں بلکہ ہندوستانی پیسے سے بنا۔ رہی یہ بات کہ جس طرح یوپی کے محکمۂ سیاحت نے اپنی فہرست سے تاج محل اڑا دیا اسی طرح بی جے پی کی زیرِ سرپرستی ایک اور ریاست مہاراشٹر کی سکولی کتابوں سے مغلوں کو نکال دیا گیا تو میں اس قدم پر کس منہ سے تنقید کروں جب میرا بچہ بھی چندر گپت موریا اور اشوکِ اعظم کے کارنامے نہیں جانتا۔ حالانکہ اس کا باپ پاکستان کے جس سرکاری سکول میں پڑھتا تھا اس میں موریا راج اور اشوک کا سنہری دور پاکستانی تاریخ کا ہی حصہ تھا۔

اب قدما میں صرف سکندرِ اعظم بچا ہے کیونکہ نوے فیصد بچے سکندرِ اعظم کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ جیسے ہم اپنے پسندیدہ شاعر اور نقاد فراق گھورکھپوری کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ جب پتہ چلا کہ ان کا نام تو رگھوپتی سہائے ہے تب بھی دل کو تسلی دیتے رہے کہ فراق نام کا آدمی بھلا ہندو کیسے ہو سکتا ہے۔ فراق کی وجہ سے تو آج بھی اردو ادب کی تاریخ رچی ہوئی ہے اور اردو تو مسلمانوں کی میراث ہے۔ ویسے اندر سے مانو تو ہم اس خبر پہ بہت خوش ہیں کہ تاج محل اب اتر پردیش کی تاریخی وراثت سے باہر کر دیا گیا ہے۔

بھگوان یوگی جی کی سرکار قائم رکھے اور لمبی عمر دے۔ جب وہ کل کلاں تاج محل کی جگہ تیجو مالیہ مندر کا سنگِ بنیاد رکھیں تو تاج محل بھی یوپیائی مسلمانوں کے سامان میں بندھوا کر فتح پور سیکری کی بلٹی کے ساتھ پاکستان بھجوا دیں۔ اس بہانے ہم بھی چار پیسے کما لیں گے اور یوگی جی کے سر سے بھی تاریخ کا بار اتر جائے گا ( جانے کیوں امید سی ہو چلی ہے کہ کوئی دن جاتا ہے بھارت کوہ نور پر دعویِ ملکیت سے بھی دستبردار ہونے والا ہے ). معلوم نہیں یوگی جی نے مودی جی سے بھی پوچھا کہ ابھی پچھلے ہی مہینے رنگون میں آخری ہندوستانی مغل روہنگیا بہادر شاہ ظفر کے مزار پر کیوں حاضری بھری۔

ہو سکتا ہے کسی نے مودی جی کے کان میں کہا ہو کہ بہادرشاہ ظفر برما کے ایک مشہور بادشاہ گذرے ہیں۔ آپ ان کی قبر پر جائیں گے تو برمیوں کو اچھا لگے گا۔ اور اگر مسلم ہندوستان اور اس کی یادگاروں کا بھارتی تاریخ سے کوئی لینا دینا نہیں تو مودی جی جاپانی وزیرِ اعظم شنزو ایبے کو احمد آباد کے صابر متی آشرم یا صابر متی ایکسپریس دکھانے کے بجائے سنگی جالی کے کام میں یکتا مشہورِ عالم سدی سئید مسجد میں کاہے کو لے گئے۔ کیا کریں! نگوڑی سیاست کے بازار میں سب چلتا ہے۔ تاج محل بھی، بہادر شاہ ظفر بھی، شنزو ایبے بھی اور یوگی ادتیاناتھ بھی۔

وسعت اللہ خان
تجزیہ کار
 


سزائے موت کے مجرم کے 'آخری 72 گھنٹے‘

$
0
0

آج سینٹرل جیل میں 4 افراد کو پھانسی دے دی گئی‘
اِس طرح کی کئی خبریں ہم نہ جانے کتنی مرتبہ پڑھ اور سن چکے ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اِس خبر نے ہمیں کبھی پریشان نہیں کیا، اور ایسی خبریں ہمیں پریشان کرے بھی تو کیوں کہ اِس سزا سے ہماری ذات کو کوئی نقصان تھوڑی ہو رہا ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ کیا کبھی ہم نے اُن لوگوں کے بارے میں سوچا ہے، جن کو موت کی سزا سنا دی جاتی ہے، اور جن کو پہلے سے ہی یہ بتا دیا جاتا ہے کہ فلاں دن آپ کی زندگی کا آخری دن ہو گا ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم شاید ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ ایسا سوچنے سے ہی ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک مجرم کی کہانی بتانے جا رہے ہیں جسے تین دن پہلے بتا دیا گیا ہے کہ اگلے 72 گھنٹے بعد اُس کی زندگی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ اُس فرد پر اور اُس کے اہلخانہ پر اب کیا گزر رہی ہے آئیے اُن کے بارے میں جانتے ہیں۔ چونکہ یہ ایک کہانی ہے اِس لیے ہم آپ کو پہلے کرداروں کے بارے میں بتاتے ہیں تاکہ کہانی پڑھنے میں آسانی ہو۔

