Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

پاکستان میں جبری گمشدگیاں

$
0
0

پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے سرکاری ادارے کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے معاملے میں پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔ بی بی سی کو جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کے بارے میں دیے گئے انٹرویو میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان میں جبری طور پر گمشدہ ہونے والے لوگوں کے بارے میں کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان نے اس بارے میں بین الاقومی معاہدوں کی توثیق کی ہے۔ انھوں نے کہا: 'قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد کی کسی ایجنسی کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ کار بن جائے تو ایجنسیوں یا پولیس میں جو پالیسیوں سے باغی عناصر ہیں ان کا احتساب ہو سکے گا اور وہ قانون کے مطابق چلیں گے۔'

لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے حکومتوں کی طرف سے تعاون کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا کہ حکومتیں تعاون تو کرتی ہیں لیکن سب لوگ شائد نہیں کرتے۔ ’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سارے لوگ تعاون کرتے ہیں حکومت کے اندر؟ کیا وہ لوگ تعاون کرتے ہیں جو شائد ذمہ دار ہوں (گمشدگیوں کے) یا باغی (روگ) عناصر ہوں، سارے تو ایسے نہیں ہیں۔‘ جسٹس چوہان نے کہا کہ قانون کی عدم موجودگی کے باعث گمشدہ افراد کے مقدمات کی تفتیش کرنے میں ان کا ادارہ بعض اوقات بے بس ہو جاتا ہے۔ قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد کی کسی ایجنسی کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ کار بن جائے تو ایجنسیوں یا پولیس میں جو (پالیسیوں سے ) باغی عناصر ہیں ان کا احتساب ہو سکے گا اور وہ قانون کے مطابق چلیں گے۔
'جب تک گمشدہ فرد الزام علیہ (ایجنسیوں) کے ہاں سے برآمد نہیں ہو گا یا وہ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرے گا تو ہم تو بے بس ہیں۔' اس سوال پر کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جب تک ایجنسیاں، جن پر الزام ہے کہ انھوں نے کسی شخص کو غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے، انسانی حقوق کمیشن کے ساتھ تعاون نہیں کرتیں تو یہ ادارہ کچھ نہیں کر سکے گا، جسٹس چوہان نے کہا کہ یہ تاثر کلی طور پر درست نہیں ہے۔ 'کچھ تو ہم کر سکتے ہیں۔ جیسے دباؤ ڈال سکتے ہیں، شور مچا سکتے ہیں اور ایجنسیوں کو بلا بھی لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان سے کچھ حاصل ہو جائے۔' جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر ایجنسیاں جبری گمشدہ افراد کے بارے میں رضا کارانہ معلومات نہیں دیتیں تو ان کا ادارہ کچھ نہیں کر سکتا، جسٹس چوہان نے اس رائے سے اتفاق کیا۔

انھوں نے کہا: 'بہت حد تک آپ ٹھیک کہ رہے ہیں۔ اگر ایجنسیاں رضا کارانہ طور پر ہمیں یہ نہ بتائیں کہ کوئی گمشدہ شخص ان کے پاس موجود ہے تو ہمارے پاس تو کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے ہم یہ معلوم کر سکیں کہ یہ فرد کہاں ہے۔' اس معاملے میں پولیس کے کردار کے بارے میں ایک سوال پر جسٹس چوہان نے کہا کہ پولیس اتنی طاقتور نہیں ہے کہ وہ اس معاملے میں کچھ کر سکے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ تو پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا معاملہ ہو گیا تو جسٹس چوہاں نے کہا کہ کچھ ایسا ہی ہے۔ 'میں اس سے انکار نہیں کروں گا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ تو ہے۔ لیکن یہیں پر قانون کا معاملہ آ جاتا ہے۔ اگر قانون میں اختیار اور طاقت دی جائے تو معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔' انھوں نے کہا کہ اس بارے میں نئے قوانین بنائے اور ایجنسیوں اور پولیس کو ان قوانین کے دائرے میں لائے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

'اس (قانون نہ ہونے) کی وجہ سے ہم حکومت کے مرہون منت ہیں کیونکہ ہمارے پاس اپنی تو کوئی ایجنسی نہیں ہے جس سے ہم ڈھونڈھ سکیں کہ گمشدہ فرد کہاں ہے۔' انھوں نے کہا کہ وہ حکومت کو تجویز دے چکے ہیں کہ اس معاملے پر قانون سازی کی جائے لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔

آصف فاروقی 

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

 


نائین الیون حملے کے بعد پاکستان کو درپیش سفارتی چیلنج

$
0
0

گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکہ میں شدت پسند تنظیم 'القاعدہ'کی جانب سے کیے جانے والے حملوں میں لگ بھگ تین ہزار افراد مارے گئے تھے۔ ان حملوں کے بعد پاکستان نے بھی واشنگٹن کے ہمراہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شمولیت اختیار کی اور اس جنگ کی ابتدا سے ہی صفِ اول میں رہا۔ کچھ اس جنگ کا نتیجہ اور کچھ اس عرصے کے دوران مختلف حکومتوں کے ادوار میں اپنائی جانے والی پالیسیوں کا اثر تھا کہ پاکستان خود اس دہشت گردی اور اس سے نمٹنے کی اپنی کوششوں پر تنقید کے نشانے پر آ گیا۔ اگرچہ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ گزشتہ 16 برسوں میں اس نے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں لیکن اس کے باوجود وہ مسلسل اس تنقید کی زد میں رہا کہ اب بھی دنیا کے لیے خطرہ تصور کیے جانے والے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اس ملک میں ہیں۔

پاکستان میں تجزیہ کار اس صورت حال کو ملک کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج سمجھتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کی ایک بڑی سرکاری درس گاہ قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبۂ سیاست و بین الاقوامی امور کے سربراہ ڈاکٹر نذیر حسین کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف اپنی کوششوں اور قربانیوں کو پاکستان بین الاقوامی برداری کے سامنے درست انداز میں پیش نہیں کر سکا۔ ’’تشخص کو اجاگر کرنے کے حوالے سے ہماری مینجمنٹ بہت خطرناک حد تک کمزور ہے۔ پاکستان کی جو تصویر ہے وہ اچھے طریق سے باہر (دنیا) تک نہیں جا رہی ہے۔ اس میں کچھ ہماری پالیسیوں کی دخل اندازی ضرور ہے، کہ ہم اچھے طالبان اور برے طالبان میں تمیز کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں ایک چیز دیکھنی ہے کہ پاکستان نے کیا کیا ہے، پاکستان نے کتنی قربانیاں دی ہیں، کیسے قربانیاں دیں اُن کو ہم بدقسمتی سے اجاگر نہیں کر سکے۔‘‘

انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد میں امریکہ سے متعلق شعبے کے ڈائریکٹر نجم رفیق کہتے ہیں کہ اب بھی دنیا کے کئی ممالک پاکستان کو دہشت گردوں کا حامی قرار دیتے ہیں جو اُن کے بقول ایک بہت بڑا سفارتی چیلنج ہے۔
’’جہاں تک عسکری فرنٹ کا سوال ہے، میری نظر کے مطابق وہ ایک چھوٹا سا فرنٹ ہے اور ایک محدود علاقائی سطح تک رہتا ہے۔ جہاں تک ڈپلومیٹک فرنٹ کا تعلق ہے تو یہ بہت وسیع اور بڑا پہلو ہے، جس پر پاکستان کو ایک بہت بڑی جنگ لڑنی ہے۔‘‘ اب بظاہر حکومت کو بھی یہ احساس ہو چکا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف محض عسکری کارروائیاں ہی کافی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اس تشخص کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے جو کہ اب اس ملک سے جوڑ دیا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے ہی اسلام آباد میں منتخب پاکستانی سفیروں کی کانفرنس کے بعد وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی کہا کہ ’’ہمیں اس بات کا بڑی شدت سے احساس ہے کہ جو ہمارا تشخص ہے یا دہشت گردی کے خلاف ہماری کو کامیابیاں ہیں، دنیا اُس کو تھوڑا مختلف نظرسے دیکھتی ہے اور ہمیں دنیا کے نقطۂ نظر کو درست کرنا ہے۔‘‘ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے عالمی جنگ میں شمولیت کا فیصلہ تو ’نائین الیون‘ کے فوراً بعد ہی کر لیا تھا لیکن اسے، اس جنگ کی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور اس کے مطابق سفارتی پالیسی کو ڈھالنے میں بہت وقت لگا، جس سے پاکستان کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی رہیں۔

محمد اشتیاق
بشکریہ DW اردو 

جماعت اسلامی کے غریب ’’امیر‘‘ اور

$
0
0

میری پسندیدہ جماعت بلکہ اسے جماعت نہیں ایک ادارہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ جماعت اسلامی کے روحِ رواں اور میرے پیرو مرشد مولانا ابواعلیٰ مودودی نے جب اس کی بنیاد رکھی تو اس کے مقاصد شاید کچھ اور تھے لیکن وقت کے ساتھ ان مقاصدمیں مزید اضافہ بھی ہو گیا اور میری جماعت کے سیاسی شعبہ نے بھی اس ملک کے عوام کو ایک نئی اور منفرد قسم کی سیاست سے روشنا س کرایا اور ابھی تک اپنی اس منفرد سیاست کی پہرہ داری بھی کرتی آ رہی ہے کہ میری جماعت کے لوگ صادق بھی ہیں اور امین بھی ہیں اور مجھے ان کے صادق و امین نہ ہونے پر کبھی شک نہیں ہوا کہ جتنا میں جماعت کے لوگوں کو جانتا اور پہچانتا ہوں ان میں ولی قسم کے لوگ بھی گزرے ہیں جن کے بارے میں بلا شک و شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اللہ کے پسندیدہ ترین لوگوں میں شمار ہوں گے اور ان کی زندگیوں کا میں عینی شاہد بھی ہوں۔

جماعت پاکستان کی واحد جمہوری جماعت ہے جو کہ اپنے امیر کا انتخاب ایک صاف شفاف انتخاب کے بعد ہی کرتی ہے اور اس انتخاب کے لیے کسی امیدوار کا امیر وکبیر یا کسی سابقہ امیر کا رشتہ دار ہونا ضروری نہیں ہوتا اور اب تک میں نے جماعت کے جتنے بھی امیر دیکھے ہیں وہ غریب ہی تھے میرا مطلب ہے کہ ان کا تعلق کسی امیرخاندان سے نہیں تھا بلکہ وہ بھی ہم آپ جیسے جماعت کے عام ورکر قسم ہی تھے جو جماعت سے اپنی دیرینہ وابستگی کے بعد اس قابل ہو گئے تھے کہ امیر کے انتخاب کے لیے اپنے آپ کو پیش کر سکتے یا ان کو امیر منتخب کر لیا جاتا۔ بات جماعت اسلامی کی سیاست کے بارے میں شروع کرنا چاہ رہا تھا لیکن اپنی دیرینہ وابستگی کی وجہ سے جماعت کی یادوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو جب اُمڈ آئے تو اس سمندر کے آگے بند باندھنا مشکل ہو جاتا ہے اور یادیں در آتی ہیں جو کہ محترم پیرو مرشد سے شروع ہو تی ہیں اور درجہ بدرجہ سفر کرتی ہوئی محترم سراج الحق صاحب تک پہنچ آتی ہیں۔

