Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

سلطنت مغلیہ کا زوال - 1707ء سے 1748ء تک

$
0
0

خاندان مغلیہ کے کل پندرہ بادشاہ ہوئے۔ ان میں سے پہلے چھ طاقتور اور واقعی
بادشاہ کہلانے کے مستحق تھے۔ مغلیہ خاندان کے ان زبردست بادشاہوں میں اورنگزیب آخری تھا۔ اس کے عہد میں سلطنت کی وسعت اتنی بڑھ گئی تھی کہ پہلے کسی مغل بادشاہ کے زمانے میں نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اورنگزیب کی سخت گیری نے جا بجا دشمن پیدا کر لیے تھے۔ سکھ، راجپوت اور مرہٹوں نے بغاوتیں کیں۔ اورنگزیب کی عمر کے آخری بیس سال میدان جنگ میں اس جدوجہد میں صرف ہوئے کہ مرہٹوں کی سرکوبی کی جائے مگر مرہٹے سرکش ہی رہے۔ اورنگزیب کا بڑا بیٹا بہادر شاہ کے لقب سے باپ کا جانشین ہوا، لیکن صرف پانچ برس سلطنت کرنے پایا تھا کہ مر گیا۔ 

اس کی وفات کے بعد سات برس کے عرصے میں تین بادشاہ دہلی کے تخت پر بیٹھے۔ بادشاہت کیا تھی، کٹھ پتلیوں کا تماشا تھا، کیونکہ امرائے دربار ایسا زور پکڑ گئے تھے کہ جسے چاہتے تھے، تخت پر بٹھاتے تھے اور جسے چاہتے تھے، تخت سے اتار کر قتل کرا دیتے تھے۔ اورنگزیب کی وفات کے 12 سال بعد یعنی 1719ء میں اسی خاندان کا ایک بادشاہ محمد شاہ تخت پر بیٹھا اور تیس برس یعنی 1740ء تک برائے نام بادشاہ رہا۔ اورنگزیب کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہر بڑے صوبے کا صوبہ دار بادشاہ کا رعب نہ مانتا تھا اور آپ ہی وہاں کا حاکم اور فرمانروا بن بیٹھتا تھا۔
صوبیدار بادشاہ کو کچھ روپیہ بھیجتے رہتے تھے لیکن جو دل میں آتا تھا، سو بھیجتے تھے۔ ظاہراً یہ لوگ ابھی تک بادشاہ کے ماتحت تھے، لیکن اصل میں بادشاہ صرف دہلی کا بادشاہ تھا۔ جس طرح صوبیدار بادشاہ کی حکومت سے نکل گئے تھے۔ اسی طرح نواب صوبیداروں کی ماتحتی سے آزاد ہو بیٹھے تھے۔ گو ابھی تک صوبیداروں کے ماتحت کہلاتے تھے۔ ان میں بڑے بڑے صوبیدار اور نواب یہ تھے۔ شمالی ہند میں اودھ کا صوبیدار اور بنگال اور بہار کا نواب اور جنوبی ہند میں حیدر آباد کا صوبیدار جو نظام الملک کہلاتا تھا اور کرناٹک کا نواب۔

ای مار سڈن


قاضی واجد : ٹی وی کا ایک بے مثال اداکار

$
0
0

سرکاری ٹی وی کا جب آغاز ہوا تو اسے شروع سے ہی بڑے شاندار اداکار میسر
آئے۔ ان میں محمد قومی خان علی اعجاز قمر چوہدری افضال احمد ظفر مسعود اور ایسے کئی اور نام لیے جا سکتے ہیں۔ سرکاری ٹی وی سے بہت سے اداکاروں نے شہرت پائی۔ ان میں بہت سے اداکار ایسے تھے جنہوں نے فلموں میں بھی کام کیا اور بہت شہرت حاصل کی ایک نام اور بھی ہے نہیں کبھی نظرانداز نہیں یا جا سکتا ان کا نام ہے قاضی واجد… قاضی واجد نے ریڈیو پر بہت کام کیا بلکہ انہیں پاکستان کی ریڈیو صنعت کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 

ریڈیو پاکستان پر پچیس سال تک کام کرنے کے بعد وہ مستعفی ہو گئے اور ایک اداکار کی حیثیت سے اپنے فن کے جوہر دکھانے لگے۔ انہوں نے بے شمار ایسے ڈراموں میں کام کیا جو بے حد مقبول ہوئے۔ ان کے سب سے زیادہ مشور ڈراموں میں ’’خدا کی بستی‘ حوا کی بیٹی‘ پاگل تنہائیاں‘ پل دو پل‘ کرن کہانی‘ ننگے پائوں‘ شمع‘ سوتیلی‘ مہندی‘ دوراہا اور تنہائیاں‘‘ شامل ہیں۔ قاضی واجد کی اداکاری کی سب سے بڑی خوبی ان کے مکالموں کی برجستگی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے چہرے کے تاثرات بھی بڑے متاثر کن ہوتے ہیں انہوں نے ہمیشہ حقیقت کے قریب رہ کر اداکاری کی۔

وہ ایک ورسٹائل اداکار ہیں انہوں نے ہر طرح کے کردار ادا کیے۔ سلیم ناصر مرحوم کی طرح ان کے اداکاری میں بھی بڑی گہرائی تھی ان کو دیکھ کر لگتا تھا کہ واقعی وہ اداکاری کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں. ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کردار میں اتنے ڈوب جاتے تھے کہ لگتا تھا کہ یہ کردار ان کے لیے ہی لکھا گیا ہے۔ خدا کی بستی نے ظفر مسعود کی طرح انہیں بھی بہت شہرت دی۔ انہوں نے کمال کی اداکاری کی۔ شوکت صدیقی کے ناول پر لکھی گئی اس ڈرامہ سیریل کو سب سے پہلے بلیک اینڈ وائٹ میں پیش کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت رنگین ٹیلی ویژن کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ اس ڈرامہ سیریل میں ظہور احمد اور ذہین طاہرہ نے بھی بڑی شاندار اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا لیکن سب سے ز یادہ ظفر مسعود اور قاضی واجد کی اداکاری کو پسند کیا گیا۔ 

خود ظفر مسعود نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ قاضی واجد کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں تھا۔ وہ بڑے اداکار ہیں پھر ان جیسے اداکار کے ساتھ کام کرنے کا اپنا ہی ایک مزا ہے۔ قاضی واجد کے بارے میں ایک اور بات کرنا ضروری ہے کہ ان کی اداکاری کو بھارت میں بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔ جس زمانے میں پونا انسٹی ٹیوٹ میں بھارتی ڈرامے دکھائے جاتے تھے اور پاکستانی ٹی وی اداکاروں کو بہت پسند کیا جاتا تھا تو ان میں قاضی واجد کا نام بھی شامل تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں پاکستانی ٹی وی اداکاروں کا ایک زمانے میں طوطی بولتا تھا جن اداکارائوں کو سب سے زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ ان میں فردوس جمال، عثمان پیرزادہ، ثمینہ پیرزادہ، روحی بانو، خالدہ ریاست، ننھا، کمال احمد رضوی، اسماعیل تارا، ماجد جہانگیر، راحت کاظمی اور کئی دوسرے اداکار شامل ہیں لیکن ان میں ایک نام قاضی واجد کا بھی تھا۔ 

قاضی واجد کے بارے میں بھارتی اداکار انیل کپور کا کہنا ہے کہ وہ قاضی واجد کی برجستہ اداکاری سے بڑے متاثر ہوئے۔ بعض اوقات مجھے یہ خیال آتا ہے کہ ان کے ادا کئے گئے کردار وہ ادا کرتے۔ اسی طرح جانی لیور سریش اوبرائے اور کرن کمار نے شہنائیاں میں ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا۔ خاص طور پر جس طرح وہ اس ڈرامے میں بہروزسبزواری کو قباچہ کہہ کر بلاتے تھے وہ اتنا متاثر کن تھا کہ اس کی مثال کم ہی ملے گی۔ اس ڈرامے میں آصف رضا میر اور  شہناز شیخ نے بھی کام کیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے جتنی مقبولیت قاضی واجد کو ملی وہ بہت کم لوگوں کو ملتی ہے ’’خدا کی بستی‘‘ کے بعد یہ وہ ڈرامہ سیریل تھی جس میں قاضی واجد کا فن ایک بار پھر اوج کمال کو پہنچ گیا تھا۔ ان کے بارے میں دیگر پاکستانی اداکاروں کی رائے بھی بڑی زبردست ہے ان کا خیال ہے کہ قاصی واجد چھوٹی سکرین کا بڑا اداکار ہے۔ یہ وہ اداکار ہے جو ورسٹائل ہے اور مشکل سے مشکل کردار ادا کرنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔

ویسے یہ بات حیران کن بات ہے کہ انہوں نے فلموں میں کام نہیں کیا فلمی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ فلموں کی طرف آ جاتے تو ان کی کامیابی یقینی تھی جس طرح مرحوم شفیع محمد کو بھی بارہا کہا گیا کہ وہ فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائیں پہلے تو وہ فلموں ہی میں اداکاری کے مخالف تھے لیکن بعد میں وہ اس طرف آ گئے اور ان کا فلموں میں اداکاری کا فیصلہ کچھ اتنا غلط بھی نہیں تھا لیکن ان کی اداکاری کو فلموں میں بھی پسند کیا گیا خیر اس سوال کا جواب تو قاضی واجد ہی بہتر طور پر دے سکتے ہیں قاضی واجد کے مشہور ڈراموں میں’’ تنہا تنہا‘ دوراہا‘ میرے سانوریا کا انعام سوتیلی بے چینی یہ کیسی محبت ہے کنارا مل گیا ہوتا‘ شمع‘ ان کہی‘ کسک‘ پرفیوم چوک‘ تنہائیاں‘ ہوائیں‘ مرزا غالب بند روڈ پر‘ تعلیم بالغاں‘ دھوپ کنارے‘ آنگن ٹیڑھا‘ مہندی‘ شہہ زوری‘ بے باک‘ وہ رشتے وہ ناطے‘ خالہ خیراں‘ سدا سہاگن‘ تمہیں کچھ یاد ہے جاناں‘ آپریشن 1965ء اور پرچھائیاں‘‘ شامل ہیں۔ قاضی واجد اب ایک طویل عرصے سے ڈراموں میں کام نہیں کر رہے بہرحال ان کا کام داد کے مستحق ہے۔

عبدالحفیظ ظفر

گولیوں اور دھماکوں کے درمیان کشمیری مائیں کیا سوچتی ہیں؟

$
0
0

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ دس ماہ سے حالات انتہائی نازک ہیں جہاں
مظاہرے، سنگ باری، فائرنگ اور عام لوگوں کی ہلاکتیں اب معمول کی بات ہے۔
انڈیا کے خلاف مظاہرہ کرنے والے کشمیری نوجوان ایک جانب ہاتھ میں پتھر لیے کھڑے ہیں تو دوسری طرف انڈین سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں۔ دونوں کا آمنا سامنا ہوتا ہے اور خبریں بنتی رہتی ہیں۔ لیکن ان حالات میں کشمیر کی مائیں کیا سوچتی ہیں؟ اور اپنے بچوں کو وہ کس طرح کا مشورہ دیتی ہیں؟
کشمیر کی کچھ ماؤں سے اسی تعلق سے بات چیت کی اور ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی گئی۔

سری نگر میں رہنے والی 40 سالہ فرزانہ ممتاز پیشے سے ایک صحافی ہیں اور دو بچوں کی ماں بھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ کوئی ماں یہ نہیں چاہتی کہ اس کا بچہ غلط راستے پر چلے۔ فرزانہ کہتی ہیں: 'کشمیر میں ہر دن، کہیں نہ کہیں کوئی زخمی ہوتا ہے۔ کہیں کوئی نہ کوئی مارا جاتا ہے۔ اب یہ عام بات ہو گئی ہے۔ ان حالات میں ایک ماں بہت پریشان رہتی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے: ’میں بھی ایک ماں ہوں اور چاہتی ہوں کہ میرا بیٹا سکول اور کالج صحیح سلامت آئے اور جائے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ یہاں بچے جب کام پر یا پھر سکول جاتے ہیں تو دن بھر ایک ماں کو پریشان ہونا پڑتا ہے کہ اس کا بچہ محفوظ واپس آ جائے۔ ایسے ماحول میں بہت سی مائیں تو ذہنی مریض بن گئی ہیں۔ ان کا خوف ان پر حاوی ہو گیا ہے۔'فرزانہ کہتی ہیں کہ اگر مظاہروں کی ضرورت ہے تو وہ ہونے چاہیں لیکن تشدد آمیز احتجاج سے گریز کرنا چاہیے۔ 
حمیدہ نعیم کشمیر یونیورسٹی میں انگریزی کی پروفیسر ہیں۔ کشمیر میں آئے دن ہونے والے مظاہروں کے درمیان اپنے بچوں کی حفاظت کے تعلق سے حمیدہ نعیم فکر مند رہتی ہیں اور اس کے لیے کشمیر میں وہ فوج کے اجتماع کو پریشانی کا بڑا سبب مانتی ہیں۔ حمیدہ کہتی ہیں کہ ’کشمیر کی ہر ماں کی زندگی فوج کی بھیڑ نے تار تار کر کے رکھ دی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا: 'کشمیر کے حالات نے سینکڑوں بچوں کو گذشتہ سال اندھا بنا دیا۔ میں نہیں مان سکتی کہ کسی ماں نے اپنے بچوں کو سڑکوں پر فوج کے سامنے جانے کو کہا ہو گا۔'حمیدہ فوج کے رویے پر بھی سوال اٹھاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’نوجوانوں کو روکنا اس وقت زیادہ مشکل ہوتا ہے جب انھیں کسی واقعے کے بعد اشتعال دلایا گیا ہو۔‘

