Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

چکوال کا چن جی نیشنل پارک

0
0

اپنی نوعیت کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے منفرد نیشنل پارک چن جی نیشنل پارک ہے۔ 6000 ہیکٹرز سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا چن جی نیشنل پارک ضلع چکوال میں تلہ گنگ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر سلسلۂ کوہ نمک کے بالکل درمیان میں واقع ہے یہ پورا علاقہ خشک اور بنجر پہاڑیوں پر مشتمل ہے اسے جولائی 1987ء میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ اس سلسلۂ کوہ کو نیشنل پارک قرار دینے کا مقصد یہ تھا کہ یہاں کے پہاڑوں میں انسانی ارتقاء کی پوری رکاز یعنی فاسلز کی شکل میں موجود ہیں انہیں محفوظ کیا جانا چاہیے۔

ارضیائی تحقیق کے لحاظ سے ان رکاز کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ چن جی نیشنل پارک کے پہاڑوں میں زمانہ ما قبل تاریخ کے انسان کے متحجر ڈھانچوں کے علاوہ انسانوں کے ارتقائی ادوار، بن مانس، اور ایپ بندر کے متحجر ڈھانچے موجود ہیں۔ اس دور میں جو دیگر جانور زرافہ گینڈے وغیرہ اور نباتات پائی جاتی تھیں ان کے بھی رکاز دستیاب ہوئے ہیں۔ چن جی نیشنل پارک تک پہنچنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے دنیا بھر میں جتنے بھی نیشنل پارکس ہیں ان میں سے چن جی نیشنل پارک بلاشبہ منفرد ترین ہے۔  


فوج‘ نواز شریف اور دائروں میں سفر

0
0

جناب نواز شریف کا دائروں میں سفر جاری ہے تاریخ مسلسل اپنے آپ کو دہرائے
جا رہی ہے المیہ یہ ہے کہ عالم فاضل مشیروں کے ہوتے ہوئے بھی کوئی مائی کا لعل جناب نواز شریف کو کسی قسم کا کوئی صائب مشورہ نہیں دے سکتا چند ماہ ہی میں وہ ایک بار پھر فوج کے مقابل کھڑے ہیں بھارتی فوج نہیں جناب پاکستان کی مسلح افواج ان کا ہدف ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سب جرنیل غلط، چیف جسٹس باطل 'دو صدور واجب القتل اور ہمیشہ نواز شریف حق پر ہوں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔

1993 میں نواز شریف پارلیمان کی حرمت کا علم لے کر بوڑھے غلام اسحق کے خلاف میدان میں نکلے تھے اور مزاحمت کا نشان بن کر ابھرے اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کے حریفان سیاست کہتے ہیں کہ دھن 'دھونس اور دھاندلی کے مرکب سے تیار ہونے والی شمشیرِ خار شگاف کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکا غلام اسحق کے بعد چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی ماورائے آئین برطرفی، فاروق لغاری کا ایوان صدر سے افسوسناک اخراج پارلیمان کی بالادستی کے نام پر ہوا تھا جنرل آصف نواز کے ساتھ جناب نواز شریف پنجہ آزمائی شروع کر چکے تھے لیکن ان کی ناگہانی موت نے انہیں اپنی پسند کا آرمی چیف مقرر کرنے کا موقع فراہم کر دیا باوقار اور شاندار جنرل وحید کاکڑ ان کا انتخاب تھے جنہیں بعدازاں غلام اسحق خان کے ساتھ جاری محاذ آرائی کے دوران جناب نواز شریف سے مجبوراً استعفیٰ طلب کرنا پڑا تھا.
جنرل کاکڑ کے بعد شریف النفس جہانگیر کرامت آئے اور وہ مستقبل میں کسی حادثے سے بچنے کے لئے قومی سلامتی کمیٹی تشکیل دینے کا بے ضرر مشورہ دینے کا جرم کر بیٹھے وہ ضرورت سے زیادہ شریف آدمی تھے جمہوریت کے تسلسل کے لئے مستعفی ہو گئے پھر جنرل مشرف آئے جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ کا المناک باب ہے قید اور جلاوطنی سے جناب نواز شریف نے یہ سیکھا کہ امریکہ اس دنیا کا خدا ہے اور آل سعود کا ساتھ ہو تو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ برادرم روف طاہر کی وجہ سے اس کالم نگار کو بھی سرور محل کے ایک عشائیے میں مہمانِ خصوصی بننے کا شرف حاصل ہوا تھا وہاں ہونے والی گفتگو اور اس کا معیار دیکھ کر شدید دکھ ہوا تھا اچھی طرح یاد ہے کہ شہباز شریف اور سہیل ضیا بٹ حیران کن حد تک نہایت معقول باتیں کر رہے تھے۔ اس جلاوطنی کے سفر میں انہیں ازلی دشمن بھارت کے شان و شکوہ نے بھی بری طرح متاثر کیا ہے جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔

جناب نواز شریف اس وقت سب سے تجربہ کار سیاستدان ہیں انہیں تیسری بار وزیراعظم بننے کا شرف حاصل ہے اسی طرح انہیں چار فوجی سربراہ مقرر کرنے کا غیر معمولی اعزاز بھی حاصل ہو چکا ہے۔ لیکن حیرتوں کی حیرت یہ ہے کہ وہ یہ سادہ سی حقیقت سمجھ نہیں پائے کہ فوج کا سربراہ فرد واحد نہیں ہوتا وہ سب سے طاقتور ادارے کا نمائندہ ہوتا ہے کار سرکار میں اس کی ذاتی پسند و ناپسند کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی جنرل قمر جاوید باجوہ کا تقرر بڑی چھان بین کے بعد کیا گیا تھا کہ کسی قسم کے سیاسی عزائم کا شائبہ تک نہ مل سکا تھا لیکن آرمی چیف حسن نواز کو بھی بنا دیا جائے تو جناب نواز شریف شاید اس کے ساتھ بھی نباہ نہیں کر سکیں گے کہ وہ بھی ادارہ جاتی معاملات میں فوج کی حکمت عملی پر عمل درآمد کا پابند ہو گا.

جنرل باجوہ پر تو تقرر سے پہلے دباو میں لانے کی حکمت عملی کے تحت مولوی ساجد میر کے ذریعے انتہائی رکیک حملہ کروایا گیا جو گذشتہ برسوں سے جناب نواز شریف کی عنایات کی وجہ سے سینٹ ایوان بالا میں قوم کی رہنمائی فرما رہے ہیں وہ تو بھلا ہو بابا جی انور باجوہ اور افضل بٹ کا کہ انہوں بروقت مداخلت کر کے یہ گھناونی سازش ناکام بنا دی اور آج ساری قوم ڈان لیکس تنازعے کی وجہ سے سولی پر لٹکی ہوئی ہے ایک بقراط جس کے سر پر لاکھوں افغانوں کا خون ناحق 50 ہزار پاکستانیوں اور 10 ہزار فوجی جوانوں کی شہادت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے بڑے دھڑلے سے مشورے دے رہا ہے جنرل باجوہ انا چھوڑ کر نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر ڈان لیکس تنازعہ حل کر لیں.

ڈان لیکس انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کو فوج مسترد نہ کر تی تو کیا حل تھا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار اس کی وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں کہ اصلی نوٹیفیکشن ابھی جاری کیا جانا باقی ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں بتا رہے کہ "فواد حسن فواد کے جعلی نوٹیفکیشن کا ذمہ دار کون ہے. ڈان لیکس‘: سفارشات کو عوام کے سامنے رکھا جائے گا اور یہ کہ ’اداروں کے درمیان ٹویٹس پر بات نہیں ہوتی‘ موصوف ذرا شرمائے بغیر تمام تر ذمہ داری میڈیا پر ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں "میڈیا نے ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے". وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے دستخط سے جاری نوٹیفیکیشن کو چوہدری نثار علی نے کہا کہ یہ وزارتِ داخلہ کو ریفرنس تھا اور اس معاملے پر اصل نوٹیفکیشن جاری کرنا تو وزارتِ داخلہ کی ذمہ داری ہے۔

لیکن چوہدری نثار اس نوٹیفکیشن جاری کرنے کے ذمہ داران کے بارے خاموش ہیں۔ وزیر اعظم کے نوٹیفیکیشن میں خارجہ امور کے مشیر طارق فاطمی سے ان کا عہدہ واپس لیے جانے کے علاوہ تین اور احکامات جاری کیے گئے تھے۔ یاد رہے کہ مشیر خارجہ کے عہدے سے کسی کو علیحدہ کیا جانا وزارتِ داخلہ کے اختیارات میں نہیں آتا لیکن چوہدری نثار اپنی ڈفلی بجائے جا رہے ہیں انکوائری کمیٹی کی سفارشات کو چھپائے جا رہے ہیں۔ طارق فاطمی خاصے کی چیز ہیں اپنی بیگم کو بھی رکن قومی اسمبلی بنوا چکے ہیں۔ فن خوشامد کے ایسے بادشاہ ہیں کہ صاحبزادہ یعقوب کو باور کراتے رہے کہ ہنری کسنجر سے بڑے سفارتکار ہیں۔ وہ طرح دار جرنیل اس کی یاوہ گوئی سے منع کرنے میں ناکام رہا فاطمی 70 کی دہائی میں ان کے معاون خصوصی ہوتے تھے۔

میجر جنرل آصف غفور نے وزیر اعظم ہاوس کے ڈان لیکس کے حوالے سے جاری کیے گئے اعلامیہ کو مسترد کر تے ہوئے کہا: 'ڈان لیکس کے حوالے سے جاری کیا گیا اعلان انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے۔ یہ نوٹیفکیشن مسترد کیا جاتا ہے۔ 'وزیر اعظم ہاوس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے انکوائری کمیٹی کے 18ویں پیرے کی منظوری دی ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر راو تحسین کے خلاف 1973 کے آئین کے ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن (ای اینڈ ڈی) رولز کے تحت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک دوسرے نوٹیفیکیشن میں پرنسپل انفارمیشن آفیسر راو تحسین کو اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا۔ 

روزنامہ ڈان اس کے مدیر ظفر عباس اور سرل المائڈہ کا معاملہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے سپرد کرنیکی سفارش کرتے ہوئے اے پی این ایس سے کہا گیا ہے کہ وہ پرنٹ میڈیا کے حوالے سے ضابطہ اخلاق تشکیل دے۔ یہ ضابطہ اخلاق خاص طور پر پرنٹ میڈیا کے لیے ملکی سلامتی کے معاملات پر رپورٹنگ کے حوالے سے قواعد و ضوابط کا تعین کرے گی اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ قومی اہمیت اور سکیورٹی سے متعلق معاملات پر خبریں صحافت کے بنیادی اور ادارتی اصولوں کے خلاف شائع نہ ہوں۔

اے پی این ایس اپنے رکن اخبارات کےلئے کلیئرنگ ہاوس کا کام کرتی ہے جس کا کوئی لینا دینا ضابطہ اخلاق ادارتی یا رپورٹنگ معاملات سے نہیں ہے اس کےلئے مدیران کی نمائندہ تنظیم CPNE یا پھر کارکن صحافیوں کی تنظیم PFUJ بہتر انداز میں نمٹا سکتی ہے لیکن یہاں معاملات سلجھانے کی بجائے الجھانے پر ساری قوتیں صرف ہورہی ہیں گرمی حالات واقعات میں پاناما لیکس کو اور اپنے "پیارے"کل بھوشن یادو کو فراموش نہیں کرنا اور ہاں شکیل آفریدی پر بھی پہرہ دینا ہے جس کو خاموشی سے رہا کرنا حکمران ٹولے کی پہلی ترجیح بن چکی ہے۔

اسلم خان


اشرافیہ کی غیر اشرافیاں

0
0

جب قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے ڈان لیکس کے بارے میں
وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے تعلق سے وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی لاعلمی کے جواب میں ان  کے استعفی کا مطالبہ کیا تو وزارتِ داخلہ کے ترجمان کی جانب سے ردِعمل سامنے آیا۔ اس ردِعمل میں ایک پیرا کچھ یوں ہے۔ ’’بعض لوگ اپنے ماضی سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ مگر لگتا ہے خورشید شاہ اخلاقی و ذہنی اعتبار سے وہیں کھڑے ہیں جہاں 1970ء کے عشرے میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی ملازمت کے دوران کھڑے تھے۔ (یعنی میٹر ریڈر)۔ وزیرِ داخلہ کے پاس  فضول اور غیر منطقی بیانات پر غور کرنے کا نہ تو وقت ہے نہ ہی ایسی بے جا بکواس کا جواب دینے کی خواہش ‘‘۔
واہ واہ۔ سرکاری ردِعمل میں ماشااللہ کیا زبان استعمال کی گئی اور وہ بھی قائدِ حزبِ اختلاف کے بارے میں اور ان کی سابق ملازمت کو کس طرح بطور طعنہ استعمال کیا گیا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکمران طبقات کے ذہنوں میں ادنیٰ درجے کی ملازمتوں پر فائز لوگوں کے لیے کیسے ادنیٰ خیالات تاحیات قیام پذیر رہتے ہیں۔ یعنی ایک میٹر ریڈر اخلاقی و ذہنی اعتبار سے گھٹیا ہی رہے گا بھلے وہ قائدِ حزبِ اختلاف ہی کیوں نہ بن جائے۔ اب میں یہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ زیادہ گھٹیا کون ہے؟ طعنہ دینے والا یا طعنہ کھانے والا ؟

اگر پاکستان پر حکمران اشرافیہ واقعی بلیو بلڈ ہوتی تو پھر اس کی زبان بھی اشرافی ہی ہوتی۔ مگر اشرافی منصب کی دعوے داری کی قلعی کسی اور شے سے کھلے نہ کھلے زبان سے ضرور کھل جاتی ہے۔ ویسے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ آدمی اپنی زبان تلے پوشیدہ ہے۔ اشرافیہ کس قدر خالص ہے اس کا اندازہ لگانا ہو تو جلسوں کی تقاریر اور ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز دیکھ لیں۔  ذرا سی تنقید ہوئی نہیں کہ ناقد کے کپڑے اترنے شروع ہوئے نہیں۔ ایک دوسرے کے لیے چور ، ڈاکو ، لٹیرے ، زانی ، یہودی، ہندو کی اولاد، نمک حرام ، مراثی، نو دولتئے، ماں اور بہنوں کے طعنے اور خواتین پر ذومعنی فقرے۔ کبھی ایسی گفتگو بدتمیزی، فحش کلامی، لچر پن، بازارو، نیچ حرکت اور گھر کی ناقص تربیت کے دائرے میں آتی تھی مگر آج یہ اشرافیہ کی روز مرہ ہے۔ کبھی عوام اشرافیہ کی زبان اپنانے کی کوشش کرتے تھے لیکن اب یہاں سے وہاں تک گلیاری مساوات کے پھریرے لہرا رہے ہیں۔ ان کے سائے تلے ایک اور نسل اپنا سفر شروع کر رہی ہے۔ جانے وہ اس لسانی و لفظیاتی ذخیرے کو کس لیول تک لے جائے گی۔
ایسا نہیں کہ اصل اشرافیہ کا وجود نہیں مگر وہ اب آپ کو کسی سیاسی جماعت یا ہجوم میں دکھائی نہیں دیتی۔ یہ مٹھی بھر اشرافیہ یا تو اپنے اردگرد کی زبوں حالی سے تھک ہار کر خود رفتہ رفتہ لاتعلق ہو چکی ہے یا لاتعلق بنا دی گئی ہے۔ دونوں صورتوں میں نشست و برخواست اور آدابِ کلام  کے تہذیبی ربط کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ آج ریاست کے تمام شعبے اور ان کی فیصلہ سازی ایسی اشرافیہ کے نرغے میں ہے جو نہ علم دوست ہے اور نہ ہی تہذیب دوست۔ یہ اشرافیہ کسی تمدنی ارتقا کی نہیں بلکہ طاقت کی پیداوار ہے۔ بھلے وہ طاقت جسمانی ہو کہ راتوں رات کسی بھی ذریعے سے حاصل ہونے والی سیاسی یا معاشی قوت ہو۔
اس اشرافیہ کی ترجیح سماج کو تہذیبی اعتبار سے آگے بڑھانااور رول ماڈل بننا نہیں بلکہ کہنی مار کے ہر قیمت پر خود کو آگے رکھنا اور دوسروں کو دبانا اور کچلنا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ طاقت کے بل بوتے پر اشرافی بننے والے نفسیاتی اعتبار سے کس قدر غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ ان کی جان اپنی بقا کی فکر سے ہی نہیں چھوٹتی چے جائیکہ وہ سماجی اقدار کے تحفظ و ترقی کے بارے میں سوچ  پائیں اور زبان و بیان میں علمیت و بہتری پیدا کر سکیں۔