میرے جیسے غیر لاہوری کے لیے لاہور میں جماعت کا وجود ایک نعمت ِ مترقبہ سے کم نہیں کہ بڑے بھائی صاحب نے لاہور کے لیے روانہ کرتے وقت جماعت کے دفتر کا پتہ ہی جیب میں ڈالا تھا اور پہاڑوں میں زندگی کے صبح و شام کرنے والا نوجوان لاہور جیسے بڑے شہر میں جماعت کی محفوظ آغوش میں پہنچ گیا حالانکہ میری مرحومہ والدہ اس بات پر میرے بڑے بھائی سے شدید ناراض ہوئیں کہ وہ ان کے سب سے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے کو مولوی بنانے کے لیے راوی کے پار بھیج رہے ہیں اور جب ان سے کچھ نہ بن پڑا تو بیٹے کو حکم دیا کہ اس کو کچھ زیادہ پیسے دینا کہ سنا ہے لاہور میں تو پانی بھی خرید کر پینا پڑتا ہے۔
گو کہ اُس وقت تو پانی کے معاملے میں صورتحال ایسی نہ تھی بلکہ اسے محارواتی طور پر ہی کہا جاتا تھا لیکن اب جب میں اپنے گھر میں پانی کی بڑی بڑے بوتلیں دیکھتا ہوں تو ملازم سے کہتا ہوں کہ مجھے بھی ولایتی پانی پلا دے اور اس وقت اپنی والدہ کی بات بہت یاد آتی ہے کہ کیسے دوراندیش لوگ تھے جو آنے والے وقتوں کے بارے میں کیسی درست پیش گوئیاں کر گئے اور وقت نے ان کی دور اندیشی کو ثابت بھی کر دیا۔

میں آج بھی لاہور میں اگر کسی کو اپنا سمجھتا ہوں تو وہ میرے جماعت کے ہی لوگ ہیں جو اس دیار غیر میں میری خوشیوں اور غموں میں شریک رہتے ہیں اور وہ اُس نوجوان کو یاد دلاتے رہتے ہیں جو ذیلدار پارک اچھرہ میں آج سے کئی دہائیاں پہلے ان کا مہمان بنا تھا۔ محترم سراج الحق ان دنوں ملک بھر میں جماعت کا پیغام پہنچانے کے لیے جگہ جگہ عوامی اجتماعات سے خطاب کر رہے ہیں جن میں ایک بات وہ بڑی وضاحت اور صاف الفاظ میں کر رہے ہیں کہ وہ ملک کے اقتدار پر کئی دہائیوں سے مسلط کرپٹ ٹولے کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑیں گے اور ان کو کہیں چھپنے نہیں دیں اور کرپشن کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے بلکہ لوگوں کو مسلسل جگاتے رہیں گے۔ وہ ایک بہت بڑی بات بھی کہہ گئے کہ جس دن بھی جماعت اسلامی کو حکومت ملی تو پھر کوئی غریب بھوکا نہیں سوئے گا اور کوئی بیروزگار نہیں رہے گا۔

جماعت کے امیر کی باتیں لوگ نہایت توجہ سے سنتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی امارت کے منصب پر بیٹھا شخص کوئی ذاتی ایجنڈا لے کر نہیں آیا اور نہ ہی یہ کوئی مفاد پرست ہے اس کی بات وزن رکھتی ہے اور جب بھی جماعت کے لوگ اقتدار کے کسی منصب پر بیٹھے انھوں نے وہ مثالیں قائم کیں جو کہ آج کے دور میں واقعی مثالیں ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب جناب نعمت اﷲ خان کراچی کے ناظم تھے تو کراچی اپنی روشنیوں کی جانب لوٹ رہا تھا اور اب جو حال کراچی کا ہے اس کے بارے میں آپ سب روز سنتے اور ٹی وی پر اس کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔

سراج صاحب نرم خو لیکن انتہائی مضبوط اعصاب کی شخصیت کے مالک ہیں اور ایک ایسی جماعت کی سربراہی ان کے ناتواں کندھوں پر ہے جس کی اپنی مخصوص روایات ہیں اور حالات چاہے کیسے بھی ہوں اس پر کاربند نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے خطابات میں احتساب سب کا کے عزم کا اعادہ بھی کرتے نظر آئے کہ کرپٹ اور بداعمال حکمرانوں کی وجہ سے ہی ملک روز بروز نیچے ہی جا رہا ہے اوروہ سیاستدانوں کی بد اعمالیوں سے عوام کو خبردار کرتے رہیں گے۔ ایک بات تو بہر حال بڑے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ وقت بھی جلد ہی آنے والا ہے جب ہم جماعت اسلامی کی باتوں کی صرف مثالیں ہی نہیں دیں گے بلکہ اپنے ووٹ کا درست استعمال کر کے ان کو اقتدار کے قریب بھی کرنا ہو گا کیونکہ ہم اب تک تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کو آزما چکے ہیں اور اس آزمانے کے چکر میں اپنا مسلسل نقصان ہی کیے جا رہے ہیں اس لیے شاید ہمارے معصوم عوام اب یہ بات سمجھ جائیں کہ ان کے دکھوں کا مداوا حقیقی طور پر کون کر سکتا ہے اور جس کی حکومت میں وہ اپنی بھوک مٹاتے ہوئے چین کی نیند سو سکتے ہیں کہ جماعت کے لوگوں کو اپنی کوئی بھوک نہیں ہے بلکہ وہ اپنی زندگیاں گزار نہیں رہے کاٹ رہے ہیں اور دنیاوی فکروں سے تقریباً بے نیاز ہیں اور کسی بے نیاز سے آپ بھلے اور خیر کی توقع ہی رکھ سکتے ہیں۔

عبدالقادر حسن
 

’لاپتہ افراد‘ کے اہل خانہ کی غمزدہ کردینے والی کہانیاں

$
0
0

گذشتہ 3 سال سے لاپتہ شارق کمال کی اہلیہ نوشین کمال کا کہنا ہے کہ ’میرے 3 بچے ہر وقت اپنے والد کو ساتھ لے جانے والے افراد سے بدلہ لینے کے بارے میں باتیں کرتے ہیں‘، نوشین کمال کو اپنے خاوند کو اٹھانے کی درست تاریخ بھی اب تک یاد ہے، جنہیں 3 مارچ 2015 کو لاپتہ کیا گیا تھا۔ 3 بچوں کی ماں کا کہنا تھا کہ ’وہ انتہائی خوش بچے تھے جو مجھ سے اپنے اسکول میں ہونے والے واقعات کو بیان کیا کرتے تھے لیکن اب وہ اس بارے میں سوچتے ہیں کہ ان کو اسکول کی تعلیم سے کن وجوہات کی بنا پر دور کیا گیا‘۔

ایک اور خاتون شائستہ، جن کے خاوند کو 28 اکتوبر 2015 کو غائب کیا گیا تھا اور وہ تاحال لاپتہ ہیں، کا کہنا تھا کہ ’میری 3 بیٹیاں اسکول جانے کی عمر کو پہنچ چکی ہیں اور ان کے والد کی گمشدگی کے بعد ان کی ضروریات پوری کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے‘۔ اسی طرح ریاض اللہ کا کہنا تھا کہ ان کے خاوند کو 18 نومبر 2015 کو غائب کیا گیا تھا، ’جب انھیں غائب کیا گیا تو ہمارے ہاں دوسرے بچے کی ولادت ہونے کو تھی، میرے بیٹے نے اب تک اپنے والد کو نہیں دیکھا‘۔ اس موقع پر ان کے ساتھ ان کا 7 سال کا بڑا بیٹا بھی کھڑا تھا جس نے اپنے والد کی فوٹو کا فریم اٹھا رکھا تھا۔
ان کے علاوہ ایک اور لاپتہ فرد کی اہلیہ صغیرنسہ بیگم اپنی کہانی بتاتے ہوئے آب دیدہ ہو گئیں، ان کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا فرقان شادی شدہ نہیں تھا اور میں اسے بہت زیادہ یاد کرتی ہوں، ان کا کہنا تھا کہ 6 مئی 2015 کو ان کے بیٹے کو غائب کیا گیا جس کے بعد سے وہ اب تک لاپتہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے اس کی بازیابی کے لیے سب کچھ کر کے دیکھ لیا، جس میں عدالت میں پٹیشن دائر کرنا بھی شامل ہے تاہم اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا‘۔

یہ متاثرین نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) کے اجلاس میں شریک تھے جس کا مقصد میڈیا کے ساتھ جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد سے متعلق سندھ کی صورت حال شیئر کرنا تھا۔ اس موقع پر این سی ایچ آر کے چیئرمین ریٹائر جسٹس علی نواز چوہان نے کہا کہ ’جبری گمشدگی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے، اور ہم نگران آرگنائزیشن کے طور پر یہ حق رکھتے ہیں کہ گمشدگیوں میں ملوث ہونے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سوال کر سکیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اس حوالے سے جب ہم نے وزارت داخلہ کو نوٹس بھیجا تو ہمیں بتایا گیا کہ یہ لاپتہ افراد ان کے پاس نہیں ہیں تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ خیبر پختونخوا میں فرنٹئیر کور شاید ان کے بارے میں جانتی ہو، اور ساتھ ہی ان کی نشاندہی کے لیے کچھ وقت طلب کیا گیا‘۔ این سی ایچ آر کے چیف کا کہنا تھا کہ ’مکمل انکار نہ آنا ایک مثبت چیز تھی جس نے ہم سب میں اچانک ایک امُید پیدا کر دی تھی، لیکن اب ہمیں یہ دوسرا مراسلہ بھجوایا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں بھی لاپتہ افراد کے بارے میں کچھ معلوم نہیں‘۔ جسٹس علی نواز چوہان کا کہنا تھا کہ ’اس کے رد عمل میں ہم نے کہا ہے کہ آپ کا جواب مبہم اور اس لیے یہ ہمارے لیے ناقابل قبول ہے‘۔

اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے این سی ایچ آر سندھ کے رکن انیس ہارون نے بتایا کہ ان کے پاس حکومت پر یقین رکھنے کے حوالے سے انتہائی مشکل مرحلہ ہے جیسا کہ وہ ایک دن کچھ کہتے ہیں اور دوسرے دن کچھ کہتے ہیں۔ جسٹس چوہان نے کہا کہ اس معاملے سے نمٹنے کے لیے ایک داخلی نظام ہونا چاہیے، ’ہم وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے داخلی نظام اور اس حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کے لیے کہیں گے‘۔

شازیہ حسن
یہ رپورٹ 13 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
 

ارما : نصف صدی کا طاقتور ترین سمندری طوفان

$
0
0

سمندری طوفان ارما کو بحرا و قیانوس میں آنے والے طاقت ور ترین طوفانوں میں شمار کیا جا رہا ہے ۔ بحر اوقیانوس اور بحرا لکاہل میں آنے والے طوفانوں کی پیمائش کے لئے ایک خاص طریقہ استعمال کیا جاتا ہے جس کی 5 کیٹیگریز ہیں۔ ان کیٹیگریز میں ہوا کی تیز رفتار اور ممکنہ نقصانات کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔
سمندری طوفان جو کیٹیگری 1 میں آتا ہے اس میں ہوا کی رفتار 74 سے 95 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اور اس سے لکڑی کے بنے ہوے گھروں کی چھتوں کو تھوڑا نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ درختوں کی شاخوں کے ٹوٹنے اور کمزور درختوں کے گرنے کے واقعات ہو سکتے ہیں۔