سری نگر کے بیمنا علاقے میں رہنے والی 58 سالہ دلشاده سرکاری ملازم اور تین بچوں کی ماں ہیں۔ دلشاده کہتی ہیں: 'بچہ اپنے والدین کے باغ کا پھول ہوتا ہے۔ کوئی ماں باپ نہیں چاہتا کہ یہ پھول مرجھا جائے۔ ماں باپ کے لیے تو یہی بچہ ان کے بڑھاپے کا سہارا ہوتا ہے۔ لیکن جب حالات خراب ہو جاتے ہیں تو ان بچوں کو یہ برداشت نہیں ہوتا۔‘ ان کے مطابق: ’ماں تو انھیں تشدد سے روکتی ہے لیکن بچے اپنے جذبات میں ہوتے ہیں۔ سکول سے آتے جاتے پتہ نہیں چل پاتا کہ وہ کہاں جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔'سری نگر کے ہی کرن نگر میں رہنے والی 65 سال سنتوش موٹو کشمیری پنڈت ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بچوں کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر بچہ پڑھنے یا کام کرنے کے لیے گھر سے نکلا ہے، تو اسے اپنے کام پر ہی توجہ دینا چاہیے اور گھر واپس آنا چاہیے۔
'بچے ایسا کرنے لگیں تو ماؤں کی فکر بھی تھوڑی کم ہو جائے۔ ورنہ تو ہر ماں کے دماغ میں برے خیال ہی آتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر خواتین اسی فکر و خیال میں جی رہی ہیں، اور پھر بچہ ہندو ہو، مسلمان کا یا پھر سکھ کا، بچہ تو بچہ ہی ہے۔'
پانچ بچوں کی ماں 60 سال کی پروينہ آہنگر، جو طویل وقت سے کشمیر میں انسانی حقوق کی کارکن کے طور پرکام کر رہی ہیں، آن لائن میڈیا کو بھی اس بڑھتی مشکل کا ذمہ دار مانتی ہیں۔

پروينہ کہتی ہیں: 'آج بچے سب کچھ آن لائن تلاش کر رہے ہیں۔ ہر قسم کی ویڈیو وہاں مہیا ہوتی ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح انڈیا نے ہم پر ظلم کیا۔ پھر وہ اپنا دل بناتے ہیں اور کئی بار خاندان والوں کی بھی نہیں سنتے۔‘ ’عالم یہ ہے کہ کشمیر میں اب لڑکیوں نے بھی پتھر اٹھا لیے ہیں۔ فوج ان پر شیلنگ کرتی ہے اور جواب میں نوجوان پتھر پھینکتے ہیں۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا، تب تک کوئی ماں چین سے نہیں بیٹھ سکتی۔'پروينہ کا الزام ہے کہ ان کے 27 سالہ بیٹے کو ایک برس قبل فوج اٹھا کر لے گئی تھی اور آج تک اسے واپس نہیں کیا گیا۔
کچھ ایسا ہی الزام ہے ضلع بڈگام میں رہنے والی رهتی بیگم کا۔ وہ 59 سال کی ہیں اور سات بچوں کی ماں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم سچائی کا ساتھ دے سکتے ہیں. ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، جب تک کشمیر کی ہر ماں کا بیٹا واپس نہیں آ جاتا۔‘ 

ماجد جہانگير
بی بی سی، سرینگر

جنگ آزادی ہند 1857 تاریخ کے آئینے میں

$
0
0

10 مئی کو برصغیر میں جنگ آزادی 1857ء کا آغاز ہوا، اس دن میرٹھ کی رجمنٹ
کے سپاہیوں نے چربی والے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ کارتوسوں میں سوراور گائے کی چربی شامل کی جاتی تھی جو مسلمان اور ہندو فوجیوں دونوں کے لئے قابل قبول نہ تھی۔ کارتوسوں کے استعمال سے انکار اور بغاوت کے جرم میں ان سپاہیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کی خبر پھیلتے ہی دیگر سپاہیوں میں بھی اشتعال پھیل گیا اور وہ آزادی کا پرچم لے کر دہلی پہنچ گئے جہاں بہادر شاہ ظفر برائے نام شہنشاہ ہند تھا۔ اصل حکم ایسٹ انڈیا کمپنی کا چلتا تھا۔ دہلی پہنچ کر سپاہیوں نے مقامی لوگوں کو ساتھ ملا کر بہادر شاہ ظفرکی شہنشاہیت کا اعلان کر دیا۔ 
ملتان میں فوج کی پلٹن نمبر 62، 69 نے بھی آزادی کا اعلان کر دیا ۔ جنرل بخت خان بھی اپنے ساتھیوں کے ہمرا ہ دہلی پہنچ گیا ۔ بخت خان ایسٹ انڈیا کمپنی میں صوبیدا ر کے عہدے پر رہ چکا تھا اور اسے اینگلو افغان جنگ اور بنگال آرٹیلری کا بھی چالیس سالہ تجربہ تھا۔ ادھر لکھنئو کے والی واجد علی شاہ کی معزولی کے بعد ان کی بیگم حضرت محل میدان میں نکل آئیں۔ زمیندار طبقہ پہلے ہی لگان سے پریشان تھا اور عام لوگ واجد علی شاہ کی بحالی چاہتے تھے، اس طرح لکھنئو بھی جنگ آزادی میں شامل ہو گیا۔ اودھ اور بریلی کو تو ویسے ہی مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ دہلی ، گوالیار، پشاور ، مردان ، حیدر آباد، سکھر ، شکار پور ، جیک آباد کے علاوہ دیگر شہروں میں لوگ باہر نکل آئے جس پر انگریزوں کو تشویش لاحق ہوئی۔ جھانسی کی رانی ، حضرت محل، جنرل بخت خان، تانتیا ٹوپے، کنور سنگھ، فیروز شاہ، خان بہادر خان، نانا صاحب ، مولوی حمد اللہ سمیت بہت سے ایسے گمشدہ آزادی کے متوالے تھے جنہوں نے خلوص دل سے اس جدوجہد کا ساتھ دیا اورآزادی کی خاطر جان قربان کر دی۔

اس تحریک آزادی میں ہندومسلم، سکھ سب ایک تھے۔ گورنر جنرل کے نام کورٹ آف ڈائرکٹرس کی خفیہ کمیٹی کے خط کے مطابق ’’جنگ اودھ کے عوامی رنگ اختیار کرنے کی وجہ بادشاہ کی معزولی اور لگان ہے۔ لگان نے زمینداروں کی بڑی تعداد کو ان کی زمینوں سے محروم کر دیا ہے‘‘۔ دوسری طرف برطانوی مورخ میکلوڈ ڈانس کے مطابق ’’ اودھ کی جدوجہد کو جنگ آزادی قرار دیا جا سکتا ہے ‘‘۔ مرکزی یا قابل ذکر رہنما شامل نہ ہونے کی وجہ سے یہ تحریک کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ چونکہ یہ تحریک منظم نہیں تھی اور پیسے کی کمی کے ساتھ جدید سامان جنگ کی بھی کمی تھی، تلواروں کا مقابلہ بندوقوں سے تھا مختلف والیان ریاست اور صاحب جائیداد لوگوں کی غداری کی وجہ سے جنگ آزادی کو کامیابی نہ مل سکی۔ 

والیان ریاست سمجھتے تھے کہ مستقبل انگریزوں کا ہے، اس جدوجہد سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اس لئے اپنی شان و شوکت اور جان کو دائو پر کیوں لگائیں۔ وہ اس میں شامل ہونے کی بجائے انگریزوں کے وظیفہ خوار بن گئے۔ سر جان لارنس کہتا ہے کہ اگر آزادی کے متوالوں کے ساتھ بڑے رہنما بھی کھڑے ہو جاتے تو ان کی نجات کی کوئی امید نہ تھی۔ چارلس بال کا کہنا تھا کہ ’’اگر بنگال آزادی کے متوالوں کے پاس زمینی رائفل ہوتی تو دہلی اب بھی مغلوں کی ملکیت ہوتا‘‘۔ انگریزوں نے پہلے دہلی کو آزادی پسند متوالوں سے آزاد کرانے کا منصوبہ بنایا، وہ جانتے تھے کہ جب تک بہادر شاہ ظفر دارالحکومت میں موجود ہیں یہ تحریک دبائی نہیں جا سکتی ۔ اس لئے انگریز فوج نے سارا زور پہلے دہلی کو آزاد کرنے میں لگایا۔

لال قلعہ کا محاصرہ کرتے ہی اپنے جاسوسوں اور غداروں کی مدد سے اس پر قبضہ کر لیا۔ جنرل بخت خان وہاں سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لکھنو پہنچا تا کہ آزادی کے متوالوں کی مدد کر سکے لیکن تحریک منظم نہ ہونے کی وجہ سے حضرت محل اور جنرل بخت خان کو شکست ہوئی ۔ جضرت محل کو کھٹمنڈو جلاوطن کردیا گیا جب کہ بخت خان چھپتا چھپاتا سوات پہنچا جہاں دیر میں روپوش رہنے کے بعد انتقال کر گیا۔ دہلی کی جدوجہد میں ایک خاتون کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا لیکن اس کا نام آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکا، بس لوگ بہادری سے لڑنے کی وجہ سے اسے ’’سبز پوش‘‘ کے نام سے یاد رکھتے ہیں کیونکہ وہ سبز لباس پہن کر انگریزوں سے لڑتی رہی۔ انگریز مورخین نے اسے ہندوستان کی ’’جون آف آرک ‘‘کا نام دیا۔

انقلا ب فرانس میں اس کا کردار یادگار رہا۔ سبز پوش خاتون کو انگریز فوج نے گرفتاری کے بعد پھانسی کی سزا سنائی گئی لیکن خاتون ہونے کے ناطے سزا کوعمر قید میں بدل دیا گیا ۔ وہ جیل ہی میں چل بسی یا کیا ہوا ، کسی کو کوئی خبر نہیں۔ جھانسی کی رانی کو بھی انگریزوں نے غداروں کے ذریعے گھیر کر شکست دیدی، اس طرح گوالیار میں تحریک کو دبا دیا گیا۔ ٹیپو سلطان کی 1799 ء میں شہادت کے بعد برصغیر پر انگریزوں کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ بہادر شاہ ظفر کو رنگون جلا وطن کردیا گیا اور شہنشاہ ہند کا خطاب بھی ختم کر دیا گیا ۔ اس طرح انگریزوں نے مجاہدین آزادی کو اپنے ہتھکنڈوں سے الگ الگ شکست دے کر تحریک کو دبا دیا ۔

طیب رضا عابدی

سی ایس ایس کے امتحان میں 98 فیصد امیدوار فیل

$
0
0

2016 کے سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کے امتحانات کا حصہ بننے والے صرف 2 فیصد امیدوار کامیاب جبکہ نتائج میں تینوں ٹاپ پوزیشن خواتین امیدواروں کے نام رہیں۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کی جانب سے جاری ہونے والے نتائج کے مطابق صرف 2.06 فیصد طالب علم پاس ہونے کے لیے درکار کم سے کم مارکس حاصل کر سکے۔ نتائج پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایف پی ایس سی کے رکن احمد فاروق کا کہنا تھا کہ 'اس قدر برا نتیجہ تشویش کی بات ہے جبکہ ملک کے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے'۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ چند سال سے سی ایس ایس کے امتحان کا نتیجہ مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے، تاہم ایف پی ایس سی اس بات کا تہیہ کیے ہوئے ہے کہ معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ احمد فاروق کے مطابق نجی تعلیمی اداروں میں ہونے والا اچانک اضافہ نتائج میں کمی کا اہم سبب ہے۔ ایف پی ایس سی کے جاری کردہ نتائج کے مطابق سال 2016 میں 9643 امیدوار تحریری امتحان کا حصہ بنے اور ان میں سے صرف 202 امیدواروں نے امتحان پاس کیا۔ زبانی امتحان کے بعد 114 مرد امیدواروں اور 85 خواتین امیدواروں کے ساتھ کُل 199 امیدوار کامیاب ہوسکے۔

اس حوالے سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق صرف 193 امیدواروں کی تقرری کی سفارش کی گئی جس میں 109 مرد اور 84 خواتین شامل ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ان امیدواروں کو اسلام آبد کے سیکشن آفیسر اسٹیبلشمنٹ ڈیویژن سے رابطے کی ہدایت دی گئی ہے۔ نتائج کے مطابق تینوں ٹاپ پوزیشنز خواتین امیدواروں نے حاصل کیں جن میں ملیحہ ایثار پہلے، قرۃ العین ظفر دوسرے اور ماریہ جاوید تیسرے نمبر پر رہیں، ان تینوں امیدواروں کا ڈومیسائل پنجاب کا تھا۔