اشرافیہ کو کبھی خود سے بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ اشرافیہ ہے۔ اس کا روزمرہ ، گفتگو ، موضوعات ، لہجے کا دھیما پن نشست و برخواست اور دوسروں سے سلوک سب کچھ بتا دیتا ہے۔ مگر نئی نئی اشرافیہ کو بہرحال چیخ چیخ کر اپنا تعارف کرانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسے توجہ حاصل کرنے کے لیے خالی سڑکوں پر فراریاں اور بی ایم ڈبلیوز دوڑانا پڑتی ہیں۔ چالان کرنے والے یا تلاشی لینے والے کو تھپڑ مار کے اپنی طاقت ثابت کرنا پڑتی ہے۔ وہ دلیل کی طاقت سے نابلد اورمدِ مقابل کو بلند آہنگ کے حربے سے خاموش کرا دینے کے ہنر سے ہی واقف ہوتی ہے۔ چونکہ طاقت کی ہی پیداوار ہوتی ہے لہذا اپنے سے مضبوط کے آگے جھک جانا اور کمزور کو جھکا لینا ہی اس کی فطرت  ہے۔ البتہ اگر کوئی خالص اشرافی ہو تو اس کی زنبیل میں کوئی نہ کوئی ایک آدھ اصول یا آدرش ضرور ایسا ہوتا ہے جس کے تحفظ کے لیے وقت آنے پر نتائج سے بے نیاز ڈٹ بھی سکتا ہے۔

اگر اشرافی زبوں حالی دیکھنی ہو تو آج کے علما کے زبان و بیان ، قول و فعل ، نشست و برخواست ، بود و باش دیکھ لیں اور اس بابت گذرے کل کے علما کے قصے پڑھ لیں۔ جناح اور نہرو کا سیاسی رکھ رکھاؤ اور زبان و بیان کسی سے سن لیں اور نواز شریف ، زرداری ، عمران خان اور مولانا فضل الرحمان وغیرہ وغیرہ کا اندازِ زندگی و اظہار  بچشم دیکھ لیں۔ وہ بھی اشرافی تھے اور یہ بھی خود کو اشرافی سمجھتے ہیں اور کہلوانے پر بھی بضد ہیں۔ مچھلی ہمیشہ سر سے سڑنا شروع ہوتی ہے ، دم تو آخر میں خراب ہوتی ہے۔ جب یہی نئی نویلی غیر اشرافی اشرافیہ برداشت ، بھائی چارے ، ہم آہنگی اور تہذیبی اقدار کی گوہار دیتی ہے تو اس کے منہ سے جھڑنے والے ہر ایسے پھول کو عوام تازہ لطیفہ سمجھ کے گھر لے آتے ہیں۔

ہم کتنے اشرافی ہیں ؟ اس کا اندازہ مجھے استنبول میں چار روز گلیوں بازاروں میں پیدل گھوم کر ہوا۔ اس دوران مجھے ایک بھی ایسا منظر دکھائی نہیں دیا کہ دو راہ گیر سرِ بازار ایک دوسرے سے گتھم گھتا ہوں ، گالم گلوچ میں مبتلا ہوں یا چیخ چیخ کر مخاطب کر رہے ہوں۔ ایک بار میں تھک کے نیلی مسجد کے بیرونی باغیچے میں سستانے کے لیے سنگی بنچ پر بیٹھ گیا۔ برابر والے بنچ پر ایک بوڑھا ترک اخبار پڑھ رہا تھا۔ ہم دونوں نے رسمی مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔ اس نے رسماً پوچھا کہاں سے آئے ہو میں نے کہا پاکستان سے۔ گر برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں ؟ اس نے ہمہ تن گوش ہونے کے لیے اخبار تہہ کر کے گود میں رکھ لیا۔ میں نے کہا چار دن سے اسی لاکھ آبادی کے اس شہر میں گھوم رہا ہوں۔ اس دوران سڑک پر لڑائی جھگڑا یا ایک دوسرے پر چیخنے کا کوئی منظر نہیں دیکھا۔کیا ترکوں کو غصہ نہیں آتا ؟ ترک بزرگ ہنسنے لگا۔ بالکل آتا ہے اور جب آتا ہے تو بہت برا آتا ہے۔ مگر یہ بات آپ کی درست ہے کہ ہم بات بات پر نہیں لڑتے۔دراصل چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے جھگڑنا اور سرِ بازار چیخنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وجہ شائد یہ ہو کہ ترک بحیثیتِ قوم کبھی کسی کے غلام نہیں رہے۔غلاموں کا چونکہ خود پر ہی بس چلتا ہے لہذا وہ بات بے بات ایک دوسرے پر اپنی فرسٹریشن نکالتے رہتے ہیں۔ میری سمجھ میں تو یہی سبب آرہا ہے۔ ہو سکتا ہے میں غلط ہوں۔

وسعت اللہ خان
  

چولستان : سرسبز خطہ جو صحرا میں بدل گیا

0
0

چولستان ہماری ثقافتی اور تہذیبی روایات کا عکاس ہونے کی بدولت نا صرف ملکی
بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی کشش کا باعث ہے۔ یہاں کی روایتی زندگی کا اپنا حسن ہے جس کا تذکرہ یہاں کی لوک کہانیوں میں پایا جاتا ہے۔ صحرا کا حدود اربعہ اور رہن سہن حالات اور وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا رہا ہے۔ کبھی یہاں پر پانی اور خوبصورتی بھی نظر آتی تھی۔ لیکن اب ہر طرف ریت کے ذرے بکھرے نظر آتے ہیں۔ چار ہزار سال قبل یہاں کبھی دریائے سرسوتی ٹھاٹھیں مارتا ہوا گزرتا تھا۔ ریت اور صحرائی ماحول میں یہ دریا کبھی صحرا کی شان دکھائی دیتا تھا لیکن اس کا خشک ہو جانا صدیوں پرانی بات بن کر رہ گئی۔

اس کے علاوہ تاریخی حوالوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کبھی یہاں دریاے ھاکڑہ کی لہریں بھی موجزن تھیں اور یہ سندھ اور ہند کے درمیان حد فاضل کا کام دیا کرتی تھیں یہ دریا جیسلمیر اور بیکانیر کی ریاستوں کو بھی جدا کرتا تھا اگرچہ اس دریا کا رخ تبدیل ہو گیا لیکن گم گشتہ تاریخ کے نشانات اب بھی موجود ہیں۔ چولستان کے صحرا نے ہر چیز کو ویرانی میں تبدیل کر دیا ہے یہاں کے لوگ ان تبدیلیوں سے کبھی بھی متاثر نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے اپنے طرز زندگی کو تبدیل کیا بلکہ جدوجہد کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ چولستان کو تھل روہی اور چولستان کہا جاتا ہے یہ مشہور ریگستان جس کا رقبہ سولہ ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ بہاولپور سے تیس کلو میٹر دور ہے یہ صحرا آگے چل کر تھر کے ریگستان سے مل جاتا ہے۔
چولستان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف روائتیں ملتی ہیں کیونکہ یہ خطۂ زمین مغرب میں تھر اور جنوب مشرق راجپوتانے کے وسیع صحرا کے درمیان واقع ہے۔ کسی زمانے میں اسے چولن بھی کہا جاتا تھا۔ تندو تیز آندھیاں ریت کے متحرک ٹیلوں کو ایک جگہ سے اڑ ا کر دوسری جگہ لے جاتی تھیں۔ اکھاڑ پچھاڑ کے اس عمل کو چولن کہا جاتا ہے اور پھر یہ نام چولن سے چولستان بن گیا۔فروری اور جولائی کے درمیان لوگ پانی کی تلاش کے لیے ٹوبوں (جوہڑوں ) کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں سے قیمتی اشیاء، زیور اور منکے بھی دریافت ہوئے ہیں جنہیں دھاگے میں پروکر یہ لوگ اپنے گلے میں ڈال لیتے ہیں یہ زیور اور منکے چولستانی لوگوں کو بہت بھاتے ہیں۔ جو بیضوی اور تکونی شکل کے ہوتے ہیں۔ چولستانیوں کی زندگی بظاہر تھکا دینے والی ہے مگر وہ اس زندگی سے بیزار نہیں بلکہ اسے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ بادلوں کی آمد کو اچھا شکون مانتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ہوا ان بادلوں کو اڑا کر نہ لے جائیں۔ آندھی اور ہوا سے قافلے راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ صحرائی بگولے بڑے خوف ناک ہوتے ہیں۔ قافلے والے ان پھیلے ہوئے خوفناک بگولوں کے قریب بھی نہیں جاتے۔ صحرائی آندھی کا منظر بڑا خوفناک ہوتا ہے یہ بگولے سرخی مائل اور بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔

چولستان میں جولائی سے ستمبر تک تین مہنیے بارش جاری رہتی ہے۔ وقت جیسے جیسے ان مہینوں سے دور چلا جاتا ہے صحرا کا چہرہ اسی تناسب سے اداس اور بے چین دکھائی دینے لگتا ہے بارش کے بعد خود رو پھول اور صحرائی جھاڑیاں توانا ہو کر ہر طرف پھیل جاتی ہیں۔ چولستان کی ایک اپنی ہی نرالی اور اچھوتی دنیا ہے۔ ایسی دنیا جو دل کی اجڑی ہوئی بستی کو آباد کر دیتی ہے اور روح کے سوتے ہوئے تاروں کو چھیڑ دیتی ہے۔ چولستان میں چاندنی راتوں کے نظارے بہت دیدنی ہوتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے انسان کے چاروں طرف نور کا ایک جہان بکھرا ہو۔ غروب آفتاب کا منظر ایسے لگتا ہے جیسے صحرا آنکھیں بند کر رہا ہے۔ حضرت خواجہ غلام فرید نے اپنی زندگی کے اٹھارہ سال اس صحرا میں گزارے۔

شیخ نوید اسلم

Tariq Fatemi

0
0
Syed Tariq Fatemi is a Pakistani diplomat who serves as the Special Assistant on Foreign Affairs to the Prime Minister. He previously served as Pakistan Ambassador to the United States and to the European Union. Born in Dhaka, British India, Fatemi went to serve as a career foreign service officer and has held diplomatic missions throughout his career In addition, he also provided his foreign policy expertise to represent Pakistan's case at the International Atomic Energy Agency (IAEA). Aside from foreign service, he has briefly taught courses on International relations at the Foreign Service Academy and as well courses on Security studies at the National Defence University and the Quaid-i-Azam University. A key member of the PML(N), he is the author of book, "The Future of Pakistan", and has repeatedly appeared in news media to comment on foreign affairs of the country. He is an expert on Russian studies and is fluent in Russian language.

ڈان لیکس اور سول ملٹری ٹینشن

0
0

ڈان لیکس سکینڈل گزشتہ سال اکتوبر میں ظہور پذیر ہوا جب وزیراعظم ہائوس میں
ہونیوالے قومی سلامتی کے اجلاس کے حوالے سے پاک فوج کے بارے میں اشتعال انگیز، بے بنیاد اور پلانٹڈ سٹوری ڈان اخبار کے فرنٹ پیج پر شائع کی گئی۔ اس وقت سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی ’’اخلاقی اتھارٹی‘‘ کا سورج پوری آب و تاب کیساتھ چمک رہا تھا۔ آئینی اتھارٹی کے مالک وزیراعظم دبائو میں آ گئے انہوں نے نہ صرف وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کو فارغ کر دیا بلکہ ایک انکوائری کمیشن تشکیل دینے پر بھی آمادہ ہو گئے۔ غیر مصدقہ رپورٹ کے مطابق سابق عسکری قیادت نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر حکومت نے ڈان لیکس پر ٹھوس اور سنجیدہ کاروائی نہ کی تو ذمے دار افراد کو بلا تفریق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے تفتیش کی جائیگی۔

انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں غیر معمولی تاخیر کی گئی تا کہ قومی سلامتی پر ڈٹ جانیوالا سپہ سالار رخصت ہو جائے اور نیا سپہ سالار ڈان لیکس کے سلسلے میں حکومت کو توقع کیمطابق ’’ریلیف‘‘ دینے پر آمادہ ہو جائے۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف گورنینس اور سکیورٹی امور کے سلسلے میں اہلیت ثابت نہیں کر سکے ان کو یہ ادراک نہیں ہو سکا کہ کوئی آرمی چیف قومی سلامتی کے امور پر کمپرومائز کرنے کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہ انتہائی نازک اور حساس مسئلہ ہے جس پر کمپرومائز کرنے سے فوج کے اندر بغاوت کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان کو خفیہ رپورٹیں ملتی رہیں کہ نئے سپہ سالار جنرل جاوید قمر باجوہ کو فوج کے افسروں کی جانب سے ڈان لیکس کے بارے میں سخت سوالوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور فوج کے اندر اضطراب پایا جاتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے حساس اداروں کی ان رپورٹوں پر کوئی توجہ نہ دی۔ وزیراعظم کے ساتھ کام کرنیوالے ریٹائرڈ بیوروکریٹس کی رائے ہے کہ میاں نواز شریف اہم قومی امور کے فہم اور ادراک کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ ان کا ایک ہی جنون ہے کہ شاہرائیں اور موٹرویز تعمیر کی جائیں کیونکہ یہ نظر آنیوالے، ووٹ اور نوٹ بنک بڑھانے والے منصوبے ہیں۔ جس طرح بقول شاعر یزداں تخلیق کائنات کے ’’دلچسپ جرم‘‘ پر کبھی کبھی ہنستا ہو گا اسی طرح پاک فوج کے جرنیلوں کو بھی ’’عاقبت نا اندیشانہ جرم‘‘ پر پچھتاوا ہو گا کہ انہوں نے اہلیت اور میرٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے الطاف حسین اور میاں نواز شریف کا بطور لیڈر انتخاب کیا اور انہیں پروموٹ کیا۔ بقول حبیب جالب ’’تیرے ذہن کی قسم خوب انتخاب ہے‘‘ فوج کے جرنیلوں کو یہ کہا جا سکتا ہے ’’تم ہی نے درد دیا تم ہی دوا دینا‘‘۔ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ مسلم لیگ قائداعظم سے میاں نواز شریف اور پی پی پی ذوالفقار علی بھٹو سے آصف زرداری کے ’’معیار‘‘ تک پہنچ گئی ہے۔ چہ بلندی چہ پستی مگر اس کیلئے ووٹرز خود بھی ذمے دار ہیں جو بار بار ’’لٹیروں‘‘ کو ووٹ دیتے ہیں۔

پانامہ لیکس بنچ کے پانچ ججوں نے میاں نواز شریف کے بارے میں کیا کچھ کہہ دیا۔ وہ اگر اہل لیڈر ہوتے تو عدالت عالیہ کے فیصلے کے بعد پاکستان اور مسلم لیگ (ن) کے عظیم تر مفاد میں مستعفی ہو جاتے، اپنا جانشین نامزد کر کے سکون کے ساتھ آئینی ٹرم پوری کر لیتے مگر وہ چوں کہ مزاج اور فطرت کے اعتبار سے اول و آخر تاجر ہیں اس لیے وہ آبرومندانہ راستہ اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہیں انکی اخلاقی اتھارٹی برباد ہونے سے آئینی اتھارٹی بھی مفلوج ہو چکی ہے۔ مناسب وقت پر موزوں فیصلے کی صلاحیت ان میں نہیں ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز کے بھائی شجاع نواز نے اپنی شہرہ آفاق کتاب میں چشم کشا انکشافات کیے ہیں کہ انہوں نے کس طرح فوج کے جرنیلوں کو کرپٹ کرنے اور انہیں خاندان کا وفادار بنانے کی کوشش کی۔

اپوزیشن جماعتیں سڑکوں پر ان کیخلاف ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگا رہی ہیں۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی پرامن تحریک کو مسلح طاقت سے کچلنے کیلئے جبروتشدد اور ظلم و ستم کی اس حد تک انتہا کر دی ہے کہ نیو یارک ٹائمز بھی چیخ اُٹھا ہے۔ بھارت ایل او سی پر مسلسل اشتعال انگیزی کر رہا ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم پاکستان نے سی آئی اے اور را کے ایجنٹ اور پاکستان کے کٹڑ دشمن سجن جندل سے مری میں خفیہ ملاقات کر کے پاکستان کے عوام کو ششدر اور پاک فوج کو مزید مضطرب کر دیا۔ محترمہ مریم نواز شریف نہ تو وزیراعظم کی سرکاری ترجمان ہیں اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کی عہدیدار ہیں اسکے باوجود وہ حکومتی اور ریاستی امور کے بارے میں ٹویٹ کرتی رہتی ہیں انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ جندل وزیراعظم کے پرانے دوست ہیں لہذا اس ملاقات کو اچھالا نہ جائے۔ 

سوال یہ ہے کہ پاکستان کے کٹڑ دشمن وزیراعظم پاکستان کے دوست کیسے ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم اگر اس خفیہ ملاقات کے سلسلے میں پاکستانی قوم کو اعتماد میں لیتے تو انکے بارے میں قیاس آرائیاں اور بدگمانیاں پیدا نہ ہوتیں اور اپوزیشن جماعتوں کو انہیں ’’سکیورٹی رسک‘‘ کہنے کا موقع نہ ملتا۔ یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ ’’دوستوں‘‘نے میاں نواز شریف کو ’’ڈٹ جانے‘‘ کا پیغام بھیجا ہے تاکہ وہ پانامہ کیس میں نا اہل ہونے کی بجائے ’’سیاسی شہید‘‘ ہو کر اگلا انتخاب جیت سکیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ آمر اور منتخب حکمران ریاست کو آئین کے مطابق چلانے کا حلف تو اُٹھاتے رہے ہیں مگر عملی طور پر ہر حکمران نے آئین سے کھلا انحراف کیا۔ پاکستان کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ ریاست پر آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔

ریاست کے تمام ادارے قانون کی طاقت کے بجائے طاقت کے قانون کے بل پر حکومتی نظم و نسق چلاتے ہیں۔ میاں نواز شریف پاکستان کو بیس کروڑ عوام کی ریاست نہیں بلکہ ذاتی جاگیر کی طرح چلا رہے ہیں۔ اب میاں نواز شریف ڈان لیکس کی رپورٹ روک کر افواج پاکستان کو مشتعل کر رہے ہیں۔ کیا اسلام اجازت دیتا ہے کہ کمزوروں کو قربانی کے بکرے بنا کر طاقتوروں کو بچا لیا جائے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار ریکارڈ پر ہیں کہ ڈان لیکس انکوائری رپورٹ کے بارے میں رولز آف بزنس کیمطابق وزیراعظم سیکریٹریٹ کو نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے اور قواعد و ضوابط کے مطابق وزارت داخلہ خود رپورٹ جاری کریگی۔ ثابت ہو چکا کہ وزیراعظم سیکریٹریٹ کا نوٹیفکیشن ’’بدنیتی اور نااہلی‘‘ پر مبنی تھا جس نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو غیر معمولی اور سخت ٹویٹ جاری کرنے پر مجبور کیا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اگر یہ ٹویٹ جاری نہ کیا جاتا تو پاک فوج کا اندرونی ڈسپلن متاثر ہوتا اور عوام کا قومی سلامتی کے ادارے پر اعتماد مضمحل ہوتا۔ البتہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ میں "Rejected"’’مسترد کیا جاتاہے‘‘ کا لفظ غیر ضروری تھا۔ بہتر ہوتا اگر آرمی چیف ٹویٹ سے پہلے اہتمام حجت کیلئے وزیراعظم سے فون پر بات کر کے متفقہ اور مکمل نوٹیفکیشن جاری کرنے کا مطالبہ کرتے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ کے بعد سول ملٹری ٹینشن شدت اختیار کر گئی ہے جو ہرگز ریاست کے قومی مفاد میں نہیں ہے۔ حکومت کے یہ دعوے بے بنیاد ثابت ہوئے کہ حکومت اور فوج ایک صفحہ پر ہیں۔ سول سوسائٹی کو یہ تشویش لاحق ہے کہ وزیراعظم کی ضد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی اور عوامی سطح پر خانہ جنگی کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ پاکستان کی آزادی اور سلامتی کے دشمن اس تشویشناک صورتحال سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرینگے۔ اس نازک مرحلے پر وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ سکیورٹی ایجنسیوں پر تنقید کرنے کے بجائے فوری طور پر وعدے کیمطابق ڈان لیکس کی رپورٹ جاری کر دیں تا کہ سول ملٹری ٹینشن ختم ہو جائے.

انہوں نے کئی بار کہا کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں انہیں دولت اور حکومت کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور پاکستان کے قومی مفاد کیلئے وہ حکومتی منصب چھوڑنے سے بھی گریز نہیں کرینگے۔ حالات کے جبر کی وجہ سے چوہدری نثار علی خان کے امتحان اور آزمائش کا وقت آن پہنچا ہے۔ انکے ماضی کے شاندار کردار کی روشنی میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ضمیر اور خمیر کے مطابق اس امتحان میں سرخرو ہوں گے اور اپنی نیک نامی پر حرف نہیں آنے دیں گے تاکہ آنیوالی نسلیں ان کو اچھے نام سے یاد کریں۔ پاکستانی قوم کو ٹینشن سے باہر نکالنا وزیراعظم کی ذمے داری ہے۔

قیوم نظامی


کیا پاکستان کا مسئلہ واقعی 'غربت'ہے؟

0
0

موجودہ دور میں سب سے اہم سماجی، معاشی اور سیاسی مسئلہ، دونوں مقامی
اور عالمی سطح پر، محض غربت نہیں بلکہ عدم برابری ہونا چاہیے۔ غربت کا حل کافی حد تک آسان رہا ہے جبکہ عدم برابری کو کم کرنا نہایت ہی پیچیدہ بلکہ قریب قریب ناممکن سا عمل ہے۔ غربت کو زیادہ تر لوگ، خاص طور پر مالی طور پر بہتر حالت رکھنے والے اور مراعات یافتہ طبقہ، غربت کو کچھ معاشی اور سماجی اثرات کے ساتھ ایک اخلاقی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دوسری جانب عدم برابری واضح طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے، جس کے لیے بڑی سطح پر فہم اور اقدام مطلوب ہے۔

گزشتہ چوتھائی صدی کے دوران دنیا میں رہنے والے 7 ارب لوگوں کے لیے سب سے زیادہ غیر معمولی پیش رفتوں اور کامیابیوں میں ایک عالمی سطح پر غربت میں بڑی سطح پر کمی واقع ہونا ہے۔ جہاں 1990 میں عالمی آبادی کا 37.1 فیصد حصہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا تھا وہاں 2012 میں یہ تعداد 18.8 فیصد تھی۔ اس عرصے کے دوران سب سے زیادہ حیران کن غربت میں گراوٹ جنوبی ایشاء میں دیکھنے کو ملی، جہاں 1991 میں غربت کا تناسب 50.6 فیصد تھا وہاں یہ تعداد صرف 12.7 فیصد تک رہ گئی۔ یہاں تک کہ پاکستان کی صورتحال پر جائزہ لیں تو شواہد دکھاتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں یا اس سے زائد کے عرصے کے دوران غربت کی سطح میں بے پناہ گراوٹ ہوئی ہے۔
ورلڈ بینک کے شواہد کافی حد تک واضح کرتے ہیں کہ، "پاکستان میں 2001 سے کافی تیزی کے ساتھ اور مسلسل طور پر غربت میں گرواٹ واقع ہوئی ہے، غربت کی شرح 35 فیصد قریب سے گر کر 2014 تک 10 فیصد تک آ پہنچی ہے۔"پاکستان اور عالمی دنیا میں غربت میں کمی واقع ہونے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں ٹارگیٹڈ کیش منتقلی اور اس سے جڑے پروگراموں کی صورت میں سماجی اور معاشی مداخلت، آمدن میں اضافہ، اور سماجی اور انفرا اسٹریکچر اور ترقی شامل ہیں۔ پاکستان کی جہاں تک بات ہے تو جہاں کئی عناصر نے غربت کم کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے وہاں رقم منتقلیوں ایک سب سے اہم وجہ رہی ہے۔

علاوہ ازیں، ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں 18 فیصد غریب ترین گھرانوں کے پاس موٹرسائیکل ہیں، یہ شرح 15 سال قبل صرف 2 فیصد ہی تھی؛ غریب ترین آبادی میں جن کے پاس کسی قسم کے ٹوائلٹ نہیں تھے ان کی شرح نصف سے آپہنچی ہے — جو پہلے 60 فیصد تھی اب کم ہو کر 30 فیصد رہ گئی ہے؛ یہاں تک کہ پاکستان میں کم مالی حیثیت رکھنے والے گھرانوں میں مختلف خوراک کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے، اور ان میں ڈیری، گوشت، بھل اور سبزیوں کا استعمال بڑی حد تک بڑھا ہے۔ اسی طرح دیہی غذا میں شہری خوراک جیسی پسندیدگی اور ذائقے جیسی یکسانیت بھی آئی ہے، جیسا کہ اکثر ترقی کے ساتھ دیکھنے کو ملتا ہے۔

کئی پاکستانیوں، خاص طور پر مراعات یافتہ طبقے کے لیے ان شواہد کو قبول کرنا مشکل ہے کیونکہ انہیں تو غربت ہر جگہ نظر آتی ہے۔ وہ دراصل جو دیکھتے ہیں وہ عدم برابری ہے، جو ان کے نزدیک عام فہم، عام مروج خیالی میں اسے غربت کا نام دیتے ہیں۔ غربت کو اکیڈمک اور حکومت کے اعتبار سے جس انداز میں غربت کو بیان اور اس کی پیمائش کی جاتی ہے، اس کے مطابق غربت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس ایک خاص نوعیت کی مصنوعات، جس میں زیادہ تر خوراک اور دیگر سامان شامل ہے، کو خرید کرنے لائق آمدن نہ رکھتے ہوں۔
اکیڈمک شواہد پاکستان میں غربت کی انتہائی کمی واقع ہونے کے بارے میں نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ لوگ جن میں زیادہ تر غریب تھے وہ غربت سے نکل چکے ہیں اور اب وہ زیادہ خوراک اور تعلیم، صحت اور بہتر مکان جیسی دیگر سہولیات کی اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان میں غربت میں کمی واقع ہونے کے باوجود عدم برابری میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں جہاں غربت پر سینکڑوں تحقیقیں ہو چکی ہیں اس مقابلے میں عدم برابری پر بہت ہی محدود تحقیقیں ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود دانشوروں کی تحقیق اور حتیٰ کہ سرکاری کے اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران آمد کی تقسیم واضح طور پر عدم مساوی کا شکار رہی ہے۔ دیگر لفظوں میں کہیں تو امیر اور بھی امیر ہو گئے ہیں اور ان کے اور باقی آبادی کے درمیان خلا میں اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران "متوسط طبقے"میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے، مگر آبادی میں موجود 60 فیصد اور 40 فیصد امرا کے درمیان آمدن اور اثاثوں کی تفریقات میں تیز رفتاری کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ ایک بار پھر واضح کر دوں کہ ان 60 فیصد غریبوں میں سے صرف چند ایک ایسے ہیں جنہیں حقیقی طور پر غریب افراد کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔

اگرچہ اب بھی چند ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو پاکستان میں جاگیرداری کی خام خیالی میں یقین رکھتے ہیں، مگر اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ دیہی علاقوں کے مقابلے میں شہری علاقوں میں عدم برابری کی شرح سے بہت زیادہ ہے۔ شہری علاقوں میں انتہائی امیر اور انہتائی غریب گھرانوں کی یہی وجہ ہے، جہاں آمدنیوں اور دہاڑیوں میں بڑی حد تک تفریقات نظر آتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں زیادہ تر زمیندار یا تو چھوٹے ہیں یا بہت ہی چھوٹے ہیں، اس طرح عدم برابری میں شدت بھی کم ہے۔ درحقیقت دیہی عدم برابری میں حقیقی طور پر کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ شہری عدم برابری میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان اب شہری، غالباً پوری طرح سے، آبادی پر مشتمل ہے اور چنانچہ ایسے اعداد و شمار میں آگے آگے ہے۔

بات صرف آمدن کی عدم برابری تک محدود نہیں جو کہ بد سے بدتر ہوئی ہے بلکہ پاکستان میں بڑی حد تک صوبائی خودمختیاری اور وسائل دینے جیسے اقدامات کے باوجود علاقائی عدم برابری بھی بد سے بدتر ہوئی ہے۔ جہاں شہری پنجاب اور خیبر پختونخوا دیہی سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان سے کہیں زیادہ خوشحال ہیں، وہاں پنجاب اور سندھ میں عدم مساوات کی سطح خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے زیادہ ہے. گذشتہ تین دہائیوں کی واحد خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں صنفی عدم توازن کافی حد تک کم ہوا ہے، بھلے ہی یہ اب بھی ختم نہیں ہوا ہے. عام تصور ہے کہ لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں، مگر گذشتہ دہائی کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں اسکول جاتی ہیں. لڑکیاں تیزی سے اسکول میں لڑکوں کی تعداد کا مقابلہ کر رہی ہیں.

اس کے علاوہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ سال 15-2014 میں پاکستان کی یونیورسٹیوں میں 52 فیصد لڑکیاں جبکہ 48 فیصد لڑکے زیرِ تعلیم تھے. غربت میں کمی کے لیے صرف رقوم کی فراہمی درکار ہے. دوسری جانب بڑھتی ہوئی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے طاقت کا ایک طبقے کی جانب سے استحصال ختم کرنا ہو گا، جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے. امیروں کے امیر تر ہونے، مڈل کلاس کے وسیع تر ہونے سے اور سیاسی کنٹرول پیسے والوں کے ہاتھوں میں ہونے سے پاکستان میں عدم مساوات صرف بڑھے گی ہی.

ایس اکبر زیدی

بشکریہ ڈان اردو

اٹک کا تاریخی قلعہ

0
0

اگست1581ء میں ایک روز دوپہر مغل شہنشاہ اکبر نے ایک تقریب میں اٹک کے قلعہ کی بنیاد رکھی جب اس نے محمد حکیم مرزا گورنر کابل پر فتح پائی اس واقعہ کی یاد گار کے طور پر سنگ مرمر کی تختی پر فارسی شعر کندہ کیا گیا۔ جب سورج کی پہلی شعاع گیٹ پر پڑتی ہے تو یہ عبارت صاف پڑھی جاتی ہے۔ ابجد کے حساب سے اس قلعہ کی تاریخ 99 ہجری 1581ء نکلتی ہے۔ اس عمارت کی تعمیر کے متعدد مقاصد تھے ایک تو بیرونی شمالی حملہ آوروں کی دریا کے پاٹ سے عبور کرنے کی جگہ کی حفاظت، مستعدی اور دوسری وجہ مرزا محمد حکیم دودھ بھائی شہنشاہ اکبر جو اس وقت قابل کا گورنر تھا۔ بہار اور بنگال کی فتح کے بعد جو پہلے اکبر کے قبضہ میں تھیں مرزا محمد حکیم کے وزیروں نے اکبر کی غیر موجودگی میں اکبری علاقوں پر قبضہ کا مشورہ دیا۔

مرزا حکیم بنیادی طور پر کمزور آدمی تھا اور نہ ہی اتنے بڑے زرخیز علاقے پر حکمرانی کی صلاحیت اس میں تھی۔ یہ سب کچھ اگست 1581ء میں ہوا ۔ تب اکبر کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہاں دریائے سندھ کے کنارے شمالی حملہ آوروں کی روک تھام کے لیے ایک قلعہ ہونا چاہیے۔ یہ کام اکبر نے خواجہ شمس الدین خان کے سپرد کیا جو بعد میں پنجاب کا دیوان مقرر ہوا۔ اکبر کی ہدایات کی پیروی میں دو سال دو ماہ کی مدت میں قلعہ مکمل کر لیا۔ ملا عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں کہ ربیع الثانی 99ھ میں بادشاہ نے سندھ کے کنارے قلعہ کی تعمیر کا حکم دیا ۔ایک چھوٹا قلعہ جسے اٹک بیرص‘‘ کا نام دیا ایک اور کہانی جواس قلعہ کی تعمیر کی بابت ملتی ہے ، اکبر نے جب دیکھا کہ دریائے سندھ پار نہیں ہوتا تو اس نے اس جگہ کو ایک نام دیا، اٹک یعنی روک۔ جب اسے وہ پار کر گیا تو اس نے خیر آباد کا نام دیا۔ قلعہ کی تعمیر کے بعد اکبر نے پہلی بار قلعہ کو 1585ء میں دیکھا اور سال کا کچھ حصہ اس جگہ پر گزارا اور وہاں 1588ء میں دوبارہ گیا اور تانبے کے سکوں کی ٹکسال وہاں قائم کی۔ 

قلعہ اٹک دریائے سندھ کے کنارے راولپنڈی سے 58 میل اور 47 میل پشاور سے جرنیلی سڑک پر واقع ہے جہاں ریل کے ذریعے بھی پہنچا جا سکتا ہے۔ قلعہ سطح سمندر سے بلند ہے۔ جو ایک خطرناک علاقے اور دو چٹانوں کملیہ اور جلیلہ کے درمیان واقع ہے ان چٹانوں کا نام کمال الدین اور جلال الدین کے نام پر رکھا گیا جو روشنیہ فرقہ کے بانی کے دو بیٹے تھے جنہیں دریا میں سزا کے طور پر پھینکا گیا کیونکہ وہ اپنے باپ کے نظریات کا پرچار اکبر کے دور میں کرتے تھے۔ فن تعمیر کے لحاظ سے اٹک قلعہ واضح کرتا ہے کہ یہ خالصتاً فوجی مقاصد کے لیے تعمیر کیا گیا اس کی چار دیواری ایک میل چاروں اطراف سے ہے جو اٹھارہ برجوں کے ساتھ ملتی ہے ۔ تمام گولائی دار ہیں ماسوائے ایک کے جو زاویہ قائمہ پر ہے ایک گیلری ان برجوں کو آپس میں ملاتی ہے جس کے نیچے متعدد گارڈ رومز ہیں۔ قلعہ کے برج مقامی چٹانی پتھر سے بنائے گئے ہیں۔ جن پر چونے کی دبیز تہہ چڑھائی گئی ہے۔ داخلی دروازوں پر سرخ پتھر استعمال ہوا ہے جبکہ قلعہ کا دیگر حصہ لاجوردی ٹائیلوں سے بنا ہے ۔اس کا ڈیزائن ویلر نے اپنی کتاب Five Thousand Years of Pakistan میں دیا ہے۔ 