جب سمندری طوفان میں 96 کلومیٹر سے 110 میل فی گھنٹے کی رفتار سے ہوائیں چلنا شروع ہوتی ہیں تو یہ کیٹیگری 2 میں داخل ہو جاتا ہے ۔ اس میں چلنے والی خطرناک ہواؤں کے ساتھ اڑتا ملبہ آپ کو آپ کے گھر کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ہواؤں کی شدت آپ کو باقاعدہ محسوس ہوتی ہے، درخت اپنی جگہ چھوڑتے ہیں اور سڑکوں کو بند کرنے کا باعث بنتے ہیں جبکہ بجلی کے پول اور دیگر کو نقصان پہنچتا ہے ۔
جب طوفان کیٹگری 3 میں داخل ہوتا ہے تو اسے اہم طوفانوں میں شمار کیا جانے لگتا ہے اور اس میں ہواؤں کی رفتار 111 سے 129 میل تک پہنچ جاتی ہے ، اس سے تباہ کن نقصانات ہو سکتے ہیں ۔ اس سے لکڑی کے گھروں کے دروازے ٹوٹ سکتے ہیں اور گھر کی بنیاد یں بھی ہل سکتی ہیں جبکہ مضوط درخت اکھڑ سکتے ہیں ۔ اس کے بعد جب طوفان میں ہواؤں کی رفتار 130 میل سے بڑھتی ہے اور 156 میل فی گھنٹہ تک پہنچتی ہے تو یہ کیٹیگری 4 میں داخل ہو جاتا ہے ۔ اس سے تباہی کے اثرات شدید ہوتے ہیں، گھروں کی چھتیں اور اسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور یہ رہنے کے قابل نہیں رہتے۔ درخت اور پولز اپنی ٹوٹ کر گر جاتے ہیں اور تیز ہواؤں کا حصہ بن جاتے ہیں۔

جب یہ طوفان کیٹیگری 5 میں داخل ہوتا ہے تو اس میں ہواؤں کی رفتار 157 میل فی گھنٹہ سے بڑھ جاتی ہے ۔ جیسا کے طوفان ارما میں 185 میل فی گھنٹہ دیکھی گئی۔ اس میں ایسے گھراور درخت اپنی جگہ سے اکھڑ جاتے ہیں۔ شدید طوفانی ہوائیں اپنے ساتھ ملبے کے بڑے بڑے ٹکٹرے لاتی ہیں۔ گاڑیاں اور دیگر اسٹرکچر تباہ ہو جاتے ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے کے جا بجا صرف ملبے اور تباہی کی دستان نظر آتی ہے تو غلط نہ ہو گا ۔ یہ تو طوفان کا صرف ایک حصہ ہے اس کے ساتھ طوفانی بارش اور اس کے نتیجے میں آنے والا سیلابی پانی بھی خطرناک حد تک جانی نقصان پہنچا تا ہے ۔
 

خود اعتمادی بڑھائیں اور زندگی میں کامیاب ہو جائیں

$
0
0

اگر شخصیت میں اعتماد ہو تو کم تعلیم کے باوجود زندگی میں ترقی ممکن ہے جبکہ خوداعتمادی سے محرومی اعلیٰ تعلیم اور صلاحیت کو بھی ماند کر دیتی ہے۔
درحقیقت حقیقی اعتماد شخصیت میں ایک جادو سا بھر دیتا ہے ۔ ایسا ہونے پر لوگوں کو خود پر اور اپنی صلاحیت پر یقین ہوتا ہے اور خود اعتمادی سے بھرپور افراد کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں کرنے سے گریز کرتے ہیں جو درج ذیل ہیں۔

جواز نہیں تراشتے
خوداعتماد لوگوں کو جس ایک چیز پر یقین ہوتا ہے وہ ذاتی تاثیر ہے، ان کا ماننا ہوتا ہے کہ وہ چیزوں کو بنا سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد کبھی بھی ٹریفک میں پھنسنے کی وجہ سے تاخیر یا ترقی نہ ملنے پر انتظامیہ کی شکایات نہیں کرتے، درحقیقت ایسے افراد کبھی بہانے یا جواز نہیں تراشتے کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگیوں پر کنٹرول رکھتے ہیں۔

وہ ہمت نہیں ہارتے
خوداعتمادی کی دولت سے مالامال افراد اپنی پہلی کوشش ناکام ہونے پر ہار نہیں مانتے، وہ اس کام میں سامنے آنے والی مشکلات اور ناکامیوں کو رکاوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں جسے عبور کرنا ہوتا ہے۔ وہ بار بار ایک چیز مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ یہ جاننے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ آخر ان کی ناکامی کی وجہ کیا ہے اور کس طرح اگلی بار اس سے بچا جا سکتا ہے۔

وہ کام کرنے کے لیے اجازت ملنے کا انتظار نہیں کرتے
خوداعتماد افراد کے لیے یہ ضروری نہیں کہ کوئی انہیں بتائے کہ کیا کرنا ہے یا کیسے کرنا ہے، وہ وقت ضائع کیے اور سوالات کیے اپنے کام کو نمٹاتے ہیں، وہ بس اپنے کام کو نمٹانا چاہتے ہیں اور اسے پورا کرتے ہیں۔

انہیں توجہ کی خواہش نہیں ہوتی
لوگ ان افراد کو زیادہ نہیں پسند کرتے جو توجہ حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں، خوداعتماد افراد جانتے ہیں کہ وہ اپنی حد تک کتنے موثر ہیں اور انہیں خود کو اہم ثابت کرنے میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ ایسے افراد بس اپنے اندر درست رویہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ خود کو ملنے توجہ کو بھی دیگر افراد کے کام کی جانب مبذول کراتے ہیں۔

انہیں مسلسل تعریف کی ضرورت نہیں ہوتی
کیا آپ نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو چاہتا ہے لوگ اسے مسلسل سراہے؟ خوداعتماد افراد ایسا نہیں کرتے، انہیں نہیں لگتا کہ ان کی کامیابی کا انحصار دیگر افراد کی تعریف پر ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جتنا بھی اچھا کام کریں، ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسا ہوگا جو لازمی تنقید کرے گا۔

وہ کام ٹالتے نہیں
لوگ کاموں کو ٹالتے کیوں ہیںَ کئی بار اس کی وجہ بس یہ ہوتی ہے کہ وہ سست ہوتے ہیں جبکہ متعدد بار اس کی وجہ ان کا خوفزدہ ہونا ہوتا ہے، یعنی تبدیلی، ناکامی یا ہو سکتا ہے کامیابی کا خوف۔ خوداعتماد افراد کاموں کو ٹالتے نہیں کیونکہ وہ خود پر یقین رکھتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ان کے اقدامات انہیں مقصد کے قریب لے جائیں گے۔

دیگر افراد سے موازنہ نہیں کرتے
ایسے افراد اپنے فیصلے دوسرون کے سر تھوپتے نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہر ایک کے پاس کچھ نہ کچھ خاص ہوتا ہے، اور انہیں دیگر افراد کی ہمت یا حوصلہ توڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی تاکہ خود اچھا محسوس کر سکیں۔ دیگر افراد سے موازنہ کرنا شخصیت کو محدود کرتا ہے ۔ خوداعتمادی کے نتیجے میں لوگ اپنا وقت دیگر افراد سے موازنہ میں ضائع نہیں کرتے۔

تنازعے سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے
خوداعتماد افراد کی نظر میں تنازعہ ایسی چیز نہیں جس سے ہر قیمت پر بچا جائے، بلکہ وہ اسے ایسے دیکھتے ہیں کہ اس کو کیسے موثر طریقے سے نمٹائیں۔ ناخوشگوار بات چیت یا فیصلے کرنے سے وہ ہچکچاتے نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تنازع زندگی کا حصہ ہے۔

وسائل کی کمی کو آڑے نہیں آنے دیتے
ایسے افراد اپنے راستے سے اس لیے پیچھے نہیں ہٹ جاتے کیونکہ ان کے پاس وسائل، عملہ یا رقم نہیں، اس کی بجائے وہ آگے بڑھنے کے لیے کوئی راستہ ڈھونڈتے ہیں یا کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بغیر ہی آگے بڑھ سکیں۔

بہت زیادہ مطمئن نہیں ہوتے
ایسے افراد جانتے ہیں کہ بہت زیادہ اطمینان ان کے مقاصد کے حصول کے لیے خاموش قاتل ثابت ہوتا ہے۔ جب وہ اطمینان محسوس کرنے لگتے ہیں تو اسے خطرے کی جھنڈی کے طور پر لیتے ہیں اور اپنی شخصیت کی حدود کو پھیلانے لگتے ہیں، ان کے خیال میں تھوڑا سا عدم اطمینان ذاتی زندگی اور کیرئیر دونوں کے لیے اچھا ہوتا ہے۔
 

پاکستان کی سمندری حدود میں بلیو وہیل پہلی مرتبہ دیکھی گئی

$
0
0

دنیا بھر میں ماحول کے بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی سمندری حدود میں ایک دیو ہیکل ’بلیو وہیل‘ اور اس کا بچہ دیکھا گیا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ یہ ماں اور بچہ وہیل اس وقت چرنا جزیرے کے قریب دیکھا گیا جب ماہ گیر سعید زمان اور اس کے ساتھی، ٹونا مچھلی کے شکار کے لیے سمندر میں موجود تھے، اور انہوں نے فوارے کی طرح پانی کو نکلتے دیکھ کر وہاں کا رخ کیا اور تصویریں لیں جو ڈبلیو ڈبلیو ایف کو بھیجی گئیں جہاں ماہرین نے اس کی تصدیق کی۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی زندہ بلیو وہیل کو پاکستان کی سمندری حدود میں پہلی بار دیکھا گیا ہے۔

ماہی گیر کے مطابق بلو وہیل کی جسامت 17 میٹر لمبی تھی جو ان کی کشتی کے برابر تھی جبکہ بچے سطح پر نہ آنے کی وجہ سے اس کے سائز کا اندازہ نہیں ہو سکا۔ اس سے قبل متعدد بار بلیو وہیل پاکستان کے ساحل سے مردہ حالت میں پائی گئی ہے، آخری بار 3 سال قبل سندھ کے علاقے کھڈی کریک سے بلیو وہیل کا ڈھانچہ ملا تھا۔ پاکستان کی سمندری حدود میں گذشتہ ایک سال کے دوران 47 بار وہیل کو دیکھا گیا ہے، جس میں سے بلیو وہیل ایک بار بھی نظر نہیں آئی۔ ڈبیلو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ بلیو وہیل کو دنیا میں طویل ترین جانور تصور کیا جاتا ہے، جس کی لمبائی 30 میٹر تک رکارڈ کی گئی ہے۔ دنیا میں ان کی تعداد کا تخمینہ 10 ہزار سے 25 ہزار لگایا گیا ہے۔ آئی یو سی این کے مطابق اس کی نسل خطرے سے دوچار ہے اور یہ ناپید جانداروں کی ریڈ لسٹ میں شامل ہے۔

آئی یو سی این کی ریڈ لسٹ کے مطابق ایک مادہ بلیو وہیل دو یا تین سالوں میں ایک بار بچہ دیتی ہے جس کا ابتدائی وزن ڈھائی ٹن اور لمبائی سات میٹر ہوتی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ بلیو وہیل کی خوراک جھینگے کی ایک مخصوص قسم ہے، جسے کرل کہا جاتا ہے اور یہ جہینگا بحریہ عرب میں بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ علاقے بلیو وہیل کے لیے باعث کشش ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ایڈوائیزر محمد معظم کا کہنا ہے کہ زندہ بلیو وہیل کا نظر آنا اس بات کی گمازی کرتا ہے کہ پاکستان کی سمندری حدود میں کئی اقسام کی سمندی حیات موجود ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں وہیل کا نظر آنے کی بڑی وجہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی موثر نگرانی ہے جس میں سندھ اور بلوچستان میں کشتیوں کے سو سے زیادہ ماہیگروں اور خاص طور پر ناخداؤں کی تربیت کی گئی ہے۔ جو وہیل، شارک، ڈولفن اور دیگر نایاب جانوری کی نگرانی کرتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کی جال سے رہائی کو یقینی بناتے ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سینئر ڈائریکٹر رب نواز کا کہنا ہے کہ چرنا جزیرہ  وہیل، شارک سن فش سمیت کورال یعنی ساحلی مرجان کی آماجگاہ ہے، حکومت بلوچستان کو اس جزیرے کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بلوچستان حکومت استولا جزیرے کو محفوظ قرار دے چکی ہے۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