واضح رہے کہ سی ایس اسی کے امتحانات کے نتائج میں گذشتہ چند سال سے تنزلی دیکھنے میں آرہی ہے، 2014 میں 3.33 فیصد طالب علم پاس ہوئے، 2015 میں یہ تعداد 3.11 فیصد تک پہنچی جبکہ 2016 میں صرف 2.09 فیصد امیدوار کامیاب ہوسکے۔ اس حوالے سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کا کہنا تھا کہ ادارہ، ایف پی ایس سی کے ساتھ مل کر سی ایس ایس کے نتائج میں ہونے والی کمی کی وجوہات تلاش کررہا ہے۔ انہوں نے کہا 'میں مانتا ہوں کہ کئی تعلیمی مسائل موجود ہیں اور ہم جامعات کے آڈٹ میں مصروف ہیں، علاوہ ازیں میرے خیال سے طلبہ کی کارکردگی کی جانچ اور جامعات میں ان کو پڑھائے جانے والے مضامین میں بھی فرق موجود ہے'۔
ڈاکٹر مختار احمد کے مطابق ایف پی ایس سی اور ان کا ادارہ ہائیر ایجوکیشن سیکٹر کی بہتری کے لیے مل کر کام کررہا ہے

پاکستان اب ایران کے نشانے پر بھی ؟

$
0
0

پاکستان کو ایران سے دھمکی ملی ہے، یہ دھمکی سرجیکل اسٹرئیک کی ہے، ایرانی افواج کے سربراہ نے یہ دھمکی دی ہے، پتہ نہیں ایرانی حکومت ا ور میڈیا نے اپنے کمانڈرا نچیف پر اعتراض کیا ہے کہ نہیں کہ آپ کون ہوتے ہیں ، ایک دوست اسلامی برادر ملک پاکستان کو دھمکانے والے اور ایسا خوفناک بیان جاری کرنے والے، یہ بیان ایران کی حکومت دیتی تو ہم سمجھتے کہ یہ ایران کی پالیسی کا حصہ ہے مگر کیا پتہ کہ ایرانی آرمی چیف نے اپنی طرف سے بڑ ہانک دی ہو اور اب انہیں اپنے فارن آفس یا پارلمنٹ یا میڈیا یا صدر ممکت کے سامنے پیش ہو کر وضاحتیں کرنا پڑ جائیں۔ پاکستان میں فوج نے ایک ٹویٹ کیا تو لوگ اسکی جان کو آ گئے کہ دیکھو حکم عدولی ہو گئی، چین آف کمانڈ خراب ہو گئی ، بلا تاخیر اسے زہر قاتل قرار دے ڈالا۔

مگر جب پاکستان کے خلاف بھارتی آرمی چیف کہتے ہیں کہ پاکستان پر فوج کشی نہیں کریں گے، انہی کے آدمی کرائے پر لے کر ان کا خون بہائیں گے۔ تو کیا بھارتی حکومت یا سول سوسائٹی نے اسے برا بھلا کہا۔ امریکی سی آئی اے کے سربراہ نے کہا کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں ہوا تو ہم اس کے خلاف کاروائی کریں گے اور پھر چند برس بعد یہ دھمکی حقیقت میں بدل گئی، بش نے اور اوبامہ نے کہا کہ جہاں کہیں کسی امریکی کی جان کو خطرہ ہوا تو اس ملک کے خلاف ایکشن لیں گے اور امریکہ پچھلے پندرہ برس سے پوری دنیا کو نشانہ بنا رہا ہے، بھارتی حکومت نے اوڑی سانحے کے بعد دھمکی دی کہ وہ سرجیکل اسٹرائیک کریں گے اور پاکستان کے اند ر جہادی ٹھکانوں کو نشانہ بنائیں گے، اور پھر انہوں نے دعوی کر دیا کہ یہ سرجیکل اسٹرائیک ہو گئی، یہ اسٹرائیک ایک معمہ بن گئی کہ ہوئی یا نہ ہوئی مگر بھارتی حکومت دنیا کے سامنے سچی ہو گئی کہ    اسنے اپنی دھمکی پر عمل کر دکھایا، اب وہی دھمکی، اسی ہی زبان میں ایرانی آرمی چیف نے پاکستان کو دی ہے، یہ سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی ہے، اس کے دو حصے ہیں کہ پاکستان ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرے جو ایران میں کارروائیاں کرتے ہیں اور گر پاکستان نے خاموشی اختیار کی تو ایران ان ٹھکانوں کو نشانہ بنائے گا۔
سرتاج عزیز نے رسمی طور پر کہہ دیا کہ ہمیں دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے مطلع کرو، ہم کاروائی کریں گے مگر ایران ا س پر مطمئن نہیں ہو گا، ہم نے ہمیشہ کہا کہ گڈا ور بیڈ طالبان کی تمیز کئے بغیر ضرب عضب کا آپریشن کر رہے ہیں مگر امریکہ ہماری بات پر یقین نہیں کرتا، امریکہ تو خیر اس معاملے میں حریف ہے، خود ہمارا میڈیا اور ہماری سول سوسائٹی نہیں مانتی اور اس کا الزام ہے کہ ہم حقانی گروپ کی پشت پناہی کر رہے ہیں ، ڈان لیکس کا سارا  جھگڑا ہی اسی بنیاد پر ہے، ہم گھر پھونک تماشہ دیکھنے والی قوم بن گئے ہیں، آپس میں جو تم پیزار چلتی رہتی ہے اور باقی کسر بھارت، افغانستان اور ایران نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں جھگڑا ہی یہ ہے کہ پاکستان کو خطے میں یا عالمی برادری میں کس نے تنہا کیا، مگر یہ تنہائی صاف نظر ا ٓ رہی ہے، مودی نے دھمکی دی تھی کہ وہ پاکستان کو تنہا کر کے رکھ دے گا، اندرا گاندھی نے بھی ستر اکہتر میں پہلے تو پاکستان کو یکہ و تنہا کیا، اسے عالمی تنہائی کا شکار کیا اور پھر پاکستان کو شکار کیا۔ کیا یہ ڈرامہ پھر دہرایا جانے والا ہے۔ خدا نخواستہ!! اور ا س کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ایران کے آرمی چیف کو سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہئے تھی، انہیں ایک نظر پاک ایران تعلقات کی طویل تاریخ اور مشترکہ تہذیبی ا ور ثقافتی رشتوں پر بھی ڈال لینی چاہئے تھی، سارے مسئلے دھمکیوں اور سرجیکل اسٹرائیکوں سے حل نہیں ہوتے، اگر پاکستان پر ایران نے سرجیکل اسٹرائیک کی تو پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ ایران کو پاکستان کی دفاعی قوت کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ ایران اس بھول میں نہ رہے کہ پاکستان میں سیاسی سطح پر جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے مگر وہ یاد رکھے کہ ہماری دفاعی پالیسی ایک طے شدہ امر ہے ا ور ہم اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔

افغانستان نے دانت دکھانے کی کوشش کی تو منہ کی کھائی ، وہ طورخم بارڈر پر لڑا، اب چمن بارڈر پر لڑا، مگر وہ پاک فوج کے حملے کی تاب نہیں لا سکا ، اب ایہ الگ بات ہے کی امریکی ا ور نیٹو افواج ا س کی مد د کو میدان میں نکل آئیں ۔ یہ ایک تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہو گا ، پاکستان کے ساتھ چین ہو گا، روس ہو گا، واقعی سے پاکستان تنہا نہیں ہو گا اور یہی جو سیاسی جماعتیں چونچیں لڑا رہی ہیں، یہ اکٹھی نظر آئیں گی، کیا آرمی پبلک اسکول کے خلاف دہشت گردی کے بعد پاکستان میں اتحاد نہیں ہوا۔ بالکل ہوا۔ کیا کراچی آپریشن پر پورا ملک خوش نہیں، باکل خوش ہے اور مطمئن ہے اور ہر کسی نے سکون کا سانس لیا۔

ایران کی پاکستان سے لڑائی بنتی نہیں، اس سے ایک غلطی ہو گئی کہ کل بھوشن اس کی سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کے لئے آتا جاتا رہا۔ تو کیا ایران اس غلطی پر اڑنا چاہتا ہے، کیا ملے گا یہ اڑی کر کے۔ ایران کے سورما تاریخ میں مشہور ہیں مگر پاکستان گیدڑوں کا ملک نہیں، پاک فوج کا ایک ایک سپاہی اور افسر سورما ہے۔ وہ داد شجاعت دینے میں کسی سے پیچھے نہیں، ایران نے بلا شبہہ عراق سے برسوں تک لڑائی کی مگر پاکستان کوعراق نہ سمجھ لیا جائے، پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، ایران کا دوست ملک ہے، ہمسایہ ہے اور اسلامی رشتوں میں بندھا ہوا ہے، پاکستان کوکوئی ضرورت نہیں کہ اپنے ہمسائے سے چھیڑ چھاڑ کرے، دشمن قوتیں ضرور پاکستان سے آپریٹ کرتی ہوں گی اور ایران کو نقصان پہنچا رہی ہوں گی مگر پاکستان کی د شمن قوت بھارت تو علانیہ طور پر ایران سے کاروائیاں کرتی ہے ا ور ایک طوطا کل بھوشن ساری کہانی اگل چکا ہے، ایران کو ا س پر ندامت کا اظہار کرنا چاہئے اور اگرا سے کوئی اور حقیقی مسئلہ درپیش ہے تو اچھے ہمسایوں کی طرح مل بیٹھ کر اس کا حل نکالنا چاہئے ۔

 اسد اللہ غالب 
 

اغوا برائے تاوان کے بعد ہیکنگ برائے تاوان

$
0
0

سائبر کرائم کی دنیا میں نئے جرم کا اضافہ ہو گیا، اغوا برائے تاوان کے بعد
ہیکنگ برائے تاوان شروع ہو گئی ۔ مجرموں نے برطانیہ، چین، روس، اسپین، اٹلی اور امریکا سمیت دنیا کے 99 ممالک کے 75ہزار سے زائد کمپیوٹروں پر قبضہ کر لیا۔ خطرناک ہیکر 30 ہزار روپے تک کا تاوان وصول کر کے کمپیوٹر کا کنٹرول واپس کرتے ہیں، برطانوی محکمہ صحت اور روسی وزارت داخلہ کے کمپیوٹر نظام بھی متاثر ہوئے۔ کڈنیپنگ فار رینسم کے بعد اب ہیکنگ فار رینسم کے تحت کمپیوٹرز یرغمال بنا لیے گئے، فائلیں پر تالے پڑ گئے، ڈیٹا تک پہنچ نا ممکن بنا دی گئی۔ دی شیڈو بروکرز نام کے ہیکر گروپ نے دنیا بھر کے کمپیوٹرز پر قبضہ جما لیا، آن لائن بھتہ خوری کا دھندا شروع کر دیا، امریکا، برطانیہ، چین، روس، اٹلی اور اسپین سمیت دنیا کے سو ملکوں میں وانا کرائی نام کے رینسم وئیر نے قبضہ جما لیا۔
جرائم پیشہ گروپ نے پیغامات چھوڑدیئے کہ تین سو ڈالرز دو اورکمپیوٹرز کا قبضہ چھڑاؤ۔ جرائم پیشہ ہیکر گروپ ان کمپیوٹروں اور فائلوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے تین سو ڈالرز، یعنی تیس ہزار پاکستانی روپے بٹ کوائن میں وصول کرتے ہیں۔ بٹ کوائن وہ ڈیجیٹل کرنسی ہے جسے سائبر کرائم کی دنیا میں وصولی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سائبر حملوں میں برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سروسز کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس کے بعد ملک کے سب سے بڑی ہیلتھ سروس میں تمام آؤٹ ڈور مریضوں کے اپائنمنٹس منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ روسی وزارت داخلہ کی جانب سے بھی ایک ہزار سے زائد کمپیوٹر بھی حملے سے متاثر ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔

یورپ کی بڑی ٹیلی کام کمپنی اور کوریئر کمپنی فیڈیکس کے کمپیوٹر بھی یرغمال بنا لیے گئے، امریکا میں بھی ہزاروں کمپیوٹر حملے کا نشانہ بنے۔ مائیکروسافٹ نے مارچ میں ایسے حملوں سے بچاؤ کے لیے ونڈوز کا ایک پیچ جاری کیا تھا لیکن لاکھوں کمپیوٹروں میں یہ انسٹال نہیں ہو سکا۔ سائبر سیکیورٹی کے ماہرین کے مطابق میل ویئر میں پوشیدہ ایک ویب سائٹ کا نام رجسٹر کرا کے اس وائرس سے بچاؤ ممکن ہے، تاہم پہلے سے متاثرہ کمپیوٹروں کو ہیکروں کے چنگل سے نکالنے کا ابھی کوئی طریقہ دریافت نہیں کیا جا سکا۔

لارنس آف عریبیا۔۔۔ ایک حیرت انگیز شخصیت

$
0
0

دنیاکی تاریخ میں ویسے تو ایسی بے شمار شخصیات گزری ہیں جن کا نام ان کے کارناموں یا سیاہ اعمال کے باعث لوگوں کو یاد رہے گا لیکن کچھ شخصیات ایسی بھی ہیں جوبلاشبہ متنازع تھیں لیکن ان کی ذہانت کو تسلیم نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ٹی ای لارنس ایک برطانوی فوجی افسر تھا جس نے ’’عربوں کی عظیم بغاوت‘‘ میں حصہ لیا اور بعد میں ’’عقل کے سات ستون‘‘ کے عنوان سے یادداشتیں رقم کیں۔ 16 اگست 1888ء کو پیدا ہونے والے ٹی ای لارنس نے برطانوی فوج میں خدمات سرانجام دیں اور عربوں کے معاملات میں خاصی مہارت حاصل کرلی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اسے ایک مشن پر مشرق وسطیٰ بھیجا گیا جہاں اس نے عثمانی سلطنت کے خلاف عربوں کی بغاوت میں حصہ لیا۔