صدر ایردوان کا دورۂ بھارت

0
0

صدر ایردوان نے اکتیس مارچ تا یکم مئی 2017ء بھارت کا سرکاری دورہ کیا۔ یہ
کسی بھی ترک صدر کا سات سال بعد دورۂ بھارت تھا اس سے قبل صدر عبداللہ گل بھارت کا دورہ کر چکے ہیں جبکہ ایردوان نے اس سے قبل وزیراعظم کی حیثیت سے بھارت کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ یہ صدر ایردوان کا 16 اپریل کے صدارتی ریفرنڈم کے بعد پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ بھارت روانگی سے قبل استنبول کے اتاترک ہوائی اڈے پر صدر ایردوان نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اور ترکی کے درمیان خاص طور پر تجارتی شعبے میں تعلقات کو فروغ دینے کے لئے دونوں ممالک بڑی صلاحیتوں اور وسائل کے مالک ہیں جن سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ترکی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے تمام ضروری اقدامات اٹھانے کے لئے تیار ہے۔ اس وقت ترکی کے لئے بھارت مشرقِ بعید کے ممالک کو کھلنے والے دروازے کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ بھارت کے لئے ترکی یورپ تک رسائی حاصل کرنے کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دورہ بھارت کے دوران ان تعلقات کو فروغ دینے کے لئے اعلیٰ بھارتی حکام سے بات چیت کریں گے اور پھر اس کے بعد ہی کسی روڈ میپ کو واضح کیا جائے گا۔
اس سے قبل صدر ایردوان نے بھارتی ٹی وی چینل ’’رلڈ ایز ون نیوز‘‘(ڈبلیو آئی او این ) کو انٹرویو دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالث کا کردار ادا کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ضروری ہوا تو ترکی کی حیثیت سے ہم معاملے میں شامل ہو سکتے ہیں، مسئلہ کشمیر کا مذاکراتی حل پاکستان اور بھارت دونوں کے مفاد میں ہے۔ ترکی کے صدر ایردوان نے 15 اپریل 2016 کو استنبول میں 13ویں تنظیم اسلامی کانفرنس کے سربراہی اجلاس کے موقع پر تنظیم اسلامی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل عیاد مدنی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کے موقع پر بڑے واضح انداز میں کہا تھا کہ ’’ہمیں یقین ہے کہ مسئلہ جموں کشمیر کو بہترین طریقے سے حل کرنے کا راستہ کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کرنے ہی سے گزرتا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود کیوں کر مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کیا جا سکا ہے۔ میرے خیال میں علاقے کے عوام کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کیے بغیر اس مسئلے کو حل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس طرح ترکی ابتدا ہی سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کرنے والا پاکستان کا سب سے قریبی اور دوست ملک ہے۔

ترک صدر ایردوان نے اپنے دورۂ بھارت کے دوران ترک۔ انڈیا بزنس کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’بھارت کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لئے تمام ضروری اقدامات اٹھانے کے لئے ہم پُرعزم ہیں۔ ہم بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مزید فروغ دینے کے خواہاں ہیں اور دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کو ایک دوسرے کے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ انہوں نے دونوں ممالک کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کے اجلاسوں کو جاری رکھنے اور آزاد تجارتی سمجھوتے سے متعلق مذاکرات شروع کرنے اور اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ اس وقت موجود تجارتی حجم کے ساڑھے چھ بلین ڈالر تک پہنچنے پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ اس تجارتی حجم کو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا کی عظیم ترین 250 کنسٹرکشن فرموں میں42 ترک فرمیں شامل ہیں جن سے بھارت کو بھی استفادہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان اپنی کرنسی ہی میں تجارت کو جاری رکھنے کی بھی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے ترکی میں بھارتی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کرنے کی ہر ممکنہ سہولت کی بھی یقین دہانی کروائی اور کہا کہ ترکی، بھارت کے لئے بحیرہ اسود، یورپ، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطی کے علاقے تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ایک اڈہ بننے کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے اس موقع پر بھارتی سیاحوں کو جن کی تعداد انہتر ہزار سالانہ ہے میں مزید اضافہ کرنے اور بھارت میں شادی کرنے والوں جوڑوں کو ترکی میں شادی کا اہتمام کرنے اور ہنی مون منانے کے بارے میں بھی اپنی خواہش سے آگاہ کیا۔

ترکی جس کے اس وقت یورپی یونین کے رکن ممالک کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں حالات کو سازگار بنانے کے لئے بھارت، چین اور روس کی جانب اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اسی لئے ترکی کے صدر ایردوان نے یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات کے کھٹائی میں پڑ جانے کے بعد بھارت کا دورہ کیا۔ ترکی خاص طور پر اپنی کنسٹرکشن فرموں کے ذریعے بھارت کے دور دراز علاقوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے اور بھارت کے کنسٹرکشن فیلڈ میں بہت کمزور ہونے کے باعث استفادہ کرتے ہوئے علاقے میں کنسٹرکشن کے میدان میں اپنی مہر ثبت کرنا چاہتا ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان جب نئی دہلی پہنچے تو ان کا استقبال بھارت کی وزیر اسپورٹس اور یوتھ نے کیا اور بعد میں صدر ایردوان نے بھارت کے صدر مکھر جی پرناب اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ اس کے بعد صدر ایردوان نے بھارت کے بانی مہاتما گاندھی کی سمادی پر پھول چڑھائے اور وزٹنگ بک میں اپنے تاثرات کو قلمبند کیا۔ بعد میں ترک صدر ایردوان نے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی سے ون ٹو ون ملاقات کی جس کے بعد دونوں ممالک کے وفود کے درمیان مذاکرات منعقد ہوئے اور جس میں مختلف سمجھوتوں پر دستخط بھی کیے گئے۔ اس کے بعد دونوں رہنمائوں نے مشترکہ طور پر پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پربھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ترکی میں جی 20 اجلاس میں شرکت اور پھر ترکی کے ساتھ فروغ پانے والے تعلقات کا ذکر کیا۔

ترک صدر ایردوان نے بعد میں دہلی کی جامع ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی جانب سے ان کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دینے کی تقریب میں بھی شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے اقوام متحدہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے دنیا کے مستقبل کے اقوام متحدہ کے پانچ مستقل رکن ممالک کے ہاتھوں میں ہونے کی شکایت کی اور کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پانچ مستقل رکن ممالک کے علاوہ دیگر عبوری دس رکن ممالک کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ عبوری رکن ممالک ان پانچ مستقل رکن ممالک کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں اقوام متحدہ میں بھارت جس کی آبادی ڈیڑھ بلین کے لگ بھگ ہے اور عالم ِ اسلام جس کی آبادی 7.1 بلین ہے، کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں بھارت، اسلامی ممالک اور جاپان کو بھی آواز بلند کرنے اور اقوام متحدہ کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کیلئے اپنے اوپر عائد ہونیوالے فرائض کو ادا کرنے کی ضرورت ہے تا کہ دنیا کو پانچ ممالک کے ہاتھوں یرغمال بننے سےروکا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارا نظریہ ہے۔ حق پر مبنی ملک ہی کو طاقتور ہونا چاہئے۔‘‘

ڈاکٹر فر قان حمید


یہ طارق فاطمی کے ساتھ زیادتی ہے

0
0

میری طارق فاطمی صاحب سے صرف ایک ملاقات ہے‘ وزیراعظم میاں نواز
شریف 18 جنوری 2016ء کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کے لیے ریاض اور تہران کے دورے پر گئے‘ میں بھی اس وفد میں شامل تھا‘ روانگی سے قبل چک لالہ ائیر پورٹ کے لاؤنج میں طارق فاطمی صاحب سے ملاقات ہوئی‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا وزیراعظم ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے میں کامیاب ہو جائیں گے‘‘ طارق فاطمی مسکرائے اور نرم آواز میں بولے ’’ہاں ہو سکتا ہے لیکن 632ء سے آج تک کوئی شخص یہ کارنامہ سرانجام نہیں دے سکا‘‘ میں نے پوچھا ’’632ء سے کیوں؟‘‘ بولے ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 8 جون 632ء کو انتقال فرمایا تھا‘ شیعہ اور سنی کی بنیاد اس دن پڑی‘ یہ دونوں آج تک اکٹھے نہیں ہو سکے‘ شاید ہم اس تاریخی کارنامے میں کامیاب ہو جائیں‘‘ لاؤنج میں موجود تمام لوگ قہقہہ لگانے پر مجبور ہو گئے۔

طارق فاطمی بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں‘ ڈھاکا سے تعلق تھا‘ والد پروفیسر اور دانشور تھے‘ فاطمی صاحب نے ابتدائی سال علم‘ ادب اور کتابوں میں بسر کیے‘ جوانی میں فارن سروس جوائن کی اور کمال کر دیا‘ یہ دو بار ماسکو میں تعینات رہے‘ نیویارک‘ واشنگٹن اور بیجنگ میں ذمے داریاں نبھائیں‘ یہ زمبابوے میں سفیر رہے‘ یہ امریکا‘ اردن‘ بیلجیئم اور لکسمبرگ میں پاکستان کے سفیر رہے‘ یہ آخر میں یورپین یونین میں پاکستان کی نمایندگی کرتے رہے‘ یہ 2004ء میں ریٹائر ہو گئے‘ یہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے دوران امریکا اور یورپ ڈویژن کے ایڈیشنل سیکریٹری تھے‘ یہ بنگالی‘ اردو‘ انگریزی اور روسی چار زبانوں کے ماہر ہیں‘ یہ روسی زبان اردو کی طرح بولتے ہیں‘ فرنچ اور جرمن بھی سمجھتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں کمال یادداشت سے نواز رکھا ہے‘ آپ کسی شخص یا واقعے کا نام لیں یہ تاریخ‘ لوگوں کے نام اور واقعے کا پورا پس منظر بیان کر دیں گے۔

ٹائم مینجمنٹ کے ماہر ہیں‘ یہ صبح پانچ بجے اٹھتے ہیں‘ جاگنگ اور واک کرتے ہیں اور ناشتہ کر کے سات بجے دفتر پہنچ جاتے ہیں‘ یہ اسٹاف کے آنے سے پہلے دنیا کے تمام بڑے نیوز پیپرز‘ پاکستان کے تمام اخبارات‘ نیوز سمریاں‘ پاکستانی سفارت خانوں کے پیغامات اور گزشتہ دن کی ساری فائلیں پڑھ لیتے ہیں‘ یہ دفتر کھلنے سے پہلے دنیا کے تمام اہم دارالحکومتوں میں اپنے سفیروں سے ٹیلی فون پر بات بھی کر چکے ہوتے ہیں اور یہ دن بھر کی اہم ترین معلومات بھی یاد کر چکے ہوتے ہیں‘ یہ اس کے بعد سارا دن دفتر اور پرائم منسٹر ہاؤس میں رہتے ہیں اور شام کو جب وزارت خارجہ کے تمام لوگ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں یہ اس وقت بھی دفتر میں کام کر رہے ہوتے ہیں‘ طارق فاطمی پر پوری زندگی کرپشن کا کوئی چارج نہیں لگا‘ پوری سروس ایمانداری کے ساتھ گزاری‘ فارن سروس میں غیر ملکی تحفے کرپشن کا آسان ذریعہ ہیں‘ پاکستان کا جو بھی وفد دور ے پر باہر جاتا ہے یا کوئی مہمان پاکستان آتا ہے تو تحفے دیے اور لیے جاتے ہیں‘ پاکستان کے قانون کے مطابق یہ تحائف ریاست کی امانت ہوتے ہیں۔
صدر اور وزیراعظم سے لے کر وزیر‘ مشیر اور سفیر تک تمام عہدیدار یہ تحائف ’’توشہ خانہ‘‘ میں جمع کرانے کے پابند ہوتے ہیں‘ یہ لوگ اگر یہ تحائف اپنے پاس رکھنا چاہیں تو یہ قیمت ادا کر کے یہ گفٹ توشہ خانہ سے خرید سکتے ہیں‘ طارق فاطمی ملک کے ان چند لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے نہایت ایمانداری سے اپنا ہر تحفہ توشہ خانہ میں جمع کرایا‘ یہ ہر گفٹ کی رنگین تصویر اتارتے ہیں‘ یہ تصویر اپنے ریکارڈ میں رکھتے ہیں اور تحفہ وزارت میں جمع کرا دیتے ہیں‘ فاطمی صاحب کے ریکارڈ میں ایسی سیکڑوں تصویریں موجود ہیں ‘ یہ تصویریں ان کی قانون پسندی اور ایمانداری کی دلیل ہیں۔

یہ شخص 1971ء کے بعد بنگلہ دیش جا سکتا تھا لیکن یہ پاکستان میں رہا‘ اس نے پوری زندگی پاکستان کی عزت اور حرمت پر حرف نہیں آنے دیا‘ یہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تشکیل اور دھماکوں کے دوران بہت اہم اور حساس پوزیشنوں پر کام کرتا رہا لیکن اس نے کوئی انفارمیشن ’’لیک‘‘ نہ ہونے دی‘ یہ ’’سرد جنگ‘‘ کے دوران بھی اہم عہدوں پر فائز رہا‘ پاکستان اس وقت امریکا کا بہت بڑا اتحادی تھا‘ یہ اس وقت عام معمولی سی معلومات ’’لیک‘‘ کر کے سوویت یونین کا ہیرو بن سکتا تھا‘ یہ افغان جنگ کے دوران بھی اہم ترین پوزیشنوں پر رہا‘ یہ اس جنگ کے دوران بھی ایک خبر ’’لیک‘‘ کر کے پوری دنیا میں مشہور ہو سکتا تھا اور یہ پچھلے چار برسوں میں بھی بہت حساس اور اہم ملاقاتوں کا حصہ رہا‘ یہ اس وقت بھی چند فقرے لیک کر کے دنیا کی توجہ حاصل کر سکتا تھا لیکن طارق فاطمی کے 47 سال کے کیریئر میں کوئی ایک واقعہ‘ کوئی ایک ایسا لمحہ نہیں آیا جب کوئی بیان‘ کوئی لیک ان سے منسوب ہوئی ہو‘ یہ پوری زندگی سچے پاکستانی‘ پروفیشنل ڈپلومیٹ اور ایماندار انسان رہے۔

کام کیا‘ کتابیں پڑھیں‘ واک کی اور اپنی ذات میں مطمئن رہے لہٰذا میں دل سے یہ سمجھتا ہوں ایسے شخص کو ڈان لیکس میں پھنسانا‘ اسے قربانی کا بکرا بنانا اور اسے بغیر کسی چارج‘ بغیر کسی ثبوت اور بغیر کسی الزام کے فارغ کر دینا سراسر زیادتی ہے اور حکومت اس زیادتی کی ذمے دار ہے‘ میاں نواز شریف طارق فاطمی کو 20 سال سے جانتے ہیں‘ یہ چار سال وزیراعظم کے ہر سفر میں ان کے ساتھ بھی رہے‘ یہ وزیراعظم سے روزانہ ملاقات بھی کرتے تھے اور یہ انھیں بین الاقوامی امور پر گائیڈ بھی کرتے تھے چنانچہ وزیراعظم فاطمی صاحب کی ایمانداری ‘ پروفیشنل ازم اور دانش مندی تینوں کے بخوبی واقف ہیں‘ میاں صاحب جانتے ہیں یہ طارق فاطمی تھے جنہوں نے حکومت کو سمجھایا ہم نے امریکا کے سامنے لیٹ لیٹ کر اپنے ستر سال برباد کر دیے ہیں‘ ہمیں اب چین اور روس کی طرف بھی دیکھنا چاہیے۔

یہ طارق فاطمی تھے جن کی کوششوں سے روس اور پاکستان کے درمیان موجود پچاس سال پرانی برف پگھل گئی‘ دونوں ملکوں کے درمیان رابطے استوار ہو گئے اور فوجی مشقیں شروع ہو گئیں اور یہ طارق فاطمی تھے جو چین کو پاکستان کے اتنے قریب لے کر آئے کہ چین پاکستان میں 60 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر مجبور ہو گیا لہٰذا وزیراعظم بخوبی جانتے ہیں طارق فاطمی بے ایمان ہیں اور نہ ہی یہ ڈان لیکس کے ذمے دار ہیں‘ وزیراعظم یہ بھی جانتے ہیں یہ طارق فاطمی کے ساتھ زیادتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے وزیراعظم نے پھر جانتے بوجھتے یہ زیادتی کیوں کی؟ شاید اقتدار واقعی بہت ظالم ہوتا ہے‘ بادشاہ تخت بچانے کے لیے اپنے بھائیوں‘ اپنے بچوں تک کی قربانی دے دیتے ہیں اور یہ تو صرف ایک مشیر تھے چنانچہ یہ قربان ہو گئے‘ یہ وزیراعظم کو پانچ سال پورے کرانے کے لیے بکرا بن گئے۔