 

اسمارٹ فون : انسانی یادداشت اور ذہانت کا دشمن ؟

$
0
0

برطانوی دماغی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اسمارٹ فون اور دیگر دستی آلات پر بڑھتا ہوا انحصار ہماری یادداشت، معلومات جمع کرنے اور مسائل حل کرنے کے لیے سوچ بچار کی صلاحیت شدید متاثر کر رہا ہے۔ اسی لیے ممتاز دماغی ماہر نے خبردار کیا ہے کہ اسمارٹ فون کا بے تحاشا استعمال اور اس پر انحصار ہمیں غبی اور کند ذہن بنا رہا ہے۔ دماغی ماہر ڈاکٹر سوسن گرین فیلڈ نے کہا ہے کہ ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال آج کی نسل کو شدید متاثر کر رہا ہے اور ان میں معلومات جمع کرنے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور محنت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں واقع لنکن کالج سے وابستہ ماہرین نے کہا ہے کہ اب نام یاد رکھنا اور سالگرہیں ازبر کرنا صرف ایک کلک کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ دماغ مسلسل مشق سے سیکھتا ہے اور اس میں حقائق جمع کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو یہ دماغی صلاحیت بتدریج کمزور ہوتی جاتی ہے۔ دوسری جانب سوسن گرین فیلڈ نے خبردار کیا ہے کہ نوجوان نسل اصل دنیا میں سیکھنے، کھیلنے اور معاشرے کا حصہ بننے کی بجائے اسکرین میں قید ہو کر رہ گئی ہے۔ گویا ہم نے سوچنے سمجھنے کا کام مشینوں اور اسمارٹ فونز کے سپرد کر دیا ہے۔ اس طرح دھیرےدھیرے زندگی کے پیچیدہ مسائل پر ہماری گرفت کمزور ہوتی جائے گی اور ہماری نسل تیزی سےاس جانب بڑھ رہی ہے۔
 


ترکی کا پاکستان سے غیر مشروط تعاون جاری رہے گا، اردوگان

$
0
0

ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے پاکستان سے غیر مشروط تعاون کو برقرار رکھنے کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پاکستان کو سیاسی، اقتصادی اور دفاعی طورپر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق استنبول میں ترک صدر طیب اردوگان اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے درمیان ملاقات ہوئی، ترک صدر نے ملاقات پر خوشی کا اظہار کیا۔ اردوگان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کو سیاسی، اقتصادی اور دفاعی طورپر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں اور ترکی پاکستان کے ساتھ غیرمشروط تعاون جاری رکھے گا۔ انھوں نے پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ مشکل ہو یا آسانی ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ترک صدر نے شہباز شریف سے بات چیت کے دوران کہا کہ پنجاب میں ترکی کے تعاون پر مبنی منصوبے پاک-ترک دوستی کی زندہ علامت ہیں اورآپ کی قیادت میں پنجاب کی تعمیر و ترقی کا سفر لائق تحسین ہے۔ انھوں نے کہا کہ توانائی کی فراہمی اوردہشت گردی کے سدباب کے لیے حکومت پاکستان کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ اردوگان نے اس موقع پر سابق وزیراعظم نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی صحت کے بارے میں دریافت کیا جو کینسر کے عارضے میں لندن میں زیر علاج ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے ترک صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے عوام کو ترکی کے ساتھ دوستی پر فخر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں ٹھوس تعاون نے دوستی کو نئی جہتوں سے آشنا کیا ہے اور آنے والا وقت پاک-ترک دوستی کے عروج کا ہو گا۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور ترکی نے ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے اور دونوں ملک آئندہ بھی ہر قسم کے حالات میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ انھوں نے کہا کہ پنجاب میں ترکی کے تعاون سے بننے والے منصوبوں نے عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے میں مدد دی ہے اور ترکی کی قیادت نے اپنے عمل سے عوامی خدمت کی منفرد مثال قائم کی ہے۔


 

کیا وزیرِاعظم مودی کے ہندوتوا نظریے کی مقبولیت ختم ہو رہی ہے؟

$
0
0

حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے بی جے پی کو خبردار کیا ہے کہ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں عوام کا رویہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ آر ایس ایس نے حال ہی میں ایک تین روزہ میٹنگ کا انعقاد کیا تھا جس میں پورے ملک سے سنگھ پریوار کی مختلف تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی تھی۔ پارٹی کے صدر امِت شاہ نے عوامی سطح پر کام کرنے والی ان تنظیموں کے نمائندوں کی رپورٹوں کا بہت گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آر ایس ایس نے پارٹی صدر کو بتایا ہے کہ اقتصادی سست روی، ملازمتیں ختم ہونے، نئے مواقع سمٹنے، بڑے نوٹوں پر پابندی لگانے کا منفی نتیجہ نکلنے اور کسانوں میں بڑھتی ہوئی بےچینی سے عام آدمی کا رویہ حکومت کے بارے میں بدل رہا ہے۔

وہ لوگ جو حکومت کے حامی ہیں اب ان پہلوؤں پر حکومت کی کارکردگی کے بارے میں سوالات کرنے لگے ہیں۔ نوٹوں پر پابندی کے فیصلے کو اس طرح مشتہر کیا گیا تھا جیسے اس قدم سے لاکھوں اور کروڑوں روپے کے کالے دھن حکومت کی گرفت میں آ جائیں گے اور حکومت کے بہت سے حامی یہ سمجھ رہے تھے کہ اس سے انھیں براہ راست فائدہ پہنچے گا مگر اب اس قدم کی ناکامی کے بعد انھیں لگ رہا ہے کہ حکومت نے انھیں دھوکہ دیا ہے۔ مودی حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے تین برس ہو چکے ہیں۔ ان تین برسوں میں ملک کی معیشت مسلسل نیچے گئی ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں معیشت تین برس میں سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی۔

آنے والی سہ ماہی میں اس شرح کے بھی نیچے جانے کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ ملک کی برآمدات گھٹتی جا رہی ہیں۔ صنعتی پیداوار بڑھ نہیں رہی۔ حکومت نئی ملازمتیں نہیں پیدا کر سکی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت کئی شعبے مشکلات میں ہیں۔ زرعی شعبہ بحران سے گزر رہا ہے۔ حکومت نے بینکوں میں جمع کی جانے والی رقوم پر شرح سود میں زبردست کمی کر دی ہے لیکن بینک سے لیے جانے والے قرضوں کی شرح سود توقع کے برعکس گھٹ نہیں سکی۔ لاکھوں مکان تیار پڑے ہیں اور ان کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ ملک کی کئی بڑی تعمیراتی کمپنیاں دیوالیہ ہو چکی ہیں۔

مودی حکومت نے ان گزرے ہوئے تین برسوں میں نعرے تو بہت دیے، لیکن عملی طور پر کسی بڑی تبدیلی کے لیے ابھی تک ایسا کوئی کام نہیں کیا جسے عام آدمی محسوس کر پاتا۔ مودی اور ان کی جماعت نے گزرے ہوئے برسوں میں اپنی حریف جماعتوں کو کرپٹ، نا اہل اور ملک دشمن تک قرار دیا۔ انھوں نے خود کو عوام کے سامنے ایک ایسے مسیحا کے طورپر پیش کیا جو ملک کے تمام مسائل کو یک لخت حل کر دے گا۔ انھوں نے عوام کی توقعات اتنی بڑھا دیں کہ وہ ان سے سیاسی معجزے کی امیدیں کرنے لگی۔ آئندہ پارلمیانی انتخابات میں اب محض دو برس باقی ہیں۔ مودی اور ان کے ساتھی امت شاہ آئندہ انتخابات کی تیاریوں میں لگ چکے ہیں۔

انڈیا کی سیاست میں ہندوتوا اس وقت اپنے عروج پر ہے اور اس کی وجہ ہے کہ گزرے ہوئے تین برسوں میں حکومت نے آر ایس ایس کے ہندوتوا کے نظریے پر عمل کیا۔ یہ نظریہ حکومت کا رہنما اصول بنتا جا رہا تھا۔ اسے ملک کے کئی حلقوں سے زبردست حمایت بھی مل رہی تھی۔ لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ نفرت اور مذہبی تنگ نظری کی سیاست سے ملکوں کی تقدیریں تباہ ہو سکتی ہیں، سنور نہیں سکتیں ۔عوام کا بھرم رفتہ رفتہ ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ مودی سیاست کے تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ انھوں نے اپنے پیروں کے نیچے کی زمین کی حرکت محسوس کر لی ہے۔ حال میں ان کے رویے میں غیر معولی تبدیلیاں نظر آئی ہیں۔ انھوں نے پچھلے دنوں برما کے دورے میں رنگون میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے مزار پر پھول چڑھائے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب وہ مغل بادشاہوں کو کو لٹیرے اور ظالم بتاتے تھے۔

جاپان کے وزیر اعظم جب احمدآباد آئے تو وہ انھیں 16 ويں صدی کی مسجد بھی دکھانے لے گئے۔ کشمیر میں جہاں ہر مسئلے کے حل کے لیے صرف طاقت کا استعمال ہو رہا تھا وہاں اب اچانک انسانیت اور مذاکرات کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ کابینہ میں نئے وزرا شامل کیے گئے ہیں اور کئی وزرا کے قلم دانوں کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے بعد اب کسانوں نے بی جے پی کے اقتدار والی دوسری ریاست راجستھان میں بھی مظاہرہ شروع کر دیا ہے۔ آئندہ چند دنوں میں آر ایس ایس سے وابستہ مزدور یونینیں اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والی ہیں۔

صنعتی گھرانوں کی ملیکت والا انڈین میڈیا اب بھی اپوزیشن مخالف اور مودی کا حامی ہے لیکن طویل عرصے تک یہ روش وزیر اعظم کی اپنی مقبولیت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مودی کی مقبولیت اب بھی کافی حد تک برقرار ہے لیکن صرف مودی کی مقبولیت آئندہ پارلیمانی انتحاب جیتنے کی ضامن نہیں ہو سکتی۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی انتہائی مقبولیت کے باوجود بی جے پی 2004 میں شکست فاش سے دو چار ہوئی تھی۔

شکیل اختر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی


 

لاہور، حلقہ این اے 120 کے تاریخی انتخابات ، تاریخ اور پس منظر

$
0
0

قومی اسمبلی کی نشست این اے 120 لاہور پر انتخابی نتیجے سے قطع نظر آج ہونے والا ضمنی انتخاب سیاسی تجزیہ کاروں اور عوام دونوں کے لئے انتہائی دلچسپی کا حامل ہے یہ نشست سابق وزیراعظم کو نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد 28؍ جولائی کو عدالتی فیصلے سے خالی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے نواز شریف خاندان کی تمام 9؍ نظرثانی درخواستیں 15؍ ستمبر کو مسترد کر دی گئیں۔ 1985ء سے لاہور کی یہ نشست نواز شریف اوران کے خاندان کے حو الے سے رویتی طور پر مسلم لیگ (ن) کا مضبوط گڑھ رہا ہے آج ہونے والے ضمنی انتخاب میں اس حلقے سے 44؍ امیدوار مدمقابل ہیں لیکن اصل مقابلہ معزول وزیراعظم کی اہلیہ کلثوم اور تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد کے درمیان ہو گا تاہم فیصل میر اور جماعت اسلامی کے ضیاء الدین انصاری بھی اس حلقے سے امیدوار ہیں۔
بیگم کلثوم نواز گزشتہ جولائی ہی میں 67؍ برس کی ہو گئیں جبکہ تحریک انصاف کی یاسمین راشد 23؍ ستمبر کواس عمر کو پہنچ جائیں گی۔