کردار:
مجرم
پہلا قیدی
دوسرا قیدی
بیوی
بیٹا / بیٹی
پولیس
مدعی
(پھانسی میں 72 گھنٹے باقی ہیں)
تو اِس طرح شروع ہوتا ہے، پھانسی گھاٹ کی طرف سفر

مجرم: سب ختم ہو گیا ہے، اب میں کیا کروں، اب تو کوئی اپیل بھی باقی نہیں رہی اور وارنٹ بھی آ گیا ہے۔ سنا ہے بہت تکلیف ہوتی ہے، آنکھیں باہر نکل آتی ہیں، شکل پہچانی تک نہیں جاتی اور اگر، اگر پھندا ٹھیک سے نہ لگے تو گردن بھی کٹ جاتی ہے۔

پہلا قیدی: دیکھ پریشان نہ ہو، سب ٹھیک ہو جائے گا، بہت سے لوگوں کو معافی ملتے دیکھا ہے، بس رب جس پر کرم کر دے۔

مجرم: مجھے لگتا ہے سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، اِسی طرح ہی جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں، میں بھی تو سب کو یونہی جھوٹے دلاسے دیتا رہا ہوں.

(پھانسی میں 48 گھنٹے باقی)
پولیس اہلکار: چلو بھائی، سیل بدلنا ہے تیرا، چلو۔

پہلا قیدی: تیرے گھر والوں نے رحم کی نئی اپیل کی ہے صدر سے

دوسرا قیدی: تیرے وارث کوشش کر رہے ہیں اور رب نے چاہا تو صلح ہو جائے گی.

(پھانسی میں 24 گھنٹے باقی)

بیوی روتے ہوئے: جس دن سے خبر آئی ہے، ہماری تو زندگی ہی ختم ہو گئی ہے، پتہ نہیں ہمارے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے، گھر کی فکر مت کرنا، ہم سب تمہارے لیے دعا کر رہے ہیں۔

بیٹا: ہم سب آپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔

پولیس اہلکار: او چلو بھائی، ملاقات کا ٹائم ختم ہو گیا ہے، چلو جلدی کرو۔
(پھانسی میں 2 گھنٹے باقی)

پولیس اہلکار: اوئے کپڑے بدلو اِس کے اور ہتھکڑی لگاؤ ۔۔۔۔ جلدی کرو، مجسٹریٹ صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پہنچ گئے ہیں۔ دھیان سے ذرا، کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔

مجرم: مجھے معافی دلادو، مجھے نہیں مرنا، مجھ سے غلطی ہو گئی۔

پولیس اہلکار مدعی سے: ابھی بھی وقت ہے، ایک بار پھر اچھی طرح سوچ لیں، اگر آپ چاہیں تو ابھی بھی اسے معاف کر سکتے ہیں۔

مدعی: نہیں

بس یہ ’نہیں‘ کہنے کی دیر تھی اور یوں ایک جیتے جاگتے انسان کی زندگی تمام ہوگئی۔

(پاکستان پریزن مینوئل میں درج اصولوں کے مطابق، ﭘﮭﺎﻧﺴﯽ ﭘﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﻮ 30 ﻣﻨﭧ ﺗﮏ ﻟﭩﮑﺎﺋﮯ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، جبکہ تختہ دار پر لٹکنے کے بعد صرف 3 منٹ کے اندر ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔)

پھانسی پر پابندی ختم ہونے کے بعد دسمبر 2014 سے اگست 2017 تک 475 افراد کو پھانسی پر لٹکایا جا چکا ہے۔ آج پھانسی کی سزا پانے والوں کی تعداد 8000 کے لگ بھگ ہے، جنہیں پھانسی پر لٹکایا جانا ہے۔ قیدیوں اور اُن کے گھر والوں کو سزا کے بارے میں صرف 72 گھنٹے قبل ہی اطلاع دی جاتی ہے۔ زندگی کے حق کو تحفظ دینے میں مدد کرنی چاہیے، کیونکہ حیات سے بڑھ کر انسان کے لیے کوئی اور انعام اور خوشی ہو نہیں سکتی۔