ڈان لیکس کی رپورٹ ابھی جاری نہیں ہوئی‘ یہ عوام کے سامنے نہیں آئی لیکن جہاں تک غیر مصدقہ معلومات کا تعلق ہے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کسی شخص کو ڈان لیکس کا ذمے دار قرار نہیں دیا‘ کمیشن کو طارق فاطمی کے خلاف بھی کوئی ثبوت نہیں ملا اور یہ بھی حقیقت ہے طارق فاطمی کے ڈان اور ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے‘ یہ ڈان میں کالم لکھتے تھے لیکن یہ جب پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے تو ظفر عباس نے ان کا کالم بند کر دیا اور یوں دونوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو  گئی چنانچہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے یہ اس کشیدگی کی صورت میں ڈان کو خبر کیوں لیک کریں گے؟ کمیشن کو ڈان‘ ظفر عباس‘ سرل المیڈا اور طارق فاطمی کے درمیان کسی قسم کے رابطے کے ثبوت بھی نہیں ملے۔ ’’ملزمان‘‘ میں سے بھی کسی نے طارق فاطمی کا نام نہیں لیا اور یہ بھی ثابت نہیں ہو سکا کیا یہ خبر واقعی ’’سیکیورٹی بریچ‘‘ تھی‘ یہ سچی تھی اورکیا یہ واقعی ’’لیک‘‘ تھی لہٰذا اس عالم میں طارق فاطمی صاحب کو سزا دینا پاکستان سے محبت کرنے والوں کے ساتھ زیادتی ہے۔

طارق فاطمی ریاست اور حکومت سے اپنا قصور پوچھ رہے ہیں‘ یہ اپنی صفائی بھی دینا چاہتے ہیں‘ یہ ریاست سے ’’فیئر ٹرائل‘‘ بھی مانگ رہے ہیں اور یہ اس داغ‘ اس دھبے کے ساتھ گھر بھی نہیں جانا چاہتے لہٰذا میری درخواست ہے ریاست کو انھیں صفائی کا موقع دینا چاہیے‘ حکومت کو انھیں باقاعدہ چارج شیٹ کرنا چاہیے تا کہ یہ اپنی صفائی دے سکیں‘ یہ اپنے خلاف ثبوتوں کا سامنا کر سکیں‘ یہ ان کا مقابلہ کریں اور یہ اگر ٹرائل میں واقعی مجرم پائے جائیں تو آپ انھیں بے شک غدار قرار دے دیں‘ آپ انھیں بے شک الٹا لٹکا دیں لیکن یہ اگر بے گناہ اور معصوم ثابت ہوں تو آپ ان سے معذرت کریں‘ انھیں پوزیشن پر بحال کریں‘ ان کی عزت انھیں واپس کریں اور یہ اس کے بعد بے شک مستعفی ہو کر ایوان اقتدار کو سلام کر جائیں لیکن موجودہ فیصلہ بہرحال ظلم ہے‘ یہ زیادتی ہے۔

ہمیں اب یہ سکھا شاہی بھی ختم کرنا ہوگی اور ہمیں ’’سزا پہلے دے دیں اور ایف آئی آر بعد میں درج کریں‘‘ جیسی روایات بھی ترک کرنا ہوں گی‘ ہم آخر کتنے لوگوں کو غدار‘ بے ایمان اور کافر قرار دیں گے‘ ہمیں کہیں نہ کہیں تو ٹھہرنا ہو گا‘ ہمیں کہیں نہ کہیں تو فل اسٹاپ لگانا ہو گا‘ ہم طارق فاطمی جیسے کتنے بے گناہوں کو عبرت کی نشانی بنائیں گے اور ہم کتنے محب وطن لوگوں کو ذلیل کریں گے‘ ہم نے کبھی سوچا‘ ہم نے کبھی غور کیا؟ شاید نہیں اور شاید ہم کبھی یہ سوچیں گے بھی نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ قومیں جب اچھے اور برے کی تمیز کھو بیٹھتی ہیں تو پھر ان کے پاس غور کرنے کے لیے وقت نہیں ہوتا‘ یہ سوچا نہیں کرتیں اور ہم بڑی مدت سے اچھے اور برے کی تمیز کھو چکے ہیں۔

جاوید چوہدری


فیس بک کے ماہانہ صارفین کی تعداد دو ارب کے قریب

0
0

سماجی رابطوں کی ویسب سائٹ فیس کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال
کے ابتدائی تین ماہ میں اس کے صارفین کی تعداد دو ارب تک پہنچ گئی ہے جبکہ اس کے منافع میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد میں ہر ماہ ایک ارب 94 کروڑ تک کا اضافہ ہوا ہے جن میں سے ایک ارب 30 کروڑ روانہ کی بنیادوں پر استعمال کرتے ہیں۔ 
امریکی کمپنی کے مطابق ابتدائی تین ماہ کے دوران کمپنی کو تین ارب ڈالر سے زائد کا منافع ہے۔ تاہم فیس بک کا کہنا ہے کہ اشتہارات سے ہونے والی آمدن میں کمی ہوئی ہے۔ فیس بک کو حال ہی میں نفرت انگیز مواد، بچوں کے ساتھ زیادتی اور سوشل نیٹ ورک پر خود کو نقصان پہنچانے جیسے واقعات کے باعث شدید دباؤ کا برداشت کرنا پڑا۔
فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے اعلان کیا کہ وہ ویب سائٹ پر موجود مواد میں تبدیلی کے لیے تین ہزار اضافی افراد کو ملازمت پر رکھ رہے ہیں۔ دنیا کی کل آبادی میں سے 25 فیصد ہر ماہ فیس بک کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ زیادہ تر نئے صارفین یورپ اور شمالی امریکہ سے باہر کے ہیں۔ ان نتائج کے بعد مارک زکربرگ کا کہنا تھا کہ صارفین کی بڑھتی تعداد کے باعث فیس بک کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ اپنی ویب سائٹ کو مزید پھیلا کر ٹی وی، ہیلتھ اور سیاست کی جانب بڑھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس بنیاد کے بعد ہماری توجہ کمیونٹی بنانے پر ہو گی۔ بہت کچھ کرنے کو ہے۔‘

پاکستان کے مختلف علاقوں کے مشہور کھانے

0
0

دنیا بھر میں پاکستان کے کھانے مشہور ہیں، یہاں کے کھانے چٹپٹے اور لذیذ ہوتے ہیں لیکن کچھ ایسی کھانے ہیں جو پاکستان کے شہروں کی پہچان ہے۔ آج ہم آپ کو ان کھانوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنے منفرد ذائقے کے اعتبار سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ 

لاہور کے مشہور کھانے
لاہور اپنے خاص پکوانوں کی وجہ سے کافی مشہور ہے لاہور کے لوگ کھانا پسند کرتے ہیں اور ڈٹ کر کھاتے بھی ہیں اور دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں۔ لاہوری چرغہ لاہور کا چرغا پورے پاکستان میں مشہور ہے، لاہور کے چرغے میں منفرد اور مختلف مصالحہ جات استعمال کئے جاتے ہیں، جس سے چرغے کا ذائقہ اتنا لذیز ہو جاتا ہے کہ کھانے والے اپنی انگلیاں چاٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

لاہور کے سری پائے
سری پائے اور خاص طور پر لاہور کے پھجے کے سری پائے کا ذکر تو آپ نے سنا ہو گا، جس کا ذکر ہر خاص و عام کی زبان پر ہوتا ہے، لاہوری ناشتہ میں حلوہ پوری ، نہاری ، اور سری کھانا پسند کرتے ہیں۔ 

ملتان کا سوہن حلوہ
ملتان کا سوہن حلوہ ایسی سوغات ہے جو نہ صرف ملتان میں رہنے والے بلکہ دیگر شہروں سے آنے والے لوگ بے حد پسند کرتے ہیں۔ ملتان کا سوہن حلوہ اپنے ذائقے کے باعث دنیا بھر میں بے حد مقبول ہے، ملتان کے سوہن حلوے کی خوشبو اتنی سوندھی ہوتی ہے کہ کھائے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ جب کوئی شخص ملتان آئے اور سوہن حلوہ نہ کھائے ایسا تو ممکن نہیں جبکہ آنے والے سوہن حلوہ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کیلئے بطور تحفہ بھی لے جاتے ہیں۔

خان پور کے پیڑے
خان پور کے پیڑے اپنے منفرد ذائقے اور لذت کی وجہ سے پورے پاکستان میں کافی مشہور ہے، لوگ ان پیڑوں کو بہت شوق سے کھاتے اور دوستوں کیلئے لے جاتے ہیں۔ 
اندورنِ سندھ کے مشہور کھانے 
سندھی بریانی
سندھی بریانی پاکستان بھر میں مشہور ہے، اسکو سندھ کی ایک روایت ڈش تصور کیا جاتا ہے، یہ گوشت اور چاول کے ساتھ مل کر بنتی ہے، اس کا ذائقہ دوسری بریانی سے الگ ہوتا ہے۔ 

حیدرآبادی مرچوں کا سالن
حیدرآبادی کھانے اپنے منفرد مصالحوں کی وجہ سے بہت مشہور ہیں، یہ صوبہ سندھ کے مشہور ڈش میں سے ایک ہے، ایک اور مقبول ڈش ہے۔ 
شکار پور کا اچار
اگر آپ نے شکارپور کے اچار اور مربے نہیں کھائے تو دسترخوان کا ذائقہ ادھورا سمجھیے، شکار پور کا اچار اپنے کھٹاس اور ذائقے کے لحاظ سے پورے پاکستان میں مشہور ہے اور لوگ اسے کافی شوق سے کھاتے ہیں جبکہ اس کو فرمائش کر کے منگوایا بھی جاتا ہے۔

حیدر آباد کی ربڑی
ربڑی اور وہ بھی حیدرآباد کی ربڑی ہو تو مزہ ہی دوبالا ہو جاتا ہے، اس کا ذائقہ اتنا لزیذ ہوتا ہے کہ کھاتے ہی جائے لیکن دل نہیں بھرتا۔ 

کراچی کے مشہور کھانے
کراچی میں ملنے والے کھانے اور پکوان لذت اور معیار کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہوتے ہیں، کراچی میں بن کباب ، مزیدار مٹکے والے دہی بڑے، چنا چاٹ ، دہراجی کا گولہ گنڈا ، بریانی ، نہاری ، لیاقت آباد کے گول کپے ، فریسکو کے دہی بڑے اور سموسے، پراٹھا اور چائے بہت مشہور ہے۔ 

پشاور کے مشہور کھانے
پشاور کے چپلی کباب
پشاور کے چپلی کباب پاکستان بھر کے علاوہ دنیا بھر میں اپنی لذت اور ذائقہ کے لئے مشہور ہیں، چپل کبابوں کے بننے کی خوشبو نہ صرف مقامی افراد بلکہ باہر سے آنے والوں کو بھی اپنی طرف کھینچتی ہے، چپل کباب خاص طور پر گائے کے گوشت سے بنائے جاتے ہیں مگر چپل کباب بکرے، بھیڑ اور مرغی کے گوشت سے بھی بن سکتے ہیں۔ چپلی کباب پشتو کے لفظ چپرخ سے نکلا ہے، جس کا معنی ہے گول ، فلیٹ۔ یا چپٹا۔

بلوچستان کے مشہور کھانے
بلوچی سجی
سجی نہ صرف ایک بہترین روایتی ڈش ہے بلکہ یہ بلوچستان کی پہچان بھی بن چکی ہے، جو بھی اسے کھاتا ہے اسے بار بار کھانے کی خواہش ہوتی ہے، سجی کی تیاری میں بکرے کی ران اور دستی کو دہکتے کوئلوں کی آگ سے اسے اپنے منفرد انداز میں تیار کیا جاتا ہے۔ سجی واحد ڈش ہے جو بغیر گھی کے پکائی جاتی ہے، تمام روایتی ڈشوں میں سجی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بلوچستان اپنے لذیذ اور خوش ذائقہ کھانوں اور مہمان نوازی کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے۔

چترالی منتو
چترالی منتو ایک روایتی ڈش ہے ، جو گائے کے گوشت اور  دنبے کے گوشت سے بنتی ہے، اس کو بنانے کیلئے گوشت میں پیاز کے ساتھ تمام مصالحے ڈال کر مکس کیا جاتا ہے، پھر ڈولی جاتی ہے اور چھوٹے چھوٹے پیڑے بنا لئے جاتے ہیں اور ان پیڑوں کے بیچ میں مصالحہ لگا گوشت رکھ کر بند کردیا جاتا ہے۔ ایک اسٹیل کے برتن میں منتو کو بھاپ میں پکایا جاتا ہے۔

تحریر :عائشہ حنین

 

شہنشاہِ ظرافت عمر شریف ہر روپ میں منفرد

0
0

شاید دنیا میں کوئی ایسی مثال مل جائے مگر پاکستان میں وہ اپنی طرز کا واحد
اداکار ہے جسے آڈیو کیسٹ کے ذریعے ملک گیر مقبولیت ملی اور بعد میں ویڈیو کیسٹ کے ذریعے اس کی شہرت و مقبولیت ایک سمندر تو کیا سات سمندر پار تک پھیل گئی۔ عہد حاضر کے اس منفرد اور ہرفن مولا اداکار کا نام عمر شریف ہے۔ کمپیئر، اداکار، صداکار، سکرپٹ رائٹر، نغمہ نگار، ڈائریکٹر، گلوکار، فلمساز اور نہ جانے کیا کیا۔ فن اداکاری کا کونسا ایسا شعبہ ہے جاں عمر شریف کے نام کا ڈنکا نہیں بجا۔ آڈیو کیسٹ، ریڈیو، تھیٹر، ٹی وی، فلم ۔ عمر شریف فلموں میں کامیڈین بھی بنا اور ہیرو بھی آیا۔ ٹی وی ڈراموں میں بطور اداکار کام کیا ، بعد میں ٹی وی شو کا میزبان بنا، لاتعداد کامیاب شوز ٹی وی سے نشر ہوئے۔ ’’ہپ ہپ ہرے‘‘ اور ’’عمر شریف شو‘‘ 1980 کی دہائی میں عمر شریف نے ایک انوکھا کام کیا۔ 

مزاحیہ پروگراموں پر مشتمل آڈیو کیسٹ بنائے۔ اس وقت آڈیو کیسٹ کے بزنس کا عروج تھا، عمر شریف کے کیسٹ بازار میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بِک جاتے تھے۔ پھر اپنے اسٹیج ڈراموں کو ویڈیو کیسٹ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلا دیا۔ عمر شریف نے ایک موقع پر کہا تھا۔ میری شہرت اور کامیابی کے پیچھے کسی ڈائریکٹر کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ اس سائنس دان کا ہاتھ ہے جس نے وی سی آر ایجاد کیا تھا۔ 1955ء میں کراچی میں جنم لینے والے عمر شریف کا اصل نام محمد عمر ہے۔ 1974ء میں جب تھیٹر میں کام شروع کیا اپنا نام عمر شریف رکھ لیا۔ عمر شریف ایک مصری اداکار بھی ہے جو ہالی وڈ کی فلموں میں کام کرتا رہا ہے۔ شروع میں عمر شریف نے اپنے فن کار دوستو ں کا ایک گروپ بنایا جو شادیوں اور دیگر تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔
آہستہ آہستہ باقاعدہ تھیٹرمیں بھی کام کرنا شروع کر دیا جیسا کہ سطور بالا میں لکھا گیا ۔ عمر شریف نے انتہائی ذہانت سے آڈیوکیسٹ اور ویڈیو کیسٹ کی ایجادات کا استعمال کیا۔ کراچی میں جب عمر شریف کا کوئی اسٹیج ڈرامہ چلتا ساتھ ہی اس کی ویڈیو کیسٹ بھی مارکیٹ میں آجاتی جو ساری دنیا میں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں پہنچ جاتی۔ اس طرح عمر شریف کی مقبولیت پوری دنیا میں پھیل گئی۔ پاکستان میں اس سے پہلے ایسا تجربہ کسی نے نہیں کیا تھا۔ ’’بکرا قسطوں پر‘‘ عمر شریف کا ایک ایسا اسٹیج ڈرامہ ہے جو بے انتہا مشہور ہوا۔ شاید ہی پاکستان میں کسی اسٹیج ڈرامے کو اس قدر مقبولیت ملی ہو ۔اس ڈرامے کے چار حصے بنائے گئے جو وقفے وقفے سے تھیٹر پر پیش کیے گئے۔ ان چاروں حصوں نے شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔

 ’’بکرا قسطوں پر II‘‘ کی جب ویڈیو کیسٹ ریلیز ہوئی ٹھیک اسی دن بھارتی سینما کے سپر اسٹار امیتابھ بچن کی شہرئہ آفاق فلم شہنشاہ بھی پاکستان میں ویڈیو کیسٹ کے ذریعے آئی تھی۔ اس زمانے میں کسی بھی فلم کی ویڈیو کا کرایہ 10روپے 24 گھنٹوں کے لیے ہوتا تھا۔ شہنشاہ اور ’’بکرا قسطوں پر II‘‘کے ویڈیو کیسٹ 50 روپے میں بلیک ہوتے ۔ اس وقت عمر شریف شہرت اور مقبولیت کی تمام حدیں پار کر چکا تھا۔ بھارت میں عمر شریف بے انتہا مقبول ہو چکا تھا۔ اسٹیج بولے جانے والے عمر شریف کے جملوں کو بھارت میں کاپی کیا جانے لگا تھا۔ عمر شریف اور معین اختر نے لاتعداد ڈراموں میں ایک دوسرے کے ساتھ کام کیا ۔ دونوں ہی بڑے فن کار تھے اور مقبولیت میں بھی ایک دوسرے کے ہم پلہ تھے۔