تاریخ میں پہلی بار الیکشن کمیشن نے اس حلقے کے 39 پولنگ اسٹیشنز پر بائیو میٹرک ویری فیکیشن کا اہتمام کیا ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں اس حلقے سے ووٹنگ کا تناسب 52؍ فیصد رہا جہاں نواز شریف کے حاصل کردہ 91683 کے مقابلے میں یاسمین راشد نے 35فیصد یعنی 52354 ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس وقت پیپلزپارٹی کے امیدوار زبیر کاردار کو صرف 2605 ووٹ ملے تھے۔ 2013ء میں پی پی۔ 140 سے مسلم لیگ (ن) کے ماجد ظہور نے یہ صوبائی نشست جیتی لیکن یہ حلقہ جو این اے 120؍ میں شامل ہے نواز شریف کو یہاں صرف دس ہزار ووٹوں کی برتری ملی جبکہ اسی میں شامل ایک اور صوبائی حلقہ پی پی 139۔ جہاں سے کلثوم نواز کے بھتیجے بلال یاسین جیتے تھے وہاں نواز شریف کو 30؍ ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری ملی تھی۔

یاد رہےکہ ماجد ظہور حمزہ شہباز کے قریبی حلقے میں شامل شمار ہوتے ہیں۔ قبل ازیں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں نواز شریف نے اس علاقے سے قومی و صوبائی اسمبلی دونوں کی نشستیں جیتیں اور صوبائی نشست برقرار رکھی۔ ان انتخابات کا پیپلزپارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا۔ نواز شریف پھر 9؍ اپریل 1985ء کو پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ 1990ءکے عام انتخابات میں نواز شریف نے پیپلزپارٹی اور تحریک استقلال کے مشترکہ امیدوار ایئر مارشل (ر) اصغر خان، 1993ء میں پیپلزپارٹی کے ضیاء بخت بٹ اور جماعت اسلامی کے حافظ سلمان بٹ اور 1997ء میں پیپلزپارٹی کے حافظ غلام محی الدین کو این اے 120 لاہور سے شکست دی۔ 2002ء اور 2008ء کو جلا وطنی اور عدالتوں سے سزائوں کے باعث نواز شریف نے انتخاب نہیں لڑا۔

 بشکریہ روزنامہ جنگ


 

کیا پھر ٓآئی ایم ایف کی طرف جا رہے ہیں؟

$
0
0

سپریم کورٹ آف پاکستان نے 15 ستمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، مریم نواز شریف اور دیگر افراد کی 28 جولائی کے فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ اس فیصلے کے بعد اب سارا معاملہ نیب کے پاس چلا گیا ہے۔ وہاں شریف فیملی کے ساتھ کیا ہوتا اور کیا کچھ نہیں ہوتا۔ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ یہی نظر آرہا ہے کہ شریف فیملی کی مشکلات بڑھ سکتی ہے جس کی زد میں حدیبیہ پیپر ملز کیس ری اوپن ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ شہباز شریف وغیرہ بھی آسکتے ہیں۔

اس طرح آنے والے چند ہفتے شریف خاندان کے لئے شاید اچھے نہ ہوں، اسی صورتحال میں ملکی معیشت کا آئندہ نقشہ کیا ہو گا، اس بارے میں ملکی و غیر ملکی ماہرین سوچ بچار کر رہے ہیں، تاہم ان کوخدشہ ہے کہ اگر ملک میں سیاسی حالات دن بدن خراب ہوتے گئے تو اس سے یقینی طور پر معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جس سے اقتصادی پالیسیوں پر عملدرآمد کی رفتار بھی سست روی کا شکار ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ا یک رائے یہ بھی ہے کہ اس صورتحال میں عدلیہ کے فیصلوں سے دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بھی بہتر ہو گا کہ پاکستان کا عدالتی نظام موثر انداز میں کام کر رہا ہے اور یہاں’’انصاف‘‘ کا ایشو متنازع نہیں ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ جس ملک میں انصاف پر مبنی فیصلوں کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ اس سےملکی امیج کی بیلنس شیٹ بہتر نظر آنا شروع ہو جاتی ہے جس سے ملکی سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کار گروپ زیادہ مطمئن نظر آتے ہیں۔

اس لئے عدالتی فیصلوں پر سیاست کی بجائے آئین اور قانون کی بالا دستی ہر لحاظ سے ملکی مفاد میں پہلی ترجیح ہونی چاہئے، اگر خدا خدا کر کے یہ سلسلہ عدالت عالیہ میں شروع ہوا ہے تو اس کا دائرہ کار وسیع ہونا چاہئے تا کہ پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد میں حائل دشواریاں ختم ہو سکیں۔ اس سلسلہ میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز، اوررسیز پاکستانیز چیمبرز اور ملکی و غیر ملکی اداروں کے سربراہوں کی مشترکہ کانفرنس وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی طلب کریں جس میں سرمایہ کاروں کے خدشات دور کرنے کے لئے انہیں ایسی یقین دہانی کرائیں جس سے موجودہ بدگمانی کی صورتحال اور خدشات کا ماحول دور کرنے میں مدد مل سکے۔

وزیر اعظم کے لئے ایسا کرنا ازحد ضروری ہے اس لئے کہ آنے والے دنوں میں عالمی بنک، آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کا دبائو پاکستان پر بڑھنے والا ہے۔ اس لئے کہ ہماری برآمدات میں دن بدن کمی کے برعکس درآمدات میں اضافہ ہر لحاظ سے تشویشناک ہے جس سے ایک طرف تجارتی خسارے کا مسلسل بڑھنا اور دوسری طرف ادائیگیوں کا توازن بگڑنے سے معیشت ایک ایسے دبائو میں آنے والی ہے جس سے ہو سکتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں حکومت کو دوبارہ چار پانچ ارب ڈالر کے نئے قرضہ یا سپورٹ کے لئے رجوع کرنا پڑے۔ اس صورتحال میں اگر ملک میں غیر یقینی صورتحال برقرار رہی تو اس سے عالمی سطح پر ہمارے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ 

موجودہ حالات تقاضا کررہے ہیں کہ مفاہمت اور رواداری کی فضا کو بحال کرنے کیلئے تمام سیاسی قائدین مل بیٹھ کر مشاورت کریں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ اور سیاسی قائدین اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ورنہ جمہوریت کا سفر ڈی ٹریک ہوتا ہے تو ان کے پاس اپنے دفاع میں کچھ نہیں باقی بچے گا، پھر الیکشن نہیں، احتساب کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔

سکندر حمید لودھی
 

اندرونی کھیل، بیرونی سازشیں اور بیچارہ پاکستان

$
0
0

پاکستان کے خلاف بین القوامی سازشوں کا جال بچھانے والے ایک بار پھر سرگرم ہو چکے۔ ایک طرف امریکا کی طرف سے پاکستان کے متعلق جو پالیسی فیصلے کیے جا رہے ہیں وہ کھلے عام ہمارے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے اشارے دے رہے ہیں تو دوسری طرف برطانیہ اور یورپ خصوصاً سویزرلینڈ میں پاکستان کے خلاف بلوچستان کے معاملہ پر بھارتی پروپیگنڈے کو ہوا دی جا رہی ہے اور اس پروپیگنڈہ میں ہمارے ہی کچھ ’’میر صادق‘‘ اور ’’میر جعفر‘‘ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان جو پہلے ہی اپنے نیو کلیئر پروگرام کی وجہ سے اسلام دشمن قوتوں کا کافی عرصہ سے نشانہ بنا ہوا ہے، کو اب سی پیک (چائینا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ) کی وجہ سے امریکا، بھارت سمیت بہت سوں کی دشمنی کا سامنا ہے۔

ان حالات میں اگر پاکستان کے اندر کی تقسیم کو بڑھایا جاتا ہے تو پھر شعوری یا غیر شعوری طور پر ہم بھی وہی کام کر رہے ہوں گے جو ہمارے دشمن کے فائدہ میں ہے اور پاکستان کے خلاف۔ آج کی اخبارات میں برطانوی میڈیا کی خبر پڑھی کہ امریکا پاکستان مخالف سخت اقدامات کی تیاریاں کر رہا ہے۔ ان اقدامات میں پاکستان کا غیر نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کر کے دہشتگردی کا پشت پناہ ملک قرار دیئے جانے کے امکان شامل ہیں جس کے نتیجہ میں پاکستان کی نہ صرف امداد میں کمی کرنے بلکہ یکطرفہ ڈرون حملوں کے علاوہ پاکستانی حکام پر پابندیوں کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔ خبرکے مطابق ان پاک مخالف امریکی اقدامات سے پاکستان کو ہتھیاروں کی فروخت کی پابندی کے ساتھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرضوں کے حصول میں بھی مشکلات ہوں گی۔ 

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے خلاف ان بین القوامی سازشوں کا زور ایک ایسے وقت میں بڑھ رہا ہے جب ہم اندرونی طور پر بُری طرح سے سیاسی اختلافات کے باعث تقسیم کا شکار ہیں۔ یہ بات بھی قابل افسوس ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کا متنازعہ فیصلہ بھی ابھی سامنے آیا۔ وٹس ایپ کال سے جے آئی ٹی سے متعلقہ تنازعات تک اور پھر نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کی نوعیت اور حدیبیہ کیس میں نیب پر اپیل درج کرنے کے لیے دبائو تک کے معاملات نے کئی سیاسی و قانونی سوالات کھڑے کیے اور سازشی تھیوریوں کو ہوا دی۔ ن لیگ کے علاوہ کچھ دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنما بشمول پی پی پی کے رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر تک اداروں کے درمیان کشمکش کے بارے میں کھلے عام بات کر رہے ہیں۔ 

ان سیاسی و قانونی معاملات میں ایک طرف اگر ن لیگ بلخصوص اور سیاستدانوں کو بلعموم یہ احتیاط ضرور برتنی چاہیے کہ اداروں کے درمیان تنائو کو خطرناک لڑائی میں نہ بدلا جائے بلکہ اس تنائو کو کم کیا جائے (جس کی تجویز رضا ربانی دے چکے)، تو دوسری طرف نہ صرف عدلیہ کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ جو انصاف کر رہی ہے وہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آ ئے اور اُس میں کسی ذاتی عناد اور سازش کی بو شامل نہ ہو بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اُس کا کوئی فرد ان سیاسی و عدالتی معاملات میں کسی بھی طور شریک نہ ہو۔ ہم سب کی بہتری اسی میں ہے کہ ہر کوئی اپنا اپنا کام کرے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئین کی پاسداری کے لیے ہر ادارہ اپنی مقرر آئینی حد کے اندر رہ کر کام کرے۔

اگر ہمارے ادارے ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے رہے تا کہ ایک مضبوط اور دوسرا کمزور ہو تو اس کھیل میں کمزور صرف اور صرف پاکستان ہی ہو گا۔ ایک بات حالیہ ہفتوں میں اچھی رہی کہ میاں نواز شریف کی وزیر اعظم آفس سے رخصتی کے بعد موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے فوج و سول کے درمیان سیکیورٹی معاملات اور اہم خارجہ امور پر کھلی بحث و مباحثہ کے لیے بار بار کابینہ کی سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگز بلائیں اور ایک متفقہ لائحہ عمل طے کیا۔ امریکا، افغانستان، بھارت سے متعلقہ معاملات پر اب یہ بات کی جا رہی ہے کہ سول و فوج ایک صفحہ پر ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے۔ ایسے حالات میں اور ان نازک امور پر وزیروں کو اپنے بیانات میں احتیاط برتنی چاہیے۔ خصوصاً وزیر خارجہ کو بہت سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے۔ 