پہلی جنگ عظیم شروع ہونے کے فوراً بعد اسے مصر بھیج دیا گیا۔ 1916ء میں اسے ایک ’’مشن‘‘ پر عرب بھیجا گیا۔ وہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف عربوں کی بغاوت میں شامل ہو گیا۔ اس کے ساتھ کچھ دوسرے برطانوی آفیسر بھی شامل تھے۔ وہ امیر فیصل کے بہت قریب ہو گیا جو عربوں کی بغاوت کا قائد تھا۔ امیر فیصل کے ہمراہ اس نے عثمانی فوجوں کے خلاف کئی فوجی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ ان فوجی سرگرمیوں کے نتیجے میں اکتوبر 1918ء میں دمشق پر قبضہ کرلیا گیا۔ جنگ کے بعد لارنس دفتر خارجہ سے وابستہ ہوگیا۔ وہ برطانوی حکومت اور امیر فیصل کے ساتھ کام کرنے لگا۔ 1922ء میں وہ سماجی زندگی سے الگ تھلگ ہو گیا اور رائل ایئر فورس سے وابستہ ہو گیا۔ اس نے کئی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ 1907ء سے 1910ء تک لارنس نے آکسفورڈ جیسس کالج میں تاریخ پڑھی۔ 1909ء کے موسم گرما میں وہ شام کے علاقوں میں پھرتا رہا۔ اس کا مقصد صلیبی جنگوں کے دوران تعمیر گئے گئے قلعوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھا۔
اسے نوادرات اور قدیم یادگاریں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنے سکول کے دوست سائرل بیسن کے ہمراہ ہر گاؤں کے چرچ میں گیا اور وہاں کی قدیم اشیا اور یادگاروں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ 1910ء میں ٹی ای لارنس کو برطانوی عجائب گھر کی طرف سے ماہر آثار قدیمہ کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ دسمبر 1910ء میں وہ بیروت چلا گیا اور یہاں پہنچنے کے فوراً بعد وہ جبیل (بائبیلوس) روانہ ہو گیا جہاں اس نے عربی پڑھی۔ جنوری 1914ء میں لیونارڈ وولی ( اس کے ماتحت لارنس شام میں کام کر چکا تھا) اور لارنس کو برطانوی فوج نے صحرائے فیگو کا سروے کرنے کے لیے منتخب کیا۔ انہوں نے یہ کام احسن طریقے سے سرانجام دیا۔ یہ صحرا فوجی لحاظ سے بہت اہم تھاکیونکہ جنگ کی صورت میں مصر پر حملہ کرنے والی کسی بھی عثمانی فوج کو اسے عبور کرنا تھا۔ اس کام کے بعد لارنس 15دسمبر 1914ء کو عرب بیورو میں کام کرنے کے لیے مصر پہنچا۔ بیوروچیف گلبرٹ کلٹین نے مصری ہائی کمیشن کو ہنری کیکموہن کو اس بارے میں اطلاع دے دی۔ 1915ء کے دوران صورت حال بہت پیچیدہ تھی۔ سلطنت عثمانیہ کے علاقوں میں جہاں عربی بولی جاتی تھی، عرب قوم پرستی کی تحریک پروان چڑھ رہی تھی۔ 

اس میں وہ عرب شامل تھے جو سلطنت عثمانیہ کی فوج میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ وہ امیر مکہ شریف حسین سے مسلسل رابطے میں تھے۔ شریف حسین برطانیہ سے اس بات پر مذاکرات کر رہے تھے کہ وہ عثمانیوں کے خلاف عربوں کی بغاوت کی نہ صرف حمایت کرے بلکہ اس بغاوت کی قیادت بھی کرے۔ بدلے میں وہ برطانیہ سے اس امر کی ضمانت چاہتے تھے کہ وہ حجاز، شام او میسوپوٹیما پر مشتمل ایک آزاد عرب ریاست کے قیام کو یقینی بنائے۔ ایسی بغاوت برطانیہ کے لیے عثمانیوں کے خلاف جنگ میں بڑی معاون ثابت ہو سکتی تھی۔ تاہم فرانسیسی سفیر کی طرف سے مسلسل مزاحمت کی جارہی تھی جن کا اصرار تھا کہ شام کا مستقبل فرانس کی کالونی بننا ہے نہ کہ آزاد عرب ریاست۔ عرب بیورو میں لارنس نے نقشوں کی تیاری کی نگرانی کی اور برطانوی جرنیلوں کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ایک بلیٹن جاری کرتا رہا۔ وہ قیدیوں کے انٹرویو بھی کرتا تھا۔ وہ مسلسل ایک آزاد شام کی ریاست کی وکالت کرتا رہا۔

اکتوبر 1915ء میں صورت حال بحران کی صورت اختیار کر گئی کیونکہ شریف حسین نے برطانیہ سے فوری طور پر عہد کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دھمکی دی کہ اگر اس عہد کی پاسداری نہ کی گئی تو وہ عثمانیوں کے ساتھ مل جائے گا۔ برطانیہ کے لیے نئی مصیبت کھڑی ہو گئی ۔ برطانیہ نے وعدہ کیا کہ وہ مایوس نہیں کرے گا۔ عربوں کی سلطنت کے خلاف بغاوت میں لارنس نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اسے برطانوی حکومت نے جہاں بھی کسی مشن پر بھیجا، وہاں اس نے کامیابیاں سمیٹیں۔ وہ ایک باکمال جاسوس تھا جو عربوں کا ہمدرد بن کر ان میں شامل ہو گیا اور اپنی ذہانت او ر مہارت سے سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حیرت کی بات ہے کہ جب اپنے اس کامیاب مشن کے بعدوہ برطانیہ لوٹا تو اس کا غیر معمولی استقبال نہیں کیا گیا۔ 1935ء میں وہ موٹر سائیکل کے ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ ہالی وڈ میں 1962ء میں ’’لارنس آف عریبیا‘‘ کے نام سے ایک فلم ریلیز کی گئی جس نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔ اس فلم کو ہالی وڈ کی تاریخ کی عظیم ترین فلموں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ اس فلم میں لارنس کا کردار پیٹراوٹولز نے ادا کیا اور یہ اس کی پہلی فلم تھی۔ دیگر اداکاروں میں عمر شریف اور انتھونی کونن شامل تھے۔ یہ فلم عمر شریف اور پاکستانی اداکار ضیامحی الدین کی بھی پہلی فلم تھی۔ بہرحال ٹی ای لارنس کا کردار غیر معمولی تھا۔ دنیا کی تاریخ میں یہ کردار ہمیشہ زندہ رہے گا۔

عبدالحفیظ ظفر

 


مٹتی ہوئی ماضی کی شان و شوکت : قلعہ شیخوپورہ

$
0
0

ایک اونچے ٹیلے پر واقع قلعہ شیخوپورہ خاموش کھڑا اپنی داستان سنا رہا ہے۔ شیخوپورہ شہر کے جنوب میں واقع یہ قلعہ ایک ذیشان عظمت کا نشان ہے۔ قلعہ شیخوپورہ کو مغل شہنشاہ جہانگیر نے ایک خاص مقصد کے لیے تعمیر کروایا تھا کیونکہ اس وقت یہاں شکار کے لیے بہت سے ذرائع میسر تھے اس لیے بادشاہ نے اپنے پڑائو کے لیے ایک عظیم الشان قلعہ کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ ’’تزک جہانگیری‘‘ کے مطابق 1607ء میں شہنشاہ جہانگیر نے اپنے ایک مشتاق شکاری سکندر امین کو اس قلعے کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ مغلیہ طرز تعمیر کی بھاری بھرکم فصیلوں میں گھرا ہوا یہ قلعہ چار سو چوالیس فٹ چوڑائی میں اور چار سو دس تک لمبائی میں پکی اینٹوں سے ایک چوبوترے پر تعمیر کیا گیا ہے۔

اس میں فصیل کی چوڑائی شامل نہیں ہے جو 22 فٹ ہے۔ کاغذات مال میں قلعہ کا کل رقبہ چونسٹھ کنال تیرہ مرلہ ہے، وقت کے ساتھ ساتھ قلعہ کو سطح بہ سطح آنے والے حکمران وسیع کرتے رہے۔ قلعہ کا بیرونی دروازہ نہ تو مزین ہے اور نہ ہی مرصع البتہ مضبوطی و پائیداری میں اپنی مثال آپ ہے کبھی اس پر نقش و نگار رہے ہوں گے لیکن اب ناپید ہیں۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ڈیوڑھی کے دونوں جانب برج ہیں۔ مشرقی جانب کی کھڑکیوں میں پتھر کی جالی لگی ہوئی ہے، ڈیوڑھی سے اندر جانے کے لیے دو دروازے ہیں۔ ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب۔ بائیں جانب چند قدم چلنے کے بعد ایک کنواں موجود ہے جو شاہی قافلوں اور تھکے ماندے گھوڑوں کی پیاس بجھانے کے لیے بنایا گیا تھا ۔

اس کنوئیں کا قطر آٹھ فٹ اور گہرائی اٹھاون فٹ ہے ،یہ کنواں ابھی تک اصل حالت میں موجود اس کا ڈھلوان راستہ جنوبی دیوار کے ساتھ ساتھ دوسری منزل کی طرف جاتا ہے، اس راستے ہم بآسانی جنوب مغربی برج پر پہنچ سکتے ہیں۔ اس برج کے ساتھ محافظوں اور سپاہیوں کے کمرے تھے جو آج ناپید ہیں تاہم ان کی دیواروں کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں جن پر چھت قائم ہے۔ تہہ خانوں کی چھتیں ڈاٹ دار اور گنبد نما ہیں جو اچھی حالت میں ہیں باہر سے ہوا اور روشنی کے لیے جنوبی دیوار میں گیارہ کھڑکیاں کھلتی ہیں، تہہ خانوں کی چوڑائی 10 فٹ ہے۔1950ء میں جب پنجاب کانسٹیبلری نے یہاں قیام کیا تھا تو یہاں ایک مزار دریافت ہوا ۔

یہ سفید پتھر سے بنی ہوئی قبر ہے جس کے کنارے پر فارسی زبان میں ایک کتبہ لگا ہوا ہے۔ اس پر سخی شاہ شرف معصوم بادشاہ لکھا ہوا ہے۔چھت کے ساتھ ایک خوبصورت شمع دان بھی لٹکتا ہوا دیکھا گیا وہاں سے ایک قلمی مسودہ بھی ملا جو فارسی میں تھا۔ ڈیوڑھی سے آگے بڑھیں تو چودہ فٹ چوڑا راستہ ملتا ہے جس پر چھوٹی چھوٹی اینٹوں کی سولنگ لگی ہوئی ہے۔ اس راستے کے مغربی کنارے پر نصف درجن تک ملازمین کے کمرے ہیں۔ قصر شاہی صدیوں کے گرم سرد، زلزلوں کے صدمات اور تباہ کاریوں کی دست برد سے کسی حد تک محفوظ ہے ،تاہم کچھ حصے گر چکے ہیں لیکن جلال اور عظمت اس حصے کو اب بھی حاصل ہے جو اس دور میں کبھی رہی ہو گی۔ دیواروں پر حسین و منقش تصاویر جا بجا نظر آتی ہیں ان پر فارسی زبان میں اشعار کی خطاطی دل کو بہت بھاتی ہے دیواروں پر ان نفیس و نازک نقوش کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے صدیاں گزر جانے کے باوجود اس کے حسن و رعنائی میں نمایاں فرق نظر نہیں آتا۔

جہانگیر محل سے ملحقہ ایک زنان خانہ ہے جسے ملکہ محل کہا جاتا ہے یہ حصہ نصف سے زیادہ گر چکا ہے لیکن اس میں داخل ہونے کا راستہ موجود ہے وہاں پر مغل اور سکھ دور کی نادر تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں ملکہ کے محل کے اوپر ایک شیش محل تھا ابھی تک وہ چھت تو کسی حد تک موجود ہے لیکن اوپر جانے کا راستہ محدود ہے۔ ایک روایت کے مطابق قلعہ کے شمال مغربی برج کے اندر سے ایک سرنگ ہرن مینار تک جاتی ہے ، اگرچہ صحیح مقام کا تعین تو نہیں کیا جا سکتا مگر اتنا ضرور ہے کہ جب وارڈ نمبر 6 میں آبادی کا کام ہو رہا تھا چند ایک بنیادیں کھودتے وقت ایسے آثار ملے جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ نیچے کوئی دیوار ہے۔ جس کا رخ ہرن مینار کی جانب ہے۔ مغلوں کے زوال کے بعد اس قلعے کی تاریخ گمنام سی ہوگئی اور برصغیر میں بدامنی روزمرہ کا معمول بن گئی یہ سلسلہ برسر پیکار حاکموں کی پناہ گاہ بن کے رہ گیا اور قلعہ شیخوپورہ تقریباً دو سو سال بعد 1806ء میں اوبل سنگھ اور امیر سنگھ کے قبضے میں آگیا۔

اوبل سنگھ اور امیر سنگھ اس علاقے میں بدامنی کا سبب بنتے رہے اور رنجیت سنگھ، حاکم پنجاب ہوا تو اوبل سنگھ کو اس قلعے میں اپنا دفاع کرنا پڑا۔ قلعے کی تسخیر کا یہ کام آخر کار امرتسر کے بھنگی قبیلے کی حاصل کردہ احمد شاہ ابدالی کی بھنگیوں کی اسی توپ نے کر دکھایا۔بیرونی دروازے توڑ کر راجہ کا لشکر قلعے میں داخل ہوا۔ راجہ رنجیت سنگھ نے قلعہ کی تسخیر کے بعد اسے اپنے سپوت کھڑک سنگھ کے حوالے کر دیا۔ کھڑک سنگھ کی والدہ یہاں قیام پذیر ہوئی۔