معین اختر سینئر تھے۔ عمر شریف ان کے جونیئر تھے مگر یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے جب بھی تھیٹر پر یہ دونوں عظیم فن کار آمنے سامنے آتے ہمیشہ عمر شریف کے جملوں اور جگتوں پر شائقین کے قہقہے زیادہ بلند نکلے۔ اس بات کا ہرگز مقصد یہ نہیں عمر شریف معین اختر سے بڑا فن کار ہے۔ 1990ء کے اور اس کے بعد 90 کی دہائی میں عمر شریف کو جنوبی ایشیا کا کنگ آف کامیڈی کا خطاب دیا گیا اس کی مقبولیت بھارت اور بنگلہ دیش میں بہت بڑھ چکی تھی۔ ان ممالک میں عمر شریف نے لاتعداد کامیاب شوز کیے تھے۔ عمر شریف نے ایک اسٹیج ڈرامہ لوٹے اور لفافے لاہور میں کیا۔ جس کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ اس تھیٹر پلے کی کہانی کچھ یوں تھی ایک چورن فروش چھوٹے چھوٹے فراڈ کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ ایک بڑا نوسرباز بن جاتا ہے۔ پھر وہ سیاست میں آ جاتا ہے اور ایک دن ملک کا وزیراعظم بن جاتا ہے۔

یہ 1996 ء کی بات ہے اس وقت کی قومی اسمبلی میں اس اسٹیج ڈرامے کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی اور سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ اس وقت کے قائد حزب اختلاف نے بھی اس ڈرامے کے خلاف اسمبلی میں تقریر کی۔ اس طرح عمر شریف کا ایک اور تھیٹر ڈرامہ ’’عمرشریف حاضر ہو‘‘ بھی بہت مشہور ہوا۔ جس میں انہوں نے ایک وکیل کا کردار ادا کیا۔ ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشن نے اس ڈرامے کے بعد عمر شریف پر مقدمہ بھی درج کیا۔ تاہم بعد میں اس مقدمے کی مزید سماعت ہونے سے قبل ہی دونوں فریقین میں صلح ہو گئی۔ اس دوران عمر شریف نے بطور اداکار، مصنف و ہدایت کار ایک فلم ’’مسٹر420‘‘ بھی بنائی جو بے انتہا کامیاب رہی۔ اس فلم میں انہوں نے تین مختلف کردار بڑی مہارت سے ادا کیے۔ خاص طور پر ایک کردار جو جنگل میں رہتا ہے اور بندروں جیسی عادات کا مالک ہوتا ہے۔ عمر شریف کے اس کردار کو بہت سراہا گیا۔ 

اس کے بعد ان کی فلم ’’مسٹر چارلی‘‘ نے بھی بہت کامیابی حاصل کی۔ بعد میں عمر شریف کی چند اور فلموں نے بھی کامیابیاں حاصل کیں مگر ایک بات غورطلب یہ ہے کہ عمر شریف کی اداکاری کو صرف ان فلموں میں زیادہ سراہا گیا جس کے ڈائریکٹر وہ خود تھے۔ بھارتی ٹی وی چینل میں ہونے والے بہت بڑے کامیڈی ٹی وی شو میں عمر شریف کو بطور جج مدعو کیا گیا جہاں ان کے فن کا اعتراف بھارتی ایکٹر شیکھر سمن نے بھی کیا۔ انہوں نے بھارت میں ایک فلم بطور مصنف و ہدایت کار شروع کی تھی جس میں راجیش کھنہ کو کاسٹ کیا گیا تھا مگر وہ بھی چند دن کی عکس بندی کے بعد ڈبوں میں بند ہو گئی۔ عمر شریف ایک بڑا سرکاری اعزاز تمغہ امتیاز بھی حاصل کر چکے ہیں۔ آج بھی مختلف ٹی وی چینل پر ان کے شوز کامیابی سے دکھائے جا رہے ہیں۔

حسنین جمیل

دیوان عام

0
0

دیوان عام کی تعمیر شہاب الدین شاہجہان کے حکم پر تخت نشینی کے اگلے سال
جلال الدین اکبر کے دولت خانہ خاص و عام کی جنوبی دیوار سے متصل اور مستی (مسجدی) دروازے کے مغرب میں 1628ء میں آصف خاں کی زیر نگرانی شروع ہوئی اور تین سال بعد 1631ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔ دیوان عام سطح زمین سے تقریباً پانچ فٹ بلند سنگ سرخ سے بنائے گئے چبوترے پر تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کا طول 730 فٹ جبکہ عرض 460 فٹ ہے۔ دیوان عام کی تعمیر کے وقت اس کے چاروں طرف کمرے تھے۔ مشرق مغرب اور جنوب میں داخلی راستے تھے۔ آج ان کمروں کے نشانات تک باقی نہیں ہیں لیکن سنگ سرخ کے چالیس بلند ستونوں پر مشتمل کھلا ہوا دیوان عام ایک وسیع چبوترے پر اپنی جگہ قائم ہے دیوان عام کے چبوترے کے اردگرد سنگ سرخ کا خوبصورت جنگلہ تعمیر کیا گیا تھا۔ جس کا کچھ حصہ باقی تھا مگر آج کل اس جنگلہ کو ازسرنو تعمیر کیا گیا ہے۔

دیوان عام کے شمال کی جانب تخت شاہی ہے۔ جسے جھروکہ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ عہد مغلیہ میں یہاں بے شمار دفعہ جشن کی تقریبات منعقد ہوئیں۔ دیوان عام کا مقصد تخت شاہی کے سامنے کھڑے ہونے والوں کو دھوپ اور بارش سے محفوظ رکھنا تھا۔ اس دیوان کے دائیں بائیں اور سامنے راستے تھے جن سے امراء، وزراء اور دیگر ملازمین داخل ہوتے تھے۔ دیوان عام میں بادشاہ سلامت تقریباًروزانہ جلوہ افروز ہوتا تھا۔ اس وقت مقابل کے نقارخانہ میں فوجی انداز میں نوبت بجتی۔ 1597ء میں شہنشاہ جلال الدین اکبر کشمیر سے واپس لاہور پہنچا تو اس وقت آگ لگنے سے دیوان عام کو بہت نقصان پہنچ چکا تھا۔ اکبر نے قلعہ لاہور کے دیوان کی دوبارہ مرمت کروائی۔
مشہور مورخ برنیئر کے مطابق دیوان عام کے تخت پر بیٹھے بادشاہ کے سامنے سے انسانوں، گھوڑوں اور ہاتھیوں کا جگمگاتا ہوا جلوس گزارا جاتا تھا۔ اس کے بعد بادشاہ سلامت امور سلطنت میں مصروف ہو جاتا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں دیوان عام کا نام ’’تخت‘‘ رکھ دیا گیا۔ لیکن یہ سکھ حکمران خود شاہی تخت پر کسی وجہ سے کبھی براجمان نہ ہوا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مرنے کے بعد اس کی ارتھی جلائے جانے سے پہلے کچھ وقت کے لیے دیوان عام میں رکھی گئی۔ 1891ء میں سکھوں کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں دیوان عام کو بہت نقصان پہنچا۔ 

سکھ دور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بیوی مہارانی چند کور کے خلاف جب سکھ سردار شیر سنگھ نے بادشاہی مسجد کے میناروں سے زمبورک توپوں کے ذریعے گولہ باری کی تو دیوان عام کا بہت ساحصہ گر گیا جسے انگریزوں نے شاہی قلعہ لاہور پر تسلط حاصل کرنے کے فوراً بعد ہی ازسر نو تعمیر کیا۔ یہ نئی تعمیر انگریزی طرز تعمیر کے مطابق ہے۔ اس طرح اس عمارت کی مغلئی شکل تبدیلی ہو گئی۔ اور اس کی تمام محرابوں کو اینٹوں سے پُر کرکے ایک وسیع ہال میں تبدیل کر کے لکڑی کے تختے لگا کر کمرے بنا لیے گئے اور اسے ہسپتال میں تبدیل کر دیا گیا۔ 1927ء تک یہ عمارت بطور ہسپتال استعمال ہوتی رہی۔ 1927ء میں محکمہ آثار قدیمہ نے دیوان عام کو اپنی تحویل میں لے یا اور تمام اضافی تعمیرات کو ہٹا کر ایوان کو پھر کشادہ کر دیا گیا۔

جاوید اقبال

آخر کار پیمرا جاگ اٹھا ۔ دیر آید، درست آید

0
0

چند روز قبل پیمرا نے ٹی وی چینلز کو تین اہم معاملات میں پالیسی گائیڈ لائنز

جاری کیں۔ سب سے اہم معاملہ ٹی وی چینلز کی رمضان ٹرانسمیشنز کا ہے۔ پیمرا نوٹس کے مطابق گزشتہ چند سالوں سے ریٹنگ کی دوڑ میں شامل ٹی وی چینلز نے اچھوتے انداز اپنائے اور غیر مہذب حرکتیں اپناتے ہوئے نہ صرف رمضان المبارک کے تقدس کو پامال کیا بلکہ ہماری سماجی، اخلاقی اور مذہبی اقدار کی دھجیاں اڑائیں بلکہ بعض اوقعات فرقہ واریت کو بھی فروغ دینے کی کوشش کی جاتی رہی جو معاشرہ میں انتشار اور فساد کو ہوا دینے کا سبب بنتا ہے۔ پیمرا نے ماردر پدر آزاد ٹی وی چینلز کو یاد دلایا کہ رمضان المبارک بنیادی طور پر پاکیزہ خیالات اور اجتماعی و انفرادی عبادات کا ماحول فراہم کرتا ہے۔

رمضان کی ہر شب کی بے پناہ فضیلت ہے اور عبادات کے اجر میں اضافہ کی ضمانت ہے اس لیے ایسے قیمتی لمحات کو کھیل تماشا، ذہنی عیاشی اور سجاوٹ میں ضائع نہ کیا جائے۔ مخصوص اوقات کار کے لیے معلوماتی، فہم و دین اور اخوت و بھائی چارہ کو فروغ دینے کی سعی کی جائے۔ پیمرا نے ٹی وی چینلز کو اپنے ہدایت نامہ میں یہ بھی لکھا کہ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ فحش، بیہودہ، غیر مہذب اور اخلاق سے گرے ہوئے پروگرام اللہ کی خوشنودی کی بجائے اُس کے قہر و غضب کا سبب بنتے ہیں۔ پیمرا نے چینلز کو یہ بھی یاد دلایا کہ رمضان میں نشر کیے جانے والے پروگرام بنا کسی اسکرپٹ کے یا ادارہ جاتی نگرانی کے محض زیادہ ریٹنگ یا مالی فوائد کے حصول کے لیے تشکیل دیے جاتے ہیں۔
پیمرا نے واضح کیا کہ اب ایسی کسی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی الیکٹرنک میڈیا ریگولیٹر نے چینلز کو ہدایت کی کہ آنے والی رمضان ٹرانسمیشن میں گزشتہ سالوں کے برعکس مکمل طور پر کوڈ آف کنڈکٹ پر عمل کیا جائے اور ایسے پروگرام مرتب کیے جائیں جو ریٹنگ کی بجائے مذہبی ہم آہنگی کو بڑھانے کے لیے بنیادی معلومات فراہم کریں، رمضان المبارک کے تقدس کو ملحوظ خاطر رکھیں، دوران پروگرام شرکاء کو مختلف قسم کے کام مثلاً ڈانس، گانے سنانے اور اُلٹے سیدھے کام کرنے پر نہ اُکسائیں، غیر اخلاقی، غیر معیاری گفتگو سے پرہیز کیا جائے، ایسے افراد کو دین سے متعلق گفتگو کے لیے مدعو کیا جائے جو دین سے واقف ہوں اور مستند علم رکھتے ہوں، اشتہارات کی ترتیب دیتے اور نشر کرتے وقت رمضان المبارک کے تقدس کا خیال رکھا جائے۔

کچھ دوسری ہدایات کے علاوہ، پیمرا نے چینلز پر یہ بھی لازم کیا کہ رمضان کے دوران تفریحی اور کوئز پروگرام نشریات کی اجازت رات نو بجے کے بعد ہو گی جبکہ رمضان کے آخری عشرہ میں ایسے پروگراموں کو نشر کرنے پر مکمل طور پر پابندی ہو گی۔ ایک اور پالیسی نوٹس میں پیمرا نے مارننگ شوز کے نام پر بے ہودگی پھیلانے کی روک تھام کے لیے چینلز کو ہدایات جاری کیں۔ چینلز کو پابند کیا گیا کہ مارننگ شور ترتیب دیتے وقت اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان پروگرام کے ذریعے فحاشی و عریانیت کو نہ پھیلایا جائے، دوران پروگرام شرکاء کو ڈانس، گانے اور تضحیک آمیز حرکات پر نہ اکسایا جائے، غیر اخلاقی، غیر معیاری، ذومعنی جملہ بازی اور پھکڑپن سے پرہیز کیا جائے، پروگراموں میں ملبوسات کا خاص خیال رکھا جائے اور ایسے ملبوسات پہنے جائیں جو ہماری روایات کے عین مطابق ہوں، پروگرامز کے دوران مہذب اور شائستہ زبان استعمال کی جائے، اسراف و نمود سے اجتناب کیا جائے، ناشائستہ اور نازیبا مناظر نشر کرنے سے پرہیز کیا جائے۔

دوسری کئی ہدایات کے ساتھ، ٹی وی چینلز کو کہا گیا کہ مارننگ شوز میں ہر شعبہ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالے افراد کو مہمان کے طور پر بلوایا جائے تا کہ نئی نسل اُن سے علم و ترغیب حاصل کر سکے، محض شوبز سے مہمان بلانا، ایک خاص سوچ کی غمازی اور ان شوز میں غیر مرد و خواتین کو گلے ملوانا، بوس و کنار اور بانہوں میں بانہیں ڈال کر ڈانس کرانا ہماری تہذیب اور اقدار کے منافی ہے۔ اس لئے تمام چینلز اس بات کو یقینی بنائیں کہ پاکستان کے سوادِ اعظم (اکثریت) کی پسند اور ناپسند پر چند مخصوص افراد کی سوچ و فکر کو نافذ نہ کیا جائے۔ اپنے تیسرے پالیسی نوٹس میں پیمرا نے ٹی وی چینلز میں دکھائے جانے والے ڈراموں کو قابل اعتراض مواد سے پاک کرنے کے لیے ہدایات جاری کیں۔

پیمرا کے مطابق ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں ٹی وی چینلز ایسے ڈرامے بنا رہے ہیں جو نہ صرف سماجی و اخلاقی اقدار کے منافی ہیں بلکہ بعض اوقات معاشرتی بگاڑ کو بھی فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ پیمرا نوٹس کے مطابق ایسے ڈرامے پیش کیے جا رہے ہیں جن سے ہمسایہ ملک (بھارت) کی ثقافت کی عکاسی ہوتی ہے۔ مزید براں اسلامی اور سماجی روایات سے منافی موضوعات پر ڈرامہ نگاری ایک معمول بن گیا ہے جس کا بادی النظر میں مقصد معاشرے میں بے یقینی اور انتشار کو فروغ دینا ہے اور مذہبی اقدار کو کمزور کرنا ہے۔ 

اس تناظر میں چینلز کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ ڈرامے کے موضوع کا انتخاب کرتے وقت انتہائی احتیاط برتیں، حساس موضوعات جو مذہب، فرقہ وارانہ امور، صوبائیت، ذاتی معاملات، ازدواجی زندگی اور منفی رجحانات کو نشر کرنے سے اجتناب کیا جائے، موضوعات کے چُناو اور کہانی کی تشکیل میں تمام معاشرتی طبقات اور اُن پر ڈراموں کے اثرات کو مدنظر رکھا جائے، کسی مذہب، فرقہ یا برادری کے خلاف توہین آمیز کلمات یا ایسے الفاظ جو مذہبی فرقوں اور لسانی گروپوں میں عدم ہم آہنگی کا باعث بنیں، نشر کرنے سے اجتناب کیا جائے، کوئی ایسی چیز جو نازیبا، اخلاق باختہ یا فحش ہو اسکو نشر نہ کیا جائے، ڈراموں میں اپنی روایات کے مطابق ملبوسات کا خیال رکھا جائے.