خواجہ آصف کا ایک حالیہ بیان کہ ہمیں پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہے نے پاکستان کے علاوہ بیرون ملک اخباروں میں شے سرخیوں میں جگہ لی۔ مجھے نہیں معلوم کہ خواجہ صاحب کے کہنے کا مقصد کیا تھا اور اشارہ کس طرف تھا لیکن اُن کی بات کو پاکستان مخالف بھارتی و امریکی بیانیہ کی تصدیق کے طور پر بھی لیا گیا اور اس بات کا اظہار چوہدری نثار علی خان نے بھی کیا۔ چوہدری صاحب کو ہو سکتا ہے کہ خواجہ آصف پر اپنا پرانا غصہ بھی ہو یا میاں نواز شریف کی ناراضی کی وجہ لیکن میں بھی سمجھتا ہوں کہ خواجہ صاحب کو بحیثیت وزیر خارجہ بولنے میں اب احتیاط کرنی چاہیے اور ایسی بات نہ کریں جو غیر اپنے مقصد کے لیے استعمال کریں۔ پاکستانیوں کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ کم بولیں اور جب بولیں تواتنا بولیں جتنے کی ضرورت ہو۔ 

جہاں تک آئی ایس آئی کا تعلق ہے تو اس ادارہ کے سیاسی معاملات میں مداخلت کو روکنے کے لیے بات ہونی چاہیے اور اسے روکا بھی جانا چاہیے لیکن اپنی تنقید میں ہمیں اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ آئی ایس آئی پاکستان کے دفاع کا دستہ اول (First line of defence) ہے اس لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم آئی ایس آئی اور فوج کے بارے میں بھارت اور امریکا کی زبان بولنے لگیں۔ یہاں فوج اور آئی ایس آئی کو بھی اس بات کی بھی نگرانی کرنی چاہیے کہ کہیں اُن کے افسران ٹیوٹر، فیس بک ، سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے حکومت اور کسی خاص سیاستدان یا سیاسی پارٹی کے خلاف پروپیگنڈہ تو نہیں کر رہے۔ اس کھیل سے دفاعی اداروں کو اپنے آپ کو دور ہی رکھنا چاہیے۔

انصار عباسی
 

پاکستان معیشت : ہم ڈیفالٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں؟

$
0
0

بقول ساغرصدیقی ....
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں توکیا تماشا ہو

آج سیاست سے پاک کالم آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ حقائق جان کر بخوبی اندازہ لگا سکیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور آنیوالے دنوں میں جب موجودہ حکومت نہیں ہو گی تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ قارئین کو یاد ہو گا کہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی اور نئی حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے خزانہ خالی ہونے کا شور مچا کر آئی ایم ایف سے رجوع کیا تو عوام میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی ، قرضے ملے ، اتنے ملے کہ پاکستان کازر مبادلہ 23 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہونے کی نوید سنا دی گئی، مجھ سمیت پاکستانی عوام خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھی کہ اچانک آئی ایم ایف نے ڈنڈا دکھایا اور ہمیں بہت سے نئے ٹیکس لگانا پڑے اور مہنگائی میں یکدم اضافہ ہوتا دکھائی دیا تو عوام کی چیخیں نکل گئیں ، کیونکہ جب انسان قرضہ لیتا ہے تو وہ قرضے کی رقم کا بے دریغ استعمال کرتا ہے مگر جب اُس کے چکانے کی باری آتی ہے تو پھر وہ آئیں بائیں شائیں سے کام لیتا ہے، اور یہی دور اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ 

موجودہ حکومت نے اندرونی و بیرونی اداروں سے بے تحاشہ قرضے لیے، کہاں خرچ ہوئے یہ الگ بحث ہے، مگر اس قدر قرضوں کی وجہ سے پاکستان کی معاشی حالت ابتر سے ابتر ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی ادارو ں کو مداخلت کر کے حکومت کو جھنجوڑنا پڑا ، جس پر آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی اداروں نے پاکستان پر دباﺅ ڈالا کہ ڈالر اِس وقت 116 روپے فی ڈالر یا اس سے بھی کچھ زیادہ کا ہونا چاہیے تاکہ مہنگائی میں اضافہ ہو اور حکومت زیادہ سے زیادہ پیسے اکٹھے کر کے مالیاتی اداروں کو واپس کرے۔ ویسے بھی آپ ان مالیاتی اداروں کی ویب سائیٹس چیک کر لیں جہاں پاکستان کے حوالے سے رپورٹیں پڑی ہوئی ہیں جن کے مطابق پاکستان آئندہ سال 2018 کی پہلی سہ ماہی میں 11 ارب ڈالر ادا کرنے کا پابند ہے۔ اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ بجٹ 2017-18 میں ملکی و غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے 14 سو ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

اس قدر زیادہ رقم چکا نے کے لیے آپ کو مزید قرضے لینے پڑیں گے، اور قرض لینے کے لیے ہم پہلے ہی ملک کے منافع بخش اداروں کو‘ جن میں ائیرپورٹس ، پورٹس اور موٹروے شامل ہیں‘ ہم پہلے ہی گروی رکھوا چکے ہیں اور پھر جب یہ کہا جا تا ہے کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب 45 کروڑ ڈالر تک کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ ان ذخائر کے اضافے کا قصہ جو سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اسلام آباد میں گزشتہ سال ایک سیمینار کے دوران بیان کیا ذرا سن لیجئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا موجودہ بیرونی قرضہ 2018-19 تک بڑھ کر 90 ارب ڈالر ہو جائے گا۔ حکومت کو ہر سال 20 ارب ڈالر بطور سود کی قسط ادا کرنا ہونگے۔ یعنی آنے والے تین برس میں یہ اضافہ 38% ہو گا۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ مقتدر طبقے اس معاشی صورتحال سے بے خبر اپنے تجوریاں بھرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ گردن تک قرضوں میں ڈوبے ملک کا سیاسی ڈھانچے یہاں کی اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ بس اشرافیہ کا ایک چھوٹا سا طبقہ ملک میں لوٹ مار پر لگا ہوا ہے۔ معاشی بہتری کی تمام تر پالیساں صرف انہی کے مفادات کی غماز ہیں۔

عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ایسے ایسے حربے استعمال کیے جارہے ہیں کہ خدا کی پناہ .... کہا جاتا ہے کہ 2047ء یعنی پاکستان کے بننے کے 100 سال بعد پاکستان دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل ہو جائے گا، عقل کے اندھوں کا یہ بیان سمجھ سے بالاتر ہے، جبکہ محترم وزیراعظم صاحب، جناب وزیر خزانہ ، حکومتی وزراء اورحکومتی ادارے کافی عرصے سے اس قسم کے ہی بیانات جاری کر رہے ہیں کہ پاکستان دنیا کا تیز رفتار ترقی کرنے والا ملک بن چکا ہے، کبھی سالانہ شرح نمو بڑھنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں ، کبھی پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت دکھا یا جا رہا ہے۔

کبھی یہ کہا جا رہا ہے کہ 2025 میں پاکستان دنیا کا سولہواں بڑا مستحکم ملک بن جائے گا، کبھی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں ، کبھی پاکستان اسٹاک ایکسچینج کوایشیاء کی بہترین اسٹاک ایکسچینج قرار دیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ خیر آگے بڑھنے کی آس رکھنا، خوش گمانی کرنا یا ترقی کی امید رکھنا کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ یہ مثبت اور تعمیری سوچ کی عکاسی کرتا ہے مگرخوش فہم ہونا، خیالی پلاﺅ پکانا یا ہوا میں محل بنانا کوئی تعمیری یا ترقی پسندانہ رویہ نہیں ہوتا بلکہ حقیقی و زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر اپنی منصوبہ بندیا ں کرنے اور عملی جدوجہد سے ہی تعمیر و ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنایا جا سکتا ہے۔

یہاں کہ حالات تو یہ ہیں کہ جب من پسند اور میرٹ کے خلاف لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے تو وہ رخصت ہوتے ہوئے ادارے کی ہر چیز کو اپنی ملکیت سمجھ لیتے ہیں، جیسے گزشتہ دنوں حکومت نے سینیٹ میں اعتراف کیا ہے کہ پی آئی اے کا طیارہ سابق ایم ڈی اپنے ساتھ جرمنی لے گیا اور معلوم نہیں اس معاملے پر انکوائری کا کیا ہوا، اس سے پہلے موصوف ایم ڈی ایک عدد طیارہ اونے پونے داموں میں بیچ چکے تھے۔ جس کا آج تک کسی نے حساب نہیں مانگا ۔ بہرکیف پاکستان کی معیشت کو آسرا دینے کے لیے کوئی” وائٹل فورس“ یعنی خدائی طاقت ہی درکار ہو گی ورنہ آئی ایم ایف کے پلان کے مطابق اگلے سال مارچ میں جب پاکستان مالیاتی اداروں کو ادائیگی کر چکا ہو گا، اور ملکی زر مبادلہ 14ارب ڈالر کے ارد گرد چکر لگا رہا ہو گا تو اس کے قوم کو اثرات مارچ میں نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔

 جب ڈالر 130 روپے کا ہو جائے گا، اُس قت ملک کی اکا نومی کو کون سنبھالے گا، پھر میاں نواز شریف سے کون پوچھے گا کہ” مجھے کیوں نکالا“. پھر عوام ان حکمرانوں سے پوچھیں گے کہ کیا ہم ڈیفالٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ اس کا جواب کون دے گا۔ کیا اس کی سزا نئی آنے والی حکومت کو دیں گے؟ کیا اس کی ذمہ دار بھی فوج ہے؟ کیونکہ 2002ء سے تو یہی سیاستدان اقتدار میں ہیں؟ آج ملک میں 80 فیصد سے زائد ادارے چل نہیں رہے اور جو 20 فیصد ادارے رہ گئے ہیں وہ گروی رکھے جا رہے ہیں، اور اگر موٹروے پیسے کما رہی ہے تو اسے گروی رکھ دیا گیا ہے۔

کیا اس سب کی ذمہ داری بھی فوج پر عائد ہوتی ہے؟ اور پاکستان کی تاریخ کا وہ کیسا دن ہو گا جب ہمارا وزیر خزانہ منی لانڈرنگ کے کیس میں پیش ہو گا، اس کے بعد سوئس حکومت کیا کرے گی؟ عالمی دنیا میں ہمارا تاثر کیا ہو گا ؟ حبیب بینک نیویارک برانچ میں جو کچھ ہوا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ وہ واقعات ہیں جو عالم سطح پر پاکستان کی بدنامی کے ذمہ دار ہیں، ان کی وجہ سے تباہی کی داستان کو بیان کر رہا ہے۔ آج بھی ملک کی% 90 سے زیادہ معیشت کالے دھن پر کھڑی ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے اٹھائے گئے اقدامات سے اب تک کوئی خاطر خواہ وصولی ہوئی ہے اور نہ ہی کرپشن محکموں کے اندر سے ختم ہوئی ہے۔ البتہ کرپشن سے پاک معاشرے کے قیام کا شور و واویلا ضرور مچایا جا رہا ہے۔ سیاستدانوں کے درمیان بھی احتساب کے اس عمل پر اختلافات موجود ہیں۔ حکومت حال ہی میں اربوں روپے کے نئے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے ایک دفعہ پھر ٹیکسوں کا یہ بوجھ بالواسطہ طور پر عوام پر ڈال دیا جائے گا۔