ایاز احمد لغاری
لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔
 بشکریہ روزنامہ ڈان اردو

اپنے اسمارٹ فون کی بیٹری کا دورانیہ بڑھائیں

$
0
0

صارفین کو اکثر یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان کے فون کی بیٹری جلد ختم ہو جاتی ہے تاہم ان چند تدابیر پر عمل کر کے اس مشکل سے بچا جا سکتا ہے ۔ عام طور پر صارف کے اسمارٹ فون میں انتہائی ضروری ایپلی کیشنز کے ساتھ بعض غیر ضروری یا غیراہم ایسی ایپلی کیشنز بھی موجود ہوتی ہیں جو بہت کم استعمال میں آتی ہیں۔

ایپلی کیشنز کی فوری بندش
صارفین کو چاہئے کہ سب سے پہلے موبائل فون کی سیٹنگ میں جا کر یہ دیکھ لیں کہ کون سی ایپلی کیشن زیادہ بیٹری صرف کرتی ہیں۔ جو ایپلی کیشن زیادہ بیٹری استعمال کرتی ہو اسے کام کے بعد فوراً بند کر دیا جائے جس سے بیٹری ضائع ہونے سے بچ سکتی ہے۔

لو پاور موڈ آپشن
صارفین کو سیٹنگ میں موجود 'لو پاور موڈ آپشن آن رکھنا چاہئے، یہ 20 فیصد چارجنگ بچنے کی صورت میں فوراً آگاہی فراہم کرتا ہے۔ یہ ان تمام ایپلی کیشنز کو روک دیتا ہے جو بیگ گراؤنڈ میں چلتی رہتی ہیں یا آٹو ڈاؤن لوڈ ہوتی ہیں۔

موبائل آٹو لاک
جتنی دیر تک فون کی اسکرین لائٹ جلتی رہتی ہے فون کی بیٹری کم ہوتی رہتی ہے تاہم ہمیشہ 'آٹو لاک کو آن رکھنا چاہئے تاکہ فون استعمال کرنے کے بعد خود ہی لاک ہو جائے جس سے بیٹری محفوظ رہ سکے۔ صارف اپنی سہولت کے حساب سے 30 سیکنڈ، ایک منٹ، 2 منٹ یا اس سے زائد اسکرین لاک کا دورانیہ رکھ سکتا ہے۔

لوکیشن سروس کو بند رکھا جائے
'لوکیشن سروس صارفین کے لئے مددگار ہے لیکن اس سے فون کی بیٹری بھی تیزی سے خرچ ہوتی ہے اور لوکیشن سروس 'ان ایبل رہنے سے اگر صارف اسے استعمال نہ بھی کر رہا ہو تو بیٹری خرچ ہوتی رہتی ہے۔ اس لئے بیٹری کا دوانیہ زیادہ دیر تک بڑھانے کے لئے آپ اطمینان کر لیں کے آپ نے لوکیشن سروس بند کردیا ہے۔

آٹو برائٹنیس آن رکھیں
اگر صارف نے موبائل اسکرین کی برائٹنیس بڑھا رکھی ہے تو یقیناً بیڑی تیزی سے ختم ہو گی اس لئے تاکید کی جاتی ہے کہ صارف اپنا موبائل 'آٹو برائٹنیس آپشن پر کر دیں، اس کی مدد سے موبائل اسکرین کی روشنی موجودہ جگہ کے لحاظ سے فراہم ہو گی۔

وائی فائی اور ڈیٹا کنکشن ساتھ استعمال نا کیا جائے:

وائی فائی استعمال کرتے ہوئے یہ ضرور خیال کیا جائے کہ ڈیٹا انٹرنیٹ استعمال نا کیا جائے کیوں کہ دونوں کا ایک ساتھ استعمال بیڑی کو متاثر کرتا ہے۔

نیٹ ورک کنکشن نا ہونے کی صورت میں موبائل ایئر پلین موڈ پر رکھا جائے: جب نیٹ ورک سروس موصول نہ ہورہی ہو تو اس صورت میں موبائل کو 'ایئر پلین موڈ پر لگا دیا جائے، کیوں کہ اس سے آپ موبائل کی بیٹری زیادہ وقت تک استعمال کرسکیں گے۔
 