 ڈراموں میں مرد وزن کا آپس میں گلے ملنا، بوس و کنار کرنا اور بیڈ روم مناظر کی عکس بندی سے اجتناب کیا جائے، منشیات اور شراب کے استعمال کے مناظر نشر نہ کیے جائیں، ڈراموں میں ایسی کہانیاں نہ پیش کی جائیں جن سے بچوں خصوصاً بچیوں کے ناپختہ ذہن اور دماغ پر غلط اثر ہو اور والدین سے بدتمیزی یا نافرمانی کے رویے کی طرف راغب ہوں یا بے راہ روی کی طرف اکساتی ہوں، حساس موضوعات پر ڈرامہ نگاری کرتے ہوئے تمام مذہبی، سماجی اور معاشرتی امور کا خاص خیال رکھا جائے اور اُن کی عکس بندی اسی انداز سے کی جائے جس سے ناظرین کو آگاہی بھی کی جائے اور اُن کی اصلاح بھی ہو۔ 

پیمرا کی طرف سے درج بالا اقدامات اگر بہت پہلے اٹھا لیے جاتے تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ لیکن چلیں شکر ہے کہ اب بھی پیمرا کو ٹی وی چینلز کی طرف سے معاشرہ میں انڈین کلچر اور بے راہ روی پھیلانے اور ہمارے مذہبی اور معاشرتی اقدار کو تباہ کرنے سے روکنے کا خیال آ گیا۔ دیر آید درست آید۔ ان اقدامات پر پیمرا خراج تحسین کا مستحق ہے اور امید کی جاتی ہے کہ وہ جاری کی گئی ہدایات پر سختی سے عمل درآمد کروائے گا اور ٹی وی چینلز کو کسی بھی طور پر یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ اپنی ریٹنگ اور پیسہ کے لیے ہماری دینی اور معاشرتی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہماری نسلوں کو تباہی کے راستے پر دھکیل دے۔ 

پیمرا نے خوب کہا کہ چند مخصوص افراد کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پاکستان کی اکثریت پر اپنی سوچ و فکر مسلط کریں۔ ٹی وی چینلز کو سدھارنے کے لیے پیمرا نے ایک اہم قدم اٹھا لیا ہے، اب یہ حکومت، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ اس معاملہ میں پیمرا کا ساتھ دیں۔ اس معاملہ میں عوام سے میری درخواست ہے کہ کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں وہ پیمرا کو فوری شکایت کریں۔ عوامی شکایات خلاف ورزی کی صورت میں متعلقہ ٹی وی چینل کے خلاف کارروائی کا اہم ذریعہ بنتے ہیں اس لیے ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہو گی۔ یہاں عدلیہ سے میری درخواست ہے کہ وہ ٹی وی چینلز کی خلاف ورزیوں سے متعلق معاملات میں اسٹے آرڈر کی موجودہ پالیسی پر غور کرے کیوں کہ کئی ٹی وی چینلز اسٹے آرڈر کے پیچھے چھپ کر وہ خلاف ورزیاں کرتے جاتے ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔

 انصار عباسی  


یہ تیرا برطانیہ نہیں، پاکستان ہے : وسعت اللہ خان

0
0

ان دنوں زندگی عذاب میں ہے۔ کیونکہ لندن میں میرے پڑوس میں رہنے والے
میلکم کی اتفاقاً کراچی میں چند ماہ کے لیے پوسٹنگ ہوئی ہے۔ شام کے بعد وہ بالکل ویہلا ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کراچی اب محفوظ ہے۔ مگر میلکم کے باس نے اسے اتنا ڈرایا ہوا ہے کہ مجھے مجبوراً اسے ہوا خوری کے لیے ہر تیسرے چوتھے دن نکالنا پڑتا ہے مگر وہ ہوا خوری بھی کار سے اترے بغیر کرتا ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ میلکم کا پرابلم کیا ہے؟ وہ سارا انگریزی اخبار چاٹ جاتا ہے اور پھر پگلا جاتا ہے اور ایسے ایسے سوالات کرتا ہے کہ میں چریا جاتا ہوں۔ مثلاً کل اس نے یہ خبر پڑھ لی کہ پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کو اپنے وکیل کے ذریعے خط بھیجا ہے کہ میں تب عدالت میں پیش ہونے پاکستان آؤں گا جب فوج میری حفاظت کرے اور پیشی کے بعد میری بیرونِ ملک واپسی کو بھی یقینی بنایا جائے۔

یہ تین رکنی خصوصی عدالت پشاور، لاہور اور بلوچستان ہائی کورٹ کے ججوں پر مشتمل ہے اور اس میں پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ زیرِ سماعت ہے اور عدالت نے ملزم کو اشتہاری قرار دے رکھا ہے۔ میلکم کہتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اشتہاری ملزم اپنی شرائط پر عدالت میں پیش ہونے کا مطالبہ کرے؟ ہمارے برطانیہ میں تو کسی ملزم کو ایسا کرنے کی جرات نہیں ہو سکتی۔ عدالت فوراً اس کا ذہنی معائنہ کروانے کا حکم دے گی۔ میلکم کو اتنی سامنے کی بات بھی ہمالیہ لگ رہی ہے کہ دنیا کی کسی بھی فوج کا ترجمان اپنے ہی ملک کے وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے حکم نامے کو کیسے ایک ٹویٹ کی نوک پر مسترد کر سکتا ہے، بھلے وہ حکم نامہ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے۔
اور میڈیا اپنے ہی ملک کے آرمی چیف کی اپنے ہی باس وزیرِ اعظم سے ملاقات کی ایسے تشہیر کیوں کرتا ہے جیسے دو سربراہانِ مملکت کی ملاقات ہو رہی ہو؟ ہمارے برطانیہ میں تو عام آدمی چیف آف سٹاف کا نام تک نہیں جانتا۔ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ ابھی جاری ہوئی نہیں مگر اس کی بنیاد پر پرویز رشید، طارق فاطمی اور راؤ تحسین کو باقاعدہ چارج شیٹ کیے بغیر برطرف کر دیا گیا؟ ہمارے برطانیہ میں تو اس معاملے کو لے کر پارلیمنٹ میں کھٹیا کھڑی ہو جاتی۔ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اشتہاری ملزم اپنی شرائط پر عدالت میں پیش ہونے کا مطالبہ کرے؟

اور پاناما لیکس کا عدالتی فیصلہ آنے کے بعد وزیرِ اعظم کی بیٹی نے کس حیثیت میں یہ کہا کہ پاناما پیپرز کچرا ہیں اور ان کا بنیادی موضوع کرپشن نہیں۔ اگر ایسا ہے تو سپریم کورٹ نے کیا چار ماہ تک کچرا چھانا؟ کیا وزیرِ اعظم کی بیٹی کا بیان توہینِ عدالت نہیں اور عدالت نے جو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی ہے وہ وزیرِ اعظم اور ان کے دو بیٹوں سے کیا پوچھے گی جب سب ہی کچھ کچرا ہے؟ ہمارے برطانیہ میں تو وزیرِ اعظم کے اہلِ خانہ اس دھڑلے سے بات نہیں کرتے۔ اور عمران خان کو سپریم کورٹ کی جانب سے ڈانٹ کیوں پڑی اور سپریم کورٹ نے بس یہ تنبیہہ کر کے کیوں چھوڑ دیا کہ آپ جیسے لیڈر کو پاناما کیس کے بارے میں ججوں کے فیصلے کی من مانی تشریح زیب نہیں دیتی۔ ہمارے برطانیہ میں تو یہ سیدھا سیدھا توہینِ عدالت کا کیس ہوتا۔

اور ایسا کیوں ہے کہ جب پیمرا نے ایک ٹی وی چینل بول کا لائسنس منسوخ کر دیا ہے تو عدالت نے اسے اپنی نشریات جاری رکھنے کی اجازت کیوں دے دی؟ کیا کوئی بھی چینل اس طرح سے اپنی نشریات جاری رکھ سکتا ہے اور وہ بھی منسوخ شدہ لائسنس کے ساتھ؟ ہمارے برطانیہ میں تو۔ ابے تیرا برطانیہ گیا بھاڑ میں۔ کچھ دنوں کے لیے تو یہاں آیا ہے۔ جب ہضم نہیں کر سکتا تو اخبار کیوں پڑھتا ہے۔ یہ تیرا برطانیہ نہیں ہے یہ پاکستان ہے پاکستان۔ یہاں کا اپنا کلچر اور روایات ہیں۔ آخر تم انگریز کب تک دوسروں کو وہ روایتیں سکھاتے رہو گے جو ہمارے کسی کام کی نہیں۔ اچھا ہوا تم سے 70 سال پہلے ہماری جان چھوٹ گئی۔

ورنہ اب تک اپنے اصولوں کی مونگ ہمارے سینوں پر دلتے رہتے۔ تم کیوں چاہتے ہو کہ ہم تمہارے جیسے بن جائیں۔ جہنم میں جائے تمہاری جمہوریت، تمہارے اصول اور تمہارے اداروں کے مخصوص دائرے میں رہنے کی عادتیں۔ سیدھے سیدھے وقت گزارو اور خیریت سے نکل لو۔ ہم جانیں اور ہمارا ملک۔ تمہارے ہی ایک رڈ یارڈ کپلنگ نے کہا تھا کہ ایسٹ از ایسٹ۔ چوبیس گھنٹے سے کافی سکون ہے۔ میلکم کا کوئی فون نہیں آیا۔ لگتا ہے خود جا کے منانا پڑے گا۔ آخر کو پرانی محلے داری کا معاملہ ہے۔ لندن میں میرا بہت خیال رکھتا تھا۔ مگر اسے بھی تو اپنی حد میں رہنا چاہیے۔ بھلا یہ کوئی بات ہوئی ہمارے برطانیہ میں یہ ہمارے برطانیہ میں وہ ۔ 

وسعت اللہ خان
تجزیہ کار

مرحبا رجب طیب اردوان

0
0

ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردوان عموماً اپنی لڑائیاں کھلے عام اور جم کر
لڑنے کے قائل ہیں اور ایسا کرتے وقت وہ کسی بھی قسم کی سفارتی آڑ کے پیچھے چھپنے میں یقین نہیں رکھتے۔ گزشتہ مارچ میں کئی یورپی ممالک بشمول جرمنی اور ہالینڈ نے ترک نژاد سیاسی اجتماعات پر مختلف بہانوں سے پابندی عائد کی تا کہ ان ممالک میں دہری شہریت والے ترک آئینی اصلاحات کے لئے جاری اردوان حمایتی لہر کو روکا جا سکے۔ ان معاندانہ اقدامات کے جواب میں ترک صدر نے یورپ کو خوب لتاڑا۔ انہوں نے جرمن حکومت کی جانب سے ترک جرمن باشندوں پر عائد کی جانے والی قدغنوں کو ’’نازی دور‘‘کے تجربات سے تشبیہ دی۔

اسی طرح جب ہالینڈ کی حکومت نے تمام سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ترک وزیر خارجہ مولیت چاوُش اوغلو کے ہوائی جہاز کا لینڈنگ پرمٹ آخر وقت پر ردّ کرتے ہوئے ان کوہوائی اڈے پر اترے بغیر واپس جانے پر مجبور کر دیا تو اردوان نے ڈچ حکومت کو ’’فاشسٹ‘‘ قرار دیا۔ اردوان نے اپنے ملک کے قریب ترین حلیف امریکہ کو بھی کئی بار کرد اور داعش سے وابستہ دہشت گردوں کی امداد کرنے پر کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی مواقع پر امریکیوں پر گزشتہ سال کی ناکام فوجی بغاوت کے ذمہ داروں کی بالواسطہ مدد کرنے کا بھی الزام لگایا۔ گزشتہ مہینےآئینی اصلاحات کے ریفرنڈم میں کامیابی کے ترک صدر کے رویےّ میں معنی خیز تبدیلی آئی ہے۔ وہ ملک کی سیاست اور سفارتی اقدار میں تبدیلی کے لئےکوشاں نظر آتے ہیں۔ کامیابی کے بعد ترک صدر نے اپنا پہلا بیرونی دورہ بھارت کا کیا۔ 
اس دورے میں وہ ایک نئے اعتماد کے ساتھ ملکی اکانومی کو مضبوط کرنے کیلئے اقتصادی اتحاد کیلئے کوشاں نظر آئے۔ دورے کے دوران جناب اردوان نے اپنے سیاسی داؤ بڑی مشاقی سے کھیلے اور سب کو کسی نہ کسی سطح پر خوش اور مطمئن رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ اپنی بھارت آمد سے دو دن قبل انہوں نےایک انٹرویو میں بھارتی ہٹ دھرمی کو چیلنج کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے کثیر جہتی مذاکرات کا مطالبہ کردیا۔ ان کے اس بیان سے بھارت میں کافی کھلبلی مچ گئی مگر چونکہ ان کے انٹرویو میں بھارت کے عالمی اور نیوکلیئر عزائم کے حق میں بھی کافی کچھ تھا اس لئےحکومتِ ہند نے عوامی سطح پر کسی قسم کی محاذ آرائی یا بیان بازی سے گریز کیا۔

صدر اردوان کے مسئلہ کشمیر کو کثیرالجہت مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے مطالبے کو مقبوضہ جموں کشمیر میں فوری پذیرائی ملی کیونکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ بھارت پچھلی سات دہائیوں سے باہمی مذاکرات کی آڑ میں کشمیریوں، پاکستان اور عالمی برادری کو ٹرخا رہا ہے تا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس کو آسانی سے دفن کیا جاسکے۔ تحریکِ آزادئ کشمیر کے نامور رہنما میرواعظ عمر فاروق نے جناب اردوان کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ’’ترک صدر پاک بھارت تعلقات میں مسئلہ کشمیر کی مرکزی نوعیت سے بخوبی واقف ہیں اور ترکی ہمیشہ کشمیریوں کے احساسات کو سمجھتے ہوئے اسلامی سربراہ کانفرنس میں ہمارے حق خود ارادیت کے مطالبے کا معاون رہا ہے‘‘۔ 

حکومت پاکستان کے خارجہ امور کے صلاح کار جناب سرتاج عزیز نے بھی ترک صدر کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہندوستان کے دو طرفہ مذاکرات کے الاپ کو ’’ناقابل اعتبار‘‘ قرار دیا۔ ترک صدر نے بھارت کے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے دیرینہ مطالبے کوسپورٹ کرتے ہوئے اس کو پاکستان کی ممبر شپ کے ساتھ نتھی کرتے ہو ئے کہا کہ یہ بھارت اور پاکستان دونوں کا حق ہے کہ وہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبرشپ کی خواہش کریں۔ ماضی میں ترکی نے جو کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا ایک اہم رکن ہے نے بھارت کی کوششوں کو ناکام کرنے میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ بھارت ایک طرف تو اپنی ممبرشپ کیلئے سرتوڑ کوششیں کرتا آیا ہے مگر دوسری طرف وہ پاکستانی کوششوں کو سبوتاژ بھی کرتا آیا ہے۔

 اردوان نے کھلے عام بھارت کو یہ صلاح دی کہ وہ پاکستان کے خلاف یہ معاندانہ روش ترک کرے۔ انہوں نے کہا:’’میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کو ایسی روش سے احتراز کرنا چاہئے‘‘۔ ترک صدر نے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے رول کا دفاع کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں اصلاحات کا بھی مطالبہ کر دیا۔ بھارت کشمیر کے او آئی سی کے کردار کی شدت سے مخالفت کرتا ہے لیکن سلامتی کونسل میں اصلاحات کی مانگ کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے تا کہ وہ عالمی سطح پر اپنے اثرورسوخ کو بڑھاوا دے کر اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کو آسان بنا سکے۔

صدر اردوان نے نئی دہلی کی مشہور یونیورسٹی جامعہ ملّیہ اسلامیہ میں اپنے خطاب کے دوران بھارت اور ترکی کے تاریخی اور گہرے روابط کا ذکر کرتے ہوئے مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان اشتراک اور تعاون کیلئے بے پناہ وسعتوں کی موجودگی کا ذکر کیا۔ انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ دونوں ممالک بدلتے حالات کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں ۔ انہوں نے موجودہ ورلڈ آڈر کو غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ہدف تنقید بنایا۔ جناب اردوان نے کشمیر اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے معاملات میں نہ صرف یہ کہ مکمل طور پر پاکستانی مؤقف کی تائید کی بلکہ ذاتی طور پر وزیراعظم جناب نواز شریف کی کھل کر تعریفیں کی اور انہیں امن کا داعی قرار دیا۔ ’’میں نے اپنے دوست اور وزیراعظم پاکستان جناب نوازشریف سے ان معاملات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ اچھی نیت کے حامل شخص ہیں۔
میں نے ذاتی طور پر ان سے سنا ہے کہ وہ اس مسئلے کو جامع طورپر حل کرنے کے خواہاں ہیں اور اسمیں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں‘‘۔ جناب اردوان کی جانب سے اس طرح کھل کر پذیرائی یقیناً نواز شریف صاحب کیلئے نفسیاتی طور پر طمانیت کا باعث ہو گی خاص کر ایک ایسے وقت میں جب چند دن پہلے ہی ڈان لیکس کے معاملے میں ان کو اس وقت خاصی سبکی اٹھانی پڑی جب ان کی حاکمیت کو کھلے عام چیلنج کرتے ہوئے اس معاملے میں جاری سرکاری نوٹیفکیشن کو نامکمل گردان کر مسترد کر دیا گیا۔ ترکی کے ایک اہم انگریزی روزنامے ’’صباح‘‘ کے مطابق صدر کی بھارت یاترا سے ’’ترکی کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ارتعاش پیدا ہو گیا‘‘ کیونکہ وہاں کی کنسٹرکشن انڈسٹری کو بھارت سے بڑابزنس ملنے کی امید بندھ گئی۔