بڑے سرمایہ دار اور تاجر اس سے بچ جائیں گے۔ ویسے بھی اس مالی سال میں حکومت کی ٹیکس وصولی مقرر کردہ ہدف سے کہیں کم ہے جو اس بات کی غماز ہے کہ حکومت اور ٹیکس چور اشرافیہ ، بڑے سرمایہ داروں اور تاجروں کے درمیان اعتماد کی فضا نہیں ہے۔ حکومت مجبور ہو کر اس سال بھی ٹیکس ایمنیسٹی کا اعلان کرنے جاری رہی ہے۔ جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ریاست نے اشرافیہ ، بڑے تاجروں اور سرمایہ داروں کے آگے ہمیشہ کی طرح گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ آج حالات یہ ہیں کہ ریمیٹنس آ نہیں رہی، بیرون ملک خصوصاََ عرب ممالک سے پاکستانیوں کو نکال کر برما، بنگلہ دیش اور بھارت سے سستی لیبر رکھی جا رہی ہے۔ امپورٹ کا بل دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، جبکہ برآمدات کا بل دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا ان چیزوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جب موجودہ حکومت ختم ہو گی اور نگران سیٹ اپ آئے گا تو اس کے بعد ملک ڈیفالٹ کی طرف بڑھ جائے گا۔

میرے خیال میں یہ وقت قوم کو اعتماد میں لینے اور سچ بتانے کا ہے، اور یہ بتانے کا وقت ہے کہ ہم واقعی ڈیفالٹ کی طرف جا رہے ہیں، یہ بات قوم کو اگر سچ بتا دی جائے تو ہم آنے والے کڑے وقت کے لیے اپنے آپ کو تیار کر سکتے ہیں اور آئندہ کے لیے ضروری اقدامات کر سکتے ہیں۔ اگر آج بھی ہم نے جھوٹ بولا تو پانی سر سے گزرتے ہوئے دیر نہیں لگے گی۔

محمد اکرم چوہدری
 

بنگلہ دیش میں ہزاروں افراد کی روہنگیا مسلمانوں کے حق میں ریلی

$
0
0

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں کم سے کم بیس ہزار افراد نے پڑوسی ملک میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر سکیورٹی فورسز کے مظالم کے خلاف ریلی نکالی ہے۔ مظاہرین سوموار کو بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مسجد کے باہر جمع ہوئے اور پھر انھوں نے میانمار کے سفارت خانے تک احتجاجی مارچ کیا ہے۔
جمعہ کو بھی میانمار کے خلاف مظاہرہ کیا تھا اور انھوں نے بنگلہ دیشی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھے اور میانمار کے خلاف جنگ کا اعلان کرے۔

آج کی ریلی کا اہتمام حفاظتِ اسلامی گروپ نے کیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ اس کے ہزاروں کارکنان میانمار کے سفارت خانے کا گھیراؤ کریں گے لیکن ڈھاکا میں کسی بھی ناخوش گوار واقعے سے نمٹنے کے لیے پولیس کی اضافی نفری تعینات تھی اور انھوں نے مظاہرے کے شرکاء کو سفارت خانے کی عمارت کی جانب جانے سے روک دیا۔ ڈھاکا میٹرو پولیٹن پولیس کے ڈپٹی کمشنر انو ر حسین نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ احتجاجی مظاہرے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے۔ پہلے کشیدگی پائی جا رہی تھی لیکن بعد میں مظاہرین آہستہ آہستہ پُر امن طور پر منتشر ہو گئے ہیں۔ حفاظت اسلامی کے عہدہ داروں نے احتجاجی ریلی کے شرکاء کی تعداد کہیں زیادہ بیان کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس جماعت کے ملک بھر سے تعلق رکھنے والے حامیوں اور کارکنان نے اس ریلی میں شرکت کی ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کی مغربی ریاست راکھین میں 25 اگست سے نئی تشدد آمیز کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ اقوام متحدہ کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق اب تک چار لاکھ دس ہزار کے لگ بھگ روہنگیا مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر بنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں کی جانب ہجرت کر گئے ہیں اور وہاں کسمپرسی کی حالت میں مہاجر کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ راکھین میں آباد روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش کے علاقے چٹاگانگ میں آباد لوگوں سے تاریخی اور لسانی مراسم و روابط استوار ہیں۔

ان کی زبان اور ثقافت کم و بیش ایک ایسی ہے۔ اس لیے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف برما کی سکیورٹی فورسز کے مظالم اور انتہا پسند بدھ متوں کے حملوں کے بعد بنگلہ دیش میں شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ میانمار سے سرحد عبور کرکے آنے والے مسلمان مہاجرین سکیورٹی فورسز اور بدھ مت جتھوں کے حملوں کی خوف ناک اور دل دوز کہا نیاں بیان کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں حال ہی میں نئے مہاجرین کی آمد سے قبل تین لاکھ کے لگ بھگ روہنگیا مسلمان مہاجر کیمپوں میں رہ رہے تھے۔

 


حادثاتی طور پر شروع ہونے والی ’جوہری جنگ رکوانے والا‘ روسی ہیرو چل بسا

$
0
0

سرد جنگ کے عروج پر اپنی حاضر دماغی سے امریکہ اور روس کے درمیان جوہری جنگ شروع ہونے سے روکنے والے، سویت یونین کے سابق فوجی افسر سٹانسلاو پیٹروف 77 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ خبروں کے مطابق سٹانسلاو پیٹروف مئی میں انتقال کر گئے تھے لیکن اس بات کو عوام کے سامنے ابھی لایا گیا ہے۔ سویت یونین کے سٹانسلاو پیٹروف سنہ 1983 میں روس کی ایک جوہری تنصیب پر متعین تھے جب وہاں پر کمپیوٹر نے الارم پر وارننگ دی کہ امریکہ نے روس کی جانب میزائل داغے ہیں۔ سٹانسلاو پیٹروف نے اندازہ لگایا کہ یہ الارم غلطی سے بجے ہیں اور انھوں نے اپنے حکام تک یہ بات نہیں پہنچائی۔
سٹانسلاو پیٹروف کا یہ عمل سالوں بعد منظر عام پر سامنے آیا جس سے یہ پتہ چلا کہ ان کہ اس فعل سے ایک ممکنہ جوہری جنگ چھڑنے سے بچ گئی۔
سال 2013 میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سٹانسلاو پیٹروف نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ 26 ستمبر 1983 کی صبح وہ دفتر میں کام کر رہے تھے جب انھیں کمپیوٹر سے سگنل ملے جن سے بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ امریکہ نے میزائل داغے ہیں۔ 'میرے پاس وہ تمام معلومات تھیں جن سے یقینی طور پر یہ ظاہر ہوتا تھا کہ میزائل حملہ ہوا ہے۔ اگر میں ان کو اپنے حکام تک پہنچا دیتا تو کوئی مجھے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ مجھے صرف اپنا فون اٹھانے کی دیر تھی تاکہ میں اپنے کمانڈروں سے بات کر سکوں لیکن میں اپنی جگہ سے ہل نہیں سکا۔' اپنی فوجی تربیت کے برعکس، سٹانسلاو پیٹروف نے اعلی فوجی حکام کے بجائے آرمی ہیڈ کوارٹر میں اس وقت موجود ڈیوٹی افسر کو فون کر کے مطلع کیا کہ ان کے سسٹم میں کچھ خرابی ہے۔ اگر سٹانسلاو پیٹروف غلط ثابت ہوتے، تو چند منٹوں کے بعد جوہری دھماکہ ہو چکے ہوتے۔

'فون کرنے کے 23 منٹ بعد بھی کچھ نہیں ہوا تو میرے اوسان بحال ہوئے۔ اگر اس اثنا میں کوئی حملہ ہو چکا ہوتا تو ہمیں خبر مل چکی ہوتی۔' بعد میں ہونے والی تفتیش سے معلوم ہوا کہ روسی سیٹیلائٹ نے بادلوں پر منعکس ہوتی ہوئی سورج کی شعاؤں کو جوہری میزائل سمجھ لیا تھا۔ کرنل کے عہدے پر ریٹائر ہونے والے سٹانسلاو پیٹروف کی وفات 19 مئی کو ہوئی لیکن اس بارے میں خبر اتفاقیہ طور پر صرف ستمبر میں منظر عام پر سامنے آئی۔ سٹانسلاو پیٹروف کی کہانی کو سب سے پہلے دنیا کے سامنے پیش کرنے والے جرمنی کے فلم ساز کارل شوماکر نے اس ماہ کے اوائل میں انھیں سالگرہ کی مبارک باد دینے کے لیے فون کیا تھا تو سٹانسلاو پیٹروف کے بیٹے دمتری پیٹروف نے بتایا کہ ان کے والد کی وفات ہو چکی ہے۔ کارل شوماکر نے اس خبر کا اعلان سوشل میڈیا پر کیا جس کے بعد بین الاقوامی میڈیا نے اس خبر کو رپورٹ کیا۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

دنیا میں چار کروڑ افراد غلام : جمہوریت کا علمبردار بھارت انسانوں کو غلام بنانے میں سرفہرست

$
0
0

اکیسویں صدی کا 16 سال سے زائد کاعرصہ بیت گیا، لیکن اب تک دور جہالت کی یادگار ’آقا اور غلام ‘ کا نظام موجود ہے، دنیا بھر میں ساڑھے 4 کروڑ سے زائد افراد تاحال غلامی کے حالات سے دوچار ہیں۔ جرمن خبررساں ادارے کے مطابق انسداد غلامی کے لئے کام کرنے والے گروپوں کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق غلامی کے حالات میں مبتلا افراد میں جبری مشقت کے شکار افراد اور زبردستی کی شادیاں شامل ہیں۔ ماڈرن سلیوری انڈکس کے اعداد و شمار کے مطابق جدید دور میں غلام رکھنے والے 10 ممالک میں بھارت سرفہرست ہے، جہاں 1 کروڑ 80 لاکھ 40 ہزار سے زائد افراد غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔

فہرست میں چین 33 لاکھ 90 ہزارکے ساتھ دوسرے، پاکستان 21 لاکھ 30ہزارکے ساتھ تیسرے، بنگلادیش 15 لاکھ 30 ہزار، غلام رکھنے میں چوتھے نمبر پر ہے۔
درجہ بندی میں پانچویں نمبر ازبکستان کا ہے، جہاں 12 لاکھ 40 ہزار، چھٹے نمبر پر شمالی کوریا ہے، جس میں 11 لاکھ، ساتویں نمبر پر روس ہے، جہاں 10 لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد تاحال غلامی کی زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ میں نائیجریا آٹھواں نمبر پر ہے، جس کے 8 لاکھ 75 ہزار 500، نویں نمبر پر موجود کانگو میں 8 لاکھ 73ہزار 100 اور دسویں نمبر پر انڈونیشیا ہے، جہاں پر7 لاکھ 36 ہزار 100 غلاموں سی زندگی گزار رہے ہیں۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن، انسانی حقوق کے گروپ واک فری فائونڈیشن اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2016ء کے دوران مجموعی طور پر 45 ملین ( ساڑھے4 کروڑ ) افراد جدید غلامی کے چکر میں پھنسے ہوئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ان میں 24 اعشاریہ 9 ملین افراد جبری مشقت جبکہ 15 اعشاریہ 4 افراد ایسی شادیوں کے بندھن میں بندھے ہوئے تھے جو ان کی مرضی کے خلاف ہوئی۔ رپورٹ کے اعدادو شمار کے مطابق افریقہ میں ایک ہزار میں سے 7 اعشاریہ 6 افراد، براعظم امریکا میں ہر ہزار میں 2 افراد، عرب ممالک میں ایک ہزار میں سے 3 اعشاریہ 3 افراد ،ایشیا میں ہر ہزار میں 6 افراد اور یورپ و وسطی ایشیا میں ہزار میں سے 4 افراد غلام ہیں۔