ایک اور حلف جس کی خلاف ورزی پر سب خاموش ہیں

$
0
0

گزشتہ روز قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی متفقہ طور پر حال ہی میں نئے الیکشن قانون میں کی گئی انتہائی متنازع ترامیم کو واپس لے لیا جو ایک خوش آئند عمل ہے جس پر پاکستان کے عوام مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ ختم نبوت کے مسئلہ پر کسی قسم کا کوئی بھی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ بجا طور پر میڈیا اور عوام کی توجہ اس خاص ترمیم پر مرکوز رہی لیکن متنازع تبدیلیوں میں ایک اور خطرناک تبدیلی بھی کی گئی جس کا میڈیا میں کوئی ذکر نہ ہوا لیکن میرے رب کی مہربانی سے وہ تبدیلی بھی واپس ہو گئی۔

قارئین کرام کی معلومات کے لیے یہ بتاتا چلوں کے الیکشن لڑنے کے خواہش مند افراد کے لیے قانون کے مطابق مہیا کیے گئے کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت کے ساتھ ساتھ ایک اور حلفیہ بیان لازم ہے جس کا تعلق اسلامی نظریہ پاکستان کے تحفظ اور پاکستان میں جمہوریت کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلانے سے متعلق ہے۔ اس بیان کو بھی نئے الیکشن قانون میں حلفیہ بیان سے بدل کر اقرار نامہ کیا گیا لیکن اب تازہ ترامیم کے ساتھ ہی پھر صورت حال پرانی ہو چکی جو قابل تسکین بات ہے۔ 

درج ذیل میں اس حلفیہ بیان کو پڑھیے:
’’میں مذکورہ بالا امیدوار حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ : (دوم) میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے کئے ہوئے اعلان کا وفادار رہوں گا ؍گی کہ پاکستان معاشرتی انصاف کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوریت ہو گی۔ میں صدقِ دل سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا؍ گی اور یہ کہ میں اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہوں گا؍ گی جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔‘‘

یہ حلفیہ بیان حالیہ قانون میں کی گئی تبدیلیوں سے پہلے بھی موجود تھا اور اب دوبارہ ترمیم کے ذریعے ایک بار پھر کاغذات نامزدگی میں حلف کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے جو بہت اچھی خبر ہے۔ یہ حلفیہ بیان پاکستان کی پارلیمنٹ یعنی سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ تمام صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کے لیے لازم ہے لیکن مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ حلف لینے کے باوجود ہمارے حکمران اور ممبران پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی پاکستان کی اسلامی اساس کے تحفظ اور اس ملک کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلانے کے لیے کوئی کوشش کیوں نہیں کر رہے۔

بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ نہ صرف وفاقی و صوبائی حکومتوں کی طرف سے پاکستان کو روشن خیالی ، لبرل ازم اور ترقی پسندی کے نام پرمغرب زدہ کیا جا رہا ہے بلکہ یہاں تو کئی سیاسی رہنما اورممبران اسمبلی ایسے ہیں جو کھلے عام پاکستان کو سیکولر بنانے کی بات کر کے اس حلف کی خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن اس خلاف ورزی کو نہ تو عدلیہ دیکھتی ہے نہ ہی الیکشن کمیشن، میڈیا یا کوئی اور اگر کوئی ممبر پارلیمنٹ اپنے کسی سیاسی معاملہ میں اپنی پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کر دے یا اُس کے خلاف بول پڑے تو اس پر تو ایکشن لیا جاتا ہے۔ کوئی اپنی دولت کے بارے میں دی گئی تفصیلات کے متعلق جھوٹ بولے یا پیسہ چھپائے تو اس پر بھی نااہلی کی کارروائی شروع کر دی جاتی ہے۔

لیکن یہ کیا کہ قسم اٹھا کر یہ حلف لینے والے کہ وہ نہ صرف پاکستان کے قیام کی بنیاد بننے والے اسلامی نظریہ کا تحفظ کریں گے بلکہ پاکستان کی جمہوریت کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلائیں گے، کس آسانی سے لبرل اور سیکولر پاکستان کی بات کرتے ہیں، خلاف اسلام قانون سازی کرتے ہیں، ایسی پالیسیاں بناتے ہیں جو اسلامی اصولوں کے خلاف ہوتی ہیں لیکن ایسے سیاسی رہنمائوں، حکمرانوں اور ممبران پارلیمنٹ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ میری سیاسی جماعتوں، الیکشن کمیشن، عدلیہ اور پارلیمنٹ سے گزارش ہے کہ وہ اس حلف کی کھلے عام خلاف ورزی کرنے والوں کے بارے میں بھی سوچیں اور اُن کا احتساب کریں.