پرامیدی کے اس ماحول کی وجہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا یہ بیان بنا جس میں انہوں نے ترک کنسٹرکشن کمپنیوں کے ساتھ ملکر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تاکہ بھارتی حکومت کے 2022 عیسوی تک پچاس ملین گھروں کی تعمیر کا طے شدہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ صدراردوان ملک میں مزید اقتصادی ترقی کیلئے ازحد کوشاں نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کی نگاہیں 2019 کے صدارتی انتخابات پر جمی ہوئیں ہیں۔ اپنے ملک کے اقتصادی اہداف کیلئے بھارت کے ساتھ ان کا اشتراک معاون اور نفع بخش ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے دورے کے اختتام پر جاری اعلامیہ میں دونوں ممالک نے 2020 تک باہمی تجارتی حجم کو دس بلین تک لے جانے کا اعادہ کیا۔ مشترکہ اعلامیے میں دونوں ممالک نے دہشت گردی کے بارے میں ’’دہرے معیار‘‘ کی مذمت کی جو کہ کافی عجیب و غریب دکھائی دیا کیوں کہ دونوں ممالک کی اس حوالے سے فکر میں یکسراختلاف ہے۔ دونوں ملک دہشت گردی کی تعریف اور تشریح کے حوالے سے مختلف الخیال ہیں۔

مرتضیٰ شبلی


شاہراہِ قراقرم : پاک چین دوستی کی یادگار

0
0

بشّام سے تقریباً پندرہ کلومیٹر آگے دوبیر کے مقام پر دریائے دوبیر دریائے سندھ
میں شامل ہو جاتا ہے۔ دوبیر اور جیجال سے گزر کر سوا تین بجے ہم پٹن پہنچ گئے۔ پٹن بشّام سے تینتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خاصا بڑا، سر سبز و شاداب اور با رونق قصبہ ہے۔ یہاں ملٹری پولیس کی چوکی اور کوہستان ریسٹ ہاؤس موجود ہے۔ میرے خیال میں پنڈی سے گلگت جاتے ہوئے ایک رات کا قیام کرنا مقصود ہو تو پٹن بشّام کی نسبت زیادہ موزوں مقام ہے۔ ایک تو آرام کرنے سے پہلے آپ شاہراہ قراقرم کی اصل جھلک دیکھ لیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ آپ کو ایک روایتی پہاڑی شہر سے آگاہی حاصل ہوتی ہے جس کی تہذیب و ثقافت نے ابھی تک جدیدیت کا مصنوعی لبادہ پوری طرح نہیں پہنا ہے۔
شاہراہ قراقرم کی تعمیر کی نسبت سے دیکھا جائے تو پٹن ایک تاریخی مقام بھی ہے۔ 1974ء میں یہاں درمیانے درجے کے زلزلے نے شاہراہ کی توسیع کے کام کو شدید متاثر کیا۔ کئی بلڈوزر دریائے سند ھ کی گہرائی میں پہنچ گئے، بہت ساری چٹانیں اوپر سے آئیں اور سڑک پر براجمان ہو گئیں۔ کئی کارکن شدید زخمی ہوئے، چند ایک ہلاکتیں بھی ہوئیں اور تعمیر و توسیع کا کام کافی عرصہ تک بند رہا۔
پٹن کراس کرنے کے بعد لینڈ سکیپ اچانک بدل جاتا ہے کیونکہ اب آپ ہمالیہ کے سر سبز و شاداب دامن سے گزر کر قراقرم کی چٹانی آغوش میں داخل ہو تے ہیں اور قراقرم کے معنی واضح ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ قراقرم ترکی زبان کا لفظ ہے قرا کے معنی ہیں سیاہ اور قرم شکستہ چٹانوں کو کہتے ہیں، یعنی سیاہ رنگ کی ٹوٹی پھوٹی چٹانیں،اور یہ چٹانیں خنجراب تک آپ کے ساتھ رہتی ہیں۔
کچھ لوگ اس لینڈ سکیپ میں داخل ہو کر شدید مایوس ہو جاتے ہیں، خصوصاً وہ لوگ جو مری،سوات اور کاغان کے سرسبز پہاڑوں کا تصوّر ذہن میں سجائے اس لینڈ سکیپ میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ ان بے آب و گیاہ چٹانوں کو دیکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں۔ یہاں سبزے کا دور دور تک نشان نہیں، چوٹیاں برف سے خالی ہیں اور چٹیل و دیو قامت چٹانوں پر بڑی بڑی دراڑیں ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کوئی چٹان سڑک پر تشریف لا کر فل سٹاپ لگا دے گی، اور بعض اوقات ایسا ہو بھی جاتا ہے۔
کئی جگہ لینڈ سلائیڈنگ کے علاقوں کی نشاندہی کے بورڈ لگے ہوئے ہیں، لیکن جس وقت آپ کو بورڈ کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے اُس وقت آپ خطرے کی حدود میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں۔ کچھ اور لوگوں کا رد عمل انتہائی مختلف ہے۔ شاہراہِ قراقرم کا سفر ہر لمحہ بدلتے لینڈ سکیپ کا سفر ہے۔ سنگلاخ چٹانیں بے آب و گیاہ ضرور ہیں لیکن ہر لمحہ اپنا میک اپ بدلتی رہتی ہیں۔ اگر یہ بات ذہن میں رہے کہ چٹانوں کی وہ سطح جو سڑک کے ساتھ ساتھ نظر آ رہی ہے قدرتی نہیں انسانی ہاتھوں کا کمال ہے، اور سڑک کا یہ حصہ جس پر آپ کی گاڑی رواں دواں ہے کبھی انہیں چٹانوں کا اٹوٹ انگ تھا تو آپ ہر قدم پر حیرت زدہ ہوتے جاتے ہیں۔ 
جس طرح کے۔ ٹو بیس کیمپ جاتے وقت آپ قدرت کے برفانی عجائب گھر سے گذرتے ہیں بالکل اسی طرح پٹن سے خنجراب تک شاہراہِ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے آپ قدرت کے چٹانی عجائب گھر کا مشاہدہ کرتے ہیں،اور غالباً چٹانوں کی کوئی ایسی قسم نہیں جو اس عجائب گھر میں موجود نہ ہو۔ اس چٹانی علاقے کی اہمیت کے بارے میں ابتدائی آگاہی مجھے فیری میڈوز پہنچ کر ہی ہوئی تھی جہاں ایک جغرافیہ دان سے میری ملاقات ہوئی۔ وہاڑی واپس آنے کے بعد میں نے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کیں تو انتہائی دلچسپ انکشافات ہوئے۔
یہ بظاہر بنجر، اُجاڑ اور بے آب و گیاہ علاقہ ماہرین ارضیات کی ریسرچ کے لئے انتہائی زرخیز سمجھا جاتا ہے اور اس کا جغرافیائی نام کوہستانی آرک ہے جو خشکی کے دو بڑے خطّوں انڈو پاک پلیٹ اور یورو ایشین پلیٹ کے درمیان پھنس کر اپنا علیٰحدہ وجود کھو بیٹھا ہے۔ لگ بھگ پندرہ سے بیس لاکھ سال پہلے انڈو پاک پلیٹ نے یورو ایشین پلیٹ (یعنی برِ صغیر انڈ و پاک نے برِ اعظم ایشیا) کی طرف کھسکنا شروع کر دیا، دونوں عظیم خطے ایک دوسرے سے ٹکرائے، انڈو پاک پلیٹ ایشین پلیٹ کے نیچے گھس گئی اور دونوں کے کناروں نے اوپر اٹھنا شروع کر دیا۔ اسی اُبھار نے ہمالیہ اور قراقرم کے عظیم سلسلوں کی صورت اختیار کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا نوزائیدہ پہاڑی سلسلہ ہے جو ابھی شیر خواری کی عمر کو بھی نہیں پہنچا، بیچارے کی عمر صرف پندرہ لاکھ سال ہے۔

ڈاکٹر محمد اقبال ہما

ہمیں تو یہ ہندو مانتے ہی نہیں، ورنہ ہمارے ساتھ ایسا کرتے؟

0
0

دو گھر، ایک بڑے بیٹے کا اور ایک چھوٹے بیٹے کا۔ دونوں کی بغیر پلاسٹر والی
دیواروں پر آتشزدگی کے نشانات دو دن گزر جانے کے بعد بھی تازہ نظر آتے ہیں اور دوسری جانب اوم وتي کا ماتم اب بھی جاری ہے۔ کچھ ہی دنوں پہلے اوم وتي کے یہاں شادی ہوئی تھی اور ان کی نئی نویلی بہو اس دن کسی طرح جان بچانے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ اب گھر میں صرف اوم وتی اور صحن میں کھونٹے سے بندھی ایک گائے ہے۔ اوم وتی کی پڑوسن مگگو کہتی ہیں: 'دونوں بیٹوں کا گھر ایک دوسرے سے ملحق ہے۔ فسادات کرنے والے ایک چھت سے دوسرے گھر میں پہنچ گئے اور دونوں گھروں میں آگ لگا دی۔‘

گذشتہ ہفتے انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے سہارنپور ضلع کے شبير پور گاؤں میں بھڑکنے والے فسادات میں دلتوں (پسماندہ طبقے کے ہندوؤں) کے گھر جلائے جانے کے بعد علاقے میں اب بھی کشیدگی ہے۔ اس دلت اکثریتی گاؤں میں راجپوت برادری کے لوگ عہد وسطی کے راجا مہارانا پرتاپ کے یوم پیدائش پر شوبھا ياترا نکال رہے تھے اور اسی دوران پرتشدد جھڑپیں ہوئی تھیں۔ فریقین اپنی اپنی باتیں کہہ رہے ہیں اور ایسے جہاں فساد ہوا، وہاں کے لوگوں کی باتیں ان ہی سے سننا بہتر نظر آتا ہے۔
ہمیں راجپوت یوا شکتی کے جو لوگ ملے انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ آگ خود دلتوں نے لگائی تھی، یہاں تک کہ پولیس کی گاڑی میں بھی انھی لوگوں نے آگ لگائی تھی۔ لیکن نصف جلی روٹی، کمرے میں پھیلے اناج، نوکیلے ہتھیاروں کے نشان والی کھڑکیاں اور صحن میں بندھی وہ گائے کچھ اور ہی کہانی بیان کرتی ہیں۔ دوسری جانب میوزیک سسٹم سے لیس پاس کے گاؤں سملانا جانے والی راجپوتوں کی ٹولی، دلتوں اور راجپوتوں کے درمیان تنازع، سنگ باری اور پھر مبینہ طور پر دوسرے دیہات کے سینکڑوں نوجوانوں کا شبير پور میں جمع ہونا دوسرا رخ پیش کرتے ہیں۔

گاؤں کی گلی کے کنارے آباد دلتوں کا شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جن پر آگ کے شعلوں کے نشانات نہ ہوں۔ گندم کی کٹائی کے بعد صحن یا گھر کے باہر پڑے اناج جگہ جگہ جلے ہوئے نظر آئے۔ جمعہ کو رونما ہونے والے واقعے میں ایک 35 سالہ راجپوت کی موت ہو گئی تھی۔ اس سلسلے میں قتل کا مقدمہ درج ہوا ہے اور پولیس نے 17 افراد کو گرفتار بھی کیا ہے جن میں آٹھ دلت ہیں۔ سروج کہتی ہیں کہ ان کے شوہر معذور ہیں، لیکن پھر بھی پولس انھیں پکڑ کر لے گئی ہے۔

راجپوت کے محلے کی ایک خاتون وملیش ہمیں گاؤں کے ایک چوراہے پر ملیں۔ بیٹے سمیت ان کے گھر کے بھی تین افراد پولیس کی حراست میں ہیں۔ سویتا بھی وملیش کے ساتھ ہیں اور اسی وقت تقریباً 100 راجپوت عورتوں کے ایک گروہ نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ سویتا کا بھی کہنا ہے کہ ان کے گھر والے ہنگامے میں شامل نہیں تھے، لیکن پھر بھی وہ پولیس حراست میں ہیں۔ جارحانہ رخ اختیار کرتی بھیڑ کو دیکھ کر وہاں تعینات پولیس دستے کے لوگ ہمیں وہاں سے جانے کے لیے کہتے ہیں۔ پاس کے محلے میں تقریباً سناٹے کا ماحول ہے یا پھر رونے کی آوازیں سنائی پڑتی ہیں۔ مگگو ہمیں بتاتی ہیں: 'ہم ان کھیتوں میں فصل کی کٹائی کرتے ہیں، ان کا کام کرتے ہیں اور انھوں نے ہمارے ساتھ ایسا کیا۔

اوم وتي کے بیٹے بھی دوسرے دلتوں کی طرح راجپوتوں یا دوسری نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں کے کھیتوں یا گھروں پر مزدوری کرتے ہیں۔ کچھ دلتوں کے پاس زمینیں بھی ہیں۔ ان کے گھر کی دیواریں پختہ ہیں اور چھتوں تک باقاعدہ زینے جاتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا پرتشدد واقعہ وہاں پہلے کبھی نہیں ہوا اور شاید اس کی وجہ ایک دوسرے پر زمانے سے جاری انحصار ہے۔ لیکن مہارانا پرتاپ کے یوم پیدائش کی تقریب کے دوران قرب و جوار کے دسیوں دیہات اور دوسرے صوبوں سے سینکڑوں لوگوں کے آنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے وہ قدیمی تانا بانا بکھر گیا۔

دلت انتہائی ناراض ہیں۔ ہندوؤں کو متحد کرنے میں مصروف حکمراں پارٹی کو یہاں دیشراج سنگھ جیسے دلتوں کو سمجھانے کی ضرورت پڑے گی۔ دلت سماج سے تعلق ركھنےوالے دیشراج سنگھ کہتے ہیں: ’ہمیں تو یہ ہندو ہی نہیں سمجھتے۔ ورنہ کیا ہمارے ساتھ وہ ایسا کرتے؟‘

فیصل محمد علی
بی بی سی ہندی، شبیرپور، سہارنپور

مکلی کا تاریخی قبرستان اور شاہ جہانی مسجد

0
0

ٹھٹھہ کے تاریخی قبرستان ’’مکلی‘‘ کے تاریخی قبرستان میں پانچ لاکھ سے زیادہ
قبریں اور مقبرے موجود ہیں۔ اس شہر خموشاں میں بہت سے بزرگ، شہدا، ولی اور اللہ والے مدفون ہیں۔ قبرستان میں داخل ہوتے ہی یہاں کے مکینوں کے لیے فاتحہ پڑھی۔ یہاں آ کر دل کو سکون ملا۔ شہر خموشاں میں تھوڑی دیر گزار کر تاریخی شاہجہانی مسجد کا رُخ کیا اور یہاں جمعہ کی نماز ادا کی۔ رانا یوسف اور فاروقی صاحب خوبصورت اور مغلیہ فن تعمیر کا شاہکار مسجد اور اس کے بے شمار گنبدوں کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
بدین کے قریب پہنچ کر 2011-12ء میں یہاں سیلاب کا دور یاد آگیا جب ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ بدین شہر مکمل طور پر پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ پانی کا سمندر عبور کر کے کشتیوں میں جا کر متاثرین کی خدمت کی تھی۔ 2011ء کے آخر میں بدین آنا شروع ہوئے اور اب چھ سال گزر چکے اہل سندھ کی مسلسل خدمت جاری ہے۔ کیمپ کے بعد زیر تکمیل کنواں دیکھنے گئے 250 فٹ سے زیادہ گہرائی والا بڑا کنواں دیکھ کر دل راضی ہو گیا۔ 
جھانک کر اس کنوئیں کی دور سے نظر آنے والی پاتال میں صاف پانی کے چمکتے ذرات دیکھ کر دل کو خوشی ہوئی۔ مگر دور تک نظر دوڑانے سے ایک دم چکر سا آگیا۔ سلام کنواں بنانے والوں پہ کہ انہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ جان کی پرواہ کیے بغیر 250 فٹ نیچے اتر کر کنوئیں کی کھدائی کی۔ شفیق فاروقی صاحب کہنے لگے کہ ترکی کی ایک شاعرہ کہتی ہے کہ مجھے اس بات کا ہمیشہ ملال رہے گا کہ جوانی کی عمر بے مقصد گزار دی۔
لیکن اب جو باقی ہے وہ تیری نظر ہے۔ دعا ہے بقایا زندگی اے مالک دو جہاں! تیری یاد میں، تیری مخلوق خدا کی خدمت میں گزر جائے۔ شعر سنا کر درویش بولے کہ میرا حال بھی ترکی شاعرہ جیسا ہے اب میری بھی اب یہی خواہش ہے کہ باقی زندگی میں آپ لوگوں کے ساتھ مخلوق خدا کی خدمت میں گزار دوں۔ یہ کہتے کہتے وہ آبدیدہ ہو گئے ۔

ڈاکٹر آصف محمود جاہ


Viewing all 4314 articles
Browse latest View live