 وہ ایک ذہین ملکہ تھی اوررنجیت سنگھ کی نظروں میں ہمیشہ بلند رہی، عقل مندی اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اس نے زمینوں کو جو بھیٹوں اور ورکوں کے جھگڑوں میں غیر آباد رہیں کسانوں میں بانٹ کر ان کی وفاداریوں کو موہ لیا۔ رانی نائکہ پنجاب کے ناکائی سردار کی بہن تھی جب یہ رانی قلعہ میں قیام پذیر ہوئی تو قلعہ کی تعمیرات خاک ہو چکی تھیں اس کی بنیادوں کو اس نے اونچا کروا کے اپنے لیے محل بنوایا۔

پاکستانی پہاڑوں کی شہزادی راکا پوشی

$
0
0

ہم نے پیچھے دیکھا تو ٹھٹک گئے۔ برف پوش چوٹیوں کی خوبصورت قطار منظر پر چھائی ہوئی تھی جو کافی دور تھی، لیکن ہمارے عقب میں موسم صاف اور چمکیلا تھا اس لئے واضح تھی۔ ڈرائیور ہماری محویت پر کچھ حیران تھا۔ ’’یہ کونسی چوٹی ہے۔ ‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’یہ کئی چوٹیاں ہیں ہاراموش، دیراں ،راکا پوشی اور پتہ نہیں کون کون سی ‘‘ ’’راکا پوشی !‘‘ میں نے زیرِ لب دوہرایا۔ راکا پوشی۔۔۔ پاکستان کے پہاڑوں کی شہزادی اور سلسلۂ قراقرم میں میری پہلی پسند۔

کوئی اپنی پہلی پسند کو اتنی جلدی بھول جایا کرتا ہے؟ زیادہ عرصہ تو نہیں گزرا۔ کل ہی کی تو بات ہے۔ صرف پانچ سال پہلے کریم آباد کی ایک خوبصورت صبح تھی اور میں شہر سے باہر ایک چھوٹی سی پہاڑی کی چوٹی پر بے حس و حرکت کھڑا راکا پوشی کی دلکشی او ر رعنائی کو آنکھوں کے رَستے دِل میں بساتے ہُوئے عہدِ وفا استوار کر رہا تھا۔ اسے ہمیشہ یاد رکھنے کا وعدہ تو مجھے یاد تھا لیکن خود اسے میں نے بھلا دیا تھا۔ راکاپوشی کا نقش تو نا پائیدار ہو ہی نہیں سکتا، جذبہ کی سچّائی ہی مشکوک تھی! ہم نے اس خوبصورت منظر کی کچھ تصاویر لیں اور دوبارہ روانہ ہو گئے۔ ہم تاتو گاؤں کے قریب پہنچنے والے تھے اور ہم نے رائے کوٹ پل سے یہاں تک کسی بھی قسم کے سائے یا پانی کا نشان تک نہ دیکھا تھا۔

بے آب و گیاہ چٹیل پہاڑ اور اِنہی پہاڑوں سے لڑھک کر نیچے آئے ہوئے چٹان نما پتھر یا پتھر نما چٹانیں۔ دیکھنے کو اور کچھ بھی تو نہیں تھا۔ اِس راستے پر ہم نے ایک ضعیف العمر مقامی شخص کو دیکھا، وہ اپنی کمر پر غالباً گندم کی بوری اٹھائے ہوئے اپنی لاٹھی کے سہارے آہستہ آہستہ لیکن یکساں رفتار سے فاصلہ طے کر رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر چلتا، پھر کسی بڑے پتھر پر بوری کا وزن منتقل کر کے چند منٹ سانس لیتا اور دوبارہ سفر شروع کر دیتا۔ جب یہ سڑک نہیں بنی تھی تو ٹریکرز اور مقامی لوگ پیدل ہی رائے کوٹ پل سے تاتو گاؤں تک آتے تھے اور دروغ بر گردن ’’تارڑ صاحب ‘‘ کئی ٹریکرز صرف اس لئے دار فانی سے کوچ کر گئے کہ انہوں نے رائے کوٹ پل سے کوچ کرتے وقت پانی کا کافی ذخیرہ ساتھ لانے کی زحمت نہیں کی تھی۔ ہم تاتو گاؤں کے پاس سے گزر رہے تھے جو درختوں کے تنوں اور پتھروں سے بنے چند جھونپڑوں پر مشتمل تھا۔

تاتو کا اصل اور مقامی تلفظ ’’ تَتَّو ‘‘ ہے جس کے معنی گرم کے ہیں۔ ایک جگہ سے بھاپ کے مرغولے اٹھ رہے تھے جو کافی بلندی تک جا رہے تھے۔ ڈرائیور نے بتایا کہ وہ گرم پانی کا چشمہ ہے اور یہی تتّو نام کی وجہ تسمیہ ہے۔ اس کے بقول اگر مرغی کے انڈے کو کپڑے میں باندھ کر چشمے میں رکھ دیا جائے تو دو منٹ میں وہ فل بوائل ہو جاتا ہے۔ سڑک نہیں بنی تھی تو پید ل راستہ چشمے کے قریب سے گزرتا تھا اور یہ جگہ ایک مصروف کیمپنگ سائٹ تھی۔ چشمے کے کنارے ہر وقت کافی رش رہتا تھا۔ غیر ملکی ٹریکر اور ٹریکریاں چشمے کے پانی کو بالٹی میں ٹھنڈے پانی سے ملا کر نہاتے تھے تو مقامی لوگ یہ منظر دیکھنے کے لئے اکٹھے ہو جاتے تھے۔ جیپ روڈ نے سفر آسان اور مختصر کر دیا تھا، پورے ایک دن کا ٹریک کم ہو گیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی تاتو گاؤں کے گرم پانی کے چشمے کا اعزاز بھی چھن گیا تھا۔

ڈاکٹر محمد اقبال ہما





سمندر ی پانی کی سطح میں اضافہ خطرناک ہو سکتا ہے

$
0
0

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سمندری پانی کی سطح میں معمولی اضافہ بھی
خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے ۔ سمندر کی سطح میں یہ معمولی مگر ناگریز اضافہ دنیا کے بیشتر علاقوں میں سیلابوں میں اضافہ کر دے گا جس سے ساحلی علاقوں سے ملحقہ بڑے شہر خطر ے میں پڑ جائیں گے۔ تحقیق میں سمندر کی بڑی لہروں اور طوفانوں کو مدنظر رکھا گیا ہے جو آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی سمندر کی سطح کے باعث زیادہ شدید ہو سکتے ہیں اور ساحلی علاقوں پر غالب آ سکتے ہیں۔ سب سے پہلے نچلے علاقے متاثر ہوں گے اور یہ افریقہ سے لے کر جنوبی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیا تک ہیں۔ سب سے زیادہ خطرہ برازیل اور آئیوری کوسٹ کے بڑے شہر وں کو ہے۔ اس کے علاوہ ان میں بحرا لکاہل کے چھوٹے جزیرے شامل ہیں۔

ایک عشرے کے دوران خدشہ ہے کہ خطرات کے شکار مقامات کی تعداد دو گنا ہو جائے گی۔ اس تحقیق میں نمایاں حصہ لینے والی شکاگو کی ایلی نوئس یونیورسٹی کی لوسی لیمبل نے بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پانی کی سطح کا انتہائی بلند ہونا ناگزیر ہے۔ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے اور یہ اضافہ 4 ملی میٹر سالانہ تک ہو سکتا ہے، کیونکہ قطبین کی برف پگھل رہی ہے اور سمندر کا پانی گرم ہو رہا ہے ۔ چونکہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کوعمل جاری ہے اس لیے برف پگھلنے اور سمندری سطح بلند ہونے کا عمل کئی سالوں تک جاری رہے گا۔ سمندر کی سطح میں اضافہ سے طوفانوں میں اضافہ ہو جائے گا اور ساحلی علاقے اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔

یہ تحقیقی رپورٹ جس جریدے میں شائع ہوئی ہے اس کا نام سائنٹیفک رپورٹس ہے۔ یہ پہلی رپورٹ ہے جس نے ان عوامل کا تجزیہ کیا ہے۔ بحرِاوقیانوس سے ملحقہ شہروں میں سمندر کی سطح میں 2.5 سینٹی میٹر اضافے سے پانی زیادہ شدت کے ساتھ وہاں کا رخ کر سکتا ہے جبکہ پانچ سے دس سینٹی میٹر اضافے کا مطلب ہے کہ منقطہ حارہ کے ساحلی علاقوں میں سمندری طوفانوں میں دوگنا اضافہ ہو جائے گا۔ 20 سینٹی میٹر اضافے کا مطلب ہے کہ تمام ساحلوں پر اس کا خطرہ دو گنا ہو جائے۔ خیال رہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی بھی ساحل سمندر کے قریب واقع ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سمندر کی سطح میں اضافے کی رفتار پر مختلف پیش گوئیاں کی جاتی رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کی 2013 میں رپورٹ کے مطابق سال 2021 تک یہ اضافہ 30 اور 100 سینٹی میٹر کے درمیان ہو گا۔ ایک حالیہ تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ قطبین کی برف کے پگھلنے کا خدشہ اس سے بہت زیادہ ہے جتنا کہ سمجھا جا رہا تھا ۔ اس لیے سمندروں کی سطح بہت تیزی سے بڑھ سکتی ہے ۔ اور صدی کے خاتمے تک یہ 200 سے 300 سینٹی میٹر تک بھی ہو سکتی ہے ۔ دو دہائیوں کے درمیان پانچ سے دس سینٹی میٹر تک سمندر کی سطح میں اضافے کا امکان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ میں سان فرانسسکو، بھارت میں ممبئی، ویت نام میں ہوچی منہہ اور آئیوری کوسٹ میں ابید جان میں سمندری سیلابوں کا خطرہ دوگنا ہوجائے گا۔ اس رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سمندر کی سطح میں چھوٹی تبدیلیاں بھی کتنے خطر ناک نتائج پیدا کرسکتی ہیں۔ پرفیسر تھامس واہل کا کہنا ہے کہ ان حقائق سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی اور ایسا کرنا حماقت ہو گی۔ لیکن ایک اور بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ابھی اوربھی کئی تجزیے باقی ہیں اور ہمیں بہرحال کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہیے ۔ اس سے پہلے جو تحقیق کی گئی اس کے مطابق 2050 تک سمندری طوفانوں سے کئی کھرب ڈالر سالانہ کا نقصان ہو سکتا ہے۔

عبدالحفیظ ظفرؔ

بیرم خان : مغل تاریخ کا ناقابل فراموش کردار

$
0
0

مغل تاریخ میں ویسے تو ان گنت کرداروں کومختلف اوصاف اور کارناموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا لیکن کچھ کردار حیرت انگیز ہیں اور ان کی خدا داد صلاحیتوں پر رشک آتا ہے۔ انہوں نے قدم قدم پر کامیابیوں کے پھول سمیٹے، قسمت کی دیوی ان پر مہربان رہی۔ ایسا ہی ایک کردار بیرم خان کا ہے جس نے مغل خاندان کی بے مثال خدمت کی ۔ بلکہ اس نے مغلوں کے اقتدار کا چراغ روشن رکھنے میں بھر پور کردار ادا کیا جو ہمایوں کی وفات کے بعد خطرے سے دو چار تھا۔ ہمایوں کے انتقال کے وقت اکبر کی عمر صرف چودہ برس تھی۔ اس وقت کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ اس نازک دور میں بیر م خان نے اکبر کو اقتدار کے سنگھاسن پر متمکن کروا دیا۔ کہنے کو تو اکبر بادشاہ تھا لیکن پانچ سال تک عملی طور پر بیرم خان ہی حکومت چلاتا رہا ۔ 

جب اکبر 19 برس کا ہوا تو بیرم خان امور مملکت سے الگ ہو گیا۔ بیرم خان کی تربیت نے اکبر کو کندن بنا دیا ۔ پھر اس نے تقریباً 50 برس تک ہندوستان پر حکومت کی۔ بیرم خان بیک وقت کئی عہدوں پر کام کرتا رہا۔ وہ جلال الدین اکبر کا مشیر اعلیٰ اور مغل فوج کا کمانڈر انچیف بھی تھا ۔ وہ ایک مدبرّ کے طور پر کام کرتا رہا۔ بیرم خان وسطیٰ بد خشاں کے علاقے اوغذ ترک کے قبیلے کارا کیونلو میں پیدا ہوا ۔ اس کا باپ سفیالی بیگ بہارلو اور دادا جنبالی بیگ با بر کی فوج میں خدمت سر انجام دیتے رہے تھے۔ وہ 16 سال کی عمر میں بابر کی فوج میں شامل ہو کر مغلوں کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ مغل سلطنت کے قیام میں بھی اس نے ہمایوں کے ساتھ مل کر بہت کام کیا۔ 