عاقب علی
 

مردم شماری کے نتائج متنازع نہ بنائیں

$
0
0

پاکستان میں 19 سال بعد مردم شماری کرانے اور گزشتہ دنوں نتائج سامنے آنے کے بعد اِسے متنازع قرار دینے کا سلسلہ بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان کے آئین کے تحت حکومت ہر 10 سال بعد مردم شماری کرانے کی پابند ہے مگر گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف حکومتیں کسی نہ کسی بہانے مردم شماری کرانے کے معاملے میں تاخیری حربے اختیار کرتی رہیں تاہم کچھ ماہ قبل سپریم کورٹ کی مداخلت اور واضح احکامات کے بعد حکومت نے مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا جبکہ مردم شماری کو تنازعات سے بچانے کیلئے پاک فوج کی مدد لی گئی جس کے ایک لاکھ سے زائد جوانوں نے انتہائی محنت اور لگن سے اس کٹھن مرحلے کو اختتام تک پہنچایا لیکن مردم شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتوں نے اِسے ماننے سے انکار کر دیا اور مردم شماری پر نہ ختم ہونے والی تنقید کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ پیپلزپارٹی نے مردم شماری کے نتائج یکسر مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ’’سندھ کی آبادی کم ظاہر کرنا وفاق کی سازش ہے جس کا مقصد مالیاتی ایوارڈ میں سندھ کا حصہ کم کرنا ہے۔‘‘ کچھ اِسی طرح کے اعتراضات ایم کیو ایم پاکستان اور ملک کی دیگر بڑی جماعتوں کی طرف سے بھی سامنے آئے ہیں۔

حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جس میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور مہاجر کیمپوں میں مقیم افغان پناہ گزین شامل نہیں تاہم پاکستان میں رہائش پذیر بنگالیوں اور دیگر قومیت کے افراد کو ملک کی مجموعی آبادی میں شمار کیا گیا ہے۔ مردم شماری میں پنجاب کی آبادی ملک کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ 11 کروڑ، دوسرے نمبر پر سندھ 4.8 کروڑ، تیسرے نمبر پر خیبر پختونخوا 3.5 کروڑ اور چوتھے نمبر پر بلوچستان کی آبادی 1.2 کروڑ بتائی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب اور سندھ میں آبادی کی شرح میں کمی جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں آبادی کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں اس سے قبل 1998ء میں آخری بار مردم شماری کرائی گئی تھی جس کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی اور اگر حالیہ مردم شماری سے اس کا موازنہ کیا جائے تو 19 سالوں میں پاکستان کی آبادی میں تقریباً 57 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

مردم شماری سے قبل عام تاثر یہ تھا کہ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے لیکن مردم شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد یہ اندازہ غلط ثابت ہوا اور اس طرح کچھ سیاسی جماعتوں کو مردم شماری کا سارا عمل مشکوک ٹھہرانے کا موقع مل گیا۔ حالیہ مردم شماری میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان تیزی سے Urbanization کی طرف بڑھ رہا ہے، ملک کی 36 فیصد آبادی شہروں میں مقیم ہے جبکہ 1998ء میں یہ شرح 32.5 فیصد تھی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دیہی علاقوں کے لوگ روزگار اور دیگر سہولتیں میسر آنے کے باعث تیزی سے بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں اور اس وجہ سے نہ صرف شہروں پر آبادی کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے بلکہ مستقبل میں شہروں میں بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اور سماجی و معاشرتی مسائل پیدا ہونے کا امکان ہے۔

مردم شماری میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی آبادی کا تناسب بڑھ رہا ہے جو ملک کی مجموعی آبادی میں عورتوں سے 50 لاکھ زیادہ ہو چکے ہیں جبکہ اس سے قبل عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ موجودہ تشویشناک صورتحال دیکھتے ہوئے کچھ سیاسی جماعتوں کی خواتین ارکان پارلیمنٹ پاکستان میں عورتوں کی آبادی میں کمی کو بھارت سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں جہاں لڑکیوں کو پیدائش سے قبل ہی ماں کے پیٹ میں ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اگرچہ خواتین ارکان پارلیمنٹ کا یہ مفروضہ درست نہیں تاہم اس معاملے پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ حالیہ مردم شماری میں سب سے زیادہ تشویشناک بات پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے جو 19 سالوں میں 2.4 فیصد کی شرح سے بڑھ کر 13 کروڑ سے تقریباً 21 کروڑ نفوس تک جا پہنچی ہے اور اگر اسی طرح آبادی میں اضافہ ہوتا رہا تو آئندہ 35 سالوں میں پاکستان کی آبادی دگنی ہو جائے گی۔ 

پاکستان کی آبادی میں 2.4 فیصد سے اضافے کی شرح خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ بھارت میں اس وقت آبادی میں اضافے کی شرح 1.26 فیصد، ایران میں 1.27 فیصد، بنگلہ دیش میں 1.2 فیصد اور چین میں 0.52 فیصد ہے۔ اس طرح خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں آبادی کی شرح تقریباً دگنی ہے جس پر اگر حکومت نے قابو نہ پایا تو مستقبل میں اس کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں خاندانی منصوبہ بندی پر کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہیں مگر ملکی آبادی کی شرح میں کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی ازسرنو تشکیل دی جائے تاکہ آبادی کے جن پر قابو پایا جا سکے۔ 

کسی زمانے میں زیادہ آبادی کو ریاست پر بوجھ تصور کیا جاتا تھا مگر موجودہ دور میں ایسے ممالک جن کی آبادی زیادہ ہے، نے افرادی قوت سے فائدہ اٹھایا جس سے ان ممالک کی معیشت نے بے پناہ ترقی حاصل کی۔ ان ممالک میں چین اور بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ملک میں بڑے پیمانے پر ووکیشنل ٹریننگ کا اہتمام کرے تاکہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی افرادی قوت جس میں 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، کی صلاحیتیں بروئے کار لاکر اُنہیں Divident میں تبدیل کیا جا سکے۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ نادرا کے پاس عوام کی ذاتی معلومات اور شناخت کے اعداد و شمار جمع کرنے کیلئے کمپیوٹرائزڈ جدید ٹیکنالوجی موجود ہے لیکن نادرا ملکی آبادی کے صحیح اعداد و شمار جمع کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ دنیا میں کئی ممالک میں مردم شماری کے بجائے پیدائش اور اموات کے ڈیٹا کو بنیاد بناکر مجموعی آبادی کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔

ایسی صورتحال میں جب پاکستان میں نئی مردم شماری کا مکمل ڈیٹا دستیاب ہے، نادرا کو چاہئے کہ پیدائش اور اموات کے ڈیٹا کے نظام کو موثر بنائے تاکہ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان کی اصل آبادی کا تخمینہ مردم شماری کرائے بغیر لگایا جا سکے۔ اب جبکہ مردم شماری کے نتائج سامنے آچکے ہیں، سیاسی جماعتیں مردم شماری کو مفروضوں کی بنیاد پر تنازعات کا شکار نہ بنائیں کیونکہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں ہوئی ہے اور ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں فوج کی نگرانی میں مردم شماری کرانے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں جبکہ مردم شماری کا مکمل ڈیٹا فوج کے پاس بھی موجود ہے۔ ان حالات میں فوجی قیادت کو چاہئے کہ وہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے تحفظات دور کرے تاکہ پاکستان کسی سیاسی بحران کا شکار نہ ہو سکے۔

مرزا اشتیاق بیگ


 

پاکستان میں طلبا کو منشیات کی آن لائن فروخت لمحہ فکریہ

$
0
0

کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نوجوان نسل کو منشیات کے استعمال نے جس تیزی سے اپنی لپیٹ میں لیا ہے وہ والدین، تعلیمی اداروں کے ذمہ داران، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خصوصاً حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ہزاروں گھرانوں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنیوالے نوجوانوں کو آن لائن منشیات فروخت کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ سوشل میڈیا، بالخصوص فیس بک کے ذریعے آرڈر لے کر آئس پوڈر، کوکین، ہیروئن اور چرس کی شکل میں مہلک نشہ آور اشیا سپلائی کرنیوالے چار ملزمان کو کراچی میں پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ منشیات کا زیادہ استعمال خواتین اور طالبات کرتی ہیں۔ منشیات کا استعمال کرنیوالے ان طالبعلموں میں اے لیول اور او لیول کے طلبا و طالبات کی شرح زیادہ ہے۔ گرفتار کئے گئے ملزمان میں سے دو خود بھی پڑھے لکھے ہیں۔

 منشیات فروش کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طالبعلم بن کر داخلہ لیتے ہیں جن کی سرپرستی کرنیوالوں میں بعض سیاسی شخصیات اور کچھ پولیس افسران بھی شامل ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سمیت ملک کے بعض دوسرے تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے انکشاف کے بعد سرکاری حلقوں کی طرف سے بعض اقدامات کئے گئے اس سلسلہ میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انسداد منشیات فورس کے کمانڈرز کے اعلیٰ سطحی اجلاس کا انعقاد اچھی پیش رفت ہے جس میں مصنوعی اور کیمیائی طور پر تیار کردہ منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کو بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کی گرفتاری اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے مہم کو مزید تیز کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔ منشیات کی تیاری فروخت اور استعمال روکنے کیلئے ضروری ہے کہ مروجہ قوانین میں ضروری ترمیم کرکے انہیں مزید موثر بنایا جائے اور اینٹی نارکوٹک فورس سمیت تمام متعلقہ اداروں کو فعال کیا جائےتاکہ اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں مدد مل سکے۔

اداریہ روزنامہ جنگ

شمالی وزیرستان میں’امن ‘کی فتح

$
0
0

شمالی وزیرستان میں پاکستان الیون اوربرطانوی میڈیا الیون کے درمیان ہونے والے خیر سگالی میچ کے کامیاب انعقاد سے ثابت ہوتا ہے کہ بلاخر ’امن ‘ فتح یاب ہوا۔ اس موقع پر اپنے ایک بیان میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ ’ شمالی وزیرستان میں تاریخی اور کامیاب ایونٹ نے ثابت کر دیا کہ شمالی وزیرستان میں امن جیت گیا، پاکستانی مشکل وقت میں ثابت قدم رہتے ہیں، یہ اصل پاکستان اور وزیرستان ہے۔ اس میچ سے ساری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستانی ایک امن پسند اور کھیلوں سے محبت کرنے والی قوم ہے۔ ادھرآئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ دہشت گر دو ں کے خلاف آپریشن میں بے گھر ہونے والے قبا ئلیو ں کی بحالی کا عمل تقریباً مکمل ہو گیا ہے، ہم دہشت گردوں کو دوبارہ پنپنے نہیں دیں گے ۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)کے مطابق آرمی چیف نے پاکستان کرکٹ بورڈ، پشاور زلمی، میڈیا اور فاٹا کے بہادر لوگوں کا تاریخی میچ کے انعقاد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ شمالی وزیرستان میں امن کی جیت ہوئی اور یہی نیا پاکستان اور وزیرستان ہے، ہم امن پسند قوم ہیں اور آج دنیا نے دیکھ لیا کہ باحوصلہ قومیں کس طرح مشکل حالات پر قابو پاتی ہیں ۔ انہوں نے شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں پاکستان الیون اور برطانوی میڈیا الیون کے درمیان میچ کے انعقاد پر پاکستان کرکٹ بورڈ، پشاور زلمی، دونوں ٹیموں اور میڈیا کے ساتھ ساتھ شمالی وزیر ستان اور فاٹا کے بہادر عوام کا شکریہ ادا کیا ہے۔
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live