کیوں کہ یہ دھوکہ پاکستانی قوم کے ساتھ نہیں کیا جانا چاہیے کہ حلف تو آپ لیں پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا اور جب اسمبلیوں میں آئیں یا اقتدار کی کرسی پر بیٹھیں تو روشن خیالی، لبرل ازم اور ترقی پسندی کی باتیں کریں اور مغرب زدہ پالیسیاں بنائیں۔ میڈیا سے مجھے کوئی امید نہیں کہ اس معاملہ پر بات کرے گا کیوں کہ بہت کچھ جو میڈیا کر رہا ہے وہ تو اسلامی پاکستان میں چل ہی نہیں سکتا۔

انصار عباسی
 

پاکستان میں دوائیں سالانہ پانچ لاکھ جانیں لے لیتی ہیں : ماہرین

$
0
0

ماہرین کے مطابق ملک میں سالانہ تقریباً 5 لاکھ لوگ ادویات میں غلطی کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، ان غلطیوں میں دواؤں کی غلط تجویز، خوراک کی زیادتی اور دواؤں کے ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) شامل ہیں۔ پاکستان سوسائٹی آف ہیلتھ سسٹم فارماسسٹس (پی ایس ایچ پی) کے صدر عبداللطیف شیخ نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ 'پاکستان میں سالانہ 5 لاکھ افراد، بشمول خواتین اور بچے، ادویات کی غلط تجویز، تجویز کردہ مقدار سے زیادہ دوا لینے، ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر دوا لینے اور دواؤں کے ضمنی اثرات کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں'۔

عبداللطیف شیخ کا کہنا تھا کہ دواؤں کے معاملے میں بین الاقوامی طریقہ کار کو اپنا کر ان اموات کی روک تھام کی جا سکتی ہے، انہوں نے بتایا کہ امریکا میں ہر سال ان وجوہات کی بناء پر 80 ہزار لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں، مگر پاکستان میں مطلوبہ مکینزم کی عدم موجودگی کی وجہ سے سرکاری طور پر اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا، 'ہمارے پاس حتمی ڈیٹا تو موجود نہیں، مگر غلط ادویات تجویز کرنے اور دیگر مہلک غلطیوں کی وجہ سے اندازاً 4 سے 5 لاکھ لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں، یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے جس پر حکام اور فارماسسٹس کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے'۔

پی ایس ایچ پی کے صدر کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم ہفتے کے روز اپنی دوسری بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرے گی جس کا مقصد پاکستانی ہسپتالوں میں ادویات سے متعلق غلطیوں اور مریضوں کو بحفاظت ادویات کی فراہمی اور دیگر مسائل پر توجہ دینا ہو گا۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کے نظامِ صحت میں فارماسسٹس کو ان کا جائز کردار ادا نہیں کرنے دیا جاتا اور ہسپتالوں میں ان کی بھرتی کے باوجود ادویات، خوراک اور دیگر مسائل کے بارے میں ان سے مشورہ نہیں کیا جاتا جس سے سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

مگر ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں اب فارماسسٹس کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ 'سندھ میں حال ہی میں سیکڑوں فارماسسٹس بھرتی کیے گئے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ انہیں ادویات سے متعلق معاملات میں اپنے علم اور ہنر کو استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی'۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ نظامِ صحت میں دواؤں کے منفی اثرات رپورٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے نہ ڈاکٹر اور نہ ہی مریض دواؤں کے منفی و ضمنی اثرات کو حکام تک پہنچا سکتے ہیں، اس کی وجہ سے کئی منفی اثرات رکھنے والی دوائیں اب بھی عوام کے لیے عام دستیاب ہیں اور تجویز بھی کی جاتی ہیں۔

یہ خبر 11 اکتوبر 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی.
 

پاکستان میں گلیشیئر پگھلنا بند، پانی کی کمی کا خدشہ

$
0
0

موسمیاتی تبدیلی کے زیر اثر دنیا بھر میں درجہ حرارت بڑھنے کے باعث گلیشیئر پگھل رہے ہیں لیکن پاکستان کے شمالی علاقوں کی برفانی چوٹیوں پر درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے گلیشیئر بڑھ رہے ہیں۔ عالمی سطح پر سائنس دانوں کیلئے تو یہ اچھی خبر ہو لیکن عام پاکستانیوں کیلئے یہ خبر اس لیے اچھی نہیں ہے کیونکہ گلیشیئر پگھلنے کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی کمی کا خدشہ ہے اور آنے والے برسوں میں پاکستانی دریا ؤ ں میں پانی کی 7؍ فیصد تک کمی دیکھی جا سکتی ہے۔ برطانوی ریڈیو کے مطابق یہ بات ایریزونا یونیورسٹی میں پاکستانی گلیشیئروں پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے ایک گروپ نے اپنے تحقیقی مقالے میں بتائی۔
 

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live