وہ بنارس، بنگال اور گجرات کی فوجی مہمات میں بھی شریک رہا ۔ جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ہمایوں ایران روانہ ہوا تو بیرم خان بھی اس کے ساتھ تھا۔ ہمایوں ایران سے فوج لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو بیرم خان دوبارہ کامیابی کیلئے ہمایوں کی فوج میں کمانڈر بن گیا۔ 1556ء میں ہمایوں کی وفات کے بعد اسے اکبر کا اتالیق مقرر کردیا گیا۔ اس نے شمالی ہندوستان میں مغلوں کے اقتدار کو مستحکم کیا ۔ اس نے پانی پت کی دوسری لڑائی میں مغل فوجوں کی قیادت کی ۔ یہ لڑائی اکبر اور ہیموں کے درمیان نومبر 1556ء میں لڑی گئی۔ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اکبر کے جوان ہونے سے پہلے بیرم خان نے اسے ہلاک کیوں نہیں کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیرم خان اور اس کے باپ دادا ہمیشہ مغلوں کے وفادار رہے۔ اس نے اپنے خاندان کی روایات کو زندہ رکھا اور اپنے اور اپنے خاندان کے نام پر دھبہ نہیں لگنے دیا۔ بابر اور ہمایوں کے ساتھ بیرم خان نے بڑا شاندار وقت گزارا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بابر اور ہمایوں نے بیرم خان کو بہت احترام دیا۔ اس کی عزت و تکریم میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

اس نے ہمایوں کا اس وقت ساتھ دیا جب اس نے ایران میں جلا وطنی کی زندگی اختیار کر لی تھی۔ یوں کہنا چاہیے کہ بیرم خان کی رگوں میں مغل خاندان سے وفاداری خون بن کر دوڑتی تھی۔ گرانقدر خدمات اور دیگر اوصاف کے باوجود بیرم خان کو دربار میں زیادہ پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ کچھ مورخین کے نزدیک 1560 میں اس کا زوال شروع ہوا جب وہ بہت مغرور ہو گیا تھا۔ تکبر انسان سے عقل و فراست چھین لیتا ہے۔ پھر اس نے اپنے قریبی دوستوں کو بھی نوازنا شروع کردیا تھا جس سے اس پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ اس نے گورنر تردی بیگ کو موت کے گھاٹ اتار دیا کیونکہ تردی بیگ ہیموں کے خلاف لڑائی میں دہلی کا دفاع کرنے میں نا کام ہو گیا تھا۔ جب اکبر نے بیرم خان کوسبکدوش کرنے کا فیصلہ کیا تو دونوں میں اختلافات پیدا ہوئے ۔ اکبر نے اسے جاگیر عطا کر دی۔

غیر متوقع طور پر بیرم خان ، اکبر کے خلاف بغاوت کا علَم بلند کرتے ہوئے اس کے خلاف میدان جنگ میں کود پڑا۔ جس میں اسے شکست ہوئی۔ طویل خدمات اور مغل خاندان سے وفاداری کی بنا پر اکبر نے اسے معاف کر دیا۔ اکبر نے بیرم خان کو پیش کش کی کہ یا تو وہ ریٹائر ہو جائے اور محل میں قیام پذیر ہو جائے یا پھر حج کرنے مکہّ معظمہ چلا جائے۔ بیرم خان نے حج کرنے کو ترجیح دی ۔ براستہ گجرات سفر کے دوران حاجی خان سیوا تی نے 31 جنوری 1561ء کو بیرم خان کو قتل کر دیا ۔ حاجی خان میواتی ہیموں کی فوج میں جرنیل تھا اور اس نے بیرم خان کو قتل کر کے ہیموں کی موت کا بدلہ لیا۔ بیرم خان کے بیٹے اور بیوی کو آگرہ بھیج دیا گیا۔ اس کے بیٹے عبدالرحیم خان ِ خاناں کو اکبر کے دربار میں خصوصی حیثیت دی گئی۔ وہ اکبر کے نورتنوں میں شامل کر لیا گیا ۔ ہمایوں نے بیرم خان کوخانِ خاناں کا خطاب دیا تھا جس کا مطلب ہے بادشاہوں کا بادشاہ۔ پہلے پہل اسے بیرم بیگ کے نام سے پکارا جاتا تھا لیکن بعد میں وہ بیرم خان کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ مغل تاریخ میں بیرم خان کا نام انتہائی اہمیت کا حامل ہے بلکہ اس کے بغیر مغل تاریخ کا تذکرہ بے معنی ہے۔


عبدالحفیظ ظفرؔ

 


صدر ٹرمپ کی میل ملاقاتیں نہیں، بیانیہ اہم ہو گا : خالد المعینا

$
0
0

صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر ہفتہ کی صبح الریاض پہنچ گئے ہیں۔ وہ جب واشنگٹن سے روانہ ہوئے تو وہاں ایک غوغا آرائی جاری تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں خواہ کوئی کچھ ہی کہے لیکن وہ ایک ایسے شخص ہیں جو اپنے دل اور دماغ سے بولتے ہیں۔ انھوں نے انتخابات کے دوران میں مختلف موضوعات پر جو بلند آہنگ گفتگو کی تھی اور جو بلند بانگ دعوے کیے تھے، اس پر بہت سے لوگ تشویش میں مبتلا ہو گئے تھے۔ انھوں نے میکسیکیوں اور مسلمانوں کے بارے میں جو کچھ کہا،اس پر امریکا کے مختلف حلقوں میں پائی جانے والی تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔

ان کے مسلمانوں کے بارے میں بیانات سے مسلم دنیا میں بہت سے لوگوں میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی تھی جبکہ ان کے انتخابی نعرے بہت سے لوگوں کو بھائے بھی تھے۔ ان کے اس بیان :’’ میرے خیال میں اسلام ہم سے نفرت کرتا ہے‘‘ ، سے کروڑوں مسلمانوں کے دل دُکھے تھے۔ لیکن آج جب وہ سعودی سرزمین پر اترے ہیں تو ہمیں حقیقی معنوں میں یہ یقین کرنا ہو گا کہ انھوں نے جو کچھ کہا تھا ، وہ سب کچھ ایک انتخابی مہم کا حصہ تھا۔ وہ بہت سے مسلم لیڈروں سے گفتگو کرنے والے ہیں اور وہ بھی ان کی اس گفتگو کے منتظر ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ قیاس یہ ہے کہ وہ امن اور رواداری کی ضرورت پر زور دیں گے اور یہ کہیں گے کہ لوگوں کو اسلام کو دہشت گردی سے نہیں جوڑنا چاہیے۔

اس موقع پر انھیں کسی اکھڑپن کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور انتہا پسندی کی تمام شکلوں کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔ انھیں دوٹوک انداز میں اسلام فوبیا کو مسترد کرنا چاہیے اور اس کی تبلیغ اور اس پر عمل پیرا ہونے والوں کی مذمت کرنی چاہیے۔ یہ سعودی عرب کا ایک کریڈٹ ہے کہ اس نے بڑی تعداد میں عرب اور مسلمان لیڈروں کو ایک چھتری تلے اکٹھے کیا ہے تاکہ امریکی صدر سے بات کی جا سکے۔ مشرق وسطیٰ کو اپنے داخلی مسائل اور بیرونی مداخلت سے نمٹنے کی صلاحیت نہ ہونے کی بنا پر بھاری قیمت چکا نا پڑی ہے۔ یہاں بہت سا خون بہ چکا ہے۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کو جو بنیادی ایشوز درپیش ہیں ،ان میں عراق ،شام اور خطے کے دوسرے ملکوں میں نظم ونسق کی بحالی پہلے نمبر پر ہے۔ تاہم اس مقصد کے لیے توپوں کو خاموش کرانا ہو گا اور لوگوں کی امنگوں اور خواہشات کا احترام کرنا ہو گا۔

بڑے تصفیہ طلب تنازعات میں سے مسئلہ فلسطین اور فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قبضہ سب سے نمایاں ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی ہر قرارداد کو مسترد کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس دیرینہ تنازع کے حل کے لیے امریکا ایک دیانت دار بروکر کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ ہر کسی کی داد وتحسین کے مستحق ٹھہریں گے اگر وہ اسرائیل کو اس بات پر آمادہ کر لیتے ہیں کہ وہ قبضے اور جبر واستبداد کو جاری رکھ کر دنیا کی نظروں میں اچھا نہیں بن سکتا ہے۔ اس صورت حال میں ان کا بیانیہ ان کی دورے کی مصروفیات اور میل ملاقاتوں سے زیادہ طاقت ور اور تعمیری ہو گا۔ دنیا بھر کے امن پسند لوگ امریکا کی مسلم دنیا کے ساتھ شراکت داری کو کامیابی سے ہم کنار ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔

خالد المعینا
خالد المعینا اخبار سعودی گزٹ کے ایڈیٹر ایٹ لارج ہیں۔

 

کیا میں کوئی جانور تھا ؟ کشمیری نوجوان کا سوال

$
0
0

گذشتہ ماہ ایک کشمیری نوجوان کو جیپ سے باندھ کر ڈھال بنانے والے بھارتی فوج کے میجر نیتن گوگوئی کو خصوصی سرٹیفکیٹ سے نوازے جانے کے بعد ان کی بے حسی کا نشانہ بننے والے فاروق ڈار کا صرف ایک ہی سوال ہے کہ کس ملک کا قانون انسانوں کا ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے؟
بھارتی ویب سائٹ ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے فاروق ڈار کا کہنا ہے کہ 'اگر ایسا کرنا بھارت کے کسی قانون کے تحت درست ہے تو میں کیا کہوں؟'

بھارتی ویب سائٹ سے گفتگو میں کشمیری نوجوان نے کہا 'میں ڈنڈا اٹھا کر اُن لوگوں کے پیچھے نہیں جا سکتا جو میرے ساتھ غیرانسانی سلوک کرنے والے فوجی افسر کو اعزاز سے نواز رہے ہیں'۔ تاہم فاروق ڈار کا انسانیت کے بارے میں اٹھایا جانے والا سوال کافی کڑا ہے، وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ 'کیا میں کوئی بھینس تھا یا بیل تھا؟، کیا میں کوئی جانور تھا جو مجھے جیپ کے بونٹ کے آگے باندھ کر نمائش کی گئی؟'یاد رہے کہ گذشتہ روز فاروق ڈار کو ڈھال بنا کر جیپ سے باندھنے والے میجر گوگوئی کو بھارتی چیف آف آرمی اسٹاف نے علیحدگی پسندوں کے خلاف آپریشنز میں مستقل کوششوں پر ایوارڈ سے نوازا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی آرمی کے جنرل بپن راوت نے رائفل برانچ کے میجر گوگوئی کو کمنڈیشن کارڈ دیا تھا۔

بھارتی فوج کے مطابق میجر گوگوئی کو ایوارڈ دینے کی وجہ نوجوان کو جیپ سے باندھنا نہیں تاہم حزب اختلاف کی جماعت نیشنل کانگریس کے مطابق میجر کو اس اعزاز سے نوازا جانا اس حرکت کو نظرانداز کرنے اور حمایت کے مترادف ہے۔ اعزاز کے اعلان کے بعد کانگریس کے ترجمان جنید مٹو کا کہنا تھا، 'آپ اپنی عدالت کے فیصلے کا انتظار بھی نہیں کر رہے اور ایسے شخص کو نواز رہے ہیں جس کے خلاف انسانی ڈھال استعمال کرنے کی تحقیقات جاری ہیں'۔ ان کا مزید کہنا تھا 'معاملے کی انکوائری محض دھوکا ہے اور یہ حرکت کرنے والے افسر کو وزارت دفاع کی جانب سے کلین چٹ دی جا چکی ہے'۔

حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کے مطابق میجر کو دیا جانے والا اعزاز کشمیریوں کے لیے کسی حیرانی کی بات نہیں، 'بھارتی فوج طویل عرصے سے کشمیر میں ایسا ہی کررہی ہے'۔ دوسری جانب فاروق ڈار کے مطابق ان کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو گئی ہے، جس کی وجہ جسمانی گھاؤ سے زیادہ ذہنی صدمہ ہے۔ ان کا کہنا تھا، 'میرے پیروں اور پٹھوں میں اب بھی درد ہوتا ہے لیکن سب سے برا یہ ہے کہ میں اپنے گاؤں سے نکلنے کے قابل نہیں رہا، اگر مجھے گھر سے باہر بھی نکلنا ہو تو کسی کو ساتھ لے کر نکلتا ہوں'۔ گذشتہ ماہ 9 اپریل کو لوک سبھا کے ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلنے والے فاروق ڈار کے ساتھ پیش آنے والے اس غیرانسانی واقعے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ 'میرا اپنے آپ سے وعدہ ہے کہ آئندہ انتخابات کے دن کبھی گھر سے باہر نہیں نکلوں گا'۔ یاد رہے کہ 9 اپریل کو سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی، جس میں ایک کشمیری نوجوان کو بھارتی فوج کی جیپ کے بونٹ سے باندھ کر گشت کیا جا رہا تھا۔

جس نوجوان کو جیپ سے باندھ کر انسانی ڈھال بنائی گئی تھی، اس کی شناخت 26 سالہ فاروق احمد ڈار کے نام سے ہوئی تھی، جنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ فوجی اہلکاروں نے انھیں موٹر سائیکل سے اتارا، اپنی گاڑی کے بونٹ کے سامنے باندھا اور کئی گھنٹوں تک گاؤں گاؤں گھماتے رہے۔ بھارتی میجر نیتن گوگوئی نے کشمیری نوجوان فاروق ڈار کو جیپ سے باندھ کر 10 کلو میٹر تک گشت کیا تھا اور اُس رات جب وہ گھر واپس آئے تو ان کا الٹا ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا۔

قومی ایئر لائن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

$
0
0

پی آئی اے، پاکستان کی پہچان اور شناخت ہے۔ دنیا بھر میں،وہ اب ایسی بد انتظامی اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوئی ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی خبر میڈیا میں آتی ہے جس کا تاثر منفی ہی ہوتا ہے۔ اسلام آباد سے لندن اڑان بھرنے والے جہاز کی تلاشی لینے کے دوران بیس کلو ہیروئن برآمد ہونا انتہائی قابل افسوس ہے، کیونکہ یہ واقعہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ برطانیہ کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر بھی چند روز قبل پی آئی اے جہاز کے خفیہ خانوں سے مبینہ طور پر ہیروئن برآمد ہونے کی خبر آئی تھی‘ تسلسل سے ایسے واقعات کا سامنے آنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ عمل نہ جانے کتنے عرصے سے جاری تھا، اگر ہیتھرو ائیرپورٹ کا واقعہ نہ ہوتا تو حکام نہ جاگتے اور انتہائی ہوشیاری، چالاکی اور ملی بھگت سے اسمگلنگ کا عمل جاری رہتا۔

انتظامیہ کو تو ہوش اب آیا ہے، ہیروئن برآمدگی کے واقعے کے بعد پی آئی اے کی بیرون ملک جانیوالی تمام پروازوں کی روانگی سے قبل مکمل تلاشی لینے کا فیصلہ ہوا، ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس، اینٹی نارکوٹکس فورس اور انجینئرنگ کے ماہرین نے تلاشی لی تو طیارے کے عقبی حصے کے اندر دو پیکٹوں میں بند ہیروئن برآمد ہوئی۔ سیکیورٹی ایجنسیاں اور انجینئرنگ کے ماہرین کی ڈیوٹی میں یہ شامل نہیں تھا کہ وہ طیاروں کی تلاشی معمول کے مطابق لیتے، پی آئی اے کے جہاز پہلے کیوں بغیر چیکنگ کے روانہ ہوتے رہے، آنکھیں کیوں بند تھیں اور اب چیکنگ کے نام پر مسافروں کو انتظار کی اذیت سے دوچار کرنا کہاں کا انصاف ہے؟

اب اے این ایف نے ایئرپورٹ سے پی آئی اے کیٹرنگ، ایئرپورٹ اور طیارے پر صفائی کا کام کرنے سمیت دیگر عملے کے 13 اراکین کو تحویل میں لے کر وسیع پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ تحقیقات کی اہمیت اپنی جگہ اور اس کی افادیت سے انکار بھی ممکن نہیں، لیکن سادہ سوال ہے کہ جن کی لاپرواہی اور ٰغفلت سے یہ سارا کھیل جاری رہا وہ کب پکڑ میں آئیں گے، محکمے کے ملازمین کی مدد اور اعانت کے بغیر یہ سب کچھ ممکن نہیں۔ اگر سارے ملزم پکڑے بھی جائیں تو جگ ہنسائی کا ازالہ ممکن نہیں، یہ معاملہ بہت زیادہ سنگین ہے کیونکہ اس سے ملک کی عزت اور وقار وابستہ ہے۔ ملکی عزت اور وقار کو داؤ پر لگانے والے مذموم عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی ہونی چاہیے اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے جو دوسروں کے لیے باعث عبرت ہو۔ وہی اس امر کی تحقیق بھی کی جانے چاہیے کہ یہ عمل کتنے عرصے سے جاری ہے اور اس میں کون سے عناصر شامل ہے۔

اداریہ ایکسپریس نیوز


کامیابی کے سنہری اصول

$
0
0

کامیابی کا حصول اور زندگی کی خوشیاں حاصل کرنا ہر انسان کی خواہش اور حق ہے، لیکن اِس پُرعزم سفر کیلئے مرحلہ وار کوششوں کا ایک سلسلہ ہے جسے طے کر کے ہی انسان کامیابی کی سند پاتا ہے، ایسے ہی چند بنیادی اصول اور نکات درج میں تحریر کئے جارہے ہیں جو مایوس اور دل برداشتہ انسانوں کیلئے تبدیلی کی بنیاد ثابت ہو سکتے ہیں۔

کامیابی نام ہے خوشی کا
خوش رہنا اور مسکرانا سیکھیے اور شکایات کرنا چھوڑ دیں۔ سوچیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں اور جو آپ سے پیار کرتے ہیں، وہ کیا چاہتے ہیں؟ اچھی طرح سوچیں اور فیصلہ کریں اور پھر محنت شروع کیجئے۔ کوئی کچھ بھی کہے، کچھ بھی سوچے، حالات کیسے ہی ہوں، محنت کرتے رہیں۔ وقت خود آپ کو کامیاب ثابت کر دے گا۔

سکون، آسودگی اور خوشی
کچھ لوگ پیسے کے حصول کو کامیابی سمجھتے ہیں تو کچھ روحانی معاملات کو، حالانکہ کامیابی اِن دونوں کے میزان کا نام ہے۔ اِس اہم نکتے کو سمجھیے۔

کامیابی کا راز، آپ کا اپنا رویہ
یاد رکھیے، کوئی شخص اُس وقت تک ظاہری کامیابی حاصل نہیں کرسکتا، جب تک وہ ذہنی کامیابی حاصل نہیں کر لیتا۔ کامیاب ہونے کا یقین کامیابی کی جانب پہلا اور لازمی قدم ہے۔ آپ کا رویہ آپ کا راہنما ہے۔

سیکھنا، سمجھنا، لکھنا، علم کی بنیاد ہے
رویے کے بعد علم کامیابی کی کنجی ہے۔ کسی بھی کام پر دسترس اُسی وقت حاصل کی جا سکتی ہے، جب اُس کے بارے میں مکمل علم ہو۔ علم کا حصول ممکن ہے سیکھنے سے۔ کسی دوسرے کے تجربے سے فائدہ اُٹھانا اور اُسے سننا بھی ایک طرح سے سیکھنا ہے۔ لکھنے یا بیان کرنے سے علم مزید پختہ ہو جاتا ہے۔

رحمت، محنت، کامیابی
یقیناً اکثر حالات موافق نہیں ہوتے، نتائج اُمیدوں کے خلاف نکلتے ہیں مگر یہی صبر، برداشت اور مستقل مزاجی کی منزل ہے۔ محنت اِس منزل پر رکتی نہیں آگے بڑھتی ہے اور جو بڑھ گیا، وہ کامیاب ہوا۔

ناکامیاں، کامیابی کا زینہ ہیں
اکثر افراد ناکامیوں سے ڈر جاتے ہیں، پیچھے ہٹ جاتے ہیں یا راستہ بدل لیتے ہیں۔ یاد رکھیں، ناکامیاں، کامیابیوں کی بنیاد ہیں۔ اِن سے سیکھیں، معاملات و عادات کو صحیح کیجئے اور آگے بڑھیں۔

جہدِ مسلسل، کامیابی
کامیابی پر خوش ہونا اچھی بات ہے بلکہ خوشی ہی کامیابی ہے، مگر کامیابی کو حتمی سمجھنا غفلت اور بے وقوفی ہے۔ زندگی جہدِ مسلسل ہے، یہ نام ہے کامیابیوں اور ناکامیوں کے سلسلے کا اور اِس اصول کو فراموش مت کیجئے۔

اُٹھو، کامیابی کے لئے
سوچنا اچھی بات ہے۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا بہت اچھی بات مگر بہت زیادہ سوچنا فیصلوں کو کمزور کر دیتا ہے۔ وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے، کر گزرو۔ نتیجے میں جیت جاؤ گے یا سیکھ جاؤ گے۔

کامیاب انسان، روشن ستارے
کامیاب انسان، روشن ستاروں کی طرح ہوتے ہیں۔ جن کی روشنی سے ہزاروں دلوں میں اُمید کی کرنیں پیدا ہوتی ہیں۔ اِس لئے کامیاب انسانوں سے سیکھئے اور اگر ممکن ہے تو اُن کی صحبت اختیار کیجئے۔

انجینئر شاہد قادری
  

سوشل میڈیا کی شرانگیزی روکنا ضروری ہے ؟

$
0
0

تنقید اور تذلیل میں فرق ہے اور یہ فرق برقرار رہنا چاہیے۔ اعتراض اور دشمنی و بغض ایک جیسے نہیں اس لیے انہیں گڈ مڈ کسی بھی طور پر نہیں کیا جانا چاہیے۔ رائے اور بہتان تراشی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں اور انہیں مختلف ہی دیکھا جانا چاہیے۔ توہین اور سوال ایک جیسے نہیں، اس لیے توہین کو سوال یا کسی دوسرے بہانے کو justify نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں ایک طبقہ آزادی رائے کے نام پر توہین، بہتان تراشی، تذلیل، بغض و دشمنی سب کو جائز قرار دیتا ہے۔ ہمارا آئین اور ملکی قوانین مذہب، ریاست، ریاستی اداروں اور حتیٰ کہ عام شہریوں کے معاملات میں کچھ ریڈ لائنز واضح کرتا ہے جس کا مقصد آزادی رائے کے حق کو ذمہ داری سے ادا کرنا ہوتا ہے۔ 

کیوں کہ اگر ایسا نہیں ہو گا تو معاشرے میں انتشاراور افراتفری پھیلے گی، خون خرابہ ہو گا، نفرتوں میں اضافہ ہو گا اور لوگ ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جائیں گے۔ ایسی ہی صورتحال سے بچنے کے لیے حکومت کی طرف سے سوشل میڈیا کو سدھارنے کے لیے کچھ عرصے سے کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن ہمارے درمیان موجودایک طبقہ ہے کہ آزادی رائے کے نام وہ سوشل میڈیا کو ہر قسم کا فتنہ و فساد پھیلانے کی آزادی دینے کا حامی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جب توہین مذہب کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ ہوئی تو یہ طبقہ خوش نہ تھا۔ اب فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں اور فوجی قیادت کا مذاق اڑانے والوں کے خلاف جب ایف آئی اے نے پکڑ دھکڑ شروع کی تو پھر شور مچ اٹھا کہ سوشل میڈیا کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایف آئی اے کی طرف سے پکڑے گئے یا پوچھ گچھ کے لیے بلائے گئے افراد میں کچھ واقعی بے قصور ہوں لیکن اکثریت کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ واقعی انہوں نے ریڈ لائنز کراس کیں۔ 

دی نیوزکے سینئر صحافی احمد نورانی کے مطابق پکڑے گئے افراد میں سے کچھ کو تو انہوں نے دو تین سال پہلے ٹیوٹر پر اس لیے بلاک کر دیا تھا کیوں کہ وہ نہ صرف انتہائی خطرناک حد تک دھمکیاں دیتے تھے بلکہ گندی اور غلیظ گالیاں دینے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ نورانی کے مطابق ان افراد کا تعلق تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن سے تھا۔ اب کسی کو ہراساں کرنا، دوسروں کی مائوں بہنوں کو گالیاں دینا، ریاستی اداروں کی ہرزہ سرائی کرنا، عدلیہ کا مذاق اڑانا اور سب سے اہم توہین مذہب جیسی شر انگیزی کرنا کہاں کی آزادی رائے ہے اور اس کا تنقید کے نام پر کیسے تحفظ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تو دوسروں کے نام پر جعلی فیس بک اور ٹیوٹر اکاؤنٹ بنا کر اس جعلسازی کے ذریعے اپنے اپنے ایجنڈے کو پورا کیا جاتا ہے۔ 

کچھ عرصہ قبل مجھے ایک صاحب ملے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ فیس بک کے ذریعے میرے ساتھ رابطہ میں ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ میرا تو کوئی فیس بک اکاونٹ نہ کبھی تھا نہ ہے۔ ان صاحب نے کہا میرے حوالے سے بنائے گئے اس اکاؤنٹ میں تو ایک فرقہ کے خلاف بہت کچھ لکھا جاتا ہے۔ اُن صاحب کی بات سن کر میں ہکا بکا رہ گیا۔ میں نے فوری اپنے ایک دوست کے ذریعے چیک کروایا تو پتا چلا کہ میرے نام سے چھ یا سات فیس بک اکاؤنٹ چل رہے تھے جو سب کے سب جعلی تھے۔ میں نے پی ٹی اے سے رابطہ کیا اور ان تمام فیس بک اکاونٹس کو بلاک کروا دیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد پھر کوئی چار پانچ جعلی فیس بک اکاؤنٹ میرے نام کے کھل گئے جن کو بند کروانے کے لیے حال ہی میں، میں نے دوبارہ پی ٹی اے سے درخواست کی۔ 

یہاں یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اپنی جگہ لیکن اس کا منفی استعمال پاکستان میں خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے جسے روکنے کے لیے حکومت کو ہر حال میں اپنا کردار کرنا پڑے گا جو افراد سوشل میڈیا کے ذریعے کسی بھی قسم کی فتنہ انگیزی میں مصروف ہیں انہیں پکڑ کر سزا دی جائے تا کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں کو آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے خیالات شئیر کرنے کا پابند بنایا جا سکے۔ بغیر ذمہ داری کے آزادی رائے کا کوئی تصور نہیں۔ سوشل میڈیا کو سدھانے کے سلسلے میں وزیرداخلہ کا کردار بہت مثبت رہا جس پر انہیں سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کو فری ہینڈ دینے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اپنے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو کھلی چھٹی دے دیں کہ وہ اپنے پروپیگنڈہ اور جھوٹ کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے جیسے جی چاہے سازشیں بنتے رہیں۔ اپنے آپ سے اس سے بڑی دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے؟؟

انصار عباسی

عالمی عدالت میں بھارت نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟

$
0
0

گزشتہ دنوں عالمی عدالت انصاف کی جانب سے بھارتی درخواست پر حتمی فیصلے تک کلبھوشن کی پھانسی روکے جانے اور ویانا کنونشن کے تحت قونصلر رسائی دینے کے فیصلے سے پاکستان میں یہ تاثر ابھرا کہ عالمی عدالت کا فیصلہ پاکستان کے خلاف ہے اور پاکستان کے موقف کو عالمی عدالت میں پذیرائی نہیں مل سکی۔ دوسری طرف بھارت میں عالمی عدالت کے فیصلے کو بھارتی فتح اور پاکستان کی شکست سے تعبیر کیا گیا اور کئی شہروں میں جشن منایا گیا۔ عالمی عدالت میں بھارت نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ پاکستان ویانا کنونشن کا Signatory ہے جس کے تحت وہ غیر ملکی قیدی کو قونصلر رسائی دینے کا پابند ہے جبکہ پاکستان کا موقف تھا کہ بھارتی شہری کلبھوشن عام قیدی نہیں بلکہ دہشت گرد اور جاسوس ہے جس کے ہاتھ پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، اِس لئے وہ ویانا کنونشن کے تحت قونصلر رسائی کا حق نہیں رکھتا۔

پاکستان میں اپوزیشن نے عالمی عدالت کے فیصلے کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہوئے فیصلے کو نواز، جندل ملاقات کا نتیجہ قرار دیا اور وزیراعظم کو ملکی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا جبکہ کچھ ٹی وی اینکرز نے عالمی عدالت میں پاکستان کی پیروی کرنے والے وکیل کو بھی نہیں بخشا اور اُنہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ خاور قریشی عالمی عدالت میں پاکستان کے کیس کا صحیح طرح سے دفاع نہیں کر سکے۔ میرے خیال میں عالمی عدالت کے فیصلے کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرانا اور خاور قریشی کی صلاحیتوں پر شک کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ اس سلسلے میں جب میں نے لندن میں مقیم اپنے دوست نسیم احمد جو ایک معروف وکیل ہیں، سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ خاور قریشی کے بارے میں کیا جانے والا پروپیگنڈہ درست نہیں، خاور قریشی نے برطانیہ کی مشہور کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی اعلیٰ ترین بیرسٹر کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور وہ اِسی یونیورسٹی میں کافی عرصے تک تدریس سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں جبکہ وہ قانون پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں اور کوئن کونسل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خاور قریشی 1993ء میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں کیس کی پیروی کرنے والے سب سے کم عمر وکیل تصور کئے جاتے تھے جبکہ وہ 2013ء میں برطانوی ہائیکورٹ کے نائب جج بھی رہ چکے ہیں۔

ہالینڈ کے شہر ہیگ میں قائم اقوام متحدہ کی عالمی عدالت برائے انصاف (مستقل کورٹ برائے ثالثی ) اپنے تاریخی فیصلوں کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہے۔ اس عدالت کا قیام 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے بعد عمل میں لایا گیا تھا اور عدالت کے ججوں کی تعداد 15 ہوتی ہے جنہیں اقوام متحدہ مقرر کرتی ہے۔ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 2011ء میں پشاور ہائیکورٹ کی خاتون جج خالدہ راشد بھی اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں جج کے فرائض انجام دے چکی ہیں۔ اس سلسلے میں ہیگ میں مقیم میرے دوست شاہین سید جو عالمی عدالت انصاف سے منسلک ہیں، نے بتایا کہ ہیگ میں قائم اس عالمی عدالت میں صرف دو ممالک کے مابین تنازعات لائے جا سکتے ہیں اور انفرادی تنازع کو عالمی عدالت نہیں لایا جا سکتا۔ اُن کے بقول عالمی عدالت کے قواعد کے تحت اگر کسی ملک کیلئے تنازع کے حل کے تمام دروازے بند ہو جائیں تو وہ عالمی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔

شاہین سید نے بتایا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے پاس سزائے موت کے خلاف صدر مملکت اور اعلیٰ عدلیہ سے رحم کی اپیل کرنے کا آپشن موجود تھا، عالمی عدالت انصاف کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب جاسوسی کے حوالے سے اس نوعیت کا کوئی کیس لایا گیا اور کیس کی سماعت میں حیرت انگیز طور پر جلد بازی سے کام لیا گیا کیونکہ عام طور پر عالمی عدالت انصاف میں کیس کی سماعت میں طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت کی جانب سے کلبھوشن یادیو کی سزا کے خلاف دائر کئے گئے کیس کی سماعت کرنے والے ججز میں اکثریت یہودیوں کی ہے جبکہ فیصلہ سنانے والے جج رونی ابراہام جو عالمی عدالت انصاف کے صدر ہیں، بھی فرانسیسی نژاد یہودی ہیں، اسی طرح بینچ میں شامل جج دلویر بھنڈاری کا تعلق بھارت سے ہے جنہوں نے عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد اسے بھارت کی سفارتی کامیابی قرار دیا۔

ایک تجزیہ نگار کی حیثیت سے میرے نزدیک بھارت نے کلبھوشن کے کیس کو عالمی عدالت لے جا کر بہت بڑی غلطی کی ہے جس سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ کلبھوشن کوئی عام شہری نہیں بلکہ بھارتی جاسوس اور دہشت گرد ہے جسے بھارت اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتا رہا۔ دہشت گرد کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد شروع میں بھارت نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ کلبھوشن کا بھارت سے کوئی تعلق نہیں مگر بعد میں بھارت نے اسے اپنا شہری تسلیم کر لیا۔ کلبھوشن کے معاملے میں بھارت کے عالمی عدالت جانے کی بڑی وجہ بھارتی حکومت پر عوام اور اسٹیبلشمنٹ کا دبائو تھا کہ حکومت، کلبھوشن کو تنہا نہ چھوڑے اور اُس کی رہائی کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں جس پر بھارتی وزیر خارجہ کو یہ بیان دینا پڑا کہ ’’بھارت کلبھوشن کی رہائی کیلئے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔‘‘ شاید اسی دبائو اور بوکھلاہٹ میں بھارت نے عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا حالانکہ عام طور پر دو ممالک میں جاسوسوں کی رہائی کیلئے اِس طرح کا طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا بلکہ اِن ممالک کے مابین جاسوسوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ امریکہ اور روس میں جاسوسوں کے تبادلے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد پاکستانی عوام یقینا یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ایک بھارتی جاسوس جس کے ذریعے بھارت پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا تھا، اب اُسے عالمی عدالت کی پروٹیکشن بھی حاصل ہو گئی ہے۔ میرے خیال میں اگر پاکستان کلبھوشن کو قونصلر رسائی دیتا ہے تو قونصلر رسائی کے بعد بھارت یہ موقف اختیار کرے گا کہ ’’کلبھوشن کا اعتراف جرم پاکستانی ایجنسیوں کے تشدد کا نتیجہ ہے۔‘‘ ایسی صورت میں عالمی عدالت، حکومت پاکستان سے کلبھوشن کے کیس کی اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے غیر جانبدارانہ ٹرائل کروانے کی درخواست کر سکتی ہے مگر ماضی میں اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ کئی ممالک کی اعلیٰ عدلیہ عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد سے انکار کر چکی ہیں جیسا کہ امریکہ میں قید میکسیکو کے مجرموں کے کیس میں عالمی عدالت کے فیصلے کو امریکی عدلیہ نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

عالمی عدالت انصاف کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ عدالت اپنے فیصلے پر عملدرآمد کی طاقت نہیں رکھتی، اس لئے عالمی عدالت کو ایسے شیر سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کے دانت نہیں ہوتے۔ کلبھوشن کیس کے معاملے میں بھی اگر عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوا تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ بھارتی دہشت گرد کلبھوشن کو نہ قونصلر رسائی مل سکے گی اور نہ ہی وہ کبھی بھارت واپس جا سکے گا۔ کلبھوشن کے معاملے کو عالمی عدالت میں لے جانا بھارت کی بہت بڑی غلطی تھی جس کا تمام تر فائدہ پاکستان کو پہنچا کیونکہ بھارتی اقدام سے پاکستان کو یہ موقع ہاتھ آ گیا ہے کہ اب پاکستان مسئلہ کشمیر کے تنازع کو عالمی عدالت لے جا سکتا ہے، ایسی صورت میں بھارت کیلئے یہ کہنا ممکن نہ ہو گا کہ کشمیر کا معاملہ عالمی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا کیونکہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین بہت بڑا تنازع ہے جو کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سرد خانے کی نذر ہے۔ اگر پاکستان مسئلہ کشمیر کو عالمی عدالت میں لے کر گیا تو یہ معاملہ عالمی سطح پر اہمیت اختیار کرجائے گا جو یقیناً پاکستان کی بہت بڑی سفارتی فتح ہوگی۔

مرزا اشتیاق بیگ

سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا نشہ

$
0
0

نشہ کسی چیز کا ہو برا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم ایک نشے کی صورت اختیار کر چکے ہیں اور اس سے سب سے زیادہ نوجوان متاثر ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ان کی زندگیوں پر بڑی تیزی سے اثر انداز ہوا ہے کیونکہ اسے سبک رفتاری سے مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس سے ان کی دماغی صحت، رویے اور سرگرمیاں سب متاثر ہو رہے ہیں۔ان باتوں کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے اثرات پر ایک نئی تحقیق کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس کے مطابق نوجوانوں کی دماغی صحت کے لیے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم انسٹاگرام سب سے نقصان دہ ہے۔ نیز مفید ترین یوٹیوب ہے۔ یہ بات برٹش رائل سوسائٹی کی ایک حالیہ رپورٹ میں کی گئی ہے۔

سوسائٹی کی چیف ایگزیکٹو شرلی کرامر کے مطابق سوشل میڈیا کا شمار سگریٹ اور الکحل سے زیادہ نشہ آور چیز کے طور پر کیا جاتا ہے اور یہ لت نوجوانوں کی زندگیوں میں کچھ اس انداز سے سرایت کر چکی ہے کہ جب ان کی دماغی صحت کے مسائل پر بات کی جاتی ہے تو اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ان کے مطابق انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ کو دماغی صحت لیے سب سے زیادہ نقصان دہ اس لیے سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ تصویروں پر بہت زیادہ مرکوز ہیں اوران سے نوجوانوں میں اپنے اندر کسی کمی کا احساس ہوتا ہے اور وہ فکر مند رہنے لگتے ہیں۔ اس تحقیق میں برطانیہ کے تقریباً 15 سو نوجوانوں سے انٹرویوز کیے جن کی عمریں 14 سے 24 سال کے درمیان تھیں۔

تحقیق کے مطابق سب سے مثبت رائے یوٹیوب کے بارے میں تھی جب کہ اس کے بعد ٹوئٹر اور فیس بک کا نمبر تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے نپٹنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں آگاہی پیدا کی جائے اور مختلف پلیٹ فارمز پر انتباہ جاری کیا جائے۔ دماغی صحت کے لیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں احتیاط برتی جائے۔

ر۔ع


 

اٹھائیس 28 مئی یوم تکبیر : قومی تاریخ کا یادگار دن جب پاکستان ایٹمی طاقت بنا

$
0
0

ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ 19 سال قبل ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان نے مسلم دنیا کی پہلی اور دنیا کی 7 ویں ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ ایٹمی دھماکوں کے دن کو 'یوم تکبیر'کا نام دیا گیا۔ دھماکوں کے بعد 1999 میں ہندوستان کے ساتھ پاکستان کی کارگل جنگ جاری تھی، جس کی وجہ سے یوم تکبیر بہت زیادہ جوش و خروش سے منایا گیا، مگر اکتوبر 1999 میں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور ملک میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت آ گئی تھی، جس کے بعد یوم تکبیر اس جوش و جذبے سے نہیں منایا جا سکا۔

دوسری جانب بولٹن آف اٹامک سائنٹسٹ نامی ادارہ یہ بتا چکا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد پڑوسی ملک ہندوستان کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ادارے کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے پاس موجود ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 120 ہے جب کہ ہندوستان کے پاس موجود جوہری ہتھیاروں کی تعداد 110 ہے۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں نے ہی پہلی مرتبہ 1998 میں تین تین ہفتوں کے وقفے سے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کیے تھے۔ 2014ء میں ایٹمی مواد کو لاحق خطرات کی سیکیورٹی کیلئے اقدامات کے حوالہ سے انڈیکس میں پاکستان کا درجہ ہندوستان سے بھی بہتر ہے۔
2014 کے این ٹی آئی انڈیکس میں 9 ایٹمی مسلح قوتوں میں سے زیادہ تر کا درجہ وہی ہے، اس میں صرف ایک پوائنٹ کی کمی بیشی ہے جبکہ 2012 کے مقابلہ میں پاکستان کے ایٹمی مواد کی سیکیورٹی کے حوالہ سے تین درجے بہتری آئی ہے جو کہ کسی بھی ایٹمی ملک کی بہتری میں سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان کا ایٹمی مواد کے قابل استعمال ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے حوالہ سے 25 ممالک میں سے 23 واں درجہ رہا ہے جبکہ چین کوانڈیکس میں 20 ویں درجہ پر رکھا گیا پاکستان کا فہرست میں 22 واں نمبر تھا۔

پاکستان کے جوہری پروگرام کے خالق اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مطابق پاکستان کا جوہری پروگرام امریکا اور برطانیہ سے زیادہ محفوظ ہے۔
ڈان نیوز کے پروگرام "فیصلہ عوام کا"میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انکشاف کیا تھا کہ نوازشریف اور اس وقت کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز دھماکوں کے حق میں نہیں تھے اور ملکی مفاد میں انہیں ایسا کرنے کے لیے دونوں کو راضی کیا گیا۔
